تفسير راہنما جلد ۷

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 746

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 746 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 190117 / ڈاؤنلوڈ: 4706
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۷

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

ہمکنار ہوسکیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ گوشہ نشین افراد اور ڈرپوک اور غیر متعہد اور عافیت آرام طلب افراد کا شیوہ نہیں ہے بلکہ یہ مجاہدین اسلام اور محافظین دین کا شیوہ ہے ۔ پس تقیہ بھی ایک طرح کی جنگ اور جہاد ہے ۔اور یہ تقیہ خود وزارت دفاع اورملکی حفاظت کرنے والوں کی طاقت شمار ہوتا ہے ۔ چنانچه امير المؤمنينعليه‌السلام نے فرمایا:

التقيه من افضل اعمال المؤمن يصون بها نفسه و اخوانه عن الفاجرين ۔(۱)

تقیہ مؤمن کی افضل ترین عبادتوں میں سے ہے ،جس کے ذریعے فاسق اور فاجر طاقتوں کی شر سے وہ اپنی جان اور اپنے دوسرے بھائیوں کی جا ن بچاتا ہے ۔

۶ ۔تقيه مؤمن کی ڈھال ہے

قال الباقر: اي شيئ اقر للعين من التقية؟ ان التقية جنة المؤمن(۲)

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ، ج ۳،باب ۲۸۔

۲۔ وسائل الشيعه ، ج ۲۴ ، باب۲۶۔

۱۶۱

امام باقرعليه‌السلام نے فرمایا: کونسی چیز تقیہ سے زیادہ مؤمن کیلئے سکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہے ؟!بے شک تقیہ مؤمن کی ڈھال ہے۔

امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

التقية ترس المؤمن و التقية حرز المؤمن ۔(۱)

بے شک تقیہ مؤمن کیلئے ڈھال اورقلعہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو دشمن کی شر سے بچاتا ہے ۔اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ ایک دفاعی مفہوم رکھتا ہے جسے اپنے دشمن کے مقابلے میں بروئے کار لایا جاتا ہے ۔زرہ کا پہننا اور ڈھال کا ہاتھ میں اٹھانا مجاہدین اور سربازوں کا کام ہے ۔ ورنہ جو میدان جنگ سے بالکل بے خبر ہو اور میدان میں اگر جائے توفرار کرنے والا ہو تو اس کیلئے زرہ پہننے اور ڈھال کے اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟!

____________________

۱۔ وسائل الشيعه ، ج ۶ ، باب۲۴ ۔

۱۶۲

۷ ۔ تقيه پیغمبروں کی سنت

امام صادقعليه‌السلام نےفرمایا:عليك بالتقيه فانها سنت ابراهيم الخليل ۔(۱)

تم پر تقیہ کرنا ضروری ہے کیونکہ تقیہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی سنت ہے ۔ اور ابراہیم وہ مجاہد ہیں جنہوں نے اکیلے ظالم و جابر نمرود کے ساتھ مقابلہ کیا ۔ نہ صرف اس کے ساتھ بلکہ تمام متعصب اور لجوج بت پرستوں کےساتھ مبارزہ کیا ؛ اور ہر ایک کو عقل اور منطق اور اپنی بے نظیر شجاعت کے ساتھ گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ۔ ان کے باوجود حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے کئی مقام پر تقیہ کرکے اپنی جان بچائی ہے ۔ لیکن کیاکوئی ابراہیمعليه‌السلام پر مصلحت اندیشی کا الزام لگا سکتا ہے ؟!ہرگز نہیں۔ اس لئے تقیہ حضرت ابراہیمعليه‌السلام کی سنت کے عنوان سے بھی معروف ہے ۔

____________________

۔ وسائل الشيعه، ج ۶ ، باب۲۴ ۔

۱۶۳

۸ ۔تقيه ،مجاهدوں کا مقام

امام حسن العسكريعليه‌السلام سےمنقول ہے:

مثل مؤمن لا تقية له كمثل جسد لا راس له ۔(۱)

وہ مؤمن جو تقیہ نہیں کرتا وہ اس بدن کی طرح ہے جس پر سر نہ ہو۔اور سر کے بغیر بدن کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی کیونکہ باقی جسمانی تمام تر فعالیت سر سے وابستہ ہے ۔

اور بالکل یہی تعبیر ”صبر و استقامت“ کے بارے میں آئی ہے كه ايمان بھی بغيرصبرو استقامت کے بغیر سرکے بدن کی طرح ہے ۔ان تعبیرات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تقیہ کا فلسفہ وہی صبر و استقامت کا فلسفه ہے اور تقیہ کے ذریعے اپنی طاقت اور اسلحہ کا بندوبست اور ان کی حفاظت کي جاتی ہے ۔

____________________

۱۔ وسائل الشيعه ،ج ۱۶، باب ۲۴۔

۱۶۴

۹ ۔ تقيه ،مسلمانوں کےحقوق کی حفاظت

تقیہ کا مسئلہ اور مسلمان بھائیوں کے حقوق کی ادائیگی دو ایسے فریضے ہیں جنہیں ایک دوسرے کے ساتھ ہی قرار دیا گیا ہے ۔

امام حسن العسكريعليه‌السلام نے فرمایا :

و أعظمُهما فرضانِ : قضاءُ حقوقِ الاخوانِ في اللهِ و استعمالُ التقيهِ من اعداءِ اللهِ ۔(۱)

تمام فرائض میں سے اهم ترین فریضہ دو ہیں:

o اپنے دینی بھائیوں کے حقوق کا ادا کرنا ۔

o اور اللہ کے دشمنوں کے سامنے تقیہ کرنا۔

____________________

۱ ۔ وسائل الشيعه ،ج ۱۶، باب ۲۸، ح ۱۔

۱۶۵

اس تعبیر سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تقیہ ان دو چیزوں کے درمیان ایک قسم کا رابطہ قائم کرنا ہے ۔ اگر غورکریں تو معلوم ہوگا کہ تقیہ کا مسئلہ دوسرے مسلمانوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرح ایک اجتماعی مسئلہ ہے ۔

ج ۔ عقل

معمولاً تقيه اقلیتوں سے مخصوص ہے جو اکثریت کے پنجوں میں اسیر ہوجاتے ہیں ایسی صورت میں اگر وہ اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہیں تو اس کے لئے جانی یامالی نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔اور ساتھ ہی اس اقلیت والے گروہ کے ہاں موجود قومی سرمایہ اور طاقت کا ہدر جانے کے علاوہ اسے کچھ نہیں ملتا ۔

کيا عقل نہیں کہتي کہ یہ قومی سرمائے اور طاقت کا اہم ضرورت کے موقعوں کے لئے محفوظ رکھنا ایک عاقلانہ اور اچھا کام ہے ؟ بلکہ عقل کہتی ہے کہ اپنے عقیدے کوچھپا کر ان طاقتوں کو ذخیرہ کیا جائے تاکہ انہیں مناسب فرصت اور مواقع پر بروئے

۱۶۶

کار لایا جاسکے ۔

مثال کےطورپر: کوہستانی علاقوں اور دیہاتوں میں مختلف جگہوں سے پانی کے چھوٹے چھوٹے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں۔ اگر ان کو ایک تالاب میں جمع کریں گے تو اس سے بہت بڑے مزرعے کو سیراب کرسکتے ہیں ، لیکن اگر ان کواسی طرح بہنے دیں تو کھیتوں کو سیراب کئے بغیر پانی ضائع ہو جاتا ہے ۔ اسی لئے زمیندار ان چشموں کے نزدیک تالاب بنا کر پانی کو جمع کرتے ہیں تاکہ بیج بوتے وقت زمین کو سیراب کر سکیں۔ جب کہ اس سے قبل سارا پانی ضائع ہو جاتا تھا ۔ تقیہ بھی اسی طرح ہے کہ جس کے ذریعے اپنی اور اپنی قوم و ملت کے سرمائے اور جان کی حفا ظت کی جائے تاکہ مناسب موقع پر اس سے بھر پور استفادہ کیا جاسکے۔جو ایک عاقلانہ کام ہے۔

۱۔دفع ضرر

عقل بتاتی ہے کہ دفع ضرر واجب ہے ؛ اور تقیہ ایک ایسی تکنیک ہے کہ جس کے ذریعے

۱۶۷

انسان جانی یا مالی ضرر کو اپنے سے اور اپنے دوسرے هم فکر افراد سے دفع کر سکتا ہے ۔اسی لئے فقہاء فرماتے ہیں :

فقد قضي العقل بجواز دفع الضرر بها (بالتقيه) بل بلزومه و اتفق عليها جميع العقلاء: بل هو امر فطري يسوق الانسان اليه قبل كل شيئ عقله و لبه و تدعوه اليه فطرته ۔(۱)

عقل تقیہ کے ذریعے دفع ضرر کو جائز قرار دیتی ہے بلکہ اس کے واجب ہونے پر تمام فقہاء اور عقلاء کا اتفاق ہے ۔اور اس سے بھی بالا تر یہ ایک فطری عمل ہے کہ جو انسان کو اس کی فطرت اور عقل سب سے پہلے تقیہ کے ذریعے اپنی جان اور مال کی حفاظت کرنے پر ابھارتا ہے ۔اور یہ غریزہ ہر انسان اور حیوان میں پایاجاتا ہے ۔

۲ـ مہم پر اہم کا مقدم کرنا

فالعقل السليم يحكم فطريا بانه عند وقوع التزاحم بين الوظيفة الفرديه مع شوكة

____________________

۱ ۔ جعفر سبحاني؛ مع الشيعه الاماميه في عقائدهم، ص ۸۹۔

۱۶۸

الاسلام و عزته و قوته او وقوع التزاحم بين الحفظ النفس و بين الواجب او محرم آخر لابد من سقوط الوظيفة الفرديه و ليست التقيه الا ذالك ۔(۱)

عقل سليم کا فطری حكم ایسا ہے کہ جب کوئی شخص اپنے فریضے کی انجام دہی کے موقع پر اسلام کی قدرت ، شان وشوکت اور عزت کے ساتھ مزاحم ہوجاتا ہے ۔ یا اپنی جان بچانے کا وقت آتا ہے تو یہ کسی واجب یا حرام کام کا ترک کرنے یا انجام دینے پر مجبور ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں اہم کو انتخاب کرتے ہوئے مہم کو ترک کرنے کا نام تقیہ ہے ۔ اس استدلال سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ :

ان العقل يري ان احكام الدين انما شرعت لسعادة الانسان في حياته الي الابد، فاذا كانت هذه السعادة و ادانت الاكام متوقفة و الاخفاء عن الاعداء في فترة من الزمن فالفعل يستقل بالحكم بحسن التقية لقديما للاهم علي المهم ۔(۲)

____________________

۱۔ صادق ، روحاني؛فقه الصادق ،ج۱۱ ، ص۳۹۳۔

۲۔ محمد علي،صالح المعلم؛ التقيه في فقه اهل البيت،ج۱، ص۶۶۔

۱۶۹

عقل بتاتی ہے کہ احكام دين کو انسان کی ابدی خوش بختی کیلئے تشریع کیا ہے ۔ لیکن اگر یہی خوش بختی اور احکام دین پر عمل کرنا کچھ مدت کیلئے اپنے جانی دشمنوں سے چھپا نے پر مجبور ہو تو عقل، تقیہ کرنے اور اہم کام کو مہم کام پر مقدم کرنے کو ایک اچھا اور مناسب عمل سمجھے گی ۔

اگر ان بیانات کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو یوں کہہ سکتے ہیں :جب بھی انسان یا مکلف دو کاموں کوانجام دینے پر مجبور ہو ؛ لیکن ان دوکاموں میں سے صرف ایک کو فی الحال انجام دے سکتا ہو ۔ اب وہ سوچتا ہے کہ کس کام کو انجام دوں اور کس کام کو چھوڑ دوں؟! اگر وہ عاقل اور سمجھدار ہو تو وہ جس میں مصلحت زیادہ ہوگی اسے انجام دے گا اور جس کام میں مصلحت کم ہوگی اسے ترک کرے گا اسی کا نام تقیہ ہے ۔

د : فطرت

اگر صحیح معنوں میں فکر کریں تو معلوم ہوگا کہ تقیہ سراسر عالم حيات کے قانون

۱۷۰

کی اساس اور بنیاد ہے ۔اور تمام زندہ مخلوقات اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان بچانے کی خاطراس اصول سے استفادہ کرتی ہیں ۔جیسے بحری حیوانات جب احساس خطر کرتے ہیں تو وہ اپنی جان بچانے کی خاطر اپنے جسم پر موجودخاص تھیلیوں سے استفادہ کرتے ہیں کہ جس میں ایک کالے رنگ کا ایک غلیظ مادہ ہوتا ہے جسے وہ اپنے اطراف میں پھیلادیتے ہیں جیسے آنسو گیس استعمال کرکے اس جگہ سے دور ہو جاتے ہیں ۔

اسی طرح بہت سے حشرات ہیں جو اپنے جسم کو پروں اور بالوں کے ذریعے اس طرح چھپاتے ہیں کہ بالکل اس شاخ کے رنگ و روپ میں بدل جا تے ہیں اور جب تک غور نہ کریں نظر نہیں آتے ۔ بعض جاندار ایسے ہیں جو مختلف موقعوں پر اپنا رنگ بھی اسی محیط کے رنگ و روپ میں تبدیل کرتے رہتے ہیں ، اور اس حيران کن دفاعی سسٹم کے ذریعے جانی دشمن کی نظروں سے اوجھل ہو جاتےہیں، تاکہ اپنی جان بچا سکیں ۔

۱۷۱

بعض حیوانات ایسے بھی ہیں جو خطرے کی صورت میں اپنے جسم کو بالکل بے حس و حرکت بناتے ہیں تاکہ دشمن کو دھوکه دے سکیں ۔

خلاصہ کلام یہ ہے جو بھی تقیہ کے مسئلہ کو شیعوں کا مسئلہ قراردیتے ہوئے اعتراضات کرتے ہیں ، حقیقت ميں وہ تقیہ کے مفہوم اور معنی سے واقف نہیں ہیں، یا واقف تو ہیں لیکن شیعوں کو دیگر مکاتب فکر یا سادہ لوح عوام کی نگاہوں میں گرانے کی خاطر اس فطری اور عقلانی اصول یا سسٹم سے انکار کرتے ہیں ۔

ان مطالب سے معلوم ہوتا ہے کہ تقیہ کا سسٹم تمام مکاتب فکر میں کم و بیش پایا جاتا ہے ۔لیکن یہ یاد رکھیں کہ ہمیشہ نیک اور صالح افراد جو کہ تعداد کے لحاظ سے تھوڑے ہیں ، ان جنایت کار اور ظالم افراد جو کہ تعداد کے لحاظ سے زیادہ ہیں ، سے تقیہ کرتے آئے ہیں ؛ تاکہ اس تکنیک یا سسٹم کے ذریعے اپنی جان ، مال عزت ، آبرو اور ناموس ، کی حفاظت کرسکیں ۔(۱)

____________________

۱ ۔ مكارم شيرازي؛ تقيه سپري عميقتر ، ص۲۲۔

۱۷۲

ه : اجماع

جنگي نقشے بھی ہمیشہ مخفیانہ طور پر بنائے جاتے ہیں جنگجو افراد ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ خود کو دشمن کی نظروں سے چھپائے رکھتے ہیں ،اور اپناجنگی سامان اور اسلحے کو میدان جنگ کے گوشہ و کنارميں درخت کے پتوں یا کیچڑوں اور مٹی مل کر چھپا تے هیں ، اسی طرح فوجیوں کی وردیاں بھی کچھ اسطرح سے پہنائی جاتی ہیں کہ میدان جنگ میں آسانی کے ساتھ دشمنوں کی نظروں میں نہ آئیں ۔یا کبھی جنگجو افراد مصنوعی دھواں چھوڑکر دشمن کوغافل گیر کرتے ہیں ۔یا رات کی تاریکی میں ايک جگه سے دوسري جگه نقل مکاني کرتے ہیں ۔

اسی طرح جاسوس اور اطلاعات والے جب دشمن کے علاقوں میں جاتے ہیں تو وہ اس علاقے کے لوگوں کے لباس اور ماحول اور فرہنگ میں اپنے آپ کو ضم کرتے ہیں ۔ اگر غور کریں تو یہ سب امور تقیہ کے مختلف شکلیں ہیں ۔جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے دشمن

۱۷۳

پر فتح و کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔(۱)

اداری اور دفتری کاموں میں خواہ وہ سیاسی امور ہو یا اقتصادی یا معاشرتی ، مختلف مقاصد کے حصول کیلئے رموز کا استعمال کرنا ، یہ سب اس سسٹم کی مختلف شکلیں ہیں ،جسے کوئی بھی عاقل انسان رد نہیں کرسکتا ۔ بلکہ سب ان کی تائید کریں گے ۔ اگر ایسی صورت میں جبکہ دشمن اس کے مقابل میں ہو اور وہ اپنی شجاعت دکھاتے ہوئے آشکار طور پر دشمن کے تیروتلواروں یا گولیوں کے زد میں نکلے تو اس کی عقل پر شک کرنا چاہئے۔

یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ تقیہ ہر مکتب فکر والوں میں موجود ہے جس کے ذریعے ہی قومی سرمایہ اور عوام کی جان اور مال اور ملکی سالمیت کی حفاظت ممکن ہے ۔

____________________

۱ ۔ مكارم شيرازي؛ تقيه سپري عميقتر ، ص ۱۸۔

۱۷۴

پانچویں فصل

وجوب و تحریم تقيه کے موارد اوران کا فلسفه

۱۷۵

پانچویں فصل :

وجوب وتحریم تقيه کے موارد اوران کا فلسفه

وہ موارد جہاں تقیہ کرنا واجب ہے

وجوب تقیہ کے موارد اور ان کے اہداف کو باہم تحقیق کریں گے ۔ کیونکہ یہ دونوں (وجوب و هدف)ایک دوسرے سے مربوط ہیں ۔ اگر تقیہ کے اصلی موارد کوبیان کریں تو ہدف اصلی بھی خود بخود واضح ہوجاتا ہے ۔بطور خلاصہ تقیہ کو کئی اہداف کی خاطر واجب جانا گیا ہے :

۱۷۶

۱۔ طاقت کی محافظت کرنا

کبھی انسان کیلئے ایسا موقع پیش آتا ہے کہ جہاں اپنا عقیدہ اگر عیاں اور آشکار کرے تو بغیر کسی فائدے یااپنے اہداف سے قریب ہونے کی بجائے اس شخص یا اور کئی افراد کی جان نابود یا ناقابل تلافی نقصان کا شکار ہو سکتی ہے ۔ایسے مواقع پر عقل اور منطق حکم دیتی ہیں کہ احساسات میں بے دلیل گرفتار ہوکر اپنی طاقت کو ضائع کرنے سے باز آئیں ۔بلکہ آئندہ کیلئے ذخیرہ کریں ؛ تاکہ قدرت و طاقت اس قدر زیادہ ہوجائے جس کے ذریعے اپنا عظیم ہدف تک رسائی ہوسکے ۔کیونکہ کسی بھی شخص میں اتنی وافر مقدار میں قدرت یا طاقت نہیں ہے کہ جنہیں کھلے دل و دماغ سے ہاتھ سے جانے دیں ۔

کبھی ایک لائق اور مفید شخص کی تربیت کیلئے کئی سا ل ایک معاشرے کو زحمت اٹھانی پڑتی ہے اور وہ اپنی طاقت کو خرچ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ تویہ کیسے ممکن هے که اپني ذمه داري کا احساس نہ کریں ؟!

۱۷۷

مخصوصا ًایسے معاشرے میں جہاں اچھے اور نیک انسانوںمیں افرادي قوت اور طاقت بہت کم ہو ؟

یہی وجہ تھی کہ اسلام کے شروع میں پیغمبر نے تقریباً تین سال اپنا عقیدہ سواے ایک خاص گروہ کے دوسرے لوگوں سے چھپا ئےرکھا ۔ آہستہ آہستہ مسلمانوں میں افرادی قوت میں اضافہ ہوتا گیا ، یہاں تک کہ تقیہ کی بندش تین سال بعد ٹوٹنے لگی اور آپ اسلام کی طرف علی ٰ الاعلان لوگوں کو دعوت دینے لگے ۔لیکن پھر بھی آپ کے اوپر ایمان لانے والوں کی تعداد کم تھی جوکہ دشمنوں کے ہاتھوں اسیر ہوجاتے اور قسم قسم کی اذیتیں اور آزار برداشت کرنا پڑتیں ۔اور ایک معمولی بات پر مسلمان قتل کردئے جاتے تھے ۔ تو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایسے افراد کو تقیہ کرنے کی اجازت دیتے تھے ۔تاکہ اپنی دفاعی طاقت اور قوت کو اس نومولود مکتب کی حفاظت کی خاطر محفوظ کرلیں اور بیہودہ اور بے ہدف اوربے دلیل اپنی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔

۱۷۸

۲۔ پروگرام کو چھپانا

چونکہ تقیہ زیادہ تر نیک اور صالح افراد جو تعداد کے لحاظ سے کم ہیں ، ان سے مربوط ہے تاکہ وہ اس ظالم اور جابر گروہ کے شر سے اپنے دین یا جان یا ناموس کو بچائیں ۔یہ بھی معلوم ہے کہ اقلیت اپنی زندگی کو جاری رکھنے اور عالی ہدف تک جانے کیلئے تقیہ کے طور و طریقے سے استفادہ کرنے پر مجبور ہیں ۔ ورنہ اگر اکثریت کے سامنے اپنا عقیدہ برملا کرے تو وہ لوگ مزاحمت کرنے لگیں گے ۔اس لئے مجبور ہیں کہ اپنے عقائد ، پروگرام اور دیگر کاموں کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے تقیہ کرلیں ۔اس قسم کا تقیہ ظہور اسلام کے وقت بہت زیادہ پایا جاتا تھا ۔

هجرت پیغمبر کانقشہ كه جو انقلاب اسلامی کی تکمیل اور کامیابی کا پہلا قدم تھا ،آپ کا مخفیانہ طور پر نکلنا اور امير المؤمنينعليه‌السلام کا بستر پیغمبرگرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جا کر آرام کرنا اور آنحضرت کا رات کی تاریکی میں غار حرا کی طرف حرکت کرنا اور اس غار میں کئی دن تک ٹھہرنے کے بعد مدینہ کی طرف مخالف سمت میں چلنا ،وغیرہ اسی تقیہ کی قسموں

۱۷۹

میں سے ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ان موقعوں پر تقیہ کرنا واجب ہے یا نہیں؟!

کیا اگر پیغمبراور مسلمان اپنا عقيده اور فكر کو دشمن سے نہیں چھپاتے تو کیا کامیابی ممکن تھی؟!

کیا ایسے موارد میں تقیہ کرنا ہی اپنی کامیابی اور دشمن کی نابودی کا سبب نہیں ہے ؟

اسی طرح اللہ کے خلیل حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے جو تقیہ کیا تھا ،عرض کر چکا ، جو اگر اپنا عقیدہ نہ چھپاتے اور توریہ نہ کرتے تو کیا یہ ممکن تھا کہ لوگ انہیں اکیلا شہر میں رکنے دیتے ؟ ہرگز نہیں۔اس صورت میں آپ کو بت خانے کی طرف جانے کی فرصت بھی کہاں ملتی؟!لیکن آپ نے جو اپنا عقیدہ چھپایا اور جو نقشہ آپ نے تیار کیا ہوا تھا اسے اپنی انتہا کو پہنچانے کیلئے تقیہ ہی سے کام لیا۔اور یہی آپ کی کامیابی کا راز بنا۔

ان تمام روايتوں میں تقيه کو ايك دفاعي سپر یا ڈھال «جنّة المؤمن، ترس

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

هو الذى يسيركم فى البر و البحر حتى اذا كنتم فى الفلك و جرين بهم بريح طيبة

فعل ''يسير'' كو خدا تعالى كى طرف نسبت دينا باوجود اسكے كہ ہميں علم ہے بيابانوں كو طے كرنا اور درياؤں ميں سے گزر جانا بلا واسطہ طور پرسواريوں اور ہواؤں كے ذريعے انجام پاتا ہے_ مندرجہ بالا مطلب كو بيان كرتا ہے_

۴_ عصر بعثت ميں دريائي سفروں كيلئے بادبانى كشتيوں سے استفادہ ہونا _حتى اذا كنتم فى الفلك و جرين بهم بريح طيبة

۵_ بادبانى كشتيوں كے ذريعے دريائي سفر، موافق ہواؤں كا مرہون منت ہے_حتى اذا كنتم فى الفلك و جرين بهم بريح طيبة

۶_ فرح بخش اور موافق ہواؤں كا چلنا بادبانى كشتيوں كے ذريعے درياؤں كو طے كرنے والوں كى خوشى كا سامان فراہم كرتا ہے_حتى اذا كنتم فى الفلك و جرين بهم بريح طيبة و فرحوا به

۷_ عصر بعثت ميں دريائي سفروں كيلئے جن بادبانى كشتيوں سے استفادہ كيا جاتا تھا وہ طوفانوں اور دريائي لہروں كے مقابلے ميں آسيب پذير تھيں _حتى اذا كنتم فى الفلك جاء تها ريح عاصف و جاء هم الموج من كل مكان و ظنوا انهم احيط بهم

۸_ بادبانى كشتيوں كے ذريعے درياؤں كو طے كرنا ايسا سفرہے جو اميد و خوف كے ہمراہ ہے_

حتى اذا كنتم فى الفلك و فرحوا بها و ظنوا انهم احيط بهم

۹_ تيز ہواؤں كا چلنا دريا كے طوفانى ہونے اور لہروں كے اٹھنے كا سبب بنتا ہے _

جاء تها ريح عاصف و جائهم الموج من كل مكان

۱۰_ دريا كا طوفانى ہوجانا اور كشتى كے غرق ہونے كے خطرے كا احساس كرنا ان لمحات ميں سے ہے جن ميں انسان خدا تعالى اور اسكى بارگاہ ميں خالصانہ راز و نياز كرنے كى طرف توجہ كرتا ہے_

و جاء هم الموج من كل مكان وظنوا انهم احيط بهم دعوا الله مخلصين له الدين

۱۱_ انسان كے يہاں دنيا كا آجانا اسكے خدا سے غفلت اور دنيا كااس سے پيٹھ پھير جانا اسكے خدا كى طرف توجہ كا عامل ہے_

و جرين بهم بريح طيبة و فرحوا بها جائتها ريح عاصف و ظنوا انهم احيط بهم دعوا الله مخلصين له الدين

۴۴۱

۱۲_توحيد اور صرف خدا كى ربوبيت كا اعتقاد انسان كى فطرت اور سرشت ميں موجود ہے_

و جائهم الموج من كل مكان وظنوا انهم احيط بهم دعوا الله مخلصين له الدين

۱۳_ مجبور ہو جانے اور موت كے خطرے كے احساس كا وقت انسان كى توحيدى فطرت كے جلوہ گر ہونے اور اسكے شرك سے رخ موڑلينے كا وقت ہے_و جائهم الموج من كل مكان دعو ا الله مخلصين له الدين

۱۴_ مجبورى اور موت كے خطرے كے وقت لوگ بارگاہ خداوندى ميں دعا كرتے ہيں اور مسلسل قسميں كھا كھا كر كہتے ہيں كہ وہ اسكے شكر گزار بندے بنيں گے_وظنوا انهم احيط بهم دعوا الله مخلصين له الدين لئن انجيتنا من هذه لنكونن من الشاكرين

۱۵_نا شكرے لوگ موت ( غرق ہونے و غيرہ) كے خطرے كے احساس كے وقت خدا تعالى كے ساتھ محكم پيمان باندھتے ہيں كہ اگر اس گرداب سے نجات پاگئے تو ہرگز گناہ كے قريب نہيں جائيں گے اور شكر گزار بندوں كے حلقے ميں داخل ہوجائيں گے_و ظنوا انهم احيط بهم دعواالله لئن انجيتنا من هذه لنكونن من الشاكرين

۱۶_ مجبورى ، پريشانى اور موت كے خطرے كے وقت انسان كى غير خدا سے اميد منقطع ہوجاتى ہے_

و ظنوا انهم احيط بهم دعوا الله مخلصين له الدين لئن انجيتنا من هذه لنكونن من الشاكرين

۱۷_ مجبورى ، پريشانى اور موت كے خطرے كے احساس كے وقت انسان كو اپنى برائياں ياد آتى ہيں ،بارگاہ خدا ميں ندامت اور شرمسارى كا اظہار كرتاہے اور اپنى خطائوں اور ناشكرى سے توبہ كرتا ہے_

و ظنوا انهم احيط بهم دعوا الله لنكونن من الشاكرين

انسان:انسان اور مفيد چو پائے۱; انسان كا خدا كے ساتھ عہد ۱۵ ;ناشكر ے انسان خطرے كے وقت ۱۵

بيچارگى :اسكے اثرات ۱۳،۱۶،۱۷

توحيد :توحيد ربوبى كا فطرى ہونا ۱۲

خدا تعالى :افعال خدا كے مظاہر ۳; خداشناسى بے چارگى كے وقت ۱۴; خداشناسى سختى ميں ۱۰; خدا(كى ياد) غرق ہوتے وقت ۱۰;ربوبيت خدا كى نشانياں ۱،۲

۴۴۲

دريا :اسكى موجوں كے عوامل ۹; اسكے طوفان كے عوامل ۹

درياؤں كو طے كرنے والے:انكى خوشنودى كے عوامل ۶

دعا :دعا، بيچارگى كے وقت ۱۴; دعا، دريائي طوفان كے وقت ۱۰

دنيا :اسكے آنے كے اثرات ۱۱; اسكے پيٹھ پھيرنے كے اثرات ۱۱

سختى :اسكے اثرات ۱۳،۱۴،۱۶،۱۷

سفر :خوفناك سفر ۸

شكر :شكر گزار ہونے كا وعدہ ۱۴

غفلت :خدا تعالى سے غفلت كا پيش خيمہ ۱۱

فطرت :توحيدى فطرت كى علامتيں ۱۳

قدرتى عوامل :انكا كردار ۳

كشتي:اسكى حركت ۲; بادبانى كشتى كا آسيب پذير ہونا ۷; بادبانى كشتى كى حركت كا سرچشمہ ۵بادبانى كشتى كے ذريعے سفر ۸; صدر اسلام ميں بادبانى كشتى ۷

كشتى رانى :اسكى تاريخ ۴; يہ صدر اسلام ميں ۴

گناہ :اس سے پشيمانى كے عوامل ۱۷

معذرت كرنا :خدا تعالى سے معذرت كرنے كے عوامل ۱۷

موت :موت كے خطرے كا احساس ۱۳،۱۴،۱۵،۱۶،۱۷

نا اميدى :غير خدا تعالى سے نااميد ہونے كے عوامل ۱۶

ہوا :تيز ہواؤں كا اثر ۹; ملائم ہواؤں كا اثر ۵،۶

يادكرنا:خدا تعالى كى ياد كے عوامل ۱۱; ناپسنديدہ عمل كے ياد كرنے كے عوامل ۱۷

۴۴۳

آیت ۲۳

( فَلَمَّا أَنجَاهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَى أَنفُسِكُم مَّتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَينَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ )

اس كے بعد جب اس نے نجات ديدى تا زمين ميں ناحق ظلم كرنے لگے _انسانو يا د ركھو تمھارا ظلم تمھارے ہى خلاف ہو گا يہ صرف چند روزہ زندگى كا مزہ ہے اس كے بعد تم سب كى بازگشت ہمارى ہى طرف ہوگى اور پھر تمھيں بتائيں گے كہ تم دنيا ميں كيا كر رہے تھے_

۱_ مشركين كى خالص اور كسى ملاوٹ كے بغير دعاؤں كو خدا تعالى قبول كرتا ہے_

دعوا الله مخلصين له الدين فلما انجاهم اذا هم يبغون

جملہ '' انجاہم '' كى '' دعوا اللہ مخلصين لہ الدين '' پر تفريع ، ہو سكتا ہے مندرجہ بالا مطلب كو بيان كر رہى ہو_

۲_ پريشانى اور موت كے خطرے سے نجات حاصل كر لينے كے بعد لوگ خدا تعالى كے ساتھ كئے گئے اپنے پيمان كو توڑ ديتے ہيں اور ناشكرى اور حق سے تجاوز كرنے لگتے ہيں _

لئن انجيتنا من هذه لنكونن من الشاكرين فلما انجاهم اذا هم يبغون فى الارض بغير الحق

۳_ انسان ، خدا تعالى كى دستگيرى كے مقابلے ميں ناشكرا ہے_فلما انجاهم اذا هم يبغون فى الارض بغير الحق

۴_ انسان، عہد شكن او كمزور پيمان والا ہوتا ہے_

لئن انجيتنا من هذه لنكونن من الشاكرين فلما انجاهم اذا هم يبغون فى الارض بغير

۴۴۴

الحق

۵_ انسان ، بے انصاف اور خود سر ہوتا ہے_اذا هم يبغون فى الارض بغير الحق

( غير حق كے ساتھ بغى ) دوسروں پر ظلم كرنے اور ان كے حقوق پر ڈاكہ ڈالنے سے كناية ہے فعل مضارع (يبغون)كا استعمال كہ جو استمرار پر دلالت كرتا ہے، انسان كے خودسر ہونے اپنے حق پر قناعت نہ كرنے اور دوسروں كے حقوق تك دست درازى كرنے كو بيان كر رہا ہے_

۶_ دنيا طلبى اور دنيا پرستى انسان كے خود سر اور بے انصاف بن جانے كاپيش خيمہ ہے_

اذا هم يبغون فى الارض بغير الحق متاع الحياة الدنيا

۷_ خودسر اور غير منصف افراد كى كاميابى ، تيزى سے گزرجانے والى دنياوى زندگى تك محدود ہے_

اذا هم يبغون فى الارض بغير الحق متاع الحياة الدنيا

۸_ دنيا سے ظالمانہ طريقے سے بہرہ مند ہونا، خدا تعالى كى ناشكرى ہے_

لئن انجيتنا من هذه لنكونن من الشاكرين فلما انجاهم اذا هم يبغون فى الارض بغير الحق متاع الحياة الدنيا

۹_ بے انصافى اور خودسرى كا نقصان موت كے بعد والے جہان ميں خود ان خود سراور غير منصف افرادكے دامنگير ہوگا_

انما بغيكم على انفسكم ثم الينا مرجعكم

۱۰_خدا تعالى ، انسان كے سب اعمال سے آگاہ ہے_ثم الينا مرجعكم فننبئكم بما كنتم تعملون

۱۱_موت كے بعد والے عالم ميں انسان كا اپنے سب اعمال سے آگاہ ہونا _ثم الينا مرجعكم فننبئكم بما كنتم تعملون

۱۲_دنيا ميدان عمل اور موت كے بعد والا جہان جزا و سزا كى جگہ ہے_

اذا هم يبغون متاع الحياة الدنيا ثم الينا مرجعكم فننبئكم بما كنتم تعملون

۱۳_ زيد ابن اسلم سے روايت كى گئي ہے كہ پيغمبر(ص) نے فرمايا ''لا يؤخر الله عقوبة البغى فان الله قال '' انما بغيكم على انفسكم '' (۱)

خدا تعالى ظلم كى سزا كو مؤخر نہيں كرتا كيونكہ خوا تعالى نے فرمايا ہے كہ يقينا تمہارا ظلم خود تمہارے اوپر ہے_

آخرت :آخرت مقام پاداش ۱۲; آخرت مقام سزا ۱۲

____________________

۱) الدر المنثور ج۴ ص ۳۵۲_

۴۴۵

اخلاص :اسكے اثرات۱

انسان :اس كا خود سر ہونا ۵;اس كا ظلم اور تجاوز كرنا ۲،۵; اس كا كفران ۲،۳; اسكى صفات ۳،۴،۵; اسكى عہد شكنى ۲،۴; يہ خطرہ ٹل جانے كے بعد ۲

تجاوز :اس كا سرچشمہ۶;اسكے اثرات ۹

خدا تعالى :اس كا علم ۱۰

خود :خود پر ظلم ۱۳

خودسر لوگ:انكا سرور ۷; يہ آخرت ميں ۹

خودسر ہونا :اس كاپيش خيمہ ۶; اسكے اثرات ۹

دعا :خالصانہ دعا كا قبول ہونا ۱

دنيا :اس سے ناپسنديدہ استفادہ كرنا ۸; دنيا عمل كى جگہ ۱۲

دنيا پرستى :اسكے اثرات ۶

روايت: ۱۳

ظالم لوگ :انكا سرور ۷; يہ آخرت ميں ۹

عمل :آخرت ميں عمل سے آگاہى ۱۱; اسكى فرصت ۱۲

كفران :كفران نعمت كے موارد ۸

مشركين :انكى دعا ۱

۴۴۶

آیت ۲۴

( إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاء أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالأَنْعَامُ حَتَّىَ إِذَا أَخَذَتِ الأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلاً أَوْ نَهَاراً فَجَعَلْنَاهَا حَصِيداً كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالأَمْسِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ )

زندگانى دنيا كى مثال صرف اس بارش كى ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل كيا پھر اس سے مل كر زمين سے وہ نباتات بر آمد ہوئيں جن كو انسان اور جانور كھا تے ہيں يہاں تك كہ جب زمين نے سبزہ زارسے اپنے كو آراستہ كر ليا اور مالكوں نے خيال كرنا شروع كرديا كہ اب ہم اس زمين كے صاحب اختيار ہيں تو اچانك ہمارا حكم رات ياد ن كے وقت آگيا او رہم نے اسے بالكل كٹا ہو ا كھيت بناد يا گو يا اس ميں كل كچھ تھا ہى نہيں _ ہم اسى طرح اپنى آيتوں كو مفصل طريقہ سے بيان كرتے ہيں اس قوم كے لئے جو صاحب فكر و نظر ہے _

۱_ دنياوى زندگى ايسے سر سبز كھيت كى مانند ہے كہ جسے تباہ كن آفتوں اور حوادث كا خطرہ ہے_

انما مثل الحياة الدنيا كماء حتى اذا اخذت الارض زخرفها وازينت اتاها امرنا

۲_ دنيادار لوگ اس كسان كى مانند ہيں جسے اسكے سرسبز و شاداب اور پھولنے پھلنے والے كھيت نے مست اور آپے سے باہر كرديا ہو چنانچہ وہ كمين ميں بيٹھى ہوئي سب آفتوں اور حوادث سے غافل اور آسودہ خاطر ہو كر گہرى نيند سوجائے_

۴۴۷

انما مثل الحياة الدنيا و ظن اهلها انهم قادرون عليها اتاها امرنا ليلا او نهار

۳_ خدا تعالى ، آسمانوں سے بارش برساتاہے_كماء انزلناه من السماء

۴_ پانى ، نباتات كے اگنے اور انكے پھلنے پھولنے كا سامان فراہم كرتاہے_كماء انزلنا ه من السماء فاختلط به نبات الارض

۵_ نباتات كى مختلف اور متنوع اقسام ہيں جو انسانوں اور جانوروں كى خوراك كے لئے مناسب ہيں _

نبات الارض مما يا كل الناس و الانعام

۶_ نباتات ، پانى كے ساتھ مخلوط ہيں _فاختلط به نبات الارض

۷_ نباتات، انسان اور جانوروں كى غذا كے سرچشمے ہيں _فاختلط به نبات الارض مما يا كل الناس و الانعام

۸_ نباتات، زمين كى زينت ہيں _فاختلط به نبات الارض حتى اذاا خذت الارض زخرفها وازينت

۹_ دنيا ، فريب دينے والى جگہ ہے_انما مثل الحياة الدنيا كمائ حتى اذا اخذت الارض زخرفها و ازينت

دنيا كو سر سبز اور خوبصورت كھيت كے ساتھ تشبيہ دينا مندرجہ بالانكتے كو بيان كر رہا ہے_

۱۰_دنيا نا امن جگہ ہے اور اس ميں آرام كو اپنا لينا اور اسكے مدار پر گردش كرنا ، كوتاہ نظرى كى علامت ہے_

انما مثل الحياة الدنيا كذلك نفصل الآيات لقوم يتفكرون

بعد والى آيت (و الله يدعواالى دار السلام ...) كو مد نظر ركھتے ہوئے اس آيت شريفہ ميں تمثيل اس حقيقت كو بيان كر رہى ہے كہ دنيا ايسا اقامتگاہ ہے جومہلك خطرات اور مختلف حوادث ميں گھرا ہوا ہے اور انسان كو ايسى جگہ پر اكتفا نہيں كرنا چاہيے اور اسے اپنى كوششوں كا ہدف نہيں بنانا چاہيے_ قابل ذكر ہے كہ آيت كا ذيل (لقوم يتفكرون ) بتاتا ہے كہ اہل دنيا عقل و فكر سے عارى لوگ ہيں _

۱۱_ دنيا كى باطنى حقيقت سے غفلت انسان كے اسكى ظاہرى خوبصورتى اورجلووں پر فريفتہ ہونے كا پيش خيمہ ہے_

انما مثل الحياة الدنيا كماء اذا اخذت زخرفها و ازينت كذلك نفصل الآيات لقوم يتفكرون

۴۴۸

۱۲_ قرآن كريم واضح اور ہر قسم كے ابہام سے پاك آيات كا مجموعہ ہے_كذلك نفصل الآيات

''تفصيل'' كا معنى ہے واضح كرنا اور ہر قسم كے ابہام كو دور كرنا _

۱۳_ قرآن كى ساخت آيت آيت كى صورت ميں ہے_كذلك نفصل الآيات

۱۴_ آنكھ سے نظر آنے والے نمونوں كو پيش كرنا ، خدا تعالى كا اپنى آيات كو واضح طور پر بيان كرنے كاايك طريقہ ہے_

انما مثل الحياة الدنيا كماء انزلناه كذلك نفصل الآيات لقوم يتفكرون

۱۵_ عالم طبيعت ( بارش برسنا، نباتات كا اگنا و غيرہ ) منبع تفكر اور خدا تعالى كى ربوبيت كى نشانى ہے_

كماء انزلناه من السماء فاختلط به نبات الارض كذلك نفصل الآايات لقوم يتفكرون

۱۶_ دنياوى زندگى كے ساتھ دل لگا لينا ، دنيا كى صحيح شناخت نہ ہونے كا نتيجہ ہے _

انما مثل الحياة الدنيا و ظن اهلها انهم قادرون عليها كذلك نفصل الآيات لقوم يتفكرون

۱۷_ دنيا كے ساتھ دل لگانے اور اسكے ظاہرى جلووں پر فريفتہ ہونے سے بچ كے رہناتفكر اور دور انديشى كى علامت ہے_

انما مثل الحياة الدنيا كذلك نفصل الآيات لقوم يتفكرون

۱۸_ صرف اہل فكر اور دانشور لوگ ، معارف قرآن سے بہرہ مند ہونے كيلئے لازمى قدرت ركھتے ہيں _

كذلك نفصل الآيات لقوم يتفكرون

آيات خدا :انہيں بيان كرنے كى روش ۱۴

بارش :اس كا برسنا ۳; اس كا سرچشمہ ۳; اسكى اہميت ۱۵

پانى :اس كا كردار ۴

تفكر :اسكى علامتيں ۱۷; اسكے سرچشمے ۱۵;عدم تفكر كى علامتيں ۱۰

چو پائے:انكى غذا كے سرچشمے۷

خدا تعالى :خدا تعالى كى ربوبيت كى علامتيں ۱۵; خدا تعالى

۴۴۹

كے افعال ۳

خلقت :اسكى اہميت ۱۵

دنيا :اس سے جاہل ہونے كے اثرات ۱۶; اس كا فريب دينا ۹; اس كا نا امن ہونا ۱۰

دنيا پرستي:اس سے اجتناب ۱۷; اس كا پيش خيمہ ۱۱; اسكى مذمت ۱۰; اسكے عوامل ۱۶

دور انديشى :اسكى علامتيں ۱۷

زمين :اسكى زينتيں ۸

غذا كى فراہمى :اسكے منابع ۷

غفلت :اسكے اثرات ۱۱

قرآن كريم:اس سے استفادہ ۱۸; اس سے بہرہ مند ہونے والے۱۸; اس كا واضح ہونا ۱۲;اسكى خصوصيات ۱۲،۱۳; اسكى ساخت ۱۲،۱۳; اسكى مثاليں ۱،۲

متفكرين:انكى خصوصيات ۱۸; يہ اور قرآن كريم ۱۸

مثاليں :دنيا طلب لوگوں كى مثال ۲;دنياوى زندگى كى مثال ۱; سرسبز كھيت كے ساتھ تمثيل ۱،۲;غافل كسان كے ساتھ تمثيل ۲

نباتات:انكا تنوع ۵ ; انكى اہميت ۷; انكى تركيبات ۶; انكے اگنے كى اہميت ۱۵;انكے اگنے كے عوامل ۴; انكے فوائد ۸

آیت ۲۵

( وَاللّهُ يَدْعُو إِلَى دَارِ السَّلاَمِ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )

اللہ ہر ايك كو سلامتى كے گھر كى طرف دعوت دتيا ہے او ر جسے چاہتا سيدھے راستہ كى ہدايت دے ديتا ہے _

۱_ بہشت ، سراسر سلامتى ، امن اور آرام كى جگہ ہے_و الله يدعوا الى دار السلام

۴۵۰

۲_ خدا تعالى لوگوں كو دنياكى نا پائدار زندگى پر فريفتہ ہونے سے ڈراتا ہے اور انہيں امن و سلامتى سے سرشار جگہ ( بہشت ) كى طرف دعوت ديتا ہے_انما مثل الحياة الدنيا و الله يدعوا الى دار السلام

۳_ انسان كا ہدايت حاصل كرنا اور راہ راست پر آجانا ، مشيت خدا كا مرہون منت ہے _

و يهدى من يشاء الى صراط مستقيم

۴_ خدا تعالى انسان كو سيدھى ، معتدل اور ہر قسم كے افراط و تفريط سے محفوظ راستے كى ہدايت كرتا ہے_

و يهدى من يشاء الى صراط مستقيم

۵_عن ابى جعفر(ع) يقول فى قول الله عزوجل: ''والله يدعوا الى دار السلام'' ان السلام هو الله عزوجل و داره الجنة (۱)

اللہ تعالى كے فرمان '' و اللہ يدعوا الى دار السلام '' كے بارے ميں امام باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ(ع) نے فرمايا سلام خدا تعالى كا نام ہے اور اس كا گھر جنت ہے_

۶_عن رسول الله ''الصراط المستقيم الاسلام'' (۲)

پيغمبر اكرم (ص) سے روايت كى گئي ہے كہ صراط مستقيم، اسلام ہے_

انسان :اسكى ہدايت كے عوامل ۳;اسے ہدايت كرنے والا ۴

بہشت :اسكى خصوصيات ۱; اسكى دعوت ۲; اس ميں آرام ۱; اس ميں امن ۱;اس ميں سلامتى ۱

خدا تعالى :اسكى دعوتيں ۲; اسكى مشيت كى اہميت ۳; اسكى نواہى ۲; اسكى ہدايات ۴

دار السلام :اس سے مراد ۵

دنيا پرستى :اس سے نہى ۲

روايت :۵،۶

صراط مستقيم :اس سے مراد ۶; اسكى ہدايت ۴

____________________

۱) معانى الاخبار ص ۱۷۷ح ۲_ نو ر الثقلين ج ۲ ص ۳۰۰ ح ۴۲_

۲) تفسير قرطبى ج ۴،جز ۸ص ۳۲۹_

۴۵۱

آیت ۲۶

( لِّلَّذِينَ أَحْسَنُواْ الْحُسْنَى وَزِيَادَةٌ وَلاَ يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلاَ ذِلَّةٌ أُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ )

جن لوگوں نے نيكى كى ہے ان واسطے نيكى بھى ہے اور اضافہ بھى اور ان كے چہروں پر نہ سياہى ہوگى اورنہ ذلت ، وہ جنت والے ہيں اور وہيں ہميشہ رہنے والے ہيں _

۱_ اخروى پاداش صرف نيكوكاروں كيلئے ہے_للذين احسنوا الحسنى

خبر ''للذين '' كا مبتداء'' الحسنى '' پر مقدم كرنا حصر كا فائدہ ديتا ہے_

۲_ آخرت ميں نيك لوگوں كى پاداش بہترين قسم كى پاداش ہے_للذين احسنوا الحسنى

۳_ آخرت ميں نيك لوگ بہترين پاداش كے علاوہ بے شمار اور ناقابل بيان نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے_

للذين احسنوا الحسنى و زيادة

''زيادة'' كا نكرہ لانا _ كہ جو تفخيم كيلئے ہے_ مندرجہ بالا مطلب كو بيان كر رہا ہے_

۴_ استحقاق سے بڑھ كر پاداش دينا شائستہ اور قابل قدر كام ہے_للذين احسنوا الحسنى و زيادة

۵_ آخرت ميں نيك لوگ ہميشہ خوش و خرم ، بانشاط ، محترم اور عزيز ہوں گے_للذين احسنوا و لا يرهق وجوههم قتر ولاذلة

'' رہق' ' كا معنى ہے چھپانا اور '' قتر '' كا معنى ہے سياہ دھواں اور'' ذلة'' جو كہ عزت كے مقابل ميں ہے،كا معنى خفت اور خوارى ہے يعنى نيكوكار لوگوں كے چہروں پر غم و اندوہ اور خوارى كا غبار نہيں ہو گا، اور يہ كناية ہے اس سے كہ يہ لوگ ہميشہ خوش و خرم اور محترم ہوں گے_

۶_ نيكو كارلوگ بہشتى ہيں _للذين احسنوا اولئك اصحاب الجنة

۷_ نيك لوگ، ہميشہ رہنے والى بہشت ميں ہوں گے_للذين احسنوا اولئك اصحاب الجنة هم فيها خالدون

۸_ جہان آخرت ،ہميشہ رہنے والى جگہ ہے_اولئك اصحاب الجنة هم فيها خالدون

۴۵۲

۹_عن ابى جعفر(ع) فى قوله '' للذين احسنوا الحسنى و زيادة'' فاما الحسنى الجنة و اما الزيادة فالدنيا ما اعطاهم الله فى الدنيا لم يحاسبهم به فى الاخرة (۱)

امام باقر (ع) سے اللہ تعالى كے فرمان '' نيكى كرنے والوں كيلئے بہترين پاداش اور مزيد خير ہے'' روايت كى گئي ہے كہ آپ نے فرمايا بہترين پاداش سے مراد بہشت ہے اور مزيد سے مراد دنيا ميں خدا تعالى كے عطيے ہيں خدا تعالى نے انہيں دنيا ميں جو كچھ ديا ہے آخرت ميں ان سے اس كا حساب نہيں لے گا

۱۰ _امام على (ع) سے روايت كى گئي ہے'' الزيادة غرفة من لو لؤة واحدة لها اربعة ابواب '' (۲)

اس آيت شريفہ ميں زيادہ سے مرادايك لو لو كا بنا ہوا كمرہ ہے كہ جسكے چار دروازے ہيں _

۱۱_ پيغمبر اكرم (ص) سے روايت كى گئي ہے'' الذين احسنوا'' اهل التوحيد و '' الحسني'' الجنة و''الزيادة '' النظر الى وجه الله (۳)

نيكى كرنے والوں سے مراد اہل توحيد ،''حسني'' سے مراد بہشت اور ''زيادہ'' سے مراد وجہ اللہ كى طرف نظر ہے_

آخرت :اس كا دائمى ہونا ۸; اس كى خصوصيات ۸

بہشت :اس ميں ہميشہ رہنے والے۷

بہشتى :۶پاداش:اخروى پاداش كے درجے ۲;دوگنى پاداش ۳; دوگنى پاداش سے مراد ۹،۱۰،۱۱; دوگنى پاداش كى قدر وقيمت ۴

روايت :۹،۱۰،۱۱

عمل :پسنديدہ عمل ۴مرواريد كا كمرہ :۱۰

نيكوكار لوگ:ان سے مراد ۱۱;انكا اخروى سرور ۵;انكى اخروى پاداش ۱،۲،۳; انكى اخروى عزت ۵; انكى پاداش ۹; انكے فضائل ۱،۳،۵; يہ بہشت ميں ۶،۷،۹

____________________

۱)تفسير قمى ج ۱ص ۳۱۱_ نور الثقلين ج۲ ص ۳۰۱ح ۴۷_

۲) تفسير طبرى ج ۶ص ۵۵۲_ مجمع البيان ج۵ص ۱۵۸_

۳) الدر المنثور ج ۴ ص ۳۵۷_

۴۵۳

آیت ۲۷

( وَالَّذِينَ كَسَبُواْ السَّيِّئَاتِ جَزَاء سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ مَّا لَهُم مِّنَ اللّهِ مِنْ عَاصِمٍ كَأَنَّمَا أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعاً مِّنَ اللَّيْلِ مُظْلِماً أُوْلَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ )

اور جن لوگوں نے برائياں كمائي ہيں ان كے لئے ہر برائي كے بدلے ويسى ہى برائي ہے اور ان كے چہروں پر گناہوئں كى سياہى بھى ہوگى او رانھيں عذاب الہى سے بچانے والا كوئي نہ ہوگا _ ان كے چہر ے پر جيسے سياہ رات كى تاريكى كا پردہ ڈال ديا گيا ہو _ وہ اہل جہنم ہيں اور اسى ميں ہميشہ رہنے والے ہيں _

۱_ دنيا ميدان عمل اورآخرت جزا و سزا كى جگہ ہے_للذين احسنوا الحسنى و الذين كسبوا السيئات جزاء سيئة بمثله

۲_ قيامت والے دن خدا تعالى گناہگاروں كو سزا دينے كيلئے عدل او ر نيكوكاروں كو پاداش دينے كيلئے فضل سے كام لے گا _

للذين احسنوا الحسنى و زيادة و الذين كسبوا السيئات جزاء سيئة بمثله

نيكوكاروں كو پاداش دينے كيلئے ''الحسنى '' اور ''زيادہ'' كى تعبير فضل كو اورگناہگاروں كو سزادينے كيلئے '' جزاء سيئة بمثلہا ''كى عبارت عدل اور نفى ظلم كو بيان كر رہى ہے_

۳_ قيامت ميں گناہگار لوگ اپنے برے اعمال كى سزا سے دوچار ہوں گے _و الذين كسبوا السيئات جزاء سيئة بمثله

۴_ قيامت ميں ہر برے كام كى سزا اس برے كام كے ساتھ متناسب ہوگي_جزاء سيئة بمثله

۵_ گناہگار لوگ ، جہان آخرت ميں ايسى ذلت و خوارى ميں مبتلا ہوں گے جو ناقابل بيان ہے_

و الذين كسبوا السيئات و ترهقهم ذلة

۴۵۴

'' ذلة'' كى تنكير اس حقيقت كو بيان كر رہى ہے كہ گناہگار لوگوں كى ذلت و خوارى ناقابل بيان ہے_

۶_ گناہگار لوگ آخرت ميں خداتعالى كے غيظ و غضب اور عذاب ميں مبتلا ہوں گے_

و الذين كسبوا السيئات ما لهم من الله من عاصم

'' مالهم من الله من عاصم '' سے مراد ہے''مالهم من عذاب الله من عاصم ''

۷_ جہان آخرت ، گناہگاروں كى تنہائي اور انكى ہر قسم كى شفاعت سے محروميت كى جگہ ہے _

و الذين كسبوا السيئات مالهم من الله من عاصم

۸_ قيامت ميں گناہگار لوگوں كے چہرے تاريك رات كے ٹكڑے كى مانند سياہ ہوں گے _

و الذين كسبوا السيئات كا نما اغشيت وجوههم قطعا من الليل مظلم

۹_ گناہگار لوگ ، اہل دوزخ ہيں اور اس ميں ہميشہ رہيں گے_و الذين كسبوا السيئات اولئك اصحاب النار هم فيها خالدون

۱۰_ آخرت ميں انسان كا اچھا اور برا انجام اسكے اپنے عمل كا نتيجہ ہے_

و الذين كسبوا السيئات اولئك اصحاب النار هم فيها خالدون

۱۱_عن ابى جعفر(ع) فى قوله '' و الذين كسبوا السيئات ''قال هو لاء اهل البدع و الشبهات و الشهوات ...'' (۱)

اللہ تعالى كے اس فرمان '' جن لوگوں نے برائياں كى ہيں ...'' كے بارے ميں امام باقر (ع) سے روايت كى گئي ہے_كہ يہ اہل بدعت و شبہات اور شہوت پرست لوگ ہيں _

آخرت :آخرت مقام پاداش ۱; آخرت مقام كيفر ۱

انجام :اس ميں موثر عوامل ۱۰

انسان :اس كا انجام ۱۰

بدعت گزار لوگ :انكا گناہ ۱۱

تشبيہات :

____________________

۱) تفسير قمى ج ۱ص ۳۱۱_ نور الثقلين ج ۲ص ۳۰۲ح ۵۳_

۴۵۵

تاريك شب كے ساتھ تشبيہ ۸

جہنم :اس ميں ہميشہ رہنے والے ۹

جہنمى :۹

خدا تعالى :خدا تعالى كا اخروى فضل ۲;خدا تعالى كا عدل ۲; خدا تعالى كى پاداش ميں فضل ۲;

دنيا :دنيا ميدان عمل ۱

ذلت :اخروى ذلت كے درجے ۵

روايت ۱۱

سزا :اخروى سزا ميں عدل ۲;اس كا گناہ كے ساتھ متناسب ہونا ۴; سزا كا نظام ۴

شفاعت :اخروى شفاعت سے محروم لوگ ۷

عذاب :اہل عذاب ۶

عمل :اخروى عمل كے اثرات ۱۰; عمل كى اخروى سزا ۴; عمل كى فرصت ۱;ناپسنديدہ عمل ۴

قرآن كريم:اسكى تشبيہات ۸

قيامت :اس كى خصوصيات ۷; اس ميں رو سياہ لوگ ۸

گناہ گار لوگ:انكى اخروى بے چارگى ۷; انكى اخروى ذلت ۵; انكى اخروى سزا ۳; انكى اخروى محروميت ۷; قيامت ميں انكا منظر ۸; يہ جہنم ميں ۹; يہ قيامت ميں ۳،۶

مغضوب افراد:۶

۴۵۶

آیت ۲۸

( وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعاً ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُواْ مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَآؤُكُمْ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ وَقَالَ شُرَكَآؤُهُم مَّا كُنتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ )

جس دن ہم سب كو اكٹھا جمع كريں گے اور اس كے بعد شرك كرنے والوں سے كہيں گے كہ تم اور تمھارے شركاء سب اپنى اپنى جگہ ٹھہر و اور پھر ہم ان كے در ميان جدائي ڈال ديں گے اور ان كے شركاء كہيں گے تم ہمارى عبادت تو نہيں كرتے تھے _

۱_ مشركين ، گناہگار لوگ ہيں _و الذين كسبوا السيئات و يوم نحشرهم

''نحشرہم '' ميں '' ہم '' ضمير كا مرجع''الذين احسنوا '' اور'' الذين كسبوا السيئات '' ہے'' ثم نقول للذين اشركوا ...'' قرينہ ہے كہ مشركين جملہ''الذين كسبوا السيئات '' كا ايك مورد نظر مصداق ہيں _

۲_ روز محشر اور اسكى دشواريوں كو ياد ركھنا ، اہل ايمان كو ايك نصيحت _و يوم نحشرهم

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پرہے كہ '' يوم '' فعل مقدر ''اذكروا'' كا مفعول بہ ہے_

۳_ قيامت سب انسانوں ( نيك ، بد اور مومن و مشرك) كے محشوراور جمع كرنے كا دن _

للذين احسنوا و الذين كسبوا السيئات و يوم نحشرهم جميع

''نحشرہم '' كى ''ہم '' ضمير كا مرجع نيك اور برے دونوں گروہ ہيں _

۴_ قيامت والے دن مشركين كا حساب كتاب كيلئے روكا جانا اور انہيں دوسروں سے جدا كرنا_

و يوم نحشرهم جميعا ثم نقول للذين اشركوا مكانكم انتم و شركاؤكم فزيلنا بينهم ما كنتم ايانا تعبدون

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ'' بينهم '' كى

''ھم'' ضمير كا مرجع ميدان محشر ميں جمع ہونے والے سب لوگ ( نيك ، برے اور مومنين و مشركين) ہوں _ يعنى محشر ميں سب خلائق كے جمع كرنے كے بعد مشركين كو ٹھہرنے كا حكم ديا جائيگا پھر انكے اور دوسروں كے در ميان جدائي ڈال دى جائيگى _

۴۵۷

۵_ قيامت ميں مشركين كو انكے ان معبودوں كے ہمراہ محشور كيا جائيگا جنكى وہ پرستش كرتے تھے_

ثم نقول للذين اشركوا مكانكم انتم و شركاؤكم

۶_ قيامت ، خدا تعالى كے انسانوں كے در ميان فيصلہ كرنے كا دن _

و يوم نحشرهم جميعا ثم نقول للذين اشركوا مكانكم انتم و شركاؤكم فزيلنا بينهم

۷_ خدا تعالى ميدان محشر ميں مشركين اور انكے معبودوں كو روكنے كے بعد سب سے پہلے انہيں ايك دوسرے سے جدا كريگا پھر انكى تفتيش اور عدالتى كاروائي شروع كريگا _ثم نقول للذين اشركوا مكانكم انتم و شركاؤكم فزيلنا بينهم ما كنتم ايانا تعبدون

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ '' بينہم'' كى ضمير كا مرجع مشركين اورانكے معبود ہوں قابل ذكر ہے كہ تزييل ( ذيلنا كا مصدر ) كا معنى ہے دوچيزوں كو ايك دوسرے سے جدا كرنا اور انكے در ميان جدائي ڈالنا_

۸_قيامت والے دن يہ معبود ( بت) اپنى پرستش سے بے خبر ى كا اظہار كريں گے اور اس كا انكار كريں گے_

و يوم نحشرهم جميعا و قال شركاؤهم ما كنتم ايانا تعبدون

۹_ جن بتوں كى مشركين عبادت كرتے تھے آخرت ميں وہ باشعور اور بولنے پر قادر ہوں گے_

و يوم نحشرهم جميعا و قال شركاؤهم ما كنتم ايانا تعبدون

۱۰_قيامت والے دن بت ، مشركين كے ساتھ بات كريں گے_ثم نقول للذين اشركوا قال شركاؤهم ما كنتم ايانا تعبدون

انسان :اس كا محشور ہونا ۳

باطل معبود:انكا محشور ہونا ۵; يہ قيامت ميں ۵

بت :بت قيامت ميں ۸،۱۰; بتوں كا مشركين كے ساتھ بات كرنا ۱۰; قيامت والے دن بتوں كا بات كرنا۹; قيامت والے دن بتوں كا با شعور ہونا ۹

خداتعالى :

۴۵۸

اسكى قضاوت ۶;اسكى نصيحتين۲

ذكر:ذكر قيامت كى اہميت ۲

قيامت :قيامت كى خصوصيات ۳،۶،۹; قيامت ميں قضاوت ۶; قيامت ميں محشوركرنا ۳

گناہ گار لوگ :۱

مشركين :انكا محشور ہونا ۵;انكا ناپسنديدہ عمل ۱;انكى اخروى تفتيش ۴،۷; انكى خصوصيات ۱; انكے خلاف آخرت ميں عدالتى كاروائي ۴،۷; قيامت والے دن ان كے بت ۹; يہ اور باطل معبود ۵;يہ قيامت ميں ۵،۷

مومنين:انہيں وصيت ۲

آیت ۲۹

( فَكَفَى بِاللّهِ شَهِيداً بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِن كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ )

اب خدا ہمارے اور تمھارے در ميان گواہى كے لئے كافى ہے كہ ہم تمھارى عبادت سے بالكل غافل تھے _

۱_ قيامت والے دن بت ، خداتعالى كو گواہ بنائيں گے كہ انہيں مشركين كى عبادت كى كوئي خبر نہ تھى _

فكفى بالله شهيدا بيننا و بينكم ان كنا عن عبادتكم لغافلين

۲_ جاہليت كے عرب، مشرك اور بت پرست تھے_فكفى ان كنا عن عبادتكم لغافلين

۳_ آخرت ميں مشركين كے بت ، باخبر ، با شعور اور بولنے پر قادر ہوں گے_

و قال شركاؤهم فكفى بالله شهيدا بيننا و بينكم ان كنا عن عبادتكم لغافلين

۴_ قيا مت والے دن مشركين كے بت ، خداتعالى كى وحدانيت اور اشياء كے ظاہر و باطن سے اسكى آگاہى كا اعتراف كريں گے_فكفى بالله شهيدا بيننا و بينكم ان كنا عن عبادتكم لغافلين

۵_ قيامت والے دن خداتعالى كى گواہى كامل اور

۴۵۹

دوسروں كى گواہى سے بے نياز كردينے والى ہوگى _فكفى بالله شهيدا بيننا و بينكم ان كناعن عبادتكم لغافلين

بت پرست لوگ ۲

بت :انكا اخروى اقرار ۴;انكے گواہ ۱; قيامت ميں انكا بات كرنا ۳; قيامت ميں انكا شعور ۳; يہ اورتوحيد كا اقرار ۴;يہ اور علم خدا كا اقرار ۴; يہ قيامت ميں ۱

جاہليت :اس ميں بت پرستى ۲; اس ميں شرك ۲

خدا تعالى :خدا تعالى كى اخروى گواہى ۵; خداتعالى كى گواہى كى خصوصيات ۵

مشركين :۲

آیت ۳۰

( هُنَالِكَ تَبْلُو كُلُّ نَفْسٍ مَّا أَسْلَفَتْ وَرُدُّواْ إِلَى اللّهِ مَوْلاَهُمُ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَفْتَرُونَ )

اس وقت ہر شخص اپنے گذشتہ اعمال كا امتحان كرے گا اور سب مولائے بر حق خداوند تھالى كى بارگاہ مين پلٹا ديئے جائيں گے اورجو كچھ اقترا كررہے تھے وہ سب بھٹك كر گم ہوجائے گا _

۱_ ميدان محشر ميں لوگوں كى شديد پريشانى اور اضطراب_و يوم نحشرهم جميعا هنا لك تبلوا كل نفس ما اسلفت

بلاء ( تبلوا كا مصدر ) كا معنى ہے آزمانا _ ميدان محشر ميں ہر شخص كا آزمائش اور اپنے اعمال كو ہلكا اور بھارى كرنے ميں مشغول ہونا اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ اس دن سب لوگ اپنے كام كے انجام كے سلسلے ميں بہت پريشان اور مضطرب ہوں گے_

۲_ ميدان محشر ميں ہر شخص كا اچھا اور برا انجام اسكے اپنے

۴۶۰

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746