سعادت کا بالکل سیدھا راستہ
گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل، ان کی آسمانی کتاب تورا ت، ان کی طرف سے احکام الہٰی خلاف ورزی اور اس سلسلے میں ان کی سزاؤں سے متعلق گفتگو تھی۔اب مسلمانوں کی آسمانی کتاب قرآن مجید کی طرف بات کا رخ موڑاگیا ہے کہ جو کتب آسمانی کی آخری کڑی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: یہ قرآن لوگوں کو مستقیم ترین اور بالکل سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے(
إِنَّ هٰذَا الْقُرْآنَ یَهْدِی لِلَّتِی هِیَ اٴَقْوَمُ
)
۔
”اقوم“ ”قیام “کے مادہ سے ہے اور چونکہ انسان جب کسی اہم کام کو انجام دینا چاہتا ہے تو قیام کرتا ہے اور کام شروع کردیتا ہے اسی لحاظ سے احسن طریقے اور تندہی سے انجام دینے کے لیے ”قیام“ بطور کنایہ استعمال ہوا ہے ۔
ضمناً یہ بھی کہہ دیا جائے کہ لفظ” استقامت“ بھی اسی مادے سے ہے اور”قیم“بھی اسی مادے سے ہے جس کا معنی ہے صاف و شفاف،مستقیم،ثابت اور ٹھوس۔
”اقوم“چونکہ افعل التفضیل کا صیغہ ہے لہٰذا صاف تر،مستقیم تر اور بالکل سیدھا کے معنی میں ہے ۔ اس لحاظ سے زیر بحث آیت کا مفہوم یہ ہوگا:
قرآن ایسے راستے کی طرف دعوت دیتا ہے جو زیادہ مستقیم، زیادہ صاف اور زیادہ محفوظ و مضبوط ہے ۔
قران کے پیش کردہ عقائد صاف اور مستقیم ہیں ،روشن و واضح ہیں ،قابل ادراک ہیں ، ہر قسم کے ابہام اور خرافات سے پاک ہیں ۔وہ عقائد کہ جو عمل کی دعوت دیتے ہیں انسانی صلاحیتوں کو مجتمع کرتے ہیں اور انسان اور عالم فطرت کے قوانین میں ہم آہنگی بر قرار رکھتے ہیں ۔
یہ قرآن زیادہ صاف اور زیادہ مستقیم ۔اس لحاظ سے کہ ظاہر و باطن،عقیدہ و عمل،فکر و نظر اور طرز حیات کے در میان یکجہنی پیدا کرکے سب کوالله کی طرف دعوت دیتا ہے ۔
یہ قرآن صاف تر اور مستقیم تر ہے ۔سماجی ،اقتصادی اور سیاسی نظام اور قوانین کے اعتبار سے ۔ اس کا نظام تمام روحانی پہلوؤں کی بھی پرورش کرتا ہے اور مادی لحاظ سے بھی کمال و ارتقاء آفرین ہے ۔
یہ قرآن عبادت میں بھی افراط و تفریط سے بچاتا ہے ۔
اسی طرح قرآن کا اخلاقی نظام بھی ہر طرح کے افراط و تفریط سے محفوظ رکھتا ہے ۔ حرص اور طمع سے بھی بچاتا ہے، اسراف اور فضول خرچی سے بھی نجات دلاتا ہے، بخل اور کنجوسی سے بھی محفوظ رکھتا ہے، حسد سے بھی دوکتا ہے کمزور بن جانے اور دوسروں کو کمزور کرکے خود بڑا بن بیٹھنے سے بھی بچانا ہے ۔
یہ قرآن صاف تر اور مستقیم تر ہے ۔ اپنے پیش کردہ نظام حکومت کے لحاظ سے کہ جو عدل و انصاف پر مبنی ہے اور ظلم اور ظالموں کی سرکوبی کرتا ہے ۔
جی ہاں !قرآن ایسے راستے کی ہدایت کرتا ہے جو ہر لحاظ سے زیادہ صاف،زیادہ مستقیم،زیادہ محفوظ اور زیادہ مضبوط ہے ۔
یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ ”افعل التفضیل
“کا صیغہ یہ معنی دیتا ہے کہ دوسری اقوام کے مذاہب میں بھی استقامت اور عدالت کی خوبیاں موجود تھیں جبکہ قرآن میں ان کی نسبت زیادہ ہیں لیکن چند پہلوؤں کی طرف توجہ کرنے سے یہ مسئلہ واضح ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ:
اولاً: اگر موازنہ دوسرے آسمانی ادیان کے ساتھ ہو تو۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں سے ہر ایک اپنے زمانے میں صاف،مستقیم اور مضبوط دین تھا لیکن تکامل و ارتقاء کے مطابق جب ہم آخری مرحلے یعنی مرحلہ خاتمیت تک پہنچیں گے تو ایسا دین موجود ہوگا کہ جو صاف تر، مستقیم تر اور مضبوط تر ہوگا ۔
ثانیاً: اگر موازنہ دیگر آسمانی مذاہب کی بجائے دیگر مذاہب سے ہو تو بھی”افعل التفضیل
“ با معنی ہوگا کیونکہ ہر مکتب و مذاہب کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم از کم ان خوبیوں کا لحاظ رکھیں لیکن ان میں موجود کوتاہیوں ، خرابیوں اور انحرافوں کو مجموعی طور پر دیکھا جائے اور پھر قرآن سے ان کا موازنہ کیا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ یہ دین زیادہ صاف اور انسان کی روحانی و مادی ضروریات سے زیادہ ہم آہنگ ہے لہٰذا یہ زیادہ مضبوط اور زیادہ محفوظ ہے ۔
ثالثاً: جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ”افعل التفضیل
“ کا صیغہ ہمیشہ اس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ لازماً کسی چیز سے موازنہ کیا جارہا ہے اور لازماًدوسری طرف کوئی چیز اس کے کچھ مفہوم کی حامل ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
(
اَفَمَنْ یَّهْدِیٓ اِلَی الْحَقُّ اَنْ یُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّا یَهِدِّیٓ اِلَّا ٓاَنْ یُّهْدٰی
)
جو شخص حق کی طرف دعوت دیتا ہے کیا رہبری کا وہ زیادہ حق رکھتا ہے اور زیادہ اہل ہے یا وہ شخص جو حق کے راستے کا راہی ہی نہیں ۔ (یونس۔ ۳۵)
ضمنی طور پر اس نکتے کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ” اقوم“ کا ایک معنی زیادہ ثابت اور زیادہ محفوظ و مضبوط ہے نیز آیت کی عبارت میں موازنے کے طور پر کسی دوسری چیز کا ذکر نہیں ہے جبکہ اصطلاح کے مطابق”متعلق کا حذف ہونا عمومیت و شمولیت کی دلیل ہے“ ان امور کی طرف توجہ کرنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ آیت ان آیات میں سے ہے جو اسلام اور رسول کی خاتمیت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں کیونکہ اس آیت کے مطابق یہ دین زیادہ ثابت، زیادہ باقی، زیادہ ٹھوس، زیادہ مضبوط اور زیادہ محفوظ ہے ۔ (غور کیجیے گا) ۔
اس مستقیم الٰہی پروگرام سے لوگوں کا تعلق چونکہ دو طرح ہے لہٰذا اس کے بعد اس رابطے اور تعلق کے نتیجے کا انہی دو حوالوں سے ذکر کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: جن با ایمان لوگوں نے نیک عمل انجام دئیے ہیں قرآن انہیں خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے(
وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِینَ الَّذِینَ یَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ اٴَنَّ لَهُمْ اٴَجْرًا کَبِیرًا
)
اور وہ کہ جو آخرت اور اس کی عظیم عدالت پر ایمان نہیں رکھتے (اور اس لیے انہوں نے اعمال صالح انجام نہیں دیئے) انہیں آگاہ کردیتا ہے کہ ان کے لیے دردناک عذاب ہم نے تیار کررکھا ہے(
وَاٴَنَّ الَّذِینَ لَایُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ اٴَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا اٴَلِیمًا
)
مومنین کے لیے بشارت کی تعبیر تو واضح ہے لیکن بے ایمان اور سرکش افراد کے لیے در حقیقت یہ ایک قسم کا استہزاء ہے یا پھر مومنین کے لیے بشارت ہے کہ ان کے دشمنوں کا یہ انجام ہوگا ۔
اس طرف بھی نظر جاتی ہے کہ مومنین کے لیے اجمالاً ”اجراًکبیراً
“ فرمایا گیا ہے جبکہ بے ایمان افراد کی سزاکے لیے صراحتاً ”عذابا الیماً
“ فرما گیا ہے ۔ان دونوں تعبیرات کا مفہوم اس قدر وسیع ہے کہ معنوی و مادی اور روحانی و جسمانی تمام پہلووں پر محیط ہے ۔
رہی یہ بات کہ دوزخیوں کی صفات میں سے صرف”آخرت پر ایمان نہ لانے“کی نشاندہی کی گئی ہے جبکہ ان کے اعمال کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔ہو سکتا ہے کہ یہ اس بناء پر ہوکہ اگر انسان اس عظیم عدالت پر ایمان رکھتا ہو تو گناہوں سے بچانے کے لیے یہ ایمان سب سے زیادہ مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے ۔ اس سے قطع نظر انکار قیامت کا مطلب انکارِ خدا بھی ہے کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ عادل و حکیم خدا اس جہان کے لوگوں کو ان حالات میں کہ جو ہم دیکھ رہے ہیں ، ان کی حالات پر چھوڑدے اور کوئی دوسرا جہاں موجود نہ ہو۔یہ امر نہ اس کی حکومت سے مطابقت رکھتا ہے اور نہ اس کی عدالت سے ۔علاوہ ازیں آیت میں موجود جزاء سزا کے بارے میں گفتگو جاری ہے اور یہ گفتگو آخرت اور عدالتِ الٰہی کے مسئلے سے مناسبت رکھتی ہے اس لیے یہاں آخرت پر ان کے ایمان نہ لانے کا ذکر کیا گیا ہے ۔
اگلی آیت میں گزشتہ بحث کی مناسبت سے بے ایمانی ایک اہم علت بیان کی گئی ہے اور وہ مختلف امور کے بارے میں درکار آگاہی کا نہ ہونا ۔ ارشاد ہوتا ہے: جیسے انسان بھلائی کا خواہشمند ہوتا ہے اسی طرح جلد بازی کرتے ہوئے اور درکار آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے برائی طلب کرنے لگتا ہے(
وَیَدْعُ الْإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَائَهُ بِالْخَیْر
)
۔
کیونکہ انسان پر جلد باز ہے(
وَکَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا
)
۔
اس مقام پر ”دعا“کا ایک وسیع مفہوم ہے اور اس میں ہر قسم کی خواہش و طلب شامل ہے چاہے زبان سے ہو یا عمل سے ۔
در حقیقت زیادہ سے زیادہ اور جلد منافع کے حصول کی تڑپ اس امر کا سبب بنتی ہے کہ مسائل کے تمام پلوؤں کے بارے میں غور و فکر اور تحقیق و مطالعہ نہیں کرتا اور بسا ایسا ہوتا ہے کہ اس جلد بازی کے باعث انسان حقیقی فائدے اور منافع کی تمیز نہیں کر پاتا بلکہ خواہشات کی سرکش اور بے تابی حقیقت کا چہرہ چھپادیتی ہے اور انسان اپنی بھلائی کی بجائے برائی کے پیچھے چل نکلتا ہے ۔ اس حالت میں جس طرح انسان الله سے بھلائی کا تقاضا کرتاہے عدم معرفت اور غلط پہچان کے باعث برائیوں کا بھی تقاضا کرنے لگتا ہے اور جس طرح بھلائی کے لیے کوشش کرتا ہے برائی کے بھی پیچھے چل پڑتا ہے ۔یہ نوع انسانی کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت ہے اور سعادت کے راستے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔
کتنے ہی ایسے لوگ ہیں کہ جو جلد بازی کی وجہ سے خطرناک گڑھوں میں گرجاتے ہیں ۔ اپنے تئیں وہ امن و خوشحالی کے راستے پر جارہے ہوتے ہیں لیکن بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ منزل سعادت کے تصور میں برائیوں اور بدبختیوں میں جا پڑتے ہیں افتخار و عزت کی بجائے ذلت و رسوائی کے پانیوں میں جا اتر تے ہیں ۔ یہ برا نتیجہ عجلت پسندی اور جلد بازی کا ہے ۔
جو کچھ ہم کہہ چکے ہیں اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ آیت کا مفہوم نہ لفظی دعا میں منحرف ہے اور نہ عملی طلب میں ۔ بلکہ یہ سب کچھ ایک جامع مفہوم میں موجود ہے ۔ لہٰذا اگر بعض مفسریں نے اسے کسی ایک حصے میں محدود کیا ہے تو اس کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے ۔ نیز اگر بعض روایات میں صرف لفظی دعا کا ذکر ہے تو وہ در اصل ایک مصداق کی نشاندہی ہے نہ کہ پورے مفہوم کا ذکر ہے ۔ جیسا کہ ایک حدیث میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
واعرف طریق نجاتک وھلاکک، کی لاتدعوا الله بشیء عسی فیہ ھلاکک، وانت تظن ان فیہ نجاتک، قال الله تعالیٰ ”(
وَیَدْعُ الْإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَائَهُ بِالْخَیْرِ وَکَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا
)
“
اپنی نجات اور اپنی ہلاکت کے راستے کو خوب پہچان لے تا کہ تو ا للهسے کسی ایسی چیز کا مطالبہ نہ کربیٹھے کہ جس میں تیری ہلاکت ہے جبکہ تیرا یہ گمان ہو کہ اسی میں تیری نجات ہے ۔ الله تعالیٰ کہتا ہے کہ انسان جس طرح سے بھلائی کی دعا کرتا ہے اسی طرح برائی کی طلب کرنے لگتا ہے کیونکہ انسان جلد باز ہے ۔
لہٰذا حیر و سعادت تک پہنچنے کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ انسان جو بھی کام کرنا چاہے بڑے غور و خوض،سمجھداری اور جلد بازی سے بچتے ہوئے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر کے اور اس سلسلے میں بے سوچے سمجھے فیصلوں سے بچے اور خواہشات نفسانی کی آلودگیوں سے اپنی رائے کو پاک رکھے پھر الله سے اس کام کے لئے مدد طلب کرے تا کہ منزل سعادت سے ہمکنار ہو سکے اور ہلاکت کے گڑھے میں نہ جا گرے ۔
اگلی آیت میں خلقت شب و روز، ان کی برکات اور علم میں ایک نظم وحساب کی موجودگی کے بارے گفتگو کی گئی ہے تا کہ توحید و معرفت الٰہی کی دلیل بھی بنے اور گزشتہ سے پیوستہ بحث قیامت کی بھی تکمیل ہوجائے اور اس کے علاوہ کاموں میں غور و حوض کرنے اور عجلت سے کام نہ لینے کے ضروری ہونے کے لیے بھی مشاہدہ بن سکے ۔ارشاد ہوتا ہے: رات اور دن کو ہم نے اپنی نشانیاں قرار دیا ہے(
وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ آیَتَیْنِ
)
۔
پھر ہم نے رات کی نشانی کو محو کردیا اور اس کی جگہ دن کی نشانی لے آئے کہ جو ضیاء بخش ہے(
فَمَحَوْنَا آیَةَ اللَّیْلِ وَجَعَلْنَا آیَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً
)
۔
اس سے ہمارے دو مقصد تھے ۔ پہلا یہ کہ” تم اپنے رب کے فضل سے بہرہ ور ہوجاؤ“(
لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّکُمْ
)
۔ رات کو آرام کرو اور دن میں کام کاج اور بھاگ دوڑ کرو اور اس کے نتیجہ میں نعمات الٰہی سے فائدہ اٹھاؤ۔
دوسرا یہ کہ اپنے کاموں کے نظم و حساب کے لیے سالوں کی تعداد اور مدت معین کرو اور وقت کا حساب کتاب اور تقسیم طے کرلو
(
وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ
)
۔
اور ہم نے سب کچھ مفصل اور واضح کردیا ہے(
وَکُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِیلًا
)
۔ تا کہ کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے ۔
”اٰیة اللیل“ اور ”ایةالنہار“ سے مراد خود رات دن ہیں اور ان میں سے ہر ایک پروردگار کی ایک نشانی ہے یا”آیة اللیل“ سے مراد چاند اور ”آیة النہار“ سے مراد سورج ہے ۔اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔لیکن آیت پر ہی غور و خوض کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ پہلی تفسیر صحیح ہے ۔
”وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ آیَتَیْنِ“ کی تعبیر اس بات کی دلیل ہے کہ ان میں سے ہر ایک اثباتِ وجود خدا کے لیے دلیل، ایک نشانی ہے اور آیتِ شب محو ہونے سے مراد یہ ہے کہ رات کے تاریک پردے دن کے اجالے کی وجہ سے چھٹ جاتے ہیں اور رات کے وقت جوکچھ چھپ جاتا ہے دن کے روشنی میں آشکار ہوجاتا ہے ۔
قرآن نے جو بعض دوسری آیات( یونس۔ ۵) میں سال اور مہینے کے حساب کے لیے سورج اور چاند کو پیمانہ اور ذریعہ قرار دیا ہے وہ ہمارے مذکورہ بیان کے منافی نہیں ہے کیونکہ انسانی زندگی میں نظم اور حساب کے پیدا ہونے کو رات دن کی طرف بھی نسبت دی سکتی ہے اور چاند سورج کی طرف بھی چونکہ یہ ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔ نہج البلاغہ کے خطبہ اشباح میں عظمتِ الٰہی کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
”وجعل الشمس آیة مبصرة لنهارها، وقمرها، آیة ممحوة من لییلها، واجراهما فی مناقل مجراهما، وقدر سیرهما فی مدارج درجهما، لیمز بین اللیل والنهار بهما، ولیعلم عدد السنین والحساب بمقادیرهما
“
سورج کو دن ضیاء بخش نشانی قرار دیا اور چاند کو رات کی محو کرنے والی نشانی بنایا اور ان دونوں کو رواں دواں کردیا ۔ ان کی حرکت کے مراحل مقرر کیے تا کہ رات اور دن کے درمیان فرق پیدا کرے اور دونوں سے حاصل کیے گئے حساب کتاب سے سالوں کا اندازہ لگا یا جاسکے ۔
یہ تفسیر بھی مذکورہ بالا پہلی تفسیر کے منافی نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں سال کے حساب کتاب کو رات دن سے بھی منسوب کیا جا سکتا ہے اور چاند سورج سے بھی کیونکہ دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔
____________________