شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام 18%

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 21 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 19359 / ڈاؤنلوڈ: 4983
سائز سائز سائز
شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام

شخصیت امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

تاریخ کا مظلوم ترین انسان!

امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات والاصفات میں کہیں سے بھی کوئی ضعف نہیں پایا جاتا،مگر اس کے باوجود آپ تاریخ کے مظلوم ترین انسان ہیں؛آپ کی زندگی کے ہر پہلو میں یہ مظلومیت نمایاں تھی،نوجوانی کے دوران مظلوم تھے،جوانی میں وفات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مظلوم تھے،بڑھاپے میں مظلوم تھے،شہادت کے بعد بھی برسہا برس تک منبروں سے آپ کو برا بھلا کہا جاتا رہا ،جھوٹی تہمتیں لگائی گئیں آپ کی شہادت بھی مظلومانہ تھی۔

تمام آثار اسلامی میں دو ذِوات مقدسہ ہیں جن کو ’’ثاراللہ‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے البتہ فارسی زبان میں ہمارے پاس اس عربی لغت کے لفظ ’’ثار‘‘ کا متبادل نہیں پایا جاتا جس کو ہم پیش کر سکیں عربی میں اس وقت لفظ’’ ثار‘‘ استعمال ہوتا ہے جب کسی خاندان کا کوئی فرد ظلم و ستم کی وجہ سے قتل کر دیا جاتا ہے تو اس وقت مقتول کا خاندان صاحب خون ہوتا ہے اسی کو ’’ ثار‘‘کہتے ہیں کہ یہ خاندان خونخواہی کا حق رکھتے ہیں،اگر خون خداکا معنی کہیں سنائی بھی دیتا ہے تو یہ ’’ثار‘‘ کی ناقص اور بہت نارسا تعبیر ہے ،پوری طرح مفہوم اس سے نہیں پہنچتا ،تاریخ اسلام میں دو لوگوں کا نام آیا ہے کہ جن کے خون خواہی کا حق خدا کو ہے،اس میں ایک امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی ہے اور دوسری شخصیت امیرالمومنین علی علیہ السلام جو کہ حضرت سید الشہدا کے والد ہیں’’یاثار اللہ و ابن ثارہ ‘‘ یعنی آپ کے پدر بزرگوار کی خون خواہی کا حق بھی خداوند کریم کو ہے۔

علی علیہ السلام کے چہر ہ پر نُور کی تابانی:

تیسرا عنصر ’’کامیابی‘‘ ہے،آپ کی پہلی کامیابی تو یہی ہے کہ زندگی میں دشوار ترین تجربات آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی کرنے پڑے اور آپ ان سب پر کامیاب رہے یعنی دشمن کی طرف سے شکست دینے والے سارے محاذ ۔جس کی وضاحت ہم بعد میں کریں گے۔جو آپ کو جھکانا چاہتے تھے اپنے مقصد میں ناکام رہے،ان سب نے خود علی علیہ السلام سے ہزیمت اٹھائی اور شہادت کے بعد آپ کی تا بانی مزید آشکار ہو گئی بلکہ زندگی کی تابندگی سے بھی بڑھ چڑھ کر نمایاں ہو گئی۔آپ دنیا میں ذرا ملاحظہ کریں۔فقط دنیائے اسلام میں ہی نہیں بلکہ سارے عالم میں کس قدر علی علیہ السلام کے مداح پائے جاتے ہیں حتیٰ کہ وہ لوگ جو اسلام کو نہیں مانتے مگر علی بن ابی طالب علیہ السلام کو تاریخ کی ایک عظیم تابندہ و درخشاں شخصیت کے عنوان سے جانتے ہیں،یہ خداوند عالم کی طرف سے آپ کی مظلومیت کے مقابلے میں انعام ہے کیونکہ خدا کے یہاں اس کی جزا اور مظلومیت کا پاداش یہ ٹھہرا کہ آپ تاریخ میں نیک نام ہوں آپ تاریخ بشر میں کون سا ایسا چہرہ دکھا سکتے ہیں جو آپ سے زیادہ تابناک اور درخشندہ ہو آج کے زمانے میں جن کتابوں کو ہم پہچانتے ہیں جو امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں لکھی گئیں ہیں اس میں سے جو سب سے زیادہ محبت آمیز،عاشقانہ انداز میں لکھی گئیں ہیں وہ سب غیر مسلموں کی ہیں مجھے اس وقت یاد آرہا ہے کہ تین عیسائی مصنفین نے حضرت علی علیہ السلام کی مدح و ستائش کرتے ہوئے کتابیں لکھیں جو واقعاً محبت و عشق سے لبریز ہیں،اور آپ سے محبت و عقیدت روز اول ہی سے شروع ہوئی یعنی جب آپ کو شہید کر دیا گیا اور آپ کے خلاف کیچڑ اچھالا جانے لگا۔شام کی حکومت سے وابستہ رہنے والے لوگ وہ لوگ جن کو علی علیہ السلام کی عدالت سے بغض و کینہ تھا،آپ کو گالیاں دی جانے لگیں،ان کی آپ سے عقیدت و محبت اور بڑھ گئی۔یہاں پر ایک تاریخی نمونہ پیش خدمت ہے۔

عبداللہ بن عروۃ بن زبیر کے بیٹے نے اپنے باپ یعنی عبداللہ بن عروۃ بن زبیر،سے امیرالمومنین علیہ السلام کی برائی بیان کی خاندان زبیر میں ایک مصعب بن زبیر کے علاوہ سب علی علیہ السلام سے بغض و عناد رکھتے تھے،مصعب بن زبیرایک شجاع اور کریم النفس انسان تھے جو کوفہ میں مختار کے حوادثات میں تھے بقیہ خاندان زبیر کے سارے لواحقین علی علیہ السلام سے عناد رکھتے تھے جب لڑکے نے برا بھلا کہا تو اس کے باپ نے ایک جملہ کہا جو علی علیہ السلام کی طرف داری میں بہت زیادہ نہیں کہا جاسکتا مگر اس میں ایک اہم نکتہ ہے عبداللہ اپنے بیٹے سے کہتا ہے’’والله یا بنی انمّاس شیمئا قطه الّا هدمة الدّین ولا بنی الدین شیئاً فاستطاعة الدنیا هدمه ‘‘ خدا کی قسم،دین نے جس چیز کی بھی بنیاد ڈالی اور پھر اس کی دین پر بنیاد ڈالی گئی اہل دنیا نے لاکھ اسے مٹانے کی کوشش کی مگر اسے نہ مٹا سکے اس کے کہنے کا مطلب تھا علی علیہ السلام کو خراب کرنے اور ان کے چہرے کو غبارآلود کرنے کی خوامخواہ زحمت نہ کرو ۔کہ ان کے ہر کام کی بنیاد دین اور ایمان پر ہے۔پھر اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے ’’الم تر الا علی کیف تظهر بنومروان من عیبه و ذمّه والله لکانّ مآیآ خذون نباصیة رفعاً الی الّمائ ‘‘ ذرا دیکھ فرزندان مروان کس طرح ہر موقع اور مناسبت سے منبر سے علی علیہ السلام کی عیب جوئی کرتے ہیں مگر ان کی یہ عیب جوئی اور بد گوئی علی علیہ السلام کے چہرے کو مکدر کرنے کی بجائے اور روشن کرتی ہے۔یعنی لوگوں کے ذھن میں ان کے اس عمل کا برعکس اثر پڑتا ہے۔

ان کے مقابل میں بنی امیہ’’وما تری ماینضبون به موتاهم من التابین والمدیح والله لکآنّما یکشون به عن الجیف ‘‘ بنی امیہ اپنے آبائ و اجداد کی تعریفیں کرتے پھرتے ہیں مگر جس قدر وہ ان کی ستائش کرتے ہیں لوگوں کی نفرت اور بڑھتی ہے شاید یہ باتیں تقریباً حضرت علی علیہ السلام کے ۳۰ تیس سال بعد کہیں گیں،یعنی امیرالمومنین علیہ السلام اپنی تمام تر مظلومیت کے باوجود اپنی زندگی میں بھی اور تاریخ میں بھی اور لوگوں کے اذہان و افکار میں بھی کامیاب رہے ہیں۔

امیرالمو منین علیہ السلام کے مقا بلے میں تین طرح کے مکتب فکر کی صف آرائی:

مظلومیت کے ساتھ آپ کے پانچ سال سے کم مدت اقتدار میں تین قسم کے لوگوں سے آپ کا مقابلہ ہوا۔قاسطین،ناکثین،اور مارقین۔خود امیرالمومنین علیہ السلام سے یہ روایت منقول ھے کہ آپ نے فرمایا’’ امرت ان الناکثین والقاسطین والمارقین‘‘ اور یہ نام بھی ان لوگوں کے خود آپ نے ہی رکھے تھے۔

قاسطین کے معنی ستمگر اور ظالم کے ہیں،عربی قاعدے اور قانون کے لحاظ سے جب ’’قسط‘‘ مجر د استعمال ہوگا(جیسےقَسَطَ يَقسِطُ ) تو یہ ظلم کرنے کے معنی میں ہوگا اور اگر یہی مادہ ثلاثی مزید اور باب افعال میں لے جایا جائے تو پھر عدل وانصاف کے معنی دے گا جیسے’’آقَسَط يُقسِطُ ‘‘ لہذا اگر ’’قِسط‘‘ باب افعال میں لے جایا جائے تو عدل و انصاف کے معنی میں ہوگا اور اگر ثلاتی مجرد استعمال ہو جیسے (قَسَطَ يُقسِطُ ) تو پھر اس کے خلاف معنی دے گا یعنی ظلم و جور اور قاسطین یہاں پر اسی ظلم و جور کے معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی ستمگر اور ظلم کرنے والے حضرت علیہ السلام نے گویا ان کو ظالم کہہ کر پکارا ،تو پھر یہ کون لوگ تھے؟ در حقیقت یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی مصلحت کے تحت ظاہری طور پر اسلام کو قبول کر لیا تھا اور حکومت علوی کو سرے سے ہی قبول نہیں کرتے تھے،امیرالمومنین علیہ السلام نے لاکھ جتن کئے مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔اور یہ حکومت بنی امیہ اور معاویہ بن ابی سفیان کے اشاروںپر تشکیل ہوئی تھی اور یہی لوگ اس کے محور و مرکز تھے کہ جس کے سربراہ معاویہ اور اس کے بعد مروان بن حکم اور ولید بن عقبہ تھے یہ خود ایک محاذ پر اکٹھے تھے جو علی علیہ السلام سے تعاون کرنے کے لیے کسی بھی حالت میں تیار نہیں تھے۔

یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ آغاز حکومت میں مغیرہ بن شعبہ اور عبداللہ بن عباس وغیرہ نے امیرالمو منین علیہ السلام سے کہا کہ یا امیرالمومنین علیہ السلام ابھی آپ کی حکومت کے ابتدائی ایام ہیں لہذا معاویہ اور شام کی حکومت کو کچھ دنوں ان کے حال پر چھوڑ دیں اور ان کو ابھی ہاتھ نہ لگائیں ۔مگر حضرت علیہ السلام نے ان کی اس رائے کو قبول نہیں کیا۔اور ان لوگوں نے سمجھا کہ حضرت علیہ السلام کوسیاست نہیں آتی،اور بعد کے واقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ حضرت کو مشورہ دینے والے یہ لوگ خود بے خبر تھے امیرالمومنین علیہ السلام نے لاکھ معاویہ کو سمجھانے کی کوشش کی اس کو اپنی حکومت و خلافت کے بارے میں راستے پر لانے کی کوشش کی مگر یہ ساری کوششیں ناکام رہیں معاویہ ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت قبول کر لیتا اگرچہ آپ سے پہلے والے ان میں سے بعض کو برداشت کرتے آئے تھے معاویہ جب سے مسلمان ہوا تھااس دن سے علی علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لئے صفین میں آنے تک کہ ۳۰ تیس سال سے کچھ کم مدت گزاری ہوگی کہ شام اس کے طرفداروں کے قبضہ میں تھا ان لوگوں نے جگہ بنالی،حکومت میں نفوذ کر چکے تھے ایسا نہیں تھا کہ انھیں نو مسلم کی حیثیت سے روکا ٹوکا جاتا اور کسی بھی حرکت پر انھیں روک دیا جاتا نہیں بلکہ انھوں نے اپنی جگہ بنا لی تھی۔

دنیائے اسلام میں حکومت اموی کے کھِلا ئے ہوئے گل:

اس بنائ پر یہ اس گروہ سے تعلق رکھتے تھے جو حکومت علوی کو کسی قیمت پر قبول نہیں کرتے تھے وہ حکومت کو اپنے ہاتھوں میں دیکھنا چاہتے تھے کہ لوگوں نے بعد میں اس کا تجربہ بھی کر لیا اور دنیائے اسلام نے ان کی حکومت کا مزہ بھی چکھا وہی معاویہ جو علی علیہ السلام سے چپقلش اور رقابت میں بعض اصحاب کے ساتھ نرمی و ملائمیت کا ثبوت دیتا تھا بعد میں اسی حکومت نے ان کے ساتھ سخت رویہ بھی اپنایا یہاں تک کہ یزید کا زمانہ بھی آیا اور واقعہ کربلا رونما ہوا اس کے بعدمروان، عبدالمالک ،حجاج بن یوسف ثقفی اور یوسف بن عمر ثقفی جیسے خونخوارلوگ حاکم بنے جو اسی حکومت و امارت کا ایک تلخ نتیجہ تھا یعنی یہی حکومتیں جن کے جرم و خیالات تاریخ لکھنے سے لرزتی ہے اسی حکومت کا ثمرہ تھا جس کی معاویہ نے بنیاد رکھی تھی اور امیرالمومنین علیہ السلام سے اسی خلافت کے لئے یہ لوگ لڑ جھگڑ رہے تھے یہ تو ابتدا ہی سے معلوم تھا کہ ان لوگوں کا کیا منشائ ہے اور کیا چاہتے ہیں۔ان کی حکومت دنیا پرستی اور خواہشات نفس خود غرضی کے علاوہ کچھ اور نہ تھی جیسا کہ بنی امیہ کی حکومت میں لوگوں نے اچھی طرح دیکھا اور محسوس کیا،میں البتہ یہاں کوئی عقیدے کی بحث یا کلامی بحث نہیں کر رہا ہوں،عین تاریخ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور یہ کوئی شیعہ تاریخ بھی نہیں ہے بلکہ تاریخ ’’ابن اثیر‘‘ ،تاریخ ’’ ابن قتیبہ‘‘ وغیرہ ہے جس کی عین عبارتیں میں نے لکھی ہیں اور یہاں میں نے جو لکھا یہ مسلّمات تاریخ میں سے ہیں جس میں شیعہ سنی کے اختلاف کی کوئی بات نہیں ہے!

کچھ اپنے جو حکومت میں حصہ دار ہونا چاہتے تھے!!

ایک دوسرا گروہ جو امیرالمو منین علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لئے آیا تھاجسے’’ناکثین‘‘ کہتے ہیں’’ناکث‘‘ یعنی توڑ دینے والے لوگ،اور یہاں پر وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے علی علیہ السلام سے بیعت کرنے کے بعد اُسے توڑ دیایہ لوگ مسلمان تھے اور پہلے والے گروہ (قاسطین) اپنوں میں سے شمار ہوتے تھے البتہ یہ ایسے تھے جو حکومت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو اسی حد تک قبول رکھتے تھے جہاں تک خود ان کو اس ریاست میں خاطر خواہ بٹوارے کی توقع تھی یعنی ان سے رائے مشورہ کیا جائے،انہیں حکومتی سطح پر ذمہ داریاں دیں جائیں،انھیں حاکم بنایا جائے جو مال و ثروت ان کے ہاتھوں میں ہے اس کے بارے میں کوئی بازپرس نہیں ہونی چاہیے یہ نہ پوچھیے کیسے اسے حاصل کیا! وغیرہ وغیرہ ۔گذشتہ سال انھیں ایام میں نماز جمعہ کے کسی خطبہ میں ،میں نے عرض کیا کہ ان لوگوں میں سے بعض لوگوں کی موت کے بعد ،کس قدر دولت و ثروت باقی بچی جو انھوں نے زندگی میں اکٹھی کی تھی ۔یہ لوگ امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت کوکیسے قبول کرتے ؟! کیوں نہیں لیکن اسی شرط و شروط کے ساتھ کہ انھیں ہاتھ نہ لگایا جائے اسی لیے پہلے تو ان کی اکثریت نے امیرالمومنین علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی البتہ بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے بیعت نہیں کی سعد بن ابی وقاص نے ابتدائ ہی سے بیعت نہیں اسی طرح کچھ دیگر جنہوں نے ابتدائ ہی سے بیعت نہیں کی البتہ طلحہ، زبیر اور دیگر بزرگ اصحاب وغیرہ نے امیرالمومنین علیہ السلام کے ہاتھوں پر بیعت کی آپ کی خلافت کو قبول کر لیا،مگر جب تین ،چار ماہ گذر گئے اور دیکھاکہ یہ حکومت تو کسی کے آگے گھاس تک نہیں ڈالتی،اور یہ احساس ہوا کہ اس کے ساتھ تو دال نہیں گل سکتی اس لئے کہ یہ حکومت دوست اور آشنا کو نہیں پہچانتی خود کو کوئی امتیاز نہیں دیتی ،رشتہ داروں اور ناطے داروں کے لئے کسی حق کی قائل نہیں ہے،جو سابق الاسلام ہیں ان کے لئے حق کی قائل نہیں ہے(اگرچہ حاکم وقت خود سب سے پہلے اسلام لانے والا شخص ہے)حکم خدا کے نفاذ میں کسی کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا جب یہ سب دیکھا تو پھر احساس کیا نہیںجناب اس حکومت کے ساتھ تو بننامشکل ہے لہذا کٹ گئے اور جنگ جمل کا شعلہ بھڑکا دیاجو واقعاً ایک فتنہ تھا ام المومنین عائشہ تک کو اپنے ساتھ لے آئے،کتنے لوگ اس جنگ میں مارے گئے قتل ہوئے۔اگرچہ امیرالمومنین علیہ السلام اس جنگ میں کامیاب ہو گئے اور مطلع صاف ہو گیا،مگر یہ دوسرا محاذ تھا جس کے مقابل علی علیہ السلام کو مجبوراً لڑنا پڑا اور مدت خلافت کا کچھ وقت اس میں صرف کرنا پڑا۔

وہ کج فہمیاں جو حکومت شام کی طرف سے پیدا کی گئیں!!

تیسرا گروہ مارقین کا گروہ تھا(مارق)یعنی گریز کرنے والے اس کی وجہ تسمیہ اس طرح بتائی گئی ہے کہ یہ لوگ دین سے اس طرح گریزاں تھے جس طرح تیر کمان کو چھوڑ کر نکلتا ہے کس طرح سے آپ تیر کو کمان میں جوڑ کر جب تیر پھینکتے ہیں تو وہ کمان سے باہر نکل جاتا ہے یہ لوگ اسی طرح دین سے دور ہو گئے البتہ بظاہر خود کو دین سے وابستہ رکھتے تھے اور دین کا نام بھی اپنی زبان پر جاری کرتے تھے یہ وہی خوارج تھے جو اپنی کج فکری اور انحراف کی بنیاد پر کاموں کو انجام دیتے تھے علی بن ابی طالب علیہ السلام (جو مفسر قرآن اور حقیقی علم کتاب کے عالم تھے) دین کو ان سے حاصل نہیں کرتے تھے البتہ ان کا ایک گروہ اور پارٹی کی شکل میں نمودار ہونا سیاست چاہتی تھی اور اس کے لئے وہ کسی اور سے رھنمائی لیتے تھے ایک اھم نکتہ یہاںپایا جاتا ہے کہ یہ چھوٹا سا گروہ جہاں آپ کچھ کہتے فوراً کوئی نہ کوئی قرآن کی آیت پیش کر دیتے ۔نماز جماعت کے درمیان مسجد میں آتے امیر المومنین علیہ السلام امام جماعت کی حیثیت سے کوئی سورۃ پڑھ رہے ہوتے تو یہ لوگ حضرت علیہ السلام کی طرف کنایہ کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی آیت پڑھتے ،امیرالمومنین علیہ السلام کے خطبے کے درمیان کھڑے ہو جاتے اور اشارے اور کنائے میں آیت کی تلاوت کرتے۔(لا حکم الاّللہ) ان کا نعرہ تھا یعنی ہم حکومت خدا کے حامی ہیں اور آپ کی حکومت کو قبول نہیں رکھتے ہیں۔ یہ گروہ جن کا ظاہر اس طرح سے پر فریب تھا حکومت شام اور بزرگان قاسطین کے ذریعے سیاسی طور پر ہدایت پاتے تھے (یعنی عمر و عاص اور معاویہ کے ذریعہ) ان کے یہ کام انجام پائے یہ لوگ ان سے مرتبط تھے۔مختلف قرائن اس بات پر دلالت کرتے ہیں (سردار مارقین) اشعث ابن قیس ایک بدسرشت آدمی تھا کچھ ضعیف عقیدہ رکھنے والے فقیر و بیچارے لوگ اس کے پیچھے پیچھے آگئے اس بنیاد پر جس تیسرے گروہ سے امیرالمومنین علیہ السلام کا سامنا تھا وہ مارقین تھے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کو ان کے مقابلہ میں بھی کامیابی ملی اور مارقین کو ھزیمت اٹھانا پڑی،مگر یہ وہ لوگ تھے جن کے وجود سے حضرت علیہ السلام کو خطرہ لاحق تھا اور آخرکار انہی کی وجہ سے آپ کو شربت شہادت پینا پڑا۔

میں نے گذشتہ سال یہ عرض کیا تھا کہ خوارج کو پہچاننے میں آپ غلطی نہ کریں بعض حضرات نے خوارج کو خشک مقدس کا نام دیا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔بلکہ بحث مقدس مآب ہونے یا خشک مقدس،ہونے کی نہیں ہے وہ مقدس مآب جو کسی گوشے میں بیٹھا دعا و نماز میں مشغول ہے یہ خوارج کے معنی نہیں ہیں ۔خوارج ایک ایسے وجود کا نام ہے جو فسادی ہے،فتنہ انگیزی کرتا ہے پرسکون فضا کو بحرانی کرتا ہے،میدان جنگ میں لڑائی کرنے کے لئے تیار ہے ،کسی اور سے نہیں علی علیہ السلام جیسی شخصیت سے صف آرائی کرنے کے لئے تیار ہے ہاں بات صرف اتنی سی ہے کہ اس کے افعال کی بنیاد غلط ہے،اس کی جنگ غلط ہے ،اس کے اسباب وسائل غلط ہیں،اس کا مقصد غلط اور بیجا ہے،امیرالمومنین علیہ السلام ان تین گروہوں سے جنگ کر رہے تھے اور ان جیسے لوگوں سے علی علیہ السلام کا پالا پڑا تھا۔

جن غلط کاموں کی بنیاد پر اسلام کی آڑ میں علی علیہ السلام سے جنگ کی گئی:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ اوران کی حکومت میں اور دوران حکومت امیرالمومنین علیہ السلام میں جو امتیازی فرق تھا وہ یہ تھاکہ حیات مبارک بنی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صفوف معین تھیں ایک طرف ایمان تو دوسری طرف کفر،رہ گئے منافقین تو ان کے بارے میں دائماً آیات قرآن لوگوں کو متنبہ کرتی رہیں ان کی طرف انگلی اٹھتی اور مومنین کو ان کے مقابلے میں قوت حاصل ہوتی تھی یعنی نظام اسلامی حیات پیغمبر اکرم(ص) میں ساری چیزیں آشکار تھیں،تمام صفوف ایک دوسرے سے جدا تھیں،کوئی شخص کفر و طاغوت کا جانب دار تھا تو دوسرا ایمان و اسلام کا طرف دار تھا ہر چند وہاں بھی مختلف قسم کے لوگ موجود تھے مگر ہر ایک معینہ پارٹی تھی، معین صفوں میں کھڑے تھے،اور دوران امیرالمومنین علیہ السلام کی صفوں میں کوئی جدائی نہیں تھی کیونکہ وہی ’’ناکثین‘‘ لوگوں میں ایک گروہ رکھتے تھے زبیر و طلحہ جیسوں کے مقابلے میں بہت سے لوگ شک و تردید کا شکار ہو جاتے تھے ،یہی زبیر زمانہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اکابر صحابہ میں سے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیکی اور آپ کے پھوپھی زاد بھائی تھے یہاںتک کہ وفات پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی امیرالمومنین علیہ السلام کا دفاع کیا،سقیفہ پر اعتراض کیا جی ہاں،عاقبت پر نظر ہونا چاہیے،خدا ہم سب کی عاقبت بخیر کرے،بسا اوقات دنیا طلبی اور اس کے رنگ برنگے جلوئے اس طرح انسان کے قلب و جگر میں جگہ بنا لیتے ہیں، اس طرح انسان کے اندر تغیر و تبدل پیدا کر دیتا ہے کہ عوام تو عوام خواص کے بارے میں بھی لوگ شک و تردید کا شکار ہو جاتے ہیں،اس لیے حقیقتاً وہ سخت دن تھے جو لوگ امیرالمومنین علیہ السلام کے حلقہ بگوش تھے دشمنوں کے مقابل جنگ کر رہے تھے بہت با بصیرت تھے نا چیز نے بارھا یہ بات نقل کی ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:(لا یحمل هذا لعلم الا آهل البصرو الصبر ) بیشک پرچم ولایت اھل بصیرت اور صبر رکھنے والوں کے علاوہ کوئی اور اٹھانے کے قابل نہیں،لہذا پہلے مرحلے میں بصیرت درکار ہے،پھر ان مشکلات اور موانع کے ہوتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امیرالمومنین کے لئے کس قدر رکاوٹیں اور ان کی راہ میں کتنے کانٹے تھے یا پھر وہ غلط کردار جو بنام اسلام وجود میں آئے اور امیرالمومنین علیہ السلام سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے اور غلط باتیں پیش کر کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی،صدر اسلام میں بھی غلط باتیں کم نہیں تھیں مگر زمانہ امیرالمومنین علیہ السلام اور صدر اسلام میں فرق یہ تھا کہ آیت قرآن نازل ہوئی اور اس غلط فکر کو باطل قرار دے دیتی تھی، وہ مکی زندگی ہو یا مدنی زندگی آپ ذرا نظر ڈالیں سورہ بقرۃ ایک مدنی سورۃ ہے جس وقت انسان کی نظر اس پر پڑتی ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے پیغمبر اسلام کے مقابلے میں منافقین کی ہر قسم کی ہٹ دھرمی اور یہود کی ریشہ دوانیوں کے بارے میں قرآن خاموش نہیںہے بلکہ اس کی تفصیلات بیان کرتا ہے،حتی وہ جزئیات تک قرآن نقل کرتا ہے جیسے یہودی آنحضرت کے مقابلے میں ایک نفسیاتی جنگ کے عنوان سے مسلمانوںکے مابین چھیڑے ہوئے تھے اس جیسی آیات’’لا تقولوا راعنا ‘‘ کو قرآن باقاعدہ ذکر کرتا ہے ،اسی طرح سورہ اعراف۔جو ایک مکی سورہ ہے۔ایک مفصل فصل ذکر کرتا ہے جہاں خرافات سے جنگ ہے وہ بتاتا ہے کہ یہ حلال ہے یہ حرام ہے ،کہ ان لوگوں نے واقعی محرمات کے مقابلے میں چھوٹی،چھوٹی حرمت گھڑرکھی تھی۔حقیقی حرام و حلال ان کے لئے ھیچ تھے ’’قل انّما حّرم ربی الفواحش ما ظهر منها وما بطن ‘‘ قرآن وہاں ان خرافات سے جنگ کرتا ہے حلال و حرام کو گنواتا ہے وہ کہتا ہے قرآن جس کو حلال و حرام بتا رہا ہے وہ ہے حلال و حرام نہ وہ کہ جسے تم بحیرہ نے خود سے حرام قرار دے لیا ہے،قرآن نے صراحتاً اس جیسے افکار کا مقابلہ کیا؛مگر زمانہ امیرالمومنین علیہ السلام میں یہی مخالفین خود قرآن سے اپنے باطل مقاصد تک پہنچنے کے لئے ا ستفادہ کرتے تھے وہی لوگ آیات قرآنی کو سند بنا کر پیش کرتے تھے اس لیے حضرت علیہ السلام کی مشکلات کئی گنا سخت ہوگئی تھیں،امیرالمومنین علیہ السلام اپنی چند سالہ خلافت میں اس جیسی سختیوں اور مشکلات سے گذر رہے تھے۔

پیروان علی علیہ السلام کے خلاف سازش:

ان لوگوں کے مقابلے میں خود علی علیہ السلام کا محاذ ہے جو حقیقتاً ایک مستحکم اور قوی محاذ کی حیثیت رکھتا ہے جہاں عمار،مالک اشتر،عبداللہ بن عباس، محمد بن ابی بکر ،میثم تمار،اور حجر بن عدی جیسے افراد موجود ہیںکہ یہ مومن اور بابصیرت حضرات لوگوں کی ہدایت و راھنمائی میں کس قدر پُر کشش تھے،امیرالمومنین علیہ السلام کی خلافت و حکومت کا ایک درخشندہ اور حسین حصہ (البتہ یہ زیبائی اور حسن انھیں بزرگ اشخاص کی سعی و کوشش کا نتیجہ تھا کہ ہر چند انھیں اس راہ میں رنج و الم اور مصیبتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا) تاریخ کا وہ منظرہے جب طلحہ و زبیر کی صف آرائی کی وجہ سے ان حضرات نے کوفے اور بصرے کا رخ کیا جب کہ طلحہ و زبیر نے بصرے کو اپنے قبضے میں لے لیا اوراگلا قدم کوفے کی طرف بڑھا رہے تھے تاکہ اسے بھی اپنے زیر تسلط کر سکیں حضرت علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام اور ان میں بعض حضرات کو ان کے فتنے کو روکنے کے لئے روانہ فرمایا،اور ان حضرات نے حکم امام علیہ السلام کے بعد لوگوں سے جو مذاکرہ کیا،جو اجتماعات کئے،گفتگو کی،مسجد میں جو لوگوں سے خطاب کیا وہ سب تاریخ صدر اسلام کے پرمغز ،اور حسین و زیبا اور ہیجان انگیز حصوں میں سے شمار ہوتا ہے۔

اس بنا پر آپ جب تاریخ اٹھا کر دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ سب سے زیادہ دشمنان علی علیہ السلام نے جن اشخاص پر حملے کئے ہیں وہ یہی لوگ تھے مالک اشتر کے خلاف سازشوں کا جال،عمار یاسر کے خلاف سازشیں محمد بن ابی بکر کے خلاف سازشوں کے تانے بانے سب سے زیادہ تھے ،گویا وہ تمام یاران با وفا جو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی معیت میں تھے ان کے ساتھ ساتھ اپنے اخلاص و ایمان و محبت کا امتحان دے چکے تھے اور اپنی بصیرت و قوت ایمانی کوعملاً ثابت کر چکے تھے دشمنوں کی طرف سے ہر قسم کے حملات کا شکار تھے ان پر تہمتیں لگائی جا رہی تھیں انھیں قتل کرنے کے لئے سازشیں کی جا رہی تھیں اور آخر کار

ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو شہید کر دیا گیا۔

عمار یاسر،جنگ میں شہید ہوئے مگر محمد بن ابی بکر شامیوں کے حملے کا شکار ہو کر مکر و دغا سے شہید کر دئے گئے،اسی طرح مالک اشتر نے بھی اھل شام کے مکر و حیلہ سے شربت شہادت نوش فرمایا اور ان میں سے جو حضرات باقی بچے وہ بھی بعد میں شدید ترین شکنجوں اور سختیوں سے شہید کر دئے گئے یہ امیرالمومنین علیہ السلام کے دوران حکومت اور ان کی زندگی کی کیفیت و حالت تھی جسے آپ نے ملاحظہ کیا اگر آپ کی زندگی کو مجموعی حیثیت سے کوئی دیکھنا چاہے تو یوں عرض کر سکتے ہیں کہ آپ کی حکومت ایک بااقتدار و مستحکم حکومت تھی مگر ساتھ ہی ساتھ مظلومیت سے لبریز ایک کامیاب و کامران دور بھی تھا۔یعنی آپ وہ باقتدار حاکم ہیں جو اپنے زمانے میں بھی دشمنوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتے ہیں۔اورشہادت بعد بھی۔ آپ اپنی مظلومیت کی وجہ سے فراز تاریخ پر مشعل راہ بنے ہوئے ہیں ہاں یہ بھی سچ ہے آپ نے جو اس راستے میں خون دل پیا ہے اور زحمتیں اٹھائیں ہیں وہ تاریخ کے رنج و مصیبت کے اوراق پر ایک تلخ حقیقت بھی ہے۔(۱)

____________________

۱۔مورخہ ۱۲ / ۸ / ۱۳۷۷ ش ولادت علی علیہ السلام کی مناسبت سے یونیورسٹی اور کالج کے طلبہ کے ساتھ ایک دیدار میں یہ خطاب فرمایا۔

شہادت حضرت علی علیہ السلام کی مصیبت:

ماہ رمضان کی اکیسویں تاریخ ۴۰ ھجری قمری، شہادت امیرالمومنین علیہ السلام کا دن ہے ،ذرا اس غم انگیز دن کو یاد کریں،تصور تو کریں کوفہ آج ماتم کدہ بنا ہوا ہے آپ وہ گھڑی اپنی نگاہوں میں رکھیں جب سارے تہران والے سمجھ گئے کہ امام خمینی ۲ اب اس دنیا میں نہیں رہے،کیا شور و غوغا تھا،ایک کہرام مچ گیا،دل لرزنے لگے جیسے زلزلے کے جھٹکے آرہے ہوں،جب کہ امام خمینی ۲ پہلے سے کچھ علیل تھے دلوں میں پہلے سے ایک خوف و ہراس تھا،بہرحال دھڑکا لگا ہوا تھا کہ خدانخواستہ کبھی بھی کوئی ناگوار صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے،لیکن امیرالمومنین علیہ السلام ابھی کچھ ہی دیر پہلے مسجد میں لوگوں کو نماز پڑھنے کے لئے بیدار کر رہے تھے،کچھ دیر پہلے آپ کی اذان شاید پورے کوفہ میں گونج چکی تھی ابھی کل تک آپ کی ملکوتی آواز لوگوں کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی آپ کے گوہر بار کلمات حلقہ بگوش تھے اور مسجد کوفہ ابھی بھی آپ کے صوتی تاروں سے حالت مستی میں تھی۔ابھی کچھ ہی دیر پہلے تو لوگوں نے آپ کی آواز سنی تھی ،لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے تھے کہ اچانک ایک دلخراش و غمو اندوہ سے بھری آواز نے سب کے جگر پارہ پارہ کر دےئے جیسے کوئی فریاد کر رہا تھا’’الا تهدمت ارکان الهديٰ،قتل علی المرتضيٰ ‘‘ پہلے اھل کوفہ (اور پھر سارے عالم اسلام نے) کچھ اس طرح شہادت امیرالمومنین کی خبر سنی۔

اگرچہ بارہا خود امیرالمومنین علیہ السلام نے یہ خبر غم سنائی تھی اور آپ کے قریبی رشتہ داروں کو اس کا علم بھی تھا حیات پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں،جنگ خندق کے موقع پر امیرالمومنین علیہ السلام ایک چند سالہ نوجوان ہی تھے۔کہ عمر وبن عبدود سے آپ کا مقابلہ ہوا،اور یہ عرب کا نامی گرامی پہلوان ۔جس کے بارے میں لوگوں کا یہی خیال تھا کہ اب توپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کا صفایا ہو جائے گا۔وہ حضرت علیہ السلام کے مقابلہ میں آیا اور ادھر واصل جہنم ہو گیا مگر اسی جنگ میں آپ کی پیشانی مبارک زخمی ہو گئی آپ اسی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے،آنحضرت نے آپ کے بہتے ہوئے خون کو دیکھا تو دل تڑپ گیایہ جانثار و فدا کار،نوجوان،یہ عزیز و محبوب نبی اکرم(ص) جو ابھی ابھی ایک عظیم کارنامہ انجام دے کر بیٹھا ہے،حالت یہ ہے کہ پیشانی خون سے تر بتر ہے،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:۔میری جان علی علیہ السلام ،تھوڑا بیٹھو تو سہی،امیرالمومنین علیہ السلام بیٹھ گئے،آنحضرت(ص) نے ایک رومال منگوایا،شاید بنفس نفیس، پیشانی سے خون کو صاف کر رہے تھے اور دو خواتین جو مجاھدین کے زخموں کی مرہم پٹی کر رہی تھیں ان سے خطاب کر کے فرمایا کہ اچھی طرح علی علیہ السلام کے زخم کی مرہم پٹی کرو اور جس وقت آنحضرت(ص) یہ حکم کر رہے تھے اسی وقت جیسے حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ یاد آگیا ہو کہ آنکھیں اشک بار ہو گئیں،امیرالمومنین علیہ السلام کی طرف ایک نظر کی اور فرمایا میری جان علی علیہ السلام ! آج تو تمہارے زخم کی مرہم پٹی میری آنکھوںکے سامنے ہو گئی اس لیے کہ میں زندہ ہوں لیکن بتاو جب تمہاری داڑھی،تمہارے سر کے خون سے خضاب ہو گی تو پھر زخم پر مرہم لگانے کے لئے کون ہوگا؟ اس وقت میں کہاں ہونگا؟ ’’ این اکون اذا اخضیت ھذہ من ھذہ‘‘ لہذا سب کو اس دن کا انتظار تھا اور خود بارہا حضرت نے بھی اس سلسلے میں فرمایا تھا ’’ محمد بن شھاب زھری‘‘ روایت کرتے ہیں کہ ’’کان امیرالمومنین ستتیع قاتله ‘‘ یعنی آپ عروس شہادت کو گلے لگانے کے لئے بے تابانہ انتظار کر رہے تھے تا کہ یہ شقی آئے اور اپنا کام تمام کر دے گویا آپ کے لیے لمحات کند پڑ گئے تھے اور وقت کی گھڑی بمشکل کٹتی دکھائی دیتی تھی دائماً زبان پر بس یہی تھا ’’متی یکون اذا خضیت ھذِہ من ھذا‘‘ گھر کے تو فرد فردکو معلوم تھا خود حضرت اس گھڑی کا شدّت سے انتظار کر رہے تھے ،مگر یہ حادثہ اس قدر عظیم تھا کہ گھر میں ایک تہلکہ مچ گیا،حضرت کو مسجد سے اٹھا کر گھر لایا گیا،میں نے بحارالانوار میں ایک روایت دیکھی ہے کہ حضرت کبھی بے ہوش ہو جاتے تو کبھی ہوش میں آتے تھے آپ کی بیٹی ام کلثوم یہ حالت دیکھ کر گریہ و زاری کر رہی تھیں کہ ایک مرتبہ حضرت نے اپنی آنکھیں کھولیں اور فرمایا:’’ میری بیٹی ام کلثوم رو کر اپنی جان ہلکان اور میرا جگر چھلنی مت کرو ’’لا تعزینی یا ام کلثوم فانک لو ترّین ما اريٰ لم تبک ‘‘اس لیے کہ جو میں دیکھ رہا ہوں اگر تم بھی دیکھتیں تو تمہاری یہ حالت نہ ہوتی’’ ان الملائکۃ من السّموات السّبع بعضھم خلف بعض والنبیون یقولون النطلق یاعلی‘‘ فرمایا: فرشتے ساتوں آسمانوں سے ایک کے پیچھے ایک مسلسل چلے آرہے ہیں اور میرے سامنے انبیائ و فرشتگان الہیکا جم غفیر ہے جو مجھ سے خطاب کر کے کہہ رہے ہیں ’’پیارے علی آجاو ہماری طرف اس لیے کہ جو تمہاری حالت بنائی گئی ہے اس سے یہاں آجانا ہی تمہارے لئے بہتر ہے ’’فما آمامک خیرلک ممّا انت فیه ‘‘(۱)

علی ان کے لئے بددعا کر و! !

میں نے آج شہادت امیرالمومنین علیہ السلام کی مناسبت سے آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے ایک حدیث لکھی ہے کہ بعد از شہادت امیرالمومنین یا ضربت لگنے کے دوسرے دن امام حسن علیہ السلام کی زبانی نقل ہے،کہ آپ نے فرمایا:میں واقعہ بدر کی برسی سے کچھ دنوں قبل اپنے بابا جان سے محو گفتگو تھا کہ انھوں نے مجھ سے فرمایا :’’ملکتنی عینای ‘‘ نماز صبح کے بعد میری آنکھ ذرا لگ گئی تھی کہ خواب میں رسول خدا کو دیکھا تشریف لائے ہوئے ہیں’’فسخ لی رسول الله فقلت یا رسول الله ‘‘ آپ کی امت نے کیا کیا ستم میرے اوپر نہیں ڈھائے ،کس قدر دشمنی و گمراہی انھوں نے آپ کے بعد اپنائی،’’فقال لی ادع علیهم ‘‘ تو انھوں نے مجھ سے فرمایا۔ علی علیہ السلام اب مدارات(معاف کرنے اور چھوڑ دینے) کا وقت ختم ہوگیا،خدا سے تم ان کے لئے بددُعا کرو۔

امیرالمومنین نے جو بدعا کی وہ یہ ہے’’فقلت اللم ابدلنی بهم من هو خیر منهم ‘‘ میں نے بارگاہ الہیسے درخواست کی ،پروردگارا! مرے لیے ان سے بہتر لوگوں کو قرار دے اور ان کے لیے ایسے افراد کو بھیج دے جو بد ترین لوگ ہوں،بس ایک دن کے فاصلہ سے حضرت علیہ السلام نے جو یہ دعا کی تھی مستجاب ہوگئی اور انیسویں کی صبح کو دنیائے اسلام تاریخ کی عظیم شخصیت کے غم میں سوگوار ہو گئی آپ کا فرق مبارک دو پارہ ہو گیا اور فضا اس فریادِ’’تهدّ مت والله ارکان الهديٰ‘‘ (قسم بہ خدا ہدایت کی بنیادیں منھدم ہو گئیں )سے گونج اٹھی علی علیہ السلام لوگوں کے درمیان سے اٹھ گئے اور شہادت علی علیہ السلام کے بعد دنیائے اسلام نے جو جو سختیاں جھیلیں وہ سب تاریخ میں محفوظ ہیں، یہی کوفہ کن کن سختیوں

سے گذرا اسی کوفہ پر حجاج جیسا درندہ مسلط ہوا،یہی کوفہ ہے جس پر اموی سلاطین امیرالمومنین کی شہادت کے بعد،یک بعد دیگری آتے رہے اور اس پر قبضہ جمائے رکھا،یہ لوگوں کی ناشکری ہی کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے کوفہ کو ان سخت و دشوار مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔

لاحول ولا قوة الّا باالله العلی العظیم

دعائیہ کلمات:

خدایا :تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ تجھے علی بن ابی طالب علیہ السلام کی طےّب و طاہر روح کا واسطہ کہ ہم سب کو علی بن ابی طالب علیہ السلام کے شیعہ اور پیرووں میں سے قرار دے۔زندگی کے دشوار گذار امتحانوں اور نشیب و فراز میں کامیابی و کامرانی عطا کر اور بصیرت و صبر کی توفیق دے۔

خدایا: مسلمان قوم کو سارے تجربوں میں کامیابی عطافرما اور دشمنان اسلام کو مغلوب و محکوم اور ذلیل و رسوا کر دے۔

پروردگارا: قوم و ملت کی اصلاح کو فساد میں بدلنے والے پوشیدہ ہاتھوں کو قطع کر دے ۔

خدایا! قوم کے ایک ایک فرد کے دلوں کو اخوت و برادری ،محبت و اتحاد کی گرمی عطا کر اور ان صفات سے قلوب کومنور فرما دے۔

پروردگارا ! بطفیل محمد وآل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انقلاب اسلامی کے بلند و بالا اہداف کی راہ میں موجود ساری رکاوٹوں کو قوم سے دور کر دے، ہمارے معاشرے کو مکمل اسلامی معاشرہ بنا دے،اسے ایمان و اسلام میں پختہ تر کر دے ہمارے دل، ہماری جانیں ہماری روح و فکر و اخلاق کو اس طرح بنا دے جس طرح علی علیہ السلام کو پسندہے۔

میرے مالک؛ ہمیں ،ہمارے مرحومین کو اور ہمارے والدین کو بخش دے۔

پروردگارا: حضرت امام خمینی ۲ کو اپنے اولیائے خاص کے جوار میں جگہ دے شہدا راہ خدا کی پاکیزہ ارواح کو اعلی علیین میں شمار کر۔

خدایا:انقلاب کے جانثاروں اور جانبازوں کو جہاں کہیں بھی ہوں اپنے لطف و رحمت کے سائے میں جگہ دے ۔(۲)

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

____________________

۱۔خطبات نماز جمعہ،تہران ،مورخہ۔۱۸ / ۱۰/۱۳۷۷ ش

۲۔خطبات نماز جمعہ تہران ۔مورخہ ۱۲/۱۱/۷۵ش

اقدار، ولایتِ اسلامی کا سرچشمہ:

اسلام میں ولایت کاسرچشمہ ارزش اور قدریں(ثقافت و روایات) ہیں، ایسی قدریں کہ جن کا وجود خود اس منصب کو اور عام لوگوں کو آفات و خطرات سے محفوظ رکھتی ہیں مثال کے طور پر عدالت اپنے معنی خاص کے لحاظ سے (یعنی ایک ملکہ نفسانی کی حیثیت) ازجملہ ولایت کی شرائط میں شمار ہوتی ہے، اگر یہ شرط موجود ہے تو ولایت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا کیونکہ جیسے ہی حاکم سے کوئی ایسا عمل سرزد ہوا کہ جس کا اسلام سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور وہ اسلام کے اوامر و نواہی کے خلاف ہے تو خود بخود شرط عدالت اس سے ختم ہو جائیگی ، ایک چھوٹا سا ظلم، کج رفتاری جو شریعت کے خلاف ہے عدالت کو سلب کر لیتا ہے فرائض انجام دینے میں کوتاہی ، لوگوں میں عدم مساوات بھی حاکم سے سلب عدالت کے لیے کافی ہے اور جیسے ہی عدالت سلب ہوحاکم خود بخود اس منصب سے معزول ہو جاتا ہے جس کی بنیاد پر اس کے حاکم رہنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی تو پھر ذرا بتایئے دنیا کے کس نظام حکومت میں ایسا کوئی قانون پایا جاتا ہے؟

کس ’’سسٹم اور جمہوری حکومت میں اس جیسا کوئی طریقہ موجود ہے کہ جس میں، معاشرے اور انسانیت کی خیر و صلاح کے ساتھ اقدار کی ، نمائندگی ‘‘ ہوتی ہو؟

البتہ ان بتائے گئے معیارات کی خلاف ورزی تمام صورتوں میں ممکن ہے، آپ یہاں فرض کیجئے کہ سارے معیار اپنی جگہ محفوظ ہیں پھر بتائیے کہ ایسی متن و شکل و صورت اسلام کے علاوہ اور کسی نظام یا مکتب و مذھب میں دکھائی دیتی ہے ؟

مسلمانوں کے ذریعے ولایت کا تجربہ:

ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ ولایت کا تجربہ کریں، طول تاریخ میں کچھ ایسے لوگ رہے ہیں جنہوں نے اس کا تجربہ نہیں ہونے دیا، آخر یہ کون لوگ تھے؟ وہی لوگ جو نظام ولایت کو اپنی حکومت و اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے تھے جب کہ اس میں خود لوگوں کا فائدہ ہے، ایسے کون سے ممالک ہوں گے ؟جن کو یہ بات پسند نہ ہو کہ ان کا حاکم بجائے یہ کہ شہرت پرست ، شرابخور، دنیا دار اور ثروت کی پوجا کرنے والا ہو ایک متقی،پرہیز گار،حکم خدا کی رعایت کرنے والا اورنیکیوں پر عملدرآمد کرنے والا انسان ہو؟ کوئی ملت و مذہب نہیںجو ایسے حاکم کو پسند نہ کرتی ہو ۔ولایت اسلامی یعنی مومن و متقی کی حکومت ایسے انسان کی حکومت جو اپنی خواہشات سے دور نیک اور عمل صالح بجا لاتا ہے، ایسی کونسی قوم اور کونسا ملک ہے جو اپنے نفع کو نہ چاہتے ہوں اور ایسا حاکم پسند نہ کرتے ہوں کہ جس کے تصور کے ساتھ ہی اس کی تصدیق بھی خود بخود ہو جاتی ہے؟آخر وہ کون لوگ ہیں جو اس روشن اور نظام حکومت کی مخالفت کرنے پر تلے ہیں؟ یہ تو معلوم ہے کہ وہی صاحبان اقتدار جو کہ خود اپنے اندر پارسائی اور مخالفت نفس کی سکت نہیں پاتے اور اپنی خواہشات کے مقابل میں سر تسلیم خم کئے ہوئے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

موجودہ زمامداران حکومت میں سے وہ کون سے حکاّم ہیں جو اسلامی معیار کے مطابق حکومت کرنے کو پسند کرتے ہیں؟

ہم لوگوں نے ہمیشہ یہ بات دہرائی ہے اور یہ ہمارے انقلاب کا حصہ ہے کہ انقلاب اور نظام جمہوری اسلامی ، آج کی غیر اسلامی او رضد اسلامی سلطنتوں اور عالمی حکومتوں کے خلاف ایک چیلنج ہے یہی وجہ ہے کہ دنیاکی حکومتیں اس انقلاب اور اسلام،اور اس حکومت کی مخالف ہیں،کیونکہ دنیا کی آمرانہ اور جارحانہ، حکومتوں پر اس انقلاب نے سوالیہ نشان لگا دیا ہے!۔

جیسا کہ آپ حکومتوں کے مابین سیاسی ارتباطات اور لوگوں کے درمیان حکومتوں کے رابطے کی حالت و کیفیت کو خود ملاحظہ کر رہے ہیں ہمارا تمدّن اور ہماری ثقافت دنیا کی مسلط شدہ ثقافت و تمدّن سے بالکل الگ تھلگ ایک مستقل تمدّن ہے ۔

ولایت اسلامی، اقوام عالم کے لئے سعادت کا راستہ:

جو چیزیں اصل ولایت اسلام سے حاصل ہوتی ہیں، کس قدر انسانوں کے لیے مفید ہیں اور کتنی خوبصورت، پر جاذب اور پرکشش ہیں۔ دنیا کا کوئی شخص بھی ہمارے ملک کو جس زاویے سے بھی دیکھنا چاہے دیکھے وہی ساری چیزیں جو حضرت امام خمینی ۲ کی زندگی میں موجود تھیں اور وہی ساری باتیں جس سے یہ قوم دس۱۰، بارہ ۱۲ سال کی مدت میں مانوس رہی ہے، دکھائی دیں گی، یہ ہے ولایت کا معنی، میرے عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اقوام عالم ان ادیان و مذاہب کہ جس کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہے ہیں اس سے ہٹ کر سعادت و خوش بختی کی راہ تلاش کرنا چاہتے ہیں تو انھیں ولایت اسلامی کی طرف پلٹنا ہوگا۔البتہ یہ مکمل اسلامی ولایت محض ایک اسلامی معاشرے ہی میں عملی ہو سکتی ہے اس لیے کہ اسلامی قدروں کی بنیاد پر ولایت ، عدالت اسلامی ، علم اسلامی اور دین اسلامی کو ہی کہتے ہیں جو نامکمل اور ناقص انداز میں سارے معاشروں اور اقوام و ملل کے یہاں قابل تصور ہے۔ لیکن اگر کسی کو حقیقی رہبر اور حاکم بنانا چاہتے ہیں تو پھر ان لوگوں کے پیچھے بھٹکنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جن کا سرمایہ دار حضرات بحیثیت لیڈر تعارف کراتے پھرتے ہیں بلکہ کسی پارسا، متقی، اور دنیا سے بے رغبت ترین انسان کی تلاش کرنی ہوگی ،جو اقتدار اور حکومت کو اپنے ذاتی مفاد سے الگ ہو کر عوام الناس اور معاشرے کی فلاح و بہبود اورا س کی اصلاح کی خاطر چاہتا ہے یہ ہے ایک اسلامی ولایت کا خاکہ کہ جس سے دنیا کی نام نہاد جمہوری حکومتیں بے بہرہ ہیں، یہ توصرف اسلام کی برکتوں کا ثمر ہے۔

اسی لیے ابتدائے انقلاب سے یہی عنوانِ ولایت ، اور ولایت فقیہ آپس میں دو ۲ جداگانہ مفہوم ہیں ایک خود مفہوم ولایت، دوسرے یہ کہ یہ ولایت ایک فقیہ اور دین شناس اور عالم دین سے مختص ہے۔ایسے افراد کی جانب سے شدّت سے بڑھ رہی ہے جو اسلامی قدروں کی بنائ پر ایک کامل حاکمیت کو برداشت کرنے کی قوت و طاقت نہیں رکھتے تھے اگرچہ آج بھی یہی صورتحال ہے یہ تو امیرالمومنین علیہ السلام کی پاکیزہ زندگی اور ان کی مختصر سی خلافت و حکومت اور غدیر و اسلام کی برکتوں کا نتیجہ ہے جو آج الحمدللہ(ہمارے ملک کے)لوگ اس راستے کو پہچانتے ہیں۔(۱)

شجاعت حضرت علی علیہ السلام :

تقریباً چودہ سو سال ہو رہے ہیں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں بولنے والے لکھنے والے، متفکرین ،شعرائ مرثیہ سرا ، نوحہ خواں اور قصیدہ گو حضرات وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ، شیعہ ہوں یا غیر شیعہ کچھ نہ کچھ کہتے اور لکھتے

رہے ہیں اور اسی طرح تا ابد آپ کے سلسلے میں یہ لوگ لکھتے اور بولتے رہیں گے۔

مگر اس قدر آپ کے فضائل و مناقب کے باب گستردہ اور وسیع ہیں کہ آپ کے جس پہلو کو بھی بیاں کیا جائے آخر کار انسان کو احساس ہونے لگتا ہے کہ پھر بھی ابھی بھی آپ کے وسیع وجود مبارک کے سلسلہ میں بہت کچھ رہ گیا ہے...!

آج میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر میں فضائل و مناقب امیرالمومنین علیہ السلام کو نسبتاً جامع طور پر پیش کرنے کی کوشش کروں تو مجھے کہاں سے آغاز سخن کرنا ہوگا، البتہ آپ کے جوہر ملکوتی اور وجود حقیقی کہ جو آپ کا الہیوجود ہے۔میں اس کے بارے میں نہیں عرض کر رہا ہوں کہ جس تک ہم جیسے لوگوں کی رسائی بھی نہیں ہے بلکہ میری مراد آپ کے وسیع وجود کا وہ حصہ ہے کہ جس تک پہنچنا ممکن ہے اور اس کے بارے میں غور و فکر کیا جا سکتا ہے بلکہ آپ کو زندگی کے لیے نمونہ بنایا جا سکتا ہے۔پھر مجھے احساس ہو ا کہ یہ بھی، ایک خطبہ یا ایک گھنٹہ میں ممکن نہیں اس لیے کہ آپ کی شخصیت کے تہہ در تہہ پہلو ہیں،’’لا هوا سجر من ای النواحی اتیتهه ‘‘(۲) جس طرف سے بھی وارد ہوئے فضائل و مناقب کا ایک سمندر ہے اس لیے کوئی مختصر جامع تصور مخاطب کے حوالے نہیں کیا جاسکتا کہ کہا جائے: یہ ہیں امیرالمومنین علیہ السلام ۔

البتہ یہ ممکن ہے کہ آپ کے مختلف پہلوؤں کو اپنی فکر و ہمت کے مطابق پیش کر سکوں اور میں نے جب اس لحاظ سے تھوڑاسوچا تو دیکھا شاید آپ کی ذات میں ۱۰۰ سو صفات ۔کہ یہی سو ۱۰۰ کی تعبیر روایات میں بھی وارد ہوئی ہیں ۔اور سو ۱۰۰ خصوصیات کو تلاش کیا جا سکتا ہے وہ چاہے آپ کی روحانی ومعنوی خصوصیات ہوں جیسے آپ کا علم، تقوی زہد حلم و صبر کہ یہ سب کے سب انسان کے نفسانی اور معنوی خصال وجمال میں سے ہیں یا رفتار و عمل جیسے امیرالمومنین علیہ السلام بحیثیت باپ، بحیثیت شوہر یا بحیثیت ایک باشندہ، سپاہی و مجاہد ، سپہ سالار جنگ، حاکم اسلامی و بحیثیت خلیفہ وقت یا پھر لوگوں کے ساتھ تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آنا، آپ کا بعنوان ایک ماضی ، عادل اور مدبر کہ شاید اس طرح حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی سو ۱۰۰ خصوصیات کو شمار کیا جا سکتا ہے اور اگر کوئی انہیں صفات کو لے کر گویا اور رسا انداز میں ایک جامع بیان پیش کر سکے تو گویا اس نے حضرت امیرالمومنین کا ایک مکمل مگراجمالی خاکہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے، مگر ان صفات کا دائرہ اس قدر وسیع اور دامن گستردہ ہے کہ ہر ایک صفت کے لیے کم از کم ایک کتاب درکار ہے۔

مثال کے طور پر حضرت علی علیہ السلام کے ایمان کو پورا مدنظر رکھیں؟۔ البتہ میں جس خصوصیت کو یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ ایمان کے علاوہ ایک دوسری خصوصیت ہے جس کو میں بعد میں بیان کروں گا۔

بہرحال آپ ایک مومن کامل تھے یعنی ایک فکر، ایک عقیدہ اور ایک ایمان یہ آپکے وجود مبارک میں راسخ تھا ذرا آپ اب خود ہی بتائیے کہ آخر کس کے ایمان سے حضرت علیہ السلام کے ایمان کا موازنہ کیا جائے کہ عظمت ایمان امیرالمومنین علیہ السلام کا اندازہ لگایا جا سکے، خود وہ فرماتے ہین ’’لو کشف الغطائ ما ازددتُ یقینا ‘‘(۳) یعنی اگر غیب کے سارے پردے ہٹا دیے جائیں مراد ذات مقدس خداوند، فرشتگان الہی جہنم اور وہ تمام باتیں جیسے دین لانے والے بعنوان غیب بیان کر چکے ہیں۔ اور میں اپنی انہی آنکھوں سے ان سب کا مطالعہ کروں تو میرے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا!

گویا آپ کا یقین اس کے یقین کے مانند ہے کہ جس نے ان ساری چیزوں کو اپنی ظاہر ی آنکھوں سے دیکھا ہے! یہ ہے آپ کا ایمان اور اس کا رُتبہ ومقام کہ ایک عرب شاعر کہتا ہے ’’اگر ساری مخلوقات کے ایمان کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور ایمان علی علیہ السلام کوترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو پھر بھی علی علیہ السلام کے ایمان کو تولنا ممکن نہیں ہے!یا آپ کے سابق الاسلام ہونے کو ہی لے لیجئے کہ نوجوانی اور کمسنی ہی سے خدا پر ایمان لائے اورا س راستہ کو دل و جان سے قبول کر لیا اور آخر عمر تک اس پر ثابت قدم رہے ، جو ایک عظیم اور وسیع پہلووں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے کہ جسے ایک کلمہ میں نہیں بیان کیا جاسکتا!۔

ہم لوگوں نے بہت سے بزرگوں کو دیکھا ہے یا آپ کے بارے میں کتابوں میں پڑھا ہے کہ انسان جب امیر المومنین علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں تصور کرتا ہے تو خود کو ان کے مقابل حقیر و ذلیل پاتا ہے۔

جیسے کہ کوئی آسمان میں،چاند،ستارہ، زہرہ ،مشتری،زحل یا مریخ کو دیکھے مگر اسکے باوجود اندربہت نورانیت اور چمک پائی جاتی ہے وہ اپنی جگہ بہت بڑے ہیں مگر اس کے باوجود ہماری نزدیک دیکھنے والی آنکھیں،اپنی کمزوری و ضعف کی وجہ سے یہ اندازہ نہیںلگا سکتیں کہ مثلاً ستارہ ،مشتری، یا زھرہ میں کیا فرق ہے ، یا وہ ستارہ جن کو ٹیلی اسکوپ کی مدد سے دیکھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان کے اندرکئی ملین نوری سالوں کا ایک دوسرے کے درمیان فاصلہ پایا جاتا ہے، ہم نہیں دیکھ سکتے جب کہ دونوں ستاروں میں اور ہماری آنکھیں آسمان میں ان دونوں کو تاحد نظر دیکھتیں ہیں،مگر یہ کہاں اور وہ کہاں! اور اسی طرح چونکہ ہم لوگ عظمتوں سے کوسوں دور ہیں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اور دیگر تاریخ بشریت یا تاریخ اسلام کے اکابرین، بزرگان اعظم کے درمیان تاریخ بشریت یا تاریخ اسلام کہ جن کا کتابوں اور دنیائے علم یا دیگر میدانوں میں سراغ ملتا ہے صحیح طریقہ سے موازنہ کرنے پر قدرت و طاقت نہیں رکھتے حقیقتاً،ذات امیرالمومنین علیہ السلام ایک حیرت انگیز شخصیت ہے!

مشکل تویہاں پیش آتی ہے،کہ ہم اور آپ شیعہ علی ابن ابی طالب ہونے کی حیثیت سے انکے پیروکہے جاتے ہیں؛اور اگر ہم آپ کی ذات گرامی کے مختلف پہلوؤں سے واقف نہ ہوں تو پھر اپنی شناخت مجروح ہونے لگتی ہے اس لیے کہ جو دعویدار محبت نہیں ہے اس میں اور ہم میں فرق ہے اور چونکہ ہم دعویدار ہیں ہم ’’علوی‘‘ بن کر رہنا چاہتے ہیںاور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ،علوی معاشرہ کہلائے لہذا ہم شیعان علی علیہ السلام سے پہلے درجہ میں اور غیر شیعہ مسلمان دوسرے درجہ میں اس مشکل سے بہرحال روبرو ہیں اس لیے کہ سبھی علی علیہ السلام کو مانتے ہیں فقط فرق یہ ہے کہ ہم شیعہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے ایک خاص عقیدت و احترام رکھتے ہیں۔

شجاعت ایک عظیم اور تعمیری صفت:

آج میں امیرالمومنین علیہ السلام کی جس خصوصیت کو بیان کرنا چاہتا ہوں وہ ہے آپ کی شجاعت۔ خود شجاعت ایک بہت عظیم اور تعمیری صفت ہے اسی صفت کی وجہ سے انسان خطرات سے بے خوف ہو کر میدان جنگ میں کود پڑتا ہے جس کے نتیجہ میں دشمن پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔

عام لوگوں کی نگاہ میں شجاعت کے یہی ایک معنی ہیں،مگر میدان جنگ کے علاوہ دیگر اور میدانوں میں بھی یہ صفت بہت اہمیت رکھتی ہے ۔جیسے حق و باطل سے ٹکراو کے وقت خود زندگی میں معرفت کے میدان میں حقائق کی دو ٹوک توضیح کی ضرورت کے وقت اور زندگی کے دیگر میدان،جہاں انسان کو اپنے موقف کی وضاحت کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اس صفت کا ہونا لازمی ہے۔

یہاں پر شجاعت اپنا اثر دکھاتی ہے ، کہ جب ایک بہادر و شجاع انسان حق کو پہچان جاتا ہے اور پھر اس کی پیروی کرتا ہے پھر اُس راستہ مین بیجا شرم و حیا ئ اور خود غرضی وغیرہ کو آڑے نہیں آنے دیتا۔ یہ ہے حقیقی شجاع اور بہادر کہ دشمن یا مخالفت کی ظاہری قوت و طاقت اس کے لیے رکاوٹ نہیں بن پاتی اور کبھی کبھی شجاع بن کر ابھرنے والے بعض لوگوں کی شجاعت کی قلعی(خصوصاً یہ افراد اگر معاشرے میں کسی پوسٹ و منصب کے حامل ہوتے ہیں)بھی کھل جاتی ہے اور وہ شجاع ہونے کے بجائے بزدل ثابت ہوتے ہیں ، شجاعت اس جیسی صفت کا نام ہے۔

کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک مسّلم حق کسی شخص کی بزدلی کی وجہ سے ناحق بن جاتا ہے یا ایک باطل کہ جس کے بارے میں کسی کو جرآت اظہار کرنا چاےئے تھا، خود حق کا سوانگ بھر لیتا ہے اسے اخلاقی شجاعت اجتماعی جرآت اور زندگی میں ہمت و بہادری سے تعبیر کرتے ہیں کہ جو میدان جنگ کی شجاعت سے بھی ایک بلند و بالا قسم کی شجاعت ہے۔

امیرالمومنین علیہ السلام میدان جنگ کے لیے بے بدیل بہادر و شجاع تھے ہر گز کبھی بھی اپنے دشمن کو پشت نہیں دکھائی ،یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے آپ کے بارے میں جنگ خندق کے قصے مشہور ہیں کہ جہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابیاپنی جگہ پر آنے والے نمائندہ کفر سے لرز رہے تھے اور آپ آگے بڑھے ، بدر و احد فتح خیبر و خندق و حنین وغیرہ جس جنگ کو بھی آپ اٹھا کر دیکھ لیں علی علیہ السلام کی شجاعت کا سکہ چلتا ہوا نظر آتا ہے جب کہ اس میں سے بعض وہ جنگیں بھی ہیں جس میں آپ کل چوبیس ۲۴ سال یا بعض میں پچیس ۲۵ ،تیس ۳۰ سال سے زیادہ عمر نہیں رکھتے تھے گویا ایک ۲۷، ۲۸ سالہ جوان نے اپنی شجاعت و بہادری کے بل بوتے پر جنگ کے میدان میں اسلام کی کامیابی و کامرانی کیسے کیسے گل کھلائے ہیں ،یہ تو رہی میدان جنگ میں آپ کی شجاعت و بہادری کی داستان۔

مگر میں یہاں امیرالمومنین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کروں گا کہ اے عظیم و بزرگ و الاعلی علیہ السلام ، اے محبوب خدا، آپ کی زندگی اور میدان زندگی کی شجاعت میدان جنگ کی شجاعت سے کہیں ارفع و اعلیٰ دکھائی دیتی ہے،مگر کب سے؟ نوجوانی سے ۔آپ یہی سابق الاسلام ہونے کو ہی لے لیجئے ۔آپ نے ایسے پر آشوب ماحول میں دعوت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبول کیا کہ جب سبھی آپ کی دعوت کو ٹھکرا رہے تھے اور کوئی جرآت و ہمت نہیں کرتا تھا کہ اس دعوت کو قبول کرے اور دعوت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قبول کر لینا خود اپنی جگہ ایک شجاعانہ عمل ہے البتہ ایک ہی واقعہ ممکن ہے مختلف زاویوں سے دیکھا جائے اور اس واقعہ میں مختلف پہلو پائے جاتے ہوں مگر یہاں پر آپ کی شجاعت و بہادری کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے اس واقعے کو پیش کیا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے معاشرے کو ایک ایسا پیغام دے رہے ہیں جو اس معاشرے پر قابض اسباب و عوامل کے بالکل برخلاف ہے، لوگوں کی جہالت، نخوت و کدورت اشرافیت، ان کے طبقاتی اور مادی منافع و مصلحتیںیہ ساری چیزیں اس پیغام کے برخلاف اور اس کی ضد ہیں ذرا اب کوئی بتائے کہ ایک ایسے معاشرے میں ایسے پیغام کی کیا ضمانت ہے؟۔

ابتداً آپ آیۃ ’’و انذر عشیرتک الا قربین ‘‘ (شعرائ۲۱۴) پر عمل کرتے ہیں اور وقت کے یہ مستکبرین نخوت و غرور کا مکمل مظاہرہ کرتے ہوئے ہر حرف حق کا تمسخراڑاتے ہیںاسکے باوجود کہ دعوت دینے والا یہ (پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود انھیں کے جسم و تن کا ایک ٹکڑا ہے ۔جب کہ یہ وہی لوگ ہیں جو خاندان کے ہیں اور ان کے اندر رگ حمیت و عصبیت پھڑک رہی ہے جو کبھی کبھی ایک دو نہیں دس سال تک تنہا خاندانی ناطے اور رشتہ داری کی وجہ سے دشمن سے برسر پیکار رہا کرتے تھے! مگر یہاں (ذوالعشیرہ) میں جب ان کے خاندان کے ایک شخص نے اس مشعل کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بلند کیا تو ان لوگوں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں، اپنے منہ پھیر لیے۔ بے اعتنائی سے کام لیا اھانت وتحقیر کی اور صرف مذاق اڑایا!

ایسے موقع پر یہ نوجوان اٹھا اور پیغمبر سے خطاب کرکے کہتا ہے اے میرے ابن عم میں آپ پر ایمان لاتا ہوں، البتہ آپ پہلے ایمان لا چکے تھے یہاں صرف اس ایمان کا اعلان کر رہے ہیں اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ان مومنوں میں سے ہیں کہ ابتدائی چند دنوں کے علاوہ تیرہ ۱۳ سالہ مکے کی زندگی میں ہرگز آپ کا ایمان ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ جب کہ سارے مسلمان چند سالوں تک اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھے مگر یہ سب جانتے تھے کہ امیرالمومنین علی (علیہ السلام) ابتدائ ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لا چکے ہیں لہذا کسی پر بھی آپ کا ایمان پوشیدہ نہیں تھا۔

ذرا آپ اپنے ذہنوں میں اس کا صحیح طورپر تصورکریں،کہ پڑوسی توہین کر رہے ہیں،معاشرے کے بڑے بڑے اشخاص تحقیر و تذلیل کر رہے ہیں، شاعر،خطیب ، ثرو ت مند سب کے سب مذاق اڑا رہے ہیں،پست و ذلیل اور بے مایہ ہر ایک توہین آمیز القاب سے پکار رہا ہے اور ایک انسان اس طوفان حوادث کے درمیان تن تنہا ایک کوہ محکم کی طرح ثابت و استوار کھڑا ہوا ببانگ دہل یہ اعلان کر رہا ہے۔

یہ امیرالمومنین علیہ السلام کی منطق تھی۔یعنی منطق شجاعت اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ آپ کی پوری زندگی اور آپ کی حکومت (کہ جس کی مدت پانچ ۵ سال سے کم تھی)میں ہمیشہ یہی منطق کار فرما رہی۔اگر آپ نظر دوڑائیں تو یہی چیز روز اول اور یہی بیعت کے وقت بھی دکھائی دیتی ہے یہاں تک کہ آپ کی خلافت سے قبل جو بیت المال کا غلط مصرف ہو چکا تھا اس کے بارے میں فرمایا:’’والله لو وجدته تزوج به النسائ ملک به الامام ‘‘ وغیرہ ۔۔۔ بخدا وہ پیسہ جومیری خلافت سے پہلے ناحق کسی کو دیا گیا ہے چاہے وہ عورتوں کی مہر قرار دے دیا گیا ہو یا اس سے کنیزیں خریدی گئی ہوں یا اس سے شادیاں رچائی گئی ہوں ہر حالت میں اسے بھی بیت المال میں لوٹا کر رہوں گا! اور تنہا کہا ہی نہیں بلکہ سختی سے اس پر عمل کرنا شروع کیا جس کے نتیجہ میں دشمنی کا ایک سیلاب آپکے حق میں امنڈ پڑا!

کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی شجاعت ہو سکتی ہے؟ سخت اورضدی ترین افراد کے مقابل اٹھ کھڑے ہونا، ایسے لوگوں کے خلاف عدالت کی آواز اٹھانا جو معاشرے میں نام نمود رکھتے تھے ان سے مقابلہ کیا جو شام کی پٹی ہوئی دولت و ثروت کی مدد سے ہزاروں سپاہیوں کو آپ کے خلاف ورغلا سکتے تھے، مگر جب خدا کے راستے کو اچھی طرح تشخیص دے دیا تو پھر کسی کی کوئی پرواہ نہ کی، یہ ہے شجاعت علی علیہ السلام۔ کیا تو ایسے شخص سے دشمنی رکھتا ہے جس کا ایک جرآت مندانہ اقدام دنیا و مافیہا سے بلند و برتر ہے؟!

یہ وہ بزرگ امیرالمومنین علیہ السلام ہیں، یہ وہ تاریخ میں چمکنے والے علی علیہ السلام ہیں۔وہ خورشید جو صدیوں چمکتا رہا اور روز بروز درخشندہ تر ہوتا جا رہا ہے۔جہاں جہاں بھی جوہر انسانی کا مظاہرہ ضروری تھا۔یہ بزگوار وہاں وہاں موجود تھے چاہے اس جگہ کوئی اور نہ رہا ہو مگر یہ موجود تھے آپ کا ہی یہ فرمان تھا ’’لا تستوحشوا فی طریق الهديٰ لقلّة اهله ‘‘(۴) ترجمہ’’ راہ ہدایت میں ساتھیوں کی کمی سے خوف و ہراس کو اپنے دل میں جگہ بھی نہ دو‘‘ اور خود آپ بھی اسی طرح تھے یعنی جب تم نے صحیح راستے کو پا لیا ہے تو صرف اس لیے کہ تم اقلیت میں ہو، چونکہ دنیا کے سارے لوگ تم کو توجہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں چونکہ دنیا کی اکثریت تمہارے راستے کو قبول نہیں رکھتی و حشت نہ کرو اس راستے کو ترک نہ کرو بلکہ اپنے پورے وجود سمیت اس راستے پر چل پڑو۔یہاں سب سے پہلے جس نے اٹھ کر حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر لبیک کہی اور عرض کیا ’’ اے رسول خدا میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں کوئی اور نہیں یہی نوجوان تھا! ایک بیس ،پچیس سالہ جوان نے اپنے ہاتھ بڑھا دئے اور کہتا ہے میں آپ کے ہاتھ پر مو ت تک کی بیعت کرتا ہوں۔آپ کے اس شجاعانہ عمل کے بعد دوسرے مسلمانوں میں بھی جرآت پید اہوئی یکے بعد دیگرے لوگ بیعت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے’’لقد رضی الله عن المومنین اذیبا یعونک تحت الشجرة فعلم ما فی قلوبهم ۔،،(فتح ۱۸) اسے شجاعت کہتے ہیں ۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جہاں جہاں بھی انسانی جوہر کے مظاہرے کا وقت آتا تھا آپ کی ذات والاصفات سامنے ہوتی تھی ہر مشکل کام میں پیش پیش رہا کرتے تھے!

ایک دن ایک شخص عبداللہ بن عمر کے پاس آکر کہتا ہے! میں علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتا ہوں۔جیسے اس کا خیال تھا کہ یہ لوگ آپس میں خاندانی دشمن ہیں شاید وہ اپنے اس بیان سے عبداللہ بن عمر کو خوش کرنا چاہتا تھا ۔عمر کے بیٹے عبداللہ نے اس سے کہا،’’ ابغضک اللہ‘‘ خد اتم کودشمن رکھے، اصل عبارت یہ ہے ’’فقال ابغضک الله!فبغض و یحک اجلاً سابقة من سوابقه خیر من الدنیا بما فیها ‘‘(۵) ’’ میں نے خدا اور اس کے راستے کو پہچان لیا ہے اور تاحیات اس پر قائم رہوںگا‘‘ یہ ہے شجاعت اسے کہتے ہیں ہمت ۔

زندگی کے تمام مراحل میں شجاعت:

امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کے تمام مراحل میں یہی شجاعت نظر آتی ہے مکے میں یہی شجاعت تھی، مدینے اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کرتے وقت یہی شجاعت تھی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،نے مختلف مناسبتوں سے مکرراً بیعت لی اس میں سے ایک بیعت جو شاید سخت ترین بیعت تھی، حدیبیہ کے موقع پر بیعت الشجرہ۔بیعت رضوان ۔ہے جیسا کہ سارے مورخین نے لکھا ہے کہ جب معاملہ ذرا سخت ہو گیا اور حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک ہزار۱۰۰۰ سے کچھ زیادہ اصحاب جو آپ کے اطراف میں تھے سب کو جمع کیا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میں تم لوگوں سے موت پر بیعت لیتا ہوں ،کہ تم میدان جنگ سے ہرگز فرار نہیں کرو گے! اور اس قدر تم کو جنگ کرنا ہے کہ یا تو اس راہ میں قتل ہو جاو یا پھر کامیابی تمہارا نصیب ہو۔

میرا خیال ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوائے اس موقع کے کہیں اور اس قدر سخت انداز میں اصحاب سے بیعت نہیں لی ہے ظاہر ہے کہ اس مجمع میں ہر قسم کے لوگ موجود تھے، سست ایمان بلکہ منافق صفت نیز اس بیعت میں شامل تھے! جب کہ تاریخ میں نام تک مذکور ہیںوغیرہ سب کچھ ظاہری اور غیر واقعی تھا، تنہا دین کی طرف لوگوں کی تحریک و تشویش ایک عمومی اور واقعی شی تھی کہ جسے بغض و نفرت آمیز نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور اس تحریک کے مقابلے میں ذرا پھیکے رنگ و بو کے ساتھ وطن پرستی کے نام پر ایک اور احساس بھی ملک کے گوشہ و کنار میں دکھائی دے رہا تھا۔اور قوم کے لیے اس قسم کی صورتحال پیدا کر دی تھی پھر آپ نے ہی بنیادی اور اساسی اقدام کر کے قوم کی ہر چیز کو از سر نو تعمیر کیا ہے ۔

آج اس حکومت میں علم و صنعت، یونیورسٹی کی تعلیم، وغیرہ سب ارتقائ حاصل کر رہی ہیں،لوگوں کی شخصیتیں،ان کے خیالات ،رشد و نمو پا رہے ہیں،آزادی اپنے حقیقی معنی و مفہوم میں ترقی پا رہی ہے۔

اس قوم کی تحریک آہستہ آہستہ وہاں تک پہنچ رہی ہے کہ اب دنیا میں خود اس کے خریدار پیدا ہونے لگے ہیں، کل تک ملت ایران اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ لوگ اس کی طرف توجہ کرتے مگر آج اس کے برعکس ہے، آج آپ ایک اہم قوم کی حیثیت رکھتے ہیں آپ کی رائے آپ کی حمایت آپ کی ممانعٰت اہمیت رکھتی ہے آپ نے ایک مسئلے کی مخالفت کی ہے وہ ابھی تک دنیا میںکسی بھی علاقے میں یا کسی کوہ و صحرا میں بھی کسی ایرانی کو امریکا نواز دکھائی دے جائے تو لوگ اس کے سائے تک کو تیر باران کرنے کے لئے تیار ہیں۔!

اس ملک میں ایک دن قوم و ملت کی کوئی حیثیت نہیں تھی،ان کو حق رائے دہی حاصل نہیں تھا،انتخابات اور پارلیمنٹ کا اتہ پتہ بھی نہیں تھاملک میں جو کچھ بھی تھا وہ سب غیر واقعی اور بناوٹ سے زیادہ، کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا، حقیقتاًپہلوی بادشاہت کا زمانہ عجیب و غریب زمانہ تھا بالکل اسی طرح کہ جیسے کوئی بڑے سے ہال میں ایک بہت بڑا کارخانہ لگائے اور دیکھنے والا اس کی عظمت ،بزرگی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔مگر جب اس کے نزدیک سے اس کا نظارہ کرے تو اسے پتہ چلے کہ اس کی ساری چیزیں، پلاسٹک کا ایک بازیچہ ہے یا مثلاً کوئی شخص ایک بلند و بالا عمارت بنائے کہ دور سے دیکھنے والے کو وہ ایک عظیم محل لگے مگر جب وہ اس کے نزدیک جانے سے تو ایسے معلوم ہو کہ یہ تو برف سے بنا ہوا ہے ایک محل ہے۔

بالکل اسی طرح اس ملک کی ساری چیزیں غیر حقیقی تھیں، یونیورسٹی، روشن خیال طبقہ ،روزنامہ، مجلّات، پارلیمنٹ، حکومت میں رکاوٹ بننے والی ایک ایک چیز کم ہو گئی،اور اس طرح سے یہ لوگ اپنے مقصد کی راہ میں موجودہر رکاوٹ کو اپنے راستے سے ہٹاتے ہیں!

جہاں پر ہر شیعہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، بلکہ ہر اس مسلمان کو جو علی علیہ السلام پر ایمان رکھتا ہے اور دل سے معتقد ہے علی علیہ السلام کی شخصیت سے درس شجاعت لینا چاہتے ہیں کہ جن کا فرمان ہے’’ تم کو راہ ہدایت میں افراد کی کمی سے ہراساں نہیں ہونا چاہیے‘‘ دشمن کے پشت کرنے اوراس کے منہ موڑنے سے تم کو ڈرنا نہیں چاہیے احساس تنہائی نہ کرو،دشمن کے تمسخر اور اس کے مزاق اڑانے سے تمہارے ہاتھوں میں جو گوہر ہے ۔اس کے سلسلہ میں تمہارے عقیدے میں کوئی سستی نہ آنے پائے،اس لیے کہ تم لوگوں نے ایک عظیم کام انجام دیا ہے ایک ایسا خزانہ اپنی مملکت میں تم لوگوں نے کشف کر لیاہے،جو تمام ہونے والا نہیں ہے ،تم نے اسلام کی برکت سے آزادی حاصل کی استقلال حاصل کیا، اور شاطر طاقتوں کے پنجے سے رہائی حاصل کی ہے۔

ایک دن وہ بھی تھا جب یہ مملکت و سلطنت، یہ یونیورسٹی، یہ دار الحکومت(تہران) یہ فوجی مراکز،یہ فوجی اورحفاظتی دستے،یہ حکومتی ادارے،اوپر سے لے کر نیچے تک سب کے سب امریکاکے ہاتھوں میں تھے مگر آج انقلاب اسلامی کی برکت کے نتیجہ میں مملکت سے دور رہ کر شراب سے دوری کا اور حدود الہیوغیرہ کے نفاذکا مذاق اڑاتے ہیں! کبھی کبھی یہی تحقیر و تذلیل یہی مذاق اور توہین اچھے اچھوں کے لئے شک و تردید میں پڑ جانے کا سبب بن جاتا ہے اور ان کی استقامت جواب دے جاتی ہے اور وہ اپنی ہم فکر جماعت کوہی ہرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں وہ کہتے ہیں آخر ہم کیا کریں اب سب کچھ برداشت سے باہر ہے ، اور اس وقت یہ عالمی طاقتیں اپنی اس کامیابی پر چھپ چھپ کر قھقھہ مار کر ہنستی ہیں اس لئے کہ انہیں اپنے راستے میں موجود ایک رکاوٹ کے ختم کرنے کی خوشی ہے! ان کی روش یہی ہے کہ وہ ایک انقلابی تحریک یا اقدام کو اس قدر ہلکا بنا کر پیش کریں،اس کے خلاف پروپیگنڈہ کریں کہ آخر کار اس کے اصلی چہرے دل برداشتہ ہو کر اسے واپس لے لیں! یا وہ خود اس کا مذاق اڑانے لگیں! عالمی میدان سیاست میں کچھ آپ کو ایسے چہرہ نظر آجائیں گے جو کل تک دشمن کے مقابل ڈٹے ہوئے تھے اور آج خود اپنے اعمال و رفتار کامذاق اڑاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو دشمن کی ہنسی اور خوشحالی کا سبب ہے، یہ اپنے اعمال و رفتار کا مذاق صرف اسلئے اُ ڑاتے تھے کہ یہ صاحب بھی اپنی جماعت میں شامل ہوسکیں البتہ وہ عالمی طاقتیں اس کی تشویش بھی کرتی ہیں اور کہتی ہیں ’’ سبحان اللہ‘‘ آپ کس قدر متمدن ہیں اور یہ صاحب بھی خوشحال ہوتے ہیں مگر یہ جو کچھ بھی پیش آیا ہے حقیقتاً ان سیاسی بازیگروں کی راہ ہے کہ جس نظام حکومت کو چاہتے ہیں بروئے کار لے آتے ہیں اور جس نظام کو چاہتے ہیں ختم کر دیتے ہیں ! آج یہی مکارو دغا باز و فریب کار عالمی طاقتیں پوری طرح ،جمہوری اسلامی کی طرف متوجہ ہیں اور ان کی ایک سیاست یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح سے جمہوری اسلامی اور ایرانی عوام کا مذاق اڑائیں،انہیں شک و شبہ میں ڈالیں ! اور انہیں یہ پڑھائیں کہ تم لوگ جو بین الاقوامی عرفیات کے خلاف ہو کر اپنی سیاست و حکومت چلا رہے ہو غلطی کر رہے ہو۔تم غلط کر رہے ہو جو عالمی سیاست اور امریکی بین الاقوامی پالیسیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں ،وہ مسئلہ فلسطین ہو یا پھر مسئلہ بوسنیا، یا دیگر اسلامی مسائل وغیرہ اور جو تم دوسروں کی آواز سے آواز نہیں ملاتے غلط کر رہے ہو تم کو تو دنیا والوں کے ساتھ ہونا چاہیے ۔

آج کی سیاست یہ ہے اور آج کی ہی نہیں بلکہ ابتدائے انقلاب سے ان کی سیاست یہی تھی کہ ایرانی قوم کے ذمہ داران مملکت اور ہر وہ شخص جو ان کا واقعی مخالف ہے اس کامذاق اڑائیں اسے زیادہ سے زیادہ شک و تردید میں ڈالیں اور جس کام سے بھی انہیں زیادہ نقصان پہنچنے کا خطرہ محسوس ہو اس کا زیادہ سے زیادہ مذاق اڑائیں،عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا مضحکہ،یونیورسٹی کا مذاق ،عبادت نماز جماعت کا مضحکہ لیکن اقتدار تسلط یہی ہے۔

آج ہم اور آپ اس شجاعت علوی کے ضرورتمند ہیں، ایرانی عوام اس کی ضرورت مند ہے ،اس مملکت میں جو کوئی بھی کسی عہدے یا منصب پر فائز ہے اسے اس صفت کی زیادہ ضرورت ہے، مسلمانوں کے بیت المال تک جس کی بھی رسائی ہے وہ اس شجاعت و ہمت کا زیادہ ضرورت مند ہے آج مجموعاً ،ایرانی قوم، اور فرداً فرداً ہر شخص اس شجاعت کا محتاج ہے اور جس شخص پر لوگ زیادہ بھروسہ رکھتے ہیںاور وہ لوگوں کا اطمینان مورداعتماد و اطمینان ہے دوسروں کی نسبت اس شجاعت علوی اور جرآت و ہمت کا زیادہ سے زیادہ محتاج وضرورت مند ہے۔

حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت سے درس عمل:

آج کی دنیا ابولہب و ابوجہل جیسے ہٹ دھرم جاہلوں کی نہیں ہے بلکہ آج دنیا کے کفّار ،معاندین،دنیا کے چالاک ترین و ہوشیارترین لوگ ہیں ایسے ہیں جو دنیا کے بڑے بڑے سیاسی مسائل اور پروپگنڈہ مشینری کو اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے گردش کر رہے ہیں اور دیگر قوموں اور ملتوں کی تقدیر بدلتے ہیں غیر ملکوں میں اپنی پسند سے حکومتیں بناتے ہیں یا بنی بنائی حکومتوں کو گرا دیتے ہیں، دنیا کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہیں اس سے جس طرح چاہتے ہیں نفع اٹھاتے ہیں ،جنگ و جدال چھیڑتے ہیں پھر جنگ ختم کرتے ہیں!امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیںوالله لو ان الحسن والحسین فعلا مثل الذی فعلت ما کانت لهما عندی هواده لاظفرا منی با راده حتی آخذا الحق منهما و از یسح الباطل ان مظلمتهما ‘‘(۶) قسم بخدا یہی فعل جو تم نے انجام دیا ہے اگر میرے بیٹے حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام انجام دیتے تو اس سلسلے میں میرے لئے کوئی عذرقابل قبول نہیں ہوتا! اور ان کے نفع میں کوئی عمل سر زد نہ ہوتا یہاں تک کہ ان سے بھی حق کو لے لیتا!۔

حضرت علی علیہ السلام کا اقتدار نفس:

امیرالمومنین علیہ السلام کو بخوبی معلوم ہے کہ حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام معصوم ہیں مگر پھر بھی فرماتے ہیں کہ اگر ان دونوں میں سے کسی سے بھی یہ عمل ۔کہ ہر گز سرزد نہیں ہو سکتا ۔سر زد ہوجائے ،تو میں اس سلسلے میں ان پر بھی رحم نہ کرتا،یہ بھی شجاعت ہے جو اگرچہ ایک زاویہ سے عدل بھی ہے اور قانون کی بالادستی اور اس کا احترام بھی ہے، اس کے مختلف عنوانات ہو سکتے ہیں،مگر جس زاویے سے میں نے اسے عرض کیا ہے وہ شجاعت بھی ہے بلکہ یہ ایک ایسا منصب ہے جس تک ہر کس و ناکس کی رسائی نہیں البتہ تم کوشش کرو کہ اس راہ میں قدم اٹھاو اور پارسائی و خدا کی اطاعت کے ذریعے اپنے امام کی اتباع میں نزدیک سے نزدیک تر ہو، عبداللہ بن عباس حضرت کے سچے چاہنے والے ہیں اور دیگر اصحاب کی نسبت آپ کے قریبی،محب،مخلص اور ہمراز بھی ہیں مگرزندگی میں ایک خطا آپ سے ہو گئی جس کی بنائ پر امیرالمومنین علیہ السلام نے آپ کو ایک خط لکھا جس میں آپ کی اس خطا کو خیانت سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے اپنے اس عمل سے خیانت کی ہے! والی اسلامی کی حیثیت سے ان کے خیال میں کچھ دولت ان کا حق بنتی تھی اس لیے انہوں نے اپنا حق سمجھ کر اُسے لے لیا تھا اور راہی مکہ ہو گئے تھے۔ اور امیرالمومنین علیہ السلام نے اسی لغزش کی بنیاد پر اس قدر سخت خط لکھا کہ اسے پڑھ کر جسم کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں !۔

آخر یہ کیسا انسان ہے! یہ کیسا عظیم المرتبت شخص ہے ! کہ عبداللہ بن عباس جو کہ آپ کے چچا زاد بھائی بھی ہیں ان سے خطاب کر کے فرماتےهیں’’لا فانک ان لم تفعل ثم امکننی الله منک لا عذرن اليٰ الله فیک و لا فربنّک بسیفی الذی ماضربت به احداً الا دخل النار ‘‘(۷) حضرت امام سجاد علیہ السلام سے خود آپ کی عبادت اور حضرت علی علیہ السلام کی عبادت کے سلسلے میں گفتگو چھڑ گئی،تو امام سجادعلیہ السلام آب دیدہ ہو گئے اور فرمایا! میں کہاں؟ اور جناب امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات والا صفات کہاں؟خود امام سجادعلیہ السلام کہ جنہیں زین العابدین کہا جاتا ہے، نے فرمایا،کیا یہ ممکن ہے کہ مثل علی علیہ السلام کوئی بننے کا دعوی کر سکے؟! آج تک دنیا کے بڑے بڑوں میں بھی یہ ہمت نہ ہو سکی کہ ان کے مثل ہونے کا دعویٰ کر سکیں نہ ہی ایسی کوئی فکر کرتا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی غلطی کسی کے ذہن میں آج تک خطور ہوئی کہ وہ امیرالمومنین علیہ السلام کے مثل ہونے یا ان کی طرح کام کر سکنے کا دعویٰ کرے! البتہ جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ ،راستہ اور سمت سفر،وہی ہو جو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا راستہ تھا جیسا کہ گذشتہ گفتگو کے دوران اس پر روشنی ڈالی جا چکی ہے ۔

خود آنجناب نے عثمان بن حنیف کو ایک خط کے ذریعے اپنی سادہ زیستی کا ذکر کرتے ہوئے کہ’’الا و ان اما مکم قداکتفيٰ من دنیاه بطمریه ‘‘(۸) میں اس طرح زندگی بسر کرتا ہوں فرمایا؛ ’’الا وانکم لا تقدرون علی ذلک ‘‘؛(۹) یعنی میں ضرور اس طرح زندگی گزار رہا ہوں مگر تم خیال نہ کرنا کہ میری طرح تم بھی ہو سکتے ہو۔

آپ کی شخصیت مجروح کرنے کے لئے حدیثیں گڑھی گئیں یا آپ کے افکار و خیالات کے برخلاف فکریں پیش کی گئیں مگر ان تمام زہر افشانیوں اور دشمنیوں کے باوجود سالھا سال گذر جانے کے بعد بھی آخر کار ان اتہمات و خرافات کے دبیز پردوں کے پیچھے سے خود کو پھر سے پہچنوایا اور اپنی شخصیت کو منوانے میں کامیاب ہو گئے،یہ تھی آپ کی شخصیت اور آپ کے اندر موجود کشش۔

گلِ گلاب:

علی علیہ السلام کی طرح کاکوئی بھی گوہر ہو جو ایک پھول کی طرح چمن انسانیت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خوشبو دیتا ہے اور خار و کانٹے خس و خاشاک اور بدبو دار چیزیں اسے آلودہ نہ کر سکیں تو اس کی قیمت میں کبھی بھی کمی نہ آئے گی اگر آپ ہیرے کا کوئی ٹکڑا کیچڑ میں بھی ڈالدیں تو وہ بہرحال ہیرا ہی رہے گا اور جب بھی مٹی ہٹے گی تو وہ خود چمک کر اپنا وجود ظاہر کرے گا،تو پھر گوہر بننا ہو تو اس طرح بنیے۔ ہر مسلمان فرد پر لازم ہے کہ وہ ذات علی علیہ السلام کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا کر نظروں کے سامنے رکھے اور اسی سمت زندگی کے سفر کا آغاز کرے۔کوئی بھی دعویٰ نہیں کر سکا ہے کہ ہم علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرح ہیں،خواہ مخواہ ان سے اور ان سے نہ کہا جائے کہ آخر آپ علی علیہ السلام کی طرح کیوں نہیں عمل کرتے آپ اس پر غور تو کریں ان باتوں کا کہہ دینا تو آسان ہے، مگر اس پر عمل کرنابہت مشکل ہے،میں یہاں پر اس حقیقت کا خود اعتراف کر رہا ہوں کہ ایک دن میں علی علیہ السلام کو نمونہ زندگی کے طور پر پیش کرتا تھا، مگر اس کی تہہ تک نہیں اترا تھا مگر آج جب مملکت اسلامی کی باگ ڈور ہم جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے تو پھر ان باتوں کا صحیح معنوں میں ادراک و احساس ہوتا ہے اور اب معلوم ہوتا ہے کہ علی علیہ السلام واقعاً کتنے بزرگ و عالی مرتبت تھے!

____________________

۱۔حدیث ولایت،ج۷،ص۔۱۸۹

۲۔بحارالانوار۔ج ۷،ص ۱۱

۳۔بحارالانوار، ج ۴،ص ۱۵۳

۴۔نہج البلاغہ۔خطبہ ۲۰۱

۵۔بحارالانوار ج ۲۲،ص۲۲۷

۶۔نہج البلاغہ ۔نامہ ۴۱

۷۔نہج البلاغہ۔نامہ ۴۱

۸۔نہج البلاغہ ،نامہ ۴۵،

۹۔نہج البلاغہ۔نامہ ۴۵


8

9

10

11