تفسير راہنما جلد ۷

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 746

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 746 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 190568 / ڈاؤنلوڈ: 4724
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۷

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

المؤمن،حرز المؤمن » کہا گیا ہے جس کے ذریعےاپنی جان اور دوسروں کی جان بچائی جاتی ہے۔

۳ ـ دوسروں کی حفاظت کرنا

کبھی اپنے عقیدے کا اظہار کرنا اپنے اثر رسوخ کی وجہ سے اپنی ذات کیلئے تو کوئی ضرر یا ٹھیس پہنچنے کا باعث نہیں بنتا، لیکن ممکن ہے یہی دوسروں کیلئے درد سر بنے ۔ ایسی صورت میں بھی عقیدہ کا اظہار کرنا صحیح نہیں ہے ۔

اهل بيت اطہار کے بعض اصحاب اور انصار کی حالات زندگی میں ایسے موارد دیکھنے میں آتےہیں کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم و جابر حکمرانوں کی طرفسے لوگ ان کا پیچھا کررہے تھے ، ان کا اپنے اماموں سے ملنا جابر حکمرانوں کا ان کی جانی دشمنی کا باعث بنتا تھا۔ان میں سے کچھ موارد یہ ہیں :

۱۸۱

ایک دن زرارہؓ نے جو امام باقراور امام صادقعليه‌السلام کے خاص صحابیوں میں سے تھے ؛ امام جمعہ کو امام کی طرف سے ایک خط پہنچایا ، جس میں امام نے جو لکھا تھا اس کا مفہوم یہ تھا : میری مثال حضرت خضرعليه‌السلام کی سی ہے اور تیری مثال اس کشتی کی سی ہے جسے حضرت خضرعليه‌السلام نے سوراخ کیا تاکہ دشمن کے شرسے محفوظ رہے ۔اور تیرے سر پر ایک ظالم اور جابر بادشاہ کھڑا ہے ، جو کشتیوں کو غصب کرنے پر تلا ہوا ہے ، جس طرح حضرت خضرعليه‌السلام نے اس کشتی کو سوراخ کیا تاکہ غاصب اس کو نہ لے جائے، اسی طرح میں بھی تمہیں محفلوں میں کبھی کبھی ڈراتااور مذمت کرتا رہوں گا ، تاکہ تو فرعون زمان کے شر سے محفوظ رہے ۔

تقيه کے حدود کو سرکرنے والوں کےسردار امام حسينعليه‌السلام فرماتے ہیں :

انّ التقية يصلح اﷲ بها امّة لصاحبها مثل ثواب اعمالهم فان تركها اهلك امّة تاركها شريك من اهلكهم ۔(۱)

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه، ج۴ ،باب ۲۷ ۔

۱۸۲

ایسا تقيه کرنے والاجوامت کی اصلاح کا سبب بنے تواسے پوری قوم کے اچھے اعمال کا ثواب دیا جائے گا ۔ کیونکہ اس قوم کی طاقت اور قوت کو زیادہ خدمت کرنے کیلئے اس نے محفوظ کیا ۔ لیکن اگرایسے موارد میں تقیہ کو ترک کرے اور ایک امت کو خطرے میں ڈالے تو ظالموں کے جرم میں یہ بھی برابر کا شریک ہوگا۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے موارد میں تقیہ کا تر ک کرنے والا قاتلوں کے جرم میں برابر کا شریک بنتا ہے۔(۱)

وہ روایات جو وجوب تقيه پردلالت کرتی ہیں

۱ ـ راوی امام صادقعليه‌السلام سے نقل کرتا ہے کہ آپ نے اس آیہ شریفہ« اوليك يؤتون اجرهم مرّتين بما صبروا »" وہ لوگ جنہیں ان کے صبر کے بدلے دو مرتبہ ثواب دیا جائے گا " کے ذیل میں فرمایا:

____________________

۱ ۔ تقيه سپري عميقتر، ص ۸۲۔

۱۸۳

بما صبروا علي التقية و يدرؤن بالحسنة السيّئة، قال : الحسنة التقية و السيّئة الاذاعة ۔(۱)

تقیہ پر صبر کرنے پر دوگنا ثواب دیا جائے گا اور یہ لوگ حسنات کے ذریعے اور سیئات کو دور کرتے ہیں اور حسنہ سے مراد تقیہ ہے اور سیئات سے مراد آشکار کرنا ہے ۔

۲ ۔ حسن كوفي نے ابن ابي يعفورسے اور اس نے امام صادقعليه‌السلام سے روایت کی ہے کہ امام ؑ نے فرمایا:

قال اتقوا علي دينكم احجبوه بالتقيه فانّه لا ايمان لمن لا تقية له انّما انتم في الناس كالنحل في الطير ولو انّ الطير يعلم ما في اجواف النحل ما بقي منها شيء الّا اكلته ولو ان الناس علموا ما في اجوافكم انّكم تحبونا اهل البيت عليهم‌السلام لاكلو كم بالسنتهم و لنحلوكم في السرّ والعلانية رحم الله عبدا منكم كان علي ولايتنا ۔(۲)

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ، باب امر بالمعروف، ص۴۶۰ ۔

۲ ۔ وسائل الشيعه ، باب امر بالمعروف ، ص ۴۶۱۔

۱۸۴

امامعليه‌السلام نے فرمایا: اپنے دین اور مذہب کے بارے میں هوشيار رہو اور تقیہ کے ذریعے اپنے دین اور عقیدے کو چھپاؤ ، کیونکہ جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئي ایمان نہیں ۔ اور تم لوگوں کے درمیان ایسے ہو جیسے پرندوں کے درمیان شہد کی مکھی ۔ اگر پرندوں کو یہ معلوم ہو کہ شہد کی مکھی کے پیٹ میں میٹھا شہد ہے تو کبھی شہد کی مکھی کو زندہ نہیں چھوڑتے ۔اسی طرح اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ تمہارے دلوں میں ہم اہل بیت کی محبت موجود ہے ، تو زخم زبان کے ذریعے تمہیں کھا جائیں گے ۔اور تم پر مخفی اور علانیہ طور پر لعن طعن کریں گے ۔خدا ان لوگوں پر اپنی رحمت نازل کرے جو ہماری ولایت کے پیروکار ہیں ۔

۳ ۔عن ابي جعفر عليه‌السلام : يقول لاخير فيمن لا تقية له، ولقد قال يوسف عليه‌السلام : ايّتها العير انّكم لسارقون و ما اسرقوا لقد قال ابراهيم عليه‌السلام : انّي سقيم و اﷲ ما كان سقيما ۔(۱)

امام باقرعليه‌السلام نے فرمایا : جس میں تقیہ نہیں اس میں کوئی خیر نہیں ۔ بہ تحقیق حضرت یوسفعليه‌السلام

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ، باب امر بالمعروف ، ص ۴۶۴۔

۱۸۵

نے فرمایا: ايّتها العير! بیشک تم لوگ چور ہو ۔ جبکه انہوں نے کوئی چیز چوری نہیں کی تھی ۔ اور حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے فرمایا میں بیمار ہوں۔خدا کی قسم !حالانکہ آپ بیمار نہیں تھے ۔

کیابطورتقیہ انجام دئے گئے اعمال کی قضا ہے؟

ہمارے مجتہدین سے جب سوال هوا : هل يجب الاعاده و القضاء في مقام التقيه أم تقول بالاجزاء؟ کيا تقيه کے طور پر انجام دئے گئے اعمال کا اعاده يا قضا کرناواجب هے يا نهيں ؟مجتہدین اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ علم فقہ کی دو قسم ہے :

الف: عبادات

ب: معاملات

عبادات سے مراد یہ ہے کہ ان کا انجام دینا تعبدی ہے کہ جن میں قصد قربت شرط ہے جیسے نماز ، روزہ اورحج وغیرہ۔ جب عبادت ایک زمانے سے مختص ہو جیسے نماز ظہر و عصر جو مقید ہے زوال شمس اور غروب شمس کے درمیان ادا کی جائے ، ورنه قضا ہوجائے گی۔

۱۸۶

پس خود عبادت کی دو قسمیں ہیں: ( ادائيه و قضائيه)

اگر عبادات ناقص شرائط يا اجزاء کے سا تھ ہوں تو وقت کے اندر ان کا اعادہ اور وقت کے بعدقضاء واجب ہے ۔

اب جو فعل تقیہ کے طور پر انجام پایا ہو وہ اگر عبادت ہے تواعادہ لازم نہیں ہے کیونکہ تقیہ میں ادا اور قضاء کی بحث ہی نہیں ہے ۔

شيخ مرتضیٰ انصاري اس سؤال کے جواب میں کہ کیا اعاده يا قضاء واجب ہے ؟ فرماتے ہیں اگر شارع اقدس نے واجب موسع کےتقیہ کے طور پر انجام دینے کی اجازت دی ہے ، تویہ اجازت یا کسی خاص مورد میں ہے یا عام موارد میں ۔ بعنوان مثال شارع اقدس نے اجازت دی ہے کہ نماز یا مطلق عبادات تقیہ کے طور پر انجام دی جائیں ، وقت ختم ہونے سے پہلے تقیہ کی علل و اسباب دور ہوجائیں تو یہ سزاوار ہیں کہ وہ اجزاء جو تقیہ کی وجہ سے ساقط ہوئے تھے انجام دیے جائیں لیکن اگر شارع نے واجب موسع کو تقیہ کی حالت

۱۸۷

میں انجام دینے کی اجازت دی ہے خواہ خصوصی ہو یا عمومی ، تو بحث اسی میں ہے کہ کیا یہ تقیہ والا حکم کو بھی شامل کرے گا یا نہیں ؟

بلكه آخر کلام یہ ہے کہ حالت تقیہ میں دیا گیا حکم مکلف سے ساقط ہو جاتا ہے ، اگرچہ وقت وسیع ہی کیوں نہ ہو۔(۱)

اس کے بعد شيخ انصاري تفصيل کے قائل ہوگئے ہیں :اگر یہ شرائط اور اجزاءکا شمول عبادات میں کسي بھي صورت ميں ضروري ہے خواہ اختیاری ہو یا اضطراری ، تو یہاں مولا کا حکم مکلف سےساقط ہو جاتا ہے کیونکہ اجزاء میں کمی بیشی تقیہ کی وجہ سے ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ معذور تھا ۔اگر چہ یہ عذر تمام وقت میں باقی رہے ۔ جیسے نماز کا اپنے وقت میں ادا کرنا ممکن نہیں مگر یہ کہ سرکہ کے ساتھ وضو کرے ۔باوجودیکہ سرکہ میں کوئی تقیہ نہیں ۔درنتیجہ نماز کا اصل حکم منتفی ہوجاتا ہے ، کیونکہ نماز کیلئے شرط

____________________

۱۔ التقيه في رحاب العلمين ، ص ۲۷۔

۱۸۸

ہے کہ پانی کے ساتھ وضو کرے ۔

لیکن اگر یہ اجزاءاورشرائط دخالت رکھتا ہو اور مکلف کیلئے ممکن بھی ہو تو واجب ہے ورنہ نہیں ۔

اگر یہ اجزاء تمام وقت میں ادا ہوں تو ان کا حکم پہلے ہی سے ساقط نہیں ہوتا بلکہ وہ اسے جتنا ممکن ہو انجام دیں ۔

اور اگراجزاء میں عذروقت کے اندر ہو ،خواہ اس عذر کا رفع ہونے کی امید ہو یا نہ ہو ، فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ وہ آخر وقت تک انتظار کرے یا انجام دیدے ۔

لہذا جو بھی عبادات تقیہ کے طور پر ادا کی گئی ہیں وہ عبادات صحیح ہیں کیونکہ شارع نے انہیں تقیہ کی حالت میں انجام دینے کی اجازت دی ہے ۔(۱)

____________________

۱۔ التقيه في رحاب العلمين ، ص ۲۸۔

۱۸۹

کیا خلاف تقيه کا عمل باطل ہے ؟

اگرکوئی مولا کے حکم کی مخالفت کرے اور اس کا عمل حکم شرعی کے مطابق نہ ہو تو وہ باطل ہوجاتا ہے ۔اور اگر کسی پر تقیہ کرنا واجب ہوگیا تھا لیکن اس نے تقیہ نہیں کیا تو کیا اس کا عمل بھي باطل ہوجائے گا یا نہیں ؟

شيخ انصاري فرماتے هيں : اگر تقیہ کی مخالفت کرے جہاں تقیہ کرنا واجب ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ بعض ترک شدہ عمل اس میں انجام پائے ۔ تو حق یہ ہے کہ خود تقیہ کا ترک کرنا عقاب کا موجب ہو گا ۔ کیونکہ مولا کے حکم کی تعمیل نہ کرنا گناہ ہے ۔

پس قاعدہ کا تقاضا یہ ہے کہ یہ فعل بھی باطل ہوگا ۔ بالفاظ دیگر ہم ادلہ کے تابع ہیں اور موارد تقیہ میں ہیں ۔ اس کے بعد شیخ ایک توہّم ایجاد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شارع اقدس نے تقیہ کی صورت میں اسی فعل کا انجام دینے کا حکم دیا ہے ۔

۱۹۰

لیکن یہ توہّم صحیح نہیں ہے کیونکہ تقیہ کے ساتھ قید ایک بيروني قید ہے جس کا کوئی اعتبارنہیں ہے ۔اور نہ هي شرعی قید بطلان کا موجب ہے ۔(۱)

امام خميني اس عنوان «ان ترك التقية هل يفسد العمل ام لا؟» کے تحت فرماتے ہیں کہ اگر تقيه کے برخلاف عمل کریں تو صحيح ہے ، کیونکہ تقیہ کا حکم ہونا موجب نہیں بنتا کہ عمل سے بھی روکےجیسا کہ علم اصول کا مسلم قاعدہ ہے:

انّ الامر بالشيئ لا يقتضي النهي عن ضدّه ۔

امام خميني کے مطابق یہ ہے کہ چونکہ ایک عنوان سے روکا گيا هے اور دوسرے عناوین میں بطور مطلق تقیہ کے خلاف عمل کرنا صحیح ہے ۔(۲)

____________________

۱۔ التقيه في رحاب العلمين ، ص ۲۴۔

۲۔ التقيه في رحاب العلمين،ص۲۵۔

۱۹۱

وہ موارد جہاں تقيه کرنا حرام ہے

تقیہ عموما ً دو گروہ کے درمیان مورد بحث قرار پاتا ہے اور یہ دونوں کسی نہ کسی طرح صحیح راستے سے ہٹ چکے هوتے ہیں ۔اور اپنے لئے اور دوسروں کے لئے درد سر بنے هوتے ہیں:

پہلا گروه :

وہ مؤمنین جو ترسو اور ڈرپوک ہیں اور وه لوگ کوئی معلومات نہیں رکھتے، دوسرے لفظوں میں انہیں مصلحت اندیشی والے کہتے ہیں کہ جہاں بھی اظہار حق کو ذاتی مفاد اور منافع کے خلاف دیکھتے ہیں یا حق بات کا اظہار کرنے کی جرٲت نہیں ہوتي، تو فوراً تقیہ کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

التقية ديني و دين آبائي لا دين لمن لاتقية له ۔

تقیہ میرا اور میرے آباء و اجداد کا دین ہے ، جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں ہے ۔اس طرح دین اور مذہب کا حقیقی چہرہ مسخ کرتے ہیں ۔

دوسرا گروہ:

نادان یا دانا دشمن ہے جو اپنے مفاد کی خاطر اس قرآنی دستور یعنی تقیہ

۱۹۲

کےمفہوم کو مسخ کرکے بطور کلی آئین اسلام یا مذہب حقہ کو بدنام کرنے کی کوشش ميں لگا رهتا ہے ۔يه لوگ تقيه کے مفہوم میں تحریف کرکے جھوٹ ،ترس،خوف ، ضعیف ، مسئولیت سے دوری اختیار کرنا، ۔۔۔کا معنی کرتے ہیں ۔ سرانجام اس کا یہ ہے کہ و ہ اپني ذمه داري کو نبھانے سے دوري اختیار کرتے ہیں ،

ان دونوں گروہ کي غلطي دور کرنے کیلئے کافی ہے کہ دو موضوع کی طرف توجہ کریں ۔

۱۔ تقيه کامفهوم

مفهوم تقيه کے بارے میں پہلے بحث کرچکے ہیں ، کہ تقیہ کامعنی خاص مذہبی عقیدہ کا چھپانا اور کتمان کرنا ہے ۔ اور وسیع تر مفہوم یہ ہے کہ ہر قسم کے عقیدے ، فکر ، نقشہ، یا پروگرام کااظهار نه کرنا ،تقیہ کہلاتا ہے ۔

۲۔ تقيه کاحكم

ہمارے فقهاء اور مجتہدین نے اسلامی مدارک اور منابع سے استفاده کرتے ہوئے تقیہ کو تین دستوں میں تقسیم کیا ہے : ۱ ـ حرام تقيه ۲ ـ واجب تقيه ۳ جائز تقيه۔

۱۹۳

اور کبھی اسے پانچ قسموں میں تقسیم کرتے ہیں : مکروہ اور مباح کو بھی شامل کرتے ہیں ۔لہذا یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ تقیہ نہ ہر جگہ واجب ہے اور نہ ہرجگہ حرام یا مکروہ ، بلکہ بعض جگہوں پر واجب ،و مستحب اور بعض جگہوں پر حرام یا مکروہ هے۔اسي لئے اگر کسی نے حرام مورد میں تقیہ کیا تو گویا اس نے گناہ کیا ۔

كلي طورپر جب بھی تقیہ کر کے محفوظ کئے جانے والا ہدف کے علاوہ کوئی اور ہدف جو زیادہ مہمتر ہو ، خطرے میں پڑ جائے تو اس وقت تقیہ کا دائرہ توڑنا واجب ہے ، چوں کہ تقیہ کا صحیح مفہوم ؛ قانون اہم اور مہم کے شاخوں میں سے ایک شاخ ہے جب یہ دونوں ہدف آپس میں ٹکرا جائیں تو اہم کو لیتے ہیں اور مہم کو اس پر فدا کيا جاتا ہے۔

یہی اهم اور مهم کا قانون کبھی تقيه کو واجب قرار دیتا ہے اور کبھی حرام۔ روایات کي روشني میں بعض موارد ميں تقیہ کرنا حرام ہے ،اور وہ درج ذیل ہیں:

۱۹۴

۱۔ جہاں حق خطر ے میں پڑ جائے

جہاں اپنے عقیدے کو چھپانا مفاسد کا پرچار اور کفر اور بے ایمانی یا ظلم وجور میں اضافہ اور اسلامی ستونوں میں تزلزل اور لوگوں کا گمراہی اور شعائریا احکام اسلامی کا پامال ہونے کا سبب بنے تو وہاں تقیہ کرنا حرام ہے ۔ لہذا ایسے مواقع پر اگر ہم کہیں کہ تقیہ مباح ہے تو یہ بھی بہت بڑی غلطی ہوگی ۔ اور اس قسم کا تقيه « ويران گر تقيه » کہلائے گا ۔پس وہ تقیہ مجاز یا واجب ہے جو مثبت اورمفيد ہو اور اہداف کے حصول کی راہ میں رکاوٹ کا سبب نہ بنتا ہو۔

۲۔جہاں خون خرابہ کا باعث ہو

جہاں خون ریزی ہو اور بے گناہ لوگوں کی جان مال کو خطرہ ہو تو وہاں تقیہ کرنا حرام ہے ۔ جیسا کہ اگر کوئی مجھ سے کہہ دے کہ اگر فلاں کو تم قتل نہ کرو تو میں تجھے قتل کردوں گا۔ تو اس صورت میں مجھے حق نہیں پہنچتا کہ میں اس شخص کو قتل کروں ۔ اگرچہ مجھے یقین ہوجائے کہ میری جان خطرے میں ہے ۔

۱۹۵

ایسی صورت میں اگر کوئی کہہ دے کہ ہمارے پاس روایت ہےکہ (المأمور معذور )۔ لہذا اگر میں فلاں کو قتل کروں تو کوئی گناہ نہیں ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معروف جملہ «المامور معذور » سند کے لحاظ سے ضعیف ہے کیونکہ اس کی اصلی سند « شمر» تک پہنچتی ہے ۔(۱) اسے کوئی عاقل اور شعور رکھنے والا قبول نہیں کرسکتا۔کیونکہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنی جان بچانے کی خاطر کسی دوسرے بے گناہ کی جان لے لے ۔ اور اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ قاتل ہوگا ۔ چنانچه امام محمد باقرعليه‌السلام فرماتے ہیں :

انّما جعل التقية ليحقن بها الدم فاذا بلغ الدم فليس التقية ۔(۲)

تقيه شریعت میں اس لئے جائز قرار دیا ہے کہ قومی اور انفرادی قدرت ضائع نہ ہو ، اپنے اور دوسروں کے خون محفوظ رہیں ۔ اور اگر خون ریزی شروع ہوجائے تو تقیه جائز نہیں ہے ۔

____________________

۱۔ مكارم شيرازي؛ تقيه مبارزه عميقتر،ص ۷۱۔

۲ ۔ شيخ اعظم انصاري؛ مكاسب، ج ۲، ص ۹۸۔

۱۹۶

۳۔ جہاں واضح دليل موجود ہو

وہ موارد جہاں واضح طور پرعقلی اور منطقی دلائل موجود ہوں،جیسے اسلام میں شراب نوشی کی ممانعت هے يهاں تقيه کرکے شراب پينے کي اجازت نهيں هے ۔اور تقیہ حرام ہے یہاں عقیدہ چھپانے کی بجائے عقلی اور منطقی دلائل سے استدلال کریں ۔اور ایسا حال پیدا کریں کہ مد مقابل کو یقین ہوجائے کہ یہ حکم قطعی ہےاور اس کا اجراء کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔لیکن کبھی بعض ڈرپوک اور بزدل لوگ جب شرابیوں کے محفلوں میں پہنچ جاتے ہیں تو وہ بجائے اعتراض کرنے کے ، ان کے ساتھ ہم پیالہ ہو جاتے ہیں ۔ یا اگر نہیں پیتے تو کہتے ہیں کہ شراب میرے مزاج کیلئے مناسب نہیں ہے ۔لیکن یہ دونوں صورتوں میں مجرم اور خطاکارہے۔یا صراحت کے ساتھ کهه ديں کہ ہم مسلمان ہیں اس لئے شراب نہیں پیتے ۔

اسی طرح اجتماعی ، معاشرتی اور سیاسی وظيفے کی انجام دہی کے موقع پر بھی دو ٹوک جواب دینا چاہئیں ۔

۱۹۷

۴۔ جہاں احکام شریعت بہت زیادہ اہم ہو

بعض واجبات اور محرمات جو شارع اور متشرعین کے نزدیک زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ، وہاں تقیہ جائز نہیں ہے ۔جیسے اگر کوئی خانہ کعبہ کی بے حرمتی یا انہدام کرنے کی کوشش کرے یا اسی طرح اور دینی مراکز جیسے مسجد ، آئمہ کی قبور کی بے حرمتی کرے تو وہاں خاموش رہنا جرم ہے ، اسی طرح گناہان کبیرہ کے ارتکاب پر مجبور کرے تو بھی انکار کرنا چاہئے ۔ایسے موارد میں تقیہ ہرگز جائز نہیں ہے۔

۱۹۸

چھٹی فصل

تقیہ کے بارے میں شبہات اور ان کا مدلّل جواب

۱۹۹

چھٹی فصل:

تقيه کے بارے میں شبہات اور ان کا مدلّل جواب

آئمہ طاہرین کے زمانے میں دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں کی طرف سے شیعوں پر مختلف قسم کے شکوک و شبہات پیدا کرنے لگے؛ ان میں سے ایک تقیہ ہے ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

آیت ۱۱۰

( لاَ يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْاْ رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ إِلاَّ أَن تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ )

اور ہميشہ ان كى بنائي ہوئي عمارت كى بنياد ان كے دلوں ميں شك كا باعث بنى رہے گى مگر يہ كہ ان كے دل كے ٹكڑے ٹكڑے ہو جائيں اور انھيں موت آجائے كہ اللہ خوب جاننے والا اور صاحب حكمت ہے _

۱_ شك و ترديد منافقين كے دلوں كى دائمى بيمارى ہے _لا يزال بنيانهم الذى بنوا ريبة فى قلوبهم

۲_ شك و ترديد وہ پھسلنے والى جگہ ہے كہ جس پر منافقين نے اپنى شخصيت كى بنياد ركھى ہے اور يہيں سے دوزخ ميں جاگريں گے _اسس بنيانه على شفا جرف هار لا يزال بنيانهم الذى بنوا ريبة فى قلوبهم

۳_ منافقين كے شك و ترديد سے لبريز دلوں كا علاج صرف موت ہے_لا يزال الا ان تقطع قلوبهم

۴_ مسجد ضرار منافقين كے شك و ترديد اور بے يقينى كا سبب تھى _

و الذين اتخذوا مسجدا ضرارا لا يزال بنيانهم الذى بنوا ريبة فى قلوبهم

۵_ مسجد ضرار تعمير كرنے والے منافقين ہدايت كو قبول نہ كرنے والے لوگ تھے _

اتخذوا مسجدا ضرارا لا يزال ريبة فى قلوبهم الا ان تقطع قلوبهم

۶_ خدا تعالى كى اس خبر، كہ منافقين ہدايت كو قبول نہ كرنے والے لوگ ہيں ، كا سرچشمہ اس كا وسيع علم ہے_

لا يزال بنيانهم الذى بنوا ريبة فى قلوبهم و الله عليم حكيم

۷_ مسجد ضرار تعمير كرنے والوں كے ساتھ خدا تعالى كا سخت رويہ ا س كے علم و حكمت پر مبتنى ہے_

و الذين اتخذوا لا تقم فيه فانهار به فى نار جهنم و الله عليم حكيم

۸_ خدا تعالى عليم ( بہت جاننے والا ) اور حكيم ( حكمت والا ) ہے_

۳۲۱

و الله عليم حكيم

اسما و صفات :حكيم ۸; عليم۸

خدا تعالى :اس كا علم ۶،۷; اسكى پيشين گوئي كا سرچشمہ ۶; اسكى حكمت ۷; خدا تعالى اور مسجد ضرار بنانے والے ۷

مسجد ضرار :اسكے آثار ۴; اسے تعمير كرنے والوں كا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۵

منافقين :ان كا شك ۱،۳;ان كا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۵،۶; انكى خصوصيات ۱; انكى دلى بيمارى ۱،۳; انكى شخصيت ۲;ان كے انحطاط كے عوامل ۲;ان كے جہنم ميں جانے كے اسباب ۲; ان كے شك كے آثار ۲; ان كے شك كے عوامل ۴

موت:اس كا كردار ۳

ہدايت كو قبول نہ كرنے والے :۵،۶

آیت ۱۱۱

( إِنَّ اللّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَيْهِ حَقّاً فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللّهِ فَاسْتَبْشِرُواْ بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ )

بيشك اللہ نے صاحبان ايمان سے ان كے جان و مال كو جنت كے عوض خريد ليا ہے كہ يہ لوگ راہ خدا ميں جہاد كرتے ہيں اور دشمنون كو قتل كرتے ہيں اور پھر خود بھى قتل ہوجاتے ہيں بہ وعدہ بر حق توريت ،انجيل اور قران ہر جگہ ذكر ہو ا ہے اور خدا سے زيادہ اپنے عہد كا پوراكرنے والا كوں ہو گا تو اب تم لوگ اپنى اس تجارت پر خوشيان مناؤجوتم نے خدا سے كى ہے كہ يہى سب سے بڑى كاميابى ہے_

۱_ خدا تعالى بہشت كى قيمت كے ساتھ مومنين كى جان و مال كا خريدار ہے_

۳۲۲

ان الله اشترى من المو منين انفسهم و اموالهم بان لهم الجنة

۲_ جان كے ساتھ جہاد كى طرح مالى جہاد كا بھى بہشت تك دسترسى ميں كردار_

ان الله اشترى من المو منين انفسهم و اموالهم بان لهم الجنة

۳_ مومنين كى جان و مال ان كے دائمى اقدار تك دسترسى حاصل كرنے كا ايك وسيلہ ہے_

ان الله اشترى من المو منين انفسهم و اموالهم بان لهم الجنة

۴_ ايمان: جانى اور مالى قربانى كے بہشت تك دسترسى حاصل كرنے كيلئے مؤثر ہونے كى شرط ہے_

ان الله اشترى من المو منين انفسهم و اموالهم بان لهم الجنة

'' من المؤمنين '' كى قيد سے اشارہ ملتا ہے كہ اس معاملے ميں صرف مومنين شريك ہيں _

۵_ بارگاہ خداوندى ميں مومنين كى جان و مال كى بڑى قيمت ہے_ان الله اشترى بان لهم الجنة

۶_ سچے ايمان كا لازمہ ہے راہ خدا ميں جان و مال كو قربان كردينا _ان الله اشترى من المو منين

۷_ غير خدا كى راہ ميں يا بہشت كے علاوہ كسى اور قيمت كے مقابلے ميں جان و مال قربان كرنا نقصان اور گھاٹا ہے_

ان الله اشتري بان لهم الجنة

خدا تعالى نے مومنين كى جان و مال كے مقابلے ميں بہشت جيسى عظيم قيمت كى پيشكش كركے در حقيقت واضح كر ديا ہے كہ بہشت كے علاوہ كسى اور چيز كے مقابلے ميں جان و مال فروخت كرنا نقصان اورخسارہ ہے_

۸_ انسان كو اطاعت خدا اور ہر نيك كام كى طرف مائل كرنے كيلئے ( جزا جيسے) تشويق كے ذرائع سے استفادہ كرنا ضرورى ہے_ان الله اشترى بان لهم الجنة

خدا تعالى كى طرف سے مومنين كو بہشت كى نويد كے ذريعے جہاد كى طرف تشويق كرنے سے مندرجہ بالا مطلب حاصل ہوتا ہے_

۹_ دين الہى اور اسكى حمايت كى ، انسان كى جان و مال سے زيادہ قدر وقيمت ہے_

ان الله اشترى من المو منين انفسهم و اموالهم يقتلون فى سبيل الله

۱۰_ مجاہدين اور راہ خدا ميں جنگ كرنے والے خدا تعالى كے ساتھ اپنى جان و مال كا سودا كرتے ہيں _

ان الله اشترى من المؤمنين يقتلون فى سبيل الله فيقتلون و يقتلون

۳۲۳

۱۱_ خدا تعالى مومنين كے جہاد اور ايثار كے سائے ميں اپنے راستے اور دين كو بلند كرنے كا ارادہ ركھتا ہے_

ان الله اشترى من المو منين يقاتلون فى سبيل الله

چونكہ خدا تعالى نے اعلان فرمايا ہے كہ وہ مومنين كے جان و مال كا خريدار ہے اور اسكے بعد اس نے راہ خدا ميں جہاد كا مسئلہ چھيڑا ہے اس كا مطلب ہے كہ خدا تعالى نے اپنى راہ كى ترقى كو مومنين كے جہاد كے سائے ميں قرار ديا ہے_

۱۲_ جہاد كى قدر و قيمت تب ہے جب راہ خدا ميں ہو _يقاتلون فى سبيل الله

۱۳_دشمنان راہ خدا كے مقابلے ميں جنگى ميدانوں ميں فعال كردار ادا كرنا اور قتل ہونے سے نہ ڈرنا ضرورى ہے_

يقاتلون فى سبيل الله فيقتلون و يقتلون

۱۴_ جہاد كا پہلا ہدف دشمنان خدا كو نابود كرنا ہے نہ صرف شہيد ہونا _يقاتلون فى سبيل الله فيقتلون و يقتلون

مندرجہ بالا نكتہ قتل كرنے ( فَيقتُلون ) كے قتل ہونے( و يقتلون ) پر مقدم ہونے سے حاصل ہوتا ہے_

۱۵_راہ خدا ميں قتل كرنا اور قتل ہو جانا دونوں خدا كے ساتھ معاملہ اور قابل قدر ہيں _

يقتلون فى سبيل الله فيقتلون و يقتلون

۱۶_ خدا تعالى كى طرف سے ان مجاہدين كيلئے قطعى بہشت كى ضمانت جو آخر كار جام شہادت نوش كر ليتے ہيں _*

فيقتلون و يقتلون

مندرجہ بالا نكتہ اس احتمال كى بنا پر ہے كہ '' و يقتلون '' قيد ہو يعنى صرف دشمنان خدا كو قتل كرنا بہشت كو قطعى نہيں بناتا اور خدا كے ساتھ معاملہ نہيں ہے بلكہ آخر ميں قتل ہو جانا خدا تعالى كے ساتھ معاملہ ہے_

۱۷_ جان كے ساتھ جہاد خدا تعالى كے ساتھ سودے كا اصل ركن اور جہاد مالى سے برتر ہے_

اشترى انفسهم و اموالهم يقاتلون فى سبيل الله فيقتلون و يقتلون

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بنا پر ہے كہ ''انفسہم '' كا '' اموالہم '' پر مقدم كرنا جان كے ساتھ جہاد كى برتر قدر وقيمت كو بيان كرنے كيلئے ہو اور '' يقاتلون '' سے مراد صرف جان كے ساتھ جہاد ہو كيونكہ اس جملے ( فيقتلون و يقتلون ) ميں صرف جان كے ساتھ جہاد كو ذكر كيا گيا ہے_

۱۸_ مجاہدين اور شہدا كيلئے بہشت كى پاداش ، خدا تعالى كا تورات ، انجيل اور قرآن ميں حتمى وعدہ ہے_

و عداً عليه حقا فى التورى -ة و الانجيل و القرآن

۳۲۴

۱۹_ راہ خدا ميں جان و مال كے ساتھ جہاد كرنا سب شريعتوں ميں ہے اور يہ سب انسانوں كى شرعى ذمہ دارى ہے اور مسلمانوں اور شريعت اسلامى كے ساتھ مختص نہيں ہے_

ان الله اشترى من المو منين انفسهم و اموالهم وعداً عليه حقا فى التورى -ة و الانجيل و القرآن

۲۰_ اعتقادى اصول و اقدار كے بيان كرنے ميں اديان الہى اور آسمانى كتابوں كى ہم آہنگى _

ان الله اشترى من المو منين انفسهم و اموالهم وعداً عليه حقا فى التورىة و الانجيل و القرآن

۲۱_ تورات، انجيل اور قرآن ، خدا تعالى كے مجاہدين اور شہدا كے ساتھ كئے گئے وعدوں كى دستاويز اور ان كيلئے موجب اطمينان ہے_و عداً عليه حقا فى التورية و الانجيل و القرآن

۲۲_ خدا تعالى سب سے زيادہ عہدكى وفا كرنے والا ہے_و من اوفى بعهده من الله

۲۳_ مجاہدين اور بہشت كے مقابلے ميں اپنى جان و مال كا سودا كرنے والوں كو خدا تعالى كى طرف سے خوشخبرى _

فاستبشروا ببيعكم الذى بايعتم به

۲۴_ راہ خدا ميں جان و مال قربان كركے بہشت كو پالينا خدا تعالى كى نظر ميں خوش ہونے اور مسرور ہونے كے لائق ہے_

ان الله اشترى من المو منين فاستبشروا ببيعكم الذى بايعتم به

۲۵_ جہاد و شہادت كے سائے ميں بہشت تك دسترسى حاصل كرلينا ہى تنہا عظيم كاميابى ہے_

ان الله اشترى بان لهم الجنة ذلك هو الفوز العظيم

۲۶_ عبد الرحيم كہتے ہيں امام باقر (ع) نے اس آيت (ان الله اشترى من المو منين انفسهم ) كى تلاوت فرمائي پھر فرمايا:''من مات من المؤمنين ردّ حتى يقتل'' جو بھى مومن مرتا ہے اسے پلٹا ديا جاتا ہے حتى كہ قتل كيا جائے_(۱)

آسمانى كتابيں :انكى ہم آہنگى ۲۰

احكام: ۱۹

____________________

۱)تفسير عياشى ج ۲ ص ۱۱۳ ح ۱۴۴_ تفسير برہان ج ۲ ص ۱۶۷ ح ۷_

۳۲۵

اديان :انكى ہم آہنگى ۲۰;ان ميں اصول دين ۲۰; ان ميں اقدار ۲۰;

اطاعت :اطاعت خدا كى تشويق۸

اقدار :انكا معيار ۱۲; برتر اقدار ۹; دائمى اقداركے حاصل كرنے كا ذريعہ ۳

انجيل :اس كا كردار ۲۱; اس ميں خدا كے وعدے ۱۸

انسان :اسكى جان كى قدر و قيمت ۹; اسكى شرعى ذمہ دارياں ۱۹; اس كے مال كى قيمت ۹

ايمان :اسكے آثار ۴،۶

بہشت :اس كا وعدہ ۱۸;اسكى پاداش ۱،۲۴; اسكى خوشخبرى ۲۳; اسكے اسباب ۲،۴،۲۵

بہشتى لوگ۱۶،۱۸

تربيت :اسكى روش ۸; اس ميں پاداش ۸; اس ميں تشويق ۸

تورات :اس كا كردار ۲۱; اس ميں خدا كے وعدے ۱۸

جہاد :اس كا فلسفہ ۱۴; اسكى پاداش ۲،۲۵;اسكى قدر وقميت ۱۲،۱۵،۱۷;اسكے احكام۱۹; اس ميں شجاعت ۱۳; جہاد اديان ميں ۱۹; جہاد دشمنوں كے ساتھ ۱۳; مالى جہاد كى اہميت ۲;مالى جہاد كى پاداش ۲;مالى جہاد كى قدر وقيمت ۱۷

خدا تعالى :اس كا ارادہ ۱۱; اس كا عہد كى وفا كرنا ۲۲; اسكى بشارتيں ۲۳; اسكى خصوصيات ۲۲; اسكى ضمانت ۱۶;

اس كے وعدے كا حتمى ہونا ۱۸; اس كے وعدے كى دستاويز ۲۱

دشمن :دشمنان خدا كى شكست ۱۴

دين :اسكى حمايت كى قدر وقيمت ۹; اسكى قدر و قيمت ۹; اس كے ثبات و استقلال ميں موثر عوامل ۱۱

راہ خدا :اسكى اہميت ۱۲

روايت ۲۶

سرور:اسكے عوامل ۲۴

۳۲۶

شہادت ( راہ خدا ميں قتل ہونا ):اسكى پاداش ۲۵; اسكى قدر و قيمت ۱۵

شہدا :انكى بہشت كا ضامن ۱۶;انكى پاداش ۱۶; ان كے اطمينان كے عوامل ۲۱; ان كے ساتھ وعدہ ۱۸

عمل :عمل خير كى تشويق ۸

قرآن كريم :اس كا كردار ۲۱

قربانى دينا:اسے قبول كرنے كى شرط ۴; جان كى قربانى دينے كے عوامل ۶; جان كى قربانى كى پاداش ۲۴;جان كى قربان كے آثار ۴; مال كى قربانى دينے كے عوامل ۶; مال كى قربانى كى پاداش ۲۴;مال كى قربانى كے آثار ۴;غير راہ خدا ميں ايثار كا نقصان ۷

كاميابى :اسكے عوامل ۲۵

مجاہدين :انكا معاملہ ۱۰; انكو بشارت ۲۳; انكى پاداش ۱،۱۸; ان كى جان كا خريدار ۱;ان كے اطمينان كے عوامل ۲۱; ان كے ساتھ وعدہ ۱۸; انكے مال كا خريدار ۱

معاملہ :خدا كے ساتھ معاملہ ۱۰،۱۵; خدا كے ساتھ معاملہ كرنے كے اركان ۱۷

مومنين :انكى پاداش ۱; انكى جان كا كردار ۳; انكى جان كى قدر و قيمت ۵; انكى شہادت ۲۶;انكى قربانى دينے كے آثار ۱۱; ان كے جہاد كے آثار ۱۱;ان كے فضائل ۲۶;ان كے مال كا كردار ۳;ان كے مال كى قدر و قيمت ۵

نقصان :اسكے موارد ۷

۳۲۷

آیت ۱۱۲

( التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدونَ الآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ )

يہ لوگ توبہ كرنے والے ،عبادت كرنے والے ، حمد پروردگار كرنے والے ، راہ خدا ميں سفر كرنے والے ،ركوع كرنے والے ،سجدہ كرنے والے ،نيكيوں كا حكم دينے والے ، برائيوں سے روكنے والے اور حدود الہيہ كى حفاظت كرنے والے ہيں او ر اسے پيغمبر آپ انھيں جنّت كى بشارت ديديں _

۱_ مومنين; توبہ ، عبادت اور خداتعالى كى ستائش كرنے كى فطرت كے حامل لوگ _التائبون العابدون الحامدون

۲_ توبہ ، عبادت ، حمد ، بندگى كى راہ ميں كوشش ، ركوع ، سجود، نيكى كا حكم دينا برائي سے منع كرنا اور حدود الہى كى حفاظت كرنا ، راہ خدا ميں جہاد كرنے والوں كى صفات ہيں _ان الله اشترى من المو منين التائبون و الحافظون لحدود الله

۳_سچے مومنين ہميشہ اپنے اعمال كے سلسلے ميں پريشان پريشان اور استغفار كى حالت ميں ہوتے ہيں _

التائبون العابدون الحامدون السائحون

۴_ توبہ ،انسان كيلئے راہ عبادت و عبوديت خدا كو ہموار كرتى ہے_*التائبون العابدون

ہو سكتا ہے '' التائبون '' كا '' العابدون '' پر مقدم كرنا مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہو _

۵_ سچے مومنين خدا تعالى كى بندگى كے سلسلے ميں متحرك اور سعى و كوشش ميں رہتے ہيں نہ معذوروں كى طرح بے حركت اور ٹھہرے ہوئے_

السائحون

لفظ'' السائح '' كبھى ايسے پانى كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے جو اپنے راستے ميں ہميشہ جارى ہو _ اہل ايمان كى يہ صفت بيان كرنا ہو سكتا ہے مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہو _

۶_ سچے مومنين خدا تعالى كى نشانيوں كى شناخت اور ان ميں غور و فكر كرنے كيلئے زمين ميں سير كرتے ہيں _السائحون

( السائحون كے مصدر ) '' سيح و سياحت_'' كا معنى ہے سير و سفر كرنا لذا مومنين كى ''سائحون'' صفت لانا ہو سكتا ہے مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہو _

۳۲۸

۷_ خود سازى كے راستے ميں توبہ ، انسان كا پہلا قدم ہے_التائبون العابدون

آيت ميں مذكورہ صفات كو انفرادى اور اجتماعى دو گروہوں ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے پہلے انفرادى صفات كو ذكر كيا گيا ہے كہ جن ميں خودسازى كا پہلو ہے اور ديگر صفات پر توبہ كا مقدم كرنا ہوسكتا ہے اسلئے ہو كہ توبہ كا سب سے پہلا كردار ہے_

۸_ ركوع، سجدہ ، نيكى كا حكم دينا اور برائي سے منع كرنا سچے مومنين كى خصوصيات ميں سے ہے_

الراكعون الساجدون الآمرون بالمعروف و الناهون عن المنكر

۹_ ركوع و سجود ، نماز كے اہم اركان ہيں _الراكعون الساجدون

اكثر مفسرين كا يہ كہنا ہے كہ ركوع اور سجود كرنے والوں سے مراد نماز گزار لوگ ہيں لہذا ہو سكتا ہے نماز كے ديگر واجبات كى بجائے ان دو كا ذكر كرنا انكى خاص اہميت كى وجہ سے ہو _

۱۰_ افراد اور معاشرہ كى ناشائستہ اور اقدار كے منافى افكار اور حركات كا مقابلہ كرنے سے پہلے انہيں اقدار كى شناسائي كرانا ضرورى ہے_*الأمرون بالمعروف و الناهون عن المنكر

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بنياد پر ہے كہ امر بالمعروف كا نہى عن المنكر پر مقدم كرنا اسكے حقيقى اور عملى تقدم كى طرف اشارہ ہو _

۱۱_ اقدار كى ترويج كرنا اور منكرات كا مقابلہ كرنا لازم ملزوم ہيں _الامرون بالمعروف و الناهون عن المنكر

چونكہ قرآن كريم ميں اكثر مقامات پر يہ دونوں اكٹھے ذكر كئے گئے ہيں اس سے مندرجہ بالا مطلب حاصل ہوتا ہے_

۱۲_ خدا تعالى كى ستائش كرنا، اسكى راہ ميں حركت كرنا ، ركوع، سجود ، نيكى كا حكم دينا اور برائي سے روكنا خدا تعالى كى عبادت كے روشن نمونے ہيں _*التائبون العابدون و الناهون عن المنكر

مندرجہ بالا مطلب اس احتمال كى بنا پر ہے كہ ''الحامدون السائحون '' عام

۳۲۹

(العابدون ) كے بعد خاص كا ذكر ہو اور ان صفات كى اہميت كو بيان كرنے كيلئے ہو _

۱۳_ سچے مومنين معاشرہ كى اصلاح سے پہلے خودسازى پر توجہ ديتے ہيں _*

انفرادى صفات ( توبہ ، عبادت ، ) كا اجتماعى صفات ( نيكى كا حكم دينا اور برائي سے منع كرنا ) پر مقدم كرنا ہو سكتا ہے تقدم حقيقى اور رتبى كى طرف اشارہ ہو _

۱۴_ سچے مومنين اور واقعى كامياب لوگ ميدان كارزار كے علاوہ عبادى ، انفرادى اور اجتماعى سب ميدانوں ميں حاضر ہوتے ہيں _اشترى من المو منين ذلك هو الفوز العظيم_ التائبون العابدون الآمرون بالمعروف و الناهون عن المنكر

مندرجہ بالا نكتہ اس آيت كے سابقہ آيت كے ساتھ ارتباط كو مد نظر ركھتے ہوئے حاصل ہوتا ہے_

۱۵_ سچے مومنين ہميشہ خدا تعالى كے قوانين ، حدود اور اقدار كے محافظ ہيں _و الحافظون لحدود الله

۱۶_ سچے مومنين اسلام كے سب انفرادى اور اجتماعى احكام كے پابند ہوتے ہيں _

و التائبون و الحافظون لحدود الله و بشر المومنين

۱۷_ مومنين كا حدود الہيكے اجرا اور انكى حفاظت ميں پائيدار رہنا خدا تعالى كے اپنے عہد كى وفاكى شرط ہے_

و من اوفى بعهده من الله التائبون العابدون و بشر المومنين

خدا تعالى كے اپنے عہد كى وفا كو بيان كرنے كے بعد انفرادى اور اجتماعى اعمال اور حدود الہى كى حفاظت كى تاكيد كرنا ہو سكتا ہے اس چيز كو واضح كرنے كيلئے ہو كہ انسان كا حدود الہى كى حفاظت كرنا اسكے خدا تعالى كے وعدوں سے بہرہ مند ہونے كى شرط ہے_

۱۸_ سچے مومنين خدا و رسول كى خوشخبرى كى لياقت ركھتے ہيں _التائبون العابدون و بشر المو منين

۱۹_ بہشت سچے مومنين كا مدہ ہے_ان الله اشترى من المو منين بان لهم الجنة و بشر المو منين

۲۰_ روايت ميں ہے كہ امام صادق (ع) سے سوال كيا گيا كہ يہ جو خدا تعالى فرماتا ہے:'' ان الله اشترى من المؤمنين ا نفسهم و ا موالهم بانّ لهم الجنة ...'' هذا كل من جاهد فى سبيل الله ا م لقوم دون قوم؟ فقال ابو عبدالله (ع) : ا نزل الله عزوجل عليه بعقب ذلك: ''التائبون العابدون الحامدون ...'' فابان الله عزوجل بهذا صفة المؤمنين الذين اشترى منهم ا نفسهم و ا موالهم '' '' يقينا خدا نے مومنين سے انكى جانيں اور ان كے مال خريد لئے

۳۳۰

ہيں اور اسكے مقابلے ميں انہيں جنت دى ہے '' راہ خدا ميں جہاد كرنے والے سب لوگوں كو شامل ہے يا صرف كسى خاص گروہ كيلئے ہے ؟تو آپ (ع) نے فرمايا خدا تعالى نے اس آيت كے بعد پيغمبر (ص) پر يہ آيت نازل فرمائي'' التائبون العابدون الحامدون ...'' يوں خدا تعالى نے ان مومنين كى صفات بيان كردى ہيں جنكى جانيں اور مال اس نے خريد لئے ہيں _(۱)

۲۱_ رسول خدا (ص) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا''تائبون'' من الذنوب ''العابدون'' الذين لا يعبدون الا الله و لا يشركون به شيئاً''الحامدون'' الذين يحمدون الله على كل حال فى الشدة والرخا ''السائحون'' و هم الصائمون ''الراكعون الساجدون'' الذين يواظبون على الصلوات الخمس الحافظون لها والمحافظون عليها بركوعها و سجودها و فى الخشوع فيها و فى اوقاتها ...'' يعنى گناہوں سے توبہ كرنے والے ''عابدون'' وہ لوگ ہيں جو غير خدا كى عبادت نہيں كرتے اور كسى چيز كو اس كا شريك نہيں ٹھہراتے ''حامدون'' وہ لوگ ہيں جو سختى اور آرام ہر حالت ميں خدا تعالى كى ستائش كرتے ہيں '' سائحون '' يعنى روزہ دار لوگ ''راكعون '' اور ''ساجدون'' وہ لوگ ہيں جو اپنى پنجگانہ نمازوں كے پابند ہوتے ہيں نمازوں ميں ركوع ، سجود اور خشوع و خضوع كا خيال ركھتے ہيں اور نماز كے اوقات كى پابندى كرتے ہيں _(۲)

اقدار :انكى پاسدارى كرنے والے ۱۵; انكى ترويج ۱۱; انكى شناخت ۱۰; منفى اقدار كا مقابلہ ۱۰،۱۱

امر بالمعروف :اسكى اہميت ۱۲

برائي سے منع كرنا :اسكى اہميت ۱۲

بہشتى لوگ: ۱۹تائبين :ان سے مراد ۲۱

تزكيہ :اس كا پيش خيمہ۷

توبہ :اسكے آثار ۴،۷

حامدون:اس سے مراد ۲۱//حدود خدا :

____________________

۱)دعائم الاسلام ج۱ ص ۳۴۱ _ بحار الانوار ج ۹۷ ص ۴۸ ح ۱۳_

۲) كافى ج ۵ ص ۱۵ ح۱_ نورالثقلين ج ۲ ص ۲۷۱ ح ۳۵۷_

۳۳۱

انكى پاسدارى كرنے والے ۱۵

حمد :حمد خدا ۱۲

خدا تعالى :اسكى بشارتيں ۱۸; اسكے وفاء عہد كى شرائط ۱۷

راكعون:اس سے مراد ۲۱

راہ خدا :اسكى اہميت ۱۲

ركوع:اسكى اہميت ۱۲

روايت ۲۰،۲۱

ساجدون :ان سے مراد ۲۱//سائحون :ان سے مراد ۲۱

سجدہ :اسكى اہميت ۱۲//عبادت :اس كا سرچشمہ ۴; عبادت خدا كى نشانياں ۱۲

عابدون:ان سے مراد ۲۱

عبوديت :اس كا پيش خيمہ ۴

كامياب لوگ :انكى خصوصيات ۱۴

مجاہدين :انكا امر بالمعروف ۲;انكا ركوع ۲; انكا سجدہ ۲; انكا نہى عن المنكر ۲ انكى توبہ ۲; انكى حمد ۲; انكى صفات ۲; انكى عبادت ۲; انكى عبوديت ۲; يہ اور حدود الہى كى پاسدارى ۲

محمد(ص) :آپ (ص) كى بشارتيں ۱۸

مومنين:انكا احكام كو اہميت دينا ۱۶;انكا استغفار ۳; انكا امر بالمعروف ۸;انكا تزكيہ كو اہميت دينا ۱۳; ان كا خدا كے ساتھ معاملہ ۲۰;انكا ركوع ۸; انكا سجدہ ۸; انكا نہى عن المنكر۸;انكو بشارت ۱۸; انكو بہشت كى بشارت ۱۹; انكى استقامت ۱۷; انكى پاسدارى ۱۵; انكى خصوصيات ۸،۱۴،۱۵،۱۶;انكى سرشت ميں توبہ ۱; انكى سرشت ميں حمد ۱; انكى سرشت ميں عبادت۱;انكى سياحت ۵،۶;انكى صفات ۱،۵، ۶، ۲۰ ; انكى عبوديت ۵; ان كے فضائل ۱۸; يہ اور آيات خدا كى شناخت ۶; يہ اور آيات خدا ميں غور و فكر كرنا ۶; يہ اور حدود الہى كى پاسدارى ۱۷;يہ اور معاشرہ كى اصلاح ۱۳

نماز:اس كے اركان ۹; اس ميں ركوع ۹; اس ميں سجدہ ۹

۳۳۲

آیت ۱۱۳

( مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُواْ أُوْلِي قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ )

نبى اور صاحبان ايمان كى شان يہ نہيں ہے كہ وہ مشركين كے حق ميں استغفار كريں چاہے وہ ان كے قرابتداردہى كيوں نہ ہوں جب كہ يہ واضع ہوچاہے كہ يہ اصحاب جہنم ہيں _

۱_ پيغمبراكرم (ص) اور مومنين كو مشركين كيلئے استغفار كرنے كا حق نہيں ہے_

ما كان للنبى و الذين امنوا ان يستغفروا للمشركين

۲_ مشرك چاہے اپنا رشتہ دار ہى ہو اس كيلئے استغفار كرنا حرام اور ممنووع ہے _

ما كان للبنى ان يستغفروا للمشركين و لو كانوا اولى قربى

۳_ خاندانى جذبات و احساسات كا دينى اور مكتبى روابط كے زير سايہ ہونا ضرورى ہے_

ماكان للبنى ان يستغفروا للمشركين و لو كانوا اولى قربى

۴_ رشتہ دارى والا پيوند بارگاہ الہى ميں ايك قابل قدر پيوند ہے_ما كان و لو كانوا اولى قربى

۵_ مشركين كا دوزخى ہونا يقينى اور غير قابل تغيير ہے_للمشركين من بعد ما تبين لهم انهم اصحاب الجحيم

۶_ مشركين اور دوزخى لوگوں كا شرك اور انكا دوزخى ہونا ان كيلئے مومنين كے استغفار كے موثر ہونے سے ركاوٹ _

ما كان للبنى و الذين آمنوا ان يستغفروا للمشركين انهم اصحاب الجحيم

۷_ جولوگ يقينا جہنمى ہيں ان كيلئے استغفار كرنا ممنوع

۳۳۳

ہے_ما كان ان يستغفروا من بعد ما تبين لهم انهم اصحاب الجحيم

۸_ ہر اس شخص كيلئے استغفار كرنا جائز ہے كہ جس كا ہدايت كو قبول نہ كرنا اور دوزخى ہونا استغفار كرنے والے كى نظر ميں يقينى نہيں ہے_من بعد ما تبين لهم انهم اصحاب الجحيم

'' من بعد ما تبين '' كى تعبير بتاتى ہے كہ كسى شخص كے دوزخى ہونے كے قطعى ہونے سے پہلے اس كيلئے استغفار كيا جاسكتا ہے_

۹_ پيغمبر اكرم (ص) اور مومنين كا غير مشركوں كيلئے استغفار تاثير ركھتا ہے_ما كان للنبى و الذين امنوا ان يستغفروا للمشركين

مشركين كيلئے استغفار كرنے سے خدا تعالى كا نہى فرمانا خود استغفار كے موثر ہونے كى دليل ہے كيونكہ اگر استغفار كا اثر نہ ہوتا تو نہى كرنے كا كوئي مطلب نہيں تھا_

۱۰_ كوئي شخص حتى كہ پيغمبراكرم (ص) بھى مشركين كے برے انجام (دوزخى ہونا ) كو تبديل نہيں كرسكتے_

ما كان للنبى من بعد ما تبين لهم انهم اصحاب الجحيم

خصوصى طور پر پيغمبر (ص) كا نام لينے سے معلوم ہوتا ہے كہ نہ صرف مومنين كى دعا مشركين كيلئے اثر نہيں ركھتى بلكہ خود پيغمبر اكرم (ص) بھى استغفار كے ذريعے ان كے انجام كو تبديل نہيں كرسكتے_

۱۱_ جن مشركين كا دوزخى ہونا حتمى ہے ان كيلئے دل ميں نرم گوشہ ركھنے اور ان كے ساتھ محبت سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_ما كان للنبى ان يستغفروا للمشركين انهم اصحاب الجحيم

۱۲_ پيغمبراكرم (ص) كى رشتہ دارى مشرك كے عذاب اور اس كے دوزخى ہونے سے ركاوٹ نہيں بن سكتى _

ما كان للنبى ان يستغفروا للمشركين و لو كانوا اولى قربى انهم اصحاب الجحيم

احكام :۲

استغفار :اسكى تاثير كے موانع ۶; اسكے احكام ۸;جائز استغفار ۸

تبرا:جہنميوں سے تبرا ۱۱; مشركين سے تبرا ۱۱

جذبات :ان ميں تعادل ركھنا ۳; خاندانى جذبات ۳

جہنمى لوگ ۵انكا انجام ۱۰;ان كيلئے استغفار ۶; ان كيلئے

۳۳۴

استغفار كا ممنوع ہونا ۷

دينى روابط :انكى اہميت ۳

رشتہ دارى :اسكى قدر و قيمت ۴

شرك:اسكے آثار۶

محبت :ممنوع محبت ۱۱

محرمات :۲

محمد(ص) :آپ (ص) اور مشركين كيلئے استغفار ۱; آپ(ص) كا دائرہ اختيارات ۱۰; آپ (ص) كى رشتہ دارى كے اثرات ۱۲;آپ(ص) كى شرعى ذمہ دارى ۱; آپ(ص) كے استغفار كے اثرات۹

مشركين :انكا انجام ۱۰;انكے عذاب كا حتمى ہونا ۱۲;ان كے عذاب كے موانع ۱۲; ان كيلئے استغفار ۶;ان كيلئے استغفار كا حرام ہونا ۲;ان كيلئے استغفار كا ممنوع ہونا ۲; يہ جہنم ميں ۵

مومنين:انكى شرعى ذمہ دارى ۱;ان كے استغفار كے اثرات ۹; يہ اور مشركين كيلئے استغفار ۱

آیت ۱۱۴

( وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لأوَّاهٌ حَلِيمٌ )

اور ابراہيم كا استغفار ان كے باپ كے لئے صرف اس وعدہ كى بنا پر تھا جو انھوں نے اس سے كيا تھا اس كے بعد جب يہ واضح ہوگيا كہ وہ دشمن خدا ہے تو اس سے برا ت اور بيزار ى بھى كرلى كہ ابراہيم بہت زيادہ تضرع كرنے والے اور بردبارتھے_

۱_ ابراہيم (ع) كا اپنے باپ كے ساتھ اس كيلئے استغفار كرنے كا وعدہ_

و ما كان استغفار ابراهيم لابيه الا عن موعدة و عده

۲_ ابراہيم (ع) كا باپ خدا تعالى كے قطعى دشمنوں اور مشركوں ميں سے _فلماتبين له انه عدولله

۳_ حضرت ابراہيم (ع) كا اپنے باپ كيلئے استغفار صرف اس وعدہ كى وجہ سے تھا جو انہوں نے اپنے باپ كے ساتھ كر ركھا تھا نہ باپ بيٹے والے تعلق كى وجہ سے_و لو كانوا اولى قربى و ما كان استغفار ابراهيم لابيه الاعن موعدة وعدها اياه

۳۳۵

۴_ حضرت ابراہيم (ع) كا اپنے باپ كيلئے استغفار ان كے اندر ايمان كى طرف كچھ تمايل كا مشاہدہ كرنے كى وجہ سے تھا_

و ما كان استغفار عن موعدة و عدها اياه

مندرجہ بالا نكتہ اس احتمال كى بنا پر ہے كہ ''وعد'' كى ضمير كا مرجع '' اب '' ہو اور '' اياہ '' كى ضمير كا مرجع ''ابراہيم '' كہ اس صورت ميں معنى يوں بنے گا كہ حضرت ابراہيم (ع) كے باپ نے ايمان لانے كا وعدہ كيا تھا اسلئے حضرت ابراہيم (ع) نے اپنے باپ كيلئے استغفار كيا _

۵_ عہد كى وفا واجب ہے_الا عن موعدة و عدها اياه

۶_ حضرت ابراہيم (ع) كا اپنے باپ كيلئے استغفار كا وعدہ اسكے شرك پر باقى رہنے كے يقين سے پہلے اور اسے ايمان كى طرف مائل كرنے كى اميد كى وجہ سے تھا_الا عن موعدة فلما تبين له انه عدو لله

۷_ مومن ، مشرك كيلئے استغفار كر سكتا ہے اگر كسى ہدايت كى اميد ہو _

ما كان استغفار فلما تبين له انه عدو لله تبرا منه

۸_ مشركين خدا تعالى كے دشمن ہيں _ما كان للنبى والذين امنوا ان يستغفروا للمشركين انه عدولله تبرا منه

۹_ حضرت ابراہيم (ع) كا اپنے باپ كے ہدايت كو قبول نہ كرنے اور خدا كا دشمن ہونے كے يقين كے بعد اس سے بيزار ہوجانا _فلما تبين له انه عدولله تبرا منه

۱۰_ دشمنان خدا سے بيزارى اور تبرى ضرورى ہے اگر چہ وہ قريبى رشتہ دار ہى ہوں _

فلما تبين له انه عدو لله تبرأ منه

۱۱_ مشركين كى خدا تعالى كے ساتھ دشمنى ان كيلئے استغفار كے جائز نہ ہونے كا راز ہے_

ما كان للنبى ان يستغفروا للمشركين فلما تبين له انه عدولله تبرا منه

۱۲_ مشركين كيلئے استغفار كا ممنوع ہونا اور ان سے بيزارى كا لازمى ہونا ، آسمانى اديان كا مشتركہ حكم ہے_ما كان للنبى ان يستغفروا للمشركين و ما كان استغفار ابراهيم انه عدولله تبرا منه

چونكہ خدا تعالى نے صرف حضرت ابراہيم (ع) كے آذر كے لئے استغفار كواس عنوان سے ذكر كيا ہے كہ يہ مسلمانوں كے اذہان ميں شك و ترديد پيدا كر سكتا ہے اور اس كے راز سے پردہ اٹھايا ہے اس سے پتا چلتا ہے كہ مشرك كيلئے استغفار كا ممنوع ہونا سب اديان الہى كا مشتركہ مسئلہ ہے_

۳۳۶

۱۳_ حضرت ابراہيم (ع) كے اپنے باپ كيلئے استغفار كا مؤثر نہ ہونا اسكے شرك پر اصرار كى وجہ سے تھا_

فلما تبين له انه عدو لله تبرا منه

۱۴_ انبيا(ع) كے علم كا محدود ہونا _ما كان استغفار ابراهيم لابيه فلما تبين له انه عدولله

مندرجہ بالا نكتہ اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے ہے كہ حضرت ابراہيم (ع) باوجود اس كے كہ اولوا العزم انبياء ميں سے تھے ليكن پھر بھى آذر كے انجام سے مطلع نہ تھے اور اسكى ہدايت كى اميد كرتے ہوئے اسے استغفار كا وعدہ دے بيٹھے_

۱۵_حضرت ابراہيم (ع) بہت دعا و مناجات كرنے والے اور حليم و بردبار شخص تھے_ان ابراهيم لاوّه حليم

ايك روايت ميں حضرت امام باقر (ع) سے نقل كيا گيا ہے كہ آپ نے فرمايا '' لاوّاہ الدعا '' يعنى ''اوّاہ '' وہ ہے جو بہت دعا و مناجات كرتا ہے_

۱۶_ حضرت ابراہيم (ع) كا '' آزر '' سے رشتہ دارى كے باوجود بيزار ہو جانا خدا تعالى كے حضور آپ كے گہرے خشوع كا مظہر ہے_انه عدولله تبرا منه ان ابراهيم لا وّاه حليم

اہل لغت نے '' اوّاہ'' كا ايك معنى '' زيادہ خضوع و خشوع'' شمار كيا ہے يعنى ابراہيم (ع) خدا تعالى كے حضور بہت خضوع و خشوع كرنے والے تھے مندرجہ بالا نكتہ اس احتمال كى بنا پر ہے كہ يہ جملہ ''ان ابراہيم لا وّاہ '' حضرت ابراہيم (ع) كے آذر سے بيزارى كى علت كوبيان كر رہا ہو _

۱۷_ حضرت ابراہيم (ع) لوگوں كيلئے بہت مہربان تھے اور مشركين كے ہدايت كو قبول نہ كرنے پر غمزدہ ہوتے تھے_

ان ابراهيم لاوّاه حليم

اہل لغت نے '' اواہ '' كا ايك اور معنى '' نرمى اور مہربانى '' لكھا ہے يعنى حضرت ابراہيم (ع) بہت نرم دل اور لوگوں كيلئے بہت مہربان تھے مندرجہ بالا نكتہ اس احتمال كى بناپر ہے كہ جملہ'' ان ابراهيم لاوّاه '' حضرت ابراہيم (ع) كے آذر كے ساتھ كئے گئے وعدہ كى علت كو بيان كررہا ہو يعنى ابراہيم (ع) كى شديد مہربانى سبب بنى كہ آپ نے آذر كو ايمان كى طرف مائل كرنے كيلئے اسے استغفار كا وعدہ دے ديا _

۱۸_ لوگوں كى ہدايت اور الہى ذمہ داريوں كے انجام ميں حضرت ابراہيم (ع) كا حلم اور بردبارى _

ان ابراهيم لاواه حليم

۳۳۷

۱۹_ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے ''اواّہ اى دعاء والبكائ'''' اواہ'' يعنى بہت دعا اور گريہ و زارى كرنے والا _(۱)

آذر :آذر خدا كا دشمن ۲; آذر مشرك ۲;اسكا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۹;اسكى دشمنى ۹;اسكے شرك كے اثرات ۱۳

ابراہيم (ع) :آپ(ع) اور آذر ۹،۱۶; آپ(ع) اور آزر كيلئے استغفار ۱،۳،۴،۶; آپ(ع) اور مشركين كيلئے استغفار ۱۳; آپ(ع) اور ہدايت كو قبول نہ كرنے والے ۱۷; آپكا اميدوار ہونا ۶; آپ(ع) كا تبرا ۹،۱۶;آپ(ع) كا حلم ۱۵،۱۸;آپ(ع) كا دعا كا اہتمام كرنا ۱۵;آپ(ع) كا صبر ۱۸;آپكا(ع) وعدہ كى وفا كرنا ۳; آپ(ع) كا ہدايت كرنا ۱۸;آپ(ع) كى پريشانى ۱۷; آپ(ع) كى صفات ۱۵; آپ(ع) كى مہربانى ۱۷;آپ(ع) كے خشوع كے اثرات ۱۶;آپ(ع) كے فضائل ۱۵،۱۷،۱۸; آپ(ع) كے وعدے ۱،۶

احكام :۵

اديان :انكى ہم آہنگى ۱۲

استغفار :اسكا اميدوار ہونا ۷;اس ميں تاثير كے موانع ۱۳;جائز استغفار ۷; ممنوع استغفار ۱۲

انبياء:ان كے علم كا محدود ہونا ۱۴

اوّاہ :اس سے مراد ۱۹

تبرا:آذر سے تبرا ۹،۱۶;اسكى اہميت ۱۰; دشمنان خدا سے تبرا ۱۰; مشركين سے تبرا ۱۲

دشمن:دشمنان خدا ۲،۸،۹،۱۱

روايت :۱۹

شرك:اس پر اصرار كے آثار ۱۳

عہد :اسكى وفا كا واجب ہونا ۵;اس كے احكام ۵

مشركين: ۲انكى دشمنى ۸;انكى دشمنى كے اثرات ۱۱; ان كيلئے استغفار ۷،۱۲; ان كيلئے استغفار كے ممنوع ہونے كا فلسفہ ۱۱

واجبات :۵

____________________

۱)مجمع البيان ج ۵ ص ۱۱۶ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۷۵ ح ۳۷۵_

۳۳۸

آیت ۱۱۵

( وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُم مَّا يَتَّقُونَ إِنَّ اللّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ )

اور اللہ كسى قوم كو ہدايت دينے كے بعد اس وقت تك گمراہ نہيں قرار ديتا جب تك ان پر يہ واضح نہ كردے كہ انھيں كن چيزوں سے پرہيز كرنا ہے _بيشك اللہ ہر شے كا جاننے والا ہے_

۱_ تقوا كى راہيں بيان كرنے سے پہلے اہل ہدايت كو گمراہى ميں چھوڑ ديناخدا تعالى كى شان نہيں ہے_

و ما كان الله ليضل قوماً بعد اذ هدا هم حتى يبين لهم ما يتقون

۲_ ہدايت و فيض كا ہميشہ جارى ركھنا اور انسانى معاشروں كو ہميشہ نعمتيں عطا كرنا خدا تعالى كى سنت رہى ہے_

ما كان الله ليضل قوما ً بعد اذ هدا هم

''قوماً'' كا لفظ ہو سكتا ہے اشارہ ہو كہ يہ سنت الہى انسانى معاشرہ كے ساتھ مربوط ہے _

۳_ خدا تعالى كى سزا ہميشہ اتمام حجت كے بعد ہوتى ہے_ما كان الله ليضل قوما ً بعد اذ هداهم حتى يبين لهم ما يتقون

۴_گمراہى ميں چھوڑدينا ، تقوا سے عارى لوگوں كيلئے خدا تعالى كى سزا _ما كان الله ليضل حتى يبين لهم ما يتقون

۵_ ہدايات الہى كى جان بوجھ كر مخالفت كرنا خدا كى ہدايت كے سلب ہونے اور انسان كے گمراہ ہو جانے كا پيش خيمہ بنتا ہے_ما كان الله ليضل حتى يبين لهم ما يتقون

۶_ ہدايات الہى كى شناخت سے پہلے انسان سے مخالفت كا سرزد ہونا اسے گمراہى ميں چھوڑ دينے كا كا سبب نہيں بنتا _

ما كان الله ليضل حتى يبين لهم ما يتقون

۷_ خدا تعالى كى طرف سے استغفار كى حرمت كے بيان كے بعد بعض مومنين كو ماضى ميں بعض مشركين كيلئے كئے گئے اپنے استغفار كے سلسلے ميں پريشانى _

ما كان للنبى و الذين امنوا ان يسغفروا للمشركين ...و ما كان الله ليضل قوما ً بعد اذ هدا هم حتى يبين لهم ما يتقون

اس آيت كے سابقہ آيات كے ساتھ ارتباط اور اسكے شان نزول كو مدنظر ركھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے كہ يہ آيت شريفہ ان لوگوں كى پريشانى كو دور كرنے كيلئے ہے كہ جو حرمت كے علم سے پہلے مشركين كيلئے استغفار كر چكے تھے_

۳۳۹

۸_ مشركين كيلئے استغفار خدا تعالى كى طرف سے اسكى حرمت كو بيان كرنے سے پہلے مومنين كيلئے گناہ شمار نہيں ہوتا _

ما كان للنبى و الذين آمنوا و ما كان الله ليضل قوما ً ...حتى يبين لهم ما يتقون

اس آيت كے شان نزول كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ بعض مومنين نے مشركين كيلئے استغفار كيا تھا _ مندرجہ بالا مطلب كا استفادہ ہوتا ہے_

۹_ ہدايت و فيض الہى سے محروم ہونے ميں انسان كے اپنے عمل كا كردار _

ما كان الله ليضل قوما ً حتى يبين لهم ما يتقون

چونكہ خدا تعالى حكم كو بيان كرنے سے پہلے كسى كو گمراہى ميں نہيں چھوڑتا اس كا مطلب يہ ہے كہ اگر حكم بيان ہوجائے اور انسان جان بوجھ كر گناہ سے پرہيز نہ كرے تو خدا تعالى اسے گمراہى ميں چھوڑديتا ہے_

۱۰_خدا تعالى عالم ہستى كے تمام حقائق كا وسيع اور مطلق علم ركھتا ہے_ان الله بكل شيء عليم

۱۱_ خدا تعالى كے احكام و قوانين كا سرچشمہ اس كا عالم ہستى كے حقائق اور مصالح و مفاسد كے بارے ميں وسيع علم ہے_حتى يبين لهم ما يتقون ان الله بكل شيء عليم

يہ جملہ '' ان اللہ بكل '' خدا تعالى كى طرف سے احكام كے بيان كئے جانے كى علت كو واضح كررہا ہے_

۱۲_ امام رضا(ع) سے روايت ہے كہ آپ نے فرمايا :''ان الامام الفرض عليه و الواجب من الله اذا خاف الفوت على نفسه اذن يحتج فى الا مام من بعده بحج، معروف، مبين، ان الله تبارك و تعالى يقول فى كتابه:''و ما كان الله ليضل قوما بعد اذ هدى هم حتى يبين لهم ما يتقون ...'' اللہ تعالى كى طرف سے امام پر واجب ہے كہ جب اسے اپنے فوت ہونے كا خوف ہوتو ايك روشن اور واضح دليل كے ذريعے اپنے بعد والے امام كے بارے ميں لوگوں پر حجت تمام كرے كيونكہ خدا تعالى اپنى كتاب ميں فرماتا ہے ''يوں نہيں ہو ا كہ خدا تعالى كسى قوم كو ہدايت كرنے كے بعد گمراہى ميں چھوڑدے مگر يہ كہ ان كيلئے اس چيز كو بيان كردے جس سے ان كيلئے پرہيز كرنا ضرورى ہے '' _(۱)

۱۳_ عبد الاعلى كہتے ہيں : ''و سئلته عن قوله تعالى '' و ما كان الله ليضل قوماً بعد اذ هدى هم حتى يبين لهم ما يتقول'' قال: حتى يعرفهم ما يرضيه و ما يسخطه ''

____________________

۱)قرب الاسناد ص ۳۷۷ ح ۱۳۳۱_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۷۷ ح ۳۸۳__

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746