تفسير راہنما جلد ۷

تفسير راہنما 7%

تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 746

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 746 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 190095 / ڈاؤنلوڈ: 4706
سائز سائز سائز
تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۷

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

انكى مذمت۱۰;ان كے بہتان ۱۰; انكے شرك كى سزا ۱۲ ; ان كے عقيدہ كا سرچشمہ ۵;عيسائي اور حضرت عيسى (ع) ۲،۳،۴

كفار : ۷،۸

كفر:اسكے اسباب۷،۸

لعنت:لعنت كے مستحقين ۱۱

منحرف ہونے والے:۱۱

يہود:ان پر نفرين ۹;ان كا افترا ۱۰;ان كا عقيدہ ۱، ۳ ، ۴; ان كا كفر ۸; ان كى سرزنش ۱۰; ان كے شرك كى سزا ۱۲; ان كے عقيدہ كا سرچشمہ ۵; يہود اور حضرت عزير ۱ ،۳،۴

آیت ۳۱

( اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُواْ إِلاَّ لِيَعْبُدُواْ إِلَـهاً وَاحِداً لاَّ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ )

ان لوگوں نے اپنے عالموں اور راہبوں او رمسيح بن مريم كو خدا كو چھوڑ كر اپنا رب بنالياہے حالا نكہ انھيں صرف خدا ئے يكتا كى عبادت كا حكم ديا گيا تھا جس كے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے وہ واحد و بے نياز ہے اور ان كے مشركانہ خيالات سے پاك و پاكيزہ ہے _

۱_ يہود و نصارى كى اپنے احبار و رھبان (دينى راہنما) كى بے چون و چرا اطاعت _اتخذوا احبارهم و رهبانهم ارباب

''رب بنانا''بے چون و چرا اطاعت سے كنايہ ہے_

۲_ خدا تعالى كى طرف سے يہود و نصارى كو اپنے دينى پيشواؤں ( احبار و رہبان) كو رب كى حدتك ماننے كى وجہ سے توبيخ _

اتخذوا احبارهم و رهبانهم ارباباً من دون الله

۳_ دينى راہنماؤں كى ايسى اطاعت ممنوع ہے جو فرمان الہى اور اسكى رضا كے مطابق نہ ہو _

اتخذوا احبارهم و رهبانهم ارباباً من دون الله

۴_ عيسائيوں كى غلط فكر كہ حضرت مسيح (ع) ربوبيت و پروردگارى كے حامل ہيں _اتخذوا ارباباً من دون الله و المسيح ابن مريم

۸۱

۵_ سب انسانوں كو يہ حكم ہے كہ وہ خدائے يكتا كى بے چون و چرا عبادت كريں اور كسى كو اس كا شريك نہ بنائيں _

و ما امروا الا ليعبدوا الهاً واحداً لا اله الا هو

۶_ توحيد ، سب آسمانى اديان كا مشتركہ عقيدہ ہے_اتخذوا احبارهم و رهبانهم ارباباً و ما امروا الا ليعبدوا الهاً واحد

۷_ كسى انسان كى بے چون و چرا اطاعت اسكى پرستش كے مترادف ہے_اتخذوا احبارهم و رهبانهم ارباباً ...و ما امروا الا ليعبدوا الهاًواحد

مندرجہ بالا مطلب اس بات سے سمجھ ميں آتا ہے كہ اللہ تعالى نے فرمايا ہے كہ يہود و نصارى نے اپنے دينى پيشواؤں كو اپنا رب مان ركھاہے انكى پرستش كرتے ہيں حالانكہ وہ با قاعدہ طور پر انكى پرستش نہيں كرتے تھے بلكہ صرف بے چون وچرا انكى اطاعت كرتے تھے_

۸_ الہ صرف خدا تعالى ہے_لا اله الا هو

۹_ اللہ سبحانہ ہر قسم كے شرك سے منزہ ہے_سبحنه عما يشركون

۱۰_ يہود و نصارى مشرك ہيں _اتخذوا احبارهم و رهبانهم ارباباً من دون الله سبحنه عما يشركون

۱۱_ دينى راہنماؤں كى ايسى اطاعت جو فرمان الہى اور اسكى خوشنودى كے دائرے سے باہر ہو شرك ہے_

اتخذوا احبارهم و رهبانهم ارباباً من دون الله سبحنه عما يشركون

خدا تعالى نے اہل كتاب كى اسلئے مذمت كى ہے اور انہيں مشرك قرار ديا ہے كہ وہ اپنے دينى راہنماؤں كو خدا (رب) كى جگہ پر قرار ديتے تھے لہذا دينى راہنماؤں كو رب قرار دينا اور فرامين الہى كى اطاعت كى بجائے انكى اطاعت كرنا شرك ہوگا_

۱۲_ امام صادق(ع) سے اللہ تعالى كے اس فرمان(اتخذوا احبارهم و رهبانهم ارباباً من دون الله ) كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ آپ نے فرمايا:''والله ما صلّوا لهم ولا صاموا ولكنهم احلوّا لهم حراماً و حرّموا عليهم حلالاً فاتبعو هم '' قسم بخدا انہوں نے اپنے احبار اور رہبان كيلئے نہ نماز پڑھى اور نہ روزہ ركھا ليكن ان كے علماء نے لوگوں گيلئے حلال كو حرام اور حرام كو حلال كيا اور لوگوں نے انكى پيروى كى _(۱)

____________________

۱)محاسن برقى ج ۱ ص ۲۴۶ح ۲۴۵ _ بحار الانوار ح ۲ ص ۹۸ ح ۴۸ _

۸۲

۱۳_ امام محمد باقر(ع) سے اللہ تعالى كے اس فرمان _اتخذوا احبارهم و رهبانهم ارباباً من دون الله و المسيح ابن مريم

كے بارے ميں روايت كى گئي ہے : اما المسيح فعصوہ وعظموہ فى انفسہم حتى زعموا انہ الہ انہ ابن اللہ وطائفة منہم قالوا ثالث ثلاثة وطائفہ منہ قالوا ہو اللہ ...'' انہوں عيسى كى نافرمانى كى اور اپنى دانست ميں انہيں عظمت كى اس حدتك لے گئے كہ ان كے اپنا معبود اور خدا كا بيٹا ہونے كا گمان كرنے لگے اور ايك گروہ كہنے لگايہ تين معبود وں ميں سے ايك ہيں اور ايك گروہ كہنے لگا يہ خدا ہيں _(۱)

اديان :انكى مشترك چيزيں ۶

اطاعت:دينى راہنماؤں كى اطاعت كا دائرہ ۳،۱۱;غير خدا كى اطاعت ۷;مسيحى علماء كى اطاعت ۱; ممنوع اطاعت ۳،۱۱; يہودى علماء كى اطاعت ۱

انسان :اس كى ذمہ دارى ۵/توحيد :اسكى اہميت ۶; توحيد ذاتى ۸،۹;توحيد عبادى ۵

حقانيت:اسكے معيار ۳،۱۱

حلال:اسكو حرام كرنا ۱۲

خدا تعالى :اسكا بے مثال ہونا ۹; اس كا منزہ ہونا ۹;اسكى طرف سے مذمت ۲;اس كے مختصات ۸

روايت :۱۲،۱۳

شرك:اس كا ترك كرنا ۵; اس كے موارد ۱۱

عبادت:اسكے موارد ۷;خدا كى عبادت ۵

عقيدہ :باطل عقيدہ ۴

علمائے يہود :انكى بدعت ۱۲;ان كے احترام كى مذمت ۲

عيسى (ع) :انكى الوہيت۱۳

عيسائي :عيسائي اور حضرت عيسى (ع) كا رب ہونا ۴;عيسائيوں كا اپنے علما كى اتباع كرنا ۱; عيسائيوں كا شرك ۱۰; عيسائيوں كا عقيدہ ۴،۱۳; عيسائيوں كى مذمت ۲

____________________

۱)تفسير قمى ح ۱ ص ۲۸۹ ، نور الثقلين ج ۲ ص ۲۱۰ ح ۱۱۶_

۸۳

عيسائيت :اس ميں تثليث ۱۳

محرمات:انكو حلال كرنا ۱۲

مسيحى علماء:انكى بدعت ۱۲; انكے احترام كى مذمت ۲

مشركين:۱۰

نافرماني:عيسى (ع) كى نافرمانى ۱۳

يہودي:انكا اپنے علما كى اتباع كرنا ۱;انكى مذمت ۲; ان كا شرك ۱۰

آیت ۳۲

( يُرِيدُونَ أَن يُطْفِؤُواْ نُورَ اللّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللّهُ إِلاَّ أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ )

يہ لوگ چاہتے ہيں كہ نور خدا كو اپنے منھ سے پھونك مار كربجھاديں حالا نكہ خدا اس كے علاوہ كچھ ماننے كے لئے تيا ر نہيں ہے كہ وہ اپنے نور كو تمام كردے چاہے كافروں كو يہ كتنا ہى براكيوں نہ لگے_

۱_يہود و نصارى كى پورى كوشش كہ نور الہى (قرآن ) كو اپنى باتوں اور پروپيگنڈے سے خاموش كرديں _

يريدون ان يطفئوا نور الله با فواههم

''يريدون'' ''يطفئوا'' اور'' افواہہم ''ميں جمع كى ضميريں يہود و نصارى _ (الذين اوتوا الكتاب )كى طرف پلٹتى ہيں '' افواہہم '' (اپنى باتوں كے ساتھ) كى قيد بتاتى ہے كہ اہل كتاب عام لوگوں كو قرآن و اسلام سے منحرف كرنے كيلئے غلط پروپيگنڈا كرتے تھے_

۲_ اسلام كے خلاف يہود و نصارى كا موقف اور غلط پروپيگنڈا خدا تعالى كے دائمى نور كے مقابلے ميں كھوكھلا اور ناچيز ہے_يريدون ان يطفئو ا نور الله بافواههم

۳_ احبار (يہودى علما) اور رہبان (عيسائي علما) قرآن و اسلام كى مخالفت ميں پيش پيش _

اتخدوا احبارهم و رهبانهم ارباباً يريدون ان يطفئو ا نور الله بافواههم

مندرجہ بالا نكتہ اس بنا پر ہے كہ ''يريدون''''يطفئوا' ' اور'' افواههم '' كى ضمير كا مرجع

۸۴

احبار اور رہبان ہوں يوں آيہ شريفہ (اتخذوا احبارہم و رہبانہم ارباباً)كا ايك مصداق بيان كررہى ہے يعنى احبار اور رہبان قرآن و اسلام كے خلاف غلط باتيں كرتے تھے اور يہود و نصارى انكى اندھى تقليد كرتے تھے_

۴_ قرآن و اسلام كا مقابلہ كرنے ميں يہود و نصارى كى اپنے علما كى اندھى تقليد اور بے چون و چرا اطاعت_

اتخذوا احبارهم و رهبانهم اربابا يريدون ان يطفئوا نور الله بافواههم

۵_ قرآن كريم ، خدا تعالى كا نور ہے_يريدون ان يطفئو ا نور الله

۶_ يہود و نصارى كى اپنے بے انتہا پروپيگنڈے كے باوجود اسلام كو نابود كرنے اور اس پر غلبہ حاصل كرنے سے ناتوانى _

يريدون ان يطفئوا نور الله بافواههم و يأبى الله الا ان يتم نوره

۷_ اسلام ہميشہ سے يہود و نصارى كے كينے اور دشمنى كا شكار رہا_يريدون ان يطفئوا نور الله بافواههم

مندرجہ بالا نكتہ اس چيز سے حاصل ہوتا ہے كہ جملہ ''يريدون '' استمرار كا فائدہ ديتا ہے _

۸_ خدا تعالى كا ارادہ ہے اسلام اور تعليمات قرآن كو پورے عالم ميں پھيلانا _و يأبى الله الا ان يتم نوره

۹_قرآن اور اسلام دائمى كتاب اور آئين جاويد ہيں _و يا بى الله الا ان يتم نوره

۱۰_ اسلام كى مخالفت ميں ہر كوشش اور تدبير خدا تعالى كے ارادہ كے مقابلے ميں مغلوب اور شكست سے دوچار ہے_

يريدون ان يطفئوا نور الله و يأبى الله و لو كره الكافرون

۱۱_ قرآن و اسلام كى مخالفت كفر ہے_يريدون ان يطفئوا نور الله و يأبى الله الا ان يتم نوره و لو كره الكافرون

۱۲_ يہودو نصارى كافر ہيں _يريدون ان يطفئوا نور الله و يأبى الله و لو كره الكافرون

۱۳_ يہود و نصارى اسلام كے پھيلنے سے ناخوش ہيں _و يأبى الله الا ان يتم نوره و لو كره الكافرون

۱۴_ امام على (ع) سے روايت ہے كہ آپ نے فرمايا :''صعد رسول الله(ص) المنبر فقال; ان الله نظر الى اهل الارض ...فاختارنى منهم ثم نظر ثانية فاختار عليا ...وهو نورالارض بعدى ...ثم تلا رسول الله(ص) ; يريدون

۸۵

ليطفئوا نورالله بافواههم ...'' پيغمبر (ص) منبر پر گئے اور فرمايا خدا تعالى نے اہل زمين كى طرف توجہ كى اور ان ميں سے مجھے انتخاب فرمايا پھر دوسرى مرتبہ توجہ فرمائي اور على (ع) كو انتخاب فرمايا اور وہ ميرے بعد زمين كا نور ہيں _اس وقت پيغمبر (ص) نے اس آيت كى تلاوت فرمائي ''چاہتے ہيں نور خدا كو اپنى پھونكوں كے ساتھ بجھا ديں ''(۱)

اسلام :اس كا پھيلنا ۸;اس كا دائمى ہونا ۹;اسكى كاميابى ۶; اسكى مخالفت ۱۱;اسكى مخالفت كى شكست ۱۰; اسكے خلاف پروپيگنڈا۲; اسكے دشمن ۲،۳،۴،۷; اسكے ساتھ مقابلہ ۴

اطاعت:عيسائي علما كى اطاعت ۴;يہودى علما كى اطاعت۴

امام على (ع) :آپ كا انتخاب ۱۴

خداتعالى :خدا كا ارادہ ۸،۱۰; نور خدا ۵،۱۴;نور خدا كا دائمى ہونا ۲;نور خدا كو بجھانا ۱

دين :دين جاويد ۹

روايت :۱۴

عيسائي :انكا اپنے علما كى اطاعت كرنا ۴; انكا پروپيگنڈا ۱،۲;انكا عاجز ہونا ۶; انكا كفر ۱۲; انكى دشمنى ۱ ، ۲ ، ۴ ، ۷ ; انكى ناخوشنودى ۱۳;عيسائي اور اسلام ۲،۴،۱۳; عيسائي اور اسلام كا پھيلنا ۱۳

عيسائي علما:انكى دشمنى ۳

كفار: ۱۲

كفر :اسكے موارد ۱۱

قرآن كريم :اسكا دائمى ہونا ۹;اس كا مقابلہ ۴; اسكا نور ہونا ۵; اسكى تعليمات كا پھيلنا ،۸; اسكى خصوصيا ت۵;اسكى فضيلت ۵; اسكى مخالفت ۱۱; اسكے خلاف پروپيگنڈا ۱; اسكے دشمن ۱،۳ ، ۴

يہودى :انكا اپنے علما كا اتباع كرنا ۴; انكا پروپيگنڈا ،۱،۲; انكا عاجز ہونا ۶; انكا كفر ۱۲; انكى دشمنى ۱،۲،۴،۷; انكى ناخوشنودى ۱۳; يہودى اور اسلام ۲،۴،۱۳; يہودى اور اسلام كا پھيلنا ۱۳;يہودى اورقرآن ۱

يہودى علما:انكى دشمنى ۳

____________________

۱)بحار الانوار ج۲۳ ص ۳۲۰ ح۳۷_

۸۶

آیت ۳۳

( هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ )

وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول كو ہدايت او ردين حق كے ساتھ بھيجاتا كہ اپنے دين كو تمام اديان پر غالب بنائے چاہے مشركين كو كتنا ہى ناگوار كيوں نہ ہو _

۱_ حضرت محمد (ص) خدا تعالى كے بھيجے ہوئے ہيں _هو الذى ارسل رسوله

۲_ انسان كى راہنمائي اور ہدايت خدا تعالى كى طرف سے پيغمبراكرم (ص) كى ذمہ داري_هو الذى ارسل رسوله بالهدي

۳_ قرآن كريم كتاب ہدايت ہے_هو الذى ارسل رسوله بالهدي

عام طور پر مفسرين كا خيال يہ ہے كہ اس سے مراد قرآن كريم ہے كيونكہ قرآن كتاب ہدايت ہے اور ہدايت ہى اسكے نزول كا فلسفہ ہے_

۴_ صرف اسلام ہى دين حق اور خدا تعالى كو قابل قبول ہے_هو الذى ارسل رسوله بالهدى و دين الحق

۵_ پيغمبراكرم (ص) كا ہدايت (قرآن ) اور دين حق (اسلام) كے ہمراہ آنا نور الہى كى تكميل اور ارادہ الہى كا وقوع پذير ہوناہے_و يأبى الله الا انى يتم نوره ...هو الذى ارسل رسوله بالهدى و دين الحق

۶_ حق، دين اسلام كے احكام و قوانين كى اساس اور محور ہے_هو الذى ارسل رسوله بالهدى و دين الحق

۷_ تاريخ انسانى مستقبل ميں اديان كى شكست اور دين اسلام كى كاميابى اور حاكميت كا مشاہدہ كرے گى _

هو الذى ارسل رسوله ليظهره على الدين كله

خدا تعالى نے مندرجہ بالا آيت شريفہ ميں اسلام كى دنيا كے تمام اديان پر قطعى كاميابى كى خبر دى ہے اور پيشين گوئي فرمائي ہے اور چونكہ پيغمبر (ص) اكرم كے زمانے ميں ايسا نہيں ہو الہذا معلوم ہو تا ہے كہ يہ كاميابى تاريخ بشريت كے مستقبل ميں حاصل ہوگى _

۸_مشركين كى ناپسنديدگى كے باوجود خدا تعالى كا ارادہ ہے كہ دين حق ( اسلام ) كو دنيا كے ديگراديان پر غلبہ عطا كريگا _

و دين الحق ليظهره على الدين كله و لو كره المشركون

۸۷

۹_ يہود و نصارى اسلام كے مخالف اور اسكے پھيلنے سے ناخوش ہيں _

اتخذوا احبارهم و رهبانهم ارباباً ...ليظهره على الدين كله و لو كره المشركون

۱۰_ يہود و نصارى مشرك ہيں _اتخذوا احبارهم و رهبانهم ارباباً و لو كره المشركون

۱۱_ محمدبن فضيل كہتے ہيں ميں نے امام كاظم (ع) سے '' ہو الذى ارسل رسولہ '' كے بارے ميں سوال كيا تو آپ نے فرمايا:الولاية هى دين الحق قلت: ''ليظهره على الدين كله''قال: يظهره على جميع الاديان عند قيام القائم ..; ولايت ہى دين حق ہے اور''ليظهره على الدين كله '' كے بارے ميں فرمايا خدا تعالى امام زمانہ(ع) كے قيام كے وقت دين حق كو دنيا كے تمام اديان پر غلبہ عطا فرمائے گا_(۱)

۱۲_ اما م محمد باقر(ع) سے اللہ تعالى كے فرمان'' ليظهره على الدين كله '' كے بارے ميں روايت كى گئي ہے كہ: '' يكوں ان لا يبقى احد الا اقرّ بمحمد(ص) ( ايك وقت ) آئيگا جب كوئي باقى نہيں رہيگا مگر يہ كہ حضرت محمد (ص) كا اقرار كرتا ہو گا_(۲)

احكام :انكا معيار ۶

اديان :انكا مستقبل ۷; انكى شكست ۷،۸

اسلام :اسكى حاكميت ۷; اسكى حقانيت ۴،۵،۶; اسكى خصوصيات ۴;اسكى كاميابى ۷،۸;اسكے مخالفين۹

اقرار :حضرت محمد (ص) كى حقانيت كا اقرار ۱۲

امام مہدى (ع) :انكا قيام ۱۱

حق:اسكى اہميت۶

حقانيت:اسكے معيار ۶

خدا تعالى :

____________________

۱)كافى ج۱ ص ۴۳۲ ح۱۹ نورالثقلين ج۲ ص ۲۱۲ ح ۱۲۵_

۲)تفسير عياشى ج۲ ص ۸۷ ح۵۰ نورالثقلين ج۲ ص ۲۱۲ ح ۱۲۷_

۸۸

اسكا ارادہ ۸; اسكے ارادہ كے وقوع پذير ہونے كا پيش خيمہ۵;اسكے نور كے مكمل كرنے كا پيش خيمہ ۵

خدا كے رسول: ۱

دين :دين حق ۴،۵،۸; دين حق سے مراد ۱۱;دين حق كى كاميابى ۱۱

روايت،۱۱،۱۲

عيسائي :انكا شرك ۱۰; انكى مخالفت ۹; انكى ناخوشنودى ۹; يہ اور اسلام كا پھيلنا ۹

قرآن كريم :اس كا كردار ۳،۵; اس كا ہدايت كرنا ۳

محمد(ص) :آپكا مقام ۱;آپكا ہدايت كرنا ۲،۵;آپكى ذمہ دارى ۲;آپكى رسالت ۱; آپكى رسالت كے آثار ۵

مشركين۱۰

انكى ناخوشنودى ۸

ولايت :اسكى اہميت ۱۱

يہودي:انكا شرك ۱۰; انكى مخالفت ۹; انكى ناخوشنودى ۹; يہودى اور اسلام كا پھيلنا ۹

آیت ۳۴

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّ كَثِيراً مِّنَ الأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ )

ايمان والو نصارى كے بہت سے علماء اور راہب ، لوگوں كے اموال كوناجائزطريقہ سے كھا جاتے ہيں او رلوگوں كو راہ خدا سے رو كتے ہيں _ او رجو لوگ سونے چاندى كا ذخيرہ كرتے ہيں اور اسے راہ خدا ميں خرچ نہيں كرتے پيغمبر ، آپ انھيں دردناك عذاب كى بشارت دے ديں _

۱_ خدا تعالى نے بہت سارے احبار اور راہبوں (يہود و نصارى كے دينى پيشوا ) كے مالى انحراف سے پردہ اٹھا دي

۸۹

اور مومنين كو ان كے خطرے سے آگاہ كرديا_يا ايها الذين آمنوا ان كثيرا من الاحبار و الرهبان ليأكلون اموال الناس بالباطل

۲_ يہود و نصارى كے بہت سارے علما لوگوں كے اموال كے ناجائز اور ناحق طريقے سے مالك بن جاتے تھے_

ان كثيرا من الاحبار و الرهبان ليأكلون اموال الناس بالباطل

۳_ صدر اسلام كے مسلمانوں كى يہود و نصارى كے دينى راہنماؤں كے بارے ميں اچھى رائے _

يا ايها الذين آمنوا ان كثيرا من الاحبار و الرهبان ليأكلون اموال الناس بالباطل

مسلمانوں كيلئے يہود و نصارى كے دينى علما كا چہرہ افشاء كرنا (يا ايہا الذين آمنوا) كہ جسكے ذريعے ضمنا مسلمانوں كو خبر دار بھى كيا گيا ہے، اس حقيقت كو بيان كرتا ہے كہ مسلمان اہل كتاب كے دينى پيشواؤں كے خطرات سے آگاہ نہيں تھے بلكہ اس كے برعكس ان كے بارے ميں اچھى رائے ركھتے تھے_

۴_ دنيا پرست دينى علما، ناقابل اعتماد اور غير قابل اطمينان لوگ ہيں _ان كثيرا من الاحبار ليأكلون اموال الناس بالباطل

۵_ لوگوں كا، اموال كا مالك ہونا اسلام نے قبول كيا ہے_ليا كلون اموال الناس

۶_ ناجائز طريقوں سے لوگوں كے اموال ہتھيا لينا حرام ہے_

ان كثيرا من الاحبار و الرهبان ليأكلون اموال الناس بالباطل

۷_ بہت سارے احبار اور رہبان (يہود و نصارى كے دينى پيشوا) لوگوں كے انحراف اور انہيں راہ خدا سے دور ركھنے كے موجب ہيں _ان كثيرا من الاحبار و الرهبان و يصدون عن سبيل الله

۸_ اپنے دنياوى مفادات تك پہنچنے كيلئے احبار اور راہبوں كى لوگوں كو راہ خدا سے دور ركھنے كى كوشش_

ليأكلون اموال الناس بالباطل و يصدون عن سبيل الله

''يصدون '' كے ''يأكلون '' كے ساتھ ارتباط سے مندرجہ بالا نكتہ حاصل ہوتا ہے _

۹_ دولت و ثروت جمع كرنے اور اسے راہ خدا ميں خرچ نہ كرنے كى حرمت_

و الذين يكنزون الذهب و الفضة فبشرهم بعذاب اليم

۱۰_ جو لوگ سونے چاندى كے انبار لگاتے ہيں اور انہيں

۹۰

راہ خدا ميں خرچ نہيں كرتے وہ در د ناك عذاب كے مستحق ہيں _

و الذين يكنزون الذهب و الفضة و لاينفقونها فى سبيل الله فبشرهم بعذاب اليم

۱۱_ جنگ و جہاد كيلئے اموال كا خرچ كرنا واجب ہے اور اس سے روگردانى دوزخ كے دردناك عذاب كا موجب ہے_

و الذين يكنزون الذهب و الفضة و لاينفقونها فى سبيل الله فبشرهم بعذاب اليم

مندرجہ بالا نكتہ اس چيز سے حاصل ہوتاہے كہ يہ آيہ شريفہ جنگ و جہاد كى آيات كے بعد ہے_

۱۲_ دولت و ثروت كى ذخيرہ اندوزى كرنا اور معاشرے كو اس كے منافع سے محروم كردينا حرام اور دردناك عذاب كا موجب ہے_و الذين يكنزون الذهب و الفضة و لاينفقونها فى سبيل الله فبشرهم بعذاب اليم

۱۳_ اموال خرچ كرنے كى قدر و قيمت تب ہے جب راہ خدا ميں ہو _ولاينفقونها فى سبيل الله

۱۴_ ذخيرہ اندوزى كرنے والے جہنمى ہيں _فبشرهم بعذاب اليم

۱۵_''لما نزلت هذه الآية'' ''و الذين يكنزون الذهب و الفضة و لاينفقونها فى سبيل الله '' قال رسول الله (ص) كل مال لا تودى زكاته فهو كنزو ان كان فوق الارض _ جب يہ آيت ''والدين ...''نازل ہوئي تو پيغمبر (ص) نے فرمايا ہر وہ مال جسكى زكات ادانہ كى جائے كنز ہے اگر چہ زمين كے اوپرہى ہو_(۱)

۱۶_ معاذبن كثير كہتے ہيں ميں نے امام صادق(ع) سے سنا كہ آپ (ع) فرمارہے تھے:''اذا قام قائمنا حرّم على كلّ ذى كنز كنزه حتّى يا تيه به فيستعين به على عدوه وهو قول الله عزوجل فى كتابه:''والذين يكنزون الذّهب و الفضة ولا ينفقونها فى سبيل الله فبشّر هم بعذاب اليم'' ;جب قائم آل محمد قيام كريگا تو ہر ذخيرہ اندوزى كرنے والے پر اسكے ذخيرے كو ممنوع قرار دے دے گا يہاں تك كہ اسے لے آئے اور يوں حضرت اسكے ذريعہ اپنے دشمن كے خلاف استفادہ كريں گے_ اور يہى خدا تعالى نے اپنى كتاب ميں فرمايا ہے كہ '' جو لوگ سونا چاندى ذخيرہ كرتے ہيں اور اسے راہ خدا ميں خرچ نہيں كرتے انہيں دردناك عذاب كى بشارت ديں _(۲)

۱۷_ پيغمبراكرم(ص) سے روايت كى گئي ہے:''من رفع ديناراً او درهماً اوتبرا او فضة لا يعده لغريمه ولا ينفق-ه فى سبيل الله فهو كنز

____________________

۱) امالى شيخ طوسى ج ۲ ص ۱۳۳ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۱۳ ح ۱۳۰_

۲)كافى ج ۴ ص ۶۱ ح ۴_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۱۳ ح ۱۲۹_

۹۱

يكوى به بوم القيامة'' ; جو شخص درہم و دينار (موجودہ كرنسي) يا سونے چاندى كو ذخيرہ كرے نہ اسلئے كہ اس سے اپنا قرض ادا كرے اور اسے راہ خدا ميں خرچ نہ كرے يہ مال كنز ہے اور روز قيامت اسكے ذريعے اسے داغا جائيگا_(۱)

احكام :۵،۶،۹،۱۱،۱۲

اسلام :صدر اسلام كى تاريخ ۳/اقدار:انكا معيار ۱۳

امام مہدى (ع) :امام مہدى (ع) اور دولت كى ذخيرہ اندوزى كرنے والے ۱۶

انحراف :اسكے عوامل ۷

انسان :اسكے حقوق ۵

انفاق :اسكى قدر و قيمت ۱۳;اسكے احكام ۹،۱۱; اسكے ترك كرنے كى حرمت۹; اسكے ترك كرنے كى سزا ۱۱; اسكے ترك كرنے والوں كا عذاب ۱۰; انفاق را ہ جہادميں ۱۱; واجب انفاق ۱۱

تصرفات:حرام تصرفات ۶

ثروت:اسكى ذخيرہ اندوزى كى حرمت۹،۲۲;اسكى ذخيرہ اندوزى كى سزا ۱۲;اسكى ذخيرہ اندوزى كے احكام ۱۲

ثروت جمع كرنے والے:انكا انجام ۱۴;انكا عذاب ۱۰،۱۶

جہنمى لوگ۱۴

چاندى كى ذخيرہ اندوزى :اسكى سزا ۱۰

حرام چيزيں ،۶،۹،۱۲

خدا تعالي:خدا تعالى كى تنبيہ ۱

ذخيرہ اندوزى :اس سے مراد ۱۷; اسكى سزا ۱۰;اسكى مقدار ۱۵

راہ خدا:اس سے روكنا ۷،۸;اسكى قدر وقيمت ۱۳

روايت۱۵،۱۶،۱۷//سونے كى ذخيرہ اندوزى :اسكى سزا ۱۰

عذاب :

____________________

۱)الدرالمنثور ج۴ ص ۱۸۱_

۹۲

اسكے اسباب ۱۱;اس كے مراتب ۱۰،۱۱،۱۲;اسكے مستحق ۱۰; دردناك عذاب ۱۰،۱۱،۱۲; گرم چاندى كے ساتھ عذاب ۱۷

علما:دنيا پرست علما كا غير قابل اعتبار ہونا ۴

عيسائي علماء:انكا انحراف ۱;انكا خطرہ ۱;انكا غصب ۲;انكا گمراہ كرنا ۷;انكا مالى فساد۱;انكى اكثريت ۲; انكى حرام خورى ۲;ان كے جرائم ۲; انكى دنيا پرستى ۸

مالكيت :اسكے احكام ۵،۶; ذاتى مالكيت ۵

مسلمان:صدر اسلام كے مسلمان اور عيسائي علماء ۳; صدر اسلام كے مسلمان اور يہودى علماء ۳

مومنين:انكو تنبيہ ۱

يہودى علماء:انكا انحراف ۱;انكا خطرہ ،۱; انكا غصب ۲;انكا گمراہ كرنا ۷; انكا مالى فساد۱;انكى اكثريت ۲; انكى حرام خورى ۲; انكى دنيا پرستى ۸;ان كے جرائم ۲

واجبات:۱۱

آیت ۳۵

( يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَـذَا مَا كَنَزْتُمْ لأَنفُسِكُمْ فَذُوقُواْ مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ )

جس دن وہ سونا جاندى آتش جہنم ميں بپايا جائے گا اور اس سے ان كى پيشانيوں اور ان كے پہلوؤں اور پشت كو داغاجائے گا كہ يہى وہ ذخيرہ ہے جو تم نے اپنے لئے جمع كيا تھا اب اپنے خزانوں اور ذخيروں كا مزہ چكھو_

۱_ دولت كى ذخيرہ اندوزى كرنے والوں كے خزانے قيامت والے دن ان كيلئے وبال اور عذاب كا سبب بنيں گے_

و الذين يكنزون الذهب و الفضة يوم يحمى عليها فى نار جهنم فتكوى بها جباههم

۲_ذخيرہ اندوزى كرنے والوں كو داغنے كيلئے ان كے

۹۳

خزانوں كو آتش جہنم ميں انتہائي گرم كيا جائيگا_يوم يحمى عليها فى نار جهنم فتكوى بها جباههم

''يحمى '' كا مصدر ''احمائ''يعنى كسى چيز كو بہت گرم كرنا اور ''عليہا'' كى ضمير مونث كا مرجع ہے ''الذہب '' اور ''الفضة ''البتہ دراہم و دنانير كے لحاظ سے _ اور ''تكوى ''كا مادہ ہے'' كيّ ''يعنى گرم چيز كو بدن كے كسى حصے كے ساتھ چمٹانا_

۳_ذخيرہ اندوزى كرنے والوں كى پيشانى ، پہلو اور پشت كو دوزخ ميں پگھلائے گئے سونے اور چاندى كے ساتھ داغا جائيگا_

فى نار جهنم فتكوى بها جباههم و جنوبهم و ظهورهم

۴_ خدا تعالى كى طرف سے دولت كى ذخيرہ اندوزى كرنے والوں كى جہنم ميں سرزنش كے ساتھ ساتھ انہيں كے خزانوں كے ذريعے انہيں عذاب دينا_هذا ما كنز تم لانفسكم فذوقوا ما كنتم تكنزون

۵_ آتش دوزخ ميں پگھلائے گئے سونا چاندى ، دنيا ميں ان كے ذخيرہ اندوزى كرنے والوں كے ذريعے ذخيرہ ہونے كى ٹھوس صورت_الذين يكنزون الذهب و الفضة يوم يحمى عليها هذا ما كنزتم لانفسكم

۶_ اخروى عذاب، دنيا ميں انسان كے اعمال كى جسمانى صورت_هذا ما كنزتم لانفسكم فذوقوا ما كنتم تكنزون

۷_ پگھلائے گئے سونے چاندى كے ذريعے جہنميوں كا عذاب ، جہنم كا ايك دردناك عذاب ہے_

و الذين يكنزون الذهب فبشرهم بعذاب اليم يوم يحمى عليها فى نار جهنم

۸_ امام صادق (ع) سے (گناہان كبيرہ كى وضاحت ميں حديث كے ضمن ميں ) روايت كى گئي ہے :''منع الزكاة المفروضة لا ن الله عزوجل يقول : يوم يحمى عليها فى نارجهنم فتكوى بها جباههم وجنوبهم وظهور هم '' ; گناہان كبيرہ ميں سے ايك واجب زكات كا ادا نہ كرنا ہے كيونكہ خدا تعالى فرماتا ہے كہ جس دن اس (سونے چاندي) كو آتش جہنم ميں ڈالاجائيگا اور ان كے ذريعے انكى پيشانيوں ، پہلوؤں اور پشتوں كو داغا جائيگا اور كہيں گے يہ ہے وہ جسے تم نے ذخيرہ كيا تھا _(۱)

جہنم :اسكا عذاب ۷

جہنمى :انكو اذيت دينا۷

____________________

۱)اصول كافى ج ۲ ص ۲۸۷ ح ۲۴ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۱۴ ح ۱۳۵_

۹۴

خدا تعالى :اس كى طرف سے سرزنش۴

دولت كے ذخيرہ اندوز:انكى پشت كو جلانا ۳; انكى پيشانى كو جلانا ۳; انكى سرزنش ۴; انكے پہلو كو جلانا ۳; انكے خزانے۱،۲،۴ ; انكے عذاب كا آلہ ۱،۲،۳،۴،۵; يہ لوگ جہنم ميں ۲،۳،۴،۵;يہ لوگ قيامت ميں ۱

ذخيرہ اندوزى كرنا :اسكى اخروى سزا ۱

روايت :۸

زكات :زكات نہ دينے كا گناہ ۸;زكات نہ دينے والوں كا عذاب ۸

عذاب :اسكا آلہ ۷; دردناك عذاب ۷; عذاب اخروى ۶; عذاب كے درجے۷;عذاب ،گرم چاندى كے ذريعے۲،۳،۵،۷

عمل :اسكا جسم كى صورت اختيار كرنا۵،۶

گناہان كبيرہ:۸

آیت ۳۶

( إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتَابِ اللّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلاَ تَظْلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ وَقَاتِلُواْ الْمُشْرِكِينَ كَآفَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَآفَّةً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ )

بيشك مہينوں كى تعدا د اللہ كے نزديك كتبا خدا ميں اس دن سے بارہ ہے جس دن اس نے آسمانوں اور زمين كو پيد ا كيا ہے_ ان ميں سے چار مہينے محرّم ہيں اور يہى سيدھا اور مستحكم دين ہے لہذا خبردار ان مہينوں ميں اپنے او پر ظلم نہ كرنا اور تمام مشركين سے اسى طرح جہاد كرنا جس طرح وہ تم سے جنگ كرتے ہيں اور يہ ياد ركھنا كہ خدا صرف متقى اور پرہيز گار لوگوں كے ساتھ ہے_

۱_آسمانوں اور زمين كى خلقت كے آغاز ہى سے مہينوں كى تعداد بارہ تھى _

ان عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهرا يوم خلق السماوات و الارض

۹۵

۲_ آسمان و زمين حادث ہيں نہ قديم _يوم خلق السماوات و الارض

۳_ جہان خلقت ميں كئي آسمان ہيں _يوم خلق السماوات

۴_ سال ميں بارہ مہينوں كا وجود آسمان و زمين كى خلقت كے آغاز ہى سے ايك غير متغير چيز ہے نہ يہ كہ اس نظم نے تدريجاً يہ صورت اختيار كى ہو_ان عدة الشهور يوم خلق السماوات و الارض

۵_ بارہ مہينوں ( سال قمرى كے) كے در ميان چار ماہ ، حرمت و عزت والے ہيں _

ان عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهراً منها اربعة حرم

۶_ سال كے مہينوں كے در ميان حرمت والے چار مہينوں كا وجود سابقہ اديان ميں بھى تھا اور يہ حكم الہى ہے_

منها اربعة حرم ذلك الدين القيم

''قيّم'' _كہ جس كا معنى ہے محكم و پائيدار _ہو سكتا ہے اس حكم كے سابقہ اديان ميں موجود ہونے كى طرف اشارہ ہو _

۷_ چار مہينوں كى حرمت و عزت ، معاشرہ كے فائدہ اور اسكى مضبوطى اور پائدارى كيلئے ہے_

منها اربعة حرم ذلك الدين القيم فلا تظلموا فيهن انفسكم

۸_ ان مہينوں كى حرمت و عزت پائمال كرنے سے خدا تعالى كى ممانعت _منها اربعة حرم فلاتظلموا فيهن انفسكم

۹_ ان مہينوں كى حرمت كو پائمال كرنا ( اس ميں جنگ كرنا) خود پر اور انسانى معاشرہ پر ظلم ہے_

فلاتظلموا فيهن انفسكم

۱۰_ حرمت والے مہينوں ميں جنگ كا آغاز حرام ہے اور مشركين كے حملے كا مقابلہ كرنا اور دفاع كرنا جائز ہے_

منها اربعة حرم فلا تظلموا فيهن انفسكم و قاتلوا المشركين كافة كما يقاتلونكم

ان مہينوں كى حرمت كا تقاضا يہ ہے كہ ان ميں جنگ نہ كى جائے ليكن چونكہ ممكن ہے دشمن اس حرمت كا لحاظ نہ كرے لذا خدا تعالى نے اس صورت ميں مسلمانوں كو بھى اجازت دى ہے اور فرمايا ہے انكى طرح تم بھى جنگ كرو_

۱۱_ خدا تعالى كى طرف سے سب و محارب مشركين كے خلاف نبرد آزما ہونے اور روئے زمين كو ان كے وجود سے پاك كردينے كا حكم _و قاتلوا المشركين كافة كما يقاتلونكم كافة

۱۲_ مشركين اسلام كو مٹانے اور سب مسلمانوں كو نابود كرنے كے درپے تھے_كما يقاتلونكم كافة

۱۳_ ان مہينوں كى حرمت كى حفاظت كرنے اور جنگ

۹۶

طلب دشمنوں كو تركى بہ تركى جواب دينے ميں تقوا كا خيال ركھنے پر خدا تعالى كى تاكيد اور اہتمام _

فلا تظلموا فيهن انفسكم و اعلموا ان الله مع المتقين

۱۴_ متقين كو خدا تعالى كى نصرت و امداد حاصل ہے_و اعلموا ان الله مع المتقين

۱۵_ خدا تعالى كى طرف سے مشركين كے خلاف جنگ كرنے اور انہيں تركى بہ تركى جواب دينے كيلئے متقين كى حوصلہ افزائي_و اعلموا ان الله مع المتقين

۱۶_ تقوا انسان كے ان مہينوں كى حرمت كا خيال ركھنے اور گناہ اور قانون شكنى سے بچنے كا ذريعہ ہے_

منها اربعة حرم فلاتظلموا فيهن انفسكم و اعلموا ان الله مع المتقين

۱۷_امام صادق(ع) سے اللہ تعالى كے اس فرمان( ان عدة الشہور عند اللہ اثنا عشر شہراً) كے بارے ميں روايت كى گئي ہے: ''المحرم و صفر و ربيع الاول وربيع الاخر و جمادى الاولى وجمادى الآخرة ورجب و شعبان وشہر رمضان و شوال و ذوالقعدة وذوالحجة منہا اربعة حرم ، عشرون من ذى الحجة و المحرم وصفر و شہر ربيع الاول وعشر من شہر ربيع الآخر''; يہ مہينے محرم، صفر ، ربيع الاول ،ربيع الثانى جمادى الاول ، جمادى الثاني، رجب ، شعبان ، ماہ رمضان ، شوال، ذيقعد اور ذى الحج ہيں _ ان ميں سے حرمت والے چار مہينے يہ ہيں _ ذى الحج كے آخرى بيس دن ، محرم ، صفر ، ربيع الاول اور ربيع الثانى كے پہلے دس دن_(۱)

۱۸_امام باقر(ع) سے روايت كى گئي ہے :''ما خلق الله بقعة فى الارض احب اليه منها_ ثم اوميء بيده نحو الكعبة_ لها حرّم الله الاشهر الحرم فى كتابه ...ثلاثة متوالية للحج : شوال وذوالقعدہ وذوالحجة وشہر مفرد للعمرة وہو رجب; خدا تعالى نے زمين كا كوئي ٹكٹرا ايسا پيدا نہيں كيا كہ جو اسے اس سے زيادہ محبوب ہو_ اور اپنے ہاتھ كے ساتھ كعبہ كى طرف اشارہ كيا اور مزيد فرمايا اس كعبہ كے احترام كى خاطر خدا تعالى نے قرآن ميں حرمت والے مہينوں كومحترم شمار كيا ہے _ حج كيلئے تين مسلسل ماہ شوال، ذيقعد، ذى الحج اور عمرہ (مفردہ) كيلئے الگ ماہ ،رجب_(۲)

۱۹_ پيغمبر (ص) سے منقول ہے كہ آپ(ص) نے حرمت والے چار مہينوں كے بارے ميں فرمايا : رجب ...وذوالقعدہ و ذو الحجة والمحرم وہ يہ ہيں رجب

____________________

۱)خصال صدوق ص ۴۸۷ ح ۶۴_ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۱۶ح ۱۴۲_

۲)كافى جلد ۴ ص ۲۴۰ ح ۱_ نور الثقلين ج ۳ص۲۱۵ ح ۳۱۹_

۹۷

ذيقعد، ذى الحج اور محرم ...(۱)

آسمان :انكا حادث ہونا ۲; انكا متعدد ہونا۳

احكام ۱۰/اسلام :اسكے دشمن ۱۲

تقوا :اسكے آثار ۱۶

جرائم :انكے ارتكاب كے موانع ۱۶

جنگ:حرمت والے مہينوں ميں جنگ۹; حرمت والے مہينوں ميں جنگ كا حرام ہونا ۱۰;دفاعى جنگ ۱۰

جہاد:محاربين كے خلاف جہاد ۱۱; مشركين كے خلاف جہاد۱۱،۱۵

حرمت والے مہينے۵،۱۷،۱۸،۱۹

انكا اديان ميں وجود ۱۶;انكا فلسفہ ۷،۱۸; انكا ہميشہ سے ہونا ۶;انكى حرمت كى حفاظت كرنا ۸، ۱۳ ، ۱۶; انكى ہتك حرمت كے آثار،۹; ان كے احكام ۱۰

خدا تعالى :اسكے افعال۱۵;اسكے اوامر۱۱; اسكے نواہى ۸

خدا تعالى كى امداد:جنكو يہ حاصل ہے۱۴

خود:خود پر ظلم ۹

دفاع:اسكى اہميت۱۰; دفاع، حرمت والے مہينوں ميں ۱۰

روايت :۱۷،۱۸،۱۹

زمين:اسكا حادث ہونا ۲

سال اور مہينہ:سال كے مہينوں كى تعداد۱،۴،۱۷; بارہ مہينوں كا ہميشہ سے ہونا ۱،۴

ظلم :اسكے موارد۹

عدد:چار كا عدد۵،۶; بارہ كا عدد ۱،۴

قانون:قانون شكنى كے موانع۱۶

____________________

۱)خصال صدوق ص ۴۸۷ ح ۶۳ _ نور الثقلين ج ۲ ص ۲۱۶ ح ۱۴۴_

۹۸

كعبہ :اسكى فضيلت ۱۸

گناہ:اسكے موانع۱۶

متقين :انكى امداد ۱۴; انكى حوصلہ افزائي ۱۵; ان كے فضائل ۱۴

مسلمان:ان كے دشمن ۱۲

مشركين :انكى دشمنى ۱۲

معاشرہ:اس پر ظلم،۹;اسكى مصلحتوں كى اہميت۷

مقابلہ:اس ميں تقوا ۱۳; يہ حرمت والے مہينوں ميں ۱۰;يہ مشركين كے ساتھ۱۵

مہينے:جمادى الاول ۱۷; جمادى الثانى ۱۷; ذى الحج ۱۷ ، ۱۸ ، ۱۹; ذيقعد۱۷،۱۸،۱۹; ربيع الاول ،۱۷; ربيع الثاني،۱۷;رجب ۱۷،۱۸،۱۹;شعبان۱۷;شوال ۱۷،۱۸; ماہ رمضان ،۱۷;صفر ۱۷; محرم۱۹

آیت ۳۷

( إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُواْ يُحِلِّونَهُ عَاماً وَيُحَرِّمُونَهُ عَاماً لِّيُوَاطِؤُواْ عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّهُ فَيُحِلُّواْ مَا حَرَّمَ اللّهُ زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ )

محترم مہينوں ميں تقديم و تاخير كفر ميں ايك قسم كى زيادتى ہے جس كے ذريعہ كفار كو گمراہ كيا جاتا ہے كہ وہ ايك سال اسے حلال بناليتے ہيں اور دوسرے سال حرام كرديتے ہيں تا كہ اتنى تعداد برابر ہوجائے جتنى خدا نے حرام كى ہے اور حرام خدا حلال بھى ہوجائے_ ان كے بدترين اعمال كو ان كى نگاہ ميں آراستہ كرديا گيا ہے اور اللہ كا فر قوم كى ہدايت نہيں كرتا ہے_

۱_ ماہ حرام اور ماہ حلال كو ايك دوسرے كى جگہ پر منتقل كرنا ( محرم كى حرمت صفر كو اور صفر كى حليت محرم كو دے

۹۹

دينا) جاہليت كے عربوں كا ايك غلط كام _انما النسيء زيادة فى الكفر

جاہليت كے عربوں كيلئے اپنى جنگى اور غارتگرى والى فطرت كى وجہ سے مسلسل تين ماہ ( ذيقعد، ذى الحج، محرم) تك جنگ سے پرہيز كرنا بہت شاق اور دشوار تھا لہذا اپنے خيال ميں محرم اور صفر كوآگے پيچھے كرديتے يعنى محرم ميں جنگ كرتے اور صفر ميں جنگ سے پرہيز كرتے اور اگلے سال محرم كو اپنى جگہ پر لے آتے اور اس كام كو ''نسي '' (متاخر كرنا) كہا كرتے_

۲_ حرمت والے مہينوں كو ادل بدل كرنا كفار كے كفر كے درجہ ميں اضافہ كا باعث ہے_انما النسي زيادة فى الكفر

۳_ كفر كے مختلف درجے ہيں _زيادة فى الكفر

۴_ خدا تعالى كے پائيدار احكام ميں مداخلت اور تصرف كرنا كفر كى علامت ہے_

منها اربعة حرم انما النسي زيادة فى الكفر

۵_ حرمت والے مہينوں كو تبديل كرنا كفار كى گمراہى كا عامل ہے_انما النسيء يضل به الذين كفرو

۶_ ''النسيئ'' يعنى حرمت والے كسى مہينے كو ايك سال حلال شمار كرنا اور دوسرے سال حرام شمار كرنا_

انما النسي يحلونه عاما و يحرمونه عام

۷_ جاہليت كے عربوں كا حرمت والے مہينوں كو تبديل كرنے كے باوجود انكى تعدادكا پابند ہونا_

ليوا طئوا عدة ما حرّم الله

۸_ جاہليت كے عربوں كى طرف سے حرمت والے مہينوں كو تبديل كرنے كا حتمى نتيجہ حرام الہى كو حلال شمار كرنا تھا_

فيحلوا ما حرم الله

۹_ كفار كے برے كردار كو ان كے سامنے خوبصورت كركے پيش كرنا _زين لهم سوء اعمالهم

۱۰_ كفار ، ہدايت الہى سے محروم ہيں _و الله لا يهدى القوم الكافرين

۱۱_ نسيء (حلال اور حرام مہينوں كو تبديل كرنا) جاہليت كے عربوں كا وہ برا كام ہے كہ جسے وہ خود پسند كرتے تھے اور اچھا سمجھتے تھے_انما النسيء زيادة فى الكفر زين لهم سوء اعمالهم

۱۲_''عن رسول الله فى قوله تعالى ''يحلونه عاماً ويحرمونه عاماً ''كانوا يحرّمون المحرم عاماً ويستحلون صفر ويحرّمون

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

فان لم تأتونى به و لا تقربون

(لا تقربون ) ميں نون مكسورہ ، نون وقايہ ہے اور يأى متكلم محذوف پر دلالت كرتى ہے تو اس صورت ميں ( لا تقربون ...) كا معنى يہ ہوگا : كہ ميرے پاس نہ آنا _

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے اپنے مقصود تك پہنچنے كے ليے ترغيب دلانے كے ساتھ ساتھ تہديد سے بھى كام ليا_

الا ترون اوفى الكيل فان لم تأتونى به فلا كيل لكم

۵_ اپنے جائز اور مشروع مقاصد كے ليے اقتصادى پابندوں سے مدد حاصل كرنا جائز ہے _

فان لم تأتونى به فلا كيل لكم عندي

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے دوبارہ مصرلوٹنے اور خوراك حاصل كرنے كے سلسلہ ميں مصمم تھے_

فان لم تأتونى به فلاكيل لكم عندي

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے خاندان كے ليے قحط كے سالوں ميں اپنى خوراك مہيا كرنے كا واحد راستہ مصر ميں آنا اور حضرت يوسف(ع) كى طرف رجوع كرنے ميں تھا_فان لم تأتونى به فلا كيل لكم عندى و لاتقربون

اگر بردران يوسف(ع) كے پاس خوراك حاصل كرنے كے ليے مصر آنے كے علاوہ بھى كوئي راستہ ہو تا توحضرت يوسف(ع) كى تہديد(فلا كيل لك عندي ) كا كوئي معنى نہيں رہتا اوراس كا كو ئي اثر نہ ہوتا_

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، بنيامين كا ديدار كرنے ميں بہت ہى زيادہ شوق ركھتے تھے_

ائتونى بأخ لكم فأن لم تأتونى به فلا كيل لكم عندى و لا تقربون

آل يعقوب :آل يعقوب كى تا مين معاش ۷

احكام :۵

اقتصاد :اقتصادى پابندى كا جائز ہونا ۵;اقتصادى ترقى كى اہميت ۵

برادران يوسف :برادران يوسف اور غلّہ كا دريافت كرنا ۲،۶; برادران يوسف كا ارادہ ۶;برادران يوسف كا حضرت يوسف سے ملاقات ۶

عواطف :بھائي كى عطوفت و محبت ۸

ہدف و وسيلہ : ۵

۵۴۱

يوسفعليه‌السلام :حضرت يوسف(ع) اور بنيامين ۸;حضرت يوسف(ع) اور بنيامين سے ملاقات ۲، ۳;حضرت يوسف(ع) اور غلات كى تعين مقدار۱; حضرت يوسف(ع) اور غلات كى تقسيم ۱;حضرت يوسف(ع) سے ملاقات كے شرائط ۲، ۳; حضرت يوسف(ع) كا بنيامين سے لگاؤ ۸ ;

حضرت يوسف(ع) كا پروگرام ۱;حضرت يوسف(ع) كا ڈرانا ۴;حضرت يوسف(ع) كا شوق دلوانا ۴; حضرت يوسف(ع) كا قصہ ۲، ۳، ۶;حضرت يوسفعليه‌السلام كى اقتصادى سياستيں ۱;حضرت يوسف(ع) كى بھائيوں سے ملاقات ۲، ۳; حضرت يوسف(ع) كے پيش آنے كا طريقہ ۴

آیت ۶۱

( قَالُواْ سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ )

ان لوگوں نے كہا كہ ہم اس كے باپ سے بات چيت كريں گے اور ضرور كريں گے (۶۱)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹے بنيامين سے خصوصى محبت كرتے تھے _قالوا سنراود عنه اباه

۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام ہميشہ بنيامين كو اپنے بھائيوں كے ساتھ سفر كرنے سے منع كرتے تھے_قالوا سنراودعنه اباه

۳_ برادران يوسفعليه‌السلام نے بنيامين كے ہمراہ نہ ہونے كى دليل يہ ذكر كى كہ حضرت يعقوب(ع) ان سے شديد لگاؤ ركھتے ہيں _قالوا سنراود عنه آباه

(ہم اپنے باپ سے بات كريں گے اور كوشش كريں گے كہ اسكو راضى كريں تا كہ بنيامين كو ہمارے ساتھ بھيجے)جو جملہ (سنراودعنہ آباہ) سے معلوم ہوتا ہے_ اس سے يہ بھى اشارہ ملتا ہے كہ بنيامين جو ان كے ہمراہ نہيں تھے دراصل ان كے باپ نے انہيں منع كيا تھا_

۴_ حضرت يعقوب(ع) كے بيٹے بنيامين كو مصر لانے كيلئے حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رضايت كو جلب كرنے كے علاوہ كوئي اور راستہ نہيں ركھتے تھے_قالوا سنراود عنه آباه و انا لفاعلون

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے يہ وعدہ كياكہ دوسرى بار جب وہ آئيں گے تو بنيامين كو آپ كى خدمت ميں لے آئيں گے_سنراود عنه آباه و انا لفاعلون

۶_ برادران يوسف نے ان سے وعدہ كيا كہ وہ اپنے

۵۴۲

باپ حضرت يعقوبعليه‌السلام كو راضى كريں گے كہ بنيامين كو ہمارے ساتھ روانہ كريں _قالوا سنراود عنه آباه و انا لفاعلون

(مراودہ ) (نراود) كا مصدر ہے جسكا معنى نرمى اور پيار و محبت سے درخواست كرنے كا ہے _ اور (عنہ ) كا لفظ جس كے بارے ميں درخواست كى جا رہى ہے اس پر دلالت كرتا ہے _تو اس صورت ميں '' سنراود '' كا معنى يہ ہوا كہ ان كے باپ ( بنيامين كے والد گرامى ) سے نرمى و محبت سے درخواست كريں گے كہ آئندہ كے سفر ميں ان كو ہمارے ساتھ روانہ كريں _

۷_ برادران يوسف(ع) نے اس بات كى تاكيد كى كہ وہ يہ صلاحيت ركھتے ہيں كہ والد گرامى كو راضى كرليں تا كہ بنيامين كو آپ كے پاس لانے كے ليے ہمارے ساتھ روانہ كردے _انالفاعلون

(سنراود عنہ آباہ ) كے جملہ سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ حضرت يوسف كو يہ احتمال بھى تھا كہ ان كے والد گرامى راضى نہ ہوں ( انا لفاعلون ) كے جملے سے ان كے بھائي ان كو اطمينان دلانا چاہتے تھے كہ بغير كسى تشويش كے والد گرامى كى رضايت

جلب كريں گے اور بنيامين كو آپ كے ہاں لے آئيں گے_

برادران يوسف :برادران يوسف اور بنيامين ۴، ۵; برادران يوسف اور رضايت حضرت يعقوبعليه‌السلام ۴، ۶، ۷; برادران يوسف كا وعدہ ۵،۶

بنيامين :بنيامين كا مصر كى طرف سفر ۴، ۵، ۶، ۷;بنيامين كو ساتھ نہ لانے كے دلائل ۳

عواطف :عواطف پدرى ۱

يعقوبعليه‌السلام :حضرت يعقوب(ع) اور بنيامين كى مسافرت ۲; حضرت يعقوب(ع) كا قصہ ۵; حضرت يعقوب(ع) كى بنيامين سے محبت ۱، ۲، ۳

يوسف(ع) :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۳، ۴، ۶، ۷;حضرت يوسف(ع) كے ساتھ عہد ۵، ۶

۵۴۳

آیت ۶۲

( وَقَالَ لِفِتْيَانِهِ اجْعَلُواْ بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُواْ إِلَى أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ )

اور يوسف نے اپنے جوانوں سے كہا كہ ان كى پونچى بھى انكے سامان ميں ركھ دو شائد جب گھر پلٹ كر جائيں تو اسے پہچان ليں اور اس طرح شايد دوبارہ پلٹ كر ضرور آئيں (۶۲)

۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام لوگوں كے حصے كو انہيں فروخت كرتے اور اس كى قيمت وصول كرتے تھے _

و قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

(بضاعة)اس مال كو كہا جاتا ہے جو مال، تجارت اور خريد و فروش كے ليے ہو _ اسى وجہ سے (بضاعتہم) سے وہ مال مراد ہے جو برادران يوسف نے قيمت كے بد لے حاصل كيا تھا_

۲_حضرت يوسف(ع) نے اپنے كا رندوں سے كہا كہ جو قيمت فرزندان يعقوب(ع) نے دى ہے اسے ان كے سامان ميں پنہاں كرديں _و قال لفتيانه اجعلوا لضاعتهم فى رحالهم

۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے كارندوں سے يہ تاكيد فرمائي كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے مال كو ان كے سامان ميں اس طرح پوشيدہ كريں كہ اپنے وطن پہنچنے سے پہلے وہ اسكى طرف متوجہ نہ ہو سكيں _

اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلم يعرفونها اذا انقلبوا الى اهلهم

۴_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے بہت سے غلاموں اور كارندوں كو اپنى خدمت ميں ليا ہوا تھا جو ساز و سامان كا وزن ، تقسيم اور قيمت وصول كرنے پر ما مور تھے_قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

(فتيان )جو (فتي) كى جمع ہے غلاموں اور جوانوں كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے_

۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام يہ اميد ركھتے تھے كہ جو مال اپنے بھائيوں كو واپس لوٹا دياگيا ہے وہ اپنے وطن لوٹ كر اسے پہچان سكيں گے_اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يعرفونه

يہ بات واضح ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے جب اپنے ساز و سامان كو كھولتے تو اپنے مال كو جو قيمت كے طور پر ديا تھا اس ميں پاتے ، اسى وجہ سے (لعل) كا ذكر جو ( شايد و ممكن ) كے معنى ميں ہے مناسب نہيں تھا اسى وجہ سے (لعل) كى تفسير ميں چند وجوہ ذكر كى گئي ہيں :

۵۴۴

۱_ (اذا انقلبوا ) كى قيد كے طور پر ذكر ہوا ہو اور اشفاق و ترجّى كے معنى ميں ہو يعنى اميد ہے كہ جب وہ اپنے اہل وعيال كے درميان پہنچيں تو اسكو جان سكيں اور اس سے پہلے متوجہ نہ ہوں _

۲_ يہاں شناخت سے مراد، اپنے حق كى شناخت ہے _ يعنى اس كے حق كو پہچان سكيں يعنى اپنے مال كوپہچان كر ميرى قدر دانى كا اقرار كريں _

۳_ (لعل) (كَي) كے معنى ميں ہو يعنى ( يہاں تك كہ ) اور يہ ترجى و اميدى كے معنى ميں نہ ہو _

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام ، حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے مال تجارت كو واپس لوٹا كر ان ميں حق شناسى اور شكرگزارى كى حس ايجاد كرنا چاہتے اورانہيں دوبارہ لوٹنے كاشوق و ترغيب دلانا چاہتے تھے_اجعلوابضاعتهم فى رحالهم لعلهم يعرفونها لعلهم يرجعون مذكورہ بالا معنى دوسرے احتمال كو بتاتا ہے جسكى وضاحت پہلے ذكر ہوچكى ہے_

۷_ حضرت يوسفعليه‌السلام ،بھائيوں كو ڈرانے دھمكانے اور شوق و رغبت نيز ان كے ليے واپس لوٹنے كے تمام اسباب مہيّا كرنے كے باو جودان كے واپس لوٹنے پر اطمينان نہيں ركھتے تھے اور يعقوب(ع) كا بنيامين كو سفر پر نہ بھيجنے كا بھى احتمال ديتے تھے _لعلهم يرجعون

۸_ حضرت يوسف(ع) اپنے بھائي بنيامين كے مصر آنے كا بہت اشتياق اور اميدركھتے تھے_

اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يرجعون

۹_حضرت يوسف(ع) كا بنيامين كو كنعان سے مصر كى طرف سفر كرانے كى منصوبہ بندى كرنا،

فان لم تأتونى به فلا كيل لكم ...اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يرجعون

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اور ان كے بيٹے زيادہ مال و منال نہيں ركھتے تھے بلكہ مالى لحاظ سے بہت ہى محدود تھے_

اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم لعلهم يرجعون

حضرت يوسف كا اپنے بھائيوں كو سرمايہ لوٹانے كے احتمالات ميں سے ايك احتمال يہ بھى ہوسكتا ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے خاندان ميں مال و متاع كى كمى تھى _ اور آيت شريفہ ۶۵ ميں ( ما نبغى ہذہ بضاعتنا نمير اہلنا ) كا جملہ اس پر مؤيد ہے_

۱۱_ حضرت يوسفعليه‌السلام غلات كى تقسيم اور انبار شدہ خورا ك كے سلسلہ ميں مخصوص اختيارات ركھتے تھے_

قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

۵۴۵

حضرت يوسفعليه‌السلام كا حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كو خوراك كے حصے سے منع كرنا كہ جب وہ آنے والى نوبت ميں بنيامين كو نہ لائے تو كچھ نہيں ملے گا اس سے مذكورہ بات سامنے آتى ہے اوران كے مال كو انہيں واپس لوٹا دينا يہ ان كے مخصوص اختيارات كى طرف اشارہ ہے_

۱۲_ بحرانى حالات ميں خوراك كى مقدار وسہم معيّنكرنا اور جو سامان ديا جائے اس كے بدلے ميں عوض لينا، بيت المال كى حفاظت و نگہدارى اور اقتصادى امور سے آگاہى كا تقاضا كرتى ہے_اجعلنى على خزائن الارض انى حفيظ عليم اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم حضرت يوسفعليه‌السلام كا خزانے كا سر براہ ہونے كے حوالے سے اجناس كى راشن بندى كرنا جب كہ اس كى كمى تھى يہ بات حفيظ اور عليم سے س سمجھى جا رہى ہے _

۱۳_ بحرانى حالا ت اور راشن بندى كے اياّم ميں حكومت كى طرف سے لوگوں كو مفت مال دينا كوئي پسنديدہ سياست نہيں ہے_قال لفتيانه اجعلوا بضاعتهم فى رحالهم

اقتصاد :اقتصادى بحران ميں سياست ۱۲; ناپسنديدہ اقتصادى سياست۱۳

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف(ع) كا فقر ۱۰; برادران يوسف(ع) كو تشويق دلوانا ۷; برادران يوسف(ع) كوڈرانا ۷; برادران يوسف(ع) كے تجارت كے مال كو واپس لوٹانا ۲، ۳، ۵، ۶;برادران يوسف(ع) ميں تشكر كرنے كے مقدمات كو اجاگر كرنا ۶;برادران يوسف(ع) ميں حق و حقيقت كى پہچان كو ابھارنا ۶;برادران يوسفعليه‌السلام ميں مصر آنے كا انگيزہ ايجاد كرنا۶

بيت المال :بيت المال كى حفاظت كا طريقہ ۱۲

خوراك كى راشن بندى :خوراك كى راشن بندى كى اہميت ۱۲

لوگ :لوگوں كو خورد و نوش كا سامان مفت عطا كرنا ۱۳

يعقوب(ع) :يعقوبعليه‌السلام كا فقر ۱۰

يوسفعليه‌السلام :يوسف اور بنيامين كا سفر ۷، ۸،۹;يوسف اور غلات كى تقسيم ۱۱;يوسف اور غلات كى فروخت ۱ ; يوسف كا اقتصادى پروگرام ۱;يوسف(ع) كا اميدوار ہونا ۸; يوسف كا بنيامين سے محبت كرنا ۸ ; يوسف(ع) كا پروگرام ۹; يوسفعليه‌السلام كا ڈرانا ۷;يوسف كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶،۷، ۱۱;يوسفعليه‌السلام كى تشويق دلوانا ۷;

۵۴۶

يوسفعليه‌السلام كى توقعات ۵; يوسفعليه‌السلام كى نصيحتيں ۳ ; يوسفعليه‌السلام كے اختيارات ۱۱;يوسفعليه‌السلام كے اوامر ۲; يوسف كے پيش آنے كا طريقہ ۶;يوسف كے كارندوں كا كردار ۴; يوسف(ع) كے مقاصد ۶

آیت ۶۳

( فَلَمَّا رَجِعُوا إِلَى أَبِيهِمْ قَالُواْ يَا أَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَكْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ )

اب جو پلٹ كر باپ كى خدمت ميں آئے اور كہا كہ بابا جان آئندہ ہميں غلہ سے روك ديا گيا ہے لہذا ہمارے ساتھ ہمارے بھائي كو بھى بھيج ديجئے تا كہ ہم غلہ حاصل كرليں اور اب ہم اس كى حفاظت كے ذمہ دار ہيں (۶۳)

۱_ حضرت يعقوب كے بيٹوں نے مصر سے واپس لوٹنے كے بعد انہيں اپنے سفر كى رپورٹ دى اور اسكى وضاحت ، بيان كى _فلما رجعوا الى ابيهم قالوا

۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے اپنے والد گرامى كو يہ رپورٹ دى كہ اگر ہم بنيامين كے بغير گئے تو ہميں اپنے راشن كا حصہ نہيں ملے گا _فان لم تاتونى به فلا كيل لكم فلما رجعوا الى ابيهم قالوا يا ا بانا منع منا الكيل

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے اظہار محبت كرتے ہوئے اپنے والد گرامى سے درخواست كى كہ بنيامين كو ہمارے ساتھ مصر روانہ كريں _فأرسل معنا آخان

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كا بنيامين كا نام نہ لينا بلكہ اسے ( آخانا ) (ہمارے بھائي) كے جملے سے يادكرنا، اس كے ساتھ اپنى محبت كے اظہار كے ليے ہے_

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے مصر كے سفر ميں بنيامين كى حفاظت كرنے كا عہد كيا اور اس پر تاكيد كى _

فأرسل معنا آخانا نكتل و انا له لحافظون

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے نزديك، خوراك

۵۴۷

كے معين سہم كا بنيامين كو ہمراہ نہ لانے كى صورت ميں بند ہونا ،ايك اہم بات تھى _ىأبانا منع منا الكيل

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كا ساز و سامان سفر كو كھولنے سے پہلے جو عموماً كاروانوں اور مسافرين كا گھر پہنچنے كے بعد پہلا اقدام ہوتا ہے اپنے والد بزرگوار كو خوراك كے راشن كے بند ہونے كى خبر دينا اور اس خبر دينے ميں جلدى كرنا ان كے نزديك اس كى اہميت كو بتاتا ہے _

۶_ حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانہ ميں كنعان ميں جو سات سال قحط و خشكسالى كے تھے اس ميں غلّہ اور خورد و خوراك كا سامان ناياب تھا_قالوا ىأبانا منع منا الكيل فأرسل معنا اخانا نكتل

۷_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے پاس قحط كے سالوں ميں اپنى خوراك مہيا كرنے كے ليے مصر ميں حضرت يوسف كے ہاں حاضر ہونے كے علاوہ اور كوئي راستہ نہيں تھا_ىأبانا منع منا الكيل فأرسل معنا اخان

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ليے مصر جا نے كے علاوہ كوئي راستہ نہيں تھا ورنہ حضرتعليه‌السلام اپنے بيٹوں كووہ راستہ بتاتے تا كہ بنيامين كو ان كے ساتھ بھيجنے پر مجبور نہ ہوتے_

۸_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى بنيامين كو سفر سے منع كرنے كى وجہ يہ تھى كہ وہ اس كے ليے خطرہ محسوس كرتے تھے_

سنراود عنه آباه فأرسل معنا اخانا نكتل و انا له لحافظون

(سنراود عنہ آباہ ...) كے جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت يعقوب(ع) ہميشہ بنيامين كو سفر كرنے سے روكتے تھے ( انا لہ لحافظون ) كا جملہ بتاتا ہے كہ اس كى دليل يہ تھى كہ وہ ان كے ليے خطرہ محسوس كرتے تھے_

۹_ بنيامين ،اپنے والد گرامى حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اجازت كے بغير سفر نہيں كرتے تھے_فأرسل معنا اخان

يہ كہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے بھائيوں نے بنيامين كو مصر لے جانے كے ليے حضرت يعقوبعليه‌السلام سے بات كى كہ اسكو ہمارے ساتھ مصر جانے كى اجازت ديں (فأرسل معنا اخانا ) كے جملے سے معلوم ہوتا ہے كہ بنيامين اپنے والد گرامى كى اجازت كے بغير سفر نہيں كرتے تھے_

۱۰_حضرت يعقوبعليه‌السلام كا اپنے بيٹوں اور اہل خانہ پر مكمل تسلطّ تھا _يأبانا منع منا الكيل فارسل معنا اخان

۱۱_ والدين، اپنے بيٹوں پر امر و نہى كرنے كا حق ركھتے ہيں _فأرسل معنا اخان

۵۴۸

۱۲_ بيٹوں كے ليے والدين كا كہنا ماننا اور ان كے كہنے پر عمل كرنا، اولاد كى ذمہ دارى اور ان كے ساتھ معاشرت و زندگى كرنے كے آداب ميں سے ہے_فأرسل معنا اخان

اطاعت :والد كى اطاعت ۱۱، ۱۲

اہل خانہ :اہل خانہ كى سرپرستى ۱۰

برادران يوسف(ع) :برادران يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كا سفر ۲، ۳، ۴، ۵; برادران يوسف(ع) اور يعقوبعليه‌السلام ۳; برادران يوسف(ع) قحط كے دوران ۷;برادران يوسف(ع) كا زندگى كو چلانے كا طريقہ ۷;برادران يوسف(ع) كا لوٹنا ۱ ; برادران يوسف(ع) كا وعدہ ۴;برادران يوسف(ع) كو غلات سے منع كرنا ۲، ۵;برادران يوسف(ع) كى حضرت يعقوبعليه‌السلام كو رپوٹ دينا ۱، ۲;برادران يوسف(ع) كى خواہشات ۳; برادران يوسف(ع) كے پيش آنے كا طريقہ ۳

بنيامين :بنيامين اور حضرت يعقوب(ع) كى رضايت ۹بنيامين سے محبت ۳;بنيامين كا حضرت يعقوبعليه‌السلام كا احترام كرنا ۹; بنيامين كى حفاظت ۴;بنيامين كے ليے خطرے كا احساس ۸

سرزمين :كنعان كى سرزمين حضرت يوسف كے زمانے ميں ۶;كنعان كى سرزمين كى تاريخ ۶; كنعان كى سرزمين ميں قحط ۶

عواطف :برادرى كى عطوفت

فرزند :فرزند پر حق ۱۱; فرزند كى ذمہ دارى ۱۲

معاشرت :معاشرت كے آداب ۱۲

والد :والد ہ سے پيش آنے كا طريقہ ۱۲;والد كا احترام ۹; والد كے حقوق ۱۱، ۱۲

يعقوب :حضرت يعقوب اور بنيامين كا سفر كرنا ۸;حضرت يعقوب كى سرپرستى ۱۰

يوسف :حضرت يوسف كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۷، ۸

۵۴۹

آیت ۶۴

( قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلاَّ كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَى أَخِيهِ مِن قَبْلُ فَاللّهُ خَيْرٌ حَافِظاً وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ )

يعقوب نے كہا كہ ہم اس كے بارے ميں تمھارے اوپر اسى طرح بھروسہ كريں جس طرح پہلے اس كى بھائي يوسف كے بارے ميں كيا تھا _خير خدا بہترين حفاظت كرنے والا ہے اور وہى سب سے زيادہ رحم كرنے والا ہے (۶۴)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كے مشورے كو قبول نہيں كيا اور بنيامين كو مصر بھيجنے كى مخالفت كى _

قال هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۲_ حضرت يعقوب، بنيامين كى حفاظت كے ليے اپنے بيٹوں كى تاكيد اور وعدے پر مطمئن نہيں تھے_

قال هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

(ہل ء امنكم ...) ميں استفہام ،انكارى ہے جو نفى كے معنى ميں ہے_'' ا مَنَ '' (ء امن)كا مصدر ہے_ جو اطمينان كرنے اور امين سمجھنے كے معنى ميں ہے _ پس (هل ء امنكم .) كا معنى يہ ہوا كہ ميں تم كو بنيامين كے بارے ميں امين نہيں سمجھتا ہوں اور تمہارے وعدوں پر مجھے اطمينان نہيں ہے_

۳_ برادران يوسف(ع) كى آنحضرتعليه‌السلام كى حفاظت كے سلسلہ ميں بدعہدى كى وجہ سے حضرت يعقوب(ع) كو ۱پنے بيٹوں كى بنيامين كى حفاظت كے سلسلہ ميں عہد پر عدم اطمينان تھا_هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

حضرت يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كى حفاظت كے بارے ميں اپنے بيٹوں كے وعدوں پر اعتماد و اطمينان كو حضرت يوسفعليه‌السلام كى حفاظت كے ساتھ تشبيہ دى _ اس ميں وجہ شبہہ بے فائدہ اور بے نتيجہ ہونا ہے _ پس اس صورت ميں '' ہل امنكم عليہ الا ...'' كا معنى يہ ہوگا كہ ميرا اعتماد آپ لوگوں پر( اگر ميں اعتماد كروں بھى سہي) تو بے ثمر و بے فائدہ ہے _ جس طرح ميں نے يوسفعليه‌السلام كے بارے ميں آپ پر اعتماد كيا تھا_

۵۵۰

۴_حضرت يعقوب(ع) كا بنيامين كو بيٹوں كے ہمراہ نہ بھيجنے كا سبب يہ تھا كہ كہيں يہ بھى يوسف(ع) جيسى مصيبت سے دوچارنہ ہو جائے_الّا كما امنتكم على اخيه من قبل

حضرت يعقوب(ع) نے حضرت يوسفعليه‌السلام كا نام لينے كى بجائے بنيامين كے بھائي كے عنوان سے ان كو ياد كر كے ايك لطيف نكتہ كى طرف اشارہ كيا كہ ان دونوں كا آپس ميں بھائي ہونے كے رشتے نے مجھے ان كى ايك سرنوشت (يعنى باپ سے جدائي اور فراق) كى وجہ سے پريشانى كرديا ہے_

۵_افراد كو ذمہ دارى سونپنے سے پہلے افراد كے سابقہ اعتماد پر توجہ ركھنا ضرورى ہے_

هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۶_ كسى فرد كا برا ماضى ہى اس بات كيلئے كا فى ہے كہ اس فرد سے احتياط كى جائے اور اس كے قول و قرار پر يقين نہ كيا جائے_هل ء أمنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۷_ افراد كے سوء سابقہ كى انہيں يادآورى كرانا اور اس پر اثر مرتب كرناجائزہے تا كہ مستقبل ميں ايسے واقعات كى روك تھام كى جاسكے_هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۸_ گذرے ہوئے حوادث سے عبرت حاصل كرنا ضروى ہے تا كہ آئندہ اس جيسے واقعات سے محفوظ رہا جائے_

هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل

۹_حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كے اس وعدے پر كہ وہ حضرت يوسفعليه‌السلام كے حفاظت كريں گے ان پر اطمينان كيا اور ان كى حفاظت كرنے كے سلسلہ ميں دل كو سہارا ديا _كما امنتكم على اخيه من قبل

۱۰_ افراد كو كسى شے يا چيزكى حفاظت كرنے ميں مؤثر جاننا ، شرك كا موجب نہيں بنتا اور يہ توكل الہى اور مقام نبوت كے منافى نہيں ہے_كما امنتكم على اخيه من قبل

اس سورہ ميں آيت كريمہ(۳۸) (ما كان لنا ان نشرك بالله من شيء ) كى دليل كى وجہ سے حضرت يعقوب(ع) ذرہ برابر بھى شرك كى طرف ميلان نہيں ركھتے تھے(كما امنتكم على اخيه ) كا جملہ بتاتا ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كو امين خيال كرتے تھے اسى وجہ سے يوسفعليه‌السلام كى حفاظت ان كے سپردكردى پس اس سے معلوم ہوا كہ اشخاص كو كسى شے كى حفاظت ميں مؤثر سمجھنا، شرك نہيں اور نبوت كے مقام كے ساتھ بھى ناسازگار نہيں ہے_

۵۵۱

۱۱_ خداوند متعال، بہترين محافظ اور نگہبان ہے _فالله خير حافظ

۱۲_ خداوند متعال، ارحم الراحمين ( تمام مہربانوں سے بہتر مہربان ) ہے _فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

۱۳_ خداوند متعال كا اپنے بندوں كى حفاظت و نگہبانى كرنا، اسكى وسيع تر رحمت كى وجہ سے ہے _

فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

خداوند عالم كو بہترين حافظ ياد كرنے كے بعد خداوند متعال كى توصيف ( ارحم الراحمين ) سے كرنا گويا اس بات كو بتاتا ہے كہ ان دو صفتوں كے درميان ارتباط ہے _ يعنى كيونكہ وہ ارحم الراحمين ہے اسى وجہ سے بہترين محافظ بھى ہے_

۱۴_ انسانوں كى امانتدارى كرنا اور اس امانت كى حفاظت پر پورا اترناان كے رحم ودلسوزى كے ساتھ مربوط ہے _

فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

۱۵_ رحم و دلسوزى كا نہ ہونا، لوگوں سے خيانت كرنے كا سبب بنتا ہے _

قال هل ء امنكم عليه فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

۱۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اپنے بيٹوں سے دورى كرنے كى وجہ يہ تھى كہ ان ميں رحم ودلسوزى نہيں تھى اور وہ حضرت يوسف(ع) اور بنيامينسے مہربانى سے پيش نہيں آتے تھے_

هل ء امنكم عليه الا كما امنتكم على اخيه من قبل فالله خير حافظاً و هو ارحم الراحمين

احتياط:احتياط كرنے كے ضرورى موارد ۶

اسماء و صفات :ارحم الراحمين ۱۲

اعتماد :بے اعتمادى كے اسباب ۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا محافظ و نگہبان ہونا ۱۱;اللہ تعالى كى رحمت كے آثار ۱۳; اللہ تعالى كے مختصّات ۱۱

امانتدارى :امانتدارى كا پيش خيمہ ۱۴

انسان :انسانوں كى محافظت ۱۳

برادارن يوسفعليه‌السلام :برادران يوسف(ع) اور بنيامين ۱۶; برادران يوسف(ع) اور يوسفعليه‌السلام ۳، ۹، ۱۶; برادران يوسف(ع) پر اعتماد

۵۵۲

۹;برادران يوسف(ع) پر بے اعتمادى ۲، ۳; برادران يوسف(ع) كے مشورے كو رد كرنا ۱

بنيامين :بنيامين كى محافظت ۳; بنيامين كے انجام سے پريشانى ۴

بے رحمى :بے رحمى كے آثار ۱۵

تاريخ :تاريخ سے عبرت حاصل كرنے كى اہميت ۸

توكل:توكل كرنے كى حقيقت ۱۰//حافظ :بہترين حفاظت كرنے والا ۱۱

حوادث :ناگوار حوادث سے بچنے كا طريقہ ۸; ناگوار حوادث كے تكراركے موانع ۷

خيانت :خيانت كا پيش خيمہ ۱۵

ذمہ دارى :ذمہ داريوں كى تقسيم ميں مؤثر عوامل ۵

سابقہ :بُرے سابقہ كے آثار ۶

شرك :شرك كى حقيقت ۱۰

عبرت :عبرت كے اسباب۸

لوگ :لوگوں پر اعتماد اور توكل ۱۰; لوگوں پر اعتماد اور شرك ۱۰; لوگوں كے سابقہ كى اہميت ۵

مہربانى :مہربانى كے آثار ۱۴

يادآورى :بُرے سابقہ كى يادآورى كرنے كا جواز ۷

يعقوبعليه‌السلام :يعقوب(ع) اور برادران يوسف(ع) كا عہد و پيمان ۲; يعقوبعليه‌السلام اور برادران يوسف(ع) كى بے رحمى ۱۶; يعقوبعليه‌السلام اور بنيامين ۴;يعقوب(ع) اور بنيامين كا سفر كرنا ۱ ; يعقوب(ع) كا اعتماد ۹; يعقوب(ع) كا شك ۲;يعقوب(ع) كى بے اعتمادى كے دلائل ۳;يعقوب(ع) كى پريشانى كے اسباب ۴; يعقوب(ع) كى مخالفت اور برادران يوسف(ع) ۱

يوسف :يوسف كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۹، ۱۶; يوسف كى حفاظت۹

آیت ۶۵

( وَلَمَّا فَتَحُواْ مَتَاعَهُمْ وَجَدُواْ بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ قَالُواْ يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي هَـذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ذَلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ )

۵۵۳

پھر جب ان لوگوں نے اپنا سامان كھولا تو ديكھا كہ ان كى بضاعت (قيمت)واپس كردى گئي ہے تو كہنے لگا بابا جان اب ہم كيا چاہتے ہيں يہ ہمارى پونجى بھى واپس كردى گئي ہے اب ہم اپنے گھر والوں كے لئے غلہ ضرور لائيں گے اور اپنے بھائي كى حفاظت بھى كريں گے اور ايك اونٹ كا بار اور بڑھواليں گے كہ يہ بات اس كى موجودگى ميں آسان ہے (۶۵)

۱_ حضرت يعقوب(ع) كے بيٹوں نے سفر كى رپورٹ دينے كے بعد، مصر سے خريدارى كيئے ہوئے سامان كو كھولنا شروع كر ديا _و لما فتحوا متاعهم

۲_حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے جب اپنے سامان كو كھولا تو مصر سے خريدارى كيئے ہوئے غلات كے درميان اسكى قيمت كو پايا_و لما فتحوا متاعهم وجدوا بضاعتهم ردت اليهم

۳_حضرت يعقوب(ع) كے بيٹوں نے جب اداشدہ قيمت كو واپس پايا تو خوش ہوگئے اور حضرت يعقوب كو رپوٹ دى _

قالوا ىأبانا ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا

(ما نبغي) ميں (ما) استفہاميہ اور نبغى كا مفعول ہے _ (بغي) كا معنى چاہنا اور طلب كرنا ہے (ما نبغى ) يعنى اس سے زيادہ ہم كيا چاہتے ہيں ؟

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے اس بات پر اطمينان ركھتے

تھے كہ ان كے سرمايہ كو جان بوجھ كر واپس لوٹا ديا گيا ہے اور اس سلسلہ ميں يوسفعليه‌السلام كے كارمندوں نے كوئي بھول نہيں كيوجدوا بضاعتهم ردّت اليهم ...هذه بضاعتنا ردّت الينا

(ردّت الينا )كا جملہ اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے مطمئن تھے كہ ان كى پونجى ان كى طرف لوٹا دى گئي ہے _ يعنى يہ گمان بھى نہيں تھا كہ انہوں نے غلطى سے ركھ ديا ہو تا كہ اسكو واپس لوٹا نے كواپنے ليئے ضرورى سمجھيں _

۵۵۴

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے ان كو اس بات كى يقين دہانى كرائي كہ عزيز مصر (يوسفعليه‌السلام ) نے ان كى پونجى كو بغير كسى كمترين منت و سماجت اور ہميں خبر ديئےغير واپس لوٹا دياہے _هذه بضاعتنا ردّت الينا

(ردّت) كے فعل كو مجہول لانا اورفاعل كاذكر نہ كرنا ، اس معنى كو بتا رہا ہے كہ مال كا كا واپس لوٹانا اس طرح تھا كہ ہميں كوئي خبر نہ ہوتا كہ ہميں كسى قسم كى شرمندگى كا احساس نہ ہو _

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے اپنے باپ كے ساتھ اور ان كى سرپرستى ميں زندگى بسر كرتے تھے _

و لما فتحوا متاعهم ...قالوا يابانا ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا

۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے جب اپنے سرمايہ كو واپس اپنے پاس ديكھا تو دوبارہ كوشش شروع كردى تا كہ والد بزگوار كو راضى كريں كہ وہ بنيامين كو ہمارے ساتھ روانہ كريں _

قال هل أمنكم ىأ بانا ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا و نمير اهلنا و نحفظ أخانا

حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كا يہ جملہ ( ما نبغى ہذہ بضاعتنا ...) كوقرينہ مخاطب (يابانا) كے ساتھ ديكھيں تو كہ ان كا مقصود حضرتعليه‌السلام كى رضايت كو جلب كرنا ہے تا كہ وہ بنيامين كو ہمارے ساتھ بھيجيں _

۸_ حضرت يوسفعليه‌السلام كا يہ اندازہ (اپنے بھائيوں كو ان كى پونجى واپس لوٹا ديں تو دوبارہ مصر آنے ميں ميلان پيدا كريں گے) اور ان كا حدس لگانا مناسب و صحيح تھا_

لعلهم يعرفونها لعلهم يرجعون ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا و نمير اهلنا

۹_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ليے اپنے خاندان كے نان و نفقہ كو مہيا كرنے كے ليے تنہا راستہ مصر كا سفر تھا _

و نمير اهلنا

(ميرة ) طعام كے معنى ميں ہے اور (مير)'' نمير'' كا مصدر ہے جسكا معنى طعام كو فراہم اور مہيا كرنا ہے _

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كى بنيامين كو مصر ہمراہ لے جانے كے ليے باپ كى رضايت كو جلب كرنے كے دلائل ميں سے خورد و خوراك كے مہيا كرنے كى ضرورت اور اسكو آمادہ كرنے كے ليے سرمايہ كا ضرورى نہ ہونا اور دربار مصر كى فرزندان يعقوب(ع) پر خاص عنايت و غيرہ تھے _

ما نبغى هذه بضاعتنا ردّت الينا و نمير اهلنا

۵۵۵

حضرت يعقوب(ع) كے بيٹوں كا يہ جملہ (يا ابانا هذه ...) بنيامين كو سفر ميں ہمراہ لے جانے ميں حضرتعليه‌السلام كى رضايت كو جلب كرنا مقصود ہے _ اور ان كا ہر جملہ ان ميں سے ايك دليل ہے كہ ان كو سفر پر بھيجنا ضرورى ہے _ اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹے (ما نبغى ...) كے جملے سے يہ بيان كرنا چاہتے ہيں كہ ہم پر عزيز مصر نے بہت لطف و مہربانى كى ہے اسى وجہ سے ہمارے ليے مناسب نہيں ہے كہ انكى اس خواہش (بنيامين كو ہمراہ لائيں ) كو پورا نہ كريں انہوں نے جملہ (نمير اہلنا ) كو ايك مقدر جملہ مثل (نستظہر بہا ) (يعنى اس لوٹائي ہؤئي پونچى سے مدد حاصل كريں گے ) پر عطف كيا ہے _ اس سے يہ بيان كرنا چاہتے ہيں كہ خوراك كو خريدنے ميں كسى مشكل سے دوچار نہيں ہيں اور (نحفظ اخانا) كا جملہ اس بات كو بتارہا ہے كہ عزيز مصر كے مثبت جواب اور خوراك كے حصول كے ليے اپنے بھائي كى حفاظت لازمى كريں گے اور (ذلك كيل يسير) اس كو بتارہا ہے كہ ہم طعام لانے كے ليے بہت محتاج ہيں _

۱۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے بنيامين كو مصر كے سفر پر لے جانے كے ليے دوبارہ محبت بھرا عہد كيا _

نمير اهلنا و نحفظ اخانا

۱۲_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كو بنيامين كے ہمراہ بھيجنے كے ليے جو دلائل دے گے ان ميں خوراك كے حصّے كى ممنوعيت كاختم ہونا، اور ايك اونٹ كے سامان كا زيادہ ہونا شامل تھا _و نزداد كيل بعير ذلك كيل يسير

(ازدياد) (نزداد ) كا مصدر ہے جو كہ باب افتعال سے ہے جسكا معنى زيادہ اور اضافہ كى درخواست كرنا ہے _ (كيل بعير) سے مراد اتنا وزن ہے جو ايك اونٹ اٹھا سكتا ہے اور جملہ (فان لم تأتونى بہ فلاكيل لكم ...) اور جملہ (منع منا الكيل ) اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ حضرت يوسفعليه‌السلام نے حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ليے ان كى خوراك كے حصے پر پابندى لگادى جب تك وہ بنيامين كو ہمراہ نہيں لائيں گے اسى وجہ سے ( نزاد كيل بعير) سے مراد يہ ہے كہ بنيامين كو ساتھ لے جائيں گے تو خوراك كى پابندى ختم ہونے كے ساتھ ساتھ ہم ايك اونٹ كے وزن كى اضافى خوراك كا بھى تقاضا كريں گے _

۱۳_ حضرت يوسفعليه‌السلام نے قحط كے سات سال ميں غلات كى تقسيم كے ليے راشن بندى كا ايك قانون بنايا _

نزداد كيل بعير

كيونكہ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں كے ساتھ بنيامين كے آنے سے ايك اونٹ كے وزن كى اضافى خوراك ان كو مل جاتى اس بات سے چند

۵۵۶

نكات كا اشارہ ملتا ہے : ۱_ خوراك كا حصہ ہر ايك كے ليے مخصوص تھا _۲_ اور يہ خوراك كا حصہ ہر ايك اونٹ كا وزن تھا اس سے زيادہ نہيں تھا_

۱۴_ حضرت يوسف(ع) ہر مرحلہ ميں ہر شخص كے ليے ايك اونٹ كے وزن كا غلّہ فروخت كرتے تھے_

نزداد كيل بعير

۱۵_ حضرت يوسفعليه‌السلام كى طرف سے قحط كے سات سالوں ميں غلات كى تقسيم كے ليے يہ قانون تھا كہ جو شخص غلّہ كا تقاضا كر تا سہميہ بھى اسى كوديا جاتا_نزداد كيل بعير

اگر كوئي شخص دوسرے كا حصّہ لے سكتا تو (نزاد كيل بعير ) (بنيامين كے آنے سے ايك اونٹ كے وزن كى خوراك كو دريافت كرسكتے ہيں ) يہ بات بنيامين كو مصر لے جانے كے ليے ايك مستقل دليل كے عنوان سےبيان نہ كى جاتى _

۱۶_ اونٹ ،مصر اور قديمى كنعان ميں سامان منتقل كرنے كے سلسلہ ميں ايك رائج وسيلہ تھا _و نزداد كيل بعير

۱۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے پہلے سفر ميں جو غلّہ حاصل كيا تھا اسے قحط كے ليے كافى نہيں سمجھتے تھے لہذا وہ دوسرے حصے كو حاصل كرنے كے ليے مصر كى طرف سفر كرنے كو ضرورى سمجھتے تھے _ذلك كيل يسير

(ذلك) كا اشارہ متاع اور خوراك كى طرف ہے جسكو حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے پہلے سفر ميں حاصل كيا تھا اور ''يسير'' كا معنى كم اور تھوڑا ہے_ يہ بات واضح ہے كہ قحط كے سالوں كے ليے يہ بہت ہى كم تھا_

۱۸_ خوراك مہيا كرنا ضرورى ہے اور اپنى معاش و زندگى كو چلانے ميں سستى و غفلت سے پرہيز كرنا چاہيے_

نمير اهلنا ...ذلك كيل يسير

۱۹_ قحط اور خوراك كى كمى كے دوران اپنى ذاتى ضرورت كے ليے خوراك كو ذخيرہ كرنے كا جائز ہونا_

نمير اهلنا ...ذلك كيل يسير

آل يعقوب:آل يعقوب كا معاش مہيا كرنا ۹

احكام : ۹

برادران يوسفعليه‌السلام :برادران يوسفعليه‌السلام اور بنيامين كا سفر ۷، ۱۰، ۱۱، ۱۲;برادران يوسفعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام ۵، ۶، ۷ ; برادران يوسفعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كى رضايت ۱۰، ۱۲;برادران يوسفعليه‌السلام اور غلات كى كمى ۱۷; برادران يوسفعليه‌السلام اور مصر كا سفر ۱۷;برادران يوسفعليه‌السلام كا اطمينان ۴;برادران يوسفعليه‌السلام كا عہد و پيمان ۱۱;

۵۵۷

برادران يوسفعليه‌السلام كا كردار ۹;برادران يوسفعليه‌السلام كا مال تجارت ۱;برادران يوسفعليه‌السلام كى خوشحالى ۳;برادران يوسفعليه‌السلام كى زندگى كرنے كى جگہ ۶; برادران يوسفعليه‌السلام كى كوشش ۷; برادران يوسفعليه‌السلام كے تجارت كے مال كا واپس ہونا ۲، ۳، ۴، ۵، ۷;برادران يوسفعليه‌السلام كے سفر كرنے كے دلائل ۱۰، ۱۲

بنيامين :بنيامين كى محافظت۱۱//شتر :شتر كے فوائد ۱۶

غلّات :حضرت يوسفعليه‌السلام كے زمانے ميں غلات كا سہم معين ہونا ۱۳، ۱۴، ۱۵

قحط :قحط كے دوران ميں خوراك كا ذخيرہ كرنا ۱۹

قديمى مصر:قديمى مصر ميں اونٹ ۱۶; قديمى مصر ميں سامان كو حمل و نقل كرنے كے و سائل ۱۶

معاش:معاش كو مہيا كرنے كى اہميت ۱۸

يعقوبعليه‌السلام :يعقوبعليه‌السلام كو راضى كرنے كا پيش خيمہ۷

يوسف(ع) :حضرت يوسفعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۷، ۸، ۱۱، ۱۲، ۱۳ ، ۱۷; حضرت يوسفعليه‌السلام اور منت سماجت ۵; حضرت يوسف(ع) كى اقتصادى سياست ۱۳ ، ۱۴ ،۱۵;حضرت يوسف(ع) كى دورانديشى كا متحقق ہونا۸

آیت ۶۶

( قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِّنَ اللّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلاَّ أَن يُحَاطَ بِكُمْ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ )

يعقوب نے كہا كہ ميں اسے ہر گر تمھارے ساتھ نہ بھيجوں گا جب تك كہ خدا كى طرف سے عہد نہ كرو گے كہ اسے واپس ضرور لائو گے مگر يہ كہ تمھيں كو گھير ليا جائے _اس كے بعد جب ان لوگوں نے عہد كرليا تو يعقوب نے كہا كہ اللہ ہم لوگوں كے قول و قرار كا نگراں اور ضامن ہے (۶۶)

۱_ حضرت يعقوبعليه‌السلام بالآخر بنيامين كو اپنے بيٹوں كے ہمراہ مصر بھيجنے پر رضامند ہوگئے _

قال لن ارسله معكم حتى تؤتون موثقا

۲_ حضرت يعقوب(ع) نے اپنے بيٹوں كے ہمراہ بنيامين كو مصر بھيجنے كے ليے خدا متعال كے ساتھ عہد و پيمان باندھنے كے ساتھ مشروط كرديا ( خداوند متعال كے ساتھ عہد و پيمان باندھيں اور اس كے نام كى قسم اٹھائيں )

لن ارسله معكم حتّى تؤتون موثقاً من الله

۵۵۸

(موثق) كا معنى عہد و پيمان ہے (لام) جو (لتأتنّنى ) پر داخل ہوا ہے يہ لام قسم ہے يعنى ايسا وعدہ جو قسم خداوندى كے ساتھ ہو (من الله ) كا جملہ اس بات كو بتاتا ہے كہ قسم بھى خداوند متعال كے نام سے اور عہد و پيمان بھى اسى كے ساتھ ہو (حتى تؤتون موثقا ) يعنى قسم اٹھانا اور وعدہ كرنا_

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے بنيامين كى حفاظت كے سلسلہ ميں اپنے بيٹوں كو تاكيد كى كہ ان سے كوئي عذر و حيلہ قبول نہيں كيا جائے گا مگر يہ كہ تم پر كوئي غالب آجائے اور تم بے بس ہوجاؤ_حتى تؤتون موثقا من الله لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم

۴_ حضرت يعقوبعليه‌السلام بنيامين اور اس كى سلامتى سے بہت زيادہ محبت كرتے تھے اس كى جدائي ان كے ليے رنج و دكھ كا موجب تھى _لتأتنّنى به

جملہ(انا له لحافظون ) اورگذشتہ آيت ميں (فالله خير حافظاً ) اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ حضرت يعقوبعليه‌السلام ،بنيامين كو كسى دكھ و مصيبت ميں نہيں ديكھنا چاہتے تھے _ اور جملہ (لتأتنّنى بہ) (اسكو ميرے پاس لاؤ) اس بات كى حكايت كرتا ہے كہ اسكى جدائي حضرتعليه‌السلام كے ليے مشكل تھى اور وہ اسكو اپنے پاس ہى ديكھنا چاہتے تھے_

۵_ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں سے اس بات كى توقع نہيں ركھتے تھےكہ وہ بنيامين كى حفاظت كے سلسلہ ميں اپنے آپ كو خطرے ميں ڈاليں اور اسكو واپس لوٹا نے ميں كوشش كريں _الّا ان يحاط بكم

احاطة (يحاط) كا مصدر ہے جو كسى شے كو اس كے تمام اطراف سے گرفت ميں لينے كو كہتے ہيں _ آيت شريفہ ميں مغلوب ہونے كے معنى كے ليے كناية استعمال ہوا ہے _ يعنى تمام راستوں اور اميدوں كا ختم ہوجانا _

۶_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں سے كہا كہ بنيامين كى حفاظت اور واپس لوٹانے كى قسم سے ناتوانى اور عذر كو مستثنى قرار ديں _لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم

ظاہر عبارت يہ ہے كہ جملہ (الّا ان يحاط بكم ) قسم (لتأتنّنى بہ ) سے استثناء ہے اسى وجہ حضرت يعقوبعليه‌السلام اپنے بيٹوں كو تاكيد كر رہے تھے كہ قسم اٹھاتے وقت مجبورى اور عذر كو استثناء كريں اور اس طرح كہيں (والله لناتينك بہ الّا ان يحاط بنا) (خدا كى قسم بنيامين كو آپ كى

۵۵۹

طرف واپس لائيں گے مگر يہ كہ ہم مجبور و مغلوب ہوجائيں اور تمام راستے ہمارے ليے بند ہوجائيں ) _

۷_ خدا كى قسم اٹھاتے وقت اور اس سے عہد و پيمان كرتے وقت مناسب يہ ہے كہ اپنى ناتوانى كو اس سے استثناء كيا جائے _لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم

۸_ عذر اور ناتوانى كى وجہ سے عہد و قسم كو پورا نہ كرنے كى صورت ميں (عقوبت و كفارہ) ضرورى نہيں ہوتاہے_

لتأتنّنى به الّا ان يحاط بكم قال الله على ما نقول وكيل

۹_ الہى ذمہ داريوں و قسم اور عہد كو پورا كرنے كى شرط ، استطاعت ہے _الّا ان يحاط بكم

۱۰_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے آئين اور ان كے خاندان كے نزديك ،خدا كى قسم اٹھانا اور اس سے عہد و پيمان كى خاص اہميت تھي_حتى تؤتون موثقاً من اللّه ...الاّ ان يحاط بكم

۱۲_ عہد و قسم كى پابندى اور اس كے تقاضے كے مطابق عمل كرنا ضرورى ہوتاہے _حتى توتون موثقاً من الله لتاتنّنى به

۱۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں نے قسم اٹھائي اور خداوند متعال سے عہد و پيمان باندھا كہ جتنا بھى ممكن ہو بنيامين كى حفاظت كريں گے اور اسكو باپ كے پاس واپس لوٹا ئيں گے_حتى توتون موثقا فلما اتوه موثقهم

۱۴_ حضرت يعقوب(ع) نے خداوند متعال كو اپنے بيٹوں كے قول و قرار پر اپنا وكيل قرار ديا _

قال الله على ما نقول وكيل

۱۵_حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو قسم اور اپنے عہد و پيمان كے توڑنے پر خدا كے عذاب سے ڈرايا_

قال الله على ما نقول وكيل

سياق آيت دلالت كرتى ہے كہحضرت يعقوبعليه‌السلام كااپنے بيٹوں كے قول و قرار پر خداوند متعال كو وكيل قرار دينے كا مقصد يہ تھا كہ وہ ان كو عذاب الہى سے ڈرائے_

۱۶_خداوند متعال كى قسم كو توڑنا اور اس كے عہد و پيمان پر عمل نہ كرنا، خداوند متعال كے عذاب كا سبب بنتاہے_

الله على ما نقول وكيل

۱۷_ حضرت يعقوبعليه‌السلام نے اپنے بيٹوں كو قسم اور عہد و پيمان پر عمل كرنے كے ليے انہيں خداوند متعال كى نظارت اور گواہى كى طرف متوجہ كيا _الله على ما نقول وكيل

(اللہ ...) والے جملے كو اگر جملہ خبرى فرض كريں تو مذكورہ معنى حاصل ہوتاہے _

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746