تفسير راہنما جلد ۷

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 746

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 746 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 190096 / ڈاؤنلوڈ: 4706
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۷

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

۷_ دنيا كے ساتھ خوش رہنا اور اس پر مطمئن ہو كر آيات الہى سے غافل ہو جانا كفار كى صفت اور ناپسنديدہ اور مذموم امر ہے_ان الذين و رضوا بالحياة الدنيا و اطما نوا بها ...غافلون

آيات خدا :آيات آفاقى ۶; ان سے غافل لوگ ۷

امور :ناپسنديدہ امور ۷

اميدوار ہونا :لقاء اللہ كى اميد كے اثرات۴

ايمان :قيامت پر ايمان كے اثرات۴

توحيد :توحيد ربوبى كے دلائل ۶

جہالت :اسكے اثرات ۵

خداتعالى :خدا تعالى كى ربوبيت كو جھٹلانے كے عوامل ۵

دنيا پرستى :اس كا پيش خيمہ ۳;اس كا ناپسنديدہ ہونا ۷; اسكى سرزنش ۷

دنيا طلب لوگ :۷

زہد :اس كا سرچشمہ ۴

شرك:اسكے عوامل ۵

غفلت :آيات خدا سے غفلت كا ناپسنديدہ ہونا ۷; اسكے اثرات ۵

قيامت :اسكى خصوصيات ۱;اس ميں لقاء اللہ ;اسے جھٹلانے كے اثرات ۳; اسے جھٹلانے والے ۲

كفار :انكى دنيا پرستى ۷; انكى صفات ۷; انكى غفلت ۷

لقاء اللہ :اس كا وقت ۱

مشركين :صدر اسلام كے مشركين كا كفر ۲

۴۰۱

آیت ۸

( أُوْلَـئِكَ مَأْوَاهُمُ النُّارُ بِمَا كَانُواْ يَكْسِبُونَ )

يہ سب وہ ہيں جن كے اعمال كى بنا پر ان كا ٹھكانا جہنم ہے_

۱_دوزخ ، مشركين اور منكرين قيامت كا دائمى ٹھكانا _

ان الذين لا يرجون لقا ئنا ...و الذين هم عن آى تنا غفلون_ اولئك ما واهم النار

۲_ لقاء اللہ كا انكار ، دنيا كے ساتھ دل لگا لينا اور آيات الہيہ سے غافل ہوجانا ناروا كاموں كاپيش خيمہ ہے_

ان الذين لا يرجون لقاء نا اولئك ما واهم النار بما كانوا يكسبون

۳_ بد اعمالى اور برا كردار آتش جہنم ميں گرفتار ہونے كا عامل ہے_اولئك ما واهم النار بما كانوا يكسبون

۴_ انسان كى عاقبت ( اخروى نيك بختى اور بدبختى ) اسكے اعمال و كردار كے ساتھ گروى ہے_

اولئك ما واهم النار بما كانوا يكسبون

انسان :اسكى عاقبت ۴

جہنم :اسكے اسباب ۳;اس ميں ہميشہ رہنے والے ۱

جہنمى لوگ :۱

دنيا پرستى :اسكے اثرات ۲

عاقبت :اس ميں مؤثر عوامل ۴

عمل :اخروى عمل كے اثرات ۴;ناپسنديدہ عمل كا پيش خيمہ ۲; ناپسنديدہ عمل كے اثرات ۳

غفلت :آيات خدا سے غفلت كے اثرات ۲

قيامت :اسے جھٹلانے والوں كى سزا ۱; اسے جھٹلانے والے جہنم ميں ۱

۴۰۲

لقاء اللہ :اسے جھٹلانے كے اثرات ۲

مشركين :انكى سزا ۱; يہ جہنم ميں ۱

آیت ۹

( إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمَانِهِمْ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الأَنْهَارُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ )

بيشك جو لوگ ايمان لائے اور انہوں نے نيك اعمال كئے خدا ان كى ايمان كى بناپر اس منزل كى طرف رہنمائي كرے گا جہان نعمتوں كى باغات كے نيچے نہريں جارى ہونگي_

۱_ بہشت ، نيك كردار مومنين كا ابدى ٹھكانا _ان الذين آمنوا و عملوا الصالحات فى جنات النعيم

۲_ عمل صالح ، اہل ايمان كے اخروى پاداش سے بہرہ مند ہونے كى شرط ہے_

ان الذين آمنوا و عملوا الصالحات فى جنات النعيم

۳_ سعادت اخروى تك رسائي ، خدا تعالى كى مسلسل ہدايت اور دائمى كمك پر موقوف ہے_

يهديهم ربهم بايمانهم تجرى من تحتهم الانهار فى جنات النعيم

۴_ نيك كردار مومنين كو ہميشہ خدا تعالى كى حمايت و ہدايت حاصل ہے_ان الذين آمنوا و عملوا الصالحات يهديهم ربهم

۵_ خدا تعالى كى دائمى حمايت و ہدايت اور اخروى پاداش سے بہرہ مند ہونے كى شرط وہ ايمان ہے جو عمل كے ہمراہ ہو_

ان الذين آمنوا و عملوا الصالحات يهديهم فى جنات النعيم

۶_ انسان كى ہدايت و سعادت كے لحاظ سے اسكے عمل كے مقابلے ميں ايمان كا بنيادى اور مركزى كردار_

يهديهم ربهم بايمانهم

خدا تعالى نے فرمايا'' جو لوگ ايمان و عمل صالح ركھتے ہيں انہيں بہشت كى طرف ہدايت كر يگا'' اسكے بعد ہدايت كے سبب كے طور پر انكے ايمان كو ذكر فرمايا جبكہ يہ اكٹھى دو خصوصيات كے حامل تھے ايمان اور عمل صالح،اس سے پتا چلتا ہے كہ ايمان محور اور اصل ہے اورعمل دوسرا درجہ ركھتا ہے_

۷_ ربوبيت خدا تعالى كا تقاضا ہے كہ وہ نيك كردار مومنين كى ہميشہ ہدايت اور دستگيرى كرے_

۴۰۳

ان الذين آمنوا يهديهم ربهم

۸_ بہشت ميں اہل بہشت كے قدموں تلے نہريں جارى ہوں گى _تجرى من تحتهم الانهار فى جنات النعيم

۹_بہشت ميں كئي باغات ہيں _فى جنات

۱۰_ بہشت كے باغات ، نعمات الہى سے سرشار ہيں _فى جنات النعيم

۱۱_ امام صادق (ع) سے روايت كى گئي ہے ''... ان الله تبارك و تعالى يوم القيامة يهدى اهل الايمان و العمل الصالح الى جنته قال عز و جل ان الذين آمنوا و عملوا الصالحات يهديهم ربهم بايمانهم تجرى من تحتهم الانهار فى جنات النعيم'' (۱)

... قيامت والے دن خدا تعالى صالح مومنين كى اپنى بہشت كى طرف راہنمائي فرمائے گا خدا تعالى نے فرمايا ہے بيشك جو لوگ ايمان لائے اور انہوں نے نيك اعمال كئے ان كا پروردگار انہيں انكے ايمان كے سائے ميں ہدايت كريگا ان كے ( محلوں كے) نيچے نعمتوں سے سرشار باغات ميں نہريں جارى ہوں گي_

ايمان :اسكى اہميت ۶; اسكے اثرات ۶; ايمان اور عمل ۵،۶

بہشت :اسكى نعمتيں ۸،۹،۱۰; اسكے باغات ۱۰; اسكے باغات كا متعدد ہونا ۹; اسكے چشمے۸; اس ميں ہميشہ رہنے والے ۱

بہشتى افراد :۱

پاداش :اخروى پاداش كاپيش خيمہ ۲،۵

خدا تعالى :اسكى حمايت كا پيش خيمہ ۵; اسكى ربوبيت كے اثرات ۷; اسكى ہدايت كا پيش خيمہ ۵;ا سكى ہدايت كے اثرات ۳

روايت :۱۱

سعادت :اخروى سعادت كے عوامل ۳; سعادت كے عوامل ۶

صالحين :انكا حامى ۴; انكى ہدايت ۴،۷; ان كے فضائل۴

عمل صالح :اسكے اثرات۲

مومنين :انكا بہشت ميں ہميشہ رہنا ۱; انكا حامى ۴; ان كى

____________________

۱) توحيد صدوق ص ۲۴۱ح ۱ باب ۳۵_ نور الثقلين ج۲ ص ۲۹۴ح ۱۹_

۴۰۴

اخروى ہدايت ۱۱; انكى ہدايت ۴; انكى ہدايت كے عوامل ۷; انكے فضائل ۴; يہ بہشت ميں ۱۱

ہدايت :اسكے عوامل ۶; يہ جنكے شامل حال ہے۴

آیت ۱۰

( دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلاَمٌ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ )

وہاں ان كا قول يہ ہوگا كہ خدا يا تو پاك اور بے نياز ہے او ر ان كا تحفہ سلام ہوگا اور ان كا آخرى بيان يہ ہو گا كہ سارى تعريف خدا ئے رب العالمين كے لئے ہے _

۱_ بہشت ميں خدا تعالى كے ساتھ مومنين كى مناجات _فى جنات النعيم_ دعواهم فيها سبحانك اللهم

۲_ اہل بہشت اپنى مناجات كا آغاز خدا تعالى كى تسبيح و تقديس سے كريں گے_فى جنات النعيم_ دعواهم فيها سبحانك اللهم

جملہ '' آخر دعواہم ...'' قرينہ ہے كہ''دعواهم فيها سبحانك '' سے مراد ''اول دعواہم ...'' ہے يعنى اہل بہشت كى مناجات كى ابتدا خدا تعالى كى تسبيح اور اختتام اسكى حمد و ثنا ہے_

۳_ بہشت ميں مومنين كى خدا كے ساتھ مناجات كى فصل كا عنوان يہ ذكر ہے_''سبحانك اللهم''

جنات النعيم_ دعواهم فيها سبحانك اللهم

۴_ خدا تعالى ، كمال مطلق اور ہر قسم كے نقص وعيب سے پاك ہے_دعواهم فيها سبحانك اللهم

۵_ بہشت ميں مومنين كا خدا تعالى كى مكمل معرفت و شناخت سے بہرہ مند ہونا _

جنات النعيم_ دعواهم فيها سبحانك اللهم

۶_ اہل بہشت جب ايك دوسرے كا ديدار كريں گے تو انكے سلام و درود كا ذريعہ لفظ ''سلام '' ہوگا _

و تحيتهم فيها سلام

۷_ مكمل سلامتى سے بہرہ مند ہونا خدا كى طرف سے اہل بہشت كيلئے تحيت اور عطيہ _و تحيتهم فيها سلام

۴۰۵

مندرجہ بالا نكتہ اس بناء پر ہے كہ ''تحيتہم'' ميں ''ہم'' ضمير مفعولى ہو اور اس كا فاعل ايسى ضمير ہو كہ جسكا مرجع اللہ ہو _يعنى خدا تعالى كى طرف سے اہل بہشت كو عطيہ اور تحيت ، انہيں مكمل سلامتى كا عطا كرنا ہے_

۸_ بہشت ميں مومنين كى مناجات كا آخرى حصہ خدا تعالى كى حمد و ستائش ہے_و آخر دعواهم ان الحمد لله رب العالمين

۹_'' الحمد لله رب العالمين'' اہل بہشت كى مناجات كا بہترين اختتام ہے_و آخر دعواهم ان الحمد لله رب العالمين

۱۰_ صرف خدا تعالى ہرقسم كى حمد و ستائش كا سزاوار ہے_ان الحمد لله

۱۱_ جہان آخرت ميں كئي عالم ہيں _رب العالمين

چونكہ مقام سخن جہان آخرت ہے اور رب العالمين كا ظہور اس ميں ہے كہ متعدد عالم بالفعل موجود ہيں اس سے مندرجہ بالانكتہ حاصل ہوتا ہے_

۱۲_ خدا تعالى تنہا پورے عالم ہستى كا پروردگار ہے_ان الحمد لله رب العالمين

۱۳_ خدا تعالى سب نيكيوں كا سرچشمہ ہے_ان الحمد لله رب العالمين

حمد ہوتى ہے اختيارى نيكيوں پر تعريف اور الحمد كا ا ل جنس كيلئے ہے جو مفيد استغراق ہے يعنى سب تعريفيں خدا تعالى كيلئے ہيں _ اس كا مفہوم يہ ہے كہ سب نيكياں بھى خدا تعالى كيلئے تھيں اور وہ ان سب كا منبع اور سرچشمہ ہے_

۱۴_امام باقر (ع) سے روايت ہے''و اذا اراد المؤمن شيئاً او اشتهى انما دعواه فيها اذا اراد ،ان يقول : ''سبحانك اللهم '' فاذا قالها تبادرت اليه الخدم بما اشتهى من غير ان يكون طلبه منهم او امر به و ذلك قول الله عز وجل:'' دعواهم فيها سبحانك اللهم و تحيتهم فيها سلام '' يعنى الخدام قال :'' و آخر دعواهم ان الحمد لله رب العالمين '' يعنى بذالك عند ما يقضون من لذاتهم من الجماع و الطعام و الشراب يحمدون الله عزوجل عند فراغتهم ''

... جب بھى مومن ( بہشت ميں ) كسى چيز كا ارادہ كريگا يا اسكى طرف مائل ہوگا تو وہاں پر اسكى دعا ( گفتار اور پكار) يہ ہوگى '' سبحانك اللہم '' پھر جب وہ يہ ذكر كہے گا تو خدا م بہشت اس چيز كو پيش كرديں گے جو اس نے چاہى تھى بغير اسكے كہ اسے طلب كرے يا اس كا حكم دے_اور يہى مراد ہے خدا تعالى كے اس فرمان سے ''دعواہم فيہا سبحانك اللہم ''اور يہ جو خدا تعالى نے فرمايا ہے'' تحيتہم فيہا سلام''يعنى بہشت ميں مومنين كى تحيت خدام

۴۰۶

بہشت كا سلام ہے_امام فرماتے ہيں'' و آخر دعواهم ان الحمد لله رب العالمين'' يعنى مومنين جب كھانے پينے اورجنسى آميزش كى لذتوں سے بہرہ مند ہوں گے تو ''الحمد لله رب العالمين ''كہہ كر خدا تعالى كى حمد كريں گے_(۱)

۱۵_ امير المومنين (ع) سے روايت ہے :''ان اطيب شى ء فى الجنة و الذّه حب الله و الحب فى الله و الحمد لله قال الله عزوجل:'' و آخر دعواهم ان الحمد لله رب العالمين ''

بہشت ميں سب سے زيادہ لذيذ اور دلپذير چيز خدا تعالى كى دوستى ، راہ خدا ميں دوستى اور خدا كيلئے حمد ہے خدا تعالى كا فرمان ہے بہشت ميں مومنين كى آخرى (ندا) دعا''الحمد لله رب العالمين '' ہے_(۲)

آخرت :عوالم آخرت ۱۱

آفرينش :پروردگار آفرينش۱۲

اذكار :ذكر الحمد للہ رب العالمين ۹; ذكر سبحانك اللہم ۳

اسما و صفات :صفات جلال ۴; صفات جمال ۴

بہشت :اسكى بہترين لذتيں ۱۵

بہشتى لوگ :انكا سلام ۶; انكى حمد ۱۵; انكى خواہشات ۱۴; انكى دعا ۱،۳،۸،۱۴; انكى دعا كا آخر ۸،۹; انكى دعا كا آغاز ۲، ۳;انكى سلامتى ۷; انكے اذكار ۲،۳،۹،۱۴،۱۵; ان كيلئے خدا كے عطايا ۷; يہ اور تسبيح خدا ۲

توحيد :توحيد ربوبى ۱۲

حمد :حمد خدا ۱۰

خدا تعالى :اس كا بے نظير ہونا ۱۲; اس كا كردار ۱۳; اس كا كمال ۴;اسكى تنزيہ ۴; اسكى خصوصيات ۱۰،۱۲; خدا تعالى اور نقص ۴روايت :۱۴،۱۵

مومنين :انكى دعا ۱،۳،۸; انكے اذكار ۳; بہشت ميں انك

____________________

۱)كافى ج ۸ص ۱۰۰ح ۶۹_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۹۵ح ۲۳_

۲) مصباح الشريعہ ص ۱۹۵ باب ۹۳_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۹۵ح ۲۵_

۴۰۷

تكامل ۵; بہشت ميں انكى خدا شناسى ۵; مومنين اور حمد خدا ۸; مومنين بہشت ميں ۱۴

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات۱۰، ۱۲، ۱۳

نيكى :اس كا سرچشمہ ۱۳

آیت ۱۱

( وَلَوْ يُعَجِّلُ اللّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ فَنَذَرُ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَاءنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ )

اگر خدا لوگوں كے لئے برائي ميں بھى اتنى ہى جلدى كرديتا جتنى يہ لوگ بھلائي ميں چاہتے ہيں تو اب تك ان كى مدت كا فيصلہ ہو چكاہو تا _ ہم تو اپنى ملاقات كى اميد نہ ركھنے والوں كو ان كى سركشى ميں چھوڑديتے ہيں كہ يہ يو نہى تھو كريں كھا تے پھريں _

۱_ كفار و منكرين قيامت كو مہلت دينا ( انكى سزا كو جہان آخرت تك مؤخر كرنا) خدا تعالى كى ايك سنت اور روش ہے_

و لو يعجل الله للناس الشر فنذر الذين لا يرجون لقاء نا

۲_ كفار و منكرين قيامت كو سزا دينا ( انہيں ختم كردينا) نسل انسانى كے ختم ہوجانے پر منتج ہوگا _

و لو يعجل الله للناس الشر لقضى اليهم اجلهم

''الناس''كا ا ل جنس كيلئے ہے اور مفيد استغراق ہے يعنى اگر خدا تعالى كى سنت اور روش يہ ہوتى كہ

وہ ہر كافر كو دنيا ميں ہى سزا ديتا تو اب تك زمين انسان كے وجود سے خالى ہو چكى ہوتى اور نسل انسان ختم ہوچكى ہوتى _جبكہ يہ خلقت انسان والے فلسفے (و لكم فى الارض مستقر و متاع الى حين )بقرہ ۳۶ _كے ساتھ سازگار نہيں ہے_

۳_ كفار و منكرين قيامت كو سزا دينا ( انہيں ختم كردينا) فلسفہ خلقت انسانى كے ساتھ ناسازگار ہے_

و لو يعجل الله للناس الشر لقضى اليهم اجلهم

۴_ لوگوں كے ساتھ بھلائي كرنے ميں خدا تعالى كى

۴۰۸

سنت ''جلدى اور سرعت'' ہے اور انہيں سزا دينے ميں ''مہلت دينا' 'ہے_و لويعجل الله للناس الشر استعجالهم بالخير

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ ''ہم '' استعجال كا مفعول اور اس كا فاعل اللہ كى طرف پلٹنے والى ضمير ہو اور اصل ميں عبارت يوں ہو'' مثل استعجاله لهم بالخير''

۵_ انسان اپنى خواہشات و تمايلات تك پہنچے كيلئے جلد باز اور بے صبرا ہے_و لو يعجل الله للناس الشر استعجالهم بالخير

'' الخير'' سے مراد ہے ہر اچھى اور دلپسند شئے ''استعجال '' منصوب بنزع الخافض ہے اور اصل ميں عبارت يوں ہے '' كاستعجالہم بالخير'' يعنى اگر خدا تعالى بھى انسانوں كى طرح كہ جو اپنى خواہشات كو حاصل كرنے ميں جلد باز ہيں اور صبر سے كام نہيں ليتے خطا كاروں كو بے دريغ سزا دينے لگتااور

۶_ كفار و مشركين دنيا ميں سزا و عذاب الہى كے مستحق ہيں _و لو يعجل الله للناس الشر

۷_ منكرين قيامت دنيا ميں خدا تعالى كى سزا اور عذاب كے مستحق ہيں _و لو يعجل الله لقضى اليهم اجلهم فنذر الذين لايرجون لقا ئنا

آيت شريفہ بتاتى ہے كہ اگر منكرين قيامت كى سزا انكى موت كا باعث نہ بن جاتى تو خدا تعالى بغير مہلت كے انہيں سركوب كرديتا يعنى وہ سزا كے مستحق ہيں ليكن مانع موجود ہے_

۸_قيامت ، لقاء اللہ كا دن _الذين لا يرجون لقا ئنا

۹_ سب انسانوں كى موت كا وقت معين اور خاص قوانين كے تحت ہے_و لو يعجل الله للناس الشر لقضى اليهم اجلهم

چونكہ خدا تعالى كى سزا سے كفار موت كا شكار ہوجاتے اسلئے يہ سزا موخر ہوئي ہے_ اس سے پتا چلتا ہے كہ خدا تعالى نے انسانوں كى زندگى كے اختتام كيلئے ايك وقت مقرر كيا ہوا ہے يعنى يہ ايك خاص قانون اور ضابطے كے تحت ہے كہ جس ميں پس و پيش ممكن نہيں ہے_

۱۰_ روز آخرت كا انكار سركشى كا پيش خيمہ ہے_فنذر الذين لا يرجون لقاء نا فى طغيانهم يعمهون

۱۱_ طغيان و سركشى ، روز آخرت پر ايمان نہ ہونے كى نشانى ہے_فنذر الذين لايرجون لقا ئنا فى طغيانهم يعمهون

۴۰۹

۱۲_ جہان آخرت پر ايمان نہ ركھنے واے سركش لوگ ، پريشان حال اور ہدايت الہى سے محروم ہيں _

فنذر الذين لا يرجون لقا ئنا فى طغيانهم يعمهون

'' عَمَہَ ''( تحيرو سرگردانى ) كنايہ ہے ہدايت الہى سے محروم ہونے سے _

انسان :اسكى بے صبرى ۵; اسكى جلد بازى ۵; اسكى صفات ۵; اسكے ختم ہونے كے عوامل ۲

پاداش :اس ميں جلدبازى ۴

خدا تعالى :اسكى سنتيں ۱،۴

خدا تعالى كى سنتيں :اسكى مہلت دينے والى سنت۱،۴

خلقت :فلسفہ خلقت ۳

طغيان :اس كا پيش خيمہ ۱۰; اسكے اثرات ۱۱

طغيان كرنے والے:انكى سرگردانى ۱۲; انكى محروميت ۱۲

عذاب :اہل عذاب ۶،۷

قضاو قدر ۹

قيامت :اسكى خصوصيات ۸; اس ميں لقاء اللہ ۸;اسے جھٹلانے كے اثرات ۱۰; اسے جھٹلانے والوں كا بدلہ ۷; اسے جھٹلانے والوں كو مہلت ۱;اسے جھٹلانے والوں كى سز ا ۲،۳،۷

كافر:انكا بدلہ ۶; انكو مہلت ۱; انكى سزا۳،۶; انكى سزا كے اثرات ۲

كفر:اسكى نشانياں ۱۱; قيامت كے بارے ميں كفر ۱۱

كيفر:اس ميں مہلت ۴

مشركين :انكا بدلہ ۶; انكى سزا ۶

موت :اس كا ايك قانون كے تحت ہونا ۹; اسكى تعيين ۹

ہدايت :اس سے محروم لوگ ۱۲

۴۱۰

آیت ۱۲

( وَإِذَا مَسَّ الإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِداً أَوْ قَآئِماً فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَى ضُرٍّ مَّسَّهُ كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ )

انسان كو جب كوئي نقصان پہنتچا ہے تو اٹھتے بيٹھتے كردٹيں بدلئے ہم كو پكار تا ہے اور جب ہم اس نقصان كو دور كرديتے ہيں تو يوں گذر جاتا ہے جيسے كبھى كسى مصيبت ميں ہم كو پكارا ہى نہيں تھا_ بيشك زيادتى كرنے والوں كے اعمال يوں ہى ان كے سامنے آراستہ كردئے جاتے ہيں _

۱_ سخت اور جان ليوا مصيبتوں كے وقت انسان كى بارگاہ خداوند ى ميں خالصانہ تضرع و زارى _

و اذا مس الانسان الضر دعانا

''ضر'' كا معنى ہے ہرقسم كى مصيبت ليكن يہاں پر ''ال''كى وجہ سے كہ جو اہل ادب كى اصطلاح ميں ال كماليہ ہے اس سے مراد سخت اور جان ليوا مصيبت ہے_

۲_ توحيد ربوبى ، انسان كا فطرى نظريہ_و اذا مس الانسان الضر دعانا

چونكہ سخت اور دشوار حالات ميں انسان خدا كى پناہ مانگتا ہے اور اپنى نجات كو صرف مشيت الہى كا مرہون منت سمجھتا ہے تو اس كا مطلب يہ ہے كہ يہ عقيدہ ، فطرى ہے اور انسان كے غريزہ ميں موجود ہے_

۳_ مصائب و آلام انسان كى توحيدى فطرت كے بيدار اور ظاہر ہونے كا سبب ہے_و اذا مس الانسان الضر دعانا

۴_ انسان رنج و تكليف كے وقت اہل دعا ہو جاتے ہيں اور بہر حال مدد كيلئے خدا كو پكارتے ہيں _

و اذا مس الانسان الضر دعانا لجنبه او قاعداً او قائم

۴۱۱

۵_انسان مشكلات كے وقت اپنى ناتوانى اور خدا تعالى كى قدرت و نصرت كا اقرار و اعتراف كر ليتا ہے_

و اذا مس الانسان الضر دعانا

۶_ مصيبتوں اور مشكلات كے وقت مشركين كا بارگاہ الہى ميں خالصانہ دعا كرنا نظريہ شرك كے كھو كھلا ہونے اور توحيد ربوبى كى حقانيت كى دليل ہے_و اذا مس الانسان الضر دعانا

اس آيت ميں مخاطب مشركين مكہ ہيں اور يہ آيت شريفہ توحيد ربوبى كى اورنظريہ شرك كے كھو كھلا ہونے كى ايك واضح دليل كو بيان كر رہى ہے_

۷_ بارگاہ الہى ميں خالصانہ تضرع و زارى اسكى رحمت كے شامل حال ہونے اور مشكلات كے دو ر ہونے كا سبب ہے_

و اذا مس الانسان الضر دعانا فلما كشفنا عنه ضره

جملہ '' لما كشفنا '' كى '' دعانا '' پر تفريع مندرجہ بالا نكتے كو بيان كر رہى ہے_

۸_ مصائب و آلام سے انسان كا چھٹكارا صرف مشيت الہى اور صرف خدا كے لطف و كرم سے ہو سكتا ہے_

و اذا مس الانسان الضر دعانا فلما كشفنا عنه ضره

۹_ آرام و آسائش كى نعمتوں اور مشكلات كے دور ہونے كے مقابلے ميں بارگاہ الہى ميں شكر ادا كرنا اور قدر دانى كرنا ضرورى ہے_فلما كشفنا عنه ضره مر كا ن لم يدعنا الى ضر مسه

۱۰_ انسان ، خدا تعالى كى نعمتوں ، مہربانيوں اور لطف و كرم كا قدر دان نہيں ہے_

و اذا مس الانسان الضر فلما كشفنا عنه ضره مركا ن لم يدعنا الى ضر مسه

۱۱_ ضرورى ہے كہ انسان سختى و آسانى دونوں حالتوں ميں خدا تعالى كى طرف متوجہ رہے اور اس كى بارگاہ ميں دعا كرتا رہے_و اذا مس الانسان الضر دعانا فلما كشفنا عنه ضره مركا ن لم يدعن

۱۲_ زيادہ آرام و آسائش اور روز مرّہ كى مشكلات اور مصائب سے دور رہنا ياد خدا سے غفلت كا سبب بنتا ہے_

فلما كشفنا عنه ضره مر كا ن لم يدعنا الى ضر مسه كذلك زين للمسرفين

۱۳_ بد اعماليوں كا اچھا نظر آنا : زيادہ عيش و عشرت ، فضول خرچى ، خدا سے بيگانگى اور اسكى ياد سے غفلت كا نتيجہ ہے_

فلما كشفنا عنه ضره كذلك زين للمسرفين ما كانوا يعملون

۱۴_ عيش و عشرت كى زندگى گزارنے والے فضول خرچ لوگ، خود پسند ، اپنے آپ سے خوش اور حق كو قبول

۴۱۲

نہ كرنے والے ہيں _كذلك زين للمسرفين ما كانوا يعملون

۱۵_ جولوگ مشكلات كے وقت خدا كو ياد كرتے ہيں اور آرام و آسائش كے وقت اس سے غافل ہوتے ہيں وہ مسرف ہيں _و اذا مس الانسان الضر دعانا فلما كشفنا عنه ضره لم يدعنا كذلك زين للمسرفين

آسائش :اسكے اثرات۱۲،۱۳

اخلاص:اسكے اثرات ۷

اسراف :اسكے اثرات ۱۳

اقرار:خدا كى امداد كا اقرار ۵;عاجزى كا اقرار ۵; قدرت خدا كا اقرار ۵

انسان :اس كا اقرار ۵;اس كا كفران ۱۰; اسكى دعا ۱; انسان سختى ميں ۱،۴،۵

توحيد :توحيد ربوبى كا فطرى ہونا ۲;توحيد ربوبى كى حقانيت كے دلائل ۶

خدا تعالى :اسكى رحمت كے اثرات۸; اسكى مشيت كے اثرات ۸; اسكے لطف كے اثرات ۸

دعا :اسكى اہميت ۱۱;اسكے عوامل ۴; خالص دعا كے اثرات ۷; دعا سختى ميں ۱،۶

ذاكرين:سختى ميں ذاكرين خدا ۱۵

ذكر :آسائش كے وقت ذكر خدا ۱۱;ذكر خدا كى اہميت ۱۱; سختى كے وقت ذكر خدا ۱۱

رحمت :اسكے عوامل ۷

سختى :اس سے نجات كے عوامل ۷،۸; اسكے اثرات ۳،۴،۵

شرك :شرك كے غير منطقى دلائل ۶

شكر :آسائش ميں شكر ۹; شكر خدا كى اہميت ۹; شكر نعمت

۴۱۳

كى اہميت ۹

عمل :ناپسنديدہ عمل كے مزين ہونے كے عوامل ۱۳

عيش و عشرت والے لوگ:انكا حق كو قبول نہ كرنا ۱۴; عيش و عشرت والے غافل لوگ ۱۵

غفلت :خدا سے غفلت كا پيش خيمہ ۱۲; خدا سے غفلت كے اثرات ۱۳فضول خرچ لوگ : ۱۵

انكا حق كو قبول نہ كرنا ۱۴;ان كى خود پسندى ۱۴; انكى صفات ۱۴

فطرت :توحيدى فطرت كے ظاہر ہونے كے عوامل ۳

مشركين :انكى دعا ۶; مشركين سختى ميں ۶

آیت ۱۳

( وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِن قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُواْ وَجَاءتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ وَمَا كَانُواْ لِيُؤْمِنُواْ كَذَلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ )

يقينا ہم نے تم سے پہلے والى امتوں كو ہلاك كرديا جب انھوں نے ظلم كيا اور ہمارے پيغمبر ہمارى نشانياں لے كر آئے تو وہ ايمان نہ لاسكے ہم اسى طرح مجرم قوم كو سزا ديتے ہيں _

۱_ انسان كى گذشتہ تاريخ خدا تعالى كے بيخ كنى كردينے والے عذاب كے ذريعے بہت سارى امتوں كى ہلاكت كى گواہ ہے_

و لقد اهلكنا القرون من قبلكم

''قرون ''جمع ہے قرن كى اور قرن ان لوگوں كو كہ جاتا ہے جو ايك عصر اور ايك زمانے ميں زندگى گزار رہے ہوں _

۲_ گذشتہ اقوام كا ظلم و ستم اور انكا انبياء كے مقابلے ميں آنا انكے خدا تعالى كے مہلك عذاب ميں گرفتار

۴۱۴

ہونے كا عامل بنا_و لقد اهلكنا القرون من قبلكم لما ظلموا و جائتهم رسلهم بالبينات و ما كانوا ليؤمنو

۳_ طول تاريخ ميں خدا تعالى كے انبياء كو بھيجنے كا ہدف ستم ديدہ افراد كو ظالموں كى ناانصافيوں سے نجات دينا ہے_

لما ظلموا و جائتهم رسلهم بالبينات

''لما ظلموا'' كے بعد '' جاء تہم رسلہم '' كے جملے كا ذكر كرنا اس حقيقت كى حكايت كرتا ہے كہ انبياء كى بعثت ظلم و ناانصافى كے بعد اور مظلوموں كو ظالموں كے شر سے نجات دلانے كيلئے ہوئي _

۴_ تاريخ بشريت ، ظلم و ناانصافى كے پھيلنے كے بعد بعثت انبياء كى شاہد ہے_لماظلموا و جائتهم رسلهم بالبينات

۵_ انبياء الہى روشن دلائل اور غير قابل انكار براہين كے حامل تھے_جائتهم رسلهم بالبينات

۶_خدا تعالى كا مہلك عذاب كفار و ظالم مجرمين كى كمين لگائے ہوئے ہے_

و لقد اهلكنا لما ظلمواو جائتهم رسلهم كذلك نجزى القوم المجرمين

۷_ تاريخى تحولات خدا تعالى كے قبضہ قدرت ميں ہيں اور يہ انسان كے اعمال كا نتيجہ ہيں _

و لقد اهلكنا القرون من قبلكم كذلك نجزى القوم المجرمين

۸_ مہلك عذاب كے ذريعے امتوں كى نابودى ہميشہ ان كے ايمان لانے سے مكمل مايوسى كے بعد ہوئي _

و لقد اهلكنا القرون و جاء تهم رسلهم بالبينات و ما كانوا ليؤمنوا

۹_ انبياء الہى كے اتمام حجت كے بعد مہلك عذاب كاآنا_و لقد اهلكنا القرون و جائتهم رسلهم بالبينات و ما كانوا ليؤمنوا

امتيں :انكا عذاب ۸; انكى ہلاكت ۱،۸

انبياء:انكا اتمام حجت كرنا ۹; انكا ظلم كى مخالفت كرنا ۳;انكى بعثت ۴; انكى بعثت كا فلسفہ ۳; انكى پيروى نہ كرنے كے اثرات ۲; انكى تاريخ ۴; انكى حقانيت كے دلائل ۵; انكے دلائل ۵

تاريخ :اس كا كردار ۱،۴; اسكے تحولات كا سرچشمہ ۷

ظالم لوگ:

۴۱۵

انكا مہلك عذاب ۶

ظلم :اسكے اثرات ۲،۴

عذاب :مہلك عذاب ۱،۶،۸،۹; مہلك عذاب كے اسباب ۲

عمل :اسكے اثرات ۷

كفار :انكا عذاب ۶

گذشتہ اقوام :انكا ظلم ۲

مظلوم لوگ :انكى نجات كى اہميت ۳

آیت ۱۴

( ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلاَئِفَ فِي الأَرْضِ مِن بَعْدِهِم لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ )

اس كے بعد ہم نے تم كو روئے زمين پر ان كا جانشين بنا ديا تا كہ ديكھيں كہ اب تم كيسے اعمال كرتے ہو _

۱_جزيرة العرب كے لوگ ان امتوں كے جانشين ہيں جو اس سرزمين ميں خدا تعالى كے مہلك عذاب كے باعث ختم ہوگئيں _و لقد اهلكنا القرون من قبلكم ثم جعلناكم خلائف فى الارض

۲_زمين پر انسانى معاشروں كے مستقر كرنے كا ہدف ، خدا كى طرف سے انكى آزمائش ہے _

ثم جعلناكم خلائف فى الارض من بعد هم لننظر كيف تعملون

۳_ دنيا محل عمل اور انسان كى آزمائشگاہ ہے_ثم جعلنا كم خلائف فى الارض لننظر كيف تعملون

۴_ خدا تعالى ، انسان كے اعمال كا شاہد ہے_

۴۱۶

لننظر كيف تعملون

۵_ امتوں كا زوال اور انكى بقا انكے اپنے اعمال پر موقوف ہے_و لقد اهلكنا القرون ثم جعلناكم خلائف لننظر كيف تعملون

۶_نيك اعمال كى پابندى اور بد اعمال سے پرہيز ، خدا تعالى كى انسانوں كو نصيحت_

ثم جعلنا كم خلائف لننظر كيف تعملون

امتيں :انكى بقا كے عوامل ۵; انكے ختم ہونے كے عوامل ۵;ختم ہوجانے والى امتوں كے جانشين ۱

انسان :اسكے امتحان كى جگہ ۳; اسے زمين ميں مستقر كرنے كا فلسفہ ۲

جزيرة العرب :اسكے لوگ ۱; اس ميں مہلك عذاب ۱

خدا تعالى :اسكى نصيحتيں ۶;اسكى نظارت ۴; اسكے امتحان ۲

دنيا :اس كا كردار ۳

عمل :اسكى پابندى ۶; اسكے اثرات ۵; اسكے ناظرين ۴; ناپسنديدہ عمل كا ترك كرنا ۶

۴۱۷

آیت ۱۵

( وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَاءنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَـذَا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاء نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ )

اور جب ان كے سامنے ہمارى آيات كى تلاوت كى جاتى ہے تو جن لوگوں كو ہمارى ملاقات كى اميد نہيں ہے وہ كہتے ہيں كہ اس كے علاوہ كوئي دو سرا قرآن لايئےا اسى كو بدل ديجئے تو آپ كہہ ديجئے كہ مجھے اپنى طرف سے بدلنے كا كوئي اختيار نہيں ہے ميں تو صرف اس امر كا اتباع كرتا ہوں جس كى ميرى طرف وحى كى جاتى ہے ميں اپنے پروردگار كى نافرمانى كروں تو مجھے ايك بڑے عظيم دن كے عذاب كا خوف ہے _

۱_پيغمبراكرم (ص) كا خدا تعالى كا پيغام ( آيات قرآنى ) پہنچانے كيلئے لوگوں كے ساتھ بلا واسطہ رابطہ _

و اذا تتلى عليهم آياتنا ائت بقرآن غير هذا

'' ائت بقرآن غير ہذا'' كے جملے سے پتا چلتا ہے كہ پيغمبراكرم (ص) لوگوں كے درميان تھے اور ان

كے ساھ بلاواسطہ رابطہ ركھے ہوئے تھے اور بنفس نفيس انكے سامنے آيات الہى كى تلاوت كرتے تھے_

۲_ قرآن كى ساخت آيت آيت كى صورت ميں ہے_و اذا تتلى عليهم آياتنا

۴۱۸

۳_ قرآن ايك واضح ، ہر قسم كے ابہام سے دور اور سب كے لئے قابل فہم كتاب ہے_و اذا تتلى عليهم آياتنا بينات

۴_ عصر بعثت كے مشركين روز آخرت كے منكر تھے_قال الذين لا يرجون لقائنا

۵_ قيامت لقاء اللہ كا دن _قال الذين لا يرجون لقائنا

۶_ عصر بعثت كے مشركين كى طرف سے حضرت محمد(ص) كى رسالت اور قرآن كے آسمانى ہونے كا انكار _

قال الذين لا يرجون لقائنا ائت بقرآن غير هذا

۷_ مشركين ، قرآن كى مخالفت ميں پيغمبراكرم (ص) كو اسكى بجائے ايك دوسرى كتاب جو انكى خواہشات اور تمايلات كے موافق ہو، پڑھنے كى تجويز ديتے تھے_و اذا تتلى عليهم آياتنا قال الذين لا يرجون لقائنا ائت بقرآن غير هذا

۸_ عصر بعثت كے مشركين قرآن كو حضرت محمد (ص) كے ذہن كى ايجاد سمجھتے تھے_قال الذين لا يرجون لقائنا ائت بقرآن غير هذا او بدّله

۹_ قرآن كى ظاہرى صورت و ساخت كو بر قرار ركھتے ہوئے اسكے محتوا اور موضوعات كو طبائع كے مطابق تبديل كر دينا ، قرآن كى مخالفت ميں مشركين كى پيغمبراكرم (ص) كو ايك اور تجويز _و اذا تتلى عليهم آياتنا بينات قال الذين لا يرجون لقائنا او بدّله

۱۰_ قرآن ميں مسئلہ قيامت اور اس ميں لقاء اللہ كے موضوع كا تذكرہ مشركين كى طرف سے قرآن اور پيغمبراكرم (ص) كى مخالفت كى سب سے بڑى وجہ تھي_قال الذين لا يرجون لقائنا ائت بقرآن غير هذا او بدّله

۱۱_ مشركين كى پيغمبراكرم (ص) كى رسالت اور قرآن كريم كى مخالفت كا سرچشمہ انكى سركشى اور ليچڑ فطرت تھى _

و اذا تتلى عليهم آياتنا بينات قال الذين لا يرجون لقائنا ائت بقرآن غير هذا او بدله

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ آيات قرآنى واضح و روشن تھيں اسكے باوجود مشركين انہيں قبول كرنے سے انكارى تھے، مندرجہ بالانكتہ حاصل ہوتا ہے_

۱۲_ قرآن ، خدا تعالى كا پيغام ہے اور پيغمبر (ص) بغير كسى كمى بيشى كے اسے لوگوں تك پہنچانے كے ذمہ دار ہيں _

قل ما يكون لى ان ابدله من تلقا ى نفسي

۱۳_ كلام خدا ( قرآن ) ميں كمى بيشى كرنا اور اس ميں تبديلى كرنا پيغمبر اكرم (ص) كے اختيارات سے باہر

۴۱۹

ہے_قل ما يكون لى ان ابدله من تلقاء نفسي

۱۴_ پيغمبراكرم (ص) امين وحى اور احكام الہى كے بے چون و چرا اطاعت گذار ہيں _ان اتبع الا ما يوحى اليّ

۱۵_پيغمبراكرم (ص) كلام خدا ( قرآن ) كو وحى كے ذريعے دريافت كرتے تھے_

ائت بقرآن غير هذا ان اتبع الا ما يوحى اليّ

۱۶_دينى راہنماؤں اور مبلغين كى ذمہ دارى ہے كہ وہ معارف الہى كو بغير كسى كمى بيشى اور دخل اندازى كے لوگوں تك پہنچائيں _قل ما يكون لى ان ابدله من تلقاء نفسى ان اتبع الا ما يوحى اليّ

۱۷_ دينى راہنماؤں اور مبلغين كى بنيادى اور اہم ذمہ دارى يہ ہے كہ وہ لوگوں كى خوشنودى حاصل كرنے كو اپنا ہدف بنانے اور ان كى خواہشات نفسانى كے مطابق بات كرنے سے پرہيز كريں _

و اذا تتلى عليهم آياتنا ائت بقرآن غير هذا قل ما يكون لى ان ابدله من تلقاء نفسى ان اتبع الاما يوحى اليّ

۱۸_ فرامين خدا سے روگردانى كى صورت ميں كوئي شخص حتى كہ انبياء بھى عذاب اخروى سے محفوظ نہيں ہيں _

انى اخاف ان عصيت ربى عذاب يوم عظيم

۱۹_ پيغمبر اكرم (ص) معصوم اور ہر قسم كى نافرمانى اور گناہ سے دور تھے_

ان اتبع الا ما يوحى الى انى اخاف ان عصيت ربّى عذاب يوم عظيم

۲۰_ نافرمانى اور احكام الہى سے روگردانى ،عذاب اخروى ميں گرفتار ہونے كا سبب ہے _

انى اخاف ان عصيت ربى عذاب يوم عظيم

۲۱_ دين ميں تحريف( وحى الہى ميں تبديلى اور كمى بيشى كرنا ) ايسا ناقابل بخشش گناہ ہے كہ جس كا انجام عذاب اخروى ہے_قل ما يكون لى ان ابدله انى اخاف ان عصيت ربى عذاب يوم عظيم

۲۲_عذاب قيامت كا خوف انسان كو نافرمانى اور احكام الہى سے روگردانى كرنے سے روكتا ہے_

انى اخاف ان عصيت ربى عذاب يوم عظيم

۲۳_ خدا تعالى انسانوں كا پروردگار ہے_ان عصيت ربي

۲۴_ ربوبيت خدا كا اعتقاد اور اسكى طرف توجہ ، انسان كو

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

فان لم تأتونى به و لا تقربون

(لا تقربون ) ميں نون مكسورہ ، نون وقايہ ہے اور يأى متكلم محذوف پر دلالت كرتى ہے تو اس صورت ميں ( لا تقربون ...) كا معنى يہ ہوگا : كہ ميرے پاس نہ آنا _

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے مقصود تك پہنچنے كے ليے ترغيب دلانے كے ساتھ ساتھ تہديد سے بھى كام ليا_

الا ترون اوفى الكيل فان لم تأتونى به فلا كيل لكم

۵_ اپنے جائز اور مشروع مقاصد كے ليے اقتصادى پابندوں سے مدد حاصل كرنا جائز ہے _

فان لم تأتونى به فلا كيل لكم عندي

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے دوبارہ مصرلوٹنے اور خوراك حاصل كرنے كے سلسلہ ميں مصمم تھے_

فان لم تأتونى به فلاكيل لكم عندي

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے خاندان كے ليے قحط كے سالوں ميں اپنى خوراك مہيا كرنے كا واحد راستہ مصر ميں آنا اور حضرت يوسف(ع) كى طرف رجوع كرنے ميں تھا_فان لم تأتونى به فلا كيل لكم عندى و لاتقربون

اگر بردران يوسف(ع) كے پاس خوراك حاصل كرنے كے ليے مصر آنے كے علاوہ بھى كوئي راستہ ہو تا توحضرت يوسف(ع) كى تہديد(فلا كيل لك عندي ) كا كوئي معنى نہيں رہتا اوراس كا كو ئي اثر نہ ہوتا_

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، بنيامين كا ديدار كرنے ميں بہت ہى زيادہ شوق ركھتے تھے_

ائتونى بأخ لكم فأن لم تأتونى به فلا كيل لكم عندى و لا تقربون

آل يعقوب :آل يعقوب كى تا مين معاش ۷

احكام :۵

اقتصاد :اقتصادى پابندى كا جائز ہونا ۵;اقتصادى ترقى كى اہميت ۵

برادران يوسف :برادران يوسف اور غلّہ كا دريافت كرنا ۲،۶; برادران يوسف كا ارادہ ۶;برادران يوسف كا حضرت يوسف سے ملاقات ۶

عواطف :بھائي كى عطوفت و محبت ۸

ہدف و وسيلہ : ۵

۵۴۱

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسف(ع) اور بنيامين ۸;حضرت يوسف(ع) اور بنيامين سے ملاقات ۲، ۳;حضرت يوسف(ع) اور غلات كى تعين مقدار۱; حضرت يوسف(ع) اور غلات كى تقسيم ۱;حضرت يوسف(ع) سے ملاقات كے شرائط ۲، ۳; حضرت يوسف(ع) كا بنيامين سے لگاؤ ۸ ;

حضرت يوسف(ع) كا پروگرام ۱;حضرت يوسف(ع) كا ڈرانا ۴;حضرت يوسف(ع) كا شوق دلوانا ۴; حضرت يوسف(ع) كا قصہ ۲، ۳، ۶;حضرت يوسفعليه‌السلام كى اقتصادى سياستيں ۱;حضرت يوسف(ع) كى بھائيوں سے ملاقات ۲، ۳; حضرت يوسف(ع) كے پيش آنے كا طريقہ ۴

آیت ۶۱

( قَالُواْ سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہم اس كے باپ سے بات چيت كريں گے اور ضرور كريں گے (۶۱)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹے بنيامين سے خصوصى محبت كرتے تھے _قالوا سنراود عنه اباه

۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ہميشہ بنيامين كو اپنے بھائيوں كے ساتھ سفر كرنے سے منع كرتے تھے_قالوا سنراودعنه اباه

۳_ برادران يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كے ہمراہ نہ ہونے كى دليل يہ ذكر كى كہ حضرت يعقوب(ع) ان سے شديد لگاؤ ركھتے ہيں _قالوا سنراود عنه آباه

(ہم اپنے باپ سے بات كريں گے اور كوشش كريں گے كہ اسكو راضى كريں تا كہ بنيامين كو ہمارے ساتھ بھيجے)جو جملہ (سنراودعنہ آباہ) سے معلوم ہوتا ہے_ اس سے يہ بھى اشارہ ملتا ہے كہ بنيامين جو ان كے ہمراہ نہيں تھے دراصل ان كے باپ نے انہيں منع كيا تھا_

۴_ حضرت يعقوب(ع) كے بيٹے بنيامين كو مصر لانے كيلئے حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رضايت كو جلب كرنے كے علاوہ كوئي اور راستہ نہيں ركھتے تھے_قالوا سنراود عنه آباه و انا لفاعلون

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے يہ وعدہ كياكہ دوسرى بار جب وہ آئيں گے تو بنيامين كو آپ كى خدمت ميں لے آئيں گے_سنراود عنه آباه و انا لفاعلون

۶_ برادران يوسف نے ان سے وعدہ كيا كہ وہ اپنے

۵۴۲

باپ حضرت يعقوبعليه‌السلام كو راضى كريں گے كہ بنيامين كو ہمارے ساتھ روانہ كريں _قالوا سنراود عنه آباه و انا لفاعلون

(مراودہ ) (نراود) كا مصدر ہے جسكا معنى نرمى اور پيار و محبت سے درخواست كرنے كا ہے _ اور (عنہ ) كا لفظ جس كے بارے ميں درخواست كى جا رہى ہے اس پر دلالت كرتا ہے _تو اس صورت ميں '' سنراود '' كا معنى يہ ہوا كہ ان كے باپ ( بنيامين كے والد گرامى ) سے نرمى و محبت سے درخواست كريں گے كہ آئندہ كے سفر ميں ان كو ہمارے ساتھ روانہ كريں _

۷_ برادران يوسف(ع) نے اس بات كى تاكيد كى كہ وہ يہ صلاحيت ركھتے ہيں كہ والد گرامى كو راضى كرليں تا كہ بنيامين كو آپ كے پاس لانے كے ليے ہمارے ساتھ روانہ كردے _انالفاعلون

(سنراود عنہ آباہ ) كے جملہ سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ حضرت يوسف كو يہ احتمال بھى تھا كہ ان كے والد گرامى راضى نہ ہوں ( انا لفاعلون ) كے جملے سے ان كے بھائي ان كو اطمينان دلانا چاہتے تھے كہ بغير كسى تشويش كے والد گرامى كى رضايت

جلب كريں گے اور بنيامين كو آپ كے ہاں لے آئيں گے_

برادران يوسف :برادران يوسف اور بنيامين ۴، ۵; برادران يوسف اور رضايت حضرت يعقوبعليه‌السلام ۴، ۶، ۷; برادران يوسف كا وعدہ ۵،۶

بنيامين :بنيامين كا مصر كى طرف سفر ۴، ۵، ۶، ۷;بنيامين كو ساتھ نہ لانے كے دلائل ۳

عواطف :عواطف پدرى ۱

يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوب(ع) اور بنيامين كى مسافرت ۲; حضرت يعقوب(ع) كا قصہ ۵; حضرت يعقوب(ع) كى بنيامين سے محبت ۱، ۲، ۳

يوسف(ع) :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۳، ۴، ۶، ۷;حضرت يوسف(ع) كے ساتھ عہد ۵، ۶

۵۴۳

آیت ۶۲

( وَقَالَ لِفِتْيَانِهِ اجْعَلُواْ بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُواْ إِلَى أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ )

اور يوسف نے اپنے جوانوں سے كہا كہ ان كى پونچى بھى انكے سامان ميں ركھ دو شائد جب گھر پلٹ كر جائيں تو اسے پہچان ليں اور اس طرح شايد دوبارہ پلٹ كر ضرور آئيں (۶۲)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام لوگوں كے حصے كو انہيں فروخت كرتے اور اس كى قيمت وصول كرتے تھے _

و قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

(بضاعة)اس مال كو كہا جاتا ہے جو مال، تجارت اور خريد و فروش كے ليے ہو _ اسى وجہ سے (بضاعتہم) سے وہ مال مراد ہے جو برادران يوسف نے قيمت كے بد لے حاصل كيا تھا_

۲_حضرت يوسف(ع) نے اپنے كا رندوں سے كہا كہ جو قيمت فرزندان يعقوب(ع) نے دى ہے اسے ان كے سامان ميں پنہاں كرديں _و قال لفتيانه اجعلوا لضاعتهم فى رحالهم

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے كارندوں سے يہ تاكيد فرمائي كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے مال كو ان كے سامان ميں اس طرح پوشيدہ كريں كہ اپنے وطن پہنچنے سے پہلے وہ اسكى طرف متوجہ نہ ہو سكيں _

اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلم يعرفونها اذا انقلبوا الى اهلهم

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بہت سے غلاموں اور كارندوں كو اپنى خدمت ميں ليا ہوا تھا جو ساز و سامان كا وزن ، تقسيم اور قيمت وصول كرنے پر ما مور تھے_قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

(فتيان )جو (فتي) كى جمع ہے غلاموں اور جوانوں كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے_

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام يہ اميد ركھتے تھے كہ جو مال اپنے بھائيوں كو واپس لوٹا دياگيا ہے وہ اپنے وطن لوٹ كر اسے پہچان سكيں گے_اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يعرفونه

يہ بات واضح ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے جب اپنے ساز و سامان كو كھولتے تو اپنے مال كو جو قيمت كے طور پر ديا تھا اس ميں پاتے ، اسى وجہ سے (لعل) كا ذكر جو ( شايد و ممكن ) كے معنى ميں ہے مناسب نہيں تھا اسى وجہ سے (لعل) كى تفسير ميں چند وجوہ ذكر كى گئي ہيں :

۵۴۴

۱_ (اذا انقلبوا ) كى قيد كے طور پر ذكر ہوا ہو اور اشفاق و ترجّى كے معنى ميں ہو يعنى اميد ہے كہ جب وہ اپنے اہل وعيال كے درميان پہنچيں تو اسكو جان سكيں اور اس سے پہلے متوجہ نہ ہوں _

۲_ يہاں شناخت سے مراد، اپنے حق كى شناخت ہے _ يعنى اس كے حق كو پہچان سكيں يعنى اپنے مال كوپہچان كر ميرى قدر دانى كا اقرار كريں _

۳_ (لعل) (كَي) كے معنى ميں ہو يعنى ( يہاں تك كہ ) اور يہ ترجى و اميدى كے معنى ميں نہ ہو _

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے مال تجارت كو واپس لوٹا كر ان ميں حق شناسى اور شكرگزارى كى حس ايجاد كرنا چاہتے اورانہيں دوبارہ لوٹنے كاشوق و ترغيب دلانا چاہتے تھے_اجعلوابضاعتهم فى رحالهم لعلهم يعرفونها لعلهم يرجعون مذكورہ بالا معنى دوسرے احتمال كو بتاتا ہے جسكى وضاحت پہلے ذكر ہوچكى ہے_

۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،بھائيوں كو ڈرانے دھمكانے اور شوق و رغبت نيز ان كے ليے واپس لوٹنے كے تمام اسباب مہيّا كرنے كے باو جودان كے واپس لوٹنے پر اطمينان نہيں ركھتے تھے اور يعقوب(ع) كا بنيامين كو سفر پر نہ بھيجنے كا بھى احتمال ديتے تھے _لعلهم يرجعون

۸_ حضرت يوسف(ع) اپنے بھائي بنيامين كے مصر آنے كا بہت اشتياق اور اميدركھتے تھے_

اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يرجعون

۹_حضرت يوسف(ع) كا بنيامين كو كنعان سے مصر كى طرف سفر كرانے كى منصوبہ بندى كرنا،

فان لم تأتونى به فلا كيل لكم ...اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يرجعون

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اور ان كے بيٹے زيادہ مال و منال نہيں ركھتے تھے بلكہ مالى لحاظ سے بہت ہى محدود تھے_

اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يرجعون

حضرت يوسف كا اپنے بھائيوں كو سرمايہ لوٹانے كے احتمالات ميں سے ايك احتمال يہ بھى ہوسكتا ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے خاندان ميں مال و متاع كى كمى تھى _ اور آيت شريفہ ۶۵ ميں ( ما نبغى ہذہ بضاعتنا نمير اہلنا ) كا جملہ اس پر مؤيد ہے_

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام غلات كى تقسيم اور انبار شدہ خورا ك كے سلسلہ ميں مخصوص اختيارات ركھتے تھے_

قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

۵۴۵

حضرت يوسفعليه‌السلام كا حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كو خوراك كے حصے سے منع كرنا كہ جب وہ آنے والى نوبت ميں بنيامين كو نہ لائے تو كچھ نہيں ملے گا اس سے مذكورہ بات سامنے آتى ہے اوران كے مال كو انہيں واپس لوٹا دينا يہ ان كے مخصوص اختيارات كى طرف اشارہ ہے_

۱۲_ بحرانى حالات ميں خوراك كى مقدار وسہم معيّنكرنا اور جو سامان ديا جائے اس كے بدلے ميں عوض لينا، بيت المال كى حفاظت و نگہدارى اور اقتصادى امور سے آگاہى كا تقاضا كرتى ہے_اجعلنى على خزائن الارض انى حفيظ عليم اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم حضرت يوسفعليه‌السلام كا خزانے كا سر براہ ہونے كے حوالے سے اجناس كى راشن بندى كرنا جب كہ اس كى كمى تھى يہ بات حفيظ اور عليم سے س سمجھى جا رہى ہے _

۱۳_ بحرانى حالا ت اور راشن بندى كے اياّم ميں حكومت كى طرف سے لوگوں كو مفت مال دينا كوئي پسنديدہ سياست نہيں ہے_قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

اقتصاد :اقتصادى بحران ميں سياست ۱۲; ناپسنديدہ اقتصادى سياست۱۳

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف(ع) كا فقر ۱۰; برادران يوسف(ع) كو تشويق دلوانا ۷; برادران يوسف(ع) كوڈرانا ۷; برادران يوسف(ع) كے تجارت كے مال كو واپس لوٹانا ۲، ۳، ۵، ۶;برادران يوسف(ع) ميں تشكر كرنے كے مقدمات كو اجاگر كرنا ۶;برادران يوسف(ع) ميں حق و حقيقت كى پہچان كو ابھارنا ۶;برادران يوسفعليه‌السلام ميں مصر آنے كا انگيزہ ايجاد كرنا۶

بيت المال :بيت المال كى حفاظت كا طريقہ ۱۲

خوراك كى راشن بندى :خوراك كى راشن بندى كى اہميت ۱۲

لوگ :لوگوں كو خورد و نوش كا سامان مفت عطا كرنا ۱۳

يعقوب(ع) :يعقوبعليه‌السلام كا فقر ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسف اور بنيامين كا سفر ۷، ۸،۹;يوسف اور غلات كى تقسيم ۱۱;يوسف اور غلات كى فروخت ۱ ; يوسف كا اقتصادى پروگرام ۱;يوسف(ع) كا اميدوار ہونا ۸; يوسف كا بنيامين سے محبت كرنا ۸ ; يوسف(ع) كا پروگرام ۹; يوسفعليه‌السلام كا ڈرانا ۷;يوسف كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶،۷، ۱۱;يوسفعليه‌السلام كى تشويق دلوانا ۷;

۵۴۶

يوسفعليه‌السلام كى توقعات ۵; يوسفعليه‌السلام كى نصيحتيں ۳ ; يوسفعليه‌السلام كے اختيارات ۱۱;يوسفعليه‌السلام كے اوامر ۲; يوسف كے پيش آنے كا طريقہ ۶;يوسف كے كارندوں كا كردار ۴; يوسف(ع) كے مقاصد ۶

آیت ۶۳

( فَلَمَّا رَجِعُوا إِلَى أَبِيهِمْ قَالُواْ يَا أَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَكْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ )

اب جو پلٹ كر باپ كى خدمت ميں آئے اور كہا كہ بابا جان آئندہ ہميں غلہ سے روك ديا گيا ہے لہذا ہمارے ساتھ ہمارے بھائي كو بھى بھيج ديجئے تا كہ ہم غلہ حاصل كرليں اور اب ہم اس كى حفاظت كے ذمہ دار ہيں (۶۳)

۱_ حضرت يعقوب كے بيٹوں نے مصر سے واپس لوٹنے كے بعد انہيں اپنے سفر كى رپورٹ دى اور اسكى وضاحت ، بيان كى _فلما رجعوا الى ابيهم قالوا

۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے اپنے والد گرامى كو يہ رپورٹ دى كہ اگر ہم بنيامين كے بغير گئے تو ہميں اپنے راشن كا حصہ نہيں ملے گا _فان لم تاتونى به فلا كيل لكم فلما رجعوا الى ابيهم قالوا يا ا بانا منع منا الكيل

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے اظہار محبت كرتے ہوئے اپنے والد گرامى سے درخواست كى كہ بنيامين كو ہمارے ساتھ مصر روانہ كريں _فأرسل معنا آخان

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كا بنيامين كا نام نہ لينا بلكہ اسے ( آخانا ) (ہمارے بھائي) كے جملے سے يادكرنا، اس كے ساتھ اپنى محبت كے اظہار كے ليے ہے_

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے مصر كے سفر ميں بنيامين كى حفاظت كرنے كا عہد كيا اور اس پر تاكيد كى _

فأرسل معنا آخانا نكتل و انا له لحافظون

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے نزديك، خوراك

۵۴۷

كے معين سہم كا بنيامين كو ہمراہ نہ لانے كى صورت ميں بند ہونا ،ايك اہم بات تھى _ىأبانا منع منا الكيل

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كا ساز و سامان سفر كو كھولنے سے پہلے جو عموماً كاروانوں اور مسافرين كا گھر پہنچنے كے بعد پہلا اقدام ہوتا ہے اپنے والد بزرگوار كو خوراك كے راشن كے بند ہونے كى خبر دينا اور اس خبر دينے ميں جلدى كرنا ان كے نزديك اس كى اہميت كو بتاتا ہے _

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں كنعان ميں جو سات سال قحط و خشكسالى كے تھے اس ميں غلّہ اور خورد و خوراك كا سامان ناياب تھا_قالوا ىأبانا منع منا الكيل فأرسل معنا اخانا نكتل

۷_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے پاس قحط كے سالوں ميں اپنى خوراك مہيا كرنے كے ليے مصر ميں حضرت يوسف كے ہاں حاضر ہونے كے علاوہ اور كوئي راستہ نہيں تھا_ىأبانا منع منا الكيل فأرسل معنا اخان

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ليے مصر جا نے كے علاوہ كوئي راستہ نہيں تھا ورنہ حضرتعليه‌السلام اپنے بيٹوں كووہ راستہ بتاتے تا كہ بنيامين كو ان كے ساتھ بھيجنے پر مجبور نہ ہوتے_

۸_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى بنيامين كو سفر سے منع كرنے كى وجہ يہ تھى كہ وہ اس كے ليے خطرہ محسوس كرتے تھے_

سنراود عنه آباه فأرسل معنا اخانا نكتل و انا له لحافظون

(سنراود عنہ آباہ ...) كے جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يعقوب(ع) ہميشہ بنيامين كو سفر كرنے سے روكتے تھے ( انا لہ لحافظون ) كا جملہ بتاتا ہے كہ اس كى دليل يہ تھى كہ وہ ان كے ليے خطرہ محسوس كرتے تھے_

۹_ بنيامين ،اپنے والد گرامى حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اجازت كے بغير سفر نہيں كرتے تھے_فأرسل معنا اخان

يہ كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے بنيامين كو مصر لے جانے كے ليے حضرت يعقوبعليه‌السلام سے بات كى كہ اسكو ہمارے ساتھ مصر جانے كى اجازت ديں (فأرسل معنا اخانا ) كے جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ بنيامين اپنے والد گرامى كى اجازت كے بغير سفر نہيں كرتے تھے_

۱۰_حضرت يعقوبعليه‌السلام كا اپنے بيٹوں اور اہل خانہ پر مكمل تسلطّ تھا _يأبانا منع منا الكيل فارسل معنا اخان

۱۱_ والدين، اپنے بيٹوں پر امر و نہى كرنے كا حق ركھتے ہيں _فأرسل معنا اخان

۵۴۸

۱۲_ بيٹوں كے ليے والدين كا كہنا ماننا اور ان كے كہنے پر عمل كرنا، اولاد كى ذمہ دارى اور ان كے ساتھ معاشرت و زندگى كرنے كے آداب ميں سے ہے_فأرسل معنا اخان

اطاعت :والد كى اطاعت ۱۱، ۱۲

اہل خانہ :اہل خانہ كى سرپرستى ۱۰

برادران يوسف(ع) :برادران يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كا سفر ۲، ۳، ۴، ۵; برادران يوسف(ع) اور يعقوبعليه‌السلام ۳; برادران يوسف(ع) قحط كے دوران ۷;برادران يوسف(ع) كا زندگى كو چلانے كا طريقہ ۷;برادران يوسف(ع) كا لوٹنا ۱ ; برادران يوسف(ع) كا وعدہ ۴;برادران يوسف(ع) كو غلات سے منع كرنا ۲، ۵;برادران يوسف(ع) كى حضرت يعقوبعليه‌السلام كو رپوٹ دينا ۱، ۲;برادران يوسف(ع) كى خواہشات ۳; برادران يوسف(ع) كے پيش آنے كا طريقہ ۳

بنيامين :بنيامين اور حضرت يعقوب(ع) كى رضايت ۹بنيامين سے محبت ۳;بنيامين كا حضرت يعقوبعليه‌السلام كا احترام كرنا ۹; بنيامين كى حفاظت ۴;بنيامين كے ليے خطرے كا احساس ۸

سرزمين :كنعان كى سرزمين حضرت يوسف كے زمانے ميں ۶;كنعان كى سرزمين كى تاريخ ۶; كنعان كى سرزمين ميں قحط ۶

عواطف :برادرى كى عطوفت

فرزند :فرزند پر حق ۱۱; فرزند كى ذمہ دارى ۱۲

معاشرت :معاشرت كے آداب ۱۲

والد :والد ہ سے پيش آنے كا طريقہ ۱۲;والد كا احترام ۹; والد كے حقوق ۱۱، ۱۲

يعقوب :حضرت يعقوب اور بنيامين كا سفر كرنا ۸;حضرت يعقوب كى سرپرستى ۱۰

يوسف :حضرت يوسف كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۷، ۸

۵۴۹

آیت ۶۴

( قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلاَّ كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَى أَخِيهِ مِن قَبْلُ فَاللّهُ خَيْرٌ حَافِظاً وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ )

يعقوب نے كہا كہ ہم اس كے بارے ميں تمھارے اوپر اسى طرح بھروسہ كريں جس طرح پہلے اس كى بھائي يوسف كے بارے ميں كيا تھا _خير خدا بہترين حفاظت كرنے والا ہے اور وہى سب سے زيادہ رحم كرنے والا ہے (۶۴)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كے مشورے كو قبول نہيں كيا اور بنيامين كو مصر بھيجنے كى مخالفت كى _

قال هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۲_ حضرت يعقوب، بنيامين كى حفاظت كے ليے اپنے بيٹوں كى تاكيد اور وعدے پر مطمئن نہيں تھے_

قال هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

(ہل ء امنكم ...) ميں استفہام ،انكارى ہے جو نفى كے معنى ميں ہے_'' ا مَنَ '' (ء امن)كا مصدر ہے_ جو اطمينان كرنے اور امين سمجھنے كے معنى ميں ہے _ پس (هل ء امنكم .) كا معنى يہ ہوا كہ ميں تم كو بنيامين كے بارے ميں امين نہيں سمجھتا ہوں اور تمہارے وعدوں پر مجھے اطمينان نہيں ہے_

۳_ برادران يوسف(ع) كى آنحضرتعليه‌السلام كى حفاظت كے سلسلہ ميں بدعہدى كى وجہ سے حضرت يعقوب(ع) كو ۱پنے بيٹوں كى بنيامين كى حفاظت كے سلسلہ ميں عہد پر عدم اطمينان تھا_هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

حضرت يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كى حفاظت كے بارے ميں اپنے بيٹوں كے وعدوں پر اعتماد و اطمينان كو حضرت يوسفعليه‌السلام كى حفاظت كے ساتھ تشبيہ دى _ اس ميں وجہ شبہہ بے فائدہ اور بے نتيجہ ہونا ہے _ پس اس صورت ميں '' ہل امنكم عليہ الا ...'' كا معنى يہ ہوگا كہ ميرا اعتماد آپ لوگوں پر( اگر ميں اعتماد كروں بھى سہي) تو بے ثمر و بے فائدہ ہے _ جس طرح ميں نے يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں آپ پر اعتماد كيا تھا_

۵۵۰

۴_حضرت يعقوب(ع) كا بنيامين كو بيٹوں كے ہمراہ نہ بھيجنے كا سبب يہ تھا كہ كہيں يہ بھى يوسف(ع) جيسى مصيبت سے دوچارنہ ہو جائے_الّا كما امنتكم على اخيه من قبل

حضرت يعقوب(ع) نے حضرت يوسفعليه‌السلام كا نام لينے كى بجائے بنيامين كے بھائي كے عنوان سے ان كو ياد كر كے ايك لطيف نكتہ كى طرف اشارہ كيا كہ ان دونوں كا آپس ميں بھائي ہونے كے رشتے نے مجھے ان كى ايك سرنوشت (يعنى باپ سے جدائي اور فراق) كى وجہ سے پريشانى كرديا ہے_

۵_افراد كو ذمہ دارى سونپنے سے پہلے افراد كے سابقہ اعتماد پر توجہ ركھنا ضرورى ہے_

هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۶_ كسى فرد كا برا ماضى ہى اس بات كيلئے كا فى ہے كہ اس فرد سے احتياط كى جائے اور اس كے قول و قرار پر يقين نہ كيا جائے_هل ء أمنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۷_ افراد كے سوء سابقہ كى انہيں يادآورى كرانا اور اس پر اثر مرتب كرناجائزہے تا كہ مستقبل ميں ايسے واقعات كى روك تھام كى جاسكے_هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۸_ گذرے ہوئے حوادث سے عبرت حاصل كرنا ضروى ہے تا كہ آئندہ اس جيسے واقعات سے محفوظ رہا جائے_

هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۹_حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كے اس وعدے پر كہ وہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے حفاظت كريں گے ان پر اطمينان كيا اور ان كى حفاظت كرنے كے سلسلہ ميں دل كو سہارا ديا _كما امنتكم على اخيه من قبل

۱۰_ افراد كو كسى شے يا چيزكى حفاظت كرنے ميں مؤثر جاننا ، شرك كا موجب نہيں بنتا اور يہ توكل الہى اور مقام نبوت كے منافى نہيں ہے_كما امنتكم على اخيه من قبل

اس سورہ ميں آيت كريمہ(۳۸) (ما كان لنا ان نشرك بالله من شيء ) كى دليل كى وجہ سے حضرت يعقوب(ع) ذرہ برابر بھى شرك كى طرف ميلان نہيں ركھتے تھے(كما امنتكم على اخيه ) كا جملہ بتاتا ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كو امين خيال كرتے تھے اسى وجہ سے يوسفعليه‌السلام كى حفاظت ان كے سپردكردى پس اس سے معلوم ہوا كہ اشخاص كو كسى شے كى حفاظت ميں مؤثر سمجھنا، شرك نہيں اور نبوت كے مقام كے ساتھ بھى ناسازگار نہيں ہے_

۵۵۱

۱۱_ خداوند متعال، بہترين محافظ اور نگہبان ہے _فالله خير حافظ

۱۲_ خداوند متعال، ارحم الراحمين ( تمام مہربانوں سے بہتر مہربان ) ہے _فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

۱۳_ خداوند متعال كا اپنے بندوں كى حفاظت و نگہبانى كرنا، اسكى وسيع تر رحمت كى وجہ سے ہے _

فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

خداوند عالم كو بہترين حافظ ياد كرنے كے بعد خداوند متعال كى توصيف ( ارحم الراحمين ) سے كرنا گويا اس بات كو بتاتا ہے كہ ان دو صفتوں كے درميان ارتباط ہے _ يعنى كيونكہ وہ ارحم الراحمين ہے اسى وجہ سے بہترين محافظ بھى ہے_

۱۴_ انسانوں كى امانتدارى كرنا اور اس امانت كى حفاظت پر پورا اترناان كے رحم ودلسوزى كے ساتھ مربوط ہے _

فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

۱۵_ رحم و دلسوزى كا نہ ہونا، لوگوں سے خيانت كرنے كا سبب بنتا ہے _

قال هل ء امنكم عليه فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

۱۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اپنے بيٹوں سے دورى كرنے كى وجہ يہ تھى كہ ان ميں رحم ودلسوزى نہيں تھى اور وہ حضرت يوسف(ع) اور بنيامينسے مہربانى سے پيش نہيں آتے تھے_

هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

احتياط:احتياط كرنے كے ضرورى موارد ۶

اسماء و صفات :ارحم الراحمين ۱۲

اعتماد :بے اعتمادى كے اسباب ۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا محافظ و نگہبان ہونا ۱۱;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۱۳; اللہ تعالى كے مختصّات ۱۱

امانتدارى :امانتدارى كا پيش خيمہ ۱۴

انسان :انسانوں كى محافظت ۱۳

برادارن يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف(ع) اور بنيامين ۱۶; برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام ۳، ۹، ۱۶; برادران يوسف(ع) پر اعتماد

۵۵۲

۹;برادران يوسف(ع) پر بے اعتمادى ۲، ۳; برادران يوسف(ع) كے مشورے كو رد كرنا ۱

بنيامين :بنيامين كى محافظت ۳; بنيامين كے انجام سے پريشانى ۴

بے رحمى :بے رحمى كے آثار ۱۵

تاريخ :تاريخ سے عبرت حاصل كرنے كى اہميت ۸

توكل:توكل كرنے كى حقيقت ۱۰//حافظ :بہترين حفاظت كرنے والا ۱۱

حوادث :ناگوار حوادث سے بچنے كا طريقہ ۸; ناگوار حوادث كے تكراركے موانع ۷

خيانت :خيانت كا پيش خيمہ ۱۵

ذمہ دارى :ذمہ داريوں كى تقسيم ميں مؤثر عوامل ۵

سابقہ :بُرے سابقہ كے آثار ۶

شرك :شرك كى حقيقت ۱۰

عبرت :عبرت كے اسباب۸

لوگ :لوگوں پر اعتماد اور توكل ۱۰; لوگوں پر اعتماد اور شرك ۱۰; لوگوں كے سابقہ كى اہميت ۵

مہربانى :مہربانى كے آثار ۱۴

يادآورى :بُرے سابقہ كى يادآورى كرنے كا جواز ۷

يعقوبعليه‌السلام :يعقوب(ع) اور برادران يوسف(ع) كا عہد و پيمان ۲; يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف(ع) كى بے رحمى ۱۶; يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين ۴;يعقوب(ع) اور بنيامين كا سفر كرنا ۱ ; يعقوب(ع) كا اعتماد ۹; يعقوب(ع) كا شك ۲;يعقوب(ع) كى بے اعتمادى كے دلائل ۳;يعقوب(ع) كى پريشانى كے اسباب ۴; يعقوب(ع) كى مخالفت اور برادران يوسف(ع) ۱

يوسف :يوسف كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۹، ۱۶; يوسف كى حفاظت۹

آیت ۶۵

( وَلَمَّا فَتَحُواْ مَتَاعَهُمْ وَجَدُواْ بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ قَالُواْ يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي هَـذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ذَلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ )

۵۵۳

پھر جب ان لوگوں نے اپنا سامان كھولا تو ديكھا كہ ان كى بضاعت (قيمت)واپس كردى گئي ہے تو كہنے لگا بابا جان اب ہم كيا چاہتے ہيں يہ ہمارى پونجى بھى واپس كردى گئي ہے اب ہم اپنے گھر والوں كے لئے غلہ ضرور لائيں گے اور اپنے بھائي كى حفاظت بھى كريں گے اور ايك اونٹ كا بار اور بڑھواليں گے كہ يہ بات اس كى موجودگى ميں آسان ہے (۶۵)

۱_ حضرت يعقوب(ع) كے بيٹوں نے سفر كى رپورٹ دينے كے بعد، مصر سے خريدارى كيئے ہوئے سامان كو كھولنا شروع كر ديا _و لما فتحوا متاعهم

۲_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے جب اپنے سامان كو كھولا تو مصر سے خريدارى كيئے ہوئے غلات كے درميان اسكى قيمت كو پايا_و لما فتحوا متاعهم وجدوا بضاعتهم ردت اليهم

۳_حضرت يعقوب(ع) كے بيٹوں نے جب اداشدہ قيمت كو واپس پايا تو خوش ہوگئے اور حضرت يعقوب كو رپوٹ دى _

قالوا ىأبانا ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا

(ما نبغي) ميں (ما) استفہاميہ اور نبغى كا مفعول ہے _ (بغي) كا معنى چاہنا اور طلب كرنا ہے (ما نبغى ) يعنى اس سے زيادہ ہم كيا چاہتے ہيں ؟

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے اس بات پر اطمينان ركھتے

تھے كہ ان كے سرمايہ كو جان بوجھ كر واپس لوٹا ديا گيا ہے اور اس سلسلہ ميں يوسفعليه‌السلام كے كارمندوں نے كوئي بھول نہيں كيوجدوا بضاعتهم ردّت اليهم ...هذه بضاعتنا ردّت الينا

(ردّت الينا )كا جملہ اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے مطمئن تھے كہ ان كى پونجى ان كى طرف لوٹا دى گئي ہے _ يعنى يہ گمان بھى نہيں تھا كہ انہوں نے غلطى سے ركھ ديا ہو تا كہ اسكو واپس لوٹا نے كواپنے ليئے ضرورى سمجھيں _

۵۵۴

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے ان كو اس بات كى يقين دہانى كرائي كہ عزيز مصر (يوسفعليه‌السلام ) نے ان كى پونجى كو بغير كسى كمترين منت و سماجت اور ہميں خبر ديئےغير واپس لوٹا دياہے _هذه بضاعتنا ردّت الينا

(ردّت) كے فعل كو مجہول لانا اورفاعل كاذكر نہ كرنا ، اس معنى كو بتا رہا ہے كہ مال كا كا واپس لوٹانا اس طرح تھا كہ ہميں كوئي خبر نہ ہوتا كہ ہميں كسى قسم كى شرمندگى كا احساس نہ ہو _

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے اپنے باپ كے ساتھ اور ان كى سرپرستى ميں زندگى بسر كرتے تھے _

و لما فتحوا متاعهم ...قالوا يابانا ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے جب اپنے سرمايہ كو واپس اپنے پاس ديكھا تو دوبارہ كوشش شروع كردى تا كہ والد بزگوار كو راضى كريں كہ وہ بنيامين كو ہمارے ساتھ روانہ كريں _

قال هل أمنكم ىأ بانا ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا و نمير اهلنا و نحفظ أخانا

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كا يہ جملہ ( ما نبغى ہذہ بضاعتنا ...) كوقرينہ مخاطب (يابانا) كے ساتھ ديكھيں تو كہ ان كا مقصود حضرتعليه‌السلام كى رضايت كو جلب كرنا ہے تا كہ وہ بنيامين كو ہمارے ساتھ بھيجيں _

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا يہ اندازہ (اپنے بھائيوں كو ان كى پونجى واپس لوٹا ديں تو دوبارہ مصر آنے ميں ميلان پيدا كريں گے) اور ان كا حدس لگانا مناسب و صحيح تھا_

لعلهم يعرفونها لعلهم يرجعون ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا و نمير اهلنا

۹_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ليے اپنے خاندان كے نان و نفقہ كو مہيا كرنے كے ليے تنہا راستہ مصر كا سفر تھا _

و نمير اهلنا

(ميرة ) طعام كے معنى ميں ہے اور (مير)'' نمير'' كا مصدر ہے جسكا معنى طعام كو فراہم اور مہيا كرنا ہے _

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كى بنيامين كو مصر ہمراہ لے جانے كے ليے باپ كى رضايت كو جلب كرنے كے دلائل ميں سے خورد و خوراك كے مہيا كرنے كى ضرورت اور اسكو آمادہ كرنے كے ليے سرمايہ كا ضرورى نہ ہونا اور دربار مصر كى فرزندان يعقوب(ع) پر خاص عنايت و غيرہ تھے _

ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا و نمير اهلنا

۵۵۵

حضرت يعقوب(ع) كے بيٹوں كا يہ جملہ (يا ابانا هذه ...) بنيامين كو سفر ميں ہمراہ لے جانے ميں حضرتعليه‌السلام كى رضايت كو جلب كرنا مقصود ہے _ اور ان كا ہر جملہ ان ميں سے ايك دليل ہے كہ ان كو سفر پر بھيجنا ضرورى ہے _ اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے (ما نبغى ...) كے جملے سے يہ بيان كرنا چاہتے ہيں كہ ہم پر عزيز مصر نے بہت لطف و مہربانى كى ہے اسى وجہ سے ہمارے ليے مناسب نہيں ہے كہ انكى اس خواہش (بنيامين كو ہمراہ لائيں ) كو پورا نہ كريں انہوں نے جملہ (نمير اہلنا ) كو ايك مقدر جملہ مثل (نستظہر بہا ) (يعنى اس لوٹائي ہؤئي پونچى سے مدد حاصل كريں گے ) پر عطف كيا ہے _ اس سے يہ بيان كرنا چاہتے ہيں كہ خوراك كو خريدنے ميں كسى مشكل سے دوچار نہيں ہيں اور (نحفظ اخانا) كا جملہ اس بات كو بتارہا ہے كہ عزيز مصر كے مثبت جواب اور خوراك كے حصول كے ليے اپنے بھائي كى حفاظت لازمى كريں گے اور (ذلك كيل يسير) اس كو بتارہا ہے كہ ہم طعام لانے كے ليے بہت محتاج ہيں _

۱۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے بنيامين كو مصر كے سفر پر لے جانے كے ليے دوبارہ محبت بھرا عہد كيا _

نمير اهلنا و نحفظ اخانا

۱۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كو بنيامين كے ہمراہ بھيجنے كے ليے جو دلائل دے گے ان ميں خوراك كے حصّے كى ممنوعيت كاختم ہونا، اور ايك اونٹ كے سامان كا زيادہ ہونا شامل تھا _و نزداد كيل بعير ذلك كيل يسير

(ازدياد) (نزداد ) كا مصدر ہے جو كہ باب افتعال سے ہے جسكا معنى زيادہ اور اضافہ كى درخواست كرنا ہے _ (كيل بعير) سے مراد اتنا وزن ہے جو ايك اونٹ اٹھا سكتا ہے اور جملہ (فان لم تأتونى بہ فلاكيل لكم ...) اور جملہ (منع منا الكيل ) اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ليے ان كى خوراك كے حصے پر پابندى لگادى جب تك وہ بنيامين كو ہمراہ نہيں لائيں گے اسى وجہ سے ( نزاد كيل بعير) سے مراد يہ ہے كہ بنيامين كو ساتھ لے جائيں گے تو خوراك كى پابندى ختم ہونے كے ساتھ ساتھ ہم ايك اونٹ كے وزن كى اضافى خوراك كا بھى تقاضا كريں گے _

۱۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے قحط كے سات سال ميں غلات كى تقسيم كے ليے راشن بندى كا ايك قانون بنايا _

نزداد كيل بعير

كيونكہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ساتھ بنيامين كے آنے سے ايك اونٹ كے وزن كى اضافى خوراك ان كو مل جاتى اس بات سے چند

۵۵۶

نكات كا اشارہ ملتا ہے : ۱_ خوراك كا حصہ ہر ايك كے ليے مخصوص تھا _۲_ اور يہ خوراك كا حصہ ہر ايك اونٹ كا وزن تھا اس سے زيادہ نہيں تھا_

۱۴_ حضرت يوسف(ع) ہر مرحلہ ميں ہر شخص كے ليے ايك اونٹ كے وزن كا غلّہ فروخت كرتے تھے_

نزداد كيل بعير

۱۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف سے قحط كے سات سالوں ميں غلات كى تقسيم كے ليے يہ قانون تھا كہ جو شخص غلّہ كا تقاضا كر تا سہميہ بھى اسى كوديا جاتا_نزداد كيل بعير

اگر كوئي شخص دوسرے كا حصّہ لے سكتا تو (نزاد كيل بعير ) (بنيامين كے آنے سے ايك اونٹ كے وزن كى خوراك كو دريافت كرسكتے ہيں ) يہ بات بنيامين كو مصر لے جانے كے ليے ايك مستقل دليل كے عنوان سےبيان نہ كى جاتى _

۱۶_ اونٹ ،مصر اور قديمى كنعان ميں سامان منتقل كرنے كے سلسلہ ميں ايك رائج وسيلہ تھا _و نزداد كيل بعير

۱۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے پہلے سفر ميں جو غلّہ حاصل كيا تھا اسے قحط كے ليے كافى نہيں سمجھتے تھے لہذا وہ دوسرے حصے كو حاصل كرنے كے ليے مصر كى طرف سفر كرنے كو ضرورى سمجھتے تھے _ذلك كيل يسير

(ذلك) كا اشارہ متاع اور خوراك كى طرف ہے جسكو حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے پہلے سفر ميں حاصل كيا تھا اور ''يسير'' كا معنى كم اور تھوڑا ہے_ يہ بات واضح ہے كہ قحط كے سالوں كے ليے يہ بہت ہى كم تھا_

۱۸_ خوراك مہيا كرنا ضرورى ہے اور اپنى معاش و زندگى كو چلانے ميں سستى و غفلت سے پرہيز كرنا چاہيے_

نمير اهلنا ...ذلك كيل يسير

۱۹_ قحط اور خوراك كى كمى كے دوران اپنى ذاتى ضرورت كے ليے خوراك كو ذخيرہ كرنے كا جائز ہونا_

نمير اهلنا ...ذلك كيل يسير

آل يعقوب:آل يعقوب كا معاش مہيا كرنا ۹

احكام : ۹

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كا سفر ۷، ۱۰، ۱۱، ۱۲;برادران يوسفعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام ۵، ۶، ۷ ; برادران يوسفعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رضايت ۱۰، ۱۲;برادران يوسفعليه‌السلام اور غلات كى كمى ۱۷; برادران يوسفعليه‌السلام اور مصر كا سفر ۱۷;برادران يوسفعليه‌السلام كا اطمينان ۴;برادران يوسفعليه‌السلام كا عہد و پيمان ۱۱;

۵۵۷

برادران يوسفعليه‌السلام كا كردار ۹;برادران يوسفعليه‌السلام كا مال تجارت ۱;برادران يوسفعليه‌السلام كى خوشحالى ۳;برادران يوسفعليه‌السلام كى زندگى كرنے كى جگہ ۶; برادران يوسفعليه‌السلام كى كوشش ۷; برادران يوسفعليه‌السلام كے تجارت كے مال كا واپس ہونا ۲، ۳، ۴، ۵، ۷;برادران يوسفعليه‌السلام كے سفر كرنے كے دلائل ۱۰، ۱۲

بنيامين :بنيامين كى محافظت۱۱//شتر :شتر كے فوائد ۱۶

غلّات :حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں غلات كا سہم معين ہونا ۱۳، ۱۴، ۱۵

قحط :قحط كے دوران ميں خوراك كا ذخيرہ كرنا ۱۹

قديمى مصر:قديمى مصر ميں اونٹ ۱۶; قديمى مصر ميں سامان كو حمل و نقل كرنے كے و سائل ۱۶

معاش:معاش كو مہيا كرنے كى اہميت ۱۸

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام كو راضى كرنے كا پيش خيمہ۷

يوسف(ع) :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۷، ۸، ۱۱، ۱۲، ۱۳ ، ۱۷; حضرت يوسفعليه‌السلام اور منت سماجت ۵; حضرت يوسف(ع) كى اقتصادى سياست ۱۳ ، ۱۴ ،۱۵;حضرت يوسف(ع) كى دورانديشى كا متحقق ہونا۸

آیت ۶۶

( قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِّنَ اللّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلاَّ أَن يُحَاطَ بِكُمْ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ )

يعقوب نے كہا كہ ميں اسے ہر گر تمھارے ساتھ نہ بھيجوں گا جب تك كہ خدا كى طرف سے عہد نہ كرو گے كہ اسے واپس ضرور لائو گے مگر يہ كہ تمھيں كو گھير ليا جائے _اس كے بعد جب ان لوگوں نے عہد كرليا تو يعقوب نے كہا كہ اللہ ہم لوگوں كے قول و قرار كا نگراں اور ضامن ہے (۶۶)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام بالآخر بنيامين كو اپنے بيٹوں كے ہمراہ مصر بھيجنے پر رضامند ہوگئے _

قال لن ارسله معكم حتى تؤتون موثقا

۲_ حضرت يعقوب(ع) نے اپنے بيٹوں كے ہمراہ بنيامين كو مصر بھيجنے كے ليے خدا متعال كے ساتھ عہد و پيمان باندھنے كے ساتھ مشروط كرديا ( خداوند متعال كے ساتھ عہد و پيمان باندھيں اور اس كے نام كى قسم اٹھائيں )

لن ارسله معكم حتّى تؤتون موثقاً من الله

۵۵۸

(موثق) كا معنى عہد و پيمان ہے (لام) جو (لتأتنّنى ) پر داخل ہوا ہے يہ لام قسم ہے يعنى ايسا وعدہ جو قسم خداوندى كے ساتھ ہو (من الله ) كا جملہ اس بات كو بتاتا ہے كہ قسم بھى خداوند متعال كے نام سے اور عہد و پيمان بھى اسى كے ساتھ ہو (حتى تؤتون موثقا ) يعنى قسم اٹھانا اور وعدہ كرنا_

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كى حفاظت كے سلسلہ ميں اپنے بيٹوں كو تاكيد كى كہ ان سے كوئي عذر و حيلہ قبول نہيں كيا جائے گا مگر يہ كہ تم پر كوئي غالب آجائے اور تم بے بس ہوجاؤ_حتى تؤتون موثقا من الله لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام بنيامين اور اس كى سلامتى سے بہت زيادہ محبت كرتے تھے اس كى جدائي ان كے ليے رنج و دكھ كا موجب تھى _لتأتنّنى به

جملہ(انا له لحافظون ) اورگذشتہ آيت ميں (فالله خير حافظاً ) اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،بنيامين كو كسى دكھ و مصيبت ميں نہيں ديكھنا چاہتے تھے _ اور جملہ (لتأتنّنى بہ) (اسكو ميرے پاس لاؤ) اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ اسكى جدائي حضرتعليه‌السلام كے ليے مشكل تھى اور وہ اسكو اپنے پاس ہى ديكھنا چاہتے تھے_

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں سے اس بات كى توقع نہيں ركھتے تھےكہ وہ بنيامين كى حفاظت كے سلسلہ ميں اپنے آپ كو خطرے ميں ڈاليں اور اسكو واپس لوٹا نے ميں كوشش كريں _الّا ان يحاط بكم

احاطة (يحاط) كا مصدر ہے جو كسى شے كو اس كے تمام اطراف سے گرفت ميں لينے كو كہتے ہيں _ آيت شريفہ ميں مغلوب ہونے كے معنى كے ليے كناية استعمال ہوا ہے _ يعنى تمام راستوں اور اميدوں كا ختم ہوجانا _

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں سے كہا كہ بنيامين كى حفاظت اور واپس لوٹانے كى قسم سے ناتوانى اور عذر كو مستثنى قرار ديں _لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم

ظاہر عبارت يہ ہے كہ جملہ (الّا ان يحاط بكم ) قسم (لتأتنّنى بہ ) سے استثناء ہے اسى وجہ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كو تاكيد كر رہے تھے كہ قسم اٹھاتے وقت مجبورى اور عذر كو استثناء كريں اور اس طرح كہيں (والله لناتينك بہ الّا ان يحاط بنا) (خدا كى قسم بنيامين كو آپ كى

۵۵۹

طرف واپس لائيں گے مگر يہ كہ ہم مجبور و مغلوب ہوجائيں اور تمام راستے ہمارے ليے بند ہوجائيں ) _

۷_ خدا كى قسم اٹھاتے وقت اور اس سے عہد و پيمان كرتے وقت مناسب يہ ہے كہ اپنى ناتوانى كو اس سے استثناء كيا جائے _لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم

۸_ عذر اور ناتوانى كى وجہ سے عہد و قسم كو پورا نہ كرنے كى صورت ميں (عقوبت و كفارہ) ضرورى نہيں ہوتاہے_

لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم قال الله على ما نقول وكيل

۹_ الہى ذمہ داريوں و قسم اور عہد كو پورا كرنے كى شرط ، استطاعت ہے _الّا ان يحاط بكم

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے آئين اور ان كے خاندان كے نزديك ،خدا كى قسم اٹھانا اور اس سے عہد و پيمان كى خاص اہميت تھي_حتى تؤتون موثقاً من اللّه ...الاّ ان يحاط بكم

۱۲_ عہد و قسم كى پابندى اور اس كے تقاضے كے مطابق عمل كرنا ضرورى ہوتاہے _حتى توتون موثقاً من الله لتاتنّنى به

۱۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے قسم اٹھائي اور خداوند متعال سے عہد و پيمان باندھا كہ جتنا بھى ممكن ہو بنيامين كى حفاظت كريں گے اور اسكو باپ كے پاس واپس لوٹا ئيں گے_حتى توتون موثقا فلما اتوه موثقهم

۱۴_ حضرت يعقوب(ع) نے خداوند متعال كو اپنے بيٹوں كے قول و قرار پر اپنا وكيل قرار ديا _

قال الله على ما نقول وكيل

۱۵_حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو قسم اور اپنے عہد و پيمان كے توڑنے پر خدا كے عذاب سے ڈرايا_

قال الله على ما نقول وكيل

سياق آيت دلالت كرتى ہے كہحضرت يعقوبعليه‌السلام كااپنے بيٹوں كے قول و قرار پر خداوند متعال كو وكيل قرار دينے كا مقصد يہ تھا كہ وہ ان كو عذاب الہى سے ڈرائے_

۱۶_خداوند متعال كى قسم كو توڑنا اور اس كے عہد و پيمان پر عمل نہ كرنا، خداوند متعال كے عذاب كا سبب بنتاہے_

الله على ما نقول وكيل

۱۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو قسم اور عہد و پيمان پر عمل كرنے كے ليے انہيں خداوند متعال كى نظارت اور گواہى كى طرف متوجہ كيا _الله على ما نقول وكيل

(اللہ ...) والے جملے كو اگر جملہ خبرى فرض كريں تو مذكورہ معنى حاصل ہوتاہے _

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746