تفسير راہنما جلد ۷

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 746

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 746 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 190040 / ڈاؤنلوڈ: 4704
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۷

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دیتے هوئے بتوں کو اعلانیہ طور پر باطل قرارديتے تھے تو کفار قریش اس کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے ۔ اورجب کوئی اسلام قبول کر تا تھا اس پر ظلم وتشدد کیا کرتے تھے ۔چنانچہ بلال، عمار، ياسر و سميه () جیسے پاک دل اور ایمان سے سرشار افراد کو مختلف مواقع پر جان لیوا اذیت اور آزار پہنچا تے تھے اور ان کو دوبارہ کفر کی طرف بلاتے تھے ۔چنانچہ عمار اور ان کے ماں باپ کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی اور نازیبا الفاظ زبان پر لانے پر مجبور کیا گيا؛ تو جناب یاسر اور ان کی زوجہ ، یعنی حضرت عمار کے والدین نے یہ گوارا نہیں کیا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی کی جائے ۔ اسی جرم میں وہ دونوں اپنے بیٹے کے سامنے شہید کئے گئے ، لیکن عمار کی جب باری آئی تو اپنی جان بچانے کی خاطر کفار قریش کے ارادے کے مطابق پیغمبر کی شان میں گستاخی کی ۔ جس پر کفار نے انہیں آزاد کیا ۔جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں یہ شکایت پہنچی کہ عمار نے آپ کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ تو فرمایا : ایسا ممکن نہیں کہ عمار نے دوبار ہ کفر اختیار کیا ہو بلکہ وہ سر سے لیکر پاؤں تک ایمان سے لبریز اور اس کے گوشت و خون اور سراسر وجود میں ایمان کا نور رواں دواں ہے ۔اتنے میں عمار روتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان کے چهرے

۲۱

سے آنسو صاف کئے اور فرمایا : جو کام تو نے انجام ديا هے ، قابل مذمت اور جرم نہیں ہے اگر دوبارہ کبھی ایسا موقع آجائے اور مشرکوں کے ہاتھوں گرفتار ہوجاؤ تو کوئی بات نہیں کہ تم ان کی مرضی کے مطابق انجام دو ۔پھر یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی ۔

جس سے معلوم ہوتا کہ دینی مقدسات کی شان میں گستاخی کرنے پر مجبور ہوجائیں تو کوئی بات نہیں ۔ آپ کو اختیار ہے کہ یا آپ تقیہ کرکے اپنی جان بچائیں یا جرٲت دکھاتے ہوئے جام شہادت نوش کریں ۔

ایک روايت منقول ہے کہ دو مسلمانوں کو مسیلمہ کے پاس لایا گیا جو نبوت کا دعوی ٰ کررہا تھا ۔مسیلمہ نے ایک سے پوچھا: محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟

اس نے کہا : آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔

مسیلمہ : میرے بارے میں کیا کہتے ہو؟

مسلمان: آپ بھی اسی طرح ہیں ۔

پھردوسرے شخص کو لایا گیا ، اور اس سے بھی یہی سوال پوچھا گیا ، لیکن اس نے کچھ بھی

۲۲

نہیں کہا ۔تو اسے قتل کرنے کا حکم دیا گیا ۔

یہ خبر رسول خدا تک پہنچی ، فرمایا: پہلے شخص نے تقیہ پر عمل کیا اور دوسرے شخص نے حق کو آشکار اور بلند و بالا کیا ۔اورپہلے کے حق میں دعا کی اور دوسرے کے لئے فرمایا :اس کیلئے شہادت مبارک ہو ۔(۱)

يوسف بن عمران روايت کرتا ہے کہ ميثم تمارسے سنا ہے: امير المؤمنينعليه‌السلام نے مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا : اے میثم جب عبيد الله ابن زياد تمھیں میرے بارے میں گستاخی کرنے اور مجھ سے برائت کرنے کا حکم دے گا تو تم کیا کرو گے؟

میں نے کہا :يا امير المؤمنينعليه‌السلام خدا کی قسم! کبھی اظہار برائت نہیں کروں گا ۔

فرمایا:پھر تو تم مارےجاؤ گے ۔

میں نے کہا : میں صبر کروں گا ؛ کیونکہ راہ خدا میں جان دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔

فرمایا:اے میثم! تم اس عمل کی وجہ سے قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگے ۔

____________________

۱: تقيه در اسلام ، ص۱۰۔

۲۳

پس یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اگر کسی نے تقیہ کے موارد میں تقیہ نہیں کیا تو اس نے خودکشی کرلی هو ، بلکہ ایسے موارد میں انسان کو اختیار ہے کہ وہ شہادت کو اختیار کرے یا تقیہ کرکے اپنی جان بچائے تاکہ آئندہ آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اور اسلام کي زیادہ خدمت کرسکے ۔

۳ ۔تقيه كتمانيه

ضعف اور ناتوانی کے مواقع پر اپنا مذہب اور مذہب والوں کی حفاظت کرنا اور ان کی طاقت اور پاور کو محفوظ کرنا تاکہ بلند و بالا اہداف حاصل کرسکے ۔

اور یہاں تقيه كتمانيه سے مراد ہے دین مقدس اسلام اور مکتب اہل بیتعليهم‌السلام کی نشر واشاعت کی خاطر اپنی فعالیتوں کو مخفی اور پوشیدہ رکھنا ، تاکہ دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ قدرت مند ہو ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ہمارے دینی اور مذہبی رہنما حضرات اس طرح تقیہ

۲۴

کرنے کا حکم دیتے ہیں ؟

اس کا جواب یہی ہے کہ کیونکہ مکتب تشیع ایک ایسا مکتب ہے کہ حقيقي اسلام کو صرف اور صرف ان میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔شیعہ ابتدا ہی سے مظلوم واقع ہوئے ہیں کہ جب آئمہ طاہرینعليهم‌السلام تقیہ کرنے کا حکم دے رہے تھے اس وقت شیعہ انتہائی اقلیت میں تھے اور ظالم وجابر اور سفاک بادشاہوں اور سلاطین کی زد میں تھے ۔اگر شیعہ اپنے آداب و رسوم کو آشکار کرتے تو ہر قسم کی مشکلات ان کے سروں پر آجاتیں اور جان بھی چلی جاتی ۔اور کوئی شیعہ باقی نہ رہتا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ حقیقی اسلام باقی نہ رہتا ۔ یہی وجہ تھی کہ آئمہ اطهارعليهم‌السلام نے تقیہ کا حکم دیا ۔

تقيه كتمانيه پر دلیل :

۱ ـ:كِتَابُ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلَالِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيّاً ع يَقُولُ يَوْمَ قُتِلَ عُثْمَانُ قَالَ رَسُولُ اللهِ ص قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ التَّقِيَّةَ مِنْ دِينِ اللهِ وَ لَا دِينَ لِمَنْ لَا تَقِيَّةَ لَهُ وَ اللهِ لَوْ لَا التَّقِيَّةُ مَا عُبِدَ اللهُ فِي الْأَرْضِ فِي دَوْلَةِ إِبْلِيسَ فَقَالَ رَجُلٌ وَ مَا دَوْلَةُ إِبْلِيسَ فَقَالَ إِذَا وُلِّيَ إِمَامُ هُدًى فَهِيَ فِي دَوْلَةِ الْحَقِّ عَلَى إِبْلِيسَ وَ إِذَا وُلِّيَ إِمَامُ ضَلَالَةٍ فَهِيَ

۲۵

دَوْلَةُ إِبْلِيسَ ۔(۱)

راوی کہتا ہے :هم نے امير المؤمنينعليه‌السلام سےقتل عثمان کے دن فرماتے هوئےسنا :هم نے رسول خداسے تاکید کے ساتھ فرماتے هوئےسنا: تقیہ میرا دین ہے اور جو بھی تقیہ کا قائل نہیں ، اس کا کوئی دین نہیں ۔ اور اگر تقیہ کے قوانین پر عمل نہ ہوتا تو شیطان کی سلطنت میں روئے زمین پر خدا کی کوئی عبادت نہ ہوتی ۔ اس وقت کسی نے سوال کیا ، ابلیس کی سلطنت سے کیا مراد ہے ؟

فرمایا : اگر کوئی خدا کا ولی یا عادل امام لوگوں پر حکومت کرے تو وہ خدائی حکومت ہے ، اور اگرکوئی گمراہ اور فاسق شخص حکومت کرے تو وہ شیطان کی حکومت ہے ۔

اس روایت سے جو مطلب ہمیں حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس طاغوتی حکومت کے دوران صرف اپنے مذہب کو مخفی رکھنا اور خاموش رہنا صحیح نہیں ہے بلکہ اس میں بھی خدا تعالی کی عبادت و بندگی ہوتی رہے۔

اصحاب كهف کا عمل بھی اسی طرح کا تقیہ تھا ، اور حضرت ابوطالب کا تقیہ

____________________

۱: مستدرك‏الوسائل، ج ۱۲، ص۲۵۲ باب وجوب التقية مع الخوف ۔

۲۶

بھی اسی قسم کا تقیہ شمار ہوتا ہے ۔جسے ابتدائے اسلام میں انہوں نے اختیار کیا تھا ۔کہ اپنے دین کو کفار قریش سے مخفی رکھا ۔ اورخود کو کفار کا ہم مسلک ظاہر کرتے رہے تاکہ رسول گرامي اسلام کی حمايت اور حفاظت آسانی سے کرسکیں ۔اور مخفی طور پر دین مبین اسلام کی نشر واشاعت کرتے رہے ۔ چنانچہ آپ ہی کی روش اور تکنیک کی وجہ سے پیغمبر اسلامسے بہت سارے خطرات دور ہوتے رہے ۔

۴ ۔تقيه مداراتي يا تحبيبي

اهل سنت کےساتھ حسن معاشرت اور صلح آميز زندگي کرنے کی خاطر ان کی عبادي ا ور اجتماعي محفلوں اور مجلسوں میں جانا تاکہ وحدت پیدا ہو اور اسلام دشمن عناصر کے مقابلے میں اسلام اور مسلمین قدرت مند ہوں ۔

تقيه مداراتي

۱ ۔ مطلوبيت ذاتي رکھتا ہے = وجوب نفسي

۲ ۔ مطلوبيت غيري رکھتا ہے = وجوب غيري

۲۷

تقيه مداراتي کے شرعی جواز پر دلیلیں:

o امام سجاد نے صحيفه سجاديه میں مسلمانوں کیلئے دعائے خیر اور کفار کیلئے بددعا کرتے ہوئے فرمایا:خدايا اسلام اور مسلمين کودشمن اورآفات و بليات سے محفوظ فرما ، اور ان کے اموال کو با ثمر و منفعت اورپر بركت فرما۔ اور انہیں دشمن کے مقابلے میں زیادہ قدرت مند اور شان وشوکت اور نعمت عطا فرما ۔اور میدان جنگ میں انہیں کافروں پر فتح و نصرت عطا فرما ۔ اور اپنی عبادت اور بندگی کرنے کی مہلت اور فرصت عطا فرما تاکہ وہ تجھ سےتوبہ اور استغفار اور راز و نیاز کر سکیں خدایا ! مسلمانوں کو ہر طرف سے مشرکوں کے مقابلے میں عزت اور قدرت عطا فرما اور مشرکوں اور کافروں کوآپس میں جنگوں میں مشغول فرما ! تاکہ وہ مسلمانوں کے حدود اور دیار کی طرف دست درازی نہ کرسکیں ۔(۱)

____________________

۱: مستدرك‏الوسائل، ج ۱۲، باب وجوب التقية مع الخوف ، ص ۱۰۰۔

۲۸

o معاويه بن وهب کہتا ہے کہ میں نے امام صادقعليه‌السلام سے سوال کیا : کہ دوسرے مسلمانوں اور مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے ؟

امامعليه‌السلام نے فرمایا: ان کی امانتوں کو پلٹاؤ اور جب آپس میں کوئی نزاع پیدا ہو جائے اور حاکم شرع کے پاس پہنچ جائے تو حق دار کے حق میں گواہی دو اور ان کے بیماروں کی عیادت کیلئے جاؤ اور ان کے مرنے والوں کی تشییع جنازے میں شرکت کرو۔(۱)

امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

كونوا لمن انقطعتم ﺇليه زيناً ولا تكونوا علينا شيناً صلّوا في عشائرهم عودوا مرضاهم و اشهدوا جنائزهم ولا يسبقونكم الي شيئٍ من الخير فا نتم أولي به منهم والله ما عبدالله بشيئٍ أحبُّ اليه من الخباء قلت: و ما الخباء؟ قال: التقيه ۔(۲)

ایسے کاموں کے مرتکب ہونے سے پرہیز کرو جو ہمارے مخالفین کے سامنے سرزنش کا باعث بنے ، کیوں کہ لوگ باپ کو اس کے بیٹوں کے برے اعمال کی وجہ سے ملامت کرتے

____________________

۱: وسائل الشيعه،ج۱ ، كتاب حج،احكام عشرت۔

۲: وسائل الشيعه ،ج ۱۱،ص ۴۷۱۔

۲۹

ہیں ۔کوشش کرو کہ ہمارے لئے باعث زینت بنو نہ کہ باعث ذلت۔ اہل سنت کے مراکز میں نماز پڑھا کرو اور بیماروں کی عیادت کیا کرواور ان کے مردوں کے جنازے میں شرکت کیا کرو اور تمام اچھے کاموں میں ان پر سبقت لے جاؤ ، ان صورتوں میں اگر ضرورت پڑي تو محبت بڑھانے اور اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کیلئے اپنے عقائد کو چھپاؤ ۔ خدا کی قسم ایسے مواقع میں کتمان کرنا بہترین عبادت ہے ۔ راوی نے سوال کیا : یابن رسول اللہ ! کتمان سے کیا مراد ہے ؟ ! تو فرمایا: تقیہ ۔

یہ تقیہ مداراتی اور تحبیبی کے جواز پر کچھ دلائل تھے ۔ لیکن ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ سارے مسلمان عقیدتی ، فکری اور سلیقائی اختلافات مکمل طور پر ختم کرکے صرف ایک ہی عقیدہ اور سلیقہ کے پابندہوجائیں ؟ !

اس سوال کا جواب بالکل منفی میں ملے گا۔ یہ ناممکن ہے ۔کیونکہ کوئی بھی قوم یا قبیلہ نہیں ملے گا جس میں سینکڑوں اختلافات اور نظریات نہ پائے جاتے ہوں۔ حتی خود دین اسلام میں کہ سارے اصول اور فروع دین توحید کی بنیاد پر قائم ہیں ، پھر بھی زمانے کے

۳۰

گزرنے کے ساتھ ساتھ اصلی راستے اور قاعدے سے منحرف ہوجاتے ہیں اور اختلافات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ پس ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟! اور راہ حل کیا ہے ؟! ایک طرف سے بغیر وحدت اور اتحاد کے کوئی کام معاشرے کے حوالے سے نہیں کرپاتے، دوسری طرف سے اس وحدت اور اتحاد کے حصول کیلئے سارے اختلافی عوامل کو پس پشت ڈالنا پڑتا ہے ۔

کیا ایسی صورت میں ہم بیٹھے رہیں اور اختلافات کے کیڑے مکوڑے معاشرے کے سعادت مند ستون کو اندر سے خالی کرتے کرتےسرنگوں کریں؟!یا کوئی راہ حل موجود ہے جس کے ذریعے سے ايک حد تک وحدت برقرار کرلیں ؟!

یہ وہ مقام ہے جہاں دور حاضر کے مفکرین اور دانشمندوں نے کئي فارمولے تیار کئے ہیں جن کے ذریعے ممکن ہے کہ یہ ہدف حاصل ہوجائے ، اور وہ فامولے درج ذیل ہیں:

۱ ۔ ہر معاشرے میں موجود تمام ادارے قوم پرستی، رنگ و زبان اور موقعیت ، مذہب میں فرق کئے بغیر اجتماعی حقوق کو بعنوان ”حقوق بشر“ رسمی مان لیں اور خود غرضی سے پرہیز کریں ۔

۳۱

۲ ۔ تمام ممالک کو چاہئے کہ معاشرے میں موجود تمام گروہوں کو اس طرح تعلیم دیں کہ اتحاد و اتفاق کی حفاظت کی خاطر اجتماعی منافع کو شخصی منافع پر مقدم رکھیں ۔ اور انہیں یہ سمجھائیں کہ اجتماع کی بقا میں افراد کی بقا ہے ۔

۳ ۔ ہر ایک شخص کو تعلیم دیں کہ دوسروں کے عقائد کا احترام کریں تاکہ معاشرے کیلئے کوئی مشکل ایجاد نہ ہو ۔اور ملک اور معاشرے کے بنیادی اصولوں اور قواعد و ضوابط کو ضرر نہ پہنچائيں ۔ اور ایک دوسرے کے احساسات اور عواطف کا احترا م کریں ۔

۴ ۔ ان کو سمجھائیں کہ دوسرے مکاتب فکر کے مختلف اور معقول آداب و رسوم میں شرکت کریں ۔ اس طرح ایک دوسرے کے درمیان محبت پیدا کریں۔

پس اگر ايك جامعه یامعاشرے میں ان قوانین اور اصولوں پر عمل درآمدهوجائے تو سارے اسلامی ممالک ایک پليٹ فارم پر جمع ہونگے اور ایک دوسرے کے درمیان محبت اور جذبہ ایثار پیدا هوگا۔ یہی وجہ تھی کہ آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اپنے گوہر بار كلمات میں اس بات کی طرف تشویق کرتے هوئے نظر آتے هيں۔

۳۲

مداراتی تقیہ کی ایک زندہ مثال یہ ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کیلئے مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں دوسروں کے ساتھ بغیر سجدہ گاہ کے قالین پر سجدہ کر سکتے ہیں ، یہ نماز صحیح ہے اگرچہ جانی یا مالی نقصان کا خدشہ بھی نہیں ہے۔(۱)

تقيه اور توريه میں موازنه

لغت میں توريه ؛وراء یا پيٹھ سے نکلا ہے جس کا مد مقابل امام یعنی (آگے ) سے لیا گیا ہے ۔اور اصطلاح میں کسی چیز کو چھپانے کو کہا جاتا ہے ۔

 تقيه اور توريه کے درمیان نسبت تباين پایاجا تا ہے ۔ کیونکہ توریہ لغت میں ستر(چھپانا) اور تقیہ صیانت اور حفاظت کو کہا جاتا ہے ۔

 توریہ میں شخص واقعیت کا ارادہ کرتا ہے لیکن تقیہ میں نہیں ۔

____________________

۱: مکارم شیرازی؛ شیعہ پاسخ می گوید،ص۴۵۔

۳۳

 توریہ میں مصلحت کو ملحوظ نظر نہیں رکھا جاتا لیکن تقیہ میں کئی مصلحتوں کو ملحوظ نظر رکھا جاتا ہے ۔

 لیکن مصداق کے لحاظ سے ان دونوں میں عموم و خصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے ۔ کہ ان دونوں کا مورد اجتماع یہ ہے کہ تقیہ کرنے والا تقیہ کے موارد میں اوراظہار کے موقع پر حق کے برخلاف ، توریہ سے استفادہ کرتا ہے کیونکہ خلاف کا اظہار کرنا ؛ حق کا ارادہ کرنے یا خلاف حق کا ارادہ کرنے سے ممکن ہے۔

 تقيه اور توريه میں افتراق کا ایک مورد ، تقيه كتماني ہے كه یہاں کوئی چیز بیان نہیں ہوئی ہے جو توریہ کا باعث بنے ۔

 ان دونوں میں افتراق کا ایک اور مورد یہ ہے کہ توریہ میں کوئی مصلحت لحاظ نہیں ہوئی ہے اور اگر کوئی مصلحت ملحوظ ہوئی ہے تو بھی ذاتی منافع ہے ۔

تقيه ، اكراه اور اضطرارکے درمیان تقابل

تقيه کے بعض موارد کو اكراه و اضطرار کے موارد میں منحصر سمجھاجاتاہے۔شيخ انصاري(ره) مكاسب میں اكراه کے بارےمیں یوں فرماتے ہیں :

۳۴

ثم ان حقيقة الاكراه لغة و عرفا حمل الغير علي ما يكرهه في وقوع الفعل من ذالك الحمل اقترانه بوعيد منه مظنون الترتب الغير علي ترك ذالك الفعل مضر بحال الفاعل او متعلقه نفسا او عرضا او مالا ۔(۱)

اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اکراہ کے وجود میں آنے کی تین شرائط ہیں:

۱. یہ مخالف کی طرف سے واقع ہوتا ہے ۔ پس جہاں اگر خود انسان جلب منفعت یا دفع ضرر کیلئے کوئي قدم اٹھائے تو وہ توریہ میں شامل نہیں ہے ۔

۲. اكراه یہ ہے کہ مستقيماکسی کام پر انسان کو مجبور کیا جائے نه بطور غير مستقيم۔

۳. تهديد اور وعيد کے ساتھ ہو کہ اگر انجام نہ دے تو اس کی جان ، مال، عزت آبرو خطرے میں پڑ جائے ۔

ان تین شرائط اور اولین آیہ شریفہ جو مشروعیت تقیہ کے بارے میں نازل ہوئی جس میں

عمار ابن یاسر ؒ کا قصہ بیان ہوا ہے ، سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض موارد میں تقیہ اور اکراہ میں مطابقت پائی جاتی ہے ۔ اور ان تین شرائط کے ذریعے حضرت عمارؒ کے تقیہ کرنے پر استدلال کیا جا سکتا ہے ۔اور تقیہ کی تعریف بھی اس پر منطبق ہوسکتی ہے ۔لیکن جہاں یہ تین شرائط صدق آئیں اور تقیہ صدق نہ کرے تو وہ اکراہ اور تقیہ کے افتراق کے موارد ہونگے ۔

____________________

۱: شيخ انصاري(ره) ،المكاسب،شروط متعا قد ين،ص۱۱۹۔

۳۵

تقيه کے آثارا ور فوائد

شہیدوں کے خون کی حفاظت

تقیہ کا بہترین فائدہ شہیدوں کے خون کی حفاظت ہے ۔یعنی پوری تاریخ میں شیعیان علیعليه‌السلام مظلوم واقع ہوتے رہے ہیں۔ جب بھی ظالموں کے مظالم کا نشانہ بنتےتھے تقیہ کرکے اپني جان بچاتےتھے۔

چنانچہ امام صادقعليه‌السلام فرماتے هيں: اے ہمارے شیعو! تم، لوگوں کے درمیان ایسے ہو جیسے پرندوں کے درمیان شہد کی مکھی ہے ۔ اگر پرندوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ شہد کی مکھی کے پیٹ میں شہد موجود ہے ، تو ساری شهد کي مکھیوں کو کھاجائیں اور ایک بھی زندہ نہیں چھوڑیں ؛ اسي طرح اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ تمہارے دلوں میں ہم اہل بیتعليهم‌السلام کی محبت موجود ہے تو تمھیں زخم زبان کے ذریعے کھا جائيں گے اور ہر وقت تمہاری غیبت اور بدگمانی میں مصروف رہيں گے ۔ خدا ان لوگوں پر اپنی رحمت نازل کرے جو ہماری ولایت کو

۳۶

مانتے ہيں۔(۱)

اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور تقویت

یہ تقیہ کا دوسرا فائدہ ہے کہ اہل بیتعليهم‌السلام ، اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور تقویت کیلئے زیادہ کوشش کرتے تھے ، تاکہ اسلامی معاشرہ ایک واحد اور قدرت مند معاشرہ بنے ، اور اسلام دشمن عناصر کبھی بھی اس معاشرے پر آنکھ اٹھانے کی جرأت نہ کرسکيں ۔

اس عظیم مقصد کے حصول کی خاطر آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اپنے چاہنے والوں کو سخت تاکید فرماتے تھے ۔جيسا که حديث ميں آيا هے:

قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مِهْرَانَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع وَ عِنْدَهُ نَفَرٌ مِنَ الشِّيعَةِ فَسَمِعْتُهُ وَ هُوَ يَقُولُ مَعَاشِرَ الشِّيعَةِ كُونُوا لَنَا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا عَلَيْنَا شَيْناً قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً احْفَظُوا أَلْسِنَتَكُمْ وَ كُفُّوهَا عَنِ الْفُضُولِ وَ

____________________

۱: علامه كليني ؛ اصول كافي،ج۲،ص۲۱۸۔

۳۷

قَبِيحِ الْقَوْل ۔(۱)

چنانچه امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہیں : اے ہمارے شیعو! خبردار! کوئی ایسا کام انجام نہ دو ، جوہماری مذمت کا سبب بنے ۔ لوگوں کے ساتھ اچھی گفتگو کیا کرو ، اپنی زبانوں کی حفاظت کرواور فضول اور نازیبا باتیں کرنے سے باز آؤ ۔

عَنْ هِشَامٍ الْكِنْدِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللهِ ع يَقُولُ إِيَّاكُمْ أَنْ تَعْمَلُوا عَمَلًا نُعَيَّرُ بِهِ فَإِنَّ وَلَدَ السَّوْءِ يُعَيَّرُ وَالِدُهُ بِعَمَلِهِ كُونُوا لِمَنِ انْقَطَعْتُمْ إِلَيْهِ زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا عَلَيْهِ شَيْناً صَلُّوا فِي عَشَائِرِهِمْ وَ عُودُوا مَرْضَاهُمْ وَ اشْهَدُوا جَنَائِزَهُمْ وَ لَا يَسْبِقُونَكُمْ إِلَى شَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَيْرِ فَأَنْتُمْ أَوْلَى بِهِ مِنْهُمْ وَ اللهِ مَا عُبِدَ اللهُ بِشَيْ‏ءٍ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الْخَبْ‏ءِ قُلْتُ وَ مَا الْخَبْ‏ءُ قَالَ التَّقِيَّة ۔(۲)

راوی کہتا ہے کہ امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا: خبردار ! تم لوگ کوئی ایسا کام کر نہ بیٹھو جس کی وجہ سے هميں ذلت اٹھانی پڑے کیونکہ جب بھی کوئی اولاد برا کام کرتی ہے تو لوگ اس کے والدین کی مذمت کرنے لگتے ہیں۔جب کسی سے دوستی کرنے لگو اور

____________________

۱:۔ أمالي الصدوق، ص ۴۰۰، جلسہ۶۲‏۔

۲: وسائل الشيعة ‏، باب وجوب عشرة العامة بالتقية ،ج۱۶،ص۲۱۹ ۔

۳۸

اس کی خاطر دوسروں سے دوری اختیار کرو تو اس کیلئے زینت کاباعث بنو نہ کہ مذمت اور بدنامی کا ۔ برادران اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کرو ، ان کے مرنے والوں کے جنازے میں شریک ہو جاؤ ، ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ تم سے کار خیر میں آگے ہو ں ، کیوں کہ اچھے کاموں میں تم لوگ ان سے زیادہ سزاوار ہو ۔ خدا کی قسم ! خبأسے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں ہے ۔ کسی نے سوال کیا : اے فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خبأ سے کیا مراد ہے ؟! تو امام ؑ نے جواب دیا : اس سے مرادتقیہ هے ۔

عَنْ أَبِي أُسَامَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللهِ وَ الْوَرَعِ وَ الِاجْتِهَادِ وَ صِدْقِ الْحَدِيثِ وَ أَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَ حُسْنِ الْخُلُقِ وَ حُسْنِ الْجِوَارِ وَ كُونُوا دُعَاةً إِلَى أَنْفُسِكُمْ بِغَيْرِ أَلْسِنَتِكُمْ وَ كُونُوا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا شَيْناً وَ عَلَيْكُمْ بِطُولِ الرُّكُوعِ وَ السُّجُودِ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَطَالَ الرُّكُوعَ وَ السُّجُودَ هَتَفَ إِبْلِيسُ مِنْ خَلْفِهِ وَ قَالَ يَا وَيْلَهُ أَطَاعَ وَ عَصَيْتُ وَ سَجَدَ وَ أَبَيْتُ ۔(۱)

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادقعليه‌السلام سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے : تم پر لازم

____________________

۱:۔ كافي ،باب الورع، ج‏۲ ، ص ۷۶۔

۳۹

ہے کہ تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرو ،کوشش کرو کہ سچ بات کہو،امانت میں دیانت داری دکھاؤ ،اچھے اخلاق کے مالک بنو، اور اچھے پڑوسی بنو،اور لوگوں کو زبانی نہیں بلکہ اپنے کردار کے ذریعے اچھائی کی طرف بلاؤ ۔اور ہمارے لئے باعث افتخار بنو نہ کہ باعث ذلت اور رسوائی۔اور تم پر لازم ہے کہ طولانی رکوع اور سجدے کیا کرو ؛ جب تم میں سے کوئی رکوع اور سجود کو طول دیتا ہے تو اس وقت شیطان اس کے پیچھے سے چیخ وپکار کرنےلگتا هے ، اور کهتا هے : واویلا ! اس نے خدا کی اطاعت اوربندگی کی، ليکن میں نے نافرمانی کی ، اس نے خدا کیلئے سجدہ کیا اور میں نے انکار کیا ۔

اگر ان دستورات کو آپ ملاحظہ فرمائیں تو معلوم ہو جائےگا کہ آئمہ طاہرین کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان الفت و محبت پیداهو اور سب مسلمان صلح و صفائی کے ساتھ زندگي بسر کريں ۔

تقيه کے شرائط

تقیہ ہر صورت اور ہر موقع اور ہر جگہ پر صحیح نہیں ہے بلکہ خاص شرائط اور زمان و

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

۱۰_ تاريخ بشر بے انصاف لوگوں اور ظالموں كى طرف سے انبياء الہى كى مخالفت اور ان كے مقابلے كى شاہد رہى ہے_

كذلك كذب الذين من قبلهم فانظر كيف كان عاقبة الظالمين

۱۱_ انبياء الہى كى بعثت مظلوموں كو ظالموں سے نجات دينے كيلئے ہوئي _

كذلك كذب الذين من قبلهم فانظر كيف كان عاقبة الظالمين

طول تاريخ ميں ظالموں كے انبياء (ع) الہى كے مقابلے ميں آنے سے مندرجہ بالا مطلب حاصل ہوتاہے _

۱۲_ ظلم و نا انصافى ، قيامت كے انكار اور دين و انبياء (ع) كے جھٹلانے كا پيش خيمہ ہے_

بل كذبوا بما لم يحيطوا بعلمه فانظر كيف كان عاقبة الظالمين

۱۳_ تاريخ كے ظالموں كى روداد اور انكے برے انجام كا مطالعہ ضرورى اور باعث عبرت ہے_

فانظر كيف كان عاقبة الظالمين

۱۴_ امام على (ع) سے روايت كى گئي ہے_'' قلت اربعا انزل الله تعالى تصديقى بها فى كتابه قلت فمن جهل شيئا عاداه فانزل الله '' بل كذبوا بما لم يحيطوا بعلمه ...'' (۱)

ميں نے چار ايسى باتيں كہيں جنكے سلسلے ميں ميرى تصديق خدا تعالى نے قرآن ميں نازل فرمائي ( ايك يہ كہ ) ميں نے كہا جو شخص كسى چيز سے جاہل ہوتا ہے وہ اسكے ساتھ دشمنى كرتا ہے پس خدا تعالى نے يہ مطلب نازل فرماديا '' بلكہ انہوں نے ايسى چيز كو جھٹلايا كہ جسكے علم كا احاطہ نہ ركھتے تھے''_

انبياء (ع) :انكى بعثت كا فلسفہ ۱۱;انكى رسالت ۶;انكى طرف سے ظلم كى مخالفت ۱۱;انكى ہم آہنگى ۶; انكے مخالفين كا انجام ۹;انكے مخالفين كا عذاب ۹; انہيں جھٹلانے كا پيش خيمہ ۱۲; انہيں جھٹلانے كى سزا ۷; انہيں جھٹلانے والے ۱۴; تاريخ ميں انكى مخالفت كرنے والے ۹،۱۰

جاہليت :جاہليت كے مشركين اور قيامت ۲،۳

جہالت :اسكے اثرات ۱۴

دشمنى :اس كا سرچشمہ ۱۴; انبياء (ع) كى دشمنى كى سزا ۷

____________________

۱) امالى شيخ طوسى ج ۲ص ۱۰۸مجلس ۱۷_بحار الانوار ج ۱ ص۱۶۶ح ۵_

۴۸۱

دين :اسكے جھٹلانے كا پيش خيمہ ۱۲

روايت :۱۴

شرك :اسكى تاريخ ۴

ظالم لوگ:انكى روداد كا مطالعہ ۱۳; انكے انجام سے عبرت ۱۳; يہ اور انبياء ۱۰;يہ تاريخ ميں ۱۰

ظلم :اسكے اثرات ۱۲

عبرت :اسكے عوامل ۱۳

عذاب :تہس نہس كر دينے والا عذاب ۷،۹; تہس نہس كردينے والے عذاب كى دھمكى ۸

قرآن كريم :اسے جھٹلانے كے عوامل ۱; اسے جھٹلانے والے ۱

قيامت :اسكى اہميت ۶; اسے جھٹلانے كا پيش خيمہ ۱۲; اسے جھٹلانے والے ۳،۵

مشركين :انكا عاجز ہونا ۱;انكا مشتركہ موقف۵; انكى جہالت ۲; صدر اسلام كے مشركين كو دھمكى ۸; يہ اور قرآن كريم ۱; يہ اور قيامت ۵

مظلومين:انكى نجات كى اہميت ۱۱

۴۸۲

آیت ۴۰

( وَمِنهُم مَّن يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُم مَّن لاَّ يُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ )

ان ميں بعض وہ ہيں جو اس پرايمان لاتے ہيں اور بعض نہيں مانتے ہيں اور آپكا پروردگار فسا د كر نے والوں كو خوب جانتا ہے _

۱_ بعض مشركين قرآن كريم كے آسمانى ہونے كاا عتقاد ركھنے كے باوجود اسے جھٹلانے پر تلے ہوئے تھے_

بل كذبوا و منهم من يؤمن به

يہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ ضمير ''ہم'' كا

۴۸۳

مرجع;اس آيت كے سابقہ آيات كے ساتھ ارتباط كو پيش نظر ركھتے ہوئے ; قرآن كو جھٹلانے والے ہوں اور ''يؤمن'' سے مراد زمانہ حال ہو_

۲_ بعض مشركين قرآن كريم كے آسمانى ہونے كا عقيدہ نہ ركھتے ہوئے اسے جھٹلاتے تھے_و منهم من لا يؤمن به

يہ مطلب بھى اس بات پر مبتنى ہے كہ ''ہم '' ضمير كا مرجع قرآن كو جھٹلانے والے ہوں _

۳_ زمين پربسنے والے سارے لوگ كبھى بھى قرآن كريم كا انكار اور اسكى تكذيب نہيں كريں گے_

و منهم من يو من به و منهم من لا يؤمن به

يہ مطلب اس بات پر مبتنى ہے كہ'' منہم'' كى ضمير سے مراد سب لوگ ہوں كہ اس صورت ميں يہ آيت قرآن كے روبرو ہونے كے وقت انكى حالت كو بيان كر رہى ہوگى _

۴_ زمين پر بسنے والے سب انسان كبھى بھى قرآن پر ايمان نہيں لائيں گے_و منهم من يؤمن به و منهم من لا يؤمن به

۵_ زمين پر بسنے والے انسان قرآن كريم كى نسبت ہميشہ دو گرو ہوں ميں بٹے ہوئے ہيں مومن اور كافر_

و منهم من يؤمن به و منهم من لا يؤمن به

۶_جو لوگ قرآن كريم كے آسمانى ہونے پرايمان ركھنے كے باوجو اسے جھٹلاتے ہيں وہ مفسد ہيں _

و منهم من يؤمن به وربك اعلم بالمفسدين

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ ضمير '' ہم'' كا مرجع قرآن كريم كو جھٹلانے والے ہوں اور ''المفسدين '' سے مراد پہلا گروہ '' من يؤمن بہ '' ہو_

۷_ جو لوگ قرآن كو قبول كرتے ہيں اور اس پر ايمان ركھتے ہيں وہ مفسد ہونے والى گھٹيا صفت سے پاك ہيں _

و منهم من يؤمن به و ربك اعلم بالمفسدين

۸_قرآن كريم كو جھٹلانے والے مفسد ہيں _و منهم من يو من به و منهم من لا يؤمن به و ربك اعلم بالمفسدين

۹_ خدا تعالى روئے زمين كے مفسدين سے سب سے زيادہ اور بہتر آگاہ ہے_و ربك اعلم بالمفسدين

۱۰_عن ابى جعفر (ع) فى قوله '' و منهم من لايؤمن به '' فهم اعداء محمد و آل محمد(ع) من بعده (۱)

____________________

۱)تفسير قمى ج ۱ ص ۳۱۲_ نور الثقلين ج ۲ ص ۳۰۵ح ۷۰_

۴۸۴

امام محمد باقر (ع) سے اللہ تعالى كے اس فرمان '' بعض و ہ ہيں جو قرآن پر ايمان نہيں ركھتے '' روايت كى گئي ہے كہ يہ آنحضرت(ص) اور ان كے بعد ان كى آل كے دشمن ہيں _

آنحضرت (ص) :آپ (ص) كے دشمن ۱۰

اہل بيت (ع) :انكے دشمن ۱۰

خدا تعالى :اسكى خصوصيات ۹

روايت :۱۰

عوام :عوام اور قرآن ۳،۴،۵

قرآن كريم :اس پر ايمان لانے والے۴،۵،۷; اسكے بارے ميں كفر كرنے والے ۵،۱۰;اسے جھٹلانے والوں كا مفسد ہونا ۶،۸; اسے جھٹلانے والے ۱،۲،۳

مشركين :انكى دشمنى ۱; صدر اسلام كے مشركين كا ليچڑپن ۱; يہ اور قرآن ۱،۲

مفسدين :۶،۸انكے بارے ميں خدا تعالى كو علم ۹

مومنين :انكى تنزيہ ۷

آیت ۴۱

( وَإِن كَذَّبُوكَ فَقُل لِّي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَاْ بَرِيءٌ مِّمَّا تَعْمَلُونَ )

اور اگر يہ آپ كى تكذيب كريں تو كہہ ديجئے كہ ميرے لئے ميراعمل ہے اور تمھارا عمل ہے _ تم سے برى اور ميں تمھارے اعمال سے بيزار ہوں _

۱_ پيغمبراكرم(ص) كو حكم تھا كہ مشركين كى طرف سے انكار اور تكذيب پر اصرار كى صورت ميں انہيں انكے حال پر چھوڑ كر ان كے باطل اعمال سے برائت كا اعلان كرديں _و ان كذبوك فقل و انا بري مما تعملون

۲_ حق كى طرف دعوت دينے والوں كيلئے ضرورى ہے كہ لوگوں كى طرف سے انكار حق پر اصرار كى صورت ميں انكے باطل سے برا ئت كا اعلان كر

۴۸۵

كے انہيں انكے حال پر چھوڑديں _و ان كذبوك فقل و انا بري مما تعملون

۳_ ہر شخص كے ا عمال كا نفع و نقصان صرف اسى شخص كے دامنگير ہوگا_لى عملى و لكم عملكم

مندرجہ بالا مطلب ميں حصر ، خبر'' لى '' اور ''لكم '' كے مبتدا پر مقدم كرنے سے حاصل ہوا ہے_

۴_ پيغمبر اكرم(ص) مشركين كے اعمال و كردار سے اور مشركين پيغمبر(ص) كے اعمال و كردار سے بيزار تھے_

انتم بريئون مما اعمل و انا بري مما تعملون

۵_ رسالت كو جھٹلانے والے مشركين كے مقابلے ميں پيغمبر (ص) كا موقف واضح اور قاطع تھا_

و ان كذبوك فقل لى عملى و لكم عملكم انتم بريئون مما اعمل و انا بري مما تعملون

۶_ دوسروں كے نيك اعمال و كردار سے راضى اور خوش ہونا انسان كو انكے منافع ميں حصہ دار بنا ديتا ہے_

لى عملى و لكم عملكم انتم بريئون مما اعمل و انا بري مما تعملون

ہو سكتا ہے جملہ ''انتم بريئون مما اعمل '' ان جملوں '' لى عملي'' اور'' لكم عملكم '' كے حصر كى علت كو بيان كر رہا ہو يعنى چونكہ تم مشركين ميرے اعمال سے بيزار ہو اسلئے ميرے اعمال كے منافع صرف ميرے لئے ہيں اور چونكہ ميں تمہارے كردار سے بيزار ہوں اسلئے تمہارے اعمال كے نقصانات صرف تمہارے لئے ہوں گے_

۷_ دوسروں كے برے اعمال و كردار پر خوش اور راضى ہونا انسان كو انكے نقصانات ميں حصہ دار بنا ديتا ہے_

لى عملى و لكم عملكم انتم بريئون مما اعمل و انا بري مما تعملون

اظہار برائت:باطل سے اظہار برائت ۲; مشركين سے اظہاربرائت۱

حق طلب لوگ :انكى ذمہ دارى ۲

راضى ہونا :اچھے عمل پر راضى ہونے كے اثرات ۶; ناپسنديدہ عمل پر راضى ہونے كے اثرات ۷

دينى راہنما:انكى ذمہ دارى ۲

عمل :اسكے اثرات ۳

محمد (ص) :آپ(ص) اور صدر اسلام كے مشركين ۵;آپ (ص) اور

۴۸۶

مشركين ۱،۴; آپ (ص) كا اظہار برائت ۴; آپ(ص) كى ذمہ دارى ۱;آپ(ص) كى سيرت ۵;آپ(ص) كى قاطعيت ۵; آپ(ص) كى ناخشنودى ۴

مشركين :انكا اظہار برائت ۴;انكى ناراضگى ۴; يہ اور حضرت محمد (ص) ۴

آیت ۴۲

( وَمِنْهُم مَّن يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ أَفَأَنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُواْ لاَ يَعْقِلُونَ )

اور ان ميں سے بعض ايسے بھى ہيں جو بظاہر كان لگا كر سنتے بھى ہيں ليكن كيا آپ بہروں كو بات سنانا چاہتے ہيں جب كہ وہ سمجھتے بھى نہين ہيں _

۱_بعض مشركين پيغمبر اكرم (ص) كى باتوں اورآيات الہى كو آپ(ص) كى زبان مبارك سے بار بار سننے كے باوجود انہيں جھٹلانے پر تلے ہوئے تھے اور انكا انكار كرتے تھے_و منهم من يستمعون اليك و لو كانوا لا يعقلون

۲_جو مشركين قرآن كوپيغمبراكرم (ص) كى زبان مبارك سے سنتے تھے اور ايمان نہيں لاتے تھے انكى مثال ان لوگوں جيسى ہے جو قوت سماعت سے محروم اور عقل و فكر سے بے بہرہ ہوں _

ومنهم من يستمعون اليك افا نت تسمع الصم و لو كانوا لايعقلون

۳_ جو مشركين قرآن كريم كو پيغمبراكرم(ص) كى زبان اقدس سے سننے كے باوجود ايمان نہيں لاتے تھے ان كے دل سماعت سے محروم اور حقائق كو سمجھنے سے ناتوان تھے_و منهم من يستمعون اليك افا نت تسمع الصم و لو كانوا لا يعقلون

۴_ پيغمبراكرم (ص) كى باتوں كے مقابلے ميں مشركين كا ردعمل ڈھٹائي پر مبنى تھا_افا نت تسمع الصم و لو كانوا لا يعقلون

۵_ جو لوگ آيات قرآن پر كان دھر نے كے باوجود ايمان نہيں لاتے انكى مثال ايسى ہے جيسے قوت سماعت سے محروم اور قوت عاقلہ سے بے بہرہ ہوں _و منهم من يستمعون اليك افا نت تسمع الصم

۴۸۷

و لو كانوا لا يعقلون

۶_ جولوگ آيا ت قرآن پر كان دھريں اور ايمان نہ لائيں انكے دل سماعت سے محروم اور حق كو سمجھنے سے ناتوان ہيں _

و منهم من يستمعون اليك افا نت تسمع الصم و لو كانوا لا يعقلون

۷_ جو لوگ واضح اور روشن حق كو قبول كرنے سے روگردانى كرتے ہيں انكى راہنمائي كرنا ايك بے نتيجہ كام ہے_

و منهم من يستمعون اليك افا نت تسمع الصم و لو كانوا لايعقلون

۸_ جو لوگ واضح و روشن حق كو قبول كرنے سے روگردانى كرتے ہيں انہيں كوئي، حتى كہ پيغمبر(ص) بھى ہدايت نہيں كر سكتے_و منهم من يستمعون اليك افا نت تسمع الصم و لو كانوا لا يعقلون

تبليغ:اسكى شرائط۷; بے ثمر تبليغ ۷

تشبيہات :بہروں كے ساتھ تشبيہ ۲،۵; بے عقلوں كے ساتھ تشبيہ ۲،۵

حق :حق كو سننے سے محروم لوگ ۳،۶; حق كو قبول نہ كرنے والوں كى ہدايت ۷،۸

قرآن كريم :اسے جھٹلانے والوں كا حق كو نہ سننا ۶; اسے جھٹلانے والوں كا محروم ہونا ۲،۳،۵،۶; اسے جھٹلانے والے۱

مشركين :انكا حق كو نہ سننا ۳;صدر اسلام كے مشركين اور حضرت محمد(ص) ۴; صدر اسلام كے مشركين كا ليچڑپن ۴; صدر اسلام كے مشركين كا محروم ہونا ۲،۳; صدر اسلام كے مشركين كاموقف۴; مشركين اور قرآن كريم ۱

۴۸۸

آیت ۴۳

( وَمِنهُم مَّن يَنظُرُ إِلَيْكَ أَفَأَنتَ تَهْدِي الْعُمْيَ وَلَوْ كَانُواْ لاَ يُبْصِرُونَ )

اور ان ميں كچھ ہيں جو آپ كى طرف ديكھ رہے ہيں تو كيا آپ اندہوں كو بھى ہدايت دے سكتے ہيں چاہے وہ كچھ نہ ديكے پاتے ہوں _

۱_ بعض مشركين قريب سے پيغمبر اكرم(ص) كے اعمال و كردار كا مشاہدہ كرنے كے باوجود آپ(ص) كا اتباع كرنے سے كتراتے اور آپ (ص) كو جھٹلاتے تھے_و منهم من ينظر اليك و لو كانوا لا يبصرون

۲_ جو لوگ قريب سے پيغمبر (ص) كے اعمال و كردار كا مشاہدہ كرنے كے باوجود آپ(ص) كا اتباع نہيں كرتے تھے انكى مثال اس نابينا كى سى ہے جو دل كى بصيرت والى نعمت سے بھى محروم ہو_

و منهم من ينظر اليك افا نت تهدى العمى و لو كانوا لا يبصرون

۳_ جو لوگ دل كى بصيرت سے عارى ہوں انہيں كوئي بھى ، حتى كہ انبياء بھى ہدايت نہيں كر سكتے_

افا نت تهدى العمى و لو كانوا لا يبصرون

۴_ مشركين كا پيغمبر اكرم(ص) كے ساتھ سلوك ضداور ليچڑپن پر مبنى تھا_افا نت تهدى العمى و لو كانوا لا يبصرون

آنحضرت(ص) :آپ(ص) كو جھٹلانے والوں كا اندھا ہونا ۲; آپ(ص) كو جھٹلانے والوں كا محروم ہونا ۲; آپ(ص) كو جھٹلانے والے ۱

بصيرت :اس سے محروم لوگ ۲; اس سے محروم لوگوں كى گمراہى ۳

۴۸۹

تشبيہات:اندھوں كے ساتھ تشبيہ ۲

مشركين :صدر اسلام كے مشركين اور حضرت محمد(ص) ۱،۴;صدر اسلام كے مشركين كا رويہ ۴; صدر اسلام كے مشركين كا ليچڑپن ۴; صدر اسلام كے مشركين كي

نافرمانى ۱

نافرمانى :حضرت محمد(ص) كى نافرمانى ۱

ہدايت :اسكى شرائط۳

آیت ۴۴

( إِنَّ اللّهَ لاَ يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئاً وَلَـكِنَّ النَّاسَ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ )

اللہ انسانوں پر ذرّہ برابر ظلم نہيں كرتا ہے بلكہ انسان خود ہى اپنے اوپر ظلم كيا كرتے ہيں _

۱_خدا تعالى كسى پر، چھوٹے سے چھوٹا ظلم بھى نہيں كرتا _ان الله لا يظلم الناس شيئ

۲_ انسان پر ہونے والا ہر ظلم خود اس كى اپنى طرف سے ہوتا ہے_ولكن الناس انفسهم يظلمون

۳_ كفار كا ہدايت كو قبول نہ كرنا اور انكى حق دشمنى انكے اس ظلم كا نتيجہ ہے جو انہوں نے اپنے اوپر كيا ہے_

و منهم من يستمعون اليك و منهم من ينظر اليك و لكن الناس انفسهم يظلمون

۴_ انسان اپنى بدبختى اور شقاوت كو خود وجود ميں لاتا ہے_و لكن الناس انفسهم يظلمون

۵_ انسان آزاد و مختار اور اپنے انجام كو خود معين كرتا ہے_و لكن الناس انفسهم يظلمون

۶_ امام ہادى (ع) سے روايت كى گئي ہے:''من زعم ان الله عزوجل اجبر العباد على المعاصى و عاقبهم عليها فقد ظلم الله فى حكمه و كذبه و رد عليه قوله : '' ان الله لا يظلم الناس شيئاً '' ...;

۴۹۰

... جس كا خيال يہ ہے كہ خدا تعالى نے بندوں كو گناہ كرنے پر مجبور كيا ہے اور پھر انہيں اس كى سزا ديتا ہے تو اس نے خدا كى طرف ظلم كى نسبت دى ہے اور اللہ تعالى كے اس فرمان ''خدا لوگوں پر بالكل ظلم نہيں كرتا'' كو جھٹلايا ہے_(۱)

اسما و صفات :صفات جلال ۱، ۶

انجام :اس ميں مؤثر عوامل ۵

انسان :اس كا اختيار ۵; اس كا كردار ۴; اسكى خصوصيات ۵

حق :حق دشمنى كے عوامل ۳

خدا تعالى :اس كا منزہ ہونا ۱;خدا تعالى اور ظلم ۱،۶

خود:خود پر ظلم كے اثرات ۳

روايت ۶

شقاوت :اسكے عوامل ۴

ظلم:اس كا سرچشمہ ۲

كفار :انكا ہدايت كو قبول نہ كرنا ۳; انكى حق دشمنى ۳;انكے ظلم كے اثرات ۳

كفر :اسكے موارد ۶

ہدايت :اسے قبول نہ كرنے كے عوامل ۳

____________________

۱) تحف العقول ص ۴۶۱_ بحارالانوار ج ۵ص ۷۱ح۱_

۴۹۱

آیت ۴۵

( وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَن لَّمْ يَلْبَثُواْ إِلاَّ سَاعَةً مِّنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُواْ بِلِقَاء اللّهِ وَمَا كَانُواْ مُهْتَدِينَ )

جس دن خدا ان سب كو محشور كرے گا اس طرح كہ جيسے دنيا ميں صرف ايك ساعت ٹھرے ہوں اور وہ آپس ميں ايك دوسرے كو پہچانتے ہوں گے يقينا جن لوگ نے خدا كى ملاقات كا انكار كيا ہے وہ خسارہ ميں رہے اور ہدايت يافتہ نہيں ہوسكے _

۱_ قيامت وہ دن ہے كہ جسے لوگوں كو ذہن ميں ركھنا چاہ ے اور ايك دوسرے كو اسكى ياد دہانى كرانى چاہئے_

ويوم يحشرهم

''يوم '' ياتو''ا ذكر'' كا مفعول بہ ہے يا'' ذكرہم'' محذوف كا دوسرا مفعول ہے يا ظرف ہے اور ''قد خسر'' كے متعلق ہے _ مندرجہ بالا مطلب پہلے اور دوسرے احتمال كى بنياد پر ہے_

۲_ قيامت والے دن لوگوں كا محشورہونا اس طريقے سے ہوگا كہ ايك دوسرے كو خوب پہچانتے ہوں گے_

ويوم يحشرهم يتعارفون بينهم

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ''يتعارفون بينهم'' و الا جملہ '' يحشرہم'' كى '' ہم '' ضمير سے حال ہو_

۳_ قيامت والے دن لوگ اپنے دنيا ميں ٹھہرنے كو بہت مختصر اور صرف چند لحظوں كے برابر محسوس كريں گے كہ جن ميں كچھ لوگ ايك دوسرے سے ملتے ہيں اور ايك دوسرے كو پہچانتے ہيں

و يوم يحشرهم كا ن لم يلبثوا الا ساعة من النهار يتعارفون بينهم

لغت ميں ''ساعة'' كا معنى ہے زمانے كا ايك حصہ ( چھوٹا يا بڑا)_ مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ '' لم يلبثوا'' كے متعلق ظرف ''دنيا'' ہو يعنى'' كا ن لم يلبثوا فى الدنيا '' _

۴۹۲

۴_ قيامت والے دن لوگ برزخ ميں اپنے ٹھہرنے كو بہت مختصر محسوس كريں گے _

و يوم يحشرهم كا ن لم يلبثوا الا ساعة من النهار

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ '' لم يلبثوا'' كا متعلق ظرف، مو ت كے بعد والا زمانہ ہو_

۵_ قيامت والے دن لوگ دو عالم ( دنيا اور برزخ) ميں اپنے ٹھہرنے كو بہت مختصر محسوس كريں گے_

و يوم يحشرهم كا ن لم يلبثوا الا ساعة من النهار

مندرجہ بالا مطلب اس بنا پر ہے كہ'' لم يلبثوا'' كا متعلق ظرف دنيا اور موت كے بعد والا زمانہ دونوں ہوںيعنى '' كا ن لم يلبثوا فى الدنيا و بعد الموت''

۶_ جو لوگ معاد كے انكار پر مصر رہے اور انہوں نے اس گمراہى سے ہاتھ نہ كھينچا توقيامت والے دن وہ گھاٹے ميں اور شكست خوردہ ہوں گے_و يوم يحشرهم قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله

۷_ قيامت ، خدا تعالى كے ساتھ ملاقات كرنے كا دن ہے_و يوم يحشرهم قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله

۸_ مشركين ، معاد كے منكر تھے_قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله

۹_ معاد كو جھٹلانا اور اس كا انكار كرنا ضلالت اور گمراہى ہے اور اس پر ايمان لانا اور اس كا اعتراف كرنا ہدايت ہے_

قد خسر الذين كذبوا بلقاء الله و ما كانوا مهتدين

ايمان :معاد پر ايمان ۹

حشر :اسكى خصوصيات ۲

ذكر :ذكر قيامت كى اہميت ۱

زندگى :برزخى زندگى كا زمانہ ۴،۵; دنياوى زندگى كا زمانہ ۳،۵

قيامت :اسكى خصوصيات ۳،۴،۵،۷; اس ميں خدا كى ملاقات ۷

گمراہى :

۴۹۳

اسكے موارد ۹

گھاٹے ميں رہنے والے :يہ لوگ قيامت ميں ۶

محشر:اس ميں ايك دوسرے كى شناخت ۲

مشركين :يہ اور معاد ۸

معاد:اسے جھٹلانا ۹; اسے جھٹلانے والوں كا اخروى نقصان ۶، اسے جھٹلانے والے ۸

ہدايت :اسكے موارد ۹

آیت ۴۶

( وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللّهُ شَهِيدٌ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ )

اور ہم نے جن باتوں كا ان سے وعدہ كيا ہے انھيں آپ كو دكھاديں يا آپ كو پہلے ہى دنيا سے اٹھا ليں انھيں تو بہر حال پلٹ كر ہمارى ہى بارگاہ ميں آنا ہے اس كے بعد خدا خود ان كے اعمال كا گواہ ہے _

۱_ خدا تعالى نے مشركين كو بار بار تباہ كن عذاب كى دھمكى دى ہے_و اما نرينك بعض الذى نعدهم

''نعد'' فعل مضارع ہے جو استمرار پر دلالت كرتا ہے اور يہ ''وعد '' سے مشتق ہے جو خير اور شر دونوں ميں استعمال ہوتاہے_ يہاں پر چونكہ ''ہم '' ضمير كا مرجع مشركين ہيں اسلئے يہ شر اور دھمكى دينے كيلئے آيا ہے_

۲_ پيغمبر اكرم(ص) اضطراب اور پريشانى كے ساتھ خدا تعالى كى طرف سے مشركين پر عذاب نازل ہونے كے منتظر تھے_

و اما نرينك بعض الذى نعدهم او نتوفينك فالينا مرجعهم

آيت شريفہ پيغمبراكرم(ص) كو تسلى دے رہى ہے اس كا مطلب ہے كہ آنحضرت(ص) ميں ايك قسم كى پريشانى اور بے چينى موجود تھى _

۴۹۴

۳_ چونكہ مشركين ، كفار اور دشمنان دين ، خدا تعالى كى طرف پلٹ كرجانے اور عذاب جہنم ميں گرفتار ہونے سے فرار نہيں كر سكتے اسلئے انہيں خدا تعالى كى طرف سے مہلت ملنا پريشانى كا باعث نہيں ہے_

و اما نرينك بعض الذى نعدهم او نتو فينك فالينا مرجعهم

۴_ موت، انسان كى حقيقت كو مكمل طور پر ليناہے_او نتو فينك

'' توفي''كا معنى ہے كسى شے كو مكمل طور پر لے لينا(لسان العرب)

۵_ پيغمبر(ص) كى رحلت كے بعد ان معاشروں پر تباہ كن عذاب كا نازل ہونا ہر وقت ممكن ہے جو اس كے مستحق ہيں _

او نتوفينك فالينا مرجعهم

۶_ كفار كے عذاب كا مؤخر ہونا انكے فائدہ ميں نہيں ہے بلكہ يہ انكے اخروى عذاب كے مزيد شديد ہونے كا باعث ہے_

ثم الله شهيد على ما يفعلون

جس طرح عذاب كا مو خر ہونا پيغمبر(ص) كى پريشانى كا باعث تھا اسى طرح يہ كفار كيلئے ; بعد والى آيت كے قرينے سے (يقولون متى ہذا الوعد) ; ايك دستاويز بن گئي تھى تا كہ مومنين كا مزاق اڑا سكيں چنانچہ ہو سكتا ہے يہ جملہ '' ثم اللہ شہيد على ما يفعلون'' ( خدا تعالى تيرى جان لينے كے بعد انكے سب اعمال پر دقت كے ساتھ نظر ركھے ہوئے ہے);جيسے كہ اوپر والے مطلب ميں آچكا ہے; عذاب كے مؤخر ہونے كے حكم اور فلسفے كو بيان كر رہا ہو_

۷_ خدا تعالى لوگوں كےسب اعمال پر شاہد اور گواہ ہے_ثم الله شهيد على ما يفعلون

آنحضرت (ص) :آپ(ص) اور مشركين ۲; آپ(ص) كى پريشانى ۲

خدا تعالى :اسكى دھمكياں ۱; اسكى گواہى ۷

دين :اسكے دشمنوں كو مہلت ۳

عذاب:اخروى عذاب كے شديد ہونے كے عوامل ۶; تباہ كن عذاب، حضرت محمد(ص) كے بعد ۵; تباہ كن عذاب كا امكان ۵

عمل :اسكے گواہ ۷

كفار:انكا اخروى عذاب ۶;انكو مہلت ۳; انكے عذاب

۴۹۵

كے مؤخر ہونے كے اثرات ۶

مشركين :ان كا تباہ كن عذاب ۱; انكا عذاب ۲;انكو دھمكى ۱;انكو مہلت ۳

موت:اسكى حقيقت۴

آیت ۴۷

( وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولٌ فَإِذَا جَاء رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ )

اور ہر امّت كے لئے ايك رسول ہے اور جب رسول آجاتا ہے تو ان كے درميان عادلانہ فيصلہ ہوجاتا ہے او ر ان پركسى طرح كا ظلم نہيں ہوتا ہے _

۱_خدا تعالى نے خاص طور پر ہر امت كيلئے ايك رسول مقرر كرركھا ہے _و لكل امة رسول فاذا جاء رسولهم

كلمہ امت كو پيش نظر ركھتے ہوئے ظاہراً لفظ رسول سے يہاں مراد صاحب شريعت پيغمبر(ص) ہے اور اس كا مفرد ہونا دلالت كرتا ہے كہ ہر دور ميں صاحب شريعت پيغمبر (ص) ايك سے زيادہ نہيں ہوتا تھا_

۲_ ہر زمانے كے لوگوں كيلئے ضرورى ہے كہ اپنے زمانے كے الہى پيغمبر كى شريعت كا اتباع كريں _

و لكل امة رسول فاذا جاء رسولهم

آيت شريفہ بتاتى ہے كہ اولاً دو رسولوں كے درميان كے مختلف معاشرے ايك امت كو تشكيل ديتے ہيں اور ثانياً ضرورى ہے كہ ہر امت اسي زمانے كے رسول كى پيروى كرے اور اس سے پہلے زمانے كے رسول كى پيروى كرناصحيح نہيں ہے_

۳_ آسمانى شريعت اور دين سب زمانوں ميں سب امتوں كيلئے موجود رہے ہيں _و لكل امة رسول فاذا جاء رسولهم

۴_ ہر زمانے ميں پيغمبر الہى اور شريعت ايك سے زيادہ نہيں ہے_و لكل امة رسول فاذا جاء رسولهم

۵_ لوگوں كے درميان اختلاف كا پيدا ہونا انبياء الہى كى بعثت كا باعث تھا _

۴۹۶

فاذا جاء رسولهم قضى بينهم بالقسط

جملہ ''قضى بينهم '' لوگوں كے درميان اختلاف كے وجود پر دلالت كرتاہے كيونكہ قضاوت اس جگہ ہوتى ہے جہاں اختلاف ہو _ ممكن ہے يہ پيغمبر(ص) كے آنے سے پہلے والے اختلاف كى طرف اشارہ ہو اور يہ بھى احتمال ہے كہ يہ بعثت رسول كے بعدوقوع پذير ہونے والے اختلاف كى طرف اشارہ ہو _ مندرجہ بالا نكتہ پہلے احتمال كى بنا پر ہے_

۶_ الہى شريعتيں لوگوں كے در ميان اختلافات كو ختم كرنے اور عدل و انصاف كو بر قرار كرنے كيلئے آئيں _

فاذا جاء رسولهم قضى بينهم بالقسط

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ ''بينہم '' سے مراد، افراد امت كا آپس كا اختلاف ہو_

۷_ جو لوگ اپنے الہى پيغمبر كو قبول نہيں كرتے اور اسكى مخالفت كرتے ہيں ان كيلئے تباہ كن عذاب سنت الہى ہے_

فاذا جاء رسولهم قضى بينهم بالقسط

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ''بينهم '' سے مراد امت كے ايك گروہ اور پيغمبر كا اختلاف ہو اور در اصل يوں ہو '' بينہم وبينہ '' اس صورت ميں'' قضى بينهم'' سے مراد ہو سكتاہے پيغمبر(ص) كے مخالفين كى سركوبى اور تباہ كن عذاب كے ذريعے انكى نابودى ہو نہ كہ ان كے در ميان فيصلہ _

۸_ بعثت انبياء خدا تعالى كى طرف سے لوگوں پر اتمام حجت ہے_فاذا جاء رسولهم قضى بينهم بالقسط

۹_ تباہ كن عذاب كا نازل ہونا ہميشہ خدا تعالى كى طرف سے لوگوں پر حجت تمام ہونے كے بعد ہوتا ہے_

فاذا جاء رسولهم قضى بينهم بالقسط

۱۰_فيصلے اور قضاوت ميں عدل و انصاف كا خيال ركھنا ضرورى ہے_قضى بينهم بالقسط

۱۱_تباہ كن عذاب كانزول ، عدل و انصاف كى بنياد پر ہوتا ہے اور اس ميں كسى پر ظلم نہيں ہوتا _

قضى بينهم بالقسط و هم لا يظلمون

۱۲_ خدا تعالى نے پيغمبراكرم(ص) كو جھٹلانے والوں كو تباہ كن عذاب كى دھمكى دى ہے_

فاذا جاء رسولهم قضى بينهم بالقسط و هم لا يظلمون

اختلاف :اسكے اثرات ۵

اديان :اديان كا اختلاف كو مٹانا۶; انكا فلسفہ ۶; انكا كردار ۶; انكى تاريخ ۳

۴۹۷

اطاعت:انبياء كى اطاعت كى اہميت ۲

امتيں :انكا دين ۳; انكى ذمہ دارى ۲

انبياء (ع) :انكى بعثت ۸;انكى بعثت كے عوامل ۵; انكى تاريخ ۴; انكے مخالفين كا عذاب ۷پيامبران الہى :۱

خدا تعالى :اسكى دھمكياں ۱۲; اسكى سنتيں ۷،۹،۱۱;اسكى طرف سے اتمام حجت ۸،۹; اسكى عدالت ۱۱;اسكے افعال ۱; اسكے عذاب كى خصوصيات ۱۱

خدا تعالى كى سنتيں :تباہ كن عذاب والى سنت۷

دين :اسكى وحدت ۴

سزا :بغير بيان كے سزا ۹

عدالت:اس كى اجتماعى اہميت ۶

عذاب:تباہ كن عذاب كا نزول ۹; تباہ كن عذاب كى دھمكى ۱۲

قضاوت :اسكى شرائط۱۰; اس ميں عدل كى اہميت ۱۰

محمد(ص) :آپ(ص) كو جھٹلانے والوں كو دھمكى ۱۲

آیت ۴۸

( وَيَقُولُونَ مَتَى هَـذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ )

يہ لوگ كہتے ہيں كہ اگر آپ سچّے ہيں تو يہ وعدہ عذاب كب پورا ہوگا_

۱_ خدا تعالى نے پيغمبر اكرم (ص) كو جھٹلانے والوں كو تباہ كن عذاب كى دھمكى دى ہے_و يقولون متى هذا الوعد

۲_ مشركين تباہ كن عذاب كے وعدہ كو اسكے وقوع پذير ہونے كا وقت معلوم نہ ہونے كى وجہ سے پيغمبر(ص) اور مومنين كا جھوٹا اور بے بنياد دعوى سمجھتے تھے_

۴۹۸

و يقولون متى هذا الوعد ان كنتم صادقين

جملہ ''متى ہذا الوعد '' ميں استفہام استہزا كيلئے ہے مندرجہ بالا نكتہ اس سے حاصل ہوتا ہے_

۳_تباہ كن عذاب كے واقع ہونے كے وقت كا معلوم نہ ہونا مشركين كے پاس اسكى دھمكى كا تمسخر اڑانے كا بہانہ تھا_

و يقولون متى هذا الوعد ان كنتم صادقين

اس سوال كا جواب ; جو بعد والى آيت ميں آيا ہے; مندرجہ بالا مطلب كى تائيد كرتا ہے_

۴_ مشركين ، پيغمبر اكرم (ص) اور مومنين كا مذاق اڑاكر اس تباہ كن عذاب كے وقت كى تعيين اور اس ميں عجلت كے خواہا ں تھے_و يقولون متى هذا الوعد ان كنتم صادقين

آنحضرت (ص) :آپ(ص) پر بہتان باندھنا ۲;آپ(ص) كو جھٹلانے والوں كو دھمكى ۱

خدا تعالى :اسكى دھمكياں ۱

عذاب:تباہ كن عذاب كا مذاق اڑانا ۴; تباہ كن عذاب كى دھمكى ۱

مشركين :انكا بہانے تلاش كرنا ۳; انكا بہتان باندھنا ۲;انكا مذاق اڑانا ۴;انكے مذاق اڑانے كے عوامل ۳; صدر اسلام كے مشركين كے مطالبے ۴; يہ اور تباہ كن عذاب ۲،۳;يہ اور حضرت محمد (ص) ۴; يہ اور مومنين ۴

مومنين :ان پر بہتان باندھنا ۲

۴۹۹

آیت ۴۹

( قُل لاَّ أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرّاً وَلاَ نَفْعاً إِلاَّ مَا شَاء اللّهُ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ إِذَا جَاء أَجَلُهُمْ فَلاَ يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَ يَسْتَقْدِمُونَ )

كہہ ديجئے كہ ميں اپنے نفس كے نقصان ونفع كا بھى مالك نہيں ہوں جب تك خدانہ چاہے _ ہر قوم كے لئے ايك مدّت معين ہے جس ہے ايك ساعت كى بھى نہ تاخير ہوسكتى ہے او ر نہ تقديم _

۱_ كوئي بھى حتى پيغمبر اكرم (ص) ، مشيت الہى كے بغير اپنے لئے نفع حاصل نہيں كر سكتا اور اپنے سے نقصان كو دور نہيں كر سكتا_قل لا املك لنفسى ضرا ولا نفعاالا ما شاء الله

۲_ پيغمبر اكرم (ص) صرف خدا كے پيغام كو پہنچانے والے ہيں اور اسكے ارادہ اور مشيت كے بغير كسى وعدے يا دھمكى كو عملى جامہ پہنانے كى طاقت نہيں ركھتے_ويقولون متى هذا الوعد قل لا املك لنفسى ضرا و لا نفعا الا ما شاء الله

۳_ انسان كى سب توانائياں اور حركات مشيت الہى كے اختيار ميں اور اسكے ارادے كے تحت ہيں _

قل لا املك لنفسى ضرا و لا نفعا الا ما شاء الله

۴_ پيغمبراكرم (ص) مشيت الہى كے بغير تباہ كن عذاب كے وقت كو معين كرنے اور اسے عملى جامہ پہنانے كى توانائي نہيں ركھتے_و يقولون متى هذا الوعد قل لا املك لنفسى ضرا و لا نفعا الا ماشاء الله

۵_جھٹلانے والوں كى سزا كے وقت كو معين كرنا صرف خدا تعالى كے اختيار ميں ہے_

و يقولون متى هذا الوعد قل لا املك الا ما شاء الله

۶_ خدا تعالى نے ہر معاشرے اور امت كى زندگى اور موت كا ايك وقت پہلے سے ہى معين فرمايا ہوا ہے_

۵۰۰

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746