چند اہم نکات
۱ ۔ منطقِ اسلام میں والدین کا احترام:
اگر چہ انسانی جذبات اور حق شناسی والدین کی احترام گزاری کے لئے کافی ہے لیکن اسلام ایسے امور میں بھی خاموشی روا نہیں رکھتا جن میں عقل، جذبات اور طبعی میلانات واضح رہنمائی کرتے ہیں بلکہ ایسے امور بھی اسلام تاکید کے طور پر ضروری احکام صادر کرتا ہے ۔
والدین کے احترام کے بارے میں اسلام نے اس قدر تاکید کی ہے کہ اتنی تاکید بہت کم کسی مسئلہ میں کی گئی ہے ۔ نمونے کے طور پر ہم چندایک پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
(۱) قرآن مجید میں چار سورتوں میں مسئلے توحید کے فوراً بعد والدین سے حسن سلوک کا حکم آیا ہے ۔ ان دونوں مسائل کا اکھٹا بیان ہونا اس امر کو واضح کرتا ہے کہ اسلام کس حد تک ماں باپ کے احترام کاقائل ہے ۔
سورہ بقرہ کی آیت ۸۳ میں ہے:(
اتَعْبُدُونَ إِلاَّ الله وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا
)
سورہ نساء کی آیت ۳۶ میں ہے:(
وَاعْبُدُوا الله وَلَاتُشْرِکُوا بِهِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا
)
سورہ، انعام کی آیت ۱۵۱ میں ہے:(
اٴَلاَّ تُشْرِکُوا بِهِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا
)
اور زیر بحث آیات میں بھی ان دونوں کو ایک دوسرے کا ہم قریں قرار دیا گیا ہے:
(
وَقَضَی رَبُّکَ اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاهُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا
)
(۲) اس مسئلے کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ قرآن میں بھی اور روایات میں بھی صراحت سے اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ماں باپ کافر ہوں تب بھی ان کا احترام بجالا نا ضروری ہے ۔ سورہ لقمان کی آیت ۱۵ میں ہے ۔
(
وَإِنْ جَاهَدَاکَ عَلی اٴَنْ تُشْرِکَ بِی مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ فَلَاتُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوفًا
)
اگر وہ تجھ سے اصرار کریں کہ تُو مشرک ہو جاتو اُن کی اطاعت نہ کر لیکن دنیا دی زندگی میں ان سے اچھا سلوک کر۔
(۳) قرآن مجید میں ماں باپ کے سامنے اظہار تشکر کا ذکر نعمات الٰہی کے شکریے کے ساتھ آیا ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے:(
اٴَنْ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ
)
اگر چہ خدا کی نعمتوں کا تو اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ امر ماں باپ کے حقوق کی عظمت اور وسعت کی دلیل ہے ۔
(۴) قرآن نے ماں باپ کی ذرہ بھر بے احترام کی اجازت نہیں دی۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
لو علم الله شیئاً هو ادنیٰ من اٴف لنهی عنه، وهو من اٴدنی العقوق، ومن العقوق اٴن ینظر الرجل الی والدیه فیحدّ النظر الیهم
-
کوئی چیز ”اف“
سے بھی کم ہوتی تو خدا اس سے بھی روکتا بھی بے احترامی میں شامل ہے
(۵) با وجود یکہ جہاد ایک نہایت اہم اسلامی حکم ہے، جب تک واجب عینی نہ ہو یعنی اتنے افراد کافی تعداد میں وجود ہوں کہ جو اپنی خواہش سے جہاد پر جائیں تو جہاد کی نسبت ماں باپ کی خدمت میں رہنا زیادہ اہم ہے اور اگر جانا ان کی پریشانی اور بے آرامی کا سبب بنے تو نا جائز ہے ۔
امام صادق علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں :
ایک شخص پیغمبر اکرم کی خدمت میں آیا ۔
اُس نے عرض کیا:میں ایک خوش و خرم اور طاقتور نوجوان ہوں ۔ میرا دل چاہتا ہے کہ جہاد میں حصہّ لوں لیکن میری ماں ہے جو اس سے ناراحت ہوتی ہے ۔
اس کی اس بات پر رسول الله نے فرمایا:ارجع فکن مع والدتک فوا الذی یعثنی بالحق بک لیلة خیر من جهاد فی سبیل الله سنة
-
لوٹ جاؤ اور اپنی ماں کے پاس رہو۔ قسم ہے اس خدا کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ایک رات کہ جس میں تیری ماں تجھ سے خوش رہے ایک سال جہاد سے بہتر ہے
البتہ جس وقت جہاد وجوب عینی کی صورت اختیار کر لے اور اسلامی ملک خطرے میں ہوا اورسب کا حاضر ہونا ضروری ہوتو پھر کوئی عذر قابل قبول نہیں یہاں تک کہ ماں باپ کی ناراضگی بھی لیکن واجبات کفائی کے موقع پر اسی طرح مستحبات میں مسئلہ اسی طرح ہے جیسا جہاد کے موقع پر کہا گیا ہے ۔
(۶) پیغمبر اکرم نے فرمایا:
ایّاکم وعقوق الوالدین فان ریح الجنة توجد من سیرة الف عام ولایجدها عاق
-
اس سے بچو کہ ماں باپ تمہیں عاق کردیں اور ان کے ناراض ہونے سے بچو کیونکہ جنت کی خشبو ایک ہزار سال کی مسافت تک پہنچتی ہے لیکن ایسا شخص کبھی بھی یہ خشبو نہیں سونگھ سکتا کہ جو ماں باپ کا عاق کردہ اور نافرمان ہو۔
یہ تعبیر اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ایسے افراد نہ صرف جنت میں قدم نہیں رکھ سکیں گے بلکہ اس سے بہت دور ہوں گے اور اس کے قریب بھی نہیں پھٹک سکیں گے ۔
سید قطب اپنی تفسیر فی ظلال میں پیغمبر اکرم سے یہ حدیث نقل کرتے ہیں :
ایک شخص طواف میں مشغول تھا ۔ اس نے اپنی ماں کو کاندھوں پر اٹھا رکھا تھا اور اسے طواف کروارہا تھا ۔ تو رسول الله نے اسے اس حالت میں دیکھا ۔ اس نے عرض کیا: کیا یہ کام کرکے میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا ؟ آپ نے فرمایا: نہیں یہاں تک کہ تو نے(وضع حمل کے وقت کی) ایک آہ کا بدلہ نہیں دیا ۔
اگر ہم قلم کو آزاد چھوڑدیں تو گفتگو بہت لمبی ہوجائے گی اور بات تفسیر سے آگے بڑھ جائے گی لیکن ہم صراحت سے کہتے ہیں کہ اس سلسلے کی جس قدر بھی گفتگو کریں تھوڑی ہے کیونکہ والدین انسان پر حق حیات رکھتے ہیں ۔
اس بحث کی آخر کیں ہم اس نکتے کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ماں باپ کوئی غیر منطقی یا خلاف شریعت بات کرتے ہیں تو واضح ہے کہ کسی ایسے موقع پر ان کی اطاعت واجب اور امر بالمعروف کیا جائے ۔
اس سلسلے گفتگو کو ہم امام کاظم علیہ السلام کی ایک حدیث پر تمام کرتے ہیں ۔ امام فرماتے ہیں :
کوئی شخص رسول الله کے پاس آیا اور اس نے باپ اور بیٹے کے حق کے متعلق سوال کیا ۔ آپ نے فرمایا:
لایسمه باسمه، ولا یمشی بین یدیه، ولا یجلس قبله، ولا یستسب له
-
باپ کو اس کے نام سے نہ پکارے (بلکہ کہے:ابا جان،وغیرہ)، اس کے آگے آگے نہ چلے، اس سے پہلے نہ بیٹھے اور کوئی کام ایسا نہ کرے کہ لوگ اس کے باپ کو گالیاں دیں اور برا بھلا کہیں ۔ (یعنی یہ نہ کہیں کہ خدا تیرے باپ کو نہ بخشے کہ تونے یہ کام کیا ہے، وغیرہ) ۔
۲ ۔ ”قضاء“ کے معنی کے بارے میں تحقیق:
”قضیٰ“ ”قضاء“کے مادی سے کسی چیز کو عمل یا گفتگو سے جدا کرنے کے معنی میں ہے ۔بعض نے کہا ہے کہ یہ در اصل کسی چیز کو ختم کرنے کے معنی ہے ۔یہ دونوں معانی قریب الافق ہیں ۔
ختم کرنا اور جدا کرنا چونکہ وسیع مفہوم رکھتے ہیں لہٰذا یہ لفظ مختلف مفاہیم میں استعمال ہوتا ہے ۔
قرطبی نے اپنی تفسیر میں اس کے چھ معانی ذکر کیے ہیں :
(۱) ”قضاء“بمعنی حکم اور فرمان۔ مثلاً:(
وَقَضَی رَبُّکَ اٴَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاهُ
)
تیرے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ اس کہ علاوہ کس کی عبادت نہ کر۔
(۲)”قضیٰ“ خلق کرنے کے معنی میں ۔ مثلاً:(
فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَوْمَیْنِ
)
خدا نے جہان کو ادورا میں سات آسمانوں کی شکل میں خلق کیا ۔ ( حٰم السجدہ۔ ۱۲)
(۳)”قضیٰ“فیصلے کے معنی میں :مثلاً:(
فَاقْضِ مَا اٴَنْتَ قَاضٍ
)
جو فیصلہ کرنا چاہتے ہو کرو۔ (طٰہٰ/ ۷۲)
(۴)”قضاء“ کسی چیز سے فراغت کے معنی میں ۔مثلاً:(
قُضِیَ الْاٴَمْرُ الَّذِی فِیهِ تَسْتَفْتِیَانِ
)
جس کام کے بارے میں تم نظریہ یافتویٰ دنیا چاہتے تھے وہ ختم ہوگیا ۔ (یوسف/ ۴۱)
(۵)”قضی“ ارادہ کے معنی میں مثلاً:(
إِذَا قَضَی اٴَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَهُ کُنْ فَیَکُونُ
)
جس وقت ہم نے موسی سے عہد و پیمان لیا ۔ (آل عمران/ ۴۷)
نیز ابوالفتوح رازی نے” قضیٰ“ کا معنی خبر دینا اور اعلان کرنا بھی لکھا ہے مثلاً:(
إِذْ قَضَیْنَا إِلَی مُوسیٰ الْاٴَمْرَ
)
ہم نے بنی اسرائیل کوتورات میں خبردی۔ (قصص/ ۴۴)
ان معانی میں مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے کہ”قضاء“ موت کے معنی میں بھی ہے مثلاً:(
فَوَکَزَهُ مُوسیٰ فَقَضَی عَلَیْهِ
)
موسی نے اسے ضرب لگائی اور وہ مرگیا ۔ (قصص/ ۱۵)
یہاں تک کہ بعض مفسرین نے قرآن مجید میں ”قضاء“ کے تیرہ سے بھی زیادہ معانی سمجھے ہیں ۔
لیکن ان سب کو لفظ”قضاء“ کے مختلف معانی نہیں سمجھنا چاہئے یہ سب ایک قدر مشترک رکھتے ہیں جس میں سب جمع ہیں ۔ در حقیقت زیادہ تر معانی جو سطور بالا میں ذکر کیے گئے ہیں ”اشتباہِ مصداق بمفہوم“ کے قبیل سے ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک ایک کلی اور جامع معنی کا مصداق ہے یعنی ختم کرنا اور الگ کرنا ۔
مثال کے طور پر قاضی اپنے فیصلے کے ذریعے دعوی ختم کرتا ہے ۔ پیدا کرنے والا اپنی تخلیق کے ذریعے کسی چیز کی خلقت کواختتام تک پہنچاتا ہے ۔ خبر دینے والا اپنی خبر کے ذریعے کسی چیز کا بیان آخر تک پہنچاتا ہے ۔ عہد و پیمان کرنے والا اور حکم دینے والا اپنے عہد و پیمان اور حکم کے ذریعے مسئلے کو اس طرح تمام کرتا ہے کہ اب اس میں بازگشت ممکن نہیں ہے ۔ البتہ بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان بعض مصادیق میں یہ اس طرح سے استعمال ہوا ہے کہ ایک نیا سامعنی پیدا ہو گیا ہے مثلا” قضاء“ فیصلہ کرنے اور حکم دینے کے معنی میں ۔
۳ ۔ ”اف“کے معنی کی تحقیق:
راغب مفردات میں کہتا ہے کہ”اُف“ در اصل ہر کثیف اور آلودہ چیز کے معنی میں ہے او ر توہین کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لفظ کا صرف رسمی معنی نہیں ہے بلکہ اس سے فعل بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ مثلا ًکہتے ہیں :
اففت بکذ
-
یعنی۔ میں نے فلاں چیز کو آلودہ سمجھا اور اس سے اظہار نفرت کیا ۔
بعض مفسرین مثلا ًقرطبی نے اپنی تفسیر میں اور طبرسی نے مجمع البیان میں کہا ہے کہ ”اُف“ اور ”تف“ اصل میں وہ میل کچیل ہے جو ناخن کے نیچے جمع ہوجاتی ہے جو آلودہ بھی ہوتی ہے اور حقیر بھی۔ یہاں تک کہ بعض نے”اُف“ اور ”تف“ میں بھی فرق کیا ہے ۔ انھوں نے پہلے کوگوشت کی میل کچیل اور دوسرے کو ناخن کی میل سمجھا ہے ۔
بعد ازاں اس کے مفہوم میں وسعت پیدا ہوگئی اور ہر اس چیز کے لیے بولا جانے لگا جو ناراحتی اور تکلیف کا باعث ہو
”اُف“ سے اور معانی بھی مراد لیے گئے ہیں ، مثلاً تھوڑی سی چیز، ناراحتی، ملامت اور بدبو۔
بعض دیگر نے کہا ہے کہ اس لفظ کی بنیاد یہ ہے کہ جس وقت انسان کے بدن یا لباس پر مٹی یا تھوڑی سی راکھ بیٹھ جائے اوروہ پھونک سے اسے اپنے سے دور کرے تو اس موقع پر انسان کے منہ سے جو آواز نکلتی ہے وہ”اوف“ یا”اُف“ کے مشابہ ہوتی ہے ۔بعد ازاں یہ لفظ کی صورت میں ناراحتی اور تنفر کے اظہار کے لیے خصوصاً معمولی چیزوں کے بارے میں استعمال ہونے لگا ۔
جو کچھ اس سلسلے میں کہا گیا ہے اسے مجموعی نظر سے دیکھا جائے اور دیگر قرائن بھی ملحوظ نظر رکھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ اصل میں ”اسم صوت“ تھا(وہ آواز جو انسان نفرت، رنج اور تکلیف کے موقع پر نکلتا ہے یا کسی آلودہ چیز پر پھونک مارتے ہوئے اس کے منھ سے نکلتی ہے) ۔ بعد ازاں یہ آواز لفظ کی صورت اختیار کر گئی۔ یہاں تک کہ اس سے الفاظ مشتق ہوئے اور یہ لفظ معمولی پریشانیوں یا چھوٹے چھوٹے مسائل پر اظہار تنفر کے لیے بولا جانے لگا ۔ لہٰذا اوپر جو مختلف معانی بیان ہوئے ہیں یوں لگتا ہے کہ وہ اسی جامع اور کلی کے مصداق ہیں ۔
بہرحال آیت چاہتی ہے کہ ایک مختصر سی عبارت میں انتہائی فصاحت و بلاغت سے یہ بات سمجھائے کہ ماں باپ کا احترام اس قدر زیادہ ہے کہ ان کے سامنے ذراسی بھی ایسی بات نہ کی جائے جو ان کی ناراحتی یا تنفر کا باعث ہو۔
____________________