تفسیر نمونہ جلد ۱۲

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 18006
ڈاؤنلوڈ: 3115


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18006 / ڈاؤنلوڈ: 3115
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 12

مؤلف:
اردو

چند اہم نکات

۱ ۔ چند الفاظ کا مفہوم:

”استفزز“”استفزاز“ کے مادہ سے تحریک کرنا اور ابھارنا کے معنی میں ہے ۔ اس میں سریع اور سادہ تحریک کا مفہوم پنہان ہے لیکن در اصل یہ لفظ قطع و برید کرنے کے معنی میں ہے ۔ اس لیے جب کوئی کپڑا یا لباس پھٹ جائے تو عرب کہتے ہیں :تفزز الثوب

تحریک پانے اور برانگیختہ ہونے کے معنی حق سے قطع ہونے اور باطل کی طرف ملتفت ہو جانے کی وجہ سے ہے ۔

”اجلب“”اجلاب“کے مادہ در اصل”جلبہ“ یعنی سخت قسم کی چیخ و پکار کے معنی میں ہے ۔”اجلاب“کے معنی ہے شور و غل مچا کر ہانکنا اور چَلانا ۔ بعض روایات میں ”جلب“سے منع کیا گیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰة جمع کرنے پر مامور شخص حقِ شرعی لینے کے لیے چراگاہ میں جائے تو چِلّائے نہیں کہ کہیں چراگاہ کے چوپائے وحشت زدہ ہوجائیں یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ گھڑ سواری کے مقابلے میں شریک کوئی بھی دوسرے کے گھوڑے کے سامنے غُل غپاڑہ نہ کرے تاکہ وہ خود دوڑ لگاتے ۔(۱)

”خیل“دو معانی میں آیا ہے ۔ گھوڑوں کے معنی میں اور گھڑ سواروں کے معنی میں ۔ یہاں البتہ دوسرے معنی میں ہے اور سوار لشکر کی طرف اشارہ ہے ۔

اس کے برعکس ”رجل“ پیادہ لشکر کے معنی میں ہے ۔

البتہ شیطان کا سوار اور پیادہ لشکر کسی باقاعدہ فوج کے مفہوم میں نہیں ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ خود اس کی اپنی جنس میں سے اور انسانوں میں سے بہت سے افراد گمراہی اور بے راہ روی پھیلانے کے لیے اس کے مددگار ارو ساتھی ہیں ۔اس کے ان مددگاروں میں بعض زیادہ طاقتور ہیں کہ جو سوار لشکر کی طرح ہیں اور بعض نسبتاً سست ہیں کہ جو پیادہ لشکر کی طرح ہیں ۔

۲ ۔ وسوسے کے لیے شیطانی ذرائع:

مندرجہ بالا آیات میں اگر چہ مخاطب شیطان ہے اور خدا تعالیٰ تہدید آمیز لہجے میں اس سے کہتا ہے کہ تجھ سے جو کچھ ہوسکتا ہے کرلے مختلف ذرائع سے بنی آدم کو گمراہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔ لیکن یہ درحقیقت تمام انسانوں کے لیے تنبیہ اور بیداری کا الارم ہے ۔ انہیں شیطانی ہتھکنڈوں سے آگاہ کیا گیا ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ وہ کس طرح وسوسے پیدا کرتا ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں شیطانی ذرائع کے چا اہم اور بنیادی حصوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور انسانوں سے فرمایا گیا ہے کہ وہ ان سے خبردار رہیں :

الف۔ شیطانی کا پہلا ہتکھنڈا پراپیگنڈا ہے:

ابھی ہم نے پڑھا ہے:”( واستغفزز من استطعت منهم بصوتک )

بعض مفسرین نے اس جملے سے صرف ہوس انگیز گانوں اور موسیقی کا مفہوم لیا ہے لیکن اس کا مفہوم وسیع تر ہے ۔ اس میں سمعی اور صوتی ذرائع سے کیا جانے والا تمام تر گمراہ کن پراپیگنڈا شامل ہے ۔ آج کی دنیا ریڈیو اور ٹیلی ویڑن کی دنیا ہے ۔ آج کی دنیا وسیع سمعی و بصری کی دنیا ہے ۔ آج کی دنیا میں آواز کے ذریعے کو استعمال کررہے ہیں ۔ یہ لوگ بہت زیادہ دولت اسی راستے پر خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہِ حق سے گمراہ کرسکیں ، وہی راہِ حق کہ جو حریت و استقلال اور ایمان و تقویٰ کی راہ ہے ۔ وہ انسانوں کو بے ارادہ اور کمزور غلاموں میں بدل دینا چاہتے ہیں ۔

ب۔ شیطان کا دوسرا ہتھکنڈا فوجی قوت کا استعمال ہے:

شیطان کا یہ طرز عمل صرف ہمارے زمانے ہی میں نہیں ۔ فوجی طاقت ہمیشہ سے ظالموں اور جابروں کا اہم اور خطرناک ہتھیار رہا ہے ۔ جب بھی وہ ضرورت محسوس کرتے ہیں فوری طور پر اپنی مسلح طاقتوں کو پکارتے ہیں اور ان علاقوں کی طرف روانہ کردیتے ہیں جہاں وہ محسوس کرتے ہیں کہ لوگوں میں آزادی اور استقلال کی تڑپ پیدا ہورہی ہے اور خطرہ ہے کہ وہ پھر سے آزادی حاصل نہ کرلیں ۔

۱ ۔ امریکہ نے ایران کے خلاف یہ فوج تیار کی تھی اسے انگریزی میں Rapid Deplyed Army کا نام دیا گیا تھا ۔ (مصحح) ۔

خود آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ سریع الحرکت فوج(۱) تیار کی گئی ہے جو بالکل ”اجلاب“ کا مفہوم رکھتی ہے ۔ اسی طرح مغرب کی بعض دیگر طاغوتی طاقتوں نے بھی خاص فوج تیار کی ہے تاکہ دنیا کے جس کسی حصے میں بھی ان کے غیر شرعی شیطانی مفادات کو خطرہ ہو اُسے وہاں بھیج سکیں اور حق کی ہر آواز اور حرکت کو دبا سکیں ۔ یہ جاسوس درحقیقت ان کا پیادہ لشکر ہے ۔ یہ طاقتیں اس بات سے غافل ہیں کہ خدا کا اپنے سچے بندوں سے وعدہ ہے کہ شیطان اور اس کی فوج ہرگز ان پر غلبہ حاصل نہیں کرسکے گی۔

ج۔ اقتصادی ہتھکنڈا:

یہ ظاہراً انسانی طرزِ عمل معلوم ہوتا ہے لیکندر حقیقت شیطانی اثر و نفوذ کے لیے مالی و اقتصادی امور میں شرکت کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے ۔

بعض مفسرین نے اموال میں شرکت سے صرف سود اور اولاد میں شرکت سے صرف غیر شرعی اولاد مراد لیا ہے ۔(۲) حالانکہ ان کامفہوم بہت وسیع ہے جس میں ہر طرح کا حرام مال اور ہر طرح کی غیر شرعی اولاد وغیرہ شامل ہے ۔

ہم خود اپنے اس زمانے میں دیکھتے ہیں کہ عالمی شیطانی سامراجی انسان دشمن قوتیں کس کس طرح سرمایہ لگاتی ہیں ۔ یہ طاقتیں اقتصادی کمیٹیاں قائم کرتی ہیں کمزور ملکوں میں مختلف قسم کے کارخانے لگاتی ہیں اور پیدا واری مراکز قائم کرتی ہیں پھران کے ذریعے طرح طرح کے خطرناک کھیل کھیلتی ہیں ۔ یہ طاقتیں فنی اور اقتصادی ماہرین کے نام پر ان ملکوں میں اپنے جاسوس بھیجتی ہیں اور ہمدرد بن کر ان ملکوں کے خون کا آخری قطرہ تک چوس لیتی ہیں ۔ یہ طاقتیں ان ملکوں میں ان ذرائع سے اقتصادی ترقی، استقلال اور خود مختاری پر ضرب لگاتی ہیں اور انہیں آگے نہیں بڑھنے دیتیں ۔

اسی طرح یہ شیطانی قوتیں اسکولوں ، کالجوں ، لائبریریوں ، ہسپتالوں اور سیاحت کے راستے ان کی اولاد میں شرکت کرتی ہیں ۔ ان ممالک میں بعض افراد کو اپنے ہاں اعلیٰ تعلیم کے نام پر بلاتی ہیں اور ان ملکوں کے جوانوں کو اپنی تمدن و ثقافت کے رنگ میں پوری طرح رنگ لیتی ہیں اور اس طرح ان کے افکار و نظریات میں شریک ہوجاتی ہیں ۔

لیکن جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے اس قسم کی تفاسیر بعض واضح مصادیق کو بیان کرتی ہیں البتہ آیت کا مفہوم انہی میں منحصر نہیں ہے ۔ تفسیر نور الثقلین ج ۳ ص ۱۸۴ کی طرف رجوع کریں ۔

یہ شیطان برائی کے مراکز بھی قائم کرتے ہیں ۔ انٹر نیشنل ہوٹلوں ، جدید تفریحی کلبوں ، سینماؤں اور گمراہ کن فلموں کے ذریعے قوموں کا اخلاق تباہ کرتے ہیں ۔ صرف ان ذرائع سے برائیوں ہی کو جنم نہیں دیتے بلکہ غیر شرعی اولاد میں بھی اضافے کا باعث بنتے ہیں بلکہ ان ذرائع سے یہ شیطان ایک بھٹکی ہوئی، بے راہ رو، بے ارادہ، اوباش اور ہوس پرست نسل کو پروان چڑھاتے ہیں ۔

ان کے طور طریقوں پر ہم جتنا گہرا غور کریں گے اتنا زیادہ ان کے خطرناک شیطانی وسوسوں کی گہرائی سے آشنا ہوں گے ۔

____________________

۱۔ مفردات راغب اور مجمع البیان کی طرف رجوع کریں ۔

۲۔ ان آیات کے بارے میں وارد روایات میں بھی شیطان کے شریک اولاد ہونے کا مفہوم۔ غیر شرعی اولاد یا وہ اولاد جن کا نطفہ مالِ حرام سے بنا اور یا نطفہ ٹھہرتے وقت جن کے ماں باپ یادِ خدا سے غافل تھے، بیان کیا گیا ہے ۔

د۔ نفسانی تباہی کے شیطانی پروگرام:

مغرورکرنے والے اور طرح طرح کے پُر فریب وعدے، شیطانوں کا ایک اور چلن ہیں ۔ انہوں نے لوگوں کو فریب دینے کے لیے بڑے بڑے ماہرین نفسیات رکھے ہوئے ہیں ۔ ان کا کام لوگوں کو حقائق سے غافل کرنا ہے ۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ عظیم تمدن کا دروازہ تم سے چند قدم دور ہے ۔ کبھی سمجھاتے ہیں کہ تم جلد ہی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوجاؤ گے ۔ کبھی کہتے ہیں کہ تمہاری قوم بڑی عظیم ہے جو اس پروگرام پر عمل کرکے اوج عظمت تک جا پہنچے گی۔ وہ پسماندہ قوموں اور لوگوں کو انہی تصورات میں لگائے رکھتے ہیں اور یہ سب کام ”وعدہم“کا مصداق ہیں ۔

کبھی وہ اس کے برعکس دوسرا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ تحقیر و تضعیف کرتے ہیں ۔ چھوٹے او ر کمزور ملکوں سے کہتے ہیں کہ تم بڑی عالمی طاقتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ تمہارے اور ترقی یافتہ ممالک میں سینکڑوں سالوں کا فرق ہے ۔ اس طرح یہ شیطان انہیں ہمت و کوشش سے روکتے ہیں ۔

یہ قصّہ بہت طویل ہے ۔ شیطان اور اس کے لشکروں کے نفوذ کا کوئی ایک طریقہ نہیں ۔

یہ وہ مقام ہے کہ جہاں ”عباد اللّٰہ“ اور خدا کے سچے بندے ہمت نہیں ہارتے، ان کے وہ جذبے اسی طرح سلامت رہتے ہیں کہ جو وہ ان آیات سے حاصل کرتے ہیں ۔ ان آیات میں وہ خدا کا قطعی وعدہ دیکھتے ہوئے ان شیطانوں کے خلاف جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ان سے ذرہ بھر خوف نہیں کھاتے ۔ وہ جانتے ہیں کہ شیطانوں کا شور و غل جتنا زیادہ ہو اتناہی بے معنی اور کھوکھلا ہوتا ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ قوت ایمان اور توکل علی اللہ سے ان سب پر کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے اور ان کے منصوبوں کو نقش بر آب کہا جاسکتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے:”( و کفٰی بربک وکیلاً )

خدا ان کا بہترین محافظ، نگہبان اور یارو مددگار ہے

۳ ۔ خدا نے شیطان کو کیوں پیدا کیا؟:

اس بارے میں سورہ بقرہ کی آیہ ۳۶ کی تفسیر میں ہم تفصیلی بحث کرچکے ہیں ۔ اسی طرح مختلف طرح کے شیطانی وسوسوں اور لفظ شیطان کے سلسلہ میں ج ۶ ص ۱۱۲ اور ج ۱ ص ۱۶۶ پر بحث کی جا چکی ہے ۔ (اردو ترجمہ)

آیات ۶۶،۶۷،۶۸،۶۹

۶۶( رَبُّکُمْ الَّذِی یُزْجِی لَکُمْ الْفُلْکَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ إِنَّهُ کَانَ بِکُمْ رَحِیمً ) -

۶۷( وَإِذَا مَسَّکُمْ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلاَّ إِیَّاهُ فَلَمَّا نَجَّاکُمْ إِلَی الْبَرِّ اٴَعْرَضْتُمْ وَکَانَ الْإِنْسَانُ کَفُورًا )

۶۸( اٴَفَاٴَمِنتُمْ اٴَنْ یَخْسِفَ بِکُمْ جَانِبَ الْبَرِّ اٴَوْ یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَاتَجِدُوا لَکُمْ وَکِیلًا )

۶۹( اٴَمْ اٴَمِنتُمْ اٴَنْ یُعِیدَکُمْ فِیهِ تَارَةً اٴُخْریٰ فَیُرْسِلَ عَلَیْکُمْ قَاصِفًا مِنَ الرِّیحِ فَیُغْرِقَکُمْ بِمَا کَفَرْتُمْ ثُمَّ لَاتَجِدُوا لَکُمْ عَلَیْنَا بِهِ تَبِیعً ) -

ترجمہ

۶۶ ۔ تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمہارے لیے دریا میں کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤ۔ وہ تمہارے لیے مہربان ہے ۔

۶۷ ۔ اور جس وقت تمہیں دریا میں کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے تو اس کے سوا ہر ایک کو بھول جاتے ہو لیکن جس وقت وہ تمہیں بچا کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو منہ پھیر لیتے ہو اور انسان (نعمتوں کا)کفران کرنے والا ہے ۔

۶۸ ۔ کیا تم اس سے مامون ہو کہ وہ خشکی پر (ایک شدید زلزلے کے ذریعے) تمہیں زمین میں دھنسا دے یا تم پر سنگریزوں کا طوفان بھیج دے اور (تمہیں اس میں دفن کردے اور) پھر تمہیں کوئی محافظ (اور مددگار) نہ ملے ۔

۶۹ ۔ یا کیا تم اِس سے مامون ہوکہ وہ پھر تمہیں دریا کی طرف پلٹادے، تمہاری طرف شدید آندھی بھیج دے اور تمہیں تمہارے کفر کی وجہ سے غرق کردے یہاں تک کہ کسی ایسے شخص کو بھی پیدا نہ کرے کہ جو تمہارے خون کا مطالبہ کرے ۔

نعمتوں کے باوجود کفران کیوں ؟

اس سے قبل توحید کے بارے میں شرک کے خلاف بحث ہوچکی ہے ۔ زیرِ نظر آیات بھی اس بحث کا تسلسل ہیں ۔ ان آیات میں اس موضوع پر دو حوالے سے بحث کی گئی ہے ۔ ایک استدلال و برہان کے حوالے سے اور دوسرے وجدان و ضمیر کے حوالے سے ۔

پہلا توحیدِ استدلالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: تمہارا پروردگار وہ ہے کہ جو دریا میں کشتی کو حرکت عطا کرتا ہے، ایک مسلسل اور دائمی حرکت( رَبُّکُمْ الَّذِی یُزْجِی لَکُمْ الْفُلْکَ فِی الْبَحْر ) ۔

واضح ہے کہ دریا یا سمندر میں کشتیوں کے چلنے کے لیے بہت سے باہم پیوستہ نظام موجود ہیں ۔ ایک طرف پانی کو مرکب کی طرح پیدا کیا گیا ہے ۔ دوسری طرف بعض چیزوں کا مخصوص وزن پانی سے بہت ہلکا ہے، اس طرح سے کہ وہ پانی کے اوپر رہ سکیں یا پھر انہیں ایسی شکل میں بنایا جاسکتا ہے کہ عملی طور پر ان کا وزن پانی سے کم ہوجائے بلکہ یہاں تک کہ بھاری بوجھ اور بہت سے انسانوں کو اٹھا سکیں ۔ تیسری طرف کشتی کو حرکت دینے والی قوت کی ضرورت ہے ۔ پُرانے زمانے میں یہ ضرورت منظم ہوا ئیں پورا کرتی تھیں ۔ یہ ہوائیں سمندروں پر ایک خاص نظم کے ساتھ چلتی ہیں ۔ ملاح ان سے آشنائی حاصل کرکے ان کے ذریعے بادبانی کشتیوں کو چلاتے ہیں راہوں کو پہنچاننے کے لیے سورج اور ستاروں سے مدد لیتے تھے اور آج کے دور میں قطب نما اور نقشوں سے ۔

بہر حال اگر یہ چاروں امور باہم مربوط نہ ہوتے اور کشتیوں کو چلانے کے لیے آپس میں ہم آہنگ نہ ہوتے تو انسان نقل و حمل کے اس انتہائی اہم وسیلے سے محروم ہوتا ۔

آپ جانتے ہیں کہ کشتیاں ہمیشہ سے انسان کے لیے نقل و حمل اور آمد و رفت کا ایک انتہائی اہم وسیلہ رہی ہیں ۔ آج تو ایسے ایسے بحری جہاز ہیں جو اپنے آپ میں ایک چھوٹے سے شہر کے برابر ہوتے ہیں ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: اور یہ سب کچھ اس لیے ہے تاکہ تم فضل خدا سے بہرہ مند ہو( لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِه ) ۔اپنی آمد و رفت کے لیے، مالِ تجارت کی نقل و حمل کے لیے اور دین و دنیا میں تمہاری مدد کیلئے ”کیونکہ پروردگار تم پر مہذبان ہے“( إِنَّهُ کَانَ بِکُمْ رَحِیمًا ) ۔

نظام خلقت کے ایک چھوٹے سے گوشے کے حوالے سے یہ توحید استدلالی کے بارے میں بات تھی۔ اس میں خالق کے علم، قدرت اور حکمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ اب بات کا رخ استدلال فطری کی طرف مڑتا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: کہیں بھول نہ جانا کہ ”جب کبھی تم کسی دریا یا سمندر میں ہوتے ہو اور تمہیں پریشانیاں اور مشکلات آگھیرتی ہیں (اور تم وحشت ناک طوفانی لہروں میں گھِر جاتے ہو)“ تو وہ تمام معبود تمہیں بھول جاتے ہیں جنہیں تم خدا کے علاوہ پکارتے ہو اور وہی ایک تمہارا سہارا رہ جاتا ہے( وَإِذَا مَسَّکُمْ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُونَ إِلاَّ إِیَّاهُ ) ۔ اور ایسے میں انہیں کھوہی جانا چاہیے کیونکہ طوفانی حوادث میں جب تقلید و تعصب کے پردے فطرتِ انسانی کے چہرے سے ہٹتے ہیں تو نور فطرت چمکنے لگتا ہے، وہی نور فطرت کہ جو نورِ توحید، نورِ خدا پرستی اور نور یگانہ پرستی ہے ۔ جی ہاں ! ایسے لمحات میں تمام تصوراتی و خیالی معبود کہ جنہیں انسانی تو ہم نے وجود بخشا ہوتا ہے ذہن سے محو ہوجاتے ہیں ، اس طرح سے جیسے تیز دھوپ میں برف پانی ہوجاتی ہے ۔

یہ ایک عمومی قانون ہے کہ جس کا تقریباً ہر شخص نے تجربہ کیا ہے کہ مصائب و آلام کی شدت میں جب جان پر بن جاتی ہے، اس وقت تمام ظاہری اسباب بیکار ہوجاتے ہیں اور مادی امداد و ناتوان ہوجاتی ہے ۔ ایسے میں انسان علم و قدرت کے عظیم مبداء کو یاد کرتا ہے کہ جو سخت ترین مشکلات کو حل کرنے پر قادر ہے ۔

ہمیں اس سے سروکار نہیں کہ اس مبداء کا نام کیا رکھتے ہیں ۔ ہم اتنا جانتے ہیں کہ امید کا ایک دریچہ دل کی طرف کھل جاتا ہے اور ایک لطیف و طاقتور نور دل کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے ۔ انسانی روح و قلب کے اندر خداشناسی کا یہ ایک بہت ہی نزدیک راستہ ہے ۔(۱)

اس کے بعد مزید ارشاد ہوتا ہے:لیکن تم ایسے مرد و فراموش ہوکہ ”ادھر دست قدرت الٰہی تمہیں ساحل تک پہنچاتا ہے اور ادھر تم اس سے منہ پھیر لیتے ہو اور انسان در اصل ہے ہی کفران کرنے والا( فَلَمَّا نَجَّاکُمْ إِلَی الْبَرِّ اٴَعْرَضْتُمْ وَکَانَ الْإِنْسَانُ کَفُورًا ) ۔

ایک بار پھر غرور ، غفلت، اندھی تقلید اور تعصب کے پردے اس نور الٰہی کو چھپا دیتے ہیں اور گناہ و نافرمانی کا غبار اور مادی زندگی کی سرگرمیاں اس کا تابناک چہرہ پنہان کردیتی ہیں ۔

لیکن کیا تمہارا خیال ہے کہ خدا خشکی اور صحرا میں تمہیں عذاب شدید میں مبتلا نہیں کرسکتا ”کیا تم اس سے مامون ہوکہ اس کے حکم سے زمین پھٹ جائے اور تم اس میں دھنس جاؤ‘ ‘( اٴَفَاٴَمِنتُمْ اٴَنْ یَخْسِفَ بِکُمْ جَانِبَ الْبَرِّ ) ۔ اور کیا تم اس سے مامون ہوکہ تم پر پتھروں کی بارش ہو اور تم پتھروں کے نیچے دفن ہوجاؤ(جبکہ یہ ایسا عذاب ہے کہ جو غرقاب ہونے سے کئی گنا سخت تر ہے)اور پھر تمہیں کوئی محافظ و نگہبان بھی نہ ملے

( اٴَوْ یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَاتَجِدُوا لَکُمْ وَکِیلًا ) ۔

صحرا نور د اس بات سے خاص طور پر آشنا تھے کہ کبھی کبھی بیابان میں ایسے طوفان آتے ہیں کہ ریت اور سنگریزوں کے انبار اٹھائے ہوتے ہیں ، دیکھتے ہی دیکھتے نئے ٹیلے بن جاتے ہیں اور بعض اوقات تو اونٹوں کی قطار کی قطار ان کے نیچے دفن ہوجاتی ہے ۔ قرآن کی اس دھمکی کو یہ بیابان نورد زیادہ سمجھ سکتے تھے ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: اے بھول جانے والو! کیا تمہارا خیال ہے یہ تمہرا آخری بحری سفر تھا ”کیا اس سے مامون ہوکہ تمہیں تمہاری ضرورتیں پھر سمندر میں نہ لے جائےں اور وہاں خدا تباہ کن تیز ہواؤں کو حکم دے کہ تمہیں تمہارے کفر اور کفران نعمت کے باعث غرق کردیں اور اس وقت پھر یہ عالم ہوگا کہ کوئی تمہارے خون کا مطالعہ کرنے والا نہ ہوگا، کوئی نہ ہوگا جو کہے کہ ایسا کیوں ہوا“( اٴَمْ اٴَمِنتُمْ اٴَنْ یُعِیدَکُمْ فِیهِ تَارَةً اٴُخْریٰ فَیُرْسِلَ عَلَیْکُمْ قَاصِفًا مِنَ الرِّیحِ فَیُغْرِقَکُمْ بِمَا کَفَرْتُمْ ثُمَّ لَاتَجِدُوا لَکُمْ عَلَیْنَا بِهِ تَبِیعً ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ کم ظرف انسان:

بہت سے لوگ یہ کرتے ہیں کہ مشکلات میں تو خدا کو یاد کرتے ہیں لیکن راحت و آرام میں اسے بھول جاتے ہیں ۔ یہ لوگ حقائق زندگی پر توجہ نہیں دیتے لہٰذا انہیں بھول جانے کی راحت و آرام میں اسے بھول جاتے ہیں ۔ یہ لوگ حقائق زندگی پر توجہ نہیں دیتے لہٰذا انہیں بھول جانے کی عادت پڑچکی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی ان کی توجہ خدا اور حقائق زندگی کی طرف ہو تو یہ ان کی ایک استثنائی حالت ہوگی کہ جس کے لیے انتہائی شدید عوامل کی ضرورت ہے ۔ جب تک ان عوامل کے تحت کوئی غیر معمولی صورت حال باقی رہے گی انہیں خدایا درہے گا لیکن جو نہی وہ گھڑی ٹلے گی یہ لوگ اپنی انحرافی طبیعت کی طرف پلٹ آئیں گے اور اللہ کو بھول جائیں گے ۔ خلاصہ یہ کہ ایسے لوگ بہت کم ملیں گے جو سنگین و روح فرسا مشکلات میں اللہ کی باعظمت بارگاہ میں سر نہ جھکائیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس اضطراری بیداری اور توجہ کی کوئی قیمت نہیں ۔ صاحبانِ ایمان اور سچے مسلمان وہ ہیں جو راحت و مشکل میں ، سلامتی و بیماری میں ، خوشحالی و قحط میں ، اقتدار و زندان میں ۔ غرض ہر حالت میں اس کی یاد میں رہتے ہیں اور اصولی طور پر حالات کی تبدیلی ان پر ہرگز کوئی اثر نہیں کرتی۔ ان کی روح اس قدر عظیم ہے کہ سب کچھ ان کے اندر سما جاتا ہے جیسے حضرت علی علیہ السلام کی مثال ہے ۔ ان کی عبادت، ان کا زہد اور ان کی دردمندوں کی خبر گیری تخت و اقتدار پر بھی ایسی ہی تھی جیسی گوشہ تنہائی میں تھی، جیسا کہ آپ خود پرہیزگاروں کی صفات کے بارے میں فرماتے ہیں :

نزلت انفسهم منهم فی البلاء کالتی نزلت فی الرخاء

خوشی اور غمی میں ان کی ایک سی حالت رہتی ہے ۔(۲)

مختصر یہ کہ ایمان ، توجہ الی اللہ، توسل، عبادت، توبہ اور اللہ کے حضور سر تسلیم خم کی تبھی کوئی قدر و قیمت ہے جب یہ دائمی اور پائداری ہوں ۔ باقی رہا موسمی تو بہ اور موسمی عبادتیں کہ جو اضطراری حالت میں انجام دی جائیں یا اس حالت میں ئکہ جب ذاتی مفادات کا تقاضا ہو تو یہ سب بے فائدہ یا انتہائی کم قیمت ہیں ۔آیاتِ قرآنی میں ایسے لوگوں کی بارہا مذمت کی گئی ہے ۔

____________________

۱۔ توحید فطری کی تفصیل ”آفریدگار جہاں “میں مطالعہ کیجئے ۔ نیز سورہ نحل کی آیہ ۱۴ کی تفسیر میں بھی ہم اس مسئلے کی طرف اشارہ کرچکے ہیں ۔

۲۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۹۳-

۲ ۔ خدا کی حدود حکومت سے فراز ممکن نہیں :

بعض لوگ۔ مثلاً زمانہ جاہلیت کے بت پرست۔ صرف اس وت خدا کی طرف رُخ کرتے تھے جب کسی مشکل میں گرفتار ہوتے ہھے ۔ مثلاً کبھی وسط سمندر میں طوفان میں گھر جانے پر یا کسی خطرناک گھاٹی پر یا کسی شدید بیماری میں ، حالانکہ اگر صحیح طرح سے سوچا جائے تو ہر حالت میں ہر جگہ انسان کے لیے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے ۔

دریا ہو یا صحرا، سلامتی ہو یا بیماری، ہلاکت کے گھڑے کا سامنا ہو یا کوئی اور موقع۔ درحقیقت سب برابر ہیں ۔ ہوسکتا ہے زلزلے کا ایک مختصر سا جھٹکا ہمارے خانہ امن و امان کو وحشت ناک ویرانے میں تبدیل کر دے ۔ خون کا ایک چھوٹا سا ذرہ ہمارے دل کی شہ رگ کو بند کرسکتا ہے ۔ دل یا دماغ کے ایک ثانیے کے سکتے کی وجہ سے موت آسکتی ہے ۔ ان امور کی طرف توجہ کی جائے تو واضح ہوگا کہ خدا سے غفلت اور اس کی پاک ذات کو فراموش کردینا کس قدر جاہلانہ ہے ۔

وہ لوگ کہ جو اس مفروضے کے حامی ہیں کہ مذہب کی بنیاد خوف ہے، ہوسکتا ہے اس بات کو دستاویز کے طور پر پیش کریں کہ مختلف طبیعی عوامل کا خوف انسان کو خدا کے تصور کی طرف لے جاتا ہے اور ایسے خیالات کو تقویت پہنچاتا ہے ۔

قرآنی آیات نے ایسے اوہام کا جواب دیا ہے کیونکہ قرآن نے خداشناسی کی بنیاد کبھی اس مسئلے پر نہیں رکھی بلکہ اس کی بنیاد نظام خلقت کے مطالعے اور اس مطالعے کے ذریعے اس کی پاک ذات تک پہنچنے کو قرار دیا ہے ۔ یہاں تک کہ زیر بحث آیات میں ہم نے دیکھا ہے کہ توحید فطری سے پہلے ایمان استدلالی کے بارے میں بات کی گئی ہے اور در حقیقت ان حوادث کو خدایا دلانے والے شمار کیا گیا ہے نہ کہ اس کی شناحت و معرفت کا موجب کیونکہ حق طلب افراد کے لیے اس کی شناخت و معرفت طریقِ استدلال سے بھی واضح ہے اور راہِ فطرت سے بھی واضح ہے اور راہِ فطرت سے بھی آشکار ہے ۔

۳ ۔ چند الفاظ کا مفہوم:

”یزجی“جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ”ازجاء“ کے مادہ سے کسی چیز کو مسلسل حرکت دینے کے معنی میں ہے ۔

”حاصب“ایسی ہوا کو کہتے ہیں کہ جو سنگریزوں کو اپنے ہمراہ اٹھالائے اور ان کے ٹیلے بنادے ۔ یہ لفظ در اصل ”حصباء“ سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے ”سنگریزہ“۔

”قاصف“ توڑنے والے کے معنی میں ہے ۔ یہاں ایسی شدید آندھی کی طرف اشارہ ہے کہ جو ہر چیز کو درہم برہم کرکے رکھ دے ۔

”تبیع“”‘تابع‘ کے معنی میں ہے ۔ یہاں ایسے شخص کی طرف اشارہ ہے کہ خون یا خونبہا کا مطالبہ لے کر اٹھ کھڑا ہو اور اس کا پیچھا کرے ۔