آیات ۱۸،۱۹،۲۰،۲۱
۱۸(
مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِیهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِیدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ یَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا
)
۱۹(
وَمَنْ اٴَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعیٰ لَهَا سَعْیَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاٴُوْلٰئِکَ کَانَ سَعْیُهُمْ مَشْکُورًا
)
۲۰(
کُلًّا نُمِدُّ هَؤُلَاء وَهٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحْظُورًا
)
۲۱(
انظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلیٰ بَعْضٍ وَلَلْآخِرَةُ اٴَکْبَرُ دَرَجَاتٍ وَاٴَکْبَرُ تَفْضِیلًا
)
ترجمہ
۱۸ ۔ جو شخص (صرف)جلد گزر جانے والی( مادی دنیا)طلب کرتا ہے تو ہم اسے اس قدر دے دیتے ہیں ، جو ہم چاہیں اور جس مقدار کا اس کے بارے میں ارادہ کریں اس کے لیے دوزخ قرار دیں گے کہ وہ اس کی جلادینے والی آگ میں جلے گا( جبکہ وہ درگاہ الٰہی سے)راندہ اور مذموم ہوگا ۔
۱۹ ۔ اور جو شخص صرف آخرت کو چاہے اور اپنی سعی اور تلاش اس کے لیے انجام دے اور وہ ایمان بھی رکھتا ہو تو ( خدا کی طرف سے) اسے اس وتلاش جزا ملے گی۔
۲۰ ۔ ان میں سے ہرگروہ کو تیرے پروردگار کی عطا میں سے حصہ اور مدد ملے گی اور تیرے پروردگار کی عطا و بخشش کبھی کسی سے ممنوع قرار نہیں دی گئی۔
۲۱ ۔ دیکھو کس طرح ہم نے بعض کو(دنیا میں ان کی سعی اور تلاش کی وجہ سے)بعض دوسروں پر برتری عطا کی ہے اور آخرت کے درجات اور اس کی فضیلتیں تو اس کہیں زیادہ ہیں ۔
طالبان دنیا اور طالبان آخرت
گزشتہ آیات میں اوامرِ الٰہی کے مقابلے میں منکرین کی مخالفت اور پھر ان کی ہلاکت کے بارے میں گفتگو تھی۔ زیر نظر آیات میں اس سرکشی اور طغیان کے حقیقی سبب یعنی حبّ دنیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: جن لوگوں کی نظر اسی زود گزر مادّی دنیا پر ہے، ہم جس مقدار میں چاہتے ہیں اور اس کے لیے مناسب سمجھتے ہیں اسی زندگی میں اسے دے دیتے ہیں ، اس کے بعد اس کے لیے ہم جہنم قرار دیں گے کہ جس کی آگ میں وہ جلے گا اس حالت میں کہ وہ رحمت الٰہی کی درگاہ سے راندہ اور مذموم ہوگا(
مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِیهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِیدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ یَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا
)
”عاجلة“کا معنی ہے جلد گزر جانے والی نعمتیں یا زود گزر دنیا ۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ یہ نہیں فرمایا کہ جو شخص دنیا کے پیچھے جائے گا، وہ جو کچھ چاہے گا اس تک پہنچ جائے گا بلکہ اس کے لیے دو شرطیں بیان کی گئی ہیں پہلی یہ کہ وہ جو چاہے گا اس کا کچھ حصہ اسے ملے گا، اتنا ہی جتنا ہم چاہیں گے(ما نشاء) ۔
دوسری یہ کہ سب لوگ بھی یہ حصہ نہیں پا سکیں گے، بلکہ ان میں سے کچھ متاع دنیا کے ایک حصے تک پہنچیں گے وہی کہ جن کے بارے میں ہم چاہیں گے(
لمن نرید
)
۔
اس طرح نہ تمام دنیا پرست دنیا تک پہنچیں گے اور نہ ہی پہنچ پانے والے اتنی دنیا حاصل کرسکیں گے جتنی وہ چاہیں گے ۔
روزمرہ کی زندگی میں بھی ہم اس امر کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ کتنے لوگ شب و روز دوڑتے رہتے ہیں لیکن کہیں نہیں پہنچتے اور کتنے افرادہیں جو اس دنیا میں بڑی بڑی آرزوئیں رکھتے ہیں مگر ان میں سے کچھ ہی کی تکمیل ہوتی ہے ۔
یہ امر دنیا پرستوں کے لیے تنبیہ ہے کہ اگر تم خیال کرتے ہو کہ آخرت کو دنیا کے بدلے بیچ کر اپنامقصد حاصل کر لوگے تو یہ تمہاری بہت بڑی غلطی ہے ۔ ایسا کبھی نہ ہوسکے گا ۔ مقصد کا کچھ حصہ ہی تمہیں ملے گا ۔
ویسے بھی انسان کی آرزوؤں کا دامن اتنا وسیع ہے کہ محدود عالم مادہ میں وہ سب پوری نہیں ہو سکتیں ۔ ایک شخص کو سازی دنیا مل جائے تو بھی اکثر وہ سیر نہیں ہوتا ۔
رہے وہ لوگ کہ جو کوششیں کرتے ہیں مگر انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا، تو اس کی کئی وجوہ ہیں ۔ یا تو اس لیے کہ ابھی ان کی بیداری اور نجات کی امید ہوتی ہے اور خدا ان سے محبت کرتا ہے اور یا اس وجہ سے کہ اگروہ کچھ حاصل کرلیں تو اس قدر سرکشی کریں گے کہ مخلوق خدا پر عرصہ حیات تنگ کریں گے ۔
”یصلی“ ”صلی“کے مادہ سے آگ روشن کرنے اور آگ میں جلنے کے معنی میں ہے ۔ یہاں دوسرا معنی مراد ہے ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ سزا کے طور پر جہنم کی آگ کے ساتھ ”مذموم“ اور ”مدحور“ کے الفاظ بھی تاکید کے طور پر آئے ہیں ۔ ان میں سے پہلی سزا سرزنش اور مذمت ہونے کی طرف اشارہ ہے اور دوسری خدا سے دور رہنے کے معنی میں ہے ۔ در حقیقت جہنم کی آگ تو ان کے لیے جسمانی سزا ہے اور مذموم و مدحور ہونا ان کے لیے روحانی عذاب ہے ۔ کیونکہ معاد جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی، اس کا عذاب و ثواب اور سزا جزاکے بھی دونوں پہلوں ہیں ۔
اس کے بعد دوسرے گروہ کے حالات بیان کیے گئے ہیں تا کہ قرآن کی روش کے مطابق تقابل سے مطلب زیادہ آشکار ہو جائے ۔
ارشاد ہوتا ہے: باقی رہا وہ شخص جو آخرت طلب کرتا ہے اور اسی راستے میں سعی و کوشش کرتا ہے اور وہ صاحب ایمان ہے تو اس کی سعی و کوشش بارگاہ الٰہی میں قبول ہوگی(
وَمَنْ اٴَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعیٰ لَهَا سَعْیَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاٴُوْلٰئِکَ کَانَ سَعْیُهُمْ مَشْکُورًا
)
لہٰذا جاودانی سعادت اور دائمی خوش بختی تک پہنچے کے لیے تین بنیادی شرائط ہیں :
(۱)انسانی ارادہ۔ایسا ارادہ جو حیا ت ابدی سے تعلق رکھتا ہو اور زود گزر لذات، نا پائندہ نعمات اور نرے مادی مقاصد سے تعلق نہ رکھنا ۔ بلند ہمت اور اعلی جذبہ اسے قوت دینے والا ہو۔ اور یہ جذبہ و ہمت اسے ہر غیر الٰہی وابستگی اور تعلق سے آزاد کردے ۔
(۲)یہ ارادہ فکر و نظر، تصور اور روح میں کمزور و ناتوان نہ ہو بلکہ ایسا ہو کہ وجود انسانی کے سبب ذرات کو حرکات میں لائے اور انسان اپنی تمام تر کوشش صرف کردے(توجہ رہے کہ لفظ”سعیھا“جو تاکید کے طور پر آیا ہے، نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اپنی حتمی کوشش کہ جو آخرت تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے، انجام دیتا ہے اور کوئی -------دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتا) ۔
(۳)یہ سب امور ایمان کے ساتھ لازم وملزوم ہیں ۔ ایمان کہ جو استوار اور پختہ ہو کیونکہ مصمم ارادہ اور کوشش جب ہی ثمر آور ہوگی جب اس کا سرچشمہ صحیح جذبہ ایمان بالله کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا ۔ یہ صحیح ہے کہ آخرت کے لیے کوشش ایمان کے بغیر نہیں ہوسکتی اور ایمان کا مفہوم اس میں پوشیدہ ہے لیکن اس راہ میں چونکہ ایمان کو بنیادی حیثیت حاصل ہے لہٰذا اس سلسلے میں دلالت التزامی پر قناعت نہیں کی گئی اور ایمان کو بالصراحت کے شرط کے طور پر بیان کیا گیا ہے ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ دنیا پرستوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ان کے لیے ہم جہنم قرار دیں گے لیکن آخرت کے عاشقین کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ ان کی سعی و کوشش مشکور ہوگی یعنی پروردگار اس کا تشکر اور قدر دانی کرے گا ۔
اس کی نسبت کہ کہا جائے”ان کی جزا بہشت ہوگی“ یہ مذکورہ تعبیر بہت زیادہ جامع اور بلند تر ہے کیونکہ ہر شخص کے لیے تشکر اور قدر دانی اس کی شخصیت کی وسعتِ وجودی کے مطابق ہوتی ہے نہ کہ عمل کی مقدار کے مطابق۔ اس لحاظ سے خدا کا شکر اور قدر دانی اس کی لامتنا ہی ذات کی مناسب سے ہے ۔ انواع و اقسام کی مادی و معنوی نعمتیں اور وہ سب کچھ جو ہمارے تصور میں آسکتا ہے، اس میں جمع ہے ۔
بعض مفسرین نے ”مشکور“ کا معنی”کئی گناہ اجر“پ بیان کیا ہے اور بعض نے اس سے ”مقبولیتِ عملپمراد لیا ہے لیکن واضح ہے کہ”مشکور“ ان سے وسیع تر معنی رکھتا ہے ۔
ممکن ہے یہاں یہ تو ہم ہوکہ دنیا کی نعمتیں دنیا پرست لوگوں کاحصہ ہیں اور طالبانِ آخرت اس سے محروم ہیں ۔ اس تو ہم کو دُور کرنے کے لیے بعد والی آیت کہتی ہے: ہم اس گروہ کو یعنی ان میں سے ہر ایک کو اپنی عطا و بخشش کا حصہ دیں گے اور اس کی مدد کریں گے(
کُلًّا نُمِدُّ هَؤُلَاء وَهٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّکَ
)
۔ کیونکہ پروردگار کی بخشش کسی سے ممنوع نہیں ہے ۔ یہودی و نصاریٰ، مومن و مسلمان سب اس کے خوانِ نعمت سے حصہ پاتے ہیں ۔
”نمد“ ”امداد“ کے مادہ سے زیادہ کرنے کے معنی میں ہے ۔
اسکے بعد والی آیت اس سلسلے میں ایک بنیادی امر بیان کرتی ہے اور وہ یہ کہ جس طرح اس دنیا میں کوشش مختلف ہوتونتیجہ مختلف ہو جاتا ہے اخروی امور میں بھی پوری طرح یہ بنیاد کا رفرما ہے ۔ فرق یہ ہے کہ دنیا محدود ہے اور یہاں کا فرق بھی محدود ہے لیکن آخرت چونکہ لا محدود ہے لہٰذا وہاں فرق بھی لا محدود ہوگا ۔
ارشاد ہوتا ہے: دیکھو کس طرح ہم ان میں سے بعض کو بعض دوسروں پر(ان کی کوشش میں اختلاف کی وجہ سے) برتری دیتے ہیں البتہ آخرت کے درجات زیادہ بڑے ہیں اور اس کی برتری و فضیلت بھی بہت زیادہ ہے(
انظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلیٰ بَعْضٍ وَلَلْآخِرَةُ اٴَکْبَرُ دَرَجَاتٍ وَاٴَکْبَرُ تَفْضِیلًا
)
۔
ہو سکتا ہے کہا جائے کہ اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ افراد بغیر کسی کوشش کے بہت سے فوائد حاصل کر لیتے ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ یہ استثنائی مواقع ہیں ۔ سعی و کوشش کو عمومی بنیاد کی حیثیت حاصل ہے اور یہی کامیابی کی میزان ہے اس کے مقابلے میں ان استثنائی مواقع کی پرواہ نہیں کی جا سکتی اور نہ یہ استثنائی مسئلہ عمومی و کلی بنیاد کے منافی ہے ۔ضمنی طور پر توجہ رہے کہ کوشش سے مراد فقط اس کی مقدار نہیں ہے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تھوڑی سی کوشش بہت سی کوششوں کے مقابلے میں اپنی کیفیت کہ وجہ سے زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے ۔