آیات ۳۶،۳۷،۳۸،۳۹،۴۰
۳۶(
وَلَاتَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اٴُوْلٰئِکَ کَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا
)
۳۷(
وَلَاتَمْشِ فِی الْاٴَرْضِ مَرَحًا إِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاٴَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا
)
۳۸(
کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُهُ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوهًا
)
۳۹(
ذٰلِکَ مِمَّا اٴَوْحیٰ إِلَیْکَ رَبُّکَ مِنَ الْحِکْمَةِ وَلَاتَجْعَلْ مَعَ الله إِلَهًا آخَرَ فَتُلْقَی فِی جَهَنَّمَ مَلُومًا مَدْحُورًا
)
۴۰(
اٴَفَاٴَصْفَاکُمْ رَبُّکُمْ بِالْبَنِینَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِکَةِ إِنَاثًا إِنَّکُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِیمًا
)
ترجمہ
۳۶ ۔ اس کہ پیروی نہ کر جس کا تجھے علم نہ ہو کیونکہ کان ،آنکھ اور دل سے سوال کیا جائے گا ۔
۳۷ ۔ زمین پر تکبّر سے نہ چل ،تو زمین کو چیر نہیں سکتا اور تیرے قد کی لمبائی ہر گز پہاڑوں تک نہیں پہنچ سکتی ۔
۳۸ ۔ ان سب کے گناہ تیرے پروردگار کہ ہاں لائقِ نفرت قرار پائے ہیں ۔
۳۹ ۔ یہ احکام ان حکمتوں میں سے ہیں جو تجھے تیرے پروردگار نے وحی کے ذریعے دی ہیں اور اللہ کے ساتھ ہر گز کسی کو معبود قرار نہ دے کہ تو جہنم میں جاگرے گا اس حالت میں کہ درگاہ خدا سے ملامت شدہ اور راندہ ہو گا ۔
۴۰ ۔ کیا خدانے بیٹے تم سے مخصوص کردیئے ہیں اور خود ملائکہ میں سے بیٹیاں لے لی ہیں ۔تم بہت بڑی (اور اتنہائی غلط) بات کہتے ہو ۔
تفسیر
گزشتہ آیات میں ہم نے اسلام کی کچھ انتہائی بنیاد ی تعلیمات پڑھی ہیں ۔یہ مسئلہ توحید سے شروع ہوتا ہے کہ جس سے ان تمام تعلیمات کا خمیر اٹھتا ہے اور پھر وہ احکام ہیں کہ جو انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے مربوط ہیں زیرِ نظر آیات میں ہم ان احکام کے آخر ی حصّے تک جاتے ہیں ۔یہاں چند مزید اہم احکام کی طرف اشارہ گیا ہے ۔
۱ ۔ صرف علم کی پیروی کرو :
پہلے تمام چیزوں میں تحقیق کو ضرورت قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے :جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کی پیروی نہ کرو(
وَلَاتَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ
)
۔ نہ اپنے ذاتی عمل میں علم کے بغیر عمل کر اور نہ دوسروں کے بارے میں فیصلہ کر تے وقت بغیر علم کے شہادت دے اور نہ ہی علم کے بغیر کوئی عقیدہ و نظریہ قائم کر۔
گویا غیر عالم کی پیروی سے ممانعت ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے ۔ اس میں اعتقادی امور بھی شامل ہیں ، شہادت، قضائت اور عمل بھی۔ یہ جو بعض مفسرین نے اسے کچھ امور محدود کردیا ہے اس کی کوئی واضح دلیل نہیں ہے کیونکہ”تقف“ ”قفو“ (بروزن ”عفو“) کے مادہ سے کسی چیز کے پیچھے لگنے کے معنی میں ہے اور ہم جانتے ہیں کہ غیر علم کے پیچھے لگنا وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔ اور اس میں تمام مذکورہ چیزیں شامل ہیں ۔
لہٰذا ہر چیز کی شناخت کا معیار علم و یقین ہے اور اس کے علاوہ ظن وگمان ہو، حدس و تخمین ہو یا شک و احتمال کچھ بھی قابل اعتماد نہیں ہے ۔ جو لوگ ان امور کی بنیاد پر اعتماد کر لیتے ہیں یا فیصلے کی مسند پر بیٹھ جاتے ہیں یا شہادت دیتے ہیں یہاں تک کہ اپنے ذاتی عمل میں ان کی بنیاد پر قدم اٹھاتے ہیں وہ اس صریح حکم اسلامی کے خلاف عمل کرتے ہیں ۔
دوسرے لفظوں میں نہ شہرت پانے والی چیزیں قضائت، شھادت اور عمل کی بنیاد بن سکتی ہیں قرائن ظنی اور غیر یقینی خبریں کہ جو غیر مؤثق ذرائع سے ہم تک پہنچتی ہیں ۔
آیت کے آخر میں اس ممانعت کی دلیل اس طرح بیان کی گئی ہے:”کان، آنکھ اور دل سب کے سب مسئول ہیں “ اور جو کچھ وہ انجام دیتے ہیں اس کے بارے میں ان سے پوچھا جائے گا(
إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اٴُوْلٰئِکَ کَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا
)
۔
یہ ذمہ داری اس بناء پر ہے کہ جو باتیں انسان علم و یقین کے بغیر کہتا ہے وہ یا اس نے غیر مؤثق افراد سے سنی ہوتی ہیں ، یا وہ کہتا ہے کہ میں نے دیکھا ہے جبکہ اس نے دیکھا نہیں ہوتا، یا وہ اپنے فکر و خیال کی بنیاد پر بے بنیاد فیصلے کرتا ہے کہ جو حقیقت پر منطبق نہیں ہوتے ۔ اسی بناء پر اس کی آنکھ، کان اور فکر و عقل سے سوال کیا جائے گا کہ کیا واقعاً تم ان امور کے بارے میں یقین رکھتے تھے کہ تم نے ان کے بارے میں گواہی دی یا فیصلہ کیا یا ان کے معتقد ہوئے اور ان کے مطابق عمل کیا ۔
اگر چہ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ان اعضاء وجوارح سے سوال کرنے سے مرادیہ اعضاء رکھنے والوں سے سوال کرنا ہے لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ قرآن دیگر آیات (مثلاً فصلت۔ ۲۱) میں تصریح کرتا ہے کہ روز قیامت انسانی جسم کے اعضاء یہاں تک کہ بدن کی کھال بھی بات کرے گی اور یہ اعضاء حقائق بیان کریں گے، تو کوئی دلیل موجود نہیں کہ ہم آیت کے ظاہری مفہوم کو چھوڑ دیں اور یہ نہ کہیں کہ خود ان اعضاء سے سوال ہوگا ۔
رہا یہ سوال کہ حواس انسانی میں سے صرف آنکھ اور کان کا ذکر کیوں کیا گیا ہے، تو اس کی دلیل اور وجہ واضح ہے کیونکہ انسان کی حسّی معلومات کا ذریعہ عام طور پر دوہی ہیں اور باقی حواس ان کے تحت ہیں ۔
نظم معاشرہ کے لیے ایک اہم درس
مذکورہ بالا آیت اجتماعی زندگی کے ایک انتہائی اہم اصول کی طرف اشارہ کرتی ہے جسے نظر انداز کر دینے کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں ہوگا کہ معاشرہ حرج مرج کا شکار ہوجائے گا انسانی رابطہ ختم ہوجائیں گے اور احساسات کے رشتے ٹوٹ جائیں گے ۔
اور اگر یہ قرآنی پروگرام تمام انسانی معاشروں میں پوری طرح سے جاری ہوجائے تو بہت سی بدنظمیاں ، بے اعتدالیاں اور مشکلات ختم ہوجائیں کہ جن کا سرچشمہ جلد بازی کے فیصلے، بے بنیاد گمان، مشکوک اور جھوٹی خبریں ہوتی ہیں ۔
اگر قرآن کا یہ حکم رائج نہ ہو تو معاشرہ پر حرج مرج اور فتنہ و فساد کی فضا چھا جائے گی اور کوئی شخص دوسرے کی بدگمانی سے نہیں بچ سکے گا، کسی کو کسی پر اطمینان نہیں ہوگا اور تمام افراد کی عزت و آبرو اور مقام ہمیشہ خطرے میں رہے گا ۔
بہت سی دیگر قرآنی آیات اور اسلامی روایات میں اس بات پر زور دیا گیا ہے ۔ مثلاً:
(۱) وہ آیات کہ جو ظن و گمان کی پیروی کرنے کی وجہ سے بے ایمان افراد کی شدید مذمت کرتی ہیں ۔مثلاً:
(
وَمَا یَتَّبِعُ اٴَکْثَرُهُمْ إِلاَّ ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لَایُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا
)
۔
ان میں اکثر اپنے فیصلوں میں صرف ظن و گمان کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ظن و گمان انسان کو کسی طرح بھی حق و حقیقت تک نہیں پہنچا سکتے ۔ (یونس۔ ۳۶)
(۲) ایک اور مقام پر پیروی ظن کو ہوائے نفس کی پیروی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے:
(
إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَمَا تَهْوَی الْاٴَنْفُس
)
۔
وہ صرف گمان اور ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہیں ۔ (نجم۔ ۲۳)
(۳) ایک حدیث میں امام صادق سے مروی ہے:ان من حقیقة الایمان ان لا یجوز منطقک علمک
ایمان کی حقیقت میں سے یہ ہے کہ تیری گفتگو تیرے علم سے زیادہ نہ ہو اور جتنا تو جانتا ہے تو اس سے زیادہ بات نہ کرے ۔
(۴) ایک اور حدیث میں امام موسیٰ بن جعفرعلیہ السلام سے مروی ہے، آپ(ص) اپنے آباؤ اجداد سے نقل کرتے ہیں :
لیس لک ان تتکلم بما شئت، لان اللّٰه عزوجل یقول
(
ولا تقف ما لیس لک به علم
)
۔
تو جو چاہے نہیں کہہ سکتا کیونکہ خدا کہتا ہے: جس کا تجھے علم نہیں اس کی پیروی نہ کر۔
(۵) ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے، آپ فرماتے ہیں :
ایّاکم والظن فان الظن اکذب الکذب
گمان سے پرہیز کرو کیونکہ گمان بدترین جھوٹ ہے ۔
(۶) ایک شخص امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا ۔ اس نے عرض کی:
میرے کچھ ہمسائے ہیں ۔ ان کے پاس گانے بجانے والی کنیزیں ہیں ۔ وہ گاتی بجاتی ہیں ۔ بعض اوقات میں بیت الخلاء میں جاتا ہوں تو زیادہ دیر بیٹھا رہتا ہوں تاکہ ان کے گیت سن سکوں حالانکہ میں اس مقصد کے لیے نہیں جاتا ۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
کیا تو نے خدا کا یہ ارشاد نہیں سنا:(
إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اٴُوْلٰئِکَ کَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا
)
(یقینا کان، آنکھ اور دل سب سے سوال ہوگا)
اس نے عرض کیا:مجھے یوں لگا ہے کہ جیسے یہ آیت میں نے ہرگز کبھی کسی عرب یا عجم سے نہیں سنی میں ابھی سے یہ کام چھوڑتا ہوں اور بارگاہ الٰہی میں توبہ کرتا ہوں ۔
بعض مصاد ر حدیث میں اس روایت کے ذیل میں ہے کہ امام (ص)نے اسے حکم دیا:
جاؤ اور غسل توبہ کرو اور جس قدر ہوسکے نماز پڑھو کیونکہ تم نے بہت بُرا کام کیا ۔ اگر تو اس حالت میں مرجاتا تو تجھے عظیم جواب وہی کاسامنا کرنا پڑتا ۔
یہ آیات اور پیغمبر اکرم صلی ا للهعلیہ وآلہ وسلم اور آئمہ ہدیٰ(ص) سے منقول احادیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کس طرح انسان کی آنکھ اور کان کو مسئول قرار دیتا ہے ۔ اسلام کا تقاضا ہے کہ انسان جب تک نہ دیکھے نہ کہے، جب تک نہ سنے فیصلہ نہ کرے اور تحقیق، علم اور یقین کے بغیر کسی چیز کا اعتقاد نہ رکھے، نہ عمل کرے اور نہ قضاوت کرے ۔
گمان ، تخمینے، اندازے اور سنی سنائی باتوں کی پیروی کرنا اور علم و یقین کے بغیر کسی چیز کے پیچھے لگنا فرد اور معاشرے کے لیے بہت بڑے خطرات پیدا کرتی ہے ۔ ان میں سے ہر ایک کے بہت زیادہ نقصانات ہیں ۔مثلاً:
(۱) غیر علم پر بھروسہ کرنا لوگوں کے حقوق کی پامالی اور غیر مستحق افراد کو کسی کا حق دینے کا سرچشمہ ہے ۔
(۲) غیر علم کی پیروی آبرو مند افراد کی غزت و آبرو کو خطرے میں ڈال دیتی ہے اور خدمت گزاروں کو بد دِل کردیتی ہے ۔
(۳) غیر علم پر اعتماد پر ا پیگنڈا، افواہوں اور جعل سازیوں کا بازار گرم کردیتا ہے ۔
(۴) غیر علم کی پیروی انسان میں تحقیق وجستجو کا جذبہ ختم کردیتی ہے اور اسے ایک جلد باور کرنے والا اور احمق شخص بنادیتی ہے ۔
(۵) غیر علم کی پیروی گھر، بازار، کاروبار غرض ہر جگہ پر سے گرم جوشی اور دوستی کے روابط ختم کردیتی ہے اور لوگوں کو ایک دوسرے کے بارے میں بدگمان بنادیتی ہے ۔
(۶) غیر علم کی پیروی ہمارے استقلالِ فکری کو ختم کردیتی ہے اور ہماری روح کو ہر قسم کا زہریلا پراپیگنڈاقبول کرنے پر آمادہ کردیتی ہے ۔
(۷)غیر علم کی پیروی ہر شخص اور ہر چیز کے بارے میں جلد بازی سے فیصلہ کرنے کا سرچشمہ ہے اور یہ خود طرح طرح کی ناکامیوں اور پشیمانیوں کا سبب ہے ۔
گمان کی طرف میلان کا سدِّ باب
اب جو سوال باقی رہ گیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس بُری اور منحوس عادت اور اس کے دردناک انجام سے کس طرح اپنے آپ کو اور معاشرے کو نجات دلاسکتے ہیں ، اس سوال کے جواب کے لئے ایک طویل بحث کی ضرورت ہے البتہ ہم یہاں مختصر اور چچے تلے نکات کی صورت میں ایک دستور العمل پیش کرتے ہیں ۔
(الف) اس عمل کے دردناک نتائج اور انجام سے لوگوں کو پیہم آگاہ کرنا چاہیے اور ان سے تقاضا کرنا چاہیے کہ وہ غیر علم کے منحوس نتائج پر غور وفکر کریں ۔
(ب) اسلامی طرزِ تفکر اور اسلام کے اندازِ جہاں بینی کو لوگوں میں زندہ کرنا چاہیے تاکہ وہ جان سکیں کہ خدا ہر حالت میں لوگوں پر نگران ہے، وہ سمیع وبصیر ہے، یہاں تک کہ وہ ہمارے افکار ونظریات سے بھی آگاہ ہے ۔
(
یَعْلَمُ خَائِنَةَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِیَ الصُّدُوْرِ
)
وہ آنکھوں کی خیانت کو جانتا ہے اور جو کچھ سینوں میں چھپاتے اس سے بھی وہ آگاہ ہے ۔ (مومن/ ۱۹)
ہم جو بھی بات کرتے ہیں اور جو بھی قدم اٹھاتے ہیں ہمارے حساب میں لکھا جاتا ہے اور ہم اپنے اتمام اعمال، فیصلوں اور اعتقادات کے جوابدہ ہیں ۔
(ج) رشدِ فکری کی سطح بلند کرنا چاہیے کیونکہ غیرعلم کی پیروی عام طور پر آگاہ اور بے علم عوام کرتے ہیں کہ جو ایک بے بنیاد خبر سن کر فوراً اس سے چمٹ جاتے ہیں اور فیصلہ کرلیتے ہیں اور اسی کے مطابق پھر اقدام کرتے ہیں ۔
۲ ۔ متکبر نہ بنو
اگلی آیت میں غرور وتکبر کے خلاف ہے، اس میں مومنین کو زندہ اور روشن تعبیر سے غرور کرنے کی ممانعت کی گئی ہے ۔
رسول الله کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: روئے زمین پر غرور وتکبر سے نہ چلو(
وَلَاتَمْشِ فِی الْاٴَرْضِ مَرَحًا
)
۔
کیونکہ تم ہرگز زمین کو چیز نہیں سکتے اور تمھارا لمبا قد پہاڑوں تک نہیں پہنچ سکتا(
إِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاٴَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولًا
)
۔
یہ اس طرف اشارہ ہے کہ مغرور لوگ عام طور پر چلتے وقت زمین پر زور زور سے پاؤں پٹختے ہیں تاکہ لوگوں کو بتائیں کہ ہم آرہے ہیں ۔ گردن اوپر اکڑا کر رکھتے ہیں تاکہ اہلِ زمین پر بزعمِ خود اپنی برتری جتا سکیں لیکن قرآن کہتا ہے کہ تم بھی زمین پر کیسے ہی اپنے پاؤں پٹخو، کیا اسے چیر سکو گے جبکہ اس کرہ خاکی پر تمہارا وجود بالکل ناچیز ہے ۔ یہ تو بالکل اس چیونٹی کی طرح ہے جو بہت بڑے پتھر پر چل رہی ہو اور اپنا پاؤں اس پر پٹخے تو پتھر اس کی حماقت اور کم ظرفی پر ہنسے گاہی۔
تو اپنی گردن کو جتنا بھی اکڑالے کیا پہاڑوں کا ہمطراز ہوسکتا ہے اس طرح تو زیادہ سے زیادہ چند سنٹی میٹر اپنے تئیں اونچا کرسکتا ہے جبکہ اس زمین کے بلند ترین پہاڑوں کی چوٹی بھی اس کرہ کے مقابلے میں کوئی قابل ذکر حیثیت نہیں رکھتی اور خود زمین پوری گائنات کے مقابلے میں ایک ذرہ بے مقدار ہے ۔ پس تیرا یہ غرور و تکبر چہ معنی دارد؟
یہ امر قابل توجہ ہے کہ غرور و تکبر ایک خطرناک باطنی بیماری ہے لیکن قرآن نے براہِ راست اس پر بحث نہیں کی بلکہ اس کے ظاہری آثار میں سے بھی سادہ ترین اثرات کی نشاندہی کی ہے اور خود پسند بے مغز متکبروں اور مغروروں کی چال کے بارے میں بات کی ہے ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ تکبر و غرور اپنے کمترین آثار کی سطح پر بھی مذموم، ناپسندیدہ اور شرمناک ہے ۔ نیز یہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان کی اندرونی صفات جو بھی ہوں وہ چاہے نہ چاہے ان کی جھلک اس کے اعمال میں ضرر نظر آجاتی ہے ۔ اس کی چال ڈھال میں ، اس کے دیکھنے کے اندر میں ، اس کی بات کرنے کے طریقے میں اور اس کے تمام کاموں میں اس کی داخلی صفات جھلکتی ہیں ۔ لہٰذا اگر ان صفات کا کچھ بھی اثر اعمال میں نظر آئے تو ہمیں متوجہ ہونا چاہیے کہ خطرہ نزدیک آگیا ہے اور ہمیں فکر کرنا چاہیے کہ اس مذموم عادت نے ہماری روح میں گھونسلا بنالیا ہے لہٰذا ہمیں اس کے خلاف مقابلے کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے ۔
ضمنی طور پر ہم نے جو کچھ کہا ہے اس سے اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے کہ زیر بحث آیت میں (اسی طرح سورہ لقمان میں اور قرآن کی دوسری سورتوں میں )قرآن کا ہدف یہ ہے کہ غرور و تکبر کی کلّی طور پر مذمت کی جائے نہ کہ اس کے کسی خاص موقع کی یعنی چلنے پھرنے کے انداز کی۔
کیونکہ غرور و تکبر خدا فراموشی، خود فراموشی، فیصلے میں اشتباہ، راہِ عق سے گمراہی، شیطان کے راستے سے وابستگی اور طرح طرح کے گناہوں سے آلودگی کا سرچشمہ ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام خطبہ ”ہمام“ میں پرہیز گاروں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :و مشیهم التواضع
اور ان کی چال ڈھال میں انکساری ہوتی ہے ۔
نہ صرف کوچہ بازار میں چلتے ہوئے ان میں انکساری ہوتی ہے بلکہ زندگی کے تمام امور میں یہاں تک کہ مطالعات فکری میں اور نظریات و افکار کے سفر میں انکساری ان کے ساتھ ساتھ ہوتی ہے ۔
ہادیانِ اسلام کی اپنی زندگی اس سلسلے میں ہر مسلمان کے لیے بہت ہی سبق آموز اور نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی سیرت میں ہم پڑھتے ہیں کہ آپ ہرگز اجازت نہیں دیتے تھے کہ جس وقت آپ سوار ہوں تو کچھ لوگ پیادہ آپ کے ہمرکاب چلیں بلکہ فرماتے تھے:
تم فلاں جگہ پہنچو، میں بھی آجاؤں گا ۔ وہاں ملاقات ہوگی پیادہ شخص کا سوار کے ساتھ چلنا سوار کے غرور اور پیادہ کی ذلت کا سبب بنتا ہے ۔
نیز ہم بڑھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم زمین پر بیٹھتے، غلاموں کی سی سادہ غذا کھاتے، بکری کا دودھ دوہتے اور گدھے کی ننگی پشت پر سوار ہوتے ۔
یہاں تک کہ جب آپ کے اقتدار کا زمانہ تھا مثلاً فتح مکّہ کے دن بھی اسی طرح کے کام انجام دیتے تھے تاکہ لوگ یہ گمان نہ کریں کہ کسی مقام پر پہنچنے سے غرور پیدا ہوگیا ہے اور آپ کوچہ و بازار کے لوگوں اور مستضعفین سے الگ رہنے لگے ہیں اور محنت کش عوام سے بیگانہ ہوگئے ہیں ۔
حضرت علی علیہ السلام کے حالات میں بھی ہے کہ آپ گھر کے لیے خود پانی بھرتے اور بعض اوقات گھر میں جھاڑو دیتے ۔
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے حالات میں ہے کہ کئی سواریاں آپ(ص) کے پاس تھیں اس کے باوجود آپ(ص) بیس مرتبہ پا پیادہ بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ آپ(ص) فرماتے تھے:
میں ایسا بارگاہِ الٰہی میں عجزو انکساری کے لیے کرتا ہوں ۔
اگلی آیت میں گزشتہ آیات میں بیان کیے گئے احکام پر تاکید کی گئی ہے ۔شرک، قتل نفس، زنا، قتلِ اولاد، مالِ یتیم میں تصرف اور ماں باپ کو آزار پہنچانے کے بارے میں فرمایا گیا ہے:ان تمام کا گناہ تیرے پروردگار کے نزدیک قابلِ نفرت ہے(
کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُهُ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوهًا
)
۔
اس تعبیر سے واضح ہوجاتا ہے کہ مکتب جبر کے پیرو کاروں کے قول کے برخلاف خدانے ہرگز ارادہ نہیں کیا کہ کسی سے گناہ سر زد ہوا گر اس نے ایسا ارادہ کیا ہوتا تو اس آیت میں اس سے کراہت اور ناراضگی مناسب نہ تھی۔
ضمناً واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کی زبان میں بہت بڑے گناہوں کے لیے بھی لفظ مکروہ استعمال ہوا ہے ۔
۳ ۔ مشرک نہ بنو
تاکید مزید کے لیے اور اس لیے کہ ان تمام حکیمانہ احکام کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے فرمایا گیا ہے: یہ سب حکمت آمیز احکام ہیں کہ جن کی تیرے پروردگار نے تیری طرف وحی کی ہے(
ذٰلِکَ مِمَّا اٴَوْحیٰ إِلَیْکَ رَبُّکَ مِنَ الْحِکْمَةِ
)
۔
”حکمت“ کی تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ ان آسمانی احکام کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے، اس کے علاوہ یہ میزان عقل پر بھی بالکل پوری اتر تے ہیں اور عقل کے مطابق قابل ادراک ہیں ۔
کون شخص شرک، قتل نفس یا ماں باپ کو آزار پہنچانے کی قباحت کا انکار کر سکتا ہے ۔ اسی طرح کون زنا تکبر، یتیموں پر ظلم اور پیمان شکنی کے منحوس نتائج کا انکار کر سکتا ہے ۔
دوسرے لفظوں میں ، یہ احکام عقلی کے ذریعے بھی قابت شدہ ہیں اور وحی الٰہی کے ذریعے سے بھی اور تمام احکام الٰہی کے اصول اسی طرح ہیں اگر چہ عقل کے کم فروغ چراغ سے ان کی تفصیلات کو اکثر اوقات مشخص نہیں کیا چاسکتا اور صرف وحی الٰہی کے طاقتوں نور ہی سے انہیں پہنچانا جاسکتا ہے ۔
بعض مفسرین نے حکمت کی تعبیر سے یہ استفادہ بھی کیا ہے کہ متعدد احکام جو گزشتہ آیات میں گزرے ہیں ثابت، مستحکم اور ناقابل تنسیخ ہیں اور یہ تمام آسمانی ادیان میں تھے ۔ مثلاً شرک، قتل نفس، زنا، پیمان شکنی ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ جو کسی بھی مذہب میں جائز شمار ہوتی ہوں ۔ پس یہ احکام محکمات او رقوانین ثابت کا حصہّ ہیں ۔اس کے بعد جس طرح ان احکام کی ابتداء تحریم شرک سے کی گئی ہے حرمت شرک کی تاکید کے ساتھ ان کا اختتام ہوتا ہے ۔ ارشاد فرمایا گیا ہے: خدائے یگانہ کے ساتھ ہرگز شریک کا قائل نہ ہونا اور الله کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود قرار نہ دینا(
وَلَاتَجْعَلْ مَعَ الله إِلَهًا آخَرَ
)
۔
کیونکہ اس امر کے سبب تو دوزخ میں جا گرے گا جبکہ مخلوق خدا کی ملامت بھی تجھے دامن گیر ہوگی اور بارگاہ الٰہی سے بھی تو دھتکار ا جائے گا اور اس کا قہر و غضب بھی تجھے لاحق ہوگا ۔(
فَتُلْقَی فِی جَهَنَّمَ مَلُومًا مَدْحُورًا
)
۔
د رحقیقت تمام انحرافات، جرائم اور گناہوں کا خمیر شرک او ردوگانہ پرستی سے اٹھتا ہے ۔ اسی لیے اسلام کے اساسی احکام کا یہ سلسلہ حرمتِ شرک سے شروع ہوتا ہے اور تحریمِ شرک پر ہی تمام ہوتا ہے ۔
آخری زیرِ بحث آیت میں مشرکیں کی ایک بیہودہ خرافاتی فکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کے پایہ منطق اور سطح فکر کو واضح کیا گیاہے ۔ ان میں سے لوگ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں حالانکہ خود بیٹی کا نام سن کر شرم محسو س کرتے تھے اور اپنے کھر میں اس کی ولادت کو بدبختی کا باعث خیال کرتے تھے قرآن مجید خود انہی کی منطق کی زبان میں انہیں جواب دیتا ہے: کیا تمہارے پروردگار نے بیٹے صرف تمہارے حصّے میں دے دیئے ہیں اور خود اپنے لیے اس نے فرشتوں میں سے بیٹیاں لے لی ہیں(
اٴَفَاٴَصْفَاکُمْ رَبُّکُمْ بِالْبَنِینَ وَاتَّخَذَ مِنَ الْمَلَائِکَةِ إِنَاثًا
)
۔
اس میں شک نہیں کہ بیٹیاں بھی بیٹیوں کی طرح نعماتِ الٰہی ہیں اور انسانی قدر و قیمت کے لحاظ سے ان میں کوئی فرق نہیں ۔ اصولی طور پر بقائے نسل انسانی ان دونوں میں سے کسی ایک کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کو جو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا وہ بیہودہ، فضول اور خرافاتی فکر تھی۔ اس کا پس منظر کیا تھا، اس کے بارے میں ہم تفصیلی بحث کرچکے ہیں ۔
لیکن قرآن کا مقصد یہ ہے کہ انہیں ان ہی کی منطق کے ذریعے مغلوب کرے کہ تم کیسے نادان لوگ ہوکہ اپنے پروردگار کے لیے ایسی چیز کا نظریہ رکھتے ہو جس سے خود تم عار محسوس کرتے ہو۔
اس کے بعد آیت کے آخر میں ایک قاطع اور یقینی حکم کی صورت میں فرمایا گیا ہے: تم بہت بڑی اور کفر آمیز بات کرتے ہو(
إِنَّکُمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِیمًا
)
۔ ایسی بات جو کسی منطق سے مناسبت نہیں رکھتی اور کئی حوالوں سے بے بنیاد ہے مثلاً:
۱ ۔ خدا کی اولاد ہونے کا اعتقاد اس کی ساحتِ مقدس میں ایک بہت بڑی اہانت ہے کیونکہ نہ وہ جسم ہے نہ عوارض جسمانی رکھتا ہے اور نہ بقائے نسل کا محتاج ہے ۔ لہٰذا اس کے لیے اولاد کا اعتقاد صرف اس کی پاکیزہ صفات کو نہ پہچاننے کی وجہ سے ہے ۔
۲ ۔ تم خدا کی ساری اولاد بیٹیوں میں منحصر کیوں سمجھتے ہو جبکہ بیٹی کے لیے بہت پست قدر و منزلت کے قائل ہو۔ تمہارے خیالات کے لحاظ سے یہ احمقانہ اعتقاد خدا کی بارگاہ میں ایک اور اہانت ہے ۔
۳ ۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کے مقام کی بھی تو ہین ہے، جبکہ وہ فرمانِ حق پر قائم ہیں اور مقربِ بارگاہِ الٰہی ہیں ۔ خود بیٹی کے نام سے گھبرا جاتے ہو لیکن ان سب مقربانِ الٰہی کو بیٹی فرض کرتے ہو۔
ان امور کی جانب توجہ سے اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ یہ بات ایک بہت بڑی بات ہے ۔ واقعات سے انحراف کے لحاظ سے بڑی ہے کہ تم معصوم بیٹیوں کی تحقیر و تذلیل کرتے ہو اور ان کے احترام میں کمی کرتے ہو۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرکینِ عرب ، فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کیوں خیال کرتے تھے ۔ اسی طرح زمانہ جاہلیت کے عرب بیٹیوں کو زندہ در گور کیوں کرتے تھے اور ان کے نام سے وحشت کیوں کرتے تھے نیز دوسری طرف اسلام نے عورت کو کیا مقام و منزلت عطا کیا اور کس طرح سے صنفِ عورت کی تذلیل کے نظریات کا مقابلہ کیا ۔ ان تمام امور پر تفصیلی بحث تفسیر نمونہ جلد ۱۱ ، سورہ نحل آیات ۵۷ تا ۵۹ کے ذیل میں آچکی ہے ۔
____________________