تفسیر نمونہ جلد ۱۲

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 18016
ڈاؤنلوڈ: 3115


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 51 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 18016 / ڈاؤنلوڈ: 3115
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 12

مؤلف:
اردو

۲ ۔ کا میابی میں کوشش کا دخل:

یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ قرآن کوشش کا ذکر کرتے ہوئے سست اور بیکار افراد کو تنبیہ کررہا ہے اور نہیں بیدار کر تے ہوئے کہہ رہا ہے کہ دوسری جہان کی سعادت وخوش بختی صرف اظہار ایمان اور گفتار سے حاصل نہیں ہو سکتی بلکہ سعادت وخوش بختی کا حقیقی عامل کوشش اور جستجو ہے ۔

یہ حقیقت بہت سی قرانی آیات سے معلوم ہوتی ہے ۔ذیل کی آیت میں انسان کو اپنے اعمال کا گیروی قرار دیا گیا ہے :

( کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَهِینَةٌ )

ایک اور مقام پر فرمایاگیا ہے کہ انسان کا حصّہ وہی کچھ ہے جو وہ کوشش کرتاہے :

( وَاٴَنْ لَیْسَ لِلْإِنسَانِ إِلاَّ مَا سَعیٰ )

بہت سی آیات قرآن میں ایمان کا ذکر کرنے کے بعد عمل صالح کا ذکر کیا گیا ہے ۔تاکہ یہ خیال خام ذہن سے نکل جائے کہ کو شش کے بغیر بھی کسی مقام تک پہنچا جا سکتا ہے ۔جب مادّی دنیا کی نعمات کوشش کے بغیر حاصل نہیں جا سکتی تو کیسے جاسکتی ہے کہ سعادت جاودانی اس کے بغیر ہاتھ لگ جائے گی ۔

۳ ۔امدادالٰہی:

”نمد“ ”امداد“ کے مادہ سے مدد دینے کے معنی میں ہے ۔مفردات میں راغب کہتا ہے :

لفظ ”امداد“ عام طور پر مفید اور مؤثر کمک کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ”مد“ ناپسندیدہ کمک کے لیے ۔

بہر حال زیر بحث آیات کے مطابق خدا تعالیٰ اپنی نعمتوں کا کچھ حصہ تو سب کو دیتا ہے اور نیک اور بد سب اس سے استفادہ کرتے ہیں یہ نعمتوں کے اس حصے کی طرف اشارہ ہے جس پر دنیاوی زندگی کے بقا موقوف ہے اور جس کے بغیر کوئی باقی رہ سکتا ۔

دوسرے لفظوں میں خدا کا وہی مقام رحمانیت ہے جس کا فیض مومن و کافر کے لیے عام ہے لیکن اس کے علاوہ بھی ایسی لا متناہی نعمتیں ہیں جو صرف مومنین اور نیک لوگوں کے ساتھ مخصوص ہیں ۔

آیات ۲۲،۲۳،۲۴،۲۵

۲۲( لَاتَجْعَلْ مَعَ الله إِلَهًا آخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُومًا مَخْذُولً )

۲۳( وَقَضَی رَبُّکَ اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اٴَحَدُهُمَا اٴَوْ کِلَاهُمَا فَلَاتَقُلْ لَهُمَا اٴُفٍّ وَلَاتَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا کَرِیمًا )

۲۴( وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا )

۲۵( رَبُّکُمْ اٴَعْلَمُ بِمَا فِی نُفُوسِکُمْ إِنْ تَکُونُوا صَالِحِینَ فَإِنَّهُ کَانَ لِلْاٴَوَّابِینَ غَفُورًا )

ترجمہ

۲۲ ۔ اور الله کے ساتھ کسی اور کو معبود قرار نہ دے ورنہ مذموم و رسوا ہو جائے گا ۔

۲۳ ۔تیرے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی پرستش نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو جب ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھا پے کو پہنچ جائیں تو ان کی ذرہ بھر اہانت بھی نہ کرو اور انہیں جھڑکو نہیں اور کریمانہ انداز سے لطیف و سنجیدہ گفتگوکرو۔

۲۴ ۔ اور لطیف و محبت سے ان کے سامنے خاکساری کا پہلو جھکائے رکھو۔ اور کہو۔ پروردگارا! جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما ۔

۲۵ ۔تمہارا پروردگار تمہارے دلوں کے نہاں خانہ سے آگاہ ہے(اگر تم نے اس سلسلے میں کوئی لغزش کی ہوا اور پھر اس کی تلافی کردی ہو تو وہ تمہیں معاف کردے گا کیونکہ)اگر تم صالح اور نیک ہوگے تو وہ توبہ کرنے والوں کو بخش دیتا ہے ۔

اہم اسلامی احکام کا سلسلہ

توحید اور ماں باپ سے حسن سلوک

زیرِ نظرِ آیات اسلامی احکام کے ایک سلسلے کا آغاز ہیں یہ سلسلہ توحید اور ایمان سے شروع ہوتا ہے توحید تمام مثبت اور اصلاحی کاموں کے اسباب کا خمیر ہے ۔توحید سے احکام کے بارے میں گفتگو شروع کرکے ان آیات کا گزشتہ آیات سے تعلق باقی رکھا گیا ہے کیونکہ گزشتہ آیات میں ایمان، کوشش اور دار آخرت کا ارادہ رکھنے کے بارے میں گفتگو تھی۔

نیز یہ اس امر کی بھی تاکید ہے کہ قرآن صاف ترین اور بہترین راستہ کہ طرف دعوت دینے والا ہے ۔

توحید کے ذکر سے بعد شروع کرتے ہوئے قران کہتا ہے:”الله “ خدائے یگانہ کے ساتھ کوئی معبود قرار نہ دے( لَاتَجْعَلْ مَعَ الله إِلَهًا آخَرَ ) ۔

قرآن یہ نہیں کہتا کہ خدا کے ساتھ دوسرے معبود کی پرستش نہ کرو بلکہ کہتا ہے کہ اس کے ساتھ کسی اور کو معبود قرار نہ دو۔ یہ بات زیادہ وسیع مفہوم رکھتی ہے ۔ یعنی عقیدے میں ، عمل میں ، دعامیں اور پرستش میں ۔ کسی حالت میں بھی الله کے ساتھ کسی اور کہ معبود قرار نہ دو۔ اس کے بعد شرک کا ہلاکت انگیز نتیجہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:اگر تم اس کے لیے شریک کے قائل ہوگئے تو مذمت اور رسوائی میں ڈوب جاؤ گے( فَتَقْعُدَ مَذْمُومًا مَخْذُولً ) ۔

لفظ ”قعود“(بیٹھ جانا) یہاں ضعف و ناتوامی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ عربی ادب میں لفظ ضعف کے لیے کنایہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً”قعد به الضعف عن القتال

ناتوانی کی وجہ سے دشمن سے جنگ کرنے سے بیٹھ گیا ۔

مذکورہ بالا جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک انسان میں تین بہت برے اثر مرتب کرتا ہے ۔

(۱)شرک ضعف وناتوانی اور ذلت و زبوں حالی کاسبب ہے جبکہ قیام، حرکت اور سر فرازی کا عمل ہے ۔

(۲)شرک مذمت و سرزنش کا سبب ہے کیونکہ یہ ایک واضح انحرافی راستہ ہے، منطقِ عقل کا انکار ہے نعمتِ پروردگار کا واضح کفران ہے ۔ جو شخص ایسا انحراف اختیار کرے وہ قابلِ مذمت ہے ۔

(۳)شرک مشرک کو اس کے بنائے معبودوں کے پاس چھوڑ دیا ہے اور خدا اس کی مدد سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے ۔ بناوٹی معبود بھی چونکہ کسی کہ مدد کرنے کے قابل نہیں اور خدا بھی ان افراد کی مدد ترک کردیتا ہے تو وہ”مخذول“ یعنی بے یار و مددگار ہوکر رہ جاتے ہیں ۔قرآن کی دوسری آیات میں بھی یہی مفہوم کسی اور شکل میں بیان کیا گیا ہے ۔ سورہ عنکبوت کی آیہ ۴۱ میں ہے:

( مَثَلُ الَّذِینَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ الله اٴَوْلِیَاءَ کَمَثَلِ الْعَنکَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَیْتًا وَإِنَّ اٴَوْهَنَ الْبُیُوتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوتِ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ ) غیر خدا کو اپنا معبود بنانے والوں کی مثال مکڑی کی سی ہے جس نے کمزور اور بے بنیاد گھر کو اپنا سہارا بنا رکھا ہے اور کمزور ترین گھر مکڑی کا ہے ۔

توحید کے بعد اس پر تاکید کے ساتھ انبیاء کی انسانی تعلیمات میں سے ایک انتہائی بنیادی تعلیم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:” تیرے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ صرف اسی کی عبادت کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو “( وَقَضَی رَبُّکَ اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )

”قضاء“ ”امر“ کی نسبت زیادہ تاکید کا مفہوم رکھتا ہے اور قطعی و محکم فرمان کا معنی دیتا ہے ۔ یہ لفظ اس مسئلے میں پہلی تاکید ہے ۔

توحید۔ کہ جو اسلام کی عظیم ترین بنیاد ہے، ماں باپ سے نیکی کرنے کو اس کے ساتھ قرار دینا اس اسلامی حکم کی اہمیت کے لیے دوسری تاکید ہے ۔

لفظ ”احسان“ یہاں مطلق ہے ۔ اس میں ہر قسم کی نیکی کا مفہوم مضمر ہے ۔ یہ اس معاملے پر تیسری تاکید ہے ۔ اسی طرح لفظ ”والذین“ کا اطلاق مسلمان اور کافر دونوں پر ہوا ہے ۔ یہ اس مسئلے پر چوتھی تاکید ہے ۔

لفظ ”احساناً“یہاں نکرہ صورت میں ہے جو ایسے مواقع پر بیان عظمت کے لیے آتا ہے ۔ یہ پانچویں تاکید ہے(۱) ۔

بعض کا نظریہ ہے کہ ”احسان“ عام طورپر ”الیٰ“ کے ساتھ متعدی ہوتا ہے ”احسن الیہ“ (اس سے احسان کیا“ اور کبھی ”باء“ کے ذریعہ متعدی ہوتا ہے ۔ یہ تعبیر شاید دیکھ بھال کرنے کا معنی دینے کے لئے ہو، یعنی ذاتی طور پر بغیر کسی واسطے کے ماں باپ سے حُسنِ سلوک اور احترام ومحبت کا مظاہرہ کرو، یہ اس مسئلے کے لئے چھٹی تاکید ہے ۔

اس نکتے کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ حکم عمومی عموماً امر اثباتی کے لیے ہوتا ہے حالانکہ یہاں نفی پر ہے (تیرے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی پرستش نہ کرو) ہوسکتا ہے یہ اس بناء پر ہو کہ لفظ ”قضیٰ“ سے سمجھے جاتا ہے کہ دوسرا جملہ اثباتی شکل میں مقدر ہے اور معنی کے لحاظ سے اس طرح ہے :

تیرے پروردگار نے تاکیدی حکم دیا ہے کہ اس کی پرستش کر و، اس کہ غیر کی نہ کرو ۔

یایہ کہ نفی اور اثبات پر مشتمل یہ جملہ ”( اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاهُ ) “ایک اثباتی جملے کی حیثیت رکھتا ہے یعنی پروردگار کے لیے عبادت منحصر ہے کا اثبات ۔

اس کہ بعد ماں باپ سے حسن سلوک کا ایک واضح مصداق بیان کیا گیا ہے : جب ان دونوں میں سے ایک یادونوں تیرے پاس بڑھاپے تک پہنچ جائیں اور شکستہ سِن ہوجائیں (اس طرح سے انہیں تیری طرف سے مستقل دیکھ بھال کی احتیاج ہو ) توان کے لیے کسی طرح سے محبت میں دریغ نہ کرنا اور ان کی تھوڑی سی بھی اہانت نہ کرنا یہاں تک کہ خفیف ساغیر مؤد بانہ لفظ ”اُف“تک منہ سے نہ نکالنا( إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اٴَحَدُهُمَا اٴَوْ کِلَاهُمَا فَلَاتَقُلْ لَهُمَا اٴُفٍّ ) ۔(۱)

انہیں جھڑک نہ دینا اور ان کے سامنے بلند آواز نہ بولنا( وَلَاتَنْهَرْهُمَا ) ۔بلکہ سنجیدہ ‘لطیف کریمانہ شریفانہ انداز سے کلام کرنا( وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا کَرِیمًا ) ۔

اور تنہائی عجر وانکساری سے ان کے سامنے پہلو جھکا ئے رکھنا( وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ ) ۔اور کہو : پروردگار ا اپنی رحمت ان کے شامل حال کر جس طرح کہ انہوں نے بچپن میں پرورش کی ہے( وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا ) ۔یعض دوسروں کے بقول ”ان“ شرطیہ اور ”ما“ زائدہ سے مرکب ہے جو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ لفظ شرط اس فعل پر آسکے جو نون تاکید سے مؤکد ہے ۔ (المیزان)

____________________

۱۔ ”إِمَّا یَبْلُغَنَّ “ میں ”إِمَّا“بعض کے بقول ”ان“ شرطیہ اور ”ما“ شرطیہ کا مرکب ہے جو کہ تاکید کے لئے یکے بعد دیگرے آئے ہیں ۔ (تفسیر فخر الدین رازی)

ماں باپ کا انتہائی احترام

کزشتہ دو آیات میں ادلاد کے لیے ماں باپ کا انتہائی ادب واحترام بیان کیاگیا ہے کہ اس سلسلہ میں مختلف پہلو قابل غور ہیں :

(۱)ایک توان کے عالمِ پیری کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب وہ زیاوہ توجہ، محبت اور احترام کے محتاج ہوتے ہیں ۔فرمایا گیا ہے کہ ان سے ذرہ بھر اہانت آمیز بات نہ کرو کیو نکہ ہوسکتاہے بڑھا پے کی وجہ سے اس عالم کو پہنچ چکے ہوں کہ ادب دوسرے کی مدد کے بغیر چل پھرنہ سکتے ہوں اور نہ اپنی جگہ سے اٹھ سکتے ہوں یہاں تک کہ ہو سکتا ہے کہ گندگی بھی اپنے سے دور نہ کر سکتے ہوں ۔ایسی حالت میں ادلاد کی بہت بڑی آزمایش شروع ہوجاتی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس حالت میں اولاد ماں باپ کے وجود کو رحمت سمجھتی ہے یا مصیبت، کیا ایسے میں کافی صبر وحوصلہ کے ساتھ ماں باپ کی پورے احترام سے نگہداشت کرتی ہے یا گھٹیا اور اہانت آمیز الفاظ کے ساتھ انہیں زبان کے نشتر چبھوتی ہے، یا یہاں تک کہ بعض اوقات خدا سے ان کی موت کا تقاضا کرکے انہیں اذیت پہنچاتی ہے ۔

(۲)قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ اس موقع پر انہیں ”اف “تک نہ کہو یعنی ناراحتی، پریشانی اور تنفر کا اظہار نہ کرو۔ قرآن مزید کہتا ہے کہ ان سے بلند اور اہانت آمیز آواز سے بات نہ کرو۔ مزید تاکید کرتا ہے کہ ان سے کریمانہ اور شریفانہ لہجے میں کلام کرو۔بہ سب چیزیں انتہائی ادب سے گفتگو کرنے کے بارے میں ہیں کیونکہ دل کی کلید زبان ہے ۔

(۳) نیز قرآن عجز و انکساری کا حکم دیتا ہے ۔ ایسی انکساری جس سے محبت اور لگاؤ ظاہر ہو نہ کہ کوئی اور چیز۔

(۴)نیز آخر میں یہ تک کہتا ہے کہ جب بارگاہ خداوندی کا رخ کرو تو(وہ زندہ ہو یا نہ ) انہیں فراموش نہ کرو اور ان کے لیے رحمت پروردگار کا تقاضا کرو۔

اس تقاضے کے ساتھ خصوصیت سے یہ دلیل رکھو کہ خداوندا! جس طرح انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی تو بھی ویسے ہی اپنی رحمت ان کے شاملِ حال فرما ۔

دیگر چیزوں کے علاوہ اس سے یہ اہم نکتہ معلوم ہوتاہے کہ اگر ماں باپ اس قدر ناتواں ہوجائیں کہ تنہا چلنے پھرنے کے قابل نہ رہیں اور گندگی اپنے سے دور نہ کرسکیں تو پھر بھی انہیں فراموش نہ کرو و کیونکہ تم بھی بچپن میں اسی طرح تھے اور و ہ تمہاری حفاظت اور تجھ سے محبت میں کوئی دریغ نہ کرتے تھے لہٰذا ان کی محبت کا جواب ویسی ہی محبت سے دو۔

نیز ممکن ہے ماں باپ کے حقوق کی ادائیگی ، ان کا احترام اور ان کے سامنے انکساری کے معاملے میں اولاد سے جان بوجھ کر یا لا علمی میں کچھ لغزشیں ہو جائیں لہٰذا زیرِ بحث آخری آیت میں قرآن کہتاہے: جو کچھ تمہارے دل میں ہے پروردگار اس سے زیادہ آگاہ ہے( بُّکُمْ اٴَعْلَمُ بِمَا فِی نُفُوسِکُمْ ) ۔

کیونکہ اس کا علم تمام پہلووں سے حضور، ثابت اور ازلی و ابدی ہے اور ہر طرح سے غلطی اور اشتباہ سے پاک ہے جبکہ تمہارا علم ان صفات کا حامل نہیں ہے لہٰذا اگر تم سے سرکشی کی ارادے کے بغیر حکمِ الٰہی کے خلاف ماں باپ کے احترام اوران سے حُسنِ سلوک میں کوئی لغزش ہوجائیں اور تم فوراً پشیمان ہوکر توبہ و تلافی کا رُخ کرو تو یقینا رحمت الٰہی تمھارے شاملِ حال ہوگی۔” اگر تم صالح اور نیک ہو اور توبہ کرتے ہو، کیونکہ خدا توبہ کرنے ولوں کو بخشنے والا ہے“( إِنْ تَکُونُوا صَالِحِینَ فَإِنَّهُ کَانَ لِلْاٴَوَّابِینَ غَفُورًا )

اٴَوّاب “ ”اٴَوب “ (بروزن ”قَوم“)کے مادہ سے ہے ۔ یہ اس بازگشت کو کہتے ہیں جس میں ارادہ شامل ہو جبکہ ”رجوع“بھی بازگشت کوکہتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ارادہ بھی اس میں شامل ہو۔اسی بناء پر ”توبہ“کو ”اوبہ“ کہا جاتا ہے کیونکہ توبہ در حقیقت خدا کی طرف ارادے کے ساتھ بازگشت ہے ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ صیغہ مبالغہ کاذکر خداکی طرف بازگشت اور رجوع کے متعدد عوامل کی طرف اشارہ ہوکیونکہ :

(۱)پروردگار پر ایمان،

(۲) قیامت کی عدالت کی طرف توجہ،

(۳)بیداری ضمیر اور

(۴)گناہ کے اواقب و آثار کی طرف توجہ

یہ چاروں با ہم مل کر انسان کو تاکید در تاکید کے ذریعے کج روی سے نکال کر خدا کی طرف لے جاتے ہیں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ منطقِ اسلام میں والدین کا احترام:

اگر چہ انسانی جذبات اور حق شناسی والدین کی احترام گزاری کے لئے کافی ہے لیکن اسلام ایسے امور میں بھی خاموشی روا نہیں رکھتا جن میں عقل، جذبات اور طبعی میلانات واضح رہنمائی کرتے ہیں بلکہ ایسے امور بھی اسلام تاکید کے طور پر ضروری احکام صادر کرتا ہے ۔

والدین کے احترام کے بارے میں اسلام نے اس قدر تاکید کی ہے کہ اتنی تاکید بہت کم کسی مسئلہ میں کی گئی ہے ۔ نمونے کے طور پر ہم چندایک پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

(۱) قرآن مجید میں چار سورتوں میں مسئلے توحید کے فوراً بعد والدین سے حسن سلوک کا حکم آیا ہے ۔ ان دونوں مسائل کا اکھٹا بیان ہونا اس امر کو واضح کرتا ہے کہ اسلام کس حد تک ماں باپ کے احترام کاقائل ہے ۔

سورہ بقرہ کی آیت ۸۳ میں ہے:( اتَعْبُدُونَ إِلاَّ الله وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )

سورہ نساء کی آیت ۳۶ میں ہے:( وَاعْبُدُوا الله وَلَاتُشْرِکُوا بِهِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )

سورہ، انعام کی آیت ۱۵۱ میں ہے:( اٴَلاَّ تُشْرِکُوا بِهِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )

اور زیر بحث آیات میں بھی ان دونوں کو ایک دوسرے کا ہم قریں قرار دیا گیا ہے:

( وَقَضَی رَبُّکَ اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا )

(۲) اس مسئلے کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ قرآن میں بھی اور روایات میں بھی صراحت سے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ماں باپ کافر ہوں تب بھی ان کا احترام بجالا نا ضروری ہے ۔ سورہ لقمان کی آیت ۱۵ میں ہے ۔

( وَإِنْ جَاهَدَاکَ عَلی اٴَنْ تُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ فَلَاتُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوفًا )

اگر وہ تجھ سے اصرار کریں کہ تُو مشرک ہو جاتو اُن کی اطاعت نہ کر لیکن دنیا دی زندگی میں ان سے اچھا سلوک کر۔

(۳) قرآن مجید میں ماں باپ کے سامنے اظہار تشکر کا ذکر نعمات الٰہی کے شکریے کے ساتھ آیا ہے ۔

ارشاد ہوتا ہے:( اٴَنْ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ )

اگر چہ خدا کی نعمتوں کا تو اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ امر ماں باپ کے حقوق کی عظمت اور وسعت کی دلیل ہے ۔

(۴) قرآن نے ماں باپ کی ذرہ بھر بے احترام کی اجازت نہیں دی۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

لو علم الله شیئاً هو ادنیٰ من اٴف لنهی عنه، وهو من اٴدنی العقوق، ومن العقوق اٴن ینظر الرجل الی والدیه فیحدّ النظر الیهم -

کوئی چیز ”اف“(۱) سے بھی کم ہوتی تو خدا اس سے بھی روکتا بھی بے احترامی میں شامل ہے(۲)

(۵) با وجود یکہ جہاد ایک نہایت اہم اسلامی حکم ہے، جب تک واجب عینی نہ ہو یعنی اتنے افراد کافی تعداد میں وجود ہوں کہ جو اپنی خواہش سے جہاد پر جائیں تو جہاد کی نسبت ماں باپ کی خدمت میں رہنا زیادہ اہم ہے اور اگر جانا ان کی پریشانی اور بے آرامی کا سبب بنے تو نا جائز ہے ۔

امام صادق علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں :

ایک شخص پیغمبر اکرم کی خدمت میں آیا ۔

اُس نے عرض کیا:میں ایک خوش و خرم اور طاقتور نوجوان ہوں ۔ میرا دل چاہتا ہے کہ جہاد میں حصہّ لوں لیکن میری ماں ہے جو اس سے ناراحت ہوتی ہے ۔

اس کی اس بات پر رسول الله نے فرمایا:ارجع فکن مع والدتک فوا الذی یعثنی بالحق بک لیلة خیر من جهاد فی سبیل الله سنة -

لوٹ جاؤ اور اپنی ماں کے پاس رہو۔ قسم ہے اس خدا کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ایک رات کہ جس میں تیری ماں تجھ سے خوش رہے ایک سال جہاد سے بہتر ہے(۳)

البتہ جس وقت جہاد وجوب عینی کی صورت اختیار کر لے اور اسلامی ملک خطرے میں ہوا اورسب کا حاضر ہونا ضروری ہوتو پھر کوئی عذر قابل قبول نہیں یہاں تک کہ ماں باپ کی ناراضگی بھی لیکن واجبات کفائی کے موقع پر اسی طرح مستحبات میں مسئلہ اسی طرح ہے جیسا جہاد کے موقع پر کہا گیا ہے ۔

(۶) پیغمبر اکرم نے فرمایا:

ایّاکم وعقوق الوالدین فان ریح الجنة توجد من سیرة الف عام ولایجدها عاق -

اس سے بچو کہ ماں باپ تمہیں عاق کردیں اور ان کے ناراض ہونے سے بچو کیونکہ جنت کی خشبو ایک ہزار سال کی مسافت تک پہنچتی ہے لیکن ایسا شخص کبھی بھی یہ خشبو نہیں سونگھ سکتا کہ جو ماں باپ کا عاق کردہ اور نافرمان ہو۔(۴)

یہ تعبیر اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ایسے افراد نہ صرف جنت میں قدم نہیں رکھ سکیں گے بلکہ اس سے بہت دور ہوں گے اور اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکیں گے ۔

سید قطب اپنی تفسیر فی ظلال میں پیغمبر اکرم سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں :

ایک شخص طواف میں مشغول تھا ۔ اس نے اپنی ماں کو کاندھوں پر اٹھا رکھا تھا اور اسے طواف کروارہا تھا ۔ تو رسول الله نے اسے اس حالت میں دیکھا ۔ اس نے عرض کیا: کیا یہ کام کرکے میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا ؟ آپ نے فرمایا: نہیں یہاں تک کہ تو نے(وضع حمل کے وقت کی) ایک آہ کا بدلہ نہیں دیا ۔(۵)

اگر ہم قلم کو آزاد چھوڑدیں تو گفتگو بہت لمبی ہوجائے گی اور بات تفسیر سے آگے بڑھ جائے گی لیکن ہم صراحت سے کہتے ہیں کہ اس سلسلے کی جس قدر بھی گفتگو کریں تھوڑی ہے کیونکہ والدین انسان پر حق حیات رکھتے ہیں ۔

اس بحث کی آخر کیں ہم اس نکتے کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ماں باپ کوئی غیر منطقی یا خلاف شریعت بات کرتے ہیں تو واضح ہے کہ کسی ایسے موقع پر ان کی اطاعت واجب اور امر بالمعروف کیا جائے ۔

اس سلسلے گفتگو کو ہم امام کاظم علیہ السلام کی ایک حدیث پر تمام کرتے ہیں ۔ امام فرماتے ہیں :

کوئی شخص رسول الله کے پاس آیا اور اس نے باپ اور بیٹے کے حق کے متعلق سوال کیا ۔ آپ نے فرمایا:

لایسمه باسمه، ولا یمشی بین یدیه، ولا یجلس قبله، ولا یستسب له -

باپ کو اس کے نام سے نہ پکارے (بلکہ کہے:ابا جان،وغیرہ)، اس کے آگے آگے نہ چلے، اس سے پہلے نہ بیٹھے اور کوئی کام ایسا نہ کرے کہ لوگ اس کے باپ کو گالیاں دیں اور برا بھلا کہیں ۔ (یعنی یہ نہ کہیں کہ خدا تیرے باپ کو نہ بخشے کہ تونے یہ کام کیا ہے، وغیرہ) ۔(۶)

۲ ۔ ”قضاء“ کے معنی کے بارے میں تحقیق:

”قضیٰ“ ”قضاء“کے مادی سے کسی چیز کو عمل یا گفتگو سے جدا کرنے کے معنی میں ہے ۔بعض نے کہا ہے کہ یہ در اصل کسی چیز کو ختم کرنے کے معنی ہے ۔یہ دونوں معانی قریب الافق ہیں ۔

ختم کرنا اور جدا کرنا چونکہ وسیع مفہوم رکھتے ہیں لہٰذا یہ لفظ مختلف مفاہیم میں استعمال ہوتا ہے ۔

قرطبی نے اپنی تفسیر میں اس کے چھ معانی ذکر کیے ہیں :

(۱) ”قضاء“بمعنی حکم اور فرمان۔ مثلاً:( وَقَضَی رَبُّکَ اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاهُ )

تیرے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ اس کہ علاوہ کس کی عبادت نہ کر۔

(۲)”قضیٰ“ خلق کرنے کے معنی میں ۔ مثلاً:( فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَوْمَیْنِ )

خدا نے جہان کو ادورا میں سات آسمانوں کی شکل میں خلق کیا ۔ ( حٰم السجدہ۔ ۱۲)

(۳)”قضیٰ“فیصلے کے معنی میں :مثلاً:( فَاقْضِ مَا اٴَنْتَ قَاضٍ )

جو فیصلہ کرنا چاہتے ہو کرو۔ (طٰہٰ/ ۷۲)

(۴)”قضاء“ کسی چیز سے فراغت کے معنی میں ۔مثلاً:( قُضِیَ الْاٴَمْرُ الَّذِی فِیهِ تَسْتَفْتِیَانِ )

جس کام کے بارے میں تم نظریہ یافتویٰ دنیا چاہتے تھے وہ ختم ہوگیا ۔ (یوسف/ ۴۱)

(۵)”قضی“ ارادہ کے معنی میں مثلاً:( إِذَا قَضَی اٴَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَهُ کُنْ فَیَکُونُ )

جس وقت ہم نے موسی سے عہد و پیمان لیا ۔ (آل عمران/ ۴۷)

نیز ابوالفتوح رازی نے” قضیٰ“ کا معنی خبر دینا اور اعلان کرنا بھی لکھا ہے مثلاً:( إِذْ قَضَیْنَا إِلَی مُوسیٰ الْاٴَمْرَ )

ہم نے بنی اسرائیل کوتورات میں خبردی۔ (قصص/ ۴۴)(۲)

ان معانی میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے کہ”قضاء“ موت کے معنی میں بھی ہے مثلاً:( فَوَکَزَهُ مُوسیٰ فَقَضَی عَلَیْهِ )

موسی نے اسے ضرب لگائی اور وہ مرگیا ۔ (قصص/ ۱۵)

یہاں تک کہ بعض مفسرین نے قرآن مجید میں ”قضاء“ کے تیرہ سے بھی زیادہ معانی سمجھے ہیں ۔(۷)

لیکن ان سب کو لفظ”قضاء“ کے مختلف معانی نہیں سمجھنا چاہئے یہ سب ایک قدر مشترک رکھتے ہیں جس میں سب جمع ہیں ۔ در حقیقت زیادہ تر معانی جو سطور بالا میں ذکر کیے گئے ہیں ”اشتباہِ مصداق بمفہوم“ کے قبیل سے ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک ایک کلی اور جامع معنی کا مصداق ہے یعنی ختم کرنا اور الگ کرنا ۔

مثال کے طور پر قاضی اپنے فیصلے کے ذریعے دعوی ختم کرتا ہے ۔ پیدا کرنے والا اپنی تخلیق کے ذریعے کسی چیز کی خلقت کواختتام تک پہنچاتا ہے ۔ خبر دینے والا اپنی خبر کے ذریعے کسی چیز کا بیان آخر تک پہنچاتا ہے ۔ عہد و پیمان کرنے والا اور حکم دینے والا اپنے عہد و پیمان اور حکم کے ذریعے مسئلے کو اس طرح تمام کرتا ہے کہ اب اس میں بازگشت ممکن نہیں ہے ۔ البتہ بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان بعض مصادیق میں یہ اس طرح سے استعمال ہوا ہے کہ ایک نیا سامعنی پیدا ہو گیا ہے مثلا” قضاء“ فیصلہ کرنے اور حکم دینے کے معنی میں ۔

۳ ۔ ”اف“کے معنی کی تحقیق:

راغب مفردات میں کہتا ہے کہ”اُف“ در اصل ہر کثیف اور آلودہ چیز کے معنی میں ہے او ر توہین کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لفظ کا صرف رسمی معنی نہیں ہے بلکہ اس سے فعل بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ مثلا ًکہتے ہیں :

اففت بکذ -

یعنی۔ میں نے فلاں چیز کو آلودہ سمجھا اور اس سے اظہار نفرت کیا ۔

بعض مفسرین مثلا ًقرطبی نے اپنی تفسیر میں اور طبرسی نے مجمع البیان میں کہا ہے کہ ”اُف“ اور ”تف“ اصل میں وہ میل کچیل ہے جو ناخن کے نیچے جمع ہوجاتی ہے جو آلودہ بھی ہوتی ہے اور حقیر بھی۔ یہاں تک کہ بعض نے”اُف“ اور ”تف“ میں بھی فرق کیا ہے ۔ انھوں نے پہلے کوگوشت کی میل کچیل اور دوسرے کو ناخن کی میل سمجھا ہے ۔

بعد ازاں اس کے مفہوم میں وسعت پیدا ہوگئی اور ہر اس چیز کے لیے بولا جانے لگا جو ناراحتی اور تکلیف کا باعث ہو(۸)

”اُف“ سے اور معانی بھی مراد لیے گئے ہیں ، مثلاً تھوڑی سی چیز، ناراحتی، ملامت اور بدبو۔

بعض دیگر نے کہا ہے کہ اس لفظ کی بنیاد یہ ہے کہ جس وقت انسان کے بدن یا لباس پر مٹی یا تھوڑی سی راکھ بیٹھ جائے اوروہ پھونک سے اسے اپنے سے دور کرے تو اس موقع پر انسان کے منہ سے جو آواز نکلتی ہے وہ”اوف“ یا”اُف“ کے مشابہ ہوتی ہے ۔بعد ازاں یہ لفظ کی صورت میں ناراحتی اور تنفر کے اظہار کے لیے خصوصاً معمولی چیزوں کے بارے میں استعمال ہونے لگا ۔

جو کچھ اس سلسلے میں کہا گیا ہے اسے مجموعی نظر سے دیکھا جائے اور دیگر قرائن بھی ملحوظ نظر رکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ اصل میں ”اسم صوت“ تھا(وہ آواز جو انسان نفرت، رنج اور تکلیف کے موقع پر نکلتا ہے یا کسی آلودہ چیز پر پھونک مارتے ہوئے اس کے منھ سے نکلتی ہے) ۔ بعد ازاں یہ آواز لفظ کی صورت اختیار کر گئی۔ یہاں تک کہ اس سے الفاظ مشتق ہوئے اور یہ لفظ معمولی پریشانیوں یا چھوٹے چھوٹے مسائل پر اظہار تنفر کے لیے بولا جانے لگا ۔ لہٰذا اوپر جو مختلف معانی بیان ہوئے ہیں یوں لگتا ہے کہ وہ اسی جامع اور کلی کے مصداق ہیں ۔

بہرحال آیت چاہتی ہے کہ ایک مختصر سی عبارت میں انتہائی فصاحت و بلاغت سے یہ بات سمجھائے کہ ماں باپ کا احترام اس قدر زیادہ ہے کہ ان کے سامنے ذراسی بھی ایسی بات نہ کی جائے جو ان کی ناراحتی یا تنفر کا باعث ہو۔

____________________

۱۔ جیسا کہ ہم نے کہا ہے ”اُف“ ناراحتی کا معمولی سا اظہار ہے ۔

۲۔ جامع السعادات، ج۲، ص۲۵۸-

۳۔ جامع السعادات، ج۲، ص۲۶۰-

۴۔ جامع السعادات، ج۲، ص۲۵۷-

۵۔ فی ظلال، ج۵، ص۳۱۸-

۶۔ نور الثقلین، ج۴، ص۱۴۹-

۷۔ تفسیر قرطبی، ج۶، ص۳۸۵۳-

۸۔ تفسیر فخر الدین رازی، ج۲۰، ص۱۸۸-