تفسير راہنما جلد ۷

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 746

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 746 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 190567 / ڈاؤنلوڈ: 4724
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۷

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

۱۰_ تاريخ بشر بے انصاف لوگوں اور ظالموں كى طرف سے انبياء الہى كى مخالفت اور ان كے مقابلے كى شاہد رہى ہے_

كذلك كذب الذين من قبلهم فانظر كيف كان عاقبة الظالمين

۱۱_ انبياء الہى كى بعثت مظلوموں كو ظالموں سے نجات دينے كيلئے ہوئي _

كذلك كذب الذين من قبلهم فانظر كيف كان عاقبة الظالمين

طول تاريخ ميں ظالموں كے انبياء (ع) الہى كے مقابلے ميں آنے سے مندرجہ بالا مطلب حاصل ہوتاہے _

۱۲_ ظلم و نا انصافى ، قيامت كے انكار اور دين و انبياء (ع) كے جھٹلانے كا پيش خيمہ ہے_

بل كذبوا بما لم يحيطوا بعلمه فانظر كيف كان عاقبة الظالمين

۱۳_ تاريخ كے ظالموں كى روداد اور انكے برے انجام كا مطالعہ ضرورى اور باعث عبرت ہے_

فانظر كيف كان عاقبة الظالمين

۱۴_ امام على (ع) سے روايت كى گئي ہے_'' قلت اربعا انزل الله تعالى تصديقى بها فى كتابه قلت فمن جهل شيئا عاداه فانزل الله '' بل كذبوا بما لم يحيطوا بعلمه ...'' (۱)

ميں نے چار ايسى باتيں كہيں جنكے سلسلے ميں ميرى تصديق خدا تعالى نے قرآن ميں نازل فرمائي ( ايك يہ كہ ) ميں نے كہا جو شخص كسى چيز سے جاہل ہوتا ہے وہ اسكے ساتھ دشمنى كرتا ہے پس خدا تعالى نے يہ مطلب نازل فرماديا '' بلكہ انہوں نے ايسى چيز كو جھٹلايا كہ جسكے علم كا احاطہ نہ ركھتے تھے''_

انبياء (ع) :انكى بعثت كا فلسفہ ۱۱;انكى رسالت ۶;انكى طرف سے ظلم كى مخالفت ۱۱;انكى ہم آہنگى ۶; انكے مخالفين كا انجام ۹;انكے مخالفين كا عذاب ۹; انہيں جھٹلانے كا پيش خيمہ ۱۲; انہيں جھٹلانے كى سزا ۷; انہيں جھٹلانے والے ۱۴; تاريخ ميں انكى مخالفت كرنے والے ۹،۱۰

جاہليت :جاہليت كے مشركين اور قيامت ۲،۳

جہالت :اسكے اثرات ۱۴

دشمنى :اس كا سرچشمہ ۱۴; انبياء (ع) كى دشمنى كى سزا ۷

____________________

۱) امالى شيخ طوسى ج ۲ص ۱۰۸مجلس ۱۷_بحار الانوار ج ۱ ص۱۶۶ح ۵_

۴۸۱

دين :اسكے جھٹلانے كا پيش خيمہ ۱۲

روايت :۱۴

شرك :اسكى تاريخ ۴

ظالم لوگ:انكى روداد كا مطالعہ ۱۳; انكے انجام سے عبرت ۱۳; يہ اور انبياء ۱۰;يہ تاريخ ميں ۱۰

ظلم :اسكے اثرات ۱۲

عبرت :اسكے عوامل ۱۳

عذاب :تہس نہس كر دينے والا عذاب ۷،۹; تہس نہس كردينے والے عذاب كى دھمكى ۸

قرآن كريم :اسے جھٹلانے كے عوامل ۱; اسے جھٹلانے والے ۱

قيامت :اسكى اہميت ۶; اسے جھٹلانے كا پيش خيمہ ۱۲; اسے جھٹلانے والے ۳،۵

مشركين :انكا عاجز ہونا ۱;انكا مشتركہ موقف۵; انكى جہالت ۲; صدر اسلام كے مشركين كو دھمكى ۸; يہ اور قرآن كريم ۱; يہ اور قيامت ۵

مظلومين:انكى نجات كى اہميت ۱۱

۴۸۲

آیت ۴۰

( وَمِنهُم مَّن يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُم مَّن لاَّ يُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ )

ان ميں بعض وہ ہيں جو اس پرايمان لاتے ہيں اور بعض نہيں مانتے ہيں اور آپكا پروردگار فسا د كر نے والوں كو خوب جانتا ہے _

۱_ بعض مشركين قرآن كريم كے آسمانى ہونے كاا عتقاد ركھنے كے باوجود اسے جھٹلانے پر تلے ہوئے تھے_

بل كذبوا و منهم من يؤمن به

يہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ضمير ''ہم'' كا

۴۸۳

مرجع;اس آيت كے سابقہ آيات كے ساتھ ارتباط كو پيش نظر ركھتے ہوئے ; قرآن كو جھٹلانے والے ہوں اور ''يؤمن'' سے مراد زمانہ حال ہو_

۲_ بعض مشركين قرآن كريم كے آسمانى ہونے كا عقيدہ نہ ركھتے ہوئے اسے جھٹلاتے تھے_و منهم من لا يؤمن به

يہ مطلب بھى اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ہم '' ضمير كا مرجع قرآن كو جھٹلانے والے ہوں _

۳_ زمين پربسنے والے سارے لوگ كبھى بھى قرآن كريم كا انكار اور اسكى تكذيب نہيں كريں گے_

و منهم من يو من به و منهم من لا يؤمن به

يہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ'' منہم'' كى ضمير سے مراد سب لوگ ہوں كہ اس صورت ميں يہ آيت قرآن كے روبرو ہونے كے وقت انكى حالت كو بيان كر رہى ہوگى _

۴_ زمين پر بسنے والے سب انسان كبھى بھى قرآن پر ايمان نہيں لائيں گے_و منهم من يؤمن به و منهم من لا يؤمن به

۵_ زمين پر بسنے والے انسان قرآن كريم كى نسبت ہميشہ دو گرو ہوں ميں بٹے ہوئے ہيں مومن اور كافر_

و منهم من يؤمن به و منهم من لا يؤمن به

۶_جو لوگ قرآن كريم كے آسمانى ہونے پرايمان ركھنے كے باوجو اسے جھٹلاتے ہيں وہ مفسد ہيں _

و منهم من يؤمن به وربك اعلم بالمفسدين

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ ضمير '' ہم'' كا مرجع قرآن كريم كو جھٹلانے والے ہوں اور ''المفسدين '' سے مراد پہلا گروہ '' من يؤمن بہ '' ہو_

۷_ جو لوگ قرآن كو قبول كرتے ہيں اور اس پر ايمان ركھتے ہيں وہ مفسد ہونے والى گھٹيا صفت سے پاك ہيں _

و منهم من يؤمن به و ربك اعلم بالمفسدين

۸_قرآن كريم كو جھٹلانے والے مفسد ہيں _و منهم من يو من به و منهم من لا يؤمن به و ربك اعلم بالمفسدين

۹_ خدا تعالى روئے زمين كے مفسدين سے سب سے زيادہ اور بہتر آگاہ ہے_و ربك اعلم بالمفسدين

۱۰_عن ابى جعفر (ع) فى قوله '' و منهم من لايؤمن به '' فهم اعداء محمد و آل محمد(ع) من بعده (۱)

____________________

۱)تفسير قمى ج ۱ ص ۳۱۲_ نور الثقلين ج ۲ ص ۳۰۵ح ۷۰_

۴۸۴

امام محمد باقر (ع) سے اللہ تعالى كے اس فرمان '' بعض و ہ ہيں جو قرآن پر ايمان نہيں ركھتے '' روايت كى گئي ہے كہ يہ آنحضرت(ص) اور ان كے بعد ان كى آل كے دشمن ہيں _

آنحضرت (ص) :آپ (ص) كے دشمن ۱۰

اہل بيت (ع) :انكے دشمن ۱۰

خدا تعالى :اسكى خصوصيات ۹

روايت :۱۰

عوام :عوام اور قرآن ۳،۴،۵

قرآن كريم :اس پر ايمان لانے والے۴،۵،۷; اسكے بارے ميں كفر كرنے والے ۵،۱۰;اسے جھٹلانے والوں كا مفسد ہونا ۶،۸; اسے جھٹلانے والے ۱،۲،۳

مشركين :انكى دشمنى ۱; صدر اسلام كے مشركين كا ليچڑپن ۱; يہ اور قرآن ۱،۲

مفسدين :۶،۸انكے بارے ميں خدا تعالى كو علم ۹

مومنين :انكى تنزيہ ۷

آیت ۴۱

( وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَاْ بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ )

اور اگر يہ آپ كى تكذيب كريں تو كہہ ديجئے كہ ميرے لئے ميراعمل ہے اور تمھارا عمل ہے _ تم سے برى اور ميں تمھارے اعمال سے بيزار ہوں _

۱_ پيغمبراكرم(ص) كو حكم تھا كہ مشركين كى طرف سے انكار اور تكذيب پر اصرار كى صورت ميں انہيں انكے حال پر چھوڑ كر ان كے باطل اعمال سے برائت كا اعلان كرديں _و ان كذبوك فقل و انا بري مما تعملون

۲_ حق كى طرف دعوت دينے والوں كيلئے ضرورى ہے كہ لوگوں كى طرف سے انكار حق پر اصرار كى صورت ميں انكے باطل سے برا ئت كا اعلان كر

۴۸۵

كے انہيں انكے حال پر چھوڑديں _و ان كذبوك فقل و انا بري مما تعملون

۳_ ہر شخص كے ا عمال كا نفع و نقصان صرف اسى شخص كے دامنگير ہوگا_لى عملى و لكم عملكم

مندرجہ بالا مطلب ميں حصر ، خبر'' لى '' اور ''لكم '' كے مبتدا پر مقدم كرنے سے حاصل ہوا ہے_

۴_ پيغمبر اكرم(ص) مشركين كے اعمال و كردار سے اور مشركين پيغمبر(ص) كے اعمال و كردار سے بيزار تھے_

انتم بريئون مما اعمل و انا بري مما تعملون

۵_ رسالت كو جھٹلانے والے مشركين كے مقابلے ميں پيغمبر (ص) كا موقف واضح اور قاطع تھا_

و ان كذبوك فقل لى عملى و لكم عملكم انتم بريئون مما اعمل و انا بري مما تعملون

۶_ دوسروں كے نيك اعمال و كردار سے راضى اور خوش ہونا انسان كو انكے منافع ميں حصہ دار بنا ديتا ہے_

لى عملى و لكم عملكم انتم بريئون مما اعمل و انا بري مما تعملون

ہو سكتا ہے جملہ ''انتم بريئون مما اعمل '' ان جملوں '' لى عملي'' اور'' لكم عملكم '' كے حصر كى علت كو بيان كر رہا ہو يعنى چونكہ تم مشركين ميرے اعمال سے بيزار ہو اسلئے ميرے اعمال كے منافع صرف ميرے لئے ہيں اور چونكہ ميں تمہارے كردار سے بيزار ہوں اسلئے تمہارے اعمال كے نقصانات صرف تمہارے لئے ہوں گے_

۷_ دوسروں كے برے اعمال و كردار پر خوش اور راضى ہونا انسان كو انكے نقصانات ميں حصہ دار بنا ديتا ہے_

لى عملى و لكم عملكم انتم بريئون مما اعمل و انا بري مما تعملون

اظہار برائت:باطل سے اظہار برائت ۲; مشركين سے اظہاربرائت۱

حق طلب لوگ :انكى ذمہ دارى ۲

راضى ہونا :اچھے عمل پر راضى ہونے كے اثرات ۶; ناپسنديدہ عمل پر راضى ہونے كے اثرات ۷

دينى راہنما:انكى ذمہ دارى ۲

عمل :اسكے اثرات ۳

محمد (ص) :آپ(ص) اور صدر اسلام كے مشركين ۵;آپ (ص) اور

۴۸۶

مشركين ۱،۴; آپ (ص) كا اظہار برائت ۴; آپ(ص) كى ذمہ دارى ۱;آپ(ص) كى سيرت ۵;آپ(ص) كى قاطعيت ۵; آپ(ص) كى ناخشنودى ۴

مشركين :انكا اظہار برائت ۴;انكى ناراضگى ۴; يہ اور حضرت محمد (ص) ۴

آیت ۴۲

( وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ أَفَأَنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُواْ لاَ يَعْقِلُونَ )

اور ان ميں سے بعض ايسے بھى ہيں جو بظاہر كان لگا كر سنتے بھى ہيں ليكن كيا آپ بہروں كو بات سنانا چاہتے ہيں جب كہ وہ سمجھتے بھى نہين ہيں _

۱_بعض مشركين پيغمبر اكرم (ص) كى باتوں اورآيات الہى كو آپ(ص) كى زبان مبارك سے بار بار سننے كے باوجود انہيں جھٹلانے پر تلے ہوئے تھے اور انكا انكار كرتے تھے_و منهم من يستمعون اليك و لو كانوا لا يعقلون

۲_جو مشركين قرآن كوپيغمبراكرم (ص) كى زبان مبارك سے سنتے تھے اور ايمان نہيں لاتے تھے انكى مثال ان لوگوں جيسى ہے جو قوت سماعت سے محروم اور عقل و فكر سے بے بہرہ ہوں _

ومنهم من يستمعون اليك افا نت تسمع الصم و لو كانوا لايعقلون

۳_ جو مشركين قرآن كريم كو پيغمبراكرم(ص) كى زبان اقدس سے سننے كے باوجود ايمان نہيں لاتے تھے ان كے دل سماعت سے محروم اور حقائق كو سمجھنے سے ناتوان تھے_و منهم من يستمعون اليك افا نت تسمع الصم و لو كانوا لا يعقلون

۴_ پيغمبراكرم (ص) كى باتوں كے مقابلے ميں مشركين كا ردعمل ڈھٹائي پر مبنى تھا_افا نت تسمع الصم و لو كانوا لا يعقلون

۵_ جو لوگ آيات قرآن پر كان دھر نے كے باوجود ايمان نہيں لاتے انكى مثال ايسى ہے جيسے قوت سماعت سے محروم اور قوت عاقلہ سے بے بہرہ ہوں _و منهم من يستمعون اليك افا نت تسمع الصم

۴۸۷

و لو كانوا لا يعقلون

۶_ جولوگ آيا ت قرآن پر كان دھريں اور ايمان نہ لائيں انكے دل سماعت سے محروم اور حق كو سمجھنے سے ناتوان ہيں _

و منهم من يستمعون اليك افا نت تسمع الصم و لو كانوا لا يعقلون

۷_ جو لوگ واضح اور روشن حق كو قبول كرنے سے روگردانى كرتے ہيں انكى راہنمائي كرنا ايك بے نتيجہ كام ہے_

و منهم من يستمعون اليك افا نت تسمع الصم و لو كانوا لايعقلون

۸_ جو لوگ واضح و روشن حق كو قبول كرنے سے روگردانى كرتے ہيں انہيں كوئي، حتى كہ پيغمبر(ص) بھى ہدايت نہيں كر سكتے_و منهم من يستمعون اليك افا نت تسمع الصم و لو كانوا لا يعقلون

تبليغ:اسكى شرائط۷; بے ثمر تبليغ ۷

تشبيہات :بہروں كے ساتھ تشبيہ ۲،۵; بے عقلوں كے ساتھ تشبيہ ۲،۵

حق :حق كو سننے سے محروم لوگ ۳،۶; حق كو قبول نہ كرنے والوں كى ہدايت ۷،۸

قرآن كريم :اسے جھٹلانے والوں كا حق كو نہ سننا ۶; اسے جھٹلانے والوں كا محروم ہونا ۲،۳،۵،۶; اسے جھٹلانے والے۱

مشركين :انكا حق كو نہ سننا ۳;صدر اسلام كے مشركين اور حضرت محمد(ص) ۴; صدر اسلام كے مشركين كا ليچڑپن ۴; صدر اسلام كے مشركين كا محروم ہونا ۲،۳; صدر اسلام كے مشركين كاموقف۴; مشركين اور قرآن كريم ۱

۴۸۸

آیت ۴۳

( وَمِنهُم مَّن يَنظُرُ إِلَيْكَ أَفَأَنتَ تَهْدِي الْعُمْيَ وَلَوْ كَانُواْ لاَ يُبْصِرُونَ )

اور ان ميں كچھ ہيں جو آپ كى طرف ديكھ رہے ہيں تو كيا آپ اندہوں كو بھى ہدايت دے سكتے ہيں چاہے وہ كچھ نہ ديكے پاتے ہوں _

۱_ بعض مشركين قريب سے پيغمبر اكرم(ص) كے اعمال و كردار كا مشاہدہ كرنے كے باوجود آپ(ص) كا اتباع كرنے سے كتراتے اور آپ (ص) كو جھٹلاتے تھے_و منهم من ينظر اليك و لو كانوا لا يبصرون

۲_ جو لوگ قريب سے پيغمبر (ص) كے اعمال و كردار كا مشاہدہ كرنے كے باوجود آپ(ص) كا اتباع نہيں كرتے تھے انكى مثال اس نابينا كى سى ہے جو دل كى بصيرت والى نعمت سے بھى محروم ہو_

و منهم من ينظر اليك افا نت تهدى العمى و لو كانوا لا يبصرون

۳_ جو لوگ دل كى بصيرت سے عارى ہوں انہيں كوئي بھى ، حتى كہ انبياء بھى ہدايت نہيں كر سكتے_

افا نت تهدى العمى و لو كانوا لا يبصرون

۴_ مشركين كا پيغمبر اكرم(ص) كے ساتھ سلوك ضداور ليچڑپن پر مبنى تھا_افا نت تهدى العمى و لو كانوا لا يبصرون

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كو جھٹلانے والوں كا اندھا ہونا ۲; آپ(ص) كو جھٹلانے والوں كا محروم ہونا ۲; آپ(ص) كو جھٹلانے والے ۱

بصيرت :اس سے محروم لوگ ۲; اس سے محروم لوگوں كى گمراہى ۳

۴۸۹

تشبيہات:اندھوں كے ساتھ تشبيہ ۲

مشركين :صدر اسلام كے مشركين اور حضرت محمد(ص) ۱،۴;صدر اسلام كے مشركين كا رويہ ۴; صدر اسلام كے مشركين كا ليچڑپن ۴; صدر اسلام كے مشركين كي

نافرمانى ۱

نافرمانى :حضرت محمد(ص) كى نافرمانى ۱

ہدايت :اسكى شرائط۳

آیت ۴۴

( إِنَّ اللّهَ لاَ يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئاً وَلَـكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ )

اللہ انسانوں پر ذرّہ برابر ظلم نہيں كرتا ہے بلكہ انسان خود ہى اپنے اوپر ظلم كيا كرتے ہيں _

۱_خدا تعالى كسى پر، چھوٹے سے چھوٹا ظلم بھى نہيں كرتا _ان الله لا يظلم الناس شيئ

۲_ انسان پر ہونے والا ہر ظلم خود اس كى اپنى طرف سے ہوتا ہے_ولكن الناس انفسهم يظلمون

۳_ كفار كا ہدايت كو قبول نہ كرنا اور انكى حق دشمنى انكے اس ظلم كا نتيجہ ہے جو انہوں نے اپنے اوپر كيا ہے_

و منهم من يستمعون اليك و منهم من ينظر اليك و لكن الناس انفسهم يظلمون

۴_ انسان اپنى بدبختى اور شقاوت كو خود وجود ميں لاتا ہے_و لكن الناس انفسهم يظلمون

۵_ انسان آزاد و مختار اور اپنے انجام كو خود معين كرتا ہے_و لكن الناس انفسهم يظلمون

۶_ امام ہادى (ع) سے روايت كى گئي ہے:''من زعم ان الله عزوجل اجبر العباد على المعاصى و عاقبهم عليها فقد ظلم الله فى حكمه و كذبه و رد عليه قوله : '' ان الله لا يظلم الناس شيئاً '' ...;

۴۹۰

... جس كا خيال يہ ہے كہ خدا تعالى نے بندوں كو گناہ كرنے پر مجبور كيا ہے اور پھر انہيں اس كى سزا ديتا ہے تو اس نے خدا كى طرف ظلم كى نسبت دى ہے اور اللہ تعالى كے اس فرمان ''خدا لوگوں پر بالكل ظلم نہيں كرتا'' كو جھٹلايا ہے_(۱)

اسما و صفات :صفات جلال ۱، ۶

انجام :اس ميں مؤثر عوامل ۵

انسان :اس كا اختيار ۵; اس كا كردار ۴; اسكى خصوصيات ۵

حق :حق دشمنى كے عوامل ۳

خدا تعالى :اس كا منزہ ہونا ۱;خدا تعالى اور ظلم ۱،۶

خود:خود پر ظلم كے اثرات ۳

روايت ۶

شقاوت :اسكے عوامل ۴

ظلم:اس كا سرچشمہ ۲

كفار :انكا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۳; انكى حق دشمنى ۳;انكے ظلم كے اثرات ۳

كفر :اسكے موارد ۶

ہدايت :اسے قبول نہ كرنے كے عوامل ۳

____________________

۱) تحف العقول ص ۴۶۱_ بحارالانوار ج ۵ص ۷۱ح۱_

۴۹۱

آیت ۴۵

( وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُواْ إِلاَّ سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِلِقَاء اللّهِ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ )

جس دن خدا ان سب كو محشور كرے گا اس طرح كہ جيسے دنيا ميں صرف ايك ساعت ٹھرے ہوں اور وہ آپس ميں ايك دوسرے كو پہچانتے ہوں گے يقينا جن لوگ نے خدا كى ملاقات كا انكار كيا ہے وہ خسارہ ميں رہے اور ہدايت يافتہ نہيں ہوسكے _

۱_ قيامت وہ دن ہے كہ جسے لوگوں كو ذہن ميں ركھنا چاہ ے اور ايك دوسرے كو اسكى ياد دہانى كرانى چاہئے_

ويوم يحشرهم

''يوم '' ياتو''ا ذكر'' كا مفعول بہ ہے يا'' ذكرہم'' محذوف كا دوسرا مفعول ہے يا ظرف ہے اور ''قد خسر'' كے متعلق ہے _ مندرجہ بالا مطلب پہلے اور دوسرے احتمال كى بنياد پر ہے_

۲_ قيامت والے دن لوگوں كا محشورہونا اس طريقے سے ہوگا كہ ايك دوسرے كو خوب پہچانتے ہوں گے_

ويوم يحشرهم يتعارفون بينهم

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ''يتعارفون بينهم'' و الا جملہ '' يحشرہم'' كى '' ہم '' ضمير سے حال ہو_

۳_ قيامت والے دن لوگ اپنے دنيا ميں ٹھہرنے كو بہت مختصر اور صرف چند لحظوں كے برابر محسوس كريں گے كہ جن ميں كچھ لوگ ايك دوسرے سے ملتے ہيں اور ايك دوسرے كو پہچانتے ہيں

و يوم يحشرهم كا ن لم يلبثوا الا ساعة من النهار يتعارفون بينهم

لغت ميں ''ساعة'' كا معنى ہے زمانے كا ايك حصہ ( چھوٹا يا بڑا)_ مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ '' لم يلبثوا'' كے متعلق ظرف ''دنيا'' ہو يعنى'' كا ن لم يلبثوا فى الدنيا '' _

۴۹۲

۴_ قيامت والے دن لوگ برزخ ميں اپنے ٹھہرنے كو بہت مختصر محسوس كريں گے _

و يوم يحشرهم كا ن لم يلبثوا الا ساعة من النهار

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ '' لم يلبثوا'' كا متعلق ظرف، مو ت كے بعد والا زمانہ ہو_

۵_ قيامت والے دن لوگ دو عالم ( دنيا اور برزخ) ميں اپنے ٹھہرنے كو بہت مختصر محسوس كريں گے_

و يوم يحشرهم كا ن لم يلبثوا الا ساعة من النهار

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ'' لم يلبثوا'' كا متعلق ظرف دنيا اور موت كے بعد والا زمانہ دونوں ہوںيعنى '' كا ن لم يلبثوا فى الدنيا و بعد الموت''

۶_ جو لوگ معاد كے انكار پر مصر رہے اور انہوں نے اس گمراہى سے ہاتھ نہ كھينچا توقيامت والے دن وہ گھاٹے ميں اور شكست خوردہ ہوں گے_و يوم يحشرهم قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله

۷_ قيامت ، خدا تعالى كے ساتھ ملاقات كرنے كا دن ہے_و يوم يحشرهم قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله

۸_ مشركين ، معاد كے منكر تھے_قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله

۹_ معاد كو جھٹلانا اور اس كا انكار كرنا ضلالت اور گمراہى ہے اور اس پر ايمان لانا اور اس كا اعتراف كرنا ہدايت ہے_

قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله و ما كانوا مهتدين

ايمان :معاد پر ايمان ۹

حشر :اسكى خصوصيات ۲

ذكر :ذكر قيامت كى اہميت ۱

زندگى :برزخى زندگى كا زمانہ ۴،۵; دنياوى زندگى كا زمانہ ۳،۵

قيامت :اسكى خصوصيات ۳،۴،۵،۷; اس ميں خدا كى ملاقات ۷

گمراہى :

۴۹۳

اسكے موارد ۹

گھاٹے ميں رہنے والے :يہ لوگ قيامت ميں ۶

محشر:اس ميں ايك دوسرے كى شناخت ۲

مشركين :يہ اور معاد ۸

معاد:اسے جھٹلانا ۹; اسے جھٹلانے والوں كا اخروى نقصان ۶، اسے جھٹلانے والے ۸

ہدايت :اسكے موارد ۹

آیت ۴۶

( وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللّهُ شَهِيدٌ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ )

اور ہم نے جن باتوں كا ان سے وعدہ كيا ہے انھيں آپ كو دكھاديں يا آپ كو پہلے ہى دنيا سے اٹھا ليں انھيں تو بہر حال پلٹ كر ہمارى ہى بارگاہ ميں آنا ہے اس كے بعد خدا خود ان كے اعمال كا گواہ ہے _

۱_ خدا تعالى نے مشركين كو بار بار تباہ كن عذاب كى دھمكى دى ہے_و اما نرينك بعض الذى نعدهم

''نعد'' فعل مضارع ہے جو استمرار پر دلالت كرتا ہے اور يہ ''وعد '' سے مشتق ہے جو خير اور شر دونوں ميں استعمال ہوتاہے_ يہاں پر چونكہ ''ہم '' ضمير كا مرجع مشركين ہيں اسلئے يہ شر اور دھمكى دينے كيلئے آيا ہے_

۲_ پيغمبر اكرم(ص) اضطراب اور پريشانى كے ساتھ خدا تعالى كى طرف سے مشركين پر عذاب نازل ہونے كے منتظر تھے_

و اما نرينك بعض الذى نعدهم او نتوفينك فالينا مرجعهم

آيت شريفہ پيغمبراكرم(ص) كو تسلى دے رہى ہے اس كا مطلب ہے كہ آنحضرت(ص) ميں ايك قسم كى پريشانى اور بے چينى موجود تھى _

۴۹۴

۳_ چونكہ مشركين ، كفار اور دشمنان دين ، خدا تعالى كى طرف پلٹ كرجانے اور عذاب جہنم ميں گرفتار ہونے سے فرار نہيں كر سكتے اسلئے انہيں خدا تعالى كى طرف سے مہلت ملنا پريشانى كا باعث نہيں ہے_

و اما نرينك بعض الذى نعدهم او نتو فينك فالينا مرجعهم

۴_ موت، انسان كى حقيقت كو مكمل طور پر ليناہے_او نتو فينك

'' توفي''كا معنى ہے كسى شے كو مكمل طور پر لے لينا(لسان العرب)

۵_ پيغمبر(ص) كى رحلت كے بعد ان معاشروں پر تباہ كن عذاب كا نازل ہونا ہر وقت ممكن ہے جو اس كے مستحق ہيں _

او نتوفينك فالينا مرجعهم

۶_ كفار كے عذاب كا مؤخر ہونا انكے فائدہ ميں نہيں ہے بلكہ يہ انكے اخروى عذاب كے مزيد شديد ہونے كا باعث ہے_

ثم الله شهيد على ما يفعلون

جس طرح عذاب كا مو خر ہونا پيغمبر(ص) كى پريشانى كا باعث تھا اسى طرح يہ كفار كيلئے ; بعد والى آيت كے قرينے سے (يقولون متى ہذا الوعد) ; ايك دستاويز بن گئي تھى تا كہ مومنين كا مزاق اڑا سكيں چنانچہ ہو سكتا ہے يہ جملہ '' ثم اللہ شہيد على ما يفعلون'' ( خدا تعالى تيرى جان لينے كے بعد انكے سب اعمال پر دقت كے ساتھ نظر ركھے ہوئے ہے);جيسے كہ اوپر والے مطلب ميں آچكا ہے; عذاب كے مؤخر ہونے كے حكم اور فلسفے كو بيان كر رہا ہو_

۷_ خدا تعالى لوگوں كےسب اعمال پر شاہد اور گواہ ہے_ثم الله شهيد على ما يفعلون

آنحضرت (ص) :آپ(ص) اور مشركين ۲; آپ(ص) كى پريشانى ۲

خدا تعالى :اسكى دھمكياں ۱; اسكى گواہى ۷

دين :اسكے دشمنوں كو مہلت ۳

عذاب:اخروى عذاب كے شديد ہونے كے عوامل ۶; تباہ كن عذاب، حضرت محمد(ص) كے بعد ۵; تباہ كن عذاب كا امكان ۵

عمل :اسكے گواہ ۷

كفار:انكا اخروى عذاب ۶;انكو مہلت ۳; انكے عذاب

۴۹۵

كے مؤخر ہونے كے اثرات ۶

مشركين :ان كا تباہ كن عذاب ۱; انكا عذاب ۲;انكو دھمكى ۱;انكو مہلت ۳

موت:اسكى حقيقت۴

آیت ۴۷

( وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولٌ فَإِذَا جَاء رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ )

اور ہر امّت كے لئے ايك رسول ہے اور جب رسول آجاتا ہے تو ان كے درميان عادلانہ فيصلہ ہوجاتا ہے او ر ان پركسى طرح كا ظلم نہيں ہوتا ہے _

۱_خدا تعالى نے خاص طور پر ہر امت كيلئے ايك رسول مقرر كرركھا ہے _و لكل امة رسول فاذا جاء رسولهم

كلمہ امت كو پيش نظر ركھتے ہوئے ظاہراً لفظ رسول سے يہاں مراد صاحب شريعت پيغمبر(ص) ہے اور اس كا مفرد ہونا دلالت كرتا ہے كہ ہر دور ميں صاحب شريعت پيغمبر (ص) ايك سے زيادہ نہيں ہوتا تھا_

۲_ ہر زمانے كے لوگوں كيلئے ضرورى ہے كہ اپنے زمانے كے الہى پيغمبر كى شريعت كا اتباع كريں _

و لكل امة رسول فاذا جاء رسولهم

آيت شريفہ بتاتى ہے كہ اولاً دو رسولوں كے درميان كے مختلف معاشرے ايك امت كو تشكيل ديتے ہيں اور ثانياً ضرورى ہے كہ ہر امت اسي زمانے كے رسول كى پيروى كرے اور اس سے پہلے زمانے كے رسول كى پيروى كرناصحيح نہيں ہے_

۳_ آسمانى شريعت اور دين سب زمانوں ميں سب امتوں كيلئے موجود رہے ہيں _و لكل امة رسول فاذا جاء رسولهم

۴_ ہر زمانے ميں پيغمبر الہى اور شريعت ايك سے زيادہ نہيں ہے_و لكل امة رسول فاذا جاء رسولهم

۵_ لوگوں كے درميان اختلاف كا پيدا ہونا انبياء الہى كى بعثت كا باعث تھا _

۴۹۶

فاذا جاء رسولهم قضى بينهم بالقسط

جملہ ''قضى بينهم '' لوگوں كے درميان اختلاف كے وجود پر دلالت كرتاہے كيونكہ قضاوت اس جگہ ہوتى ہے جہاں اختلاف ہو _ ممكن ہے يہ پيغمبر(ص) كے آنے سے پہلے والے اختلاف كى طرف اشارہ ہو اور يہ بھى احتمال ہے كہ يہ بعثت رسول كے بعدوقوع پذير ہونے والے اختلاف كى طرف اشارہ ہو _ مندرجہ بالا نكتہ پہلے احتمال كى بنا پر ہے_

۶_ الہى شريعتيں لوگوں كے در ميان اختلافات كو ختم كرنے اور عدل و انصاف كو بر قرار كرنے كيلئے آئيں _

فاذا جاء رسولهم قضى بينهم بالقسط

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ ''بينہم '' سے مراد، افراد امت كا آپس كا اختلاف ہو_

۷_ جو لوگ اپنے الہى پيغمبر كو قبول نہيں كرتے اور اسكى مخالفت كرتے ہيں ان كيلئے تباہ كن عذاب سنت الہى ہے_

فاذا جاء رسولهم قضى بينهم بالقسط

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ''بينهم '' سے مراد امت كے ايك گروہ اور پيغمبر كا اختلاف ہو اور در اصل يوں ہو '' بينہم وبينہ '' اس صورت ميں'' قضى بينهم'' سے مراد ہو سكتاہے پيغمبر(ص) كے مخالفين كى سركوبى اور تباہ كن عذاب كے ذريعے انكى نابودى ہو نہ كہ ان كے در ميان فيصلہ _

۸_ بعثت انبياء خدا تعالى كى طرف سے لوگوں پر اتمام حجت ہے_فاذا جاء رسولهم قضى بينهم بالقسط

۹_ تباہ كن عذاب كا نازل ہونا ہميشہ خدا تعالى كى طرف سے لوگوں پر حجت تمام ہونے كے بعد ہوتا ہے_

فاذا جاء رسولهم قضى بينهم بالقسط

۱۰_فيصلے اور قضاوت ميں عدل و انصاف كا خيال ركھنا ضرورى ہے_قضى بينهم بالقسط

۱۱_تباہ كن عذاب كانزول ، عدل و انصاف كى بنياد پر ہوتا ہے اور اس ميں كسى پر ظلم نہيں ہوتا _

قضى بينهم بالقسط و هم لا يظلمون

۱۲_ خدا تعالى نے پيغمبراكرم(ص) كو جھٹلانے والوں كو تباہ كن عذاب كى دھمكى دى ہے_

فاذا جاء رسولهم قضى بينهم بالقسط و هم لا يظلمون

اختلاف :اسكے اثرات ۵

اديان :اديان كا اختلاف كو مٹانا۶; انكا فلسفہ ۶; انكا كردار ۶; انكى تاريخ ۳

۴۹۷

اطاعت:انبياء كى اطاعت كى اہميت ۲

امتيں :انكا دين ۳; انكى ذمہ دارى ۲

انبياء (ع) :انكى بعثت ۸;انكى بعثت كے عوامل ۵; انكى تاريخ ۴; انكے مخالفين كا عذاب ۷پيامبران الہى :۱

خدا تعالى :اسكى دھمكياں ۱۲; اسكى سنتيں ۷،۹،۱۱;اسكى طرف سے اتمام حجت ۸،۹; اسكى عدالت ۱۱;اسكے افعال ۱; اسكے عذاب كى خصوصيات ۱۱

خدا تعالى كى سنتيں :تباہ كن عذاب والى سنت۷

دين :اسكى وحدت ۴

سزا :بغير بيان كے سزا ۹

عدالت:اس كى اجتماعى اہميت ۶

عذاب:تباہ كن عذاب كا نزول ۹; تباہ كن عذاب كى دھمكى ۱۲

قضاوت :اسكى شرائط۱۰; اس ميں عدل كى اہميت ۱۰

محمد(ص) :آپ(ص) كو جھٹلانے والوں كو دھمكى ۱۲

آیت ۴۸

( وَيَقُولُونَ مَتَى هَـذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ )

يہ لوگ كہتے ہيں كہ اگر آپ سچّے ہيں تو يہ وعدہ عذاب كب پورا ہوگا_

۱_ خدا تعالى نے پيغمبر اكرم (ص) كو جھٹلانے والوں كو تباہ كن عذاب كى دھمكى دى ہے_و يقولون متى هذا الوعد

۲_ مشركين تباہ كن عذاب كے وعدہ كو اسكے وقوع پذير ہونے كا وقت معلوم نہ ہونے كى وجہ سے پيغمبر(ص) اور مومنين كا جھوٹا اور بے بنياد دعوى سمجھتے تھے_

۴۹۸

و يقولون متى هذا الوعد ان كنتم صادقين

جملہ ''متى ہذا الوعد '' ميں استفہام استہزا كيلئے ہے مندرجہ بالا نكتہ اس سے حاصل ہوتا ہے_

۳_تباہ كن عذاب كے واقع ہونے كے وقت كا معلوم نہ ہونا مشركين كے پاس اسكى دھمكى كا تمسخر اڑانے كا بہانہ تھا_

و يقولون متى هذا الوعد ان كنتم صادقين

اس سوال كا جواب ; جو بعد والى آيت ميں آيا ہے; مندرجہ بالا مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۴_ مشركين ، پيغمبر اكرم (ص) اور مومنين كا مذاق اڑاكر اس تباہ كن عذاب كے وقت كى تعيين اور اس ميں عجلت كے خواہا ں تھے_و يقولون متى هذا الوعد ان كنتم صادقين

آنحضرت (ص) :آپ(ص) پر بہتان باندھنا ۲;آپ(ص) كو جھٹلانے والوں كو دھمكى ۱

خدا تعالى :اسكى دھمكياں ۱

عذاب:تباہ كن عذاب كا مذاق اڑانا ۴; تباہ كن عذاب كى دھمكى ۱

مشركين :انكا بہانے تلاش كرنا ۳; انكا بہتان باندھنا ۲;انكا مذاق اڑانا ۴;انكے مذاق اڑانے كے عوامل ۳; صدر اسلام كے مشركين كے مطالبے ۴; يہ اور تباہ كن عذاب ۲،۳;يہ اور حضرت محمد (ص) ۴; يہ اور مومنين ۴

مومنين :ان پر بہتان باندھنا ۲

۴۹۹

آیت ۴۹

( قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرّاً وَلاَ نَفْعاً إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ إِذَا جَاء أَجَلُهُمْ فَلاَ يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَ يَسْتَقْدِمُونَ )

كہہ ديجئے كہ ميں اپنے نفس كے نقصان ونفع كا بھى مالك نہيں ہوں جب تك خدانہ چاہے _ ہر قوم كے لئے ايك مدّت معين ہے جس ہے ايك ساعت كى بھى نہ تاخير ہوسكتى ہے او ر نہ تقديم _

۱_ كوئي بھى حتى پيغمبر اكرم (ص) ، مشيت الہى كے بغير اپنے لئے نفع حاصل نہيں كر سكتا اور اپنے سے نقصان كو دور نہيں كر سكتا_قل لا املك لنفسى ضرا ولا نفعاالا ما شاء الله

۲_ پيغمبر اكرم (ص) صرف خدا كے پيغام كو پہنچانے والے ہيں اور اسكے ارادہ اور مشيت كے بغير كسى وعدے يا دھمكى كو عملى جامہ پہنانے كى طاقت نہيں ركھتے_ويقولون متى هذا الوعد قل لا املك لنفسى ضرا و لا نفعا الا ما شاء الله

۳_ انسان كى سب توانائياں اور حركات مشيت الہى كے اختيار ميں اور اسكے ارادے كے تحت ہيں _

قل لا املك لنفسى ضرا و لا نفعا الا ما شاء الله

۴_ پيغمبراكرم (ص) مشيت الہى كے بغير تباہ كن عذاب كے وقت كو معين كرنے اور اسے عملى جامہ پہنانے كى توانائي نہيں ركھتے_و يقولون متى هذا الوعد قل لا املك لنفسى ضرا و لا نفعا الا ماشاء الله

۵_جھٹلانے والوں كى سزا كے وقت كو معين كرنا صرف خدا تعالى كے اختيار ميں ہے_

و يقولون متى هذا الوعد قل لا املك الا ما شاء الله

۶_ خدا تعالى نے ہر معاشرے اور امت كى زندگى اور موت كا ايك وقت پہلے سے ہى معين فرمايا ہوا ہے_

۵۰۰

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746