آیات ۴۱،۴۲،۴۳،۴۴
۴۱(
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِی هٰذَا الْقُرْآنِ لِیَذَّکَّرُوا وَمَا یَزِیدُهُمْ إِلاَّ نُفُورًا
)
۴۲(
قُلْ لَوْ کَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ کَمَا یَقُولُونَ إِذًا لَابْتَغَوْا إِلیٰ ذِی الْعَرْشِ سَبِیلًا
)
۴۳(
سُبْحَانَهُ وَتَعَالیٰ عَمَّا یَقُولُونَ عُلُوًّا کَبِیرًا
)
۴۴(
تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْاٴَرْضُ وَمَنْ فِیهِنَّ وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَکِنْ لَاتَفْقَهُونَ تَسْبِیحَهُمْ إِنَّهُ کَانَ حَلِیمًا غَفُورًا
)
ترجمہ
۴۱ ۔ ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے مؤثر طور پر بیان کیا تا کہ وہ کسی طرح سمجھیں لیکن(جن کے دل اندھے تھے) ان میں نفرت کے سوا کسی چیز کااضافہ نہ ہوا ۔
۴۲ ۔ کہہ دو: اگر اس کے ساتھ اور خدا ہوتے، جیسا کہ تمہارا خیال ہے تو وہ کوشش کرتے کہ مالک عرش خدا کی طرف کوئی راہ نکالیں ۔
۴۳ ۔ جو کچھ یہ کہتے ہیں وہ اس سے پاک و برتر ہے، بہت ہی برتر ۔
۴۴ ۔ سات آسمان اور زمین اور جو اس میں ہیں ۔ سب اس کی تسبیح کرتے ہیں اور ہر موجود اس کی تسبیح اور حمد کرتا ہے لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ۔ وہ حلیم اور بخشنے والاہے ۔
وہ حق سے کیو نکر فرار کرتے ہیں ؟
گزشتہ آیات میں گفتگو مسئلہ توحید پر تمام ہوئی ۔زیر بحث آیات میں واضح اور قاطع اندازہ میں اسی مسئلے پر تاکید کی جارہی ہے ۔
پہلے توتوحید کے مختلف دلائل کے سامنے ایک گروہ مشرکین کی انتہائی ہٹ دھر می کا ذکر کیا گیا ہے ۔ارشاد ہو تاہے :ہم نے اس قرآن میں بہت سے استد لال پیش کیے اور طرح طرح سے مؤثر طور پر بیان کیا تاکہ وہ سمجھیں اور راہ حق میں قدم اٹھائیں لیکن ان سب استدلال اور بیانات پر انہوں نے فرار ہی کیا اور ان کی نفرت کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ ہوا(
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِی هٰذَا الْقُرْآنِ لِیَذَّکَّرُوا وَمَا یَزِیدُهُمْ إِلاَّ نُفُورًا
)
۔
”صرّف“مادہ ”تصریف“سے تبدیل کرنے اور دگرگوں کرنے کے معنی میں ہے ۔ خصوصاً اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ بابِ تفعیل سے ہے، کثرت کا مفہوم اس میں پنہاں ہے ۔
قرآن میں توحید کے اثبات اور شرک کی نفی کے لیے کبھی منطقی استدلال پیش کیا گیا ہے، کبھی برہان فطرت سے کام لیا گیا ہے، کبھی تہدیہ کی صورت اپنائی گئی ہے اور کبھی تشویق کی راہ اختیار کی گئی ہے خلاصہ یہ کہ مشرکین کو بیدار اور آگاہ کرنے کے لیے کلام کے مختلف طریقوں اور فنوں سے استفادہ کیا گیا ہے لہٰذا ”صرفنا“ کی تعبیر اس مقام پر بہت ہی مناسب ہے ۔
اس تعبیر کے ذریعے قرآن کہتا ہے: ہم ہر دروازے سے وارد ہوئے اور ہم نے ہر راستے سے استفادہ کیا تاکہ ان کے اندھے دلوں میں توحید کا چراغ روشن کردیں لیکن ان میں سے ایک گروہ اس قدر ہٹ دھرم، متعصب اور سخت ہے کہ نہ صرف ان بیانات سے وہ حقیقت کے قریب نہیں ہوئے الٹا ان کی نفرت اور دوری میں اضافہ ہوا ہے ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان بیانات کا الٹا نتیجہ نکلتا ہے تو پھر ان کے ذکر کا کیا فائدہ؟
جواب واضح ہے اور وہ یہ کہ قرآن ایک خاص گروہ کے لیے نازل نہیں ہوا بلکہ یہ سارے انسانی معاشرے کے لیے ہے اور مسلّم ہے کہ سب انسان تو ایسے نہیں ہیں ۔ بہت سے ایسے بھی ہیں کہ وہ یہ دلائل سنتے ہیں تو راہِ حق ان پر آشکار ہوجاتی ہے ۔ ان تشنگانِ حقیقت کا ہر دستہ قرآن کے کسی ایک طرح کے بیان سے فائدہ اٹھاتا ہے اور بیدار ہوجاتا ہے اور ان آیات کے نزول کا یہی اثر کافی ہے اگر چہ کور دِل اس سے الٹا اثر لیتے ہیں ۔
علاوہ ازیں اس متعصب اور ہٹ دھرم گروہ کا راستہ اگر چہ غلط ہے اور یہ خود بدبخت ہیں لیکن حق طلب افراد ان سے اپنا موازنہ کر کے راہ حق کو بہتر طور پر پاسکتے ہیں کیونکہ نور ظلمت کے مقابلے سے نور کی قیمت بیشتر معلوم ہوتی ہے یہاں تک کہ بے ادبوں سے بھی سیکھا جاسکتا ہے ۔
ضمنی طور پر اس آیت سے تربیت اور تبلیغ مسائل کے سلسلے میں یہ درس لیا جاسکتا ہے کہ اعلیٰ تربیتی اہداف و مقاصد تک پہنچنے کے لیے صرف ایک ہی طریقے سے استفادہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ مختلف اور طرح طرح کے وسائل سے استفادہ کیا جانا چاہئے کیونکہ استعداد مختلف ہوتی ہے ۔ ہر ایک پر اثر انداز ہونے کے لیے خاص انداز ہونا چاہیے ۔ فنونِ بلاغت میں سے ایک یہ اسلوب ہے ۔
دلیل تمانع
اگلی آیت توحید کی ایک دلیل کی طرف اشارہ کرتی ہے جو علماء اور فلاسفہ میں ”دلیل تمانع“ کے نام سے مشہور ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے: اے رسول! ان سے کہہ دو: اگر خداوند قادر متعال کے ساتھ اور بھی خدا ہوتے، جیسا کہ تمہارا خیال عے، تو وہ خدا کوشش کرتے کہ خدائے عظیم صاحب عرش تک پہنچنے کی کوئی راہ نکالیں اور اس پر غلبہ حاصل کرلیں(
قُلْ لَوْ کَانَ مَعَهُ آلِهَةٌ کَمَا یَقُولُونَ إِذًا لَابْتَغَوْا إِلیٰ ذِی الْعَرْشِ سَبِیلًا
)
۔
”ا(
ِٕذًا لَابْتَغَوْا إِلیٰ ذِی الْعَرْشِ سَبِیلًا
)
“ کا مفہوم اگر چہ یہ ہے کہ”وہ صاحب عرش کی طرف راہ نکالتے“ لیکن طرز بیان نشاندہی کرتا ہے کہ مراد اس پر غلبہ حاصل کرنے کی کوئی سبیل پیدا کرنا ہے ۔ خصوصاً ”الله “ کے بجائے”ذی العرش“ کی تعبیر اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہے یعنی وہ بھی چاہتے کہ عرش اعلیٰ کے مالک بن جائیں اور سارے جہان ہستی پر حکومت کریں ۔ لہٰذا ا س سے مقابلے کے لیے اٹھ کڑے ہوتے ۔
بہر حال یہ امر فطر ی اور طبیعی ہے کہ ہر صاحب قدرت چاہتا ہے کہ اپنے اقتدار کامل کرے اور اپنے قلمرو حکومت کو تو سیع دے اور اگر سچ مچ کوئی خدا موجود ہوتے تو توسیع حکومت کا یہ تنارع اور تمانع ان میں رونما ہوتا ۔
لیکن اگلی آیت کی تعبیرات اور بعد کی آیت اس تفسیر سے ہرگز مناسبت نہیں رکھتیں ۔
ممکن ہے کہا چاہیے کہ کونسا مانع ہے اور کیا حرج ہے کہ متعدد خدا ایک دوسرے کے ساتھ ہمکاری اور تعادن کرتے ہوئے ا س عالم پر حکومت کریں اور کیا ضروری ہے کہ وہ آپس میں جھگڑیں ۔
اس سوال کے جواب میں اس حقیقت کی طرف توجہ کرنا چاہیے کہ اگر چہ ہر موجود کے لیے تکامل اورتوسیعِ اقتدار سے لگاؤ فطری اورطبیعی ہے اور یہ بھی کہ جن خداؤں کا مشرکین عقیدہ رکھتے تھے وہ بہت سی بشری صفات کے حامل تھے کہ جن میں حکومت و قدرت سے لگاؤایک زیادہ واضح صفت ہے لیکن ان سب امور سے قطع نظر اختلاف تعدّدِ وجود کا لازمہ ہے کیونکہ اگر کسی رویّے، پروگرام اور دیگر پہلوؤں سے کوئی اختلاف نہ ہو تو تعدّد کا کوئی معنی ہی نہیں اور دونوں ایک چیز ہوں گے(غور کیجیے گا) ۔
اس بحث کی نظیر سورہ انبیاء کی آیت ۲۲ میں بھی موجود ہے ۔ جہاں فرمایا گیا ہے:
(
لَوکَانَ فِیهِمَا آلِهَةٌ الّا الله لَفَسَدَتَا
)
اگر زمین و آسمان میں ”الله “ کے علاوہ اور وہ خدا ہوتے تو نظام جہاں دگرگوں اور فاسد ہوجاتا ۔
اشتباہ نہیں ہونا چاہیے، یہ دونوں بیان بعض جہات سے اگر چہ ایک دوسرے کے مشابہ میں لیکن دومختلف دلیلوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ ایک کی خداؤں کے تعدد کی وجہ سے نظام جہاں کے فساد کی طرف بازگشت ہے اور دوسری نظام جہاں سے قطع نظر متعدد خداؤں کے درمیان وجود تمانع و تنازع کے بارے میں گفتگو کرتی ہے ۔
(سورہ انبیاء کی آیہ ۲۲ کے ذیل میں بھی ہم انشاء الله اس سلسلے میں بحث کریں گے)
چونکہ مشرکین کہتے ہیں کہ خدائے بزرگ نے ایک طرف نزاع کیا ہے لہٰذا اگلی آیت میں بلافاصلہ فرمایا گیا ہے: جو کچھ وہ کہتے ہیں خدا اس سے پاک اور منزہ ہے اور جو کچھ وہ سوچتے ہیں خدا اس سے بہت برتر اور بالاتر ہے (سُبْحَانَہُ وَتَعَالیٰ عَمَّا یَقُولُونَ عُلُوًّا کَبِیرًا) ۔
اس مختصر سے جملہ میں حقیقت الله تعالیٰ نے چار مختلف تعبیروں سے ناروا نسبتوں سے اپنے دامن کبریایی کی پاکیزگی بیان کی ہے:
۱ ۔خدا ان نقائص اور نارواں نسبتوں سے منزہ ہے(
سُبْحَانَهُ
)
۲ ۔ جو کچھ یہ کہتے ہیں وہ اس سے بالاتر ہے(
وَتَعَالیٰ عَمَّا یَقُولُونَ
)
۳ ۔ لفظ ”علواً“ مفعول مطلق ہے اور تاکید کے لیے آیا ہے ۔
۴ ۔ اور آخر میں ”کبیراً“ کہہ کر مزید تاکید کی گوئی ہے ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ”عما یقولون“ (جو کچھ وہ کہتے ہیں ) ۔ ایک وسیع معنی رکھتا ہے ۔ اس میں ان کی تمام ناروا نسبتیں اور ان کے لوازم شامل ہیں (غور کیجیے گا) ۔
ا س کے بعد پروردگار کا مقام عظمت بیان کیا گیا ہے کہ وہ مشرکین کے وہم و خیال سے برتر ہے ۔ فرمایا گیا ہے کہ موجود جہاں اس کی ذات مقدس کی تسبیح کرتی ہیں ۔ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب خدا کی تسبیح کرتے ہیں(
تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْاٴَرْضُ وَمَنْ فِیهِنَّ
)
۔ اس کے با وجود خود حلیم و غفور ہے(
إِنَّهُ کَانَ حَلِیمًا غَفُورًا
)
۔
تمہارے کفر اور شرک پر الله تمہارا فوری مواخذہ نہیں کرتا بلکہ کافی مہلت دیتا ہے اور تمہارے لیے توبہ کے دروازے کھلے رکھتا ہے تا کہ اتمام حجت ہوجائے ۔
دوسرے لفظوں میں تم یہ صلاحیت رکھتے ہو کہ عالم کے تمام ذرات میں سے سن سکو کہ موجودات تسبیح الٰہی کا نغمہ گنگنار ہے ہیں اور تم اس قابل ہو کہ خدائے یگانہ قادر متعال کی معرفت حاصل کر سکو لیکن تم کوتاہی کرتے ہو اور ا س کوتاہی کے باوجود وہ فوراً مواخذہ اور عذاب نہیں کرتا اور تمہیں زیادہ سے زیادہ موقع فراہم کرتا ہے کہ تم توحید کی شناخت کر سکو اور راہ شرک ترک کرسکو۔
____________________