ابن تیمیہ کے نظریات اور فرقہ وہابیت کی شدت پسندی میں فرق کے سلسلہ میں محمد ابوزھرہ کا نظریہ
ہم اس سے قبل کہ وہابیت کے بنیادی اعتقادی مسائل او رمحمد ابن عبد الوہاب کے نظریات پر تنقیدی نظر ڈالیں،ابن تیمیہ اور محمد ابن عبد الوہاب کے نظریات میں چند فرق آپ حضرات کے سامنے بیان کرتے ہیں ، اس کے بعد اس مجددبزرگ!! کے اصلاحی نظریات!! پر بحث کریں گے جس کے نظریات نے عالم اسلام میں تفرقہ ،تخریب کاری او رتباہی کے علاوہ کچھ اور انجام نہیں دیا۔
محمد ابوزھر ہ بہت بڑے محقق اور ملل ونحل کے بہت بڑے ماہر اور تجربہ کار ہیں او راسلامی فرقوں کے سلسلہ میں انھوں نے کافی تحقیقات کی ہیںاور اس سلسلے میں چند کتابیں بھی لکھی ہیں، ابن تیمیہ او رمحمد ابن عبد الوہاب کے نظریات کے سلسلہ میں ان دونوں میں فرق بیان کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں :
”درحقیقت وہابیوں نے ابن تیمیہ کے نظریات میں کچھ بھی اضافہ نہیں کیا، بلکہ ابن تیمیہ کے نظریات میں شدت پسندی سے کام لیا ہے ، او رعملی طورپر وہ اعمال انجام دئے جن کو ابن تیمیہ بھی انجام نہ دے سکا تھا۔
ہم مذکورہ امور کو چند چیزوں میں خلاصہ کرتے ہیں :
۱ ۔ابن تیمیہ کا کھنا تھا کہ عبادت قرآن وسنت کے مطابق ہونی چاہئےے لیکن وہابیوں نے اس کے قول پر اکتفاء نہیں کیا ، بلکہ روز مرّہ کے کاموں کو بھی اسلام سے خارج کردیا، مثلاً تمباکو نوشی(سگریٹ وغیرہ پینے) کو حرام قرار دے دیا، او راس کی حرمت میں بہت زیادہ شدت سے کام لیا، او روہابی حضرات جس شخص کو سگریٹ پیتا دیکھتے تھے اس کو مشرک سمجھتے تھے، اس بناپرفرقہ وہابیت بھی فرقہ خوارج کی طرح ہے کہ جوبھی گناہ کبیرہ کرے وہ کافر ہے ۔
۲ ۔شروع میں اپنے اوپر چائے اورقھوہ کو حرام کیا ، لیکن بعد میں جس طرح کہ معلوم ہوتا ہے اس میں لاپرواہی سے کام لیا۔
۳ ۔ وہابیوں نے اپنے نظریات کی فقط دعوت ہی پر اکتفاء نہیں کی بلکہ اپنے مخالفوں سے جنگیں کیں،ان کا نعرہ یہ تھاکہ ہم بدعتوں سے جنگ کرتے ہیں ، شروع میں میدان جنگ میں ان کا رھبر محمد ابن سعود خاندان سعودی کا مورث اعلیٰ او رمحمد ابن عبد الوہاب کا داماد تھا۔
۴ ۔وہابی جس دیھات یا شھر کو فتح کرلیتے تھے سب سے پھلا کام یہ کرتے تھے کہ وہاں پرموجودہ ضریح اور قبروں کو مسمار کردیتے تھے، جس کی بناپر بعض یورپی رائٹروں نے اس کو ”عبادتگاہوں کو ویران کرنے والے“ کا بھی لقب دیا ہے ، البتہ ان کی یہ بات مبالغہ سے خالی نہیں ہے کیونکہ ضریحوں اور عبادتگاہوں میں فرق ہے لیکن جس طرح کہ معلوم ہے جس مسجد میں ضریح ہوتی تھی اس کو بھی مسمار کردیا کرتے تھے۔
۵ ۔ اس پر بھی اکتفاء نہ کیا بلکہ ان تمام قبروں کو بھی ویران کردیا کہ جن پر کوئی علامت اور نشانی موجود تھی، او رجس وقت حجاز پر قبضہ کیا اصحاب کی تمام قبور کو مسمار کردیا، اس وقت صرف قبروں کے نشان باقی ہیں بقیہ تمام چیزوں کو برباد کردیا، اور اس وقت قبور کی زیارت صرف دور سے کھڑے ہوکر کرسکتے ہیں او رزائر کو دور سے کھڑے ہوکر ”السلام علیک یا صاحب القبر“ کہنے کی اجازت ہے ۔
وہابیوں نے چھوٹے چھوٹے کاموں پر بھی اعتراض کیا او ران کا انکار کیا جو نہ بت پرستی تھے اورنہ بت پرستی پر ختم ہوتے ہیں مثلاً فوٹو لینا، وہابی علماء نے اپنے فتوں اور رسالوں میں اس چیز کا ذکر کیا ہے لیکن امیر لوگوں نے اس کی بات کی پروا ہ نہ کی ۔
۷ ۔ وہابیوں نے بدعت کے مفھوم کو عجیب طریقہ سے وسعت دی مثلاً روضہ مبارک حضرت رسول خدا(ص) پر پردہ لگانا بھی بدعت ہے اور پردہ تبدیل کرنے سے بھی رو کا ، جس کے نتیجہ میں پردے پرانے ہوگئے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ابن تیمیہ کے نظریات کو عملی طور پر انجام دیا اور شجاعت وبھادری سے اس کے نفاذ کی بھرپور کوشش کی،لیکن بدعت کے معنی میں اتنی وسعت دی کہ جو کام عبادت بھی نہیں تھے ان کو بھی بدعت قراردیدیا، جب کہ بدعت اس چیز کو کہتے ہیں کہ جس کی دین میں کوئی حقیقت نہ ہواور اس کو عبادت کی نیت سے انجام دیا جائے، اور ان کے ذریعہ سے خدا کی رضایت کو حاصل کرنے کی امید کی جائے ، جبکہ کوئی بھی روضہ رسول(ص) کے پردوں کو عبادت کی نیت سے نہیں بدلتا، بلکہ پردہ وغیرہ زینت کے لئے ہوتے ہیں تاکہ مسجد نبوی کی دوسری زینتوں کی طرح دیکھنے والوں کو اچھا لگے،عجیب بات تو یہ ہے کہ وہابی حضرات روضہ رسول(ص) پر پردہ لگانے سے انکار کرتے ہیں لیکن مسجد نبوی کو سجانے او راس کی زینت کرنے کو عیب نہیں مانتے ۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ وہابی علماء اپنے نظریات کو سو فی صد صحیح سمجھتے ہیں او ردوسروں کے نظریات کو غلط سمجھتے ہیں ۔
وہابیوں کی فرقہ خوارج سے شباہتیں
جس وقت کوئی انسان ِ غیر جانبدار محقق کے عنوان سے وہابیت کا مطالعہ کرتا ہے ، وہابیوں اور خوارج کے درمیان بہت سی شباہتیں دیکھتا ہے او ریہ نتیجہ نکالتا ہے کہ : فرقہ وہابی اسی تاریخی خوارج کا طرز تفکر کا سلسلہ ہے ، اس مطلب کو واضح وروشن کرنے لئے پھلے خوارج کے سلسلہ میں کچھ وضاحت کرنا ضروری ہے اس کے بعد خوارج او ر وہابیت کے درمیان موجود شباہتوں کا ذکر کریں گے۔
خوارج کی پیدائش
خوارج یعنی بغاوت کرنے والے، یہ کلمہ ”خروج“ سے نکلا ہے جس کے معنی سرکشی اور بغاوت کے ہیں، خوارج کا ظھور جنگ صفین سے ہواہے ، جس کی داستان تفصیلی ہے ، اسلام دشمنوں نے مسلمانوں کو فریب اوردھوکہ دینے کے لئے معاویہ کے حکم سے قرآن نیزوں پربلند کیا تاکہ سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکہ میں ڈال سکیں، اور اپنی یقینی شکست سے نجات پیدا کرسکیں،اور اتفاق سے ان کا یہ حربہ کارگر ہوگیا اور بعض مقدس مآب مسلمان ان کے جال میں پھنس گئے، اور نعرہ بلند کردیا کہ ہم اہل قرآن سے جنگ نہیں کریں گے ، اور یہ جنگ شریعت اسلام کے خلاف ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام نے بہت کوشس کی کہ ان کو معاویہ کے مکر وفریب سے آگاہ کریں لیکن ان لوگوں نے نا سمجھنے کی قسم کھائی ہوئی تھی ، لہٰذا ان سادہ اور بے وقوف مسلمانوں نے حضرت کی باتوں کو قبول نہ کیا اور جنگ روک دی او رحضرت کو بھی جنگ روکنے پر مجبور کردیا، اور حضرت نے بھی مجبوراً پیچھے ہٹنے کا حکم دیدیا اور سر انجام ”حکمیت“(کسی حاکم اور قاضی قرار دینا) کا مسئلہ پیش آیا، یہ ایک نیا حیلہ تھا ، ابوموسیٰ اشعری نے عمر وعاص سے شکسکت کھائی ، وہی سادہ لوح مسلمان کہ جھنوں نے حضرت علی علیہ السلام کو حکمیت پر مجبور کیا تھا، آکر کہنے لگے: ہم نہیں سمجھ پائے تھے او رہم نے حکمیت کو قبول کرلیا ہم بھی کافر ہوگئے اور تم بھی کافر ہوگئے،(معاذاللہ)کیونکہ دین خدا میں کسی کی حکمیت نہیں ہے یہ کام خلاف شرع اور کفر ہے ، حاکم اور داور فقط خدا ہے کوئی انسان حکم نہیں ہوسکتا،(معاذاللہ) لہٰذا آپ بھی کافر ہوگئے اور ہم نے تو،توبہ کرلی ہے آپ بھی توبہ کیجئے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: توبہ ہر حال میں بہتر ہے ”استغفرُ من کلّ ذنب“ ہم ہمیشہ استعفار کرتے رہتے ہیں ، اس وقت لوگوں نے کھا: یہ کافی نہیں ہے بلکہ آپ اعتراف کریں کہ حکمیت گنا ہ تھی اور اس سے توبہ کریں،تب حضرت نے جواب دیا: میں نے حکمیت کے مسئلہ کو پیدا نہیں کیا ، تم لوگوں نے خود اس مسئلہ کو پیدا کیا ہے ،اور اس کے نتائج بھی دیکھ لئے ہیں اور دوسری بات یہ کہ جو چیز اسلام نے جائز قرار دی ہے میں کیونکر اس کو گناہ قرار دوں او رجس گناہ کا میں مرتکب نہیں ہوا کیونکر اس کا اعتراف کروں۔
یھیں سے ایک گروہ ایک مذہبی فرقہ اور سیاسی گروہ کے عنوان سے حضرت علی علیہ السلام سے جدا ہوگیا اور اپنی خاص طرز تفکر سے اپنی کارکردگی شروع کردی ، شروع میں یہ فرقہ باغی اور سرکش فرقہ تھا اس وجہ سے اس کو ”خوارج“ کے نام سے یا د کیا جاتا تھا، لیکن اہستہ اہستہ اس فرقہ نے اپنے لئے اعتقادی اصول بنائے، یہ گروہ جو شروع میں ایک سیاسی گروہ تھا، اہستہ اہستہ ایک مذہبی فرقے میں تبدیل ہوتا چلا گیا، اس کے بعد خوارج نے اپنے مذہب کی طرفداری میں وسیع پیمانے پر تبلیغ شروع کردی، اور اہستہ اہستہ اس فکر میں لگ گئے کہ دنیائے اسلام کے تمام مفاسد اور برائیوں کو ختم کیا جائے اور اس نتیجہ پر پہونچے کہ علی،(ع) عثمان او رمعاویہ سب کے سب خطاکار اورگناہگار تھے، ہمیں چاہئےے کہ جو برائیاں اسلام میں پیدا ہوگئی ہیں ان کو مٹادیا جائے، امر بالمعروف اور نھی عن المنکرکریں ، لہٰذا فرقہ خوارج امر بالمعروف ونھی عن المنکر کے وظیفہ کو لے کر آگے بڑھا۔
،خوارج نہ دینی بصیرت رکھتے تھے اورنہ ہی عملی بصیرت ، جاہل اور بے بصیرت لوگ تھے، بلکہ عملاً بصیرت کے منکر تھے کیونکہ اس تکلیف کو تعبدی جانتے تھے کہ اس کام کو آنکھیں بند کرکے انجام دینا چاہئے۔
خوارج کے اعتقادی اصول
خوارج کے اصول اور ان کے عقائد کی بنیاد کو چند چیزوں میں خلاصہ کیا جاتا ہے ، ان کے عقیدے درج ذیل ہیں:
۱ ۔عثمان ومعاویہ اور حضرت علی (ع) کافر ہیں ، اور اسی طرح اصحاب جمل اور اصحاب تحکیم (جن لوگوں نے حکمیت کو قبول کیا تھا) اور جن لوگوں نے حکمیت کے بارے میں رائے دی تھی او راس کے بعد توبہ نھیںکی تھی وہ سب کافر ہیں ۔
۲ ۔جو لوگ علی (ع)، عثمان، اور مذکورہ دوسرے لوگوں کو کافر نہ سمجھے وہ بھی کافر ہے۔
۳ ۔ایمان فقط دل کے عقیدہ کا نام نہیں ہے ، بلکہ واجبات کو انجام دینا اور محرمات سے اجتناب کرنا بھی ایمان کا جز ہے،یعنی ایمان دوچیزوں سے مرکب ہے : ایمان اور عمل۔
۴ ۔ ظالم والی اور امام ِستمگرپرخروج کرنا بغیر کسی شرط کے واجب ہے ، ہر حال میں امر بالمعروف ونھی عن المنکر واجب ہے اور کسی خاص شرط پر موقوف نہیں ہے ، خدا کا یہ حکم تمام مقامات اور بغیر استثناء کے انجام دینا چاہئےے۔
اس فتین فرقہ کے عقائد میں اتنی شدت آئی کہ تمام مسلمانوں کو کافر کہنے لگے، اور سب کے قتل کو جائز ماننے لگے اورہم یشہ آتش جھنم میں رھنے کے قائل ہوگئے۔
خلافت کے مسئلہ میں خوارج کا عقیدہ
یہ ”خوارج“ھی کی فکر تھی کہ جو آج کل کے متجددین کے نزدیک روشن و واضح مانی جاتی ہے خلافت کے بارے میں ان کی تھیوری تھی اور ڈیموکریٹ(جمھوریت پسند) نظریہ رکھتے تھے ان کا نعر ہ تھا کہ خلافت آزاد طریقہ سے انتخاب ہونی چاہئے اور خلافت کے لئے سب سے لائق وہ شخص ہے کہ جو باایمان اور تقویٰ میں سب سے زیادہ ہو، چاہے وہ قریشی ہو یا غیر قریشی، عرب ہو یا عجم، کسی مشھور قبیلہ سے ہو یا غیر معروف قبیلہ سے ۔
اور اگر اس نے انتخاب ہونے اور بیعت لینے کے بعد اسلامی امت کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو اس وقت وہ خلافت سے معزول ہوجائے گا ، اور اگر اس نے معزول ہونے سے انکار کیا تو اس سے اس قدر جنگ کی جائے تاکہ وہ قتل ہوجائے ۔
ان لوگوں کا نظریہ شیعہ حضرات کے بالکل مخالف ہے ، شیعہ کہتے ہیں : خلافت ایک الٰھی امر ہے خلیفہ کا انتخاب خدا کے ھاتھوں میں ہے او ران کا یہ نظریہ اہل سنت کے بھی خلاف ہے کہ جن کا نظریہ یہ ہے کہ خلیفہ قریش سے ہونا چاہئے او راہل سنت اس جملہ ”اِنَّمَا الآئِمَّةُ مِنْ قُرَیْشِ
“ سے تمسک کرتے ہیں ۔
ظاہراً خوارج کا نظریہ شروع میں یہ تھا جیسا کہ ان کا نعرہ مشھور ہے ”لَا حُکْمَ اِلّا لِلّٰہ“ اور اسی طرح نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر ۴۰ سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ شروع میں ان کا نظریہ یہی تھا کہ جامعہ اسلامی کو امامت کی ضرورت نہیں ہے او رمسلمان خود قرآن پر عمل کریں، لیکن بعد میں اپنے اس عقیدے سے پلٹ گئے اور عبد اللہ بن وہب راسِبی“ کو بعنوان خلیفہ مان کربیعت کی ۔
خلفاء کے بارے میں خوارج کا نظریہ
خوارج ابوبکر وعمر کی خلافت کو صحیح مانتے ہیں کیونکہ ان کا انتخاب صحیح طریقہ پر ہوا تھا اور دونوں نے خلافت کے صحیح راستہ کو تبدیل نہیں کیا او رکسی غیر شرعی کام کو انجام نہ دیا ، او رحضرت علی علیہ السلام او رعثمان کی خلافت بھی ان کے نزدیک صحیح ہے لیکن ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ :
عثمان، حکومت کے چھٹے سال سے خلافت کے راستہ سے ہٹ گیا او رمسلمانوں کے منافع کو پسِ پشت ڈال دیا، لہٰذا خلافت سے معزول ہوگیا، اور چونکہ خلافت پر باقی رہا لہٰذا کافر ہوگیا اور اس کا قتل واجب تھا، اور علی (ع)نے بھی چونکہ حکمیت کو قبول کیا او رپھر توبہ نہیں کی لہٰذا وہ بھی کافر ہوگئے(معاذاللہ) اور ان کا قتل واجب ہوگیا، اس بناپر عثمان کی خلافت کو ساتویں سال سے اورعلی (ع)کی خلافت کو مسئلہ حکمیت کے بعد سے قبول نہیں کرتے،اور ان سے تبرا کرتے ہیں اسی طرح دوسرے خلفاء سے بھی بیزاری کرتے تھے اور ہمیشہ ان سے جنگ وجدال کیا کرتے تھے ۔
خوارج کی نابودی اور اس طرز تفکر کا باقی رھنا
خوارج کا وجود پھلی صدی ہجری کے چوتھی دھائی میں ایک بہت خطرناک غلطی کے ذریعہ وجود میں آیا، اور دوسری صدی کے نصف تک پائیدار نہ رہ سکا، او راپنی گستاخیوں اور جنون آمیز بے باکیوں کی وجہ سے اس زمانے کے خلفاء ان کے پیچھے پڑ گئے، او ران کو اور ان کے مذہب کو نابود کرڈالا، ان کی نابودی کی کئی وجہ تھی منجملہ:
بے جان اور خشک منطق، خشک رفتار، شدت پسندی، طرز زندگی کا بالکل الگ ڈھنگ، ”تقیہ“ سے (یھاں تک کہ اس کے صحیح معنی سے بھی) دوری۔
خوارج گروہ ایسا نہ تھا کہ باقی رہتا،لہٰذایھاں تک آنے کے بعد ختم ہوگیا لیکن اس گروہ نے ختم ہونے کے بعد بھی اپنے اثرات چھوڑے ، خارجیگری کے نظریات اور عقائد دوسرے اسلامی فرقوں میں داخل ہوگئے، او راس وقت بہت سے ”نھروانی“ موجود ہیں ، اور حضرت علی (ع) کے زمانے کی طرح یہی اسلام کے خطرناک داخلی دشمن ہیں ، جس طرح معاویہ اور عمر عاص کے ماننے والے ہمیشہ تھے اور اس وقت بھی موجو د ہیں، نھروانیوں کے ذریعہ موقع موقع سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں ۔
اب جب کہ ہم نے خوارج کے سلسلہ میں وضاحت کردی ، وہابیوں اور خوارج کے درمیان موجودہ شباہتوں کو بیان کرتے ہیں تاکہ واضح ہوجائے کہ صرف یہی نہیں کہ خارجیگری طرز تفکر عالم اسلام سے ختم نہیں ہوا بلکہ مقدس مآبی کا لباس پھن کر درندگی کے ساتھ زندہ ہے ، جس کی وجہ سے عالم اسلام میں بہت سے درد ناک واقعات پیدا ہورھے ہیں ۔
مرحوم علامہ امین (رہ)مولف کتاب عظیم ”اعیان الشیعہ“ جو وہابیت کی رد میں لکھی گئی اور ”کشف الارتیاب“ کے نام سے چھپ چکی ہے او رفارسی میں ترجمہ ہوچکا ہے ،وہابیوں کی خوارج سے شباہتوں کے سلسلے میں موصوف نے تفصیل سے بیان کیا ہے ، ہم یھاں پر اس کا خلاصہ تھوڑے سے دخل وتصرف کے ساتھ بیان کررھے ہیں :
پھلی شباہت:
خوارج کا نعرہ یہ تھا ”لَاحُکْمَ اِلَّالِلّٰ
ہ“ یعنی خدا کے علاوہ کسی کی حکومت نہیں ہونا چاہئے، اگر چہ یہ بات حقیقت ہے لیکن اس جملہ سے ان کی مراد باطل ہے (یعنی اس سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ) جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :”واقعاً یہ جملہ صحیح ہے او ریہ جملہ قرآن میں بھی آیا ہے :
”اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا ِللّٰهِ
“ لیکن اس جملے سے خوارج کا مقصد یہ تھا کہ کوئی بھی امیر اور حاکم نہیں ہوسکتا، او ردینی مسائل میں ”حکمیت“ کو قبول نہیں کیا جاسکتا، اور اس نظریہ کے تحت جنگ صفین کی حکمیت کو گناہ اور کفر مان بیٹھے، جب کہ قرآن مجید میں اختلاف کی صورت میں حکمیت اور مُنصِف کی طرف دعوت دی ہے :
(
وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنَهُمَا فََابْعَثُوا حَکَماً مِنْ اَهْلِهِ وَحَکَماً مِنْ اَهْلِهَا
)
”اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف کا خطرہ لاحق ہو ،تو انصاف کرنے والا مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے لیں (او ران دونوں کے درمیان صلح وآشتی کرادیں)
دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے :
(
یَحْکُمُ بِهِ ذُوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ
)
” تم میں سے دو لوگ انصاف او رحکم کریں“
اسی طرح وہابیوں کا نعرہ ہے کہ: دعا ، شفاعت، توسل او رمدد طلب کرنا صرف خدا سے مخصوص ہے، اگرچہ یہ بات بھی حق ہے لیکن وہابیوں کا اس سے ہدف او رمقصد غلط ہے ۔
جی ہاں ، دعا، شفاعت، خوف او راستغاثہ خدا کے لئے ہے ، حقیقت میں خدا ہی ہے کہ جس کو پکارنا چاہئے ،چاہے مشکل کا وقت ہو یا سکون وچین کاوقت،اسی سے توسل کرنا چاہئے، اور واقعاً مدد کرنا اسی کا کام ہے ، او رشفاعت بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے لیکن وہابیوں کا ہدف اورمقصد یہ ہے کہ ہم کو یہ حق نہیں کہ جس کو خدا نے عظمت اور بزرگی دی ہے اس کوپکارنے سے اس کی عظمت وبزرگی کو آشکار کریں، او راس سے توسل کرےں تاکہ خدا کے نزدیک ہماری شفاعت کریں او رہمارے لئے دعا کرے۔
وہابی حضرات کہتے ہیں کہ شفاعت او رمدد طلب کرنا اس شخص سے جس کو خدا نے لوگوں کا شفیع اور ناصر قرار دیا ہے او ر اس شخص سے توسل کرنا جس کو خدا نے تقرب کا وسیلہ قرار دیا ہے ، بدعت او رگناہ ہے !!
جیسا کہ ہم نے اس چیز کی طرف پھلے بھی اشارہ کیا ہے اورآئندہ صفحات پر بھی ہم اس بارے میں بحث کریں گے۔
وہابیوں کی بے ہودہ باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمیں یا محمد! یا فلاں! کہنے کاکوئی حق نہیں ہے ، وہ کہتے ہیں کہ تجھے خدا نے قدرت دی ہے یا محمد(ص) نے ؟ اور چونکہ خدا نے قدرت دی ہے لہٰذا محمد(ص) کو پکارنا غلط ہے ، صرف اور صرف خدا کو پکارنا چاہئے۔
ان کا یہ کھنا بھی مغالطہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے او ریہ حضرات اپنے اس مغالطہ سے لوگوں کو گمراہ کرنا اورلوگوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ، کیونکہ کسی بھی مسلمان کوشک نہیں کہ قدرت کا مالک حقیقی خدا ہے اور قدرت اسی سے مخصوص ہے ، بلکہ مسلمان تو یہ چاہتے ہیں کہ اپنے اس پیامبر سے جس کو خدا نے عظمت اور بزرگی دی ہے اور اس کی نظر میں محترم و مکر م ہے اس کے ذریعہ سے توسل کریں او رخدا نے جس نبی کے لئے حق شفاعت قرار دیا ہے اس کے ذریعہ سے شفاعت اور وساطت چاہتے ہیں ، وہابیوں کا یہ اعتراض حقیقت میں خدا کی طرف پلٹتا ہے کہ کیوں خدا نے محمد(ص) کو حق شفاعت دیا ہے ۔
لہٰذاچونکہ خداوندعالم نے آنحضرت(ص) کے لئے ایک عظیم اور بہت بڑا مقام قرار دیا ہے ہم بھی ان سے شفاعت طلب کرسکتے ہیں ، ورنہ وہابییوں کا یہ اعتراض تو دعا کے بارے میں بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سے دعا کرنے کے لئے کھے تو اس سلسلہ میں بھی کھا جاسکتا ہے کہ دعا کو خدا قبول کرے گا یا وہ انسان؟ اور یہ بات سب پر آشکار ہے کہ دعا کا قبول کرنے والا خدا ہی ہے ، تو اس وقت سوال ہوسکتا ہے کہ دوسروں سے دعا کرانے کے کیامعنی ؟!
پس نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اپنے دینی بھائیوں سے اپنے لئے دعا کرنے کے لئے کہہ سکتے ہیں۔
وہابیوں کا اسی طرح کا نظریہ مسجد نبوی میں موجود ضریح او رمنبر کے بارے میں بھی ہے ، کہتے ہیں : اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ لوہے اور لکڑی کابذات خود کوئی احترام نہیں ہے ، اس طرح گوسفند کی کھال بھی بذات خود کوئی احترام نھیںرکھتی، لیکن اگر یہی کھال قرآن مجید کی جلد ہوجائے یا وہ کاغذ جس پر قرآن لکھا گیا ہے اور اسی طرح دوسری چیزیں احترام کے قابل ہوجاتی ہیں ، ضریح او رمنبر اور روضہ رسول بھی اسی طرح ہیں اور پیغمبر کی وجہ سے محترم ہیں۔
دوسری شباہت
وہابیوں کی خوارج سے دوسری شباہت یہ ہے کہ خوارج ظاہراً بہت مقدس تھے نماز اور تلاوت قرآن کریم کو بہت زیادہ اہم یت دیتے تھے، یھاں تک کہ سجدوں کی کثرت کی وجہ سے پیشانی میں گھٹا پڑجاتا تھا اور حقیقت کے طالب تھے ، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام ان کے بارے میں فرماتے ہیں :
”لَاتُقَاتِلُوا الْخَوَارِجَ بَعْدِی ، فَلَیْسَ مَنْ طَلَبَ الْحَقَّ فَاخْطَاهُ، کَمَنْ طَلَبَ الْبَاطِلَ فَاَصَابَهُ
“
یعنی میرے بعد خوارج کے ساتھ جنگ نہ کرنا، کیونکہ جولوگ طالب حق وحقیقت ہیں لیکن غلطی کر بیٹھے اور جولوگ باطل کے طالب ہیں اور وہ باطل تک پہونچ بھی گئے (معاویہ اور اس کے پیروکار) دونوں برابر نہیں ہیں ۔
جی ھاں!خوارج ظاہراً متدین او رمتقی اور پرہیزگار لوگ تھے، کہتے ہیں کہ خوارج میں سے ایک شخص نے جنگل سے گذرتے وقت ایک خنزیر کو مارڈالا ، دوسرے شخص نے فوراً اعتراض کیا اورکھا: تیرا یہ کام” فساد فی الارض“ھے ، اس طرح ایک خارجی نے راستہ میں ایک پڑا ہوا خرما اٹھاکر منھ میں رکھ لیا ،دوسرا شخص آگے بڑھا اور اس کے منھ سے نکال دیا ، او رکھا کہ یہ تمھارے لئے کھانا حرام ہے ۔
وہابی حضرات بھی اسی طرح کرتے ہیں ، کہ ظاہراً دین کی بہت پابندی کرتے ہیں نماز کو اول وقت پڑھتے ہیں او رخدا کی عبادت میں ہر ممکن کوشس کرتے ہیں حق وحقیقت کے طالب ہیں لیکن غلط راستہ اپنائے ہوئے ہیں ، یہ لوگ بھی تقویٰ اور پرہیزگاری کا زیادہ خیال رکھتے ہیں ، یھاںتک کہ ٹیلیگرام کو بھی قبول نہیں کرتے او رکہتے ہیں : چونکہ اس کا حکم شرعی معلوم نہیں ہے ، لہٰذا اس کا استعمال صحیح نہیں ہے ، اس طرح کی مقدس مآبی اور شدت پسندی کو ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے : ہم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ پرانے مجیدی(عثمانی پیسہ) کو نئے مجیدی سے بدل رہا ہے اور کچھ مقدار زیادہ لے رہا ہے نجد کا ایک وہابی آیا او رکھا کہ مجھ سے پرانے مجیدی لے لے اور نئے مجیدی دے دے تو فوراً اس وہابی نے کھا نہیں نھیں، یہ تو سود ہے ۔!!
تیسری شباہت
وہابیوں کی خوارج سے تیسری شباہت یہ ہے کہ خوارج اپنے علاوہ تمام دوسرے مسلمانوں کو کافر سمجھتے تھے اسی طرح کہتے تھے کہ جو شخص بھی گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوا وہ ہمیشہ جھنم کی آگ میں جلتا رھے گا اس طرح خوارج مسلمانوں کے جان ومال کو حلال جانتے تھے او ر مسلمانوں کے بچوں کو اسیر کرلیتے تھے، او ران کا یہ بھی نظریہ تھا کہ اگر اسلامی ممالک میں گناہِ کبیرہ سرعام ہونے لگے تو وہ اسلامی ملک باقی نہیں رھے گا بلکہ کافر ملک ہوجائے گا۔
انھوں نے عبداللہ بن خباب (صحابی رسول(ص)) جو روزہ دار بھی تھے او رقرآن بھی اپنے ساتھ لئے تھے ، ان کو قتل کردیا، اور حدتو یہ ہے کہ ان کی حاملہ عورت کے پیٹ کو بھی چیر ڈالا ، ان کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے حضرت علی علیہ السلام پر تبرا نہیں کیا ، او ران سے بیزاری کا اعلان نہیں کیاتھا، خوارج نے اس صحابی سے کھاکہ: ہم اسی قرآن کے حکم سے جو تیرے پاس ہے تجھے قتل کررھے ہیں!! اس صحابی کو ایک نھر کے قریب قتل کرڈالا اور اس کا خون اس نھر میں بھادیا۔
خوارج جب بھی مسلمان عورتوں کو اسیر کرتے تھے ، اپنے درمیان ہی ان کی خرید وفروخت کرلیتے تھے ، ایک مرتبہ ایک خوبصورت عورت کو اسیر کیا ،اور جب اس کی بولی لگنے لگی اور قیمت بڑھتی گئی اس وقت ایک خارجی اٹھا اور اس عورت کو قتل کردیا او رکھنے لگا: قریب تھا کہ یہ کافر عورت مسلمانوں کے درمیان فتنہ وفساد برپا کرادیتی اس وجہ سے میں نے اس کو قتل کردیا۔
جس وقت امام حسن علیہ السلام ”ساباطِ مدائن“ جارھے تھے خوارج نے ان سے کھا: تو بھی اپنے باپ کی طرح مشرک ہوگیا ! قارئین محترم یہ تھے خوارج کے کارنامے!!
وہابی بھی اسی طرح کرتے ہیں یہ لوگ بھی اپنے مخالفوں کو مشرک جانتے ہیں اور ان کے جان ومال کو حلال سمجھتے ہیں ، اور مسلمانوں کو اسیر کرتے ہیں ، یھاں تک کہ تمام مسلمانوں کو مشرک کہتے ہیں ، او راسلامی ممالک کو کافر ملک کے نام سے یاد کرتے ہیں اور وہاں سے مھاجرت کو ضروری سمجھتے ہیں، اگر کسی نے نماز کو ترک کردیا اگرچہ وہ شخص نماز کا منکر نہ ہو اس کو واجب القتل جانتے ہیں۔
سلیمان ابن عبد الوہاب (محمد ابن عبد الوہاب کا بھائی جو اس کا سخت مخالف تھا) ایک کتاب اپنے بھائی محمد بن عبد الوہاب کی ردّ میں لکھی ہے موصوف اس کتاب میں لکھتے ہیں :
ابن قیم جوزی نے یہ کھا کہ خوارج کی یہ دو خصوصیات تھیں جن سے وہ دوسرے مسلمانوں اور ان کے رھبروں سے جدا ہوگئے:
پھلی خصوصیت: سنت سے دوری اختیار کرنا ، اور جو چیز سنت نہ تھی اس کو سنت کھنا۔
دوسری خصوصیت: مسلمانوں کو گناہِ کبیرہ کی وجہ سے کافر کھنا، اور اسی بناپر ان کے جان ومال کو حلال سمجھنا، اسلامی ممالک کو کافر ممالک کھنا۔
لہٰذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ خوارج کے ان دوغلط اصولوں اور ان کے نتائج سے دور رہیں ، یعنی مسلمانوں سے دشمنی، ان پر لعنت وملامت کرنے اور ان کے جان ومال کو حلال ماننے جیسی بدعتوں سے پرہیز کریں ۔
یہ دونوں خصوصیات جو ابن قیّم نے خوارج کی بیان کی ہیں ،وہ خصوصیات مکمل طریقہ سے وہابیوں میں پائی جاتی ہیں ۔
چوتھی شباہت
خوارج اپنے انحرافی عقائد میں قرآن مجیدکی ان آیات کے ظاہر سے استناد کرتے تھے جن میں گناہ کبیرہ کے ارتکاب کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے ، وہابی بھی اسی طرح قرآن مجید کے ظاہری معنی کرتے ہیں جن کو کوئی بھی عقلمندانسان قبول نہیں کرسکتا، منجملہ : خدا کو صاحب جسم ہونے کا اعتقاد، یا عرش و قلم و لوح و کرسی وبرزخ و خدا کا دیدار اور خدا کے ھاتھ پیر اور دوسرے اعضاء رکھنا ، وغیرہ جیسے مطالب کی ظاہری تفسیر۔
پانچویں شباہت
خوارج ظاہری احکام پر عمل کرنے والے ، کوتاہ نظر اور کم عقل تھے اور جو راستہ میں پڑے کجھور کو کھانے سے پرہیز کرتے تھے او رجنگلی خنزیر کو مارنے والے کو مفسد فی الارض مانتے تھے ، وہی خوارج ہیں،جنھوں نے رسول اسلام(ص) کے روزہ دار او رحامل قرآن صحابی کو واجب القتل سمجھ کر قتل کردیا اور تما م مسلمانوں کو کافر مانتے تھے ، اور ہمیشہ گناہ کبیرہ کو کفر مانتے تھے ۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ چلاجارہا تھا ،راستے میں خوارج سے ملاقات ہوئی ، خوارج میں سے کسی ایک نے سوال کیا : تم لوگ کون ہو؟
مسلمانوں کے گروہ میں سے ایک عقلمند اور ہوشیار شخص آگے بڑھا او رکھنے لگامجھے جواب دینے دو ، اور اس نے کھا:
ہم لوگ اہل کتاب ہیں او رتم سے پناہ مانگتے ہیں ہمیں کلام خدا سنائےں اور پھر ہمیں کسی امن جگہ پہونچادیںیہ سن کر خوارج آپس میں کہنے لگے : ہمیں رسول اسلام(ص) کے پیمان کے مطابق ان کو کو ئی اذیت نہیں دینی چاہئے ، لہٰذا ان کے لئے قرآن کی تلاوت کی جائے او رکسی کو معین کیا جائے تاکہ ان کو ایک پُرامن جگہ پہونچائے۔!
لیکن یہی خوارج ہیں کہ رسول خدا کے صحابی عبد اللہ خباب سے کہتے ہیں کہ تمھاری نظر میں علی (ع) کیسے ہیں؟ اس نے حضرت علی علیہ السلام کی مدح وثنا کرنا شروع کردی، اس سے کھا کہ تم علی (ع)کے چاہنے والوں میں سے ہو، اوریہ کہہ کر انہیں قتل کردیا۔
وہابی حضرات بھی اسی طرح ظاہر ی احکام کے حامل اور کوتاہ نظر ہیں، ایک طرف تو رحمت بھیجنے او رذکر کرنے کو بدعت قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف ٹیلیگرام کے حلال ہونے میں شک کرتے ہیں کیونکہ اس کے بارے میں کوئی شرعی دلیل نہیں ہے ، اور سگریٹ وغیرہ پینے کو بھی حرام جانتے ہیں او رسگریٹ پینے والے کو سزا دیتے ہےں ۔
دوسری طرف تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں ،اور ان کو مشرک سمجھتے ہیں او ران کے جان ومال کو حلال جانتے ہیں،صرف اس وجہ سے کہ یہ لوگ شافعین سے شفاعت طلب کرتے ہیں ، اور یہ لوگ بارگاہ خداوندی میں نیک وصالح بندوں کے ذریعہ توسل کرتے ہیں، لہٰذا ان کے قتل کو ضروری اور واجب سمجھتے ہیں !! اسی وجہ سے ہماری نظر کے مطابق وہابیت فرقہ”انحصار“ ”ظاہرپرستی“
اور ”تناقض گوئی“ کا فرقہ ہے ۔
وضاحت:
۱ ۔ فرقہ انحصاراس وجہ سے ہے کیونکہ صرف اور صرف اپنے کو مسلمان سمجھتے ہیں اور دوسرے تمام مسلمانوں کو کافر اور مشرک مانتے ہیں ۔
۲ ۔ فرقہ ظاہر پرستی اس وجہ سے ہے کیونکہ قرآن اور سنت کے ظاہر پر جمود کرتے ہیں اور ظاہری معنی سے ایک قدم آگے نہیں بڑھاتے ، اور اسلامی عمیق اور دقیق مسائل کی گھرائی میں جانے کی کوشش بھی نہیں کرتے، اور یہ کہ اسلام کو چند سادہ مسائل اور شرعی احکام میں خلاصہ کرتے ہیں، یعنی وہابیت کے یھاں عمیق اور دقیق مسائل کی کوئی گنجائش نہیں ،اور نہ تنھا یہ کہ عمیق مسائل ان کے یھاں نہیں پائے جاتے بلکہ عمیق مسائل کا انکار کرتے ہیں۔
۳ ۔ فرقہ تناقض گوئی اس وجہ سے ہے کہ جو نتیجہ حاصل کرتے ہیںخود ان کے مقبول شدہ مقدمات سے میل نہیں کھاتا، مثال کے طور پر محمد ابن عبد الوہاب ”کشف الشبھات“کے مقدمہ میں اس قدر مسلمانوں کے اتحاد پر چلاتا ہے اور مسلمانوں کو تفرقہ بازی اور دشمنی سے دور رھنے کی تاکید کرتا ہے لیکن اسی کتاب کے وسط میں جاکر تمام غیر وہابی مسلمانوں کو کافر ،مشرک، بت پرست اور توحید کے مخالف کہتا ہے ، ! کیا واقعاً یہی اتحاد کی دعوت ہے ؟ اور کیا وہابیت کی دعوت کو ایک اصلاحی دعوت کھی جاسکتی ہے ؟
یا ان کی اس تحریک کو ایک فتنہ گر اور فساد طلب اور ایک طرح کی بے دینی اور الحاد کی خشک وتند تحریک کھا جائے اور یہ سب کچھ دینداری اور دین کے نام پر انجام دیتے ہیں ۔
چھٹی شباہت
خوارج اُن آیتوں کو جو کفار ومشرکین کے بارے میں نازل ہوئی تھیں ، مسلمانوں اور مومنین کو بھی شامل جانتے تھے۔
وہابی حضرات بھی اسی طرح کا نظریہ رکھتے ہیں کہ مشرکوں سے مربوط آیات کو مومنین پربھی تطبیق کرتے ہیں ۔
کتاب ”خلاصة الکلام“ میں ہے کہ : صحیح بخاری عبد اللہ بن عمر کے ذریعہ پیغمبر اسلام(ص) سے خوارج کے بارے میں نقل کرتے ہیں :
آنحضرت(ص) نے فرمایاکہ: یہ لوگ ان آیات کو جو کفار کے بارے میں ہیں ان کو مومنین پر تطبیق کریں گے۔
اس طرح کی ایک اور حدیث جو دوسروں نے (بخاری کے علاوہ) نقل کی ہے:
”اَخْوَفُ مَااَخَافُ علَٰی اُمَّتِی رَجُلٌ مُتَاوِّلٌ لِلْقُرآنِ یَضَعَهُ فِیْ غَیْرَ مَوْضِعِهِ
“
”میری امت کا سب سے خطرناک شخص وہ ہے کہ جو قرآن کی تاویل کرے اور اس کو ایسے شخص پر تطبیق دے جس کو وہ شامل نہیں ہے “
ابن عباس سے بھی روایت ہے کہ :
”لَاتَکُوْنُوْا کَالْخَوَارِجِ تَاوِّلُوْا آیَاتِ الْقُرْآنِ فِی اَهْلِ الْقِبْلَةِ
“
یعنی خوارج کی طرح نہ ہوجاؤ، جو قرآن کی آیات کی تاویل کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی شامل کرتے ہیں جبکہ وہ آیات اہل کتاب او رمشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ، کیونکہ ان لوگوں نے قرآنی آیات کونھیں سمجھا ہے اس کے باوجود انھوں نے مسلمانوں کا خون بھایا، ان کے مال ودولت کو غارت کیا۔
وہابی بھی اسی طرح کرتے ہیں ، جیسا کہ ہم آئندہ بیان کریں گے، حرم کو بھی آگ لگادیتے ہیں اور مسلمانوں کے مال ودولت کو تباہ وبرباد کردیتے ہیں بے گناہ مسلمانوں کا خون بھاتے ہیں اور مسلمان عورتوں پر بھی رحم نہیں کرتے اور خانہ خدا کے زائروں اور حاجیوں کی گولیوں کے ذریعہ مہمان نوازی کرتے ہیں او رحاجیوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئی لاشوں کو بھی ان کے وارثین کو نہیں دیتے اور اس وقت تک بھی ایرانی حجاج کی لاشوں کو نہیں دیا ہے (لعنہم اللّٰہ وملائکتہ) کیونکہ اپنا راز فاش ہونے سے ڈرتے ہیں خدا ان کے عذاب میں اضافہ کرے او رانکو جھنم کے دردناک عذاب میں رکھے۔
ساتویں شباہت
جس طرح خوارج مسلمانوں کا قتل وغارت کیا کرتے تھے او رکفار ومشرکین ان کے شر سے محفوظ رہتے تھے، بالکل اسی طرح کا قانون وہابیوں کا بھی ہے، ہم نے کسی بھی ایک تاریخ میں نہیں پایا کہ وہابیوں نے کھبی کوئی جنگ کفار ومشرکین سے کی ہو، یا کسی ایک مشرک کو قتل کیا ہو ، یہ تو صرف مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں جب کہ مسلمانوں کا کوئی قصور نہیں ہے ، اس سلسلہ میں کافی ہے کہ ان کی پُرافتخار تاریخ ! پر ایک نظر ڈالی جائے ، کربلا، طائف ،یمن اور حجاز کے مسلمانوں کے قتل عام پر ایک نظر کافی ہے جبکہ اسی زمانے میں کفار ومشرکین زمین پر عالمگیر ہورہا تھا، وہابیوں کو ان سے لڑنے کا خیال تک نہ آیا بلکہ انگریزوں اور دوسرے اسلام دشمنوں سے بناکر رکھی، اورمسلمانوں کا قتل عام کیا۔
کیوں دورکی بات کریں اپنے اسی زمانہ میں دیکھ لیجئے کہ اس ملعون اور ضد شرک والحاد آل سعود نے آج تک ایک بھی گولی غاصب اسرائیل پر نہیں چلائی ! کیا استعمار کے خلاف اسلامی تحریکوں کی کبھی کوئی ایک پیسہ سے مدد کی ؟! یا فرھنگی اور فکر ی لحاظ سے ایک چھوٹا سا پمفلیٹ چھاپا؟
لیکن دنیا بھر کے تما م مقالہ نگاروں اور رائٹروں کو خرید لیا تاکہ اسلامی انقلاب کے خلاف جو کچھ بھی لکھ سکتے ہوں، لکھیں، اور دنیابھر کی تمام میڈیا کو خرید لیا تاکہ ایران کے خلاف منھ پھاڑپھاڑ کر بولیں۔
آج یہی ملعون آل سعود ہے جس نے تھیچر ، ریگن اور فرانس وامریکائی غلاموں سے دوستی کرکے انقلاب اسلامی ایران اور لبنان کے شیعوں کے خلاف مل کر سازشیں کیں، اور اسلامی تحریکوں کو کچلنے میں مشغول ہوگئے، یہ وہی خوارج کا طرز تفکر ہے ، اور یہ لوگ انہیں خوارج کی نسل سے ہیں کہ اسلام کے نام پر اسلام کو نیست ونابود کرنا چاہتے ہیں ۔
اور تیل کی درآمد کے ذریعہ شرک سے جھاد اور حرمین شریفین کے تحفظ کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کا خون بھانا ۔
جی ہاں یہ تھیں وہابیت اور آل سعود کی مقدس مآب ،ظاہر پرست، متعصب اور اسلام دشمن خوارج سے چند شباہتیں۔
واقعاً رسول اسلام(ص) کی یہ حدیث کس قدر اثر انداز ہے ،جس کو مرحوم امین(رہ) نے ”سیرہ حلبی“ سے نقل کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:
”خوارج قرآن پڑھتے ہونگے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، ان کے دل ا سے نہیں سمجھتے یہ لوگ مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں او رکافروں کو آزاد چھوڑدیتے ہیں ،!
اے رسول خدا ، خدا کی طرف سے آپ پر درود وسلام ہو گویا آپ آج ہم مسلمانوں کے ساتھ وہابیوں کے سلوک کی تصویر کشی کررھے ہیں !
واقعاً کیا سعودی وہابیوں کے کارنامے اس کے علاوہ بھی کچھ اور ہیں ؟ مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں اور خانہ کعبہ کی بے حرمتی ، خانہ کعبہ کے نزدیک نھایت بے دردی ا وربے حیائی کے ساتھ حاجیوں کا خون بھاتے ہیں، لیکن وہایٹ(بلیک)ھاوس کے روساء اور مشرکین جلادوں سے ہمنوالہ ہوتے ہیں،یھی نہیں بلکہ آپس میں گھری دوستی اور ہمکاری کرتے ہیں ، او راپنے جلاد وخونخوار مالکوں پر اپنی غلامی کو ثابت کرنے لئے ہر ذلت کو قبول کرتے ہیں۔
اے خدا !تجھے تیری عزت وجلالت کی قسم، ان ظالموں اور بدبختوں پر جو تیرے گھر کے غاصب ہیں جلد از جلد اپنے غضب کو نازل فرما۔ (آمین)
وہابیت کی پیدائش کازمانہ اور اس کی جڑیں
ہمارے نظریہ کے مطابق اور تاریخی شواہد کی نظر میں فرقہ وہابیت استعمارگروں کے ذریعہ ، اسلام کی نابودی اور اس کے نظریات کو منحرف کرنے کے لئے وجود میں آیا، خود وہابیت کا مطالعہ کرنے کے بعد ہماری اس نظریہ کی تائید ہوجائے گی ، وہابیت کی تعلیمات سے اس فرقہ کا استعماری اور مقدمہ ساز ہونا ظاہر ہوتا ہے ، خود اس کے نظریات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اس فرقے کو عالم اسلام میں رخنہ اندازی او رمسلمانوں میں اختلافات پیدا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے ۔
اس بات کی تائید کے لئے ہم یھاں پر” مسٹر ہمفرے “ کے چند خاطرات بیان کرتے ہیں ( ہمفرے ایک انگریز جاسوس اور انگلینڈ کی وزارت مستعمرات کے احکامات کا مجری تھا) تاکہ ہمارے محترم اور ہوشیار قارئین اچھی طرح اندازہ لگا لیں کہ وہابیت کی اصل بنیاد نہ ابن تیمیہ ہے اور نہ ہی ابن قیم جوزی یا محمد ابن عبد الوہاب کی مطالعات اور تحقیقات ۔
اس انگریز ی جاسوس کے خاطرات میں اس طرح ہے کہ: اس کو مستعمرات وزارت کی طرف سے بھیجا گیا تاکہ کسی ایک ایسے شخص کوتلاش کرے جو مذکورہ وزارت کے اہداف ومقاصد کو پورا کرسکے ، البتہ وہ شخص بھی خاص شرائط کا مالک ہو ۔
ہم فرے نے اپنا کام شروع کیا اِدھر اُدھر سفر کیا لوگوں سے گفتگو کی ،اور بہت زحمتوں کے بعد ترکی میں ایک بڑھی کی دکان پر محمد ابن عبد الوہاب سے ملاقات ہوئی، اس سے گفتگو ہوئی اور پھر اس سے ملاقات ہوتی رہیں اور یہ ملاقاتیں دوستی میں تبدیل ہوگئی ، اور ہمفرے ہمیشہ اس کے ساتھ رھنے لگا اور اس کو اپنے وزارت خانہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا رہا، اور اسی دوران اس کو شراب خواری فاحشہ عورتوں سے زنا (یہ عورتیں بھی انگلینڈ کی جاسوس تھیں) کے لئے آمادہ کیا !! اور اس طرح اسلام کے متعلق چند شبھات اس کے سامنے بیان کئے یھاں تک کہ اس کا ذھن آلودہ ہوگیا او رکچھ دنوں کے بعد محمد ابن عبد الوہاب نے مقاوت او رمقابلہ کرنا چھوڑ دیا او راپنے کو مذکورہ وزارت خانہ کی مرضی کے حوالہ کردیا، انگلینڈ کا وزارت خانہ ایک (بلکہ چند) جدید دین بنانا چاہتا تھا تاکہ حقیقی اسلام کی برعکس تصویر پیش کرسکے اور مسلمان اس نئے دین کی طرف مائل ہوں ،تاکہ حقیقی اسلام سے دست بردا رھوجائیں، کیونکہ اگر انھوں نے یہ کام کردیا تو ان کا مقابلہ کرنے والے نہیں رہیں گے ۔
کھانی بہت لمبی ہے اور ہم تفصیل میں جانانھیں چاہتے ، بھر حال ہمفرے کہتا ہے : میں جس چیز کی تلاش میں تھا محمد ابن عبد الوہاب میں مجھے وہ چیز مل گئی ، اس کی سب سے اہم خصوصیات یہ تھیں: کسی سے نہ ڈر نے والا، بہت اونچے خیالات ، بزرگوں کے سامنے جرات، اپنی فہم کے مطابق قرآن وحدیث کو سمجھنے میں مستقل رائے ، تمام دینی رھبروں یھاں تک کہ چاروں خلفاء کی بنسبت بے اعتنائی۔
ان تمام صفات کو دیکھ کر میں نے یہ اندازہ لگالیا کہ میں اس کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان اپنا طے شدہ پروگرام پایہ تکمیل تک پہونچاسکتا ہوں۔
اسلام سے مقابلہ کے لئے استعمار کے احکامات
اس انگریز جاسوس نے محمد ابن عبد الوہاب سے عقد اخوت باندھنے کے بعد اس سے کھا:
”میں نے خواب دیکھا کہ تو پیغمبر کا خلیفہ بن گیا ہے “ !! او راس طرح اس کو ورغلایا اور اس کے احساسات میں ھیجان پیدا کیا ،نیزاس کو اتنا گستاخ بنادیاکہ ایک ”مصلح جدید“ کے عنوان سے اٹھ کھڑا ہوا اور آخر کار انگلینڈکے وزارت مستعمرات کے روساء سے دستور العمل حاصل کئے جن میں مسلمانوں کے نقاط ضعف کو اور زیادہ وسیع کرنے پر تکیہ کیا گیا تھا اور اس جاسوس اور اس کے بھائی ! محمد ابن عبد الوہاب کا پروگرام معین کیا گیا ، استعمار کے وہ دستور کہ جو محمد ابن عبد الوہاب (اور آج اس کے اولاد یعنی ذلیل و خوار آل سعود خاندان) کے ذریعہ جاری ہوتے ہیں ان کی فھرست اس طرح ہے :
۱ ۔دینی اور مذہبی شدید اختلاف ایجاد کرنا،(اس سلسلہ میں کتابوں کی نشر واشاعت کرنا اور اسکے لئے ایک خاص بجٹ معین کرنا)
۲ ۔جھالت اور بے سوادی کو مسلمانوں میں رائج کرنا، او رمدارس بنانے سے روکنا تاکہ مسلمان جاہل رہیں۔
۳ ۔مسلمانوں کو غفلت میں رکھنا، صوفی گری اور گوشہ نشینی جیسی فکر ایجاد کرنا(مختلف انجمنوں جلسات وغیرہ کے ذریعہ)
۴ ۔مسلمانوں کے ذھنوں میں یہ بات ڈالنا کہ بادشاہ وقت خدا کا سایہ اور پیغمبر کا جانشین وخلیفہ ہوتا ہے تاکہ ڈکٹیٹری کو اولی الامر کے عنوان سے قبول اور اس کی حمایت کریں۔
۵ ۔مسلمانوں کے درمیان فساد، فحشاء اور عیاشی وغیرہ کو رائج کرنا۔
۶ ۔مسلمانوں کے درمیان مسئلہ ”جبر “ کو رائج کرنا، اور صفائی اور علاج معالجہ کو بے اہم یت بنانا۔
۷ ۔ مسلمانوں کو ترقی کرنے سے روکنا،اور ان کے یھاں گوشہ نشینی اور صوفی گری کو وسیع پیمانے پر رائج کرنا۔
۸ ۔مسلمانوں میں یہ فکر پیدا کرنا کہ دین دنیا سے جدا ہے ۔
۹ ۔مسلمانوں کے کاروبار کو ٹھپ کرنا۔
۱۰ ۔اسلامی فوج میں نفوذ کرنا اور اس میں خلل ایجاد کرنا۔
۱۱ ۔مسلمانوں کے درمیان عورت کو ذلیل وحقیر سمجھنے کی فکرپیدا کرنا۔
۱۲ ۔ مسلمانوں کے درمیان قومی اور ملتی اختلاف کو ہوا دینا۔
۱۳ ۔اسلامی ممالک میں مذہبی اقلیت کو مالی امداد کرناتاکہ شراب خوری قمار بازی اور عیاشی کو عام ہوسکے۔
۱۴ ۔علماء اسلام اور مسلمانوں کے درمیان رابطہ کو کمزور کرنا۔
۱۵ ۔شیعوں کے ذھن میں کفار کو نجس سمجھنے کے اعتقاد کو ختم کرنا۔
۱۶ ۔لوگوں کو حج سے روکنا، اور حج کے مسئلہ کو منحرف کرنا(قارئین کرام آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آل سعود نے ان دستورات کو بحسن خوبی انجام دے کر اپنی غلامی کا مکمل ثبوت دیا ہے)
۱۷ ۔ادائے خمس کے سلسلہ میں شک وتردید پیدا کرنا(آپ حضرات نے وہابی مولف کے مقالہ میں ادائے خمس پر اعتراض کو ملاحظہ کیا)
۱۸ ۔مسلمانوں کے اسلامی عقائد میں شک وتردید پیدا کرنا۔
۱۹ ۔باپ بیٹوں اور خاندان میں اختلاف پیدا کرنا۔
۲۰ ۔مسلمان خواتین کو ہر ممکن ذریعہ سے بے پردہ بنانا،(ہماری باپردہ ماں بھنیں غور کریں اور اپنے اوپر فخر کریں کہ استعمار کے لئے کٹ پتلی نہیں بنیں، اور بے پردہ خواتین بھی متوجہ ہوں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی استعمار کے مقاصد کو پورا کررہی ہیں )
۲۱ ۔نماز جماعت کو برقرار ہونے میں رخنہ ڈالنا اور علماء پر تہم تیں لگانا۔
۲۲ ۔لوگوں کو زیارت کے مسئلہ سے بد بین کرنا(اس ہدف کو پورا کرنے کے لئے تمام قبور کو مسمار کرنا)
۲۳ ۔سادات کے احترام کو لوگوں کے درمیان سے ختم کرنا۔
۲۴ ۔امام حسین(ع) کے سلسلہ میں مجالس اور عزاداری کو ختم کرنا۔
۲۵ ۔آزادی کے نام پر تمام قیود وحدود کو ختم کرنا۔
۲۶ ۔مذہبی اخبار اورروایتوں کی نسبت لوگوں کو بدظن کرنا۔
۲۷ ۔تعددزوجات(کئی بیوی) کے مسئلہ پر اعتراض کرنا۔
۲۸ ۔اسلام کی ترویج وتبلیغ سے روکنا۔
۲۹ ۔صدقہ دینے اور خیرات کرنے جیسی سنتوں سے روکنا۔
۳۰ ۔قرآن او راس کے ترجموں میں تحریف کرنا(یھاں تک کہ عربی کی جگہ فقط اس کے ترجمہ کو مسلمان پڑھیں)
۳۱ ۔نئے مذاہب ایجاد کرنا (ہم ایسے دین اور مذہب اختراع کرنا چاہتے ہیں جن کا ظاہر بہت اچھا اور دل فریب ہو ، اور ان کی کتابوں میں اس طرح تحریف کرنا کہ ہر فرقہ صرف اور صرف اپنے کو حقیقی مسلمان او ردوسرے فرقوں کو کافر سمجھتے ہوئے ان کے قتل کو واجب سمجھے)
۳۲ ۔عربی زبان کو نابود کرنا۔
۳۴ ۔اسلامی ممالک کے وزارتخانوں میں نفوذ کرنا۔
۳۵ ۔مسیحیت کی تبلیغ کرنا۔
۳۶ ۔مسلمانوں کے جوانوں کو فحاشی کی طرف مائل کرنا۔
۳۷ ۔اسلامی ممالک میں جنگ کرانا ،(خون کے پیاسے جلادوں کو مسلط کرنا مثل صدام کے جو ایران کی اسلامی قوم کا جانی دشمن ہوگیا او رتمام لوگوں نے اس کی بھر پور حمایت کی)
۳۸ ۔تمام مسلمانوں کو کافر کھنا۔
۳۹ ۔خانہ کعبہ کی عظمت کو مٹانا،(اورظاہر میں خوبصورت رھے لیکن مثل فھد( آل سعود) کو سونپ دیا جائے تاکہ حج کے روحانی آثار کو خاک میں ملادیں اور بے گناہ اور شرک سے مقابلہ کرنے والے مسلمانوں کو خانہ کعبہ کے نزدیک خون میں نھلادیں)
۴۰ ۔ تمام روضوں اور زیارتی مقامات کو منھدم کرنا( جس کا ایک نمونہ کربلا، نجف ، طائف یمن پر وہابیوں کے حملے اور اس طرح اس سال حج کے دنوں میں حاجیوں کا قتل عام ، اور اسی طرح جنت البقیع کا انھدام جیسے درد ناک واقعات کو ہم دیکھتے چلے آرھے ہیں )
۴۱ ۔اسلامی شھروں اور اسلامی مناطق میں خوف ووحشت پیدا کرنا۔
۴۲ ۔ تحریف شدہ قرآن کو لوگوں کے درمیان نشر کرنا۔
ہمارے متعھد اور دردمند قارئین کرام !بہت ہی غور سے اس فھرست کو پڑھیں اور دیکھیں کہ ان میں سے بہت سے پلید اور بُرے اہداف کو کس طرح انجام دیا ہے اورآج اگر کسی کو اپنے راستے میں رکاوٹ دیکھتے ہیںتو امام حسین علیہ السلام کے بت شکن فرزند یعنی امام خمینی(رہ) کو پاتے ہیں کہ جو کوہِ ہمالیہ کی طرح ان کے اہداف کے سامنے مقابلہ کے لئے کھڑا ہوا ہے ۔
خدا وندعالم اپنی اس عظیم نعمت اور آیت کبریٰ کو ہمارے او ردنیا بھر کے تمام کمزور مسلمانوں کے سر پر باقی رکھ ،(آمین)۔
____________________