تاریخ کا مظلوم ترین انسان!
امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات والاصفات میں کہیں سے بھی کوئی ضعف نہیں پایا جاتا،مگر اس کے باوجود آپ تاریخ کے مظلوم ترین انسان ہیں؛آپ کی زندگی کے ہر پہلو میں یہ مظلومیت نمایاں تھی،نوجوانی کے دوران مظلوم تھے،جوانی میں وفات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مظلوم تھے،بڑھاپے میں مظلوم تھے،شہادت کے بعد بھی برسہا برس تک منبروں سے آپ کو برا بھلا کہا جاتا رہا ،جھوٹی تہمتیں لگائی گئیں آپ کی شہادت بھی مظلومانہ تھی۔
تمام آثار اسلامی میں دو ذِوات مقدسہ ہیں جن کو ’’ثاراللہ‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے البتہ فارسی زبان میں ہمارے پاس اس عربی لغت کے لفظ ’’ثار‘‘ کا متبادل نہیں پایا جاتا جس کو ہم پیش کر سکیں عربی میں اس وقت لفظ’’ ثار‘‘ استعمال ہوتا ہے جب کسی خاندان کا کوئی فرد ظلم و ستم کی وجہ سے قتل کر دیا جاتا ہے تو اس وقت مقتول کا خاندان صاحب خون ہوتا ہے اسی کو ’’ ثار‘‘کہتے ہیں کہ یہ خاندان خونخواہی کا حق رکھتے ہیں،اگر خون خداکا معنی کہیں سنائی بھی دیتا ہے تو یہ ’’ثار‘‘ کی ناقص اور بہت نارسا تعبیر ہے ،پوری طرح مفہوم اس سے نہیں پہنچتا ،تاریخ اسلام میں دو لوگوں کا نام آیا ہے کہ جن کے خون خواہی کا حق خدا کو ہے،اس میں ایک امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی ہے اور دوسری شخصیت امیرالمومنین علی علیہ السلام جو کہ حضرت سید الشہدا کے والد ہیں’’یاثار اللہ و ابن ثارہ ‘‘ یعنی آپ کے پدر بزرگوار کی خون خواہی کا حق بھی خداوند کریم کو ہے۔
علی علیہ السلام کے چہر ہ پر نُور کی تابانی:
تیسرا عنصر ’’کامیابی‘‘ ہے،آپ کی پہلی کامیابی تو یہی ہے کہ زندگی میں دشوار ترین تجربات آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی کرنے پڑے اور آپ ان سب پر کامیاب رہے یعنی دشمن کی طرف سے شکست دینے والے سارے محاذ ۔جس کی وضاحت ہم بعد میں کریں گے۔جو آپ کو جھکانا چاہتے تھے اپنے مقصد میں ناکام رہے،ان سب نے خود علی علیہ السلام سے ہزیمت اٹھائی اور شہادت کے بعد آپ کی تا بانی مزید آشکار ہو گئی بلکہ زندگی کی تابندگی سے بھی بڑھ چڑھ کر نمایاں ہو گئی۔آپ دنیا میں ذرا ملاحظہ کریں۔فقط دنیائے اسلام میں ہی نہیں بلکہ سارے عالم میں کس قدر علی علیہ السلام کے مداح پائے جاتے ہیں حتیٰ کہ وہ لوگ جو اسلام کو نہیں مانتے مگر علی بن ابی طالب علیہ السلام کو تاریخ کی ایک عظیم تابندہ و درخشاں شخصیت کے عنوان سے جانتے ہیں،یہ خداوند عالم کی طرف سے آپ کی مظلومیت کے مقابلے میں انعام ہے کیونکہ خدا کے یہاں اس کی جزا اور مظلومیت کا پاداش یہ ٹھہرا کہ آپ تاریخ میں نیک نام ہوں آپ تاریخ بشر میں کون سا ایسا چہرہ دکھا سکتے ہیں جو آپ سے زیادہ تابناک اور درخشندہ ہو آج کے زمانے میں جن کتابوں کو ہم پہچانتے ہیں جو امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں لکھی گئیں ہیں اس میں سے جو سب سے زیادہ محبت آمیز،عاشقانہ انداز میں لکھی گئیں ہیں وہ سب غیر مسلموں کی ہیں مجھے اس وقت یاد آرہا ہے کہ تین عیسائی مصنفین نے حضرت علی علیہ السلام کی مدح و ستائش کرتے ہوئے کتابیں لکھیں جو واقعاً محبت و عشق سے لبریز ہیں،اور آپ سے محبت و عقیدت روز اول ہی سے شروع ہوئی یعنی جب آپ کو شہید کر دیا گیا اور آپ کے خلاف کیچڑ اچھالا جانے لگا۔شام کی حکومت سے وابستہ رہنے والے لوگ وہ لوگ جن کو علی علیہ السلام کی عدالت سے بغض و کینہ تھا،آپ کو گالیاں دی جانے لگیں،ان کی آپ سے عقیدت و محبت اور بڑھ گئی۔یہاں پر ایک تاریخی نمونہ پیش خدمت ہے۔
عبداللہ بن عروۃ بن زبیر کے بیٹے نے اپنے باپ یعنی عبداللہ بن عروۃ بن زبیر،سے امیرالمومنین علیہ السلام کی برائی بیان کی خاندان زبیر میں ایک مصعب بن زبیر کے علاوہ سب علی علیہ السلام سے بغض و عناد رکھتے تھے،مصعب بن زبیرایک شجاع اور کریم النفس انسان تھے جو کوفہ میں مختار کے حوادثات میں تھے بقیہ خاندان زبیر کے سارے لواحقین علی علیہ السلام سے عناد رکھتے تھے جب لڑکے نے برا بھلا کہا تو اس کے باپ نے ایک جملہ کہا جو علی علیہ السلام کی طرف داری میں بہت زیادہ نہیں کہا جاسکتا مگر اس میں ایک اہم نکتہ ہے عبداللہ اپنے بیٹے سے کہتا ہے’’والله یا بنی انمّاس شیمئا قطه الّا هدمة الدّین ولا بنی الدین شیئاً فاستطاعة الدنیا هدمه
‘‘ خدا کی قسم،دین نے جس چیز کی بھی بنیاد ڈالی اور پھر اس کی دین پر بنیاد ڈالی گئی اہل دنیا نے لاکھ اسے مٹانے کی کوشش کی مگر اسے نہ مٹا سکے اس کے کہنے کا مطلب تھا علی علیہ السلام کو خراب کرنے اور ان کے چہرے کو غبارآلود کرنے کی خوامخواہ زحمت نہ کرو ۔کہ ان کے ہر کام کی بنیاد دین اور ایمان پر ہے۔پھر اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے ’’الم تر الا علی کیف تظهر بنومروان من عیبه و ذمّه والله لکانّ مآیآ خذون نباصیة رفعاً الی الّمائ ‘‘
ذرا دیکھ فرزندان مروان کس طرح ہر موقع اور مناسبت سے منبر سے علی علیہ السلام کی عیب جوئی کرتے ہیں مگر ان کی یہ عیب جوئی اور بد گوئی علی علیہ السلام کے چہرے کو مکدر کرنے کی بجائے اور روشن کرتی ہے۔یعنی لوگوں کے ذھن میں ان کے اس عمل کا برعکس اثر پڑتا ہے۔
ان کے مقابل میں بنی امیہ’’وما تری ماینضبون به موتاهم من التابین والمدیح والله لکآنّما یکشون به عن الجیف
‘‘ بنی امیہ اپنے آبائ و اجداد کی تعریفیں کرتے پھرتے ہیں مگر جس قدر وہ ان کی ستائش کرتے ہیں لوگوں کی نفرت اور بڑھتی ہے شاید یہ باتیں تقریباً حضرت علی علیہ السلام کے ۳۰ تیس سال بعد کہیں گیں،یعنی امیرالمومنین علیہ السلام اپنی تمام تر مظلومیت کے باوجود اپنی زندگی میں بھی اور تاریخ میں بھی اور لوگوں کے اذہان و افکار میں بھی کامیاب رہے ہیں۔
امیرالمو منین علیہ السلام کے مقا بلے میں تین طرح کے مکتب فکر کی صف آرائی:
مظلومیت کے ساتھ آپ کے پانچ سال سے کم مدت اقتدار میں تین قسم کے لوگوں سے آپ کا مقابلہ ہوا۔قاسطین،ناکثین،اور مارقین۔خود امیرالمومنین علیہ السلام سے یہ روایت منقول ھے کہ آپ نے فرمایا’’ امرت ان الناکثین والقاسطین والمارقین‘‘ اور یہ نام بھی ان لوگوں کے خود آپ نے ہی رکھے تھے۔
قاسطین کے معنی ستمگر اور ظالم کے ہیں،عربی قاعدے اور قانون کے لحاظ سے جب ’’قسط‘‘ مجر د استعمال ہوگا(جیسےقَسَطَ يَقسِطُ
) تو یہ ظلم کرنے کے معنی میں ہوگا اور اگر یہی مادہ ثلاثی مزید اور باب افعال میں لے جایا جائے تو پھر عدل وانصاف کے معنی دے گا جیسے’’آقَسَط يُقسِطُ
‘‘ لہذا اگر ’’قِسط‘‘ باب افعال میں لے جایا جائے تو عدل و انصاف کے معنی میں ہوگا اور اگر ثلاتی مجرد استعمال ہو جیسے (قَسَطَ يُقسِطُ
) تو پھر اس کے خلاف معنی دے گا یعنی ظلم و جور اور قاسطین یہاں پر اسی ظلم و جور کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی ستمگر اور ظلم کرنے والے حضرت علیہ السلام نے گویا ان کو ظالم کہہ کر پکارا ،تو پھر یہ کون لوگ تھے؟ در حقیقت یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی مصلحت کے تحت ظاہری طور پر اسلام کو قبول کر لیا تھا اور حکومت علوی کو سرے سے ہی قبول نہیں کرتے تھے،امیرالمومنین علیہ السلام نے لاکھ جتن کئے مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔اور یہ حکومت بنی امیہ اور معاویہ بن ابی سفیان کے اشاروںپر تشکیل ہوئی تھی اور یہی لوگ اس کے محور و مرکز تھے کہ جس کے سربراہ معاویہ اور اس کے بعد مروان بن حکم اور ولید بن عقبہ تھے یہ خود ایک محاذ پر اکٹھے تھے جو علی علیہ السلام سے تعاون کرنے کے لیے کسی بھی حالت میں تیار نہیں تھے۔
یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ آغاز حکومت میں مغیرہ بن شعبہ اور عبداللہ بن عباس وغیرہ نے امیرالمو منین علیہ السلام سے کہا کہ یا امیرالمومنین علیہ السلام ابھی آپ کی حکومت کے ابتدائی ایام ہیں لہذا معاویہ اور شام کی حکومت کو کچھ دنوں ان کے حال پر چھوڑ دیں اور ان کو ابھی ہاتھ نہ لگائیں ۔مگر حضرت علیہ السلام نے ان کی اس رائے کو قبول نہیں کیا۔اور ان لوگوں نے سمجھا کہ حضرت علیہ السلام کوسیاست نہیں آتی،اور بعد کے واقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ حضرت کو مشورہ دینے والے یہ لوگ خود بے خبر تھے امیرالمومنین علیہ السلام نے لاکھ معاویہ کو سمجھانے کی کوشش کی اس کو اپنی حکومت و خلافت کے بارے میں راستے پر لانے کی کوشش کی مگر یہ ساری کوششیں ناکام رہیں معاویہ ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت قبول کر لیتا اگرچہ آپ سے پہلے والے ان میں سے بعض کو برداشت کرتے آئے تھے معاویہ جب سے مسلمان ہوا تھااس دن سے علی علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لئے صفین میں آنے تک کہ ۳۰ تیس سال سے کچھ کم مدت گزاری ہوگی کہ شام اس کے طرفداروں کے قبضہ میں تھا ان لوگوں نے جگہ بنالی،حکومت میں نفوذ کر چکے تھے ایسا نہیں تھا کہ انھیں نو مسلم کی حیثیت سے روکا ٹوکا جاتا اور کسی بھی حرکت پر انھیں روک دیا جاتا نہیں بلکہ انھوں نے اپنی جگہ بنا لی تھی۔
دنیائے اسلام میں حکومت اموی کے کھِلا ئے ہوئے گل:
اس بنائ پر یہ اس گروہ سے تعلق رکھتے تھے جو حکومت علوی کو کسی قیمت پر قبول نہیں کرتے تھے وہ حکومت کو اپنے ہاتھوں میں دیکھنا چاہتے تھے کہ لوگوں نے بعد میں اس کا تجربہ بھی کر لیا اور دنیائے اسلام نے ان کی حکومت کا مزہ بھی چکھا وہی معاویہ جو علی علیہ السلام سے چپقلش اور رقابت میں بعض اصحاب کے ساتھ نرمی و ملائمیت کا ثبوت دیتا تھا بعد میں اسی حکومت نے ان کے ساتھ سخت رویہ بھی اپنایا یہاں تک کہ یزید کا زمانہ بھی آیا اور واقعہ کربلا رونما ہوا اس کے بعدمروان، عبدالمالک ،حجاج بن یوسف ثقفی اور یوسف بن عمر ثقفی جیسے خونخوارلوگ حاکم بنے جو اسی حکومت و امارت کا ایک تلخ نتیجہ تھا یعنی یہی حکومتیں جن کے جرم و خیالات تاریخ لکھنے سے لرزتی ہے اسی حکومت کا ثمرہ تھا جس کی معاویہ نے بنیاد رکھی تھی اور امیرالمومنین علیہ السلام سے اسی خلافت کے لئے یہ لوگ لڑ جھگڑ رہے تھے یہ تو ابتدا ہی سے معلوم تھا کہ ان لوگوں کا کیا منشائ ہے اور کیا چاہتے ہیں۔ان کی حکومت دنیا پرستی اور خواہشات نفس خود غرضی کے علاوہ کچھ اور نہ تھی جیسا کہ بنی امیہ کی حکومت میں لوگوں نے اچھی طرح دیکھا اور محسوس کیا،میں البتہ یہاں کوئی عقیدے کی بحث یا کلامی بحث نہیں کر رہا ہوں،عین تاریخ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور یہ کوئی شیعہ تاریخ بھی نہیں ہے بلکہ تاریخ ’’ابن اثیر‘‘ ،تاریخ ’’ ابن قتیبہ‘‘ وغیرہ ہے جس کی عین عبارتیں میں نے لکھی ہیں اور یہاں میں نے جو لکھا یہ مسلّمات تاریخ میں سے ہیں جس میں شیعہ سنی کے اختلاف کی کوئی بات نہیں ہے!
کچھ اپنے جو حکومت میں حصہ دار ہونا چاہتے تھے!!
ایک دوسرا گروہ جو امیرالمو منین علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لئے آیا تھاجسے’’ناکثین‘‘ کہتے ہیں’’ناکث‘‘ یعنی توڑ دینے والے لوگ،اور یہاں پر وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے علی علیہ السلام سے بیعت کرنے کے بعد اُسے توڑ دیایہ لوگ مسلمان تھے اور پہلے والے گروہ (قاسطین) اپنوں میں سے شمار ہوتے تھے البتہ یہ ایسے تھے جو حکومت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو اسی حد تک قبول رکھتے تھے جہاں تک خود ان کو اس ریاست میں خاطر خواہ بٹوارے کی توقع تھی یعنی ان سے رائے مشورہ کیا جائے،انہیں حکومتی سطح پر ذمہ داریاں دیں جائیں،انھیں حاکم بنایا جائے جو مال و ثروت ان کے ہاتھوں میں ہے اس کے بارے میں کوئی بازپرس نہیں ہونی چاہیے یہ نہ پوچھیے کیسے اسے حاصل کیا! وغیرہ وغیرہ ۔گذشتہ سال انھیں ایام میں نماز جمعہ کے کسی خطبہ میں ،میں نے عرض کیا کہ ان لوگوں میں سے بعض لوگوں کی موت کے بعد ،کس قدر دولت و ثروت باقی بچی جو انھوں نے زندگی میں اکٹھی کی تھی ۔یہ لوگ امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت کوکیسے قبول کرتے ؟! کیوں نہیں لیکن اسی شرط و شروط کے ساتھ کہ انھیں ہاتھ نہ لگایا جائے اسی لیے پہلے تو ان کی اکثریت نے امیرالمومنین علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی البتہ بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے بیعت نہیں کی سعد بن ابی وقاص نے ابتدائ ہی سے بیعت نہیں اسی طرح کچھ دیگر جنہوں نے ابتدائ ہی سے بیعت نہیں کی البتہ طلحہ، زبیر اور دیگر بزرگ اصحاب وغیرہ نے امیرالمومنین علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت کی آپ کی خلافت کو قبول کر لیا،مگر جب تین ،چار ماہ گذر گئے اور دیکھاکہ یہ حکومت تو کسی کے آگے گھاس تک نہیں ڈالتی،اور یہ احساس ہوا کہ اس کے ساتھ تو دال نہیں گل سکتی اس لئے کہ یہ حکومت دوست اور آشنا کو نہیں پہچانتی خود کو کوئی امتیاز نہیں دیتی ،رشتہ داروں اور ناطے داروں کے لئے کسی حق کی قائل نہیں ہے،جو سابق الاسلام ہیں ان کے لئے حق کی قائل نہیں ہے(اگرچہ حاکم وقت خود سب سے پہلے اسلام لانے والا شخص ہے)حکم خدا کے نفاذ میں کسی کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا جب یہ سب دیکھا تو پھر احساس کیا نہیںجناب اس حکومت کے ساتھ تو بننامشکل ہے لہذا کٹ گئے اور جنگ جمل کا شعلہ بھڑکا دیاجو واقعاً ایک فتنہ تھا ام المومنین عائشہ تک کو اپنے ساتھ لے آئے،کتنے لوگ اس جنگ میں مارے گئے قتل ہوئے۔اگرچہ امیرالمومنین علیہ السلام اس جنگ میں کامیاب ہو گئے اور مطلع صاف ہو گیا،مگر یہ دوسرا محاذ تھا جس کے مقابل علی علیہ السلام کو مجبوراً لڑنا پڑا اور مدت خلافت کا کچھ وقت اس میں صرف کرنا پڑا۔
وہ کج فہمیاں جو حکومت شام کی طرف سے پیدا کی گئیں!!
تیسرا گروہ مارقین کا گروہ تھا(مارق)یعنی گریز کرنے والے اس کی وجہ تسمیہ اس طرح بتائی گئی ہے کہ یہ لوگ دین سے اس طرح گریزاں تھے جس طرح تیر کمان کو چھوڑ کر نکلتا ہے کس طرح سے آپ تیر کو کمان میں جوڑ کر جب تیر پھینکتے ہیں تو وہ کمان سے باہر نکل جاتا ہے یہ لوگ اسی طرح دین سے دور ہو گئے البتہ بظاہر خود کو دین سے وابستہ رکھتے تھے اور دین کا نام بھی اپنی زبان پر جاری کرتے تھے یہ وہی خوارج تھے جو اپنی کج فکری اور انحراف کی بنیاد پر کاموں کو انجام دیتے تھے علی بن ابی طالب علیہ السلام (جو مفسر قرآن اور حقیقی علم کتاب کے عالم تھے) دین کو ان سے حاصل نہیں کرتے تھے البتہ ان کا ایک گروہ اور پارٹی کی شکل میں نمودار ہونا سیاست چاہتی تھی اور اس کے لئے وہ کسی اور سے رھنمائی لیتے تھے ایک اھم نکتہ یہاںپایا جاتا ہے کہ یہ چھوٹا سا گروہ جہاں آپ کچھ کہتے فوراً کوئی نہ کوئی قرآن کی آیت پیش کر دیتے ۔نماز جماعت کے درمیان مسجد میں آتے امیر المومنین علیہ السلام امام جماعت کی حیثیت سے کوئی سورۃ پڑھ رہے ہوتے تو یہ لوگ حضرت علیہ السلام کی طرف کنایہ کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی آیت پڑھتے ،امیرالمومنین علیہ السلام کے خطبے کے درمیان کھڑے ہو جاتے اور اشارے اور کنائے میں آیت کی تلاوت کرتے۔(لا حکم الاّللہ) ان کا نعرہ تھا یعنی ہم حکومت خدا کے حامی ہیں اور آپ کی حکومت کو قبول نہیں رکھتے ہیں۔ یہ گروہ جن کا ظاہر اس طرح سے پر فریب تھا حکومت شام اور بزرگان قاسطین کے ذریعے سیاسی طور پر ہدایت پاتے تھے (یعنی عمر و عاص اور معاویہ کے ذریعہ) ان کے یہ کام انجام پائے یہ لوگ ان سے مرتبط تھے۔مختلف قرائن اس بات پر دلالت کرتے ہیں (سردار مارقین) اشعث ابن قیس ایک بدسرشت آدمی تھا کچھ ضعیف عقیدہ رکھنے والے فقیر و بیچارے لوگ اس کے پیچھے پیچھے آگئے اس بنیاد پر جس تیسرے گروہ سے امیرالمومنین علیہ السلام کا سامنا تھا وہ مارقین تھے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کو ان کے مقابلہ میں بھی کامیابی ملی اور مارقین کو ھزیمت اٹھانا پڑی،مگر یہ وہ لوگ تھے جن کے وجود سے حضرت علیہ السلام کو خطرہ لاحق تھا اور آخرکار انہی کی وجہ سے آپ کو شربت شہادت پینا پڑا۔
میں نے گذشتہ سال یہ عرض کیا تھا کہ خوارج کو پہچاننے میں آپ غلطی نہ کریں بعض حضرات نے خوارج کو خشک مقدس کا نام دیا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔بلکہ بحث مقدس مآب ہونے یا خشک مقدس،ہونے کی نہیں ہے وہ مقدس مآب جو کسی گوشے میں بیٹھا دعا و نماز میں مشغول ہے یہ خوارج کے معنی نہیں ہیں ۔خوارج ایک ایسے وجود کا نام ہے جو فسادی ہے،فتنہ انگیزی کرتا ہے پرسکون فضا کو بحرانی کرتا ہے،میدان جنگ میں لڑائی کرنے کے لئے تیار ہے ،کسی اور سے نہیں علی علیہ السلام جیسی شخصیت سے صف آرائی کرنے کے لئے تیار ہے ہاں بات صرف اتنی سی ہے کہ اس کے افعال کی بنیاد غلط ہے،اس کی جنگ غلط ہے ،اس کے اسباب وسائل غلط ہیں،اس کا مقصد غلط اور بیجا ہے،امیرالمومنین علیہ السلام ان تین گروہوں سے جنگ کر رہے تھے اور ان جیسے لوگوں سے علی علیہ السلام کا پالا پڑا تھا۔
جن غلط کاموں کی بنیاد پر اسلام کی آڑ میں علی علیہ السلام سے جنگ کی گئی:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ اوران کی حکومت میں اور دوران حکومت امیرالمومنین علیہ السلام میں جو امتیازی فرق تھا وہ یہ تھاکہ حیات مبارک بنی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صفوف معین تھیں ایک طرف ایمان تو دوسری طرف کفر،رہ گئے منافقین تو ان کے بارے میں دائماً آیات قرآن لوگوں کو متنبہ کرتی رہیں ان کی طرف انگلی اٹھتی اور مومنین کو ان کے مقابلے میں قوت حاصل ہوتی تھی یعنی نظام اسلامی حیات پیغمبر اکرم(ص) میں ساری چیزیں آشکار تھیں،تمام صفوف ایک دوسرے سے جدا تھیں،کوئی شخص کفر و طاغوت کا جانب دار تھا تو دوسرا ایمان و اسلام کا طرف دار تھا ہر چند وہاں بھی مختلف قسم کے لوگ موجود تھے مگر ہر ایک معینہ پارٹی تھی، معین صفوں میں کھڑے تھے،اور دوران امیرالمومنین علیہ السلام کی صفوں میں کوئی جدائی نہیں تھی کیونکہ وہی ’’ناکثین‘‘ لوگوں میں ایک گروہ رکھتے تھے زبیر و طلحہ جیسوں کے مقابلے میں بہت سے لوگ شک و تردید کا شکار ہو جاتے تھے ،یہی زبیر زمانہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اکابر صحابہ میں سے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیکی اور آپ کے پھوپھی زاد بھائی تھے یہاںتک کہ وفات پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی امیرالمومنین علیہ السلام کا دفاع کیا،سقیفہ پر اعتراض کیا جی ہاں،عاقبت پر نظر ہونا چاہیے،خدا ہم سب کی عاقبت بخیر کرے،بسا اوقات دنیا طلبی اور اس کے رنگ برنگے جلوئے اس طرح انسان کے قلب و جگر میں جگہ بنا لیتے ہیں، اس طرح انسان کے اندر تغیر و تبدل پیدا کر دیتا ہے کہ عوام تو عوام خواص کے بارے میں بھی لوگ شک و تردید کا شکار ہو جاتے ہیں،اس لیے حقیقتاً وہ سخت دن تھے جو لوگ امیرالمومنین علیہ السلام کے حلقہ بگوش تھے دشمنوں کے مقابل جنگ کر رہے تھے بہت با بصیرت تھے نا چیز نے بارھا یہ بات نقل کی ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:(لا یحمل هذا لعلم الا آهل البصرو الصبر
) بیشک پرچم ولایت اھل بصیرت اور صبر رکھنے والوں کے علاوہ کوئی اور اٹھانے کے قابل نہیں،لہذا پہلے مرحلے میں بصیرت درکار ہے،پھر ان مشکلات اور موانع کے ہوتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امیرالمومنین کے لئے کس قدر رکاوٹیں اور ان کی راہ میں کتنے کانٹے تھے یا پھر وہ غلط کردار جو بنام اسلام وجود میں آئے اور امیرالمومنین علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے اور غلط باتیں پیش کر کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی،صدر اسلام میں بھی غلط باتیں کم نہیں تھیں مگر زمانہ امیرالمومنین علیہ السلام اور صدر اسلام میں فرق یہ تھا کہ آیت قرآن نازل ہوئی اور اس غلط فکر کو باطل قرار دے دیتی تھی، وہ مکی زندگی ہو یا مدنی زندگی آپ ذرا نظر ڈالیں سورہ بقرۃ ایک مدنی سورۃ ہے جس وقت انسان کی نظر اس پر پڑتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے پیغمبر اسلام کے مقابلے میں منافقین کی ہر قسم کی ہٹ دھرمی اور یہود کی ریشہ دوانیوں کے بارے میں قرآن خاموش نہیںہے بلکہ اس کی تفصیلات بیان کرتا ہے،حتی وہ جزئیات تک قرآن نقل کرتا ہے جیسے یہودی آنحضرت کے مقابلے میں ایک نفسیاتی جنگ کے عنوان سے مسلمانوںکے مابین چھیڑے ہوئے تھے اس جیسی آیات’’لا تقولوا راعنا ‘‘ کو قرآن باقاعدہ ذکر کرتا ہے ،اسی طرح سورہ اعراف۔جو ایک مکی سورہ ہے۔ایک مفصل فصل ذکر کرتا ہے جہاں خرافات سے جنگ ہے وہ بتاتا ہے کہ یہ حلال ہے یہ حرام ہے ،کہ ان لوگوں نے واقعی محرمات کے مقابلے میں چھوٹی،چھوٹی حرمت گھڑرکھی تھی۔حقیقی حرام و حلال ان کے لئے ھیچ تھے ’’قل انّما حّرم ربی الفواحش ما ظهر منها وما بطن
‘‘ قرآن وہاں ان خرافات سے جنگ کرتا ہے حلال و حرام کو گنواتا ہے وہ کہتا ہے قرآن جس کو حلال و حرام بتا رہا ہے وہ ہے حلال و حرام نہ وہ کہ جسے تم بحیرہ نے خود سے حرام قرار دے لیا ہے،قرآن نے صراحتاً اس جیسے افکار کا مقابلہ کیا؛مگر زمانہ امیرالمومنین علیہ السلام میں یہی مخالفین خود قرآن سے اپنے باطل مقاصد تک پہنچنے کے لئے ا ستفادہ کرتے تھے وہی لوگ آیات قرآنی کو سند بنا کر پیش کرتے تھے اس لیے حضرت علیہ السلام کی مشکلات کئی گنا سخت ہوگئی تھیں،امیرالمومنین علیہ السلام اپنی چند سالہ خلافت میں اس جیسی سختیوں اور مشکلات سے گذر رہے تھے۔
پیروان علی علیہ السلام کے خلاف سازش:
ان لوگوں کے مقابلے میں خود علی علیہ السلام کا محاذ ہے جو حقیقتاً ایک مستحکم اور قوی محاذ کی حیثیت رکھتا ہے جہاں عمار،مالک اشتر،عبداللہ بن عباس، محمد بن ابی بکر ،میثم تمار،اور حجر بن عدی جیسے افراد موجود ہیںکہ یہ مومن اور بابصیرت حضرات لوگوں کی ہدایت و راھنمائی میں کس قدر پُر کشش تھے،امیرالمومنین علیہ السلام کی خلافت و حکومت کا ایک درخشندہ اور حسین حصہ (البتہ یہ زیبائی اور حسن انھیں بزرگ اشخاص کی سعی و کوشش کا نتیجہ تھا کہ ہر چند انھیں اس راہ میں رنج و الم اور مصیبتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا) تاریخ کا وہ منظرہے جب طلحہ و زبیر کی صف آرائی کی وجہ سے ان حضرات نے کوفے اور بصرے کا رخ کیا جب کہ طلحہ و زبیر نے بصرے کو اپنے قبضے میں لے لیا اوراگلا قدم کوفے کی طرف بڑھا رہے تھے تاکہ اسے بھی اپنے زیر تسلط کر سکیں حضرت علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام اور ان میں بعض حضرات کو ان کے فتنے کو روکنے کے لئے روانہ فرمایا،اور ان حضرات نے حکم امام علیہ السلام کے بعد لوگوں سے جو مذاکرہ کیا،جو اجتماعات کئے،گفتگو کی،مسجد میں جو لوگوں سے خطاب کیا وہ سب تاریخ صدر اسلام کے پرمغز ،اور حسین و زیبا اور ہیجان انگیز حصوں میں سے شمار ہوتا ہے۔
اس بنا پر آپ جب تاریخ اٹھا کر دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ سب سے زیادہ دشمنان علی علیہ السلام نے جن اشخاص پر حملے کئے ہیں وہ یہی لوگ تھے مالک اشتر کے خلاف سازشوں کا جال،عمار یاسر کے خلاف سازشیں محمد بن ابی بکر کے خلاف سازشوں کے تانے بانے سب سے زیادہ تھے ،گویا وہ تمام یاران با وفا جو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی معیت میں تھے ان کے ساتھ ساتھ اپنے اخلاص و ایمان و محبت کا امتحان دے چکے تھے اور اپنی بصیرت و قوت ایمانی کوعملاً ثابت کر چکے تھے دشمنوں کی طرف سے ہر قسم کے حملات کا شکار تھے ان پر تہمتیں لگائی جا رہی تھیں انھیں قتل کرنے کے لئے سازشیں کی جا رہی تھیں اور آخر کار
ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو شہید کر دیا گیا۔
عمار یاسر،جنگ میں شہید ہوئے مگر محمد بن ابی بکر شامیوں کے حملے کا شکار ہو کر مکر و دغا سے شہید کر دئے گئے،اسی طرح مالک اشتر نے بھی اھل شام کے مکر و حیلہ سے شربت شہادت نوش فرمایا اور ان میں سے جو حضرات باقی بچے وہ بھی بعد میں شدید ترین شکنجوں اور سختیوں سے شہید کر دئے گئے یہ امیرالمومنین علیہ السلام کے دوران حکومت اور ان کی زندگی کی کیفیت و حالت تھی جسے آپ نے ملاحظہ کیا اگر آپ کی زندگی کو مجموعی حیثیت سے کوئی دیکھنا چاہے تو یوں عرض کر سکتے ہیں کہ آپ کی حکومت ایک بااقتدار و مستحکم حکومت تھی مگر ساتھ ہی ساتھ مظلومیت سے لبریز ایک کامیاب و کامران دور بھی تھا۔یعنی آپ وہ باقتدار حاکم ہیں جو اپنے زمانے میں بھی دشمنوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتے ہیں۔اورشہادت بعد بھی۔ آپ اپنی مظلومیت کی وجہ سے فراز تاریخ پر مشعل راہ بنے ہوئے ہیں ہاں یہ بھی سچ ہے آپ نے جو اس راستے میں خون دل پیا ہے اور زحمتیں اٹھائیں ہیں وہ تاریخ کے رنج و مصیبت کے اوراق پر ایک تلخ حقیقت بھی ہے۔
____________________