آیت ۱
(
بِسْمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
)
۱(
سُبْحَانَ الَّذِی اٴَسْریٰ بِعَبْدِهِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْاٴَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَهُ لِنُرِیَهُ مِنْ آیَاتِنَا إِنَّه هُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ
)
ترجمہ
بخشنے والے مہربان الله کے نام سے
۱ ۔ پاک و منزل ہے وہ الله کہ جو اپنے بندے کو رات مسجدالحرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے گیا کہ جس کا ماحول پر برکت ہے، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھائیں ۔یقینا وہ سننے والا ہے ۔
معراجِ رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم
اس سورت کی پہلی آیت میں ”اسراء“کا ذکر ہے ۔راتوں رات جو رسول الله نے مسجد الحرام سے مسجدالاقصیٰ(بیت المقدس)کا سفر کیا تھا اس میں اس کا ذکر ہے ۔یہ سفر معراج کا مقدمہ بنا ۔یہ سفر جو رات کے بہت کم وقت میں مکمل ہوگیا کم از کم اس زمانے کے حالات،راستوں اور معمولات کے لحاظ سے کسی طرح بھی ممکن نہ تھا ۔یہ بالکل اعجاز آمیز اور غیر معمولی تھا ۔
پہلے فرمایا گیا ہے :منزہ ہے وہ خدا کہ جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجدالحرام سے مسجدالاقصیٰ کی طرف لے یے گیا(
سُبْحَانَ الَّذِی اٴَسْریٰ بِعَبْدِهِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْاٴَقْصَی
)
۔
رات کی یہ غیر معمولی سیر اس لیے تھی تاکہ ہم اسے اپنی عظمت کی نشانیاں دکھائیں(
لِنُرِیَهُ مِنْ آیَاتِنَا
)
۔
آخر آیت میں فرمایا گیا ہے:الله سننے والا اور دیکھنے والا ہے(
إِنَّه هُوَ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ
)
۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ الله نے اپنے پیغمبر کو اس افتخار کے لیے چنا ہے تو یہ بلاوجہ نہیں ہے کیونکہ رسول کی گفتار اور ان کا کردار اس قابل تھا کہ یہ لباس ان کے بدن کے لیے بالکل زیبا تھا ۔
الله نے اپنے رسول کی گفتار سنی،اس کا کردار دیکھا اور اس مقام کے لیے اس کی لیاقت مان لی ۔
اس جملے کے بارے میں بعض مفسریں نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس اعجاز کے منکریں کو تہدید کی جائے کہ الله ان کی باتیں سنتاہے،ای کے اعمال دیکھنا ہے اور ان کی سازش سے آگاہ ہے ۔
یہ آیت نہایت مختصر اور جچے تلے الفاظ پر مشتمل ہے تا ہم اس رات کے معجزہ نما سفر کے بہت سے پہلو اس آیت سے واضح ہوجاتے ہیں :
(۱) لفظ ”اسریٰ“ نشاندہی کرتا ہے کہ یہ سفررات کے وقت ہوا کیونکہ ”اسراء“عربی زبان میں رات کے سفر کے معنی ہے جبکہ لفظ”سیر“دن کے سفر کے لیے بولا جاتا ہے ۔
(۲)لفظ ”لیلا“ ایک تو ”اسرا“ کے مفہوم کی تاکید ہے اور دوسرے اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ یہ سارے کا سارا سفر ایک ہی رات میں ہوا اور اہم بات بھی یہی ہے کہ مسجدالحرام اور مسجد الاقصیٰ کے در میان ایک سوفرسخ سے زیادہ کا فاصلہ کئی دنوں بلکہ کئی ہفتوں میں طے کیا جاتا تھا جبکہ شب اسراء تھوڑے سے وقت میں یہ سفر مکمل ہوگیا ۔
(۳)لفظ ”عبد“ نشاندہی کرتا ہے کہ یہ افتخار و اکرام رسول الله کے مقام عبودیت کی وجہ سے تھا کیونکہ انسان کے لیے سب سے بلند منزل یہی ہے کہ وہ الله کا سچا اور صحیح بندہ ہوجائے ۔اس کی بارگاہ کے سوا کہیں تھا نہ جھکائے،اس کے علاوہ کسی کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے،جو بھی کام کرے فقط خدا کے لیے ہو اور جو بھی قدم اٹھائے اسی کی رضا مطلوب ہو۔
(۴)”عبد“ کی تعبیر یہ واضع کرتی ہے کہ سفر عالم بیداری میں تھا اور یہ جسمانی سیر تھی نہ کہ روحانی کیونکہ سیر روحانی کا کوئی معقول معنی خواب یا خواب کی مانند حالت کے سوا نہیں ہے لیکن لفظ”عبد“ نشاندہی کرتا ہے کہ جسم و روح پیغمبر اس سفر میں شریک تھے ۔یہ اعجاز جن میں نہیں آتا انہوں نے جو زیادہ بات کی ہے یہ ہے کہ انہوں نے آیت کی توجیہ کے نام پر اسے روحانی کہہ دیا ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کہے کہ میں فلاں شخص کو فلاں جگہ سے لے گیا تو اس کا یہ مفہوم نہیں ہوگا کہ عالم خواب میں یا عالم خیال میں یا فکری طور پر لے گیا ۔
(۵)اس سفر کا آغاز مکہ کی مسجدالحرام سے وہاں سے بیت المقدس میں موجود مسجدالاقصیٰ پہنچے(اور یہ سفر معراج آسمانی کا مقدمہ تھا کہ جس کے بارے میں ہم بعد میں دلایل پیش کریں گے) ۔
البتہ تمام مکہ کو بھی چونکہ ااحترام کی وجہ سے مسجدالحرام کہا جاتا ہے لہذا مفسرین میں اس بات پر اختلاف ہے کہ رسول الله کا یہ سفر خانہ کعبہ کے قریب سے شروع ہواتھا یا کسی عزیز رشتہ دار کے گھر سے ۔لیکن اس میں شک نہیں کہ آیت کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ سیر خانہ کعبہ سے شروع ہوئی ۔
(۶)اس سیر کا مقصد یہ تھا کہ رسول الله عظمت الٰہی کی نشانیوں کا مشاہدہ کریں ۔آسمانوں کی سیر بھی اسی مقصد سے تھی کہ پیغمبراکرم صلی الله علیہ وآلہ کی باعظمت روح ان آیات بینات ما مشاہدہ کرکے اور بھی عظمت و بزرگی پالے اور انسانوں کی ہدایت کے لیے آپ خوب تیار ہوجائیں ۔یہ سفر معراج بعض کوتاہ فکر لوگوں کے خیال کے بر عکس اس لیے نہ تھا کہ آپ خدا کو دیکھیں ۔ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ خدا آسمانوں میں رہتا ہے ۔
بہر حال اگر چہ رسول الله عظمت الٰہی کو پیچانتے تھے اور اس کی خلقت کی عظمت سے بھی آگاہ تھے لیکن بقولے:ولی
شنیدن کی بود مانند دیدن
سورہ نجم کی آیات میں بھی اس سفر کے آخری حصے یعنی معراج آسمانی کی طرف اشارہ کیا گیاہے ۔
ارشاد ہوتا ہے:(
لَقَد رَاٰی مِن اٰیَاتِ رَبِّهِ الکُبرٰی
)
اس سفر میں اس نے اپنے رب کی عظیم آیات دیکھیں ۔
(۷) ” بارکناحولہ “یہ مطلب واضح کرتا ہے کہ مسجد الاقصیٰ علاوہ اس کے کہ خود مقدس ہے اس کے اطراف کی سرزمین بھی مبارک اور با برکت ہے ۔یہ اس کی ظاہری برکات کی طرف اشارہ ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ سر سبز و شاداب سرزمین ہے ۔درخت اس زمین پر سایہ فگن ہیں ۔پانی وہاں جاری رہتا ہے اور یہ ایک آباد علاقہ ہے ۔
(۸)جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ’ ’اِنَّہ ھُوَالسَّمِیعُ الْبَصِیر“کا جملہ اس طرف اشارہ ہے کہ رسولالله کو اس نعمت کی عطا بلا وجہ نہ بلکہ اس اہلبیت و لیاقت کے باعث تھی کہ جو آپ کی گفتار و کردار سے ہویدا تھی اور الله ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے ۔
(۹)ضمنی طور پر لفظ ”سبحان “اس بات کی دلیل ہے اور رسول الله کا یہ سفر بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ الله ہر عیب و نقص سے پاک و منزہ ہے ۔
( ۱۰)” من اٰیاتنا“میں لفظ”من“نشاندہی کرتا ہے کہ آیات عظمت الٰہی اس قدر زیادہ ہیں کہ اپنی تمام تر عظمت کے با وجود رسول الله (ص) نے اس با عظمت سفر میں صرف بعض کا ہی مشاہدہ کیا ۔
مسئلہ معراج
علماء اسلام کے در میان مشہور یہ ہے کہ رسول اکرم (ص) جس وقت مکہ میں تھے تو ایک ہی رات میں آپقدرت الٰہی سے مسجد الحرام سے مسجد المقدس میں ہے ۔وہاں سے آپ آسمانوں کی طرف گئے آسمانی وسعتوں میں عظمت الٰہی کے آثار مشاہدہ کیے اور اسی رات مکہّ واپس آگئے ۔
نیز یہ بھی مشہور ہے کہ یہ زمینی اور آسمانی سیر جسم اور روح کے ساتھ تھی البتہ یہ سیر چونکہ بہت عجیب و غریب اور بے نظیر تھی لہذا بعض حضرات نے اس کی توجیہ کی اور اسے معراج روحانی قرار دیا اور کہا کہ یہ ایک طرح کا خوا ب تھا یا مکاشفہ روحی تھا لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں یہ بات آیات کے ظاہری مفہوم کے بالکل خلاف ہے کیونکہ ظاہرِ آیات اس معراج کے جسمانی ہونے کی گواہی دتا ہے ۔
بہر حال اس بحث سے بہت سے سوالات پیدا پیدا ہوتے ہیو مثلاً:
۱ ۔ قرآن، حدیث اور تاریخ کی نظر سے معراج کی کیفیت کیا تھی؟
۲ ۔ شیعہ اور سنی علماء اسلام کا اس سلسلے میں کیا عقیدہ ہے؟
۳ ۔ معراج کا مقصد کیا تھا؟
۴ ۔ دور ححاضر کے علم اور سائنس کی رو سے معراج کا کیا امکان ہے؟
ان تمام مسائل کا کماحقہ، جائزہ پیش کرنا اگر چہ تفسیر کی حدود سے باہر ہے تاکہ ہم کوشش کریں گے کہ مختصراً ان تمام مسائل کو قارئین محترم کے سامنے ذکر کریں ۔
۱ ۔ معراج۔ قرآن و حدیث کی نظر میں :
قرآن حکیم کی دں سں توں میں اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ پہلی سورت۔ یہی سورہ بنی اسرائیل ہے ۔ اس میں اس سفر کے ابتدائی حصے کا تذکرہ ہے ۔ یعنی مکہ کی مسجد الحرام سے بیت المقدس کی مسجدِ الاقصیٰ تک کا سفر۔
اس سلسلے کی دوسری سورت۔ سورئہ نجم ہے ۔ اس کی آیت ۱۳ تا ۱۸ میں معراج کا روسرا حصہ بیان کیا گیا ہے اور یہ آسمانی سیر کے متعلق ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے-:
(
وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً اٴُخْری عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَی عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاٴْوَی إِذْ یَغْشَی السِّدْرَةَ مَا یَغْشَی مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَی لَقَدْ رَاٴَی مِنْ آیَاتِ رَبِّهِ الْکُبْری
ٰ)
ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ۔
رسول اللہ نے فرشتہ وحی جبریل کو اس کی اصل صورت میں دوسری مرتبہ دیکھا (پہلے آپ اسے نزول وحی کے آغاز میں کوہِ حرا میں دیکھ چکے تھے) یہ ملاقات بہشت جاوداں کے پاس ہوئی ۔ یہ منظر دیکھتے ہوئے رسول اللہ کسی اشتباہ کا شکار نہ تھے ۔ آپ نے عظمت الٰہی کی عظیم نشانیاں مشاہدہ کیں ۔
یہ آیات کہ جو اکثر مفسرین کے بقول واقعہ معراج سے متعلق ہیں یہ بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ واقعہ عالم بیداری میں پیش خصوصاً ”مازاغ البصر و ما طغیٰ“ اس امرکا شاہد ہے کہ رسول اللہ کی آنکھ کسی خطا، اشتباہ اور انحراف سے دوچار نہیں ہوئی ۔
اس واقعے کے سلسلے میں مشہور اسلامی کتابوں میں بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں ۔
علماء اسلام نے ان روایات کے تو اتر اور شہرت کی گواہی دی ہے ۔ ہم نونے کے طور پر چند روایات ذکر کرتے ہیں :
۱ ۔ عظیم فقیہ و مفسر شیخ طوسی تفسیر تبیان میں زیر بحث آیت کے ذیل میں کہتے ہیں :
شیعہ علما کا مؤقف ہے کہ جس رات اللہ اپنے رسول کو مکہ سے بیت المقدس لے گیا اسی رات اس نے آپ کو آسمانوں کی طرف بلند کیا اور آپ کو اپنی عظمت کی نشانیاں دکھائیں اور یہ سب کچھ عالم بیداری میں تھا ،خواب میں نہ تھا ۔
۲ ۔ بلند مرتبہ مفسر مرحوم طبرسی اپنی تفسیر مجمع البیان میں سورہ نجم کی آیات کے ذیل میں کہتے ہیں :
ہماری روایات میں مشہور یہ ہے کہ اللہ اپنے رسول کو اسی جسم کے ساتھ عالم بیداری و حیات میں آسمانوں پر لے گیا اور اکثر مفسرین کا یہی عقیدہ ہے ۔
۳ ۔ مشہور محدث علامہ مجلسی بحار الانوار میں کہتے ہیں :
مسجد الحرام سے بیت المقدس کی طرف اور وہاں سے آسمانوں کی طرف رسول اسلام کی سیر ایسی بات ہے جس پر آیات قرآن اور شیعہ و سنی متواتر احادیث دلالت کرتی ہیں ۔ اس کا انکار یا اسے روحانی معراج کہنا یا عالم خواب کی بات قرار دینا ۔ آئمہ ہریٰ (ع) کی احادیث سے عدم اطلاع یا یقین کی کمزوری کے باعث ہے ۔
اس کے بعد علامہ مجلسی مزید کہتے ہیں :
اگر ہم اس واقعے سے متعلقہ احادیث جمع کرنا چاہیں تو ایک ضخیم کتاب بن جائیگی ۔
۴ ۔ اہل سنت کے معاصر علماء میں سے الا زہر کے منصور علی ناصف مشہور کتاب ”التاج“ کے مصنف ہیں ۔ انہوں نے اس میں احادیث معراج کو جمع کیا ہے ۔
۵ ۔ مشہور فسر فخر الدین رازی نے زیر بحث آیت کے ذیل میں واقعہ معراج کے امکان پر بہت سی عقلی دلیلیں پیش کی ہیں ۔ دلائل ذکر کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں :
حدیث کے لحاظ سے احادیث معراج مشہور روایات میں سے عیں کہ جو اہل سنت کی کتب صحاح میں نقل ہوئی ہیں اور ان کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں کی سیر کی ۔
۶ ۔ شیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز ادارہ ”بحوث علمیہ و افتاء و دعوة و ارشاد“ کے سر براہ ہیں وہ دور حاضر کے متعصب وہابی علماء میں سے ہیں ۔ وہ اپنی کتاب ”التحذیر من البدع“ میں کہتے ہیں :
اس میں شک نہیں ہے کہ معراج ان عظیم نشانیوں میں سے ہے جو رسول کی صداقت اور بلند منزلت پر دلالت کرتی ہیں ۔
یہاں تک کہ وہ کہتے ہیں :
رسول اللہ سے اخبار متواتر نقل ہوئی ہیں کہ اللہ انہیں آسمانوں پر لے گیا اور آپ پر آسمانوں کے دروازے کھول دیئے ۔
اس نکتے کا ذکر کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ احادیث معراج میں بعض جعلی یا ضعیف ہیں کہ جو کسی طرح سے بھی قابل قبول نہیں ہیے یہی وجہ ہے کہ عظیم مفسر طبرسی مرحوم نے اسی زیر بحث آیت کے ذیل میں لحادیث معراج کو ان چار قسموں میں تقسیم کیا ہے:
(۱)وہ روایات جو متواتر ہونے کی وجہ سے قطعی ہیں مثلاً اصل واقعہ معراج۔
(۲) وہ احادیث کہ عقلی لحاظ سے جنہیں قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں اور وایات میں اس امر کی تصریح کی گئی ہے ۔ مثلاً صحن آسمان میں عظمتِ الٰہی کی بہت سی نشانیوں کا مشاہدہ کرنا ۔
(۳) وہ روایات جد ہمارے ہاں موجود اصول و ضوابط پر تو پوری نہیں اتر تیں البتہ ان کی توجیہ کی جاسکتی ہے ۔ مثلاً وہ احادیث جو کہتی ہیں کہ رسول الله نے آسمانوں میں ایک گروہ کو جنت میں اور ایک گروہ کو دوزخ میں ددیکھا ۔کہنا چاہئے کہ اہل جنت اور اہل دوزخ کی صفات دیکھیں (یا برزخ کی جنت اور دوزخ کی) ۔
(۴)وہ روایات جو نا معقول اور باطل امور پر مشتمل ہیں اور ان کی کیفیت ان کے جعلی ہونے پر گواہ ہے ۔ مثلاً وہ روایات جو کہتی ہیں کہ رسول الله نے خدا کو واضح طور پر دیکھا،اس کے ساتھ باتیں کیں اور اس کے پاس بیٹھے ۔ایسی احادیث کسی دلیل و منطق کے لحاظ سے درست نہیں ہیں اور بلاشبہ اس قسم کی روایات من گھڑت اور جعلی ہیں ۔
واقعہ معراج کی تاریخ کے سلسلے میں اسلامی مورخین کے درمیان اختلاف ہے ۔بعض کا خیال ہے کہ یہ واقعہ بعثت کے دسویں سال ۲۷ رجب کی شب پیش آیا ۔بعض کہتے ہیں کہ یہ بعثت کے بارہوں سال ۱۷ رمضان المبارک کی رات وقوع پذیر ہوا جبکہ بعض اسے اوائل بعثت میں میں ذکر کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے وقوع پذیر ہونے کی تاریخ میں اختلاف اصل واقعہ پر اختلاف میں حائل نہیں ہوتا ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ صرف مسلمان ہی معراج کا عقیدہ نہیں رکھتے، دیگر ادیان کے پیروکاروں میں بھی یہ عقیدہ کم و بیش موجود ہے ۔ ان میں سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں یہ عقیدہ عجیب تر صورت نظر آتا ہے جیسا کہ انجیل مرقس کے باب ۶ ، لوتا کے باب ۲۴ اور یوحنا کے باب ۲۱ میں ہے کہ:
عیسیٰ مصلوب ہونے کے بعد دفن ہوگئے تو مُردوں میں سے اٹھ کھڑے ہونے اور چالیس روز تک لوگوں میں موجود دہے پھر آسمان کی طرف چڑھ گئے(اور ہمیشہ کے لیے معراج پر چلے گئے) ۔
ضمناًیہ وضاحت بھی ہوجائے کہ بعض اسلامی روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض گذشتہ انبیاء کوبھی معراج نصیب ہوئی تھی ۔
معراج جسمانی تھی یا روحانی؟
شیعہ اور سنی علمائے اسلام کے در میان مشہور یہ ہے کہ یہ واقعہ عالم بیداری میں صورت پذیر ہوا ۔
سوورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت اور سورہ نجم کی موذکرہ آیات کا مظاہری مفہوم بھی اس امر کا شاہد ہے کہ یہ واقعہ بیداری کی حالت میں پیش آیا ۔
تواریخ اسلامی بھی اس امر پر شاہد صادق ہیں ۔ تاریخ کہتی ہے:
جس دقت رسول الله نے واقعہ معراج کا ذکر کیا تو مشرکین نے شدت سے اس کا انکار کردیا اور اسے آپ کے خلاف ایک بات بنا لیا ۔
یہ بات گواہی دیتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہرگز خواب یا مکاشفہ روحانی کے مدعی نہ تھے ورنہ مخالفین اس قدر شور و غوغا نہ کرتے ۔
یہ جو حسن بصری سے روایت ہے کہ:کان فی المنام رؤیاً راٰها
یہ واقعہ خواب میں پیش آیا ۔
اور اسی طرح جو حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ:والله ما فقد جسد رسول الله و لکن عرج بروحه
خدا کی قسم بدن رسول اللہ ہم سے جدا نہیں ہوا صرف آپ کی روح آسمانوں پر گئی ۔
ایسی روایات ظاہراً سیاسی پہلو رکھتی ہیں ۔
____________________