تفسیر نمونہ جلد ۱۲

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 18015
ڈاؤنلوڈ: 3115


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18015 / ڈاؤنلوڈ: 3115
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 12

مؤلف:
اردو

چند اہم نکات

۱ ۔ اچھی اور بری فال:

کسی چیز یا کام سے نیک و بد فال لینا تمام قوموں میں تھا اور آج بھی ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ اس کا سرچشمہ حقائق تک دسترس نہ ہونا اور واقعات کے اسباب و علل سے لا علمی ہے ۔

بہر حال اس میں شک نہیں کہ نیک یا بد فال کا کوئی طبیعی اثر نہیں ہے البتہ اس کا نفیساتی اثر ہوتا ہے ۔ لیکن فال امید آفریں ہوتی ہے جبکہ بد فال یاس، ناامیدی اور کمزوری کا موجب بنتی ہے ۔ اسلام چونکہ ہمیشہ اچھی چیزوں کا خیر مقدم کرتا ہے اس لیے اسلام نے نیک فال سے منع نہیں کیا، البتہ بد فال کی شدید مذمت کی ہے ۔ یہاں تک کہ بعض روایات میں اسے سرحد شرک میں شمار کیا گیا ہے ۔ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

الطیرة شرک

بری فال لینا(اور خدا کے مقابلے میں اسے اپنی قسمت میں موثر جاننا) ایک قسم کا خدا کی ذات میں شرک کرنا ہے ۔

اس سلسلے میں چھٹی جلد میں ہم سورہ اعراف میں آیت ۱۳۱ کے ذیل میں گفتگو کر چکے ہیں ۔یہ بات جاذب نظر ہے کہ صحیح او راصلاح پہلووں سے اس قسم کے تخیلاتی امور سے اسلام نے بھی فائدہ اٹھایا ہے ۔

مثلاًعمو ماً کہا جاتا ہے کہ فلاں دلہن خوش قدم تھی یا بَد قدم تھی۔جس دن سے اس نے فلاں شخض کے گھر میں قدم رکھا ہے وہ ایساہو گیاہے ۔ یہ ایک فضول بات سے زیادہ نہیں ہے ۔لیکن اسلام نے اسے تعمیری اور اصلاحی شکل دی ہے ۔ ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے :من شوم المرئة غلاء مهرها وشدة مئونته ----

عورت کی ایک نحوست یہ ہے کہ اس کاحق مہرزیادہ ہو اور اخراجات بھاری ہوں ----(۱)

ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ(ص) وسلم سے منقول ہے:

اما الدار فشومها ضیقها وخبث جیرانها

منحوس گھر وہ ہے کہ جو تنگ وتاریک ہو اور جس کے ہمسائے برے لوگ ہوں ۔(۲)

خوب غور کریں کہ وہی الفاظ جنہیں لوگ غلط اور بے ہودہ مفاہیم کے لیے استعمال کرتے ہیں انہیں حقیقی اور اصلاح مفاہیم کے لیے صرف کیا گیا ہے اور بے راہ روی کی طرف جانے والے خیال و افکار کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کی گئی ہے ۔

اس بحث کی موید رسول صلی الله علیہ وآلہ(ص) وسلم کی ایک حدیث پر ہم اپنی اس گفتگو کو ختم کرتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں :اللّٰهم لاخیر الّا خیرک، ولا طیر الّا طیرک ولا رب غیرک

بار الہا!خیر وہی ہے جو تیری طرف سے ہوا اور کوئی اچھی بری فال تیرے ارادے کے بغیر کچھ نہیں اور تیری علاوہ کوئی رب نہیں ۔

۲ ۔ انسان کا عجیب اعمال نامہ:

قرآن حکیم کی بہت سی آیات اور روایات میں انسانوں کے نامہ اعمال کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔ مجموعی طور پر ان آیات و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے تمام اعمال اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ ایک رجسٹر میں لکھے جاتے ہیں اور اگر انسان نیک ہوا تو روز قیامت اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور اگر برا ہوا تو بائیں ہاتھ میں ۔

سورہ حاقہ میں ہے:( فَاٴَمَّا مَنْ اٴُوتِیَ کِتَابَهُ بِیَمِینِهِ فَیَقُولُ هَاؤُمْ اقْرَئُوا کِتَابِی )

جسے اس نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں تھما یا جائے گا فخر سے کہے گا کہ آئیے اور ہمارا نامہ اعمال پڑھیے ۔ (حاقہ۔ ۱۹)

نیز یہ بھی فرمایا ہے:( وَاٴَمَّا مَنْ اٴُوتِیَ کِتَابَهُ بِشِمَالِهِ فَیَقُولُ یَالَیْتَنِی لَمْ اٴُوتَ کِتَابِی )

لیکن جسے اس نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں تھما یا جائے گا وہ کہے گا: اے کاش! میر نامہ اعمال مجھے نہ تھما یا جاتا ۔ (حاقہ۔ ۲۵)

سورہ کہف کی آیت ۴۹ میں ہے:( وَوُضِعَ الْکِتَابُ فَتَرَی الْمُجْرِمِینَ مُشْفِقِینَ مِمَّا فِیهِ وَیَقُولُونَ یَاوَیْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْکِتَابِ لَایُغَادِرُ صَغِیرَةً وَلَاکَبِیرَةً إِلاَّ اٴَحْصَاهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَایَظْلِمُ رَبُّکَ اٴَحَدًا )

بنی آدم کے اعمال نامے کھول دیئے جائیں گے تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اس کی تحریر سے خوف کھائیں گے اور کہیں گے! ہائے ہم پر افسوس! یہ کیسی کتاب ہے کہ اس میں کوئی چھوٹا بڑا گناہ شمار کیے بغیر نہیں چھوڑا گیا اور جو کچھ انہوں نے انجام دیا تھا اسے موجود پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا ۔

ایک حدیث میں زیر بحث آیت”اقرء کتابک---“کے ذیل میں اما م صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:یذکر العبد جمیع ما عمل، وما کتب علیه، حتی کانه فعله تلک الساعة، فلذلک قالوا یا ویلتنا ما لهٰذا الکتاب لایغادر صغیرة ولا کبیرة الّا اٴحصاه -

جو کچھ انسان انجام دے چکا ہے اور اس کے نامہ اعمال میں درج ہے سبب کچھ اسے یاد آجائے گا اور اس طرح سے کہ جیسے اس نے ابھی ابھی انجام دیا ہے لہٰذا مجرمین پکاریں گے اور کہیں گے کہ یہ کیسی کتاب ہے کہ جس نے کوئی چھوٹا بڑا گناہ لکھے بناء نہیں چھوڑا ۔(۳)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نامہ اعمال کیا ہے اور کیسا ہے ۔ظاہر ہے کہ وہ عام کتاب، یار جسٹر یا فائل کی طرح کا تو نہیں ہوگا ۔ اس لیے بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ نامہ اعمال”روح انسان“ کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے کہ جس میں تمام اعمال کے آثار ثبت ہیں ۔(۴) کیونکہ ہم جو بھی عمل انجام دیتے ہیں وہ لازمی طور پر ہماری روح پر اثر مرتب کرتا ہے ۔ یا یہ کہ یہ نامہ اعمال ہمارے جسم کے اعضاء اور گوشت پوست اور اس کے گرد کی زمین، ہوا اور فضا ہے کہ جس میں ہم اعمال انجام دیتے ہیں کیونکہ ہمارے اعمال ہمارے جسم پر اثرات مرتب کرنے کے علاوہ ہوا اور زمین پر بھی اثر چھوڑتے ہیں اگر چہ اس دنیا میں ہم ان آثار کو محسوس کر نہیں سکتے لیکن بلاشبہ وہ موجود ہوتے ہیں اور روز قیامت کہ جب ہمیں ایک نئی قوت ادراک حاصل ہوگی، ہم دیکھ سکیں گے ۔

سطورِ بالا میں جو تفسیر بیان ہوئی ہے اس کے بارے میں لفظ”اقراٴ “ (پڑھ) سے غلط فہمی پیدا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ پڑھنے کا بھی ایک وسیع مفہوم ہے اور اس میں ہر قسم کا مشاہدہ شامل ہے ۔ مثلاً روز مرہ کی گفتگو میں ہم کبھی کبھی کہتے ہیں :”میں نے اس کی آنکھوں سے پڑھ لیا ہے کہ اس کا ارادہ کیا ہے“ یا ”فلاں آدمی کے فلاں کام سے میں نے باقی بات پڑھ لی ہے ۔“ اسی طرح بیماروں کے ایکس رے کو دیکھنے کے لیے بھی پڑھنے کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مندرجہ بالا آیات میں ہے کہ اس کے نامہ اعمال کے مندرجات کسی طرح بھی قابلِ انکار نہیں ہیں کیونکہ وہ خود عمل کے حقیقی اور تکوینی آثار ہیں ۔بالکل انسان کی ٹیپ شدہ آواز کی طرح اور یا اس کی انگلی کے نشان کی طرح۔

۳ ۔ گنگار کے ساتھ بے گناہ نہیں جلے گا:

عوام میں مشہور ہے کہ جب آگ لگتی ہے تو خشک و تر سب کچھ جل جاتا ہے ۔ لیکن منطق، عقل اور تعلیمات انبیاء کے مطابق کسی بے گناہ کو کسی دوسرے کے گناہ کی وجہ سے سزا نہیں ملے گی قوم لوط کے تمام شروں میں صرف ایک گھر ایمان والوں کا تھا ۔ جب الله نے اس منحرف اور غلیظ قوم پر عذاب نارل کیا تو اس ایک گھرانے کو بچا لیا ۔

زیر بحث آیات میں بھی صراحت سے فرمایا گیا ہے:ولا تزر وازرة وزر اخری

کوئی شخص دوسرے کا بوجھ دوسرے کا بوجھ اپنے کندھے پر نہیں اٹھا ئے گا ۔

اس بناء پر اگر کچھ غیر معتبر روایات میں اسلام کے کلی قانون کے خلاف کچھ نظر آئے تو اسے لازمی طور پر ایک طرف پھینک دینا چاہئے یا اس کی توجیہ کی جانا چاہئے ۔ مثلا ًایک روایت میں ہے:

مرجانے والے کو اس کے پسماندگان کی گریہ و زاری کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے ۔

ہوسکتا ہے یہاں عذاب سے عذاب الٰہی مراد نہ ہو بلکہ اس سے وہ ناراحتی اور دکھ مراد ہو کہ جو اس کی روح کو اپنے عزیزوں کی بے تابی و اضطراب سے آگاہ ہونے پر ہوتا ہے ۔

نیز اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ کہ کافروں کی اولاد اپنے ماں باپ کے ساتھ جہنم میں جائے گی، ایک اسلامی عقیدہ نہیں ہے ۔ کیونکہ اولاد کو ماں باپ کے گناہ کی سزا نہیں مل سکتی یہی وجہ ہے کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ غیر شرعی طور پرپیدا ہونے والی اولاد کا بھی ذاتی طور پر کوئی گناہ نہیں اور اگر وہ چاہے تو سعادت و نجات کے دروازے اس کے سامنے کھلے ہیں اگر چہ ایسی اولاد کے لیے تربیت کا مسئلہ بہت دشوار ہے ۔

۴ ۔ برائت کا اصول اور آیت”( ما کنا معذبین ) “:

علمِ اصول میں ”برائت “کی بحث میں زیر نظر آیت سے استدال کیا گیا ہے کیونکہ آیت کا کم از کم مفہوم یہ ہے کہ جن مسائل کا عقل ادراک نہیں کرسکتی، انبیاء بھیجے بغیر یعنی احکام اور ذمہ داریاں بیان کیے بغیر خدا کسی کو سزا نہیں دے گا ۔ یہ بات اس امر کی دلیل ہے کہ جن امور کے بارے میں کوئی حکم موجود نہیں ہے ان پر کوئی سزا نہ ہوگی۔ اس کو قانونِ برائت کہتے ہیں یعنی حکم بیان کیے بغیر سزا صحیح نہیں ہے ۔

باقی رہا یہ معاملہ کہ بعض نے کہا ہے کہ زیر نظر آیت میں عذاب سے مراد صرف عذابِ استیصال ہے جیسا قومِ نوح پر آیا تھا، تو اس کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں آیت مطلق ہے اور اس کے مفہوم میں ہر قسم کا عذاب اور سزا شامل ہے ۔

____________________

۱۔ وسائل الشیعہ، ج۳، ص۱۰۴-

۲۔ سفینة البحار، ج۱، ص۶۸۰-

۳۔ نور الثقلین، ج۳، ص۱۴۴-

۴۔ تفسیر صافی-

آیات ۱۶،۱۷

۱۶( وَإِذَا اٴَرَدْنَا اٴَنْ نُهْلِکَ قَرْیَةً اٴَمَرْنَا مُتْرَفِیهَا فَفَسَقُوا فِیهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِیرًا )

۱۷( وَکَمْ اٴَهْلَکْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِنْ بَعْدِ نُوحٍ وَکَفیٰ بِرَبِّکَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِیرًا بَصِیرًا )

ترجمہ

۱۶ ۔ اور جب ہم کسی شہر کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس کے”مترفین“( نفس پرستی میں مست دولت مندوں ) سے اپنے اورامر بیان کرتے ہیں ۔ پھر جب وہ مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور سزا کے مستحق ہو جاتے ہیں تو ہم شدت سے ان کی سر کوبی کرتے ہیں ۔

۱۷ ۔ اور ایسے کتنے ہی لوگ تھے جو نوح کے بعد کی صدیوں میں رہے اور(اسی سنت کے مطابق)ہم نے انہیں ہلاک کردیا ۔ اور کافی ہے تیرا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں سے آگاہ اور ان کے لیے بینا ہے ۔

عذاب الٰہی کے چارہ مرحلے

گزشتہ آیات میں سے آخری میں بیان کیا گیا تھا کہ” ہم کسی فرد یا کروہ کو انبیاء بھیجنے اور اپنے احکام بیان کرنے کے بغیر ہرگز سزا نہیں دیتے“۔ اب زیر بحث پہلی آیت میں ہی بنیادی بات ایک اور پیرائے میں بیان کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: جب ہم کسی قوم کو ہلاک کرنے کا مصمم ارادہ کر لیتے ہیں تو پہلے ہم مترفین اور دولت کے نشے میں غرق لوگوں سے اپنے احکام بیان کرتے ہیں ۔ اس کے بعد جب وہ اطاعت نہیں کرتے بلکہ مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور عذاب کے مستحق ہو جاتے ہیں تو ہم ان کی شدت سے سر کوبی کرتے ہیں اور انہیں ہلاک کردیتے ہیں( وَإِذَا اٴَرَدْنَا اٴَنْ نُهْلِکَ قَرْیَةً اٴَمَرْنَا مُتْرَفِیهَا فَفَسَقُوا فِیهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِیرًا ) ۔(۱)

اس آیت کے مفہوم کے بارے میں بہت سے مفسرین نے متعدد احتمالات ذکر کیے ہیں لیکن ہماری نظر میں آیت ظاہری معنی کے اعتبار سے ایک سے زیادہ واضح تفسیر نہیں رکھتی۔ اور وہ یہ کہ الله تعالیٰ اتمام حجت اور اپنے احکام بیان کرنے سے پہلے ہرگز کسی سے مواخذہ نہیں کرتا اور نہ کسی کو عذاب دیتا ہے بلکہ پہلے اپنے احکام بیان کرتا ہے اگر لوگ اطاعت کریں اور ان احکام کو اپنا لیں تو خوب، اسی میں ان کی دنیا و آخرت کی سعادت ہے اور اگر وہ فسق و فجور کریں اور مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوں اور احکام کو پاؤں تلے روند ڈالیں تو یہ وہ مقام ہے جہاں وہ عذاب کے مستحق ہوجاتے ہیں اور پھر اس کے بعد ان کے لیے ہلاکت ہے ۔

اگر آیت میں صحیح طور پر غور و فکریں تو اس کام کے لیے چار مراحل واضح طور پر بیان ہوئے ہیں :

(۱) اوامر(و نواھی)کا مرحلہ

(۲)مخالفت تور فسق وفجور کا مرحلہ

(۳)عذاب کے استحقاق کا مرحلہ

(۴)ہلاکت ما مرحلہ

فاء تفریح کے ساتھ یہ تمام مرحلے دوسرے پر عطف ہوئے ہیں ۔

یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ صرف”مترفین“(۲) کو حکم کیوں دیا گیا ہے ۔

اس سوال کے جواب میں ایک نکتے کی طرف توجہ کی جائے تومعاملہ واضح ہوجا تا ہے اور وہ یہ کہ بہت سے معاشروں (مراد غلط قسم کے معاشرے ہیں ) میں معاشرے کی باگ ڈور مترفین ہی کے قبضے میں ہوتی ہے اور لوگ ان کے تابع اور پیرو ہوتے ہیں ۔ علاوہ ازیں اس میں ایک اور نکتے کی طرف اشارہ ہے وہ یہ کہ معاشرے کی زیادہ تر برائیوں کا سرچشمہ مترفین اور خدا کو بھولے ہوئے دولت مندہی ہوتے ہیں جو نازد نعمت، عیش و عشرت اور ہوا و ہوس میں مستغرق ہوتے ہیں ۔ ہر اصلاحی، انسانی اور اخلاقی آواز انہیں بُری لگتی ہے ۔ لہٰذا یہی لوگ انبیاء کے مقابلے میں پہلی صف میں ہوتے تھے اور ان کی دعوت کہ جو عدل و انصاف کے لیے اور مستضعفین کی حمایت میں ہوتی تھی اسے ہمیشہ اپنے بر خلاف سمجھتے تھے ۔ان وجوہ کی بناء پر خصوصیت سے انہی کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ فساد اور برائی کی اصلی جڑ یہی لوگ ہیں ۔

ضمنا ۔ ”دمرنا“ اور ”تدمیر“’، ”دمار“کے مادہ سے ہلاکت کے معنی میں ہیں ۔

بہرحال مندرجہ بالا آیت تمام اہل ایمان کے لیے تنبیہ ہے کہ وہ خبردار رہیں اور اپنی حکومت مترفین اور نفسانی خواہشوں میں سرمست دولت مندوں کے ہاتھ میں نہ دیں اور ان کے پیچھے نہ لگیں کیونکہ یہ لوگ آخر کار ان کے معاشرے کو ہلاک و نابود ی سے ہمکنار کریں گے ۔

اس کے بعد والی آیت میں اس مسئلے کے کئی ایک نمونوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: کتنے ہی لوگ تھے جو نوح کے بعد کی صدیوں میں آئے اور (اسی سنت کے مطابق )ہلاک اور نابود ہوگئے( وَکَمْ اٴَهْلَکْنَا مِنَ الْقُرُونِ مِنْ بَعْدِ نُوحٍ )

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے:یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی فرد یا یا گرو ہ کا ظلم اور گناہ علم خدا کی تیز بین نگاہ سے مخفی رہ جائے ”خدا اپنے بندوں کے گناہ سے کافی یعنی پورا آگاہ ہے ان کے لیے بینا ہے“( وَکَفیٰ بِرَبِّکَ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِیرًا بَصِیرًا )

”قرون“ ”قرن“کی جمع ہے ۔ اس کا معنی ہے وہ لوگ جو ایک زمانے میں زندگی گزاریں ۔بعد ازاں یہ لفظ ایک زمانے اور ایک دَور کے لیے استعمال ہونے لگا ۔

ایک”قرن“کتنے سال کا ہوتا ہے، اس سلسلے میں مختلف نظریات ہیں ۔ بعض چالیس سال کا کہتے ہیں ، بعض اَسّی سال کا، بعض سو سال کا اور بعض اس سے بھی زیاد ہ، ایک سو بیس سال کا کہتے ہیں ۔ لیکن بناکہے واضح ہے کہ یہ ایک امر اعتبار ہے جو مختلف صورتوں میں مختلف ہوتا ہے البتہ ہمارے زمانے میں معمول یہ ہے کہ لفظ”قرن“کا اطلاق سو سال پر ہوتا ہے ۔(۳) ۔

نیز یہ کہ نوح علیہ السلام کے بعد کے قرنوں کا خصوصی ذکر کیوں کیا گیا ہے ۔ ہوسکتا ہے یہ اس لیے ہو کہ حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے انسانی زندگی انتہائی سادہ تھی۔ یہ سب اختلاف خصوصاً معاشرے کی”مترف“اور ”مستضعف“ کی طبقاتی تقسیم بہت کم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ بہت کم عذاب الٰہی میں گرفتار ہوئے ۔

”خبیر“ و ”بصیر“(آگاہ و بینا) کا اکھٹا ذکر اس طرف اشارہ ہے کہ ”خبیر“ نیت اور عقیدے سے آگاہ کے معنی میں ہے اور ”بصیر“ اعمال وکردار کودیکھنے والے کے معنی ہے ۔ لہٰذا خدا تعالیٰ لوگوں کے اعمال کے باطنی وجود اور اسباب پر بھی مطلع ہے اور خود اعمال کو بھی جانتا ہے اور ایسی ہستی ہرگز کسی پر ظلم روا نہیں رکھتی اور اس کی حکومت میں کسی کا حق صنائع نہیں ہوتا ۔

____________________

۱۔ ”قول“ کا لفظ اگرچہ وسیع معنی ہے لیکن ایسے موقع پر حکم، عذاب کے معنی میں ہے ۔

۲۔ ”مترفین“ ”ترفہ“ کے مادہ سے فراواں نعمت کے معنی میں ہے یعنی وہ نعمتوں کے پلے ہوئے اور دولت مند جو خدا سے بے خبر ہیں ۔

۳ سورہء یونس کی آیت ۱۳ کے ذیل میں بھی ہم نے اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے (تفسیر نمونہ، ج۸، ص۱۹۸ اردو ترجمہ)-

آیات ۱۸،۱۹،۲۰،۲۱

۱۸( مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِیهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِیدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ یَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا )

۱۹( وَمَنْ اٴَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعیٰ لَهَا سَعْیَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاٴُوْلٰئِکَ کَانَ سَعْیُهُمْ مَشْکُورًا )

۲۰( کُلًّا نُمِدُّ هَؤُلَاء وَهٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحْظُورًا )

۲۱( انظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلیٰ بَعْضٍ وَلَلْآخِرَةُ اٴَکْبَرُ دَرَجَاتٍ وَاٴَکْبَرُ تَفْضِیلًا )

ترجمہ

۱۸ ۔ جو شخص (صرف)جلد گزر جانے والی( مادی دنیا)طلب کرتا ہے تو ہم اسے اس قدر دے دیتے ہیں ، جو ہم چاہیں اور جس مقدار کا اس کے بارے میں ارادہ کریں اس کے لیے دوزخ قرار دیں گے کہ وہ اس کی جلادینے والی آگ میں جلے گا( جبکہ وہ درگاہ الٰہی سے)راندہ اور مذموم ہوگا ۔

۱۹ ۔ اور جو شخص صرف آخرت کو چاہے اور اپنی سعی اور تلاش اس کے لیے انجام دے اور وہ ایمان بھی رکھتا ہو تو ( خدا کی طرف سے) اسے اس وتلاش جزا ملے گی۔

۲۰ ۔ ان میں سے ہرگروہ کو تیرے پروردگار کی عطا میں سے حصہ اور مدد ملے گی اور تیرے پروردگار کی عطا و بخشش کبھی کسی سے ممنوع قرار نہیں دی گئی۔

۲۱ ۔ دیکھو کس طرح ہم نے بعض کو(دنیا میں ان کی سعی اور تلاش کی وجہ سے)بعض دوسروں پر برتری عطا کی ہے اور آخرت کے درجات اور اس کی فضیلتیں تو اس کہیں زیادہ ہیں ۔

طالبان دنیا اور طالبان آخرت

گزشتہ آیات میں اوامرِ الٰہی کے مقابلے میں منکرین کی مخالفت اور پھر ان کی ہلاکت کے بارے میں گفتگو تھی۔ زیر نظر آیات میں اس سرکشی اور طغیان کے حقیقی سبب یعنی حبّ دنیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: جن لوگوں کی نظر اسی زود گزر مادّی دنیا پر ہے، ہم جس مقدار میں چاہتے ہیں اور اس کے لیے مناسب سمجھتے ہیں اسی زندگی میں اسے دے دیتے ہیں ، اس کے بعد اس کے لیے ہم جہنم قرار دیں گے کہ جس کی آگ میں وہ جلے گا اس حالت میں کہ وہ رحمت الٰہی کی درگاہ سے راندہ اور مذموم ہوگا( مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِیهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِیدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ یَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا )

”عاجلة“کا معنی ہے جلد گزر جانے والی نعمتیں یا زود گزر دنیا ۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ یہ نہیں فرمایا کہ جو شخص دنیا کے پیچھے جائے گا، وہ جو کچھ چاہے گا اس تک پہنچ جائے گا بلکہ اس کے لیے دو شرطیں بیان کی گئی ہیں پہلی یہ کہ وہ جو چاہے گا اس کا کچھ حصہ اسے ملے گا، اتنا ہی جتنا ہم چاہیں گے(ما نشاء) ۔

دوسری یہ کہ سب لوگ بھی یہ حصہ نہیں پا سکیں گے، بلکہ ان میں سے کچھ متاع دنیا کے ایک حصے تک پہنچیں گے وہی کہ جن کے بارے میں ہم چاہیں گے( لمن نرید ) ۔

اس طرح نہ تمام دنیا پرست دنیا تک پہنچیں گے اور نہ ہی پہنچ پانے والے اتنی دنیا حاصل کرسکیں گے جتنی وہ چاہیں گے ۔

روزمرہ کی زندگی میں بھی ہم اس امر کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ کتنے لوگ شب و روز دوڑتے رہتے ہیں لیکن کہیں نہیں پہنچتے اور کتنے افرادہیں جو اس دنیا میں بڑی بڑی آرزوئیں رکھتے ہیں مگر ان میں سے کچھ ہی کی تکمیل ہوتی ہے ۔

یہ امر دنیا پرستوں کے لیے تنبیہ ہے کہ اگر تم خیال کرتے ہو کہ آخرت کو دنیا کے بدلے بیچ کر اپنامقصد حاصل کر لوگے تو یہ تمہاری بہت بڑی غلطی ہے ۔ ایسا کبھی نہ ہوسکے گا ۔ مقصد کا کچھ حصہ ہی تمہیں ملے گا ۔

ویسے بھی انسان کی آرزوؤں کا دامن اتنا وسیع ہے کہ محدود عالم مادہ میں وہ سب پوری نہیں ہو سکتیں ۔ ایک شخص کو سازی دنیا مل جائے تو بھی اکثر وہ سیر نہیں ہوتا ۔

رہے وہ لوگ کہ جو کوششیں کرتے ہیں مگر انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا، تو اس کی کئی وجوہ ہیں ۔ یا تو اس لیے کہ ابھی ان کی بیداری اور نجات کی امید ہوتی ہے اور خدا ان سے محبت کرتا ہے اور یا اس وجہ سے کہ اگروہ کچھ حاصل کرلیں تو اس قدر سرکشی کریں گے کہ مخلوق خدا پر عرصہ حیات تنگ کریں گے ۔

”یصلی“ ”صلی“کے مادہ سے آگ روشن کرنے اور آگ میں جلنے کے معنی میں ہے ۔ یہاں دوسرا معنی مراد ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ سزا کے طور پر جہنم کی آگ کے ساتھ ”مذموم“ اور ”مدحور“ کے الفاظ بھی تاکید کے طور پر آئے ہیں ۔ ان میں سے پہلی سزا سرزنش اور مذمت ہونے کی طرف اشارہ ہے اور دوسری خدا سے دور رہنے کے معنی میں ہے ۔ در حقیقت جہنم کی آگ تو ان کے لیے جسمانی سزا ہے اور مذموم و مدحور ہونا ان کے لیے روحانی عذاب ہے ۔ کیونکہ معاد جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی، اس کا عذاب و ثواب اور سزا جزاکے بھی دونوں پہلوں ہیں ۔

اس کے بعد دوسرے گروہ کے حالات بیان کیے گئے ہیں تا کہ قرآن کی روش کے مطابق تقابل سے مطلب زیادہ آشکار ہو جائے ۔

ارشاد ہوتا ہے: باقی رہا وہ شخص جو آخرت طلب کرتا ہے اور اسی راستے میں سعی و کوشش کرتا ہے اور وہ صاحب ایمان ہے تو اس کی سعی و کوشش بارگاہ الٰہی میں قبول ہوگی( وَمَنْ اٴَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعیٰ لَهَا سَعْیَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَاٴُوْلٰئِکَ کَانَ سَعْیُهُمْ مَشْکُورًا )

لہٰذا جاودانی سعادت اور دائمی خوش بختی تک پہنچے کے لیے تین بنیادی شرائط ہیں :

(۱)انسانی ارادہ۔ایسا ارادہ جو حیا ت ابدی سے تعلق رکھتا ہو اور زود گزر لذات، نا پائندہ نعمات اور نرے مادی مقاصد سے تعلق نہ رکھنا ۔ بلند ہمت اور اعلی جذبہ اسے قوت دینے والا ہو۔ اور یہ جذبہ و ہمت اسے ہر غیر الٰہی وابستگی اور تعلق سے آزاد کردے ۔

(۲)یہ ارادہ فکر و نظر، تصور اور روح میں کمزور و ناتوان نہ ہو بلکہ ایسا ہو کہ وجود انسانی کے سبب ذرات کو حرکات میں لائے اور انسان اپنی تمام تر کوشش صرف کردے(توجہ رہے کہ لفظ”سعیھا“جو تاکید کے طور پر آیا ہے، نشاندہی کرتا ہے کہ وہ اپنی حتمی کوشش کہ جو آخرت تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے، انجام دیتا ہے اور کوئی -------دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتا) ۔

(۳)یہ سب امور ایمان کے ساتھ لازم وملزوم ہیں ۔ ایمان کہ جو استوار اور پختہ ہو کیونکہ مصمم ارادہ اور کوشش جب ہی ثمر آور ہوگی جب اس کا سرچشمہ صحیح جذبہ ایمان بالله کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا ۔ یہ صحیح ہے کہ آخرت کے لیے کوشش ایمان کے بغیر نہیں ہوسکتی اور ایمان کا مفہوم اس میں پوشیدہ ہے لیکن اس راہ میں چونکہ ایمان کو بنیادی حیثیت حاصل ہے لہٰذا اس سلسلے میں دلالت التزامی پر قناعت نہیں کی گئی اور ایمان کو بالصراحت کے شرط کے طور پر بیان کیا گیا ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ دنیا پرستوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ان کے لیے ہم جہنم قرار دیں گے لیکن آخرت کے عاشقین کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے کہ ان کی سعی و کوشش مشکور ہوگی یعنی پروردگار اس کا تشکر اور قدر دانی کرے گا ۔

اس کی نسبت کہ کہا جائے”ان کی جزا بہشت ہوگی“ یہ مذکورہ تعبیر بہت زیادہ جامع اور بلند تر ہے کیونکہ ہر شخص کے لیے تشکر اور قدر دانی اس کی شخصیت کی وسعتِ وجودی کے مطابق ہوتی ہے نہ کہ عمل کی مقدار کے مطابق۔ اس لحاظ سے خدا کا شکر اور قدر دانی اس کی لامتنا ہی ذات کی مناسب سے ہے ۔ انواع و اقسام کی مادی و معنوی نعمتیں اور وہ سب کچھ جو ہمارے تصور میں آسکتا ہے، اس میں جمع ہے ۔

بعض مفسرین نے ”مشکور“ کا معنی”کئی گناہ اجر“پ بیان کیا ہے اور بعض نے اس سے ”مقبولیتِ عملپمراد لیا ہے لیکن واضح ہے کہ”مشکور“ ان سے وسیع تر معنی رکھتا ہے ۔

ممکن ہے یہاں یہ تو ہم ہوکہ دنیا کی نعمتیں دنیا پرست لوگوں کاحصہ ہیں اور طالبانِ آخرت اس سے محروم ہیں ۔ اس تو ہم کو دُور کرنے کے لیے بعد والی آیت کہتی ہے: ہم اس گروہ کو یعنی ان میں سے ہر ایک کو اپنی عطا و بخشش کا حصہ دیں گے اور اس کی مدد کریں گے( کُلًّا نُمِدُّ هَؤُلَاء وَهٰؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّکَ ) ۔ کیونکہ پروردگار کی بخشش کسی سے ممنوع نہیں ہے ۔ یہودی و نصاریٰ، مومن و مسلمان سب اس کے خوانِ نعمت سے حصہ پاتے ہیں ۔

”نمد“ ”امداد“ کے مادہ سے زیادہ کرنے کے معنی میں ہے ۔

اسکے بعد والی آیت اس سلسلے میں ایک بنیادی امر بیان کرتی ہے اور وہ یہ کہ جس طرح اس دنیا میں کوشش مختلف ہوتونتیجہ مختلف ہو جاتا ہے اخروی امور میں بھی پوری طرح یہ بنیاد کا رفرما ہے ۔ فرق یہ ہے کہ دنیا محدود ہے اور یہاں کا فرق بھی محدود ہے لیکن آخرت چونکہ لا محدود ہے لہٰذا وہاں فرق بھی لا محدود ہوگا ۔

ارشاد ہوتا ہے: دیکھو کس طرح ہم ان میں سے بعض کو بعض دوسروں پر(ان کی کوشش میں اختلاف کی وجہ سے) برتری دیتے ہیں البتہ آخرت کے درجات زیادہ بڑے ہیں اور اس کی برتری و فضیلت بھی بہت زیادہ ہے( انظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلیٰ بَعْضٍ وَلَلْآخِرَةُ اٴَکْبَرُ دَرَجَاتٍ وَاٴَکْبَرُ تَفْضِیلًا ) ۔

ہو سکتا ہے کہا جائے کہ اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ افراد بغیر کسی کوشش کے بہت سے فوائد حاصل کر لیتے ہیں ۔

اس میں شک نہیں کہ یہ استثنائی مواقع ہیں ۔ سعی و کوشش کو عمومی بنیاد کی حیثیت حاصل ہے اور یہی کامیابی کی میزان ہے اس کے مقابلے میں ان استثنائی مواقع کی پرواہ نہیں کی جا سکتی اور نہ یہ استثنائی مسئلہ عمومی و کلی بنیاد کے منافی ہے ۔ضمنی طور پر توجہ رہے کہ کوشش سے مراد فقط اس کی مقدار نہیں ہے ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ تھوڑی سی کوشش بہت سی کوششوں کے مقابلے میں اپنی کیفیت کہ وجہ سے زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ کیا دنیا و آخرت میں تضاد ہے؟:

بہت سی آیات میں دنیا اور اسی کے مادّی و مسائل کی تعریف کی گئی ہے ۔ بعض آیات میں مال دنیا کو ”خیر“ کہا گیا ہے (بقرہ۔ ۱۸۰) ۔ بہت سی آیات میں مادّی نعمتوں کو”فضل الله “کہا گیا ہے ۔ مثلاً:( وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ الله )

ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے:( خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْاٴَرْضِ جَمِیعًا )

دنیا کی تمام نعمتیں تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے ۔

بہت سے آیات انہیں ”( سَخَّرَ لَکُمْ ) “ (انہیں تمہارے لیے مسخر کیا گیا ہے) کے حوالے سے ان کا ذکر آیا ہے ۔ اگر ہم ان آیات کو جمع کریں کہ جن میں مادّی وسائل کی تعریف کی گئی ہے تو آیات کا اچھا خاصا ذخیرہ ہو جائے ۔ لیکن مادّی نعمات کو اس قدر اہمیت دینے کے باوجود ایسے الفاظ آیات قرآن میں وجود ہیں جن میں ان کی تحقیر و تذلیل کی گئی ہے:

ایک مقام پر اسے متاع فانی شمار کیا گیا ہے:( تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا )

ایک جگہ اسے غرور غفلت کا سبب قرار دیا گیا ہے:( وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ )

ایک موقع پر اسے لہو و لعب اور کھیل کود کا ذریعہ شمار کیا گیا ہے:( وَمَا هٰذِهِ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلاَّ لَهْوٌ وَلَعِبٌ )

نیز ایک مقام پر اسے یادخدا سے غفلت کا سبب گردانا گیا ہے:( رِجَالٌ لَاتُلْهِیهِمْ تِجَارَةٌ وَلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ الله )

یہی دو قسم کی تعبیرات روایات اسلامی میں بھی نظر آتی ہیں ۔ ایک رُخ سے دنیا آخرت کی کھتی ہے، مردانِ خدا کا مرکز تجارت ہے، دوستان حق کی مسجد ہے، وحی پروردگار کے نزول کا مقام ہے اور پند و نصیحت کا گھر ہے ۔

امیر المومنین علی السلام فرماتے ہیں :مسجد اٴحباء الله ومصلی ملائکة الله وم۰بط وحی الله ومتجر اٴولیاء الله -(۱)

جبکہ دوسری طرف اسے یاد خدا غفلت کا سبب اور متاع غرور وغیرہ بھی قرار دیا گیا ہے ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دو طرح کی آیت و ورایات ایک دوسرے سے متضاد ہیں ؟

اس سوال کا جواب خود قرآن سے تلاش کیا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ قرآن جہاں دنیا داور اس کی نعمتوں کی مذمت کرتا ہے تو اس کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن کا مقصد فقط یہی زندگی ہے ۔ سورہ نجم کی آیہ ۲۹ میں ہیں :

( وَلَمْ یُرِدْ إِلاَّ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا )

وہ لوگوں کہ جو دنیاوں زندگی کے سوا کچھ نہیں چاہتے ۔

دوسرے لفظوں میں یہاں ان لوگوں کے بارے میں گفتگو ہے جو دنیا کے بدلے آخرت کو بیچ دیتے ہیں اور مادّی خواہشات کی تکمیل کے لیے کسی قسم کی غلط کاری اور جرم سے نہیں چوکتے ۔

سورہ توبہ آیہ ۳۸ میں ہے:( اٴَرَضِیتُمْ بِالْحَیَاةِ الدُّنْیَا مِنَ الْآخِرَةِ )

کیا تم آخرت کے بدلے دنیا وی زندگی قبول کرنے پر راضی ہو گئے ہو؟

زیر بحث آیات خود اس دعوی کی شہادت دیتی ہیں ۔ فرمایا گیا ہے:( مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْعَاجِلَةَ )

یعنی ان کے پیش نظر یہی زود گزر مادّی زندگی ہے ۔

اصولی طور پر کھیتی یا مزکر تجارت و غیرہ کے الفاظ خود اسی پر زندہ شاہد ہیں ۔

مختصر یہ کہ مادّی دنیا کی نعمتیں سب کی سب الله کی نعمتیں ہیں ۔ ان کا وجود نظام خلقت میں یقیناً ضروری تھا اور ہے ۔ اگر انسان ان سے سعادت اور روحانی کمال تک پہنچنے کا وسیلہ سمجھ کر استفادہ کرے تو یہ ہر لحاظ سے قابل تحسین ہے ۔ لیکن اگر وسیلے کی بجائے انہی کو مقصد سمجھ لیا جائے اور انہیں معنوی اور انسانی قدروں سے الگ کر لیا جائے تو فطرتاً یہ امر غرور، طغیان، سرکشی،ظلم اور بیدادگری کا سبب ہوگا ۔ ایسی دنیا یقیناً ہر قسم کی برائی کا محل قرار پائے گی اور قابل مذمت ٹھہرے گی۔

حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اس پُر مغزدار اور مختصر سے جملے میں کیا خوب فرمایا ہے:

من اٴبصر بها بصرته ومن البصر الیها اٴعمته

جو اس کے ذریعے چشم بصیرت سے دیکھے تو دنیا اسے آگہی بخشتی ہے اور خود دنیا کی طرف دیکھے تو یہ اسے اندھا کردیتی ہے ۔(۲)

در حقیقت مذموم اور ممدوح دنیا میں وہی فرق ہے جو ”الیھا“ اور ”بھا“میں ہے ۔ پہلی صورت میں دنیا مقصد ہے اور دوسری صورت میں دنیا وسیلہ ہے اور کسی اور تک پہنچے کا ذریعہ ہے ۔

____________________

۱۔ نہج البلاغہ، کلماتِ قصار، جملہ۱۳۱-

۲۔ نہج البلاغہ، خطبہ۳۸-