علی علیہ السلام کی زندگی کے مختلف دور:
مختلف اسلامی شخصیتوں کے مابین تنہا یہ امیرالمومنین علیہ السلام کی ہی خصوصیت ہے جو اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں مختلف حالات و شرائط میں رہ کر اپنے بلند و عالی اہداف کے تحت جہاں کہیں بھی رہے اپنے پورے وجود کو صرف کر دیتے ہیں
آپ امیرالمومنین علیہ السلام کو مکہ میں ایک سولہ ۱۶ سالہ یا انیس۱۹ سالہ جوان کی حیثیت سے فرض کریں یا مدینہ میں وارد ہوتے وقت کہ (جب بھی آپ تقریباً ایک ۲۰ بیس سالہ جوان ہی ہیں) فرض کریں و ملاحظہ کریں گے کہ حقیقتا ایک جوان ہونے کی حیثیت سے آپ ہر زمانے کے جوانوں کے لئے بہترین نمونہ ہیں،جوانی کی تمام خواہشات اور دینوی لذتوں سے دور ہیں ۔یہاں تک کہ وہ زیبائی و خوبصورتی جو اس دوران ایک جوان کی نظر میں اہمیت رکھتی ہے اس سے بھی لا تعلق ہیں اور بعثت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو عالی و بلند مرتبہ مقصد تھا وہی آپکا بھی ہدف ہے اس راستے میں خود کو فدا کر دینے پر تلے ہوئے ہیں آپکی نگاہ میں دنیا کی بقیہ چیزیں دوسرے درجہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔یہ ایک جوان کے لئے نہایت اہمیت رکھتی ہے کہ وہ دنیا کی لذتوں ، شیرینیوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا اور اپنی ساری خوشیاں راہ خدا میں قربان کر دیتا ہے کیا اس سے بھی بلند کوئی شئی ہو سکتی ہے ؟
اس زمانے کونظر میں رکھیں جبکہ آپ ایک پختہ کار کی حیثیت سے اپنے معاشرے کا ایک فرد شمار ہوتے ہیں اور آپکا اچھا خاصاسن ہے شاید ہزاروں لوگوں نے خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے آپکی تعریف و تمجید سنی ہوگی میرا خیال ہے کہ کوئی بھی مسلمان محدّث ایسا نہیں ہوگا جس نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی امیرالمومنین علیہ السلام کے علاوہ کسی اور کی اسقدر مدح و ستائش سنی ہو البتہ دیگر صحابہ کے بھی فضائل نقل ہوئے ہیں مگر کمیت و کیفیت کے لحاظ سے جو فضائل و مناقب امیرالمومنین علیہ السلام کے لئے تمام فرق اسلامی کے محدثین نے آنحضرت سے نقل کئے ہیں میرے خیال میںکسی اور کے بارے میں نقل نہیں کئے ہیں۔مگر اسکے باوجود نہ تو آپ اس تعریف کی وجہ سے مغرور ہوتے ہیں نہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں لغزش کا شکار ہوتے ہیں جبکہ ایسی جگہ ایک انسان کے لئے مغرور ہونا یا خطا کرنا فطری امر ہے۔
تمام صحابہ نے آپکے بارے میں سینکڑوں تعریفیں سنیں گویا امتحان دینے کا وقت آن پہنچا اور خلافت کا مسئلہ پیش آیا جو مسلمہ حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ علی علیہ السلام مدعی خلافت تھے (فی الحال مجھے حق و باطل یا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت وغیرہ سے یہاں کچھ لینا دینا نہیں )لیکن جب آپ نے دیکھا کہ خلافت سے کنارہ کشی ہی اسلامی مصالح کے لئے ضروری ہے تو خود کو میدان خلافت سے دور کر لیا یعنی امیرالمومنین علیہ السلام حق بجانب ہوتے ہوئے بھی امت اسلامی کی مصلحت کے پیش نظر وقتی طوراپنی ساری خوبیوں پر اپنے سارے محامد و محاسن کے باوجود خلافت سے کنارہ کش ہوگئے اور فرمایا’’ جب میں نے دیکھا حالات بدتر ہو گئے ہیں اور دین اسلام کو خطرہ لاحق ہے تومیں خلافت سے کنارہ کش ہو گیا‘‘
ایک مخلص سیاستداں، ایک عظیم انسان جو کہ اپنی خواہشات کے مطابق نہیں چاہتا کہ عمل کرے، اسکے لئے اس سے بڑھ کر واضح ،گویا اور حیرت انگیز انداز میں اپنے نفس پر کنڑول اور کسطرح ہو سکتا ہے!؟ یہی شخصیت ایک دن حاکم اسلام ہو جاتی ہے لوگ چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اسے ریاست اسلامی کے لئے انتخاب کرتے ہیں دوست ،دشمن،رقیب،حبیب یا آپکے ہاتھوں پر بیعت کرتا ہے یا پھر اپنی مخالفت کا اظہار کرتا ہے (پانچ ، چھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے آپکے ہاتھ پر بیعت نہیں کی اور اعلان کیا کہ ہم آپکی مخالفت بھی نہیں کریں گے) بقیہ سب نے آپکے دست مبارک پر بیعت کی اور آپ ساری دنیائے اسلام کے حاکم و مولا ہو گئے، آپ تصور کر سکتے ہیں اس زمانے کی اسلامی دنیا کے کیا معنی ہیں؟ یعنی ہندوستان کی سرحدوں سے دریائے بحر احمر تک جس میں عراق ،مصر ،شام، فلسطین اور ایران سب کے سب شامل ہیں شاید اس زمانے میں آباد دنیا کا آدھا حصہ آپکی زیر سلطنت ہے۔
اس وقت آپکی سادہ زیستی ،زہد و پارسائی جسکے بارے میں آپ سنتے رہتے ہیں وہ اسی دوران حکومت سے تعلق رکھتی ہے یعنی یہ زندگی کی لذتیں،عیش و عشرت، اور آسایش و آرام جو کسی بھی بڑے سے بڑے انسان کو اپنی طرف کھینچ کر فرائض سے دور کر دیتا ہے اسمیں سے کوئی بھی شئی لمحہ بھر کے لئے بھی امیرالمومنین علیہ السلام کے دل میں شک و تردید نہیں پیدا کر پائی ، نہ ہی اُنکے راستے سے انہیں ہٹا پاتی ہے۔
انہوں نے ثابت کر دیا کہ سارے گمراہی کے اسباب و وسائل ایک طرف اور انکی قوت ارادی اور اقتدار نفس ایک طرف۔عظمت و بزرگی اسے کہتے ہیں، یہ ہیں وہ چیزیں جو نسلوںکو انسانی اجتماع اور پوری تاریخ بشریت کو اپنے مقابل خضوع و خشوع پر مجبور کرتی ہیں،اگر کوئی انصاف پسندی سے کام لے تو وہ اس جیسی شخصیت کے مدمقابل سر کشی نہیں کر سکتابلکہ سب کے قلوب خودبخود اسکے سامنے جھک جائیں گے۔
اگر کسی کے یہاں امیرالمومنین علیہ السلام کے اندر موجود صفات کا ایک کر شمہ بھی پایا جاتا ہو تو وہ اپنے نفس اور خواہشات پر غلبہ حاصل کر سکتا ہے۔حضرت امام خمینی ۲ ہمارے زمانے کی عظیم شخصیت جسے آپ نے دیکھا ہے دنیا کی بڑی اور عظیم شخصیتیں انکے سامنے اپنی پستی کا احساس کرتی تھیں۔انکے نمائندگان چونکہ آپکے نام اور آپکی یاد لیکر جاتے تھے دنیا میں کہیں بھی گئے دنیا کے بااقتدار سرکش حاکموں کو اپنے سامنے خضوع پر مجبور کر دیتے تھے اسلئے کہ حضرت امام خمینی ۲ نے امیرالمومنین علیہ السلام کی خوبصورت اور زیباصفات والی ذات کا کچھ گوشہ اپنی زندگی میں عملی کر لیا تھا۔
البتہ ان تجلیات کے بارے میں جو کچھ ہم یہاں بیان کر رہے ہیں اپنی جگہ عظیم ہیں مگر امیرالمومنین علیہ السلام کی لا متناہی ذات کے مد مقابل ایک قطرے کی طرح بہت کم اورحقیر ہے لیکن خود آپکی شخصیت بہت عظیم ہے۔
امیرالمومنین علیہ السلام کی بزرگی و عظمت:
میرے عزیزو:امیرالمومنین علیہ السلام کو اسطرح نہیں پہچانا جا سکتا کہ وہ کیا تھے انکی بلند و بالا شخصیت ان ناقص معیاروں کی بنیاد پرآخر کس طرح سمجھی جا سکتی ہے؟ایک دن ایک صحابی امام سجاد علیہ السلام کی عبادتوں،ریاضتوں اور زہدو پارسائی کو دیکھ کر حیرت کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ آپ علیہ السلام اتنی زحمت برداشت نہ کریں! تھوڑا سا اپنے اوپر رحم کریں ، امام سجادعلیہ السلام گریہ فرماتے ہوئے اس سے خطاب کرکے کہتے ہیں تم مجھے نہ دیکھو، ذرا امیرالمومنین علیہ السلام سے میری ان عبادتوں کا موازنہ کرو تو تم کو معلوم ہوگا، کہ کہاں وہ ؟ اور کہاں میں؟ ذرا دیکھیں تو سہی یہ امام سجادعلیہ السلام ہیں خود آپکی شخصیت ایسی ہے کہ آپ تک لوگوں کی رسائی ناممکن ہے ،میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ کوئی عمل میں آپ تک نہیں پہنچ سکتا ،نہیں بلکہ وہم و خیال تک آپکی عظمت و بزرگی کو چھونے سے عاجز ہیں۔آپکی ذات اس سورج کی مانند ہے کہ جسکی کرنوں کو ہم دور سے چمکتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں مگر خود خورشید تک نہیں پہنچ سکتے کچھ اسطرح سے امام سجادعلیہ السلام کی شخصیت ہے مگر آپ جب حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شخصیت کو دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی بچہ کسی بزرگ کو دیکھ رہا ہے یہ ہیں امیرالمومنین علیہ السلام اوریہ ہے انکی عظمت و بزرگی۔
حضرت کے ہمرزم ہوئے:
میرے عزیزو! ایک نکتہ جسکا رابط ہم سب سے ہے ہم اسکی طرف توجہ کریں:آپکی پیروی اور اتباع تنہا زبان سے تو ہو نہیں سکتی ۔مثلاً آپ میدان جنگ میں اتر کر رٹ لگائیں کہ فلاں ہمارے سپہ سالار ہیں میں ان سے محبت کرتا ہوں انہیں پسند کرتا ہوں اور وہی سپہ سالار آپکو فوجی ٹریننگ کے لئے بلائے اور آپ اپنی جگہ سے نہ ہلیں وہ آپکو دشمن پر حملہ کے لئے حکم دے مگر آپ اس سے رخ موڑ لیں.جبکہ انسان اپنے دشمن اور جسے وہ نا پسند کرتا ہے اس سے یہ رویہ اختیار کرتا ہے، امیرالمومنین علیہ السلام ہمارے مولا ہیں امام ہیں آقا و سردار ہیں ہم شیعوں کو انکی محبت پر ناز ہے اگر ہم لوگوں کے سامنے کوئی علی علیہ السلام کو انکی عظمت و بزرگی سے گھٹاتا ہے تو ہم اس سے بھی بغض و نفرت کرتے ہیں اسے ناپسند کرتے ہیں تو پھر انکی ولایت کا کچھ نہ کچھ اثر ہماری عملی زندگی میں بھی نظر آنا چاہئیے۔
میں آپ سے یہ نہیں کہتا کہ آپ امیرالمومنین علیہ السلام جیسے بنیئے خود حضرت امام سجادعلیہ السلام بھی اس بات کے قائل ہیں کہ وہ امیرالمومنین علیہ السلام کی طرح عمل نہیں کرسکتے خود حضرت علیہ السلام نے عثمان بن حنیف سے فرمایا: ’’ الا و انکم لا تعدون علی ذالک‘‘تم میری طرح نہیں ہو سکتے یہ تو بالکل واضح ہے لیکن تم سے یہ توقع ضرور ہے کہ ہمارے ہمرزم بنو ہمارے پائے رکاب میں قدم رکھو اور ہمارے پیچھے پیچھے چلو اگر آپ امیرالمومنین علیہ السلام کی آواز سے آواز ملانا چاہتے ہیں تو ہمیں انکے زمانہ حکومت کی دو۲خصوصیتوں کو اپنانا پڑیگا۔کہ جسکا تعلق ہمارے اور آپکے زمانے سے ہے اور ہم سے اور آپ سے اسکا ربط پایا جاتا ہے۔اور وہ ہے نمبر۱۔اجتماعی عدالت و مساوات، نمبر۲۔دنیا کی نسبت بے توجہی اور اس سے دل نہ لگانا۔
امیرالمومنین علیہ السلام کی اجتماعی عدالت:
عزیزان گرامی: ان دونوں خصوصیتوں کو پرچم کی طرح اپنے ہاتھوں میں لیکر معاشرے میں عملی کرنے کی کوشش کریں عدالت اجتماعی کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کا قانون یکساں طور پر معاشرے کے ایک ایک فرد کو زیر نظر رکھے کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ کرے، انسان ایک دوسرے سے مختلف قسم کا رابطہ رکھتا ہے جسکی بنائ پرآپس کے برتاؤ میں بھی فرق آجاتا ہے اسلئے کہ کوئی کسی کا رشتہ دار ہے تو کوئی دوست ہے کسی سے جان پہچان ہے تو کسی سے نہیں ہے البتہ جو شخص بھی کسی بھی مقام یا منصب کا مالک ہے ، یہاں میری مراد یہ ہے کہ قانون اسکے ہاتھ میں ہے اس لئے کسی تفریق کے بغیر، سب کو ایک نگاہ سے دیکھنا ضروری ہے۔ خصوصاً ایک اسلامی نظام حکومت میں ہر ایک فرد کو یہ اطیمنان اور احساس ہونا چا ہیے کہ اسکے ساتھ قانون کی نگاہ نہیں بدلے گی، جو جسقدر زحمت ومشقت اٹھائے گا اسی لحاظ سے بہرہ مند بھی ہو گا، اگرچہ کچھ لوگ کاہل اور سست اور کام چور ہوتے ہیں جو کام چوری کرتے ہیں وہ اپنے نفس پر خود ظلم کرتے ہیں، کام کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں لہذا ان کا دوسرے لوگوں سے مسئلہ ہی یہاں جدا ہے یہاں عدالت اجتماعی کے معنی یہ ہیں کہ بغیر دلیل کسی کو کسی پر ترجیح حاصل نہ ہو سب کے لئے ایک قانون ہو اور امیرالمومنین علیہ السلام نے یہ کام اپنی حکومت میں انجام دیا اور اسی کو عدالت اجتماعی کہتے ہیں۔
علی علیہ السلام سے دشمنی کی بنیاد یہی تھی، وہ نجاشی شاعر، جس نے امیرالمومنین علیہ السلام کے لئے اشعار کہے تھے، آپکے دشمنوں سے ٹکر لی تھی آپ کا محب تھا، دشمنوں کے مقابلے پر بھی علی علیہ السلام کا دامن نہیں چھوڑا ، لیکن جب وہی حرمت الہیکو توڑتا ہے، ماہ مبارک رمضان میں شراب پیتا ہے تو لوگوں کے اصرار کے باوجود،آپ فرماتے ہیں سب کچھ اپنی جگہ درست، اسکی محبت قابل قدر اسکی دوستی اپنے مقام پر لیکن چونکہ اس نے حرمت الہیکو توڑا ہے اسلئے اس پر حد خدا جاری ہوگی وہ بھی ناراض ہو کر آپ کو چھوڑ کر معاویہ کی طرف چلا گیا یعنی امیرالمومنین علیہ السلام حدود خداوندی کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں کہ گویااُنکی نگاہ میں اہمیت صرف اور صرف قوانینِ الہیہے اور خدا سے ہٹ کر کوئی شئی ارزش و اہمیت نہیں رکھتی۔
یہی امیرالمومنین علیہ السلام ہیں کہ جب ایک شخص چوری کرتاہے اور وہ آپکے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو فرماتے ہیں تم کو قرآن کتنا یاد ہے اس نے سنا دیا تو فرمایا! ’’قد وھمیت یدک لسورۃ البقرۃ،، تمہارے عمل کی بنیاد پر تو تمہارا ہاتھ کاٹ دینا چاہئے تھا مگر اس سورہ مبارکہ بقرہ کی وجہ سے تیرے ہاتھ کو بخش دیا جاو پھر ایسی حرکت نہ کرنا۔
یہ کوئی بیجا امتیاز نہیں ہے بلکہ قرآن کی وجہ سے آپ نے اسکے ساتھ یہ برتاو کیا۔امیرالمومنین علیہ السلام اقتدار اسلامی اور اصول وقوانین دینی کے سامنے کسی کا کوئی لحاظ نہیں کرتے تھے وہاں محب ہونے کے باوجود اسکے فسق و فجور کی بنیاد پر حدجاری کرتے ہیں اور یہاں قرآن کی بنیاد پر اس چور کو معاف کر دیتے ہیں یہ ہیں امیرالمومنین علیہ السلام جو صد در صد الہیمعیار کی بنیاد پر عمل کرتے ہیں یہ ہے آپکی عدالت، جس کسی نے بھی یہ کہا ہو مجھے یقینی طور پر معلوم نہیں یہ کس کا قول ہے ’’ قتل فی محراب عبادتہ لشدّۃ عدلہ‘‘علی علیہ السلام محراب عبادت میں اپنی انصاف پسندی کی شدّت کی وجہ سے قتل کر دئے گئے ۔
مگر کہنے والے نے درست کہا ہے یعنی عدالت امیرالمومنین علیہ السلام اثر ورسوخ رکھنے والوںاور صاحبان نفوذ کے لئے ناقابل برداشت تھی یہاں تک کہ اسی وجہ سے وہ لوگ انکے قتل کے درپے ہوگئے۔
اب ذرا ملاحظہ کریں آج کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جناب آپ کس طرح اس اسلامی معاشرے میں اسی عدالت کو برقرار کر سکتے ہیں جسکی وجہ سے علی آخر تک حکومت نہیں کر سکے! میں کہتا ہوں جس قدر اسے عملی کرنا ممکن ہے ہمارا فرض ہے کہ اس اندازہ کے مطابق معاشرہ میں اسے عملی کریں ہم کب کہتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ با لکل عدل امیرالمومنین علیہ السلام کی طرح ہم عدل جاری کرنا چاہتے ہیں۔ہمارا تو یہ کہنا ہے کہ جس قدر بھی ایک مومن اس پر عمل کر سکتا ہے ، انجام دے کم از کم جتنا ہو سکتا ہے اسے تو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔
اگر یہی عدالت فرھنگ و تمدن (کلچر)کی صورت اختیار کرے اور عوام اُس کو سمجھ جائیں تولوگ خود بخود اسکو برداشت کریں گے۔ عدالت امیرالمومنین علیہ السلام سے عوام الناس خوشحال تھے محض صاحبان نفوذ کو برُا لگتا تھا وہ اس سے ناراض تھے اور امیرالمومنین علیہ السلام کو ان لوگوں نے یہ خود شکست دی اور معرکہ صفین پیش آیا ۔کہ جس میں حضرت علیہ السلام کو خون دل پینا پڑا اور اسکے بعد آپکو شہید کر دیا گیا ان سب کی وجہ یہ تھی کہ عام لوگ اسوقت مسائل کو صحیح طور پر سمجھنے سے عاجز تھے اور اسکا صحیح تجزئیہ انکے بس سے باہر تھا۔
صاحبان نفوذ ومطلب پرست عام لوگوں کے ذہنوں پر غلبہ رکھتے تھے انہیں سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتے تھے اسلئے ،درک و فھم پیدا کرنا چاہئیے لوگوں کی سیاسی بصیرت میں اضافہ کرنا چاہیے تاکہ ایک دن عدالت اجتماعی کو پورے معاشرے میں جاری کیا جاسکے ۔
پارسائی و زہد امیرالمومنین علیہ السلام:
ایک دوسرا مسئلہ امیرالمومنین علیہ السلام کا زھد ہے جو نہج البلاغہ کا ایک نمایاں پہلو ہے ، جس وقت امیرالمومنین علیہ السلام نے اس زھد و پارسائی کو لوگوں کے سامنے بیان کیا تھا اسے اسلامی معاشرے کی بنیاد ی بیماری کے علاج کے طور پر پیش فرمایا تھا اور میں نے بارھا یہ بات کہی ہے کہ آج ہمیں انہیں مسائل پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے، امیرالمومنین علیہ السلام جب یہ فرمارہے تھے کہ دنیا کی لذتوں اور اسکے زرق برق میں مبتلا نہ ہوں توکچھ لوگ ایسے بھی تھے جنکے ہاتھ وہاں تک پہنچے ہوئے تھے آپکا خطاب ان سے تھا ’’ان لوگوں سے نہیں جو فقیر تھے کہ جنکی اسوقت اکثریت تھی‘‘امیر المومنین علیہ السلام ان سے خطاب کر رہے تھے جو فتوحات اسلامی کی وجہ سے دولت و ثروت کی بہتات اور مملکت اسلامی کے پھیلنے کے نتیجہ میں دنیا اور اسکی لذات میں غرق ہوتے جا رہے تھے۔آج جب ہم بھی اس صفت کے بارے میں دو۲ باتیں کہنا چاہتے ہیں تو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جناب آپ کیسی باتیں کرتے ہیں لوگوں کی اکثریت ایسی ہے جنکے پاس وہ مادی اسباب ووسائل نہیں ہیں، جی ہاں ہمارا خطاب بھی ان سے نہیں ہے بلکہ ان لوگوں سے ہے جو ان اسباب و وسائل کے مالک ہیں ان لوگوں کے لئے ہے جو صاحب ثروت و دولت ہیں۔
جو لوگ حرام طریقوں سے دنیا کی لذتوں کو حاصل کر سکتے ہیں ہمارا خطاب بھی ان سے ہے البتہ ان لوگوں کے علاوہ وہ حضرات بھی توجہ رکھیں جو حلال راستوں سے دنیا کی شیرینیاں اکٹھا کر سکتے ہیں ان سے بھی ہماری یہی گذارش ہے کہ وہ زہد اختیار کریں اور لذائذ دنیا میں غوطہ زن نہ ہو جائیں۔
نظام اسلامی کے عہدیداران امام علی علیہ السلام کے اصلی مخاطبین:
زہد و پارسائی کا بلند و عالی مرتبہ اور واجب ترین مرحلہ یہ ہے کہ انسان حرام چیزوں سے پرہیز کرے اور اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دے ،لیکن جہاں حرام چیزوں سے پرہیز کرنا زہد کا بلند درجہ ہے، وہیں بقدر ضرورت حلال چیزوں سے استفادہ کرنا اور زہد و پارسائی برتنا بھی بلند درجہ کی حیثیت رکھتا ہے اگرچہ ممکن ہے بہت ہی تھوڑے لوگ زہد حلال کے مخاطب قرار پائیں وہی لوگ کہ جن کے ہاتھ وہاں تک پہنچ سکتے ہیں ، جو لذّت و نعمات خداوندی سے حلال طریقہ سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں اور اس زمانہ میں ہر ایک اپنی پوسٹ کے لحاظ سے زہد امیرالمومنین علیہ السلام کا مخاطب ہے لہذا انہیں زہد امیرالمومنین علیہ السلام یاد رکھنا چاہئے جنکے پاس کوئی حکومتی عہدہ و منصب ہے انکی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے اور جن لوگوں کے پاس کوئی حکومتی عہدہ و ذمہ داری نہیں ہے اُن پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی میں زہد اپنائیں البتہ حکومت کی ذمہ داریوںکے مقابلے میں انکی ذمہ داری اتنی نہیں ہے جتنی کہ مسؤلین کی ذمہ داری بنتی ہے۔
انہیں چاہیے کہ اسے ایک فرھنگ (کلچر)کی حیثیت سے زندگی کا جز بنائیں اسطرح نظام اسلامی پر منڈلاتے ہوئے خطرات کم سے کم ہو جائیں گے اور عدالت و زہد کی بنائ پر نظام اسلامی قوی سے قوی تر ہو جائیگا پھر اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔جن لوگوں کو دنیا کی لذتیں، خواہشات نفس، فریب و دھوکہ نہ دے سکیں اور انکے ارادے میں تزلزل ایجاد نہ کر سکیں وہی لوگ تمام دشمنوں کے مقابلے میںڈٹ سکتے ہیں وہی خطرے کے وقت اسلامی حکومت کو نجات دلا سکتے ہیں ، آج جو حکومت اسلامی پر ہر چار جانب سے یلغار ہو رہی ہے ایسے نازک موقع پر ہماری سب سے زیادہ ذمہ داری یہ بنتی ہے خصوصاً جوانوں ذمہ داران حکومت بالاخص علمائ حضرات وقوم و ملت کے مختلف افراد، اور وہ لوگ جنہیں لوگ اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں ان سب کی ذمہ داری ہے کہ ان دو ۲ صفات کو (عدالت و زہد) کو اپنائیں امیرالمومنین علیہ السلام نے تاریخ میں یہ دو مشعلیں روشن کیں ہیں تاکہ پوری تاریخ روشن رہے اگر اس سے کوئی شخص منہ موڑے گا تو خود اسکا نقصان ہوگا لیکن علی علیہ السلام کا نام ان کی یا د اور انکے دئیے ہوئے سبق، تاریخ کچھ نہیں بھلا سکتی یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ کے دامن میں محفوظ رہیں گے۔
علی علیہ السلام کی تہہ در تہہ شخصیت درس جاویدانی ہے:
امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات گرامی، مختلف زمانوں میں مختلف حیثیت سے تمام کاروان بشر کے لئے ایک نہ بھلایا جانے والا سبق اور درس جاودانگی ہے چاہے وہ انکا انفرادی عمل ہو یا محراب عبادت میں انکی بندگی، انکی مناجات ہو یا انکا زہدوہ یاد خدا میں غرق ہوں یا اپنے نفس اور شیطان کے مقابل انکا جہاد ہر میدان میں انکی زندگی ہمیں درس عمل سکھاتی ہے آج بھی عالم کی فضامیں انکا یہ جملہ گونج رہا ہے ’’دنیا دنیا غرّی غیری
‘‘
(ای دنیا کی لذتوں، ای جاذب نظر پرفریب ماّدی زرق و برق دنیا قوت و طاقت رکھنے والے انسانوں کو اپنے دام پرخطر میں پھانسنے والی جا علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور کو فریب دے علی علیہ السلام تیرے دھوکہ میںآنے والا نہیں )اس بنیاد پر ہر بیدار ذہن امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کے ایک ایک لمحات میں خدا سے ارتباط اور معنویت و روحانیت کے لئے نابھلایا جانے والا درس حاصل کرتا ہے۔
____________________