حکومت علوی کی خصوصیات:
امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کی زندگی پر توجہ کرنا حقیقتاً اس مہینہ کی اہم برکتوں میں سے ایک بہت با اہمیت برکت ہے لوگوں کو کبھی یہ توفیق حاصل نہیں ہو پاتی کہ مختلف زاویہ سے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی زندگی کا جائزہ لے سکیں اور انکی زندگی کا مطالعہ کر سکیں، چاہے وہ کوئی عام آدمی ہو یا پھر خطبائ واعظین ہو، خصوصاً اسلامی مملکت کے ذمہ داران تو آج سب سے زیادہ آپکو پہچانتے اور آپکی معرفت کے نیازمند ہیں اور یہ موقع دیگر مہینوں میں بہت کم ہی نصیب ہوتا ہے، جس کی جو بھی ذمہ داری ہو۔اوپر سے نیچے تک تمام عہد داران مملکت اسلامی آج ہر زاویہ اور ہر پہلو سے علی علیہ السلام کی زندگی اور انکی شخصیت کو پہچاننے کیلئے سراپا محتاج ہیں۔
مختلف روایات کے مطابق آنجناب کی عمر شریف،۵۸ سال سے لیکر،۶۰ ۶۳ اور ۶۵ سال تک ذکر ہوئی ہے لیکن ۶۳ سال مشہور ہے (یعنی وہی نبی گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا سن و سال) مگر اکثر و بیشتر اسلامی معارف جو آپکی زبان مبارک سے صادر ہوئے ہیں انکا تعلق آپکی چار سال اور نو ۹ماہ یا دس۱۰ ماہ کی ظاہری خلافت میں سے ہے کہ یہ خود اپنی جگہ ایک حیرت و استعجاب کا مقام ہے ، جسقدر انسان باریک بینی سے کام لیتا ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی دیومالائی داستان پیش ہو رہی ہو۔آپکی زندگی کے مختلف پہلو کہ جس کا تعلق آپ کی پانچ سالہ ظاہری حکومت سے ہے اس کی تصویر کشی ایک عام ذہن کے لئے نا ممکن ہے ۔
ذرا آپ طول تاریخ میں نظر اٹھا کر دیکھیں ایک حکومت اور حاکم کا کیا کردار رہا ہے اور لوگوں کا اس کے بارے میں کیا تصور ہے؟ ایک حاکم کے لیے مطلق العنانی، شمشیر بدست ہونا ،من مانی کرنا اور جو بھی دنیا کی لذّات ہیں اس سے استفادہ کرنا اسکا ایک حق سمجھا جاتا رہا ہے مصلحت اندیش، سیاست بازی، اور غیر واقع عمل کا لوگ اس سے انتظار رکھتے ہیں اور اگر وہ اسکے برخلاف کوئی عمل انجام دے تو لوگوں کو تعجب ہوتا رہے کیونکہ حکومتیں اسی طرح سے عمل کرتی رہی ہیں اور اسکے بارے میں ایک غلط تصور قائم ہو چکا ہے۔مگر امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومت وہ حکومت ہے جو ان ساری باتوں کو یکسر غلط ثابت کر دیتی ہے اور حکومت کے ان سارے باطل تصورات کو منسوخ کر دیتی ہے ۔
البتہ مکرر آپ نے یہ اظہار فرمایا ہے کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا ادنیٰ سا حصہ ہے، امیرالمومنین علیہ السلام کے زہد کے بارے میں وہ راوی یوں کہتا ہے ، کہ میں نے دیکھا وہ بزرگوار خشک روٹی اپنے گھٹنوں سے توڑ کر تناول فرما رہے ہیں، عرض کیا یا امیرالمومنین علیہ السلام ! آپ اپنے آپ کو کیوں اسقدر زحمت میں ڈالتے ہیں؟تو آپ نے بحالت گریہ ارشاد فرمایا: میرے والد قربان جائیں اس ذات والی صفات پر جس نے ساری عمر دوران حکومت اپنے شکم کو گہیوں کی روٹی سے پر نہیں کیا اور مراد ذات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی۔یہ ہے امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی اور نبی گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے آپ کی شاگردی کی منزل بہرصورت آپ کی حکومت کے سلسلہ سے جو کچھ بھی تاریخ میں ہے وہ ایک حیرت انگیز شئی ہے۔اور اگر ان چند سالوں میں آپ کی زندگی کچھ زیادہ نمایاں ہوئی ہے تو اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ دشمنوں نے آپ کے بارے میں جان بوجھ کر عیب جوئی اور تہمت و الزام تراشی سے کام لیا ہے اور انھیں عیوب والزامات میں سے آپکے فضائل نکل کر سامنے آگئے ہیں اور بہت سے حقائق آشکار ہوئے ہیں۔میں آج چند جملے ان بزّرگوار کی حیات طیبہ کے بارے میں بحیثیت ایک حاکم کے پیش کرنا چاہتا ہوں، البتہ سب سے پہلے مجھے خود آپ کی زندگی سے سبق لینا چاہیے اور اسکے بعد سارے عہدے داران مملکت کو اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے اور دیگر حضرات اور ایک عام انسان کو بھی بہت کچھ سیکھنے اور سبق لینے کی ضرورت ہے۔
آپکی حکومت کی پہلی خصوصیت:
اگر ہم امیرالمومنین علیہ السلام کی حکومتی زندگی کی خصوصیات ’’یعنی علی علیہ السلام بحیثیت ایک حاکم‘‘ پیش نظر رکھیں تو چند اہم خصوصیتیں آپ کی اس زندگی میں نظر آتی ہیں۔
نمبر ۱۔حق کی راہ میں اٹل ہو جانا۔ اگر اس خصوصیت کو سب سے اہم نہ بھی مانیں پھر بھی آپکی حیات میں کم از کم ایک نمایاں خصوصیت ضرور ہے آپکی حکومت مین پہلی چیز جو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ حق کو پہچاننے اور اسکے تعین کے بعد، کوئی چیز بھی حق پر عمل کرنے سے آپ کے راستے میںرکاوٹ نہیں بن سکتی ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے آپ کے بارے میں فرمایا تھا:’’ردخشن فی ذات الله
‘‘
یعنی آپ کی ذات ایسی ہے کہ راہ حق میں آپ کے لئے کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی،جس جگہ حق کا تعین ہو گیا کسی کی پرواہ کئے بغیر اسپر عمل کرتے ہیں ۔
آپ امیرالمومنین علیہ السلام کی ساری زندگی اٹھا کے دیکھیں گے تویہی ایک صفت ہر جگہ کارفرما دیکھائی دیگی،حق کے لئے اٹل ہو جانا، مسند خلافت پر بیٹھتے ہی آپکی یہی صفت دکھائی دیگی یعنی جب حکومت بنام خدا، برائے خدا اور احکام الہیجاری کرنے کے لئے قائم ہوئی تو پھر اس راستے میں کسی مصلحت و مفاد کے بغیر کام کرنا ہے یہ وہ منطق اور اصول ہے کہ جس کو امیرالمومنین علیہ السلام اپنی حکومت میں حتی الامکان رائج کرتے ہیں۔ آپ اگر دشمنان علی بن ابی طالب علیہ السلام کو ملاحظہ کریں تو معلوم ہوگا آپ کی یہ صلاحیت اور حق پر اٹل ہو جانا کس قدراہم ہے۔
حضرت کا تین طرح کے لوگوں سے مقابلہ:
امیرالمومنین علیہ السلام نے تین قسم کے لوگوں سے مقابلے کئے نمبر۱ ۔مارقین یعنی( دین سے نکل جانے والے)نمبر۲۔ ناکثین یعنی (بیعت کر کے توڑ دینے والے)۳۔قاسطین یعنی(ظلم کرنے والے) اسمیں سے ایک گروہ اہل شام سے تھا یعنی اصحاب معاویہ و عمر بن عاص وغیرہ کہ جس میں کچھ تو وہ تھے جو نسبتاً مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک طولانی مدت بھی گذار چکے تھے اور کچھ جدید الاسلام تھے، نو مسلم تھے یعنی زمانہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو۲ یا تین۳ سال گذار ے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کازیادہ حصہ نہیں دیکھا بلکہ زیادہ تر آپ کے بعد زندگی کے حصے گذارے، اور کچھ ایسے بھی تھے جو گروہ شام ہی میں رہ کر بھی اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شمار ہونے لگے تھے اور یہ سیاسی، مالی، اور امکانات و وسائل کے اعتبار سے کچھ قوی اور با حیثیت لوگ تھے اور حضرت کے مد مقابل میں تھے لیکن حضرت نے اس سب کے باوجود ان کا کوئی پاس و لحاظ نہیں کیا تھا۔
البتہ ایسا بھی نہیں تھا کہ حضرت تنہا حاکم شام کو ہی فاسق سمجھتے تھے اور اس سے جنگ کرنے کے لئے تیار تھے نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ بہت سے ایسے حکام اور بھی تھے جو ایمان کے لحاظ سے ضعیف تھے اور آپ کی حکومت سے قبل کہیں نہ کہیں کے حاکم تھے امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانے میں بھی وہ اپنے منصب پر باقی رہے جیسے زیادبن ربیہ ظاھراً یہ شخص امیرالمومنین علیہ السلام کی حاکمیت سے قبل اسی فارس اور کرمان میں حاکم تھا اور حضرت کے زمانے میں بھی حاکم رہا تھا اور جب امام حسن علیہ السلام حاکم وقت ہوئے اسوقت بھی یہ اپنی جگہ برقرار رہا اور بعد میں جا کر معاویہ سے مل گیا لہذا آپ کے لیے اصل مسئلہ ظلم و جور تھا اور مسلمانوں کی روشِ زندگی میں تبدیلی ایجاد کرنا تھا اور اسلامی خدوخال کو معین کر کے نئی اور بھلی شکل دینے کا مسئلہ تھا اسلئے امیرالمومنین علیہ السلام ظلم و ستم کے مقابل ڈٹ گئے اور آپ اس راستے میں کسی بھی مقام ومنصب والے سے متاثر نہیں ہوئے آپ کے سامنے اس سے بھی بڑی ایک مشکل، اصحاب جمل تھے کہ جس میں ایک فرد مسلمانوں کے نزدیک محترم المقام ام المومنین عائشہ بھی شامل ہیں اور قدیم مسلمانوں میں سے پیغمبر کے دو بزرگ صحابہ طلحہ و زبیر جو پہلے امیرالمومنین علیہ السلام کے دوستوں میںشمار ہوتے تھے۔اور ان میں سے بعض رشتہ دار بھی تھے جیسے زبیر جو امیرالمومنین علیہ السلام اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا پھوپھی زاد بھائی بھی ہے آپ کے مدمقابل جنگ کیلئے کھڑے تھے اور دوسری جانب امیرالمومنین علیہ السلام تھے مگر یہاں پر بھی آپ نے اپنے شرعی فر یضے پر عمل کیا اور اسی راہ میں اقدام فرمایا۔ جب میں اپنے زمانے میں اسی میزان کو سامنے رکھ کر امام خمینی ۲ کی زندگی کا مطالعہ کرتا ہوں تو پھر مجھے آپکی زندگی بھی انھیں بزرگوں کی زندگی کا عکس نظر آتی ہے، طریقہ وہی روش وہی کسی کو نظر میں رکھے بغیر عمل کرنا امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کے مطابق آپ کی بھی زندگی تھی۔ علی علیہ السلام کوئی سنگدل انسان نہیں تھے ان سے زیادہ رحم دل، ان سے زیادہ دقیق القلب، گریہ و زاری کرنے والا مگر انکے لئے جو معاشرے میں پسماندہ تھے جن کا حق مارا گیا تھا)اور کون ہو سکتا ہے۔ مگر جہاں پرحق کوچیلنج کیا جارہا ہو، امیرالمومنین علیہ السلام وہاں اٹل ہو جاتے ہیں جس کی تاریخ میں نظیر تلاش کرنا ناممکن ہے۔
مسئلہ ولایت میں گمراہ گروہ:
حقیقتاً امیرالمومنین علیہ السلام ایک بڑی مشکل سے دوچار تھے اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جنگ میں دشمن کے مقابلے میں صف آرائیاں احزاب گروہ وغیرہ بالکل واضح تھے ایک طرف کفر تو دوسری طرف ایمان، ایک طرف مشرک تو دوسری طرف توحید والے تھے ،شرک بالکل واضح تھا اگر کچھ منافقین تھے بھی تو وہ جانے پہچانے تھے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماپنے عصر کے منافقین کو پہچانتے تھے ، جو منافقین مدینہ میں تھے، جو مدینہ سے بھاگ کر مکہ چلے گئے ’’فمالکم فی المنافقین فئیتن واللہ ارکسھم بما کسبوا۔ نسائ۸۸‘‘ مختلف رنگ و روپ کے منافقین حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے زمانے میں بھی تھے لیکن ایک چھوٹی سی بھی غلطی کرتے تو اسکے بارے میں آیت اتر کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیتی تھی اور حقائق کھل کر سامنے آجاتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمبیان کرتے اور لوگ غلطی کو سمجھ جاتے تھے مگر امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانے میں ایک بڑی مشکل ایسے لوگوں کا مد مقابل آجانا ہے جو علی الظاہر مسلمان ہیں، اسلامی بھیس میں ہیں مگر دین کے بنیادی ترین مسئلے میں گمراہی کا شکار ہیں یعنی خود یہی لوگ جو امیرالمومنین علیہ السلام کے مد مقابل جنگ و جدال کے لئے آتے ہیں
ولایت دین کا بنیادی ترین مسئلہ:
دین کا بنیادی ترین مسئلہ،ولایت ہے کیونکہ ولایت توحید کی نشانی اور اسی کا پرتو ہے ، ولایت یعنی حکومت؛ اسلامی معاشرے میں حکومت ؛اصل میں خدا کا حق ہے جسے وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کرتا ہے اور پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے ولّی مومنین تک پہنچاتا ہے اور وہ لوگ اس نکتے میں شک و تردید کا شکار تھے ان کے افکار میں انحراف و کجی پائی جاتی تھی، اگرچہ وہ لوگ لمبے لمبے سجدے بھی کرتے تھے! مگر حقیقت کونہیں سمجھتے تھے وہی لوگ جو ولایت امیرالمومنین علیہ السلام کو نہیں سمجھ رہے تھے جنگ صفین میں امیرالمومنین علیہ السلام سے روگرداں ہو کر خراسان اور دیگر علاقوں میں بحیثیت نگہبان و پاسبان وطن ہو گئے اور جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لی یہ لوگ پوری پوری رات سجدے کیا کرتے یا کئی گھنٹے سجدہ ریز رہتے تھے مگر اسکا فائدہ کیا تھا جب وہ امیرالمومنین علیہ السلام(حاکم وقت) کو نہ پہچان سکے، صحیح راہ یعنی توحید و ولایت کا راستہ‘‘ نہ سمجھے اور سب کچھ چھوڑ کر سجد وںمیں لگ جائے! ایسے سجدہ کی کیا قیمت ہوگی۔
ولایت کے باب میں جو روایات وارد ہوئیں ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے، ایسے لوگ جو ساری عمر عبادتیں کرتے ہیں مگر ولی خدا کو نہیں پہچانتے اور اپنی زندگی اس کی انگلی کے اشارے پر نہیں چلاتے اس کے فرمان کے مطابق نہیں عمل کرتے تو تمام عبادتیںبے فائدہ اور بے ارزش ہے! ’’ولم یعرف ولایة ولّی الله فیوالیه ویکون جمیع اعماله برلالله
‘‘
آخر یہ کیسی عبادت ہے؟ امیرالمومنین علیہ السلام کا کچھ اس طرح کے لوگوں سے سروکار تھا۔
جس ہاتھ کو کاٹ دینا چاہیے:
امیرا لمومنین علیہ السلام نے یہ عجیب و غریب جملہ ارشاد فرمایاہے ’’ایهاالنّاس ان احقّ الناس بهذا الآمراقواهم علیه واعلمهم بامرالله فیه فان شغب شاغب استعب
‘‘
جس راستے کو میں نے اختیار کیا ہے اگر کوئی شخص اس سے منحرف ہو جائے اورفتنہ و فساد برپا کرے تو میں پہلے اسے نصیحت کروں گا تا کہ اپنے اس عمل سے رک جائے،لیکن اگر اس نے اس سے انکار کیا تو پھر اس کا فیصلہ میری تلوار کریگی ’’فان ابی قوتل
‘‘
اسی خطبہ میں فرماتے ہیں ،’’الا وانی اقاتل رجلین
‘‘
آگاہ ہو جاو میں دو قسم کے لوگوں سے جنگ کروںگا ایک تو وہ شخص جو کسی چیز جیسے (مال) حق،مقام وغیرہ،کا حق دار نہیں ہے مگر اسے ہتھیانا چاہتا ہے دوسرے وہ آدمی کہ جو اپنی ذمہ داری کو نبھانے میں ٹال مٹول کرتا ہے مثلاً جہاد کرنا اس کا فرض ہے مگر وہ نہیں کرتا یا کسی کو کسی کا حق یا مال ادا کرنا چاہیے اور وہ ادا نہیں کرتا یا مسلمانوں کے ایسے اجتماعی امور جن میں شریک ہونا چاہیے اور وہ شریک نہیں ہوتا ’’اجلاّ ادعی مالیس له و اخر منع الذی علیه
‘‘
آپ پوری قوت سے فرما رہے تھے ’’وقد فتح یاب الحرب بینکم و بین اهل القبلة ولا یحمل هذا العلم الا اهل البصر و البصّر
‘‘
یاد رکھو تمہارے اور اھل قبلہ کے درمیان جنگ کا دروازہ کھل گیا ہے۔
پیغمبر(ص) کے زمانے میں کب یہ موقع پیش آیا تھا؟
عمار یاسر جنگ صفین میں ایک دفعہ متوجہ ہوئے کہ جیسے لشکر میں کچھ سرگوشیاں ہو رہی ہے جلدی سے خود کو وہاں پہنچا یا معلوم ہواکہ کسی نے آکر سپاہیوں کے درمیان یہ وسوسہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کن لوگوں کے مقابلہ کے لئے آئے ہو جو نماز پڑھتے ہیں ان کے مقابلے کے لیے، جو خود مسلمانوںہیں ان سے لڑنے آئے ہو! آپ کو یاد ہوگاایران عراق جنگ میں بھی ایسے نمونے دیکھنے کو ملے ہیں جس وقت ہمارے سپاہی دشمن پر حملہ کر کے انہیں اسیر کرکے لاتے تھے تو ان کی جیبوں میں تسبیح و سجدہ گاہ ہوتی تھی، اس لئے کہ یہ لوگ شیعہ تھے کہ جن کو طاغوت صدام نے اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا تھا۔ یاد رکھیں یہ مسلمان اس وقت تک قیمت رکھتا ہے جب تک خدا کے ارادہ سے اسی کے راستہ میں قدم اٹھائے اگر یہی ہاتھ شیطان کے ارادے سے آگے بڑھے تو پھر اسے کاٹ دینا چاہیے ، اور امیرالمومنین علیہ السلام نے اس چیز کو بہت اچھی طرح تشخیص دیا تھا۔
عمار یاسر فتنوں کو برملہ کرنے والے:
بہرحال معرکہ صفین میں کئی بار سپاہیوں کے درمیان یہی وسوسہ پیدا کیا گیا اور میرے خیال میں عمار یاسر تھے جنہوں نے ہر بار اس فتنہ کو برملہ کیا اورعمار کہہ رہے تھے اسطرح خطاب کر کے کہ جھگڑا نہ کرو بلکہ حقیقت کو پہچانو یہ پرچم جو تمہارے سامنے نظر آرہا ہے میں نے دیکھا ہے یہی پرچم پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ میں آیا تھا اور جو لوگ اس پرچم تلے اس وقت نظر آرہے ہیں اس وقت بھی یہی لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی جنگ کرنے آئے تھے اور پھر ’’امیرالمومنین علیہ السلام کے پرچم کی طرف‘‘ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا میںنے ایک اور علم بھی دیکھا ہے جو اس پرچم کے مدمقابل تھا اور اسی کے نیچے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہ شخص یعنی امیرالمومنین علیہ السلام کھڑے ہوئے تھے ، تو آخر کیوں پہچاننے میں غلطی کر رہے ہو؟ کیوں حقیقت کو پہچاننے کی کوشش نہیں کرتے ؟
اس خطاب سے عماّر کی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے، بصیرت ایک نہایت اہم شئی ہے،میں نے تاریخ کو کھنگالالیکن یہ کردار مجھے فقط عمار ہی کا دکھائی دیا ، عمار جن جن مواقع پر حقائق سے پردہ اٹھانے کے لئے پہنچے ہیں میں نے اسے کہیں لکھاہے جو اس وقت میرے ہاتھ میں نہیں کہ میں آپکے سامنے پیش کر سکوں۔خداوند کریم نے اس مرد کو زمان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے امیرالمومنین علیہ السلام کے دور کے لئے ذخیرہ کر کے رکھا تھا کہ وہ اس دوران حقائق کو سب کے سامنے آشکار کریں اور ظلمت کا پردہ چاک کر کے نور کی طرف لوگوں کی رہنمائی کریں۔
خوارج کون تھے؟
میں خوارج کے سلسلہ سے بہت زیادہ حساس ہوں،ماضی میں ان کے بارے میں کافی مطالعہ بھی کیا ہے انھیں خشک مقدس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔لیکن تعبیر غلط ہے خوارج اس قسم کے لوگ نہیں ہیں اس لئے کہ جو خشک و مقدس مآب ہو گا وہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرے گا اسے کسی سے کیا لینا دینا، کہاں یہ اور کہاں خوارج؟ خوارج تو فسادی تھے، قتل و غارت کرتے تھے، شکم پارہ پارہ کرتے تھے اور چوری چکاری بھی ان کا ایک معمول کاکام تھا، آخر ان کے بارے میں یہ کیسے مشہور کر دیا ہے کہ خشک مقدس مآب تھے۔اگر وہ گوشہ نشین بھی ہوتے تو پھر امیرالمومنین علیہ السلام کو ان سے کیا مطلب ہوتا وہ تو انھیں ہاتھ بھی نہ لگاتے؟خوارج سے جنگ کے دوران میں عبداللہ بن مسعود کے ساتھیوں نے امیرالمومنین علیہ السلام سے کہا ’’لا لک ولا علیک‘‘ نہ تو اس جنگ میں آپکے ساتھ ہیں نہ آپکے خلاف،اب خدا جانے کہ خود عبداللہ بن مسعود بھی انہیں کہنے والوں میں سے ہیں یا نہیں مجھے کچھ ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ خود بھی اس قول میں شریک تھے اور امیرالمومنین علیہ السلام سے کہا اگر آپ کفار و اھل روم وغیرہ سے جنگ کرنے جائیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ ساتھ ہیں لیکن اگر آپ مسلمانوں ’’اھل بصرہ و اھل شام‘‘ سے لڑنے کے لیے جائیں گے تو پھر نہ ہم آپ کے ساتھ لڑیںگے نہ آپ کے خلاف جنگ کریں گے۔اب ذرا بتائیں امیرالمومنین علیہ السلام ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک انجام دیں؟
کیا امیرالمومنین علیہ السلام نے ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا؟ ھر گزنہیں، حتیٰ آپ ان کے ساتھ بد اخلاقی سے بھی پیش نہیں آئے۔ خود ان لوگوں نے آپ کے سامنے پیشکش کی کہ ہمیں سرحدوں کی پاسبانی کے لیے بھیج دیں،امیرالمومنین علیہ السلام نے قبول کر لیا اور ان کو سرحدوں کی نگہبانی پر لگا دیا، بعض کو خراسان کی طرف بھیج دیا یہی ربیع بن خثیم ،جو مشہد میں خواجہ ربیع سے شہرت رکھتے ہیں ،جیسا کہ نقل کرتے ہیں انھیں افراد میں سے ایک ہیں ۔امیرالمومنین علیہ السلام نے ان مقدس مآب لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ۔ یہ دراصل جھل مرکب کا شکار تھے یعنی ایک غلط دید کی بنائ پر دائرہ دین کو نہایت تنگ سمجھتے تھے اور پھر اس تنگ نظری کے ساتھ عمل بھی کرتے تھے اس راہ میں چوری بھی کرتے تھے قتل و غارت سے بھی انھیں دریغ نہیں تھا اور جنگ و جدال بھی کرتے تھے: البتہ جو ان کے سردار اور رئیس تھے وہ اپنے آپ کو پیچھے رکھتے تھے، اشعث بن قیس اور محمد بن اشعث جیسے لوگ ہمیشہ مورچے کے پیچھے پیچھے دکھائی دیتے تھے اور ان کے آگے آگے کچھ جاھل نادان ، ظاھر بین تھے جن کے ذہن غلط باتوں سے پرُ ہیں اور ان کے ہاتھ میں تلوار بھی تھی انھیں آگے آگے بڑھا دیا گیااور یہ لوگ آگے بڑھ بھی گئے وہ تلوار چلاتے تھے ، قتل کرتے تھے مارے بھی جاتے تھے ابن ملجم کے بارے میں کوئی خیال نہ کرے کہ یہ کوئی عقلمند آدمی تھا بلکہ یہ ایک احمق آدمی تھا جس کا ذہن امیرالمومنین علیہ السلام کے خلاف بھر دیا گیا تھا وہ کافر ہو گیا تھا اسے علی علیہ السلام کے قتل کے لیے کوفہ بھیجا گیا، اتفاقاً اس ماموریت کے ساتھ ایک عشقیہ حادثہ بھی پیش آگیا اور وہ اپنے اس ناپاک ارادے میں اور مصمّم ہو گیا یہاں تک کہ وہ خیانت انجام دی ۔ تو خوارج اس قسم کے لوگ تھے جو بعد میں بھی اسی طرح سے رہے۔
خوارج کے ایک فرد سے حجاج بن یوسف کا مناظرہ:
آپ جانتے ہیں کہ حجاج بن یوسف ایک نہایت سفاک، اور قسی القلب خونخوار حاکم تھا جس کے ظلم اور بربریت کی مثال نہیں ملتی شاید صدام حاکم عراق(جو اب معزول کر دیا گیا ہے) کی طرح تھا اتفاقاً وہ بھی عراق پر حکومت کر رہا تھا ! البتہ صدام کی ظالمانہ روش ترقی یافتہ ہے! اس کے پاس قتل و شکنجے کے جدید اسباب وسائل ہیں اور اس کے پاس نیزہ ، شمشیر تیغ و تیر جیسی چیزیں نہیں ،حجاج بن یوسف کے اندر کچھ خصوصیتیں بھی تھیں مثلاً اس کا شمارفصحائ و بلغائ میں ہوتا تھا کہ الحمداللہ موجودہ حکّام ان کمالات سے بھی عاری ہیں!۔
اُس نے منبر سے جو خطبے پڑھے ہیں جاحظ نے ’’البیان والتبین‘‘ میں اسے نقل کیا ہے، وہ حافظ قرآن تھا مگر ایک خبیث النفس انسان بھی تھا عدل و انصاف اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اھل بیت علیھم السلام کا دشمن بھی تھا ایک عجیب آدمی! انھی خوارج میں سے کسی ایک کو حجاج کے پاس لیکر آئے حجاج اس کے بارے میں پہلے سے جانتا تھا کہ وہ حافظ قرآن ہے لہذا اس سے سوال کیا:’’آجمعت القرآن‘‘ قرآن کو جمع کر رکھا ہے؟ اس کی مراد تھی کہ کیا قرآن کو اپنے ذھن میں یونہی جمع کر رکھا ہے، اگر آپ اس کے تیز و تند جوابات پر توجہ کریں تو آپ لوگوں کو اس کی طبیعت اور مزاج کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ اس نے جواب دیا؛ ’’آصفرقاً کان فاجمعہ‘‘مگر قرآن پھیلاتھاکہ میں اسے جمع کرتا؟ جب کہ وہ (خارجی) اس کے مقصد سے واقف تھا مگر اسے جواب نہیں دینا چاہتا تھا۔
حجاج اپنی تمام شدّت و قساوت کے باوجود اسے برداشت کر رہا تھا اور پھر کہا’’ آفتحفظہ‘‘ کیا قرآن حفظ کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا ’’آخثیتُ فرارہ کا حفظہ‘‘ کیا اس بات کا خوف تھا کہ وہ کہیں فرار نہ کر جائے جو اسے محفوظ کر لیتا؟ ایک اورجواب اسنے سنا! اسنے پوچھا’’ما تقول فی امیرالمومنین عبدالمالک‘‘ عبدالمالک بن مروان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے عبدالمالک بن مروان خبیث جو اموی خلیفہ تھا، اس خارجی نے کہا ’’لعنہ اللہ ولعنک معہ‘‘ خدا اس کے ساتھ تم پر بھی لعنت کرے! ذرا دیکھیں یہ وہ لوگ تھے جو بغیر کسی تکلف، بالکل صراحت کے ساتھ،شدت پسندی سے گفتگو کرتے تھے، حجاج غصہ دباکرکہتا ہے تو مارا جاے گا لہذا یہ بتاو کہ تم خدا سے کس حالت میں ملاقات کرو گے؟اس نے جواب دیا’’القيٰ الله بعملی و تلقاه انت بدمن
‘‘ میں خدا سے اپنے اعمال کے ساتھ ملوںگا اور تو میرے خون کے ساتھ خدا سے ملاقات کرے گا ! آپ ذرا ملاحظہ تو کریں ، اس جیسے افراد کا مقابلہ کوئی آسان کام نہیں ہے اگر ایک عام آدمی انھیں دیکھے گا تو ان کا گرویدہ ہو جائیگا، ایک بے بصیرت اگر ان کے اعمال و افعال کو دیکھے تو پھر انھی کا ہو جائے گا، جیسا کہ خود حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانے میں بھی ایسے اتفاقات ہوئے۔
جنگ نہروان:
ایک روایت کے مطابق، جنگ نہروان کے زمانے میں ایک دن امیرالمومنین علیہ السلام اپنے ایک صحابی کے ساتھ چہل قدمی کر رہے تھے، وہیں کہیں نہروان کے قریب، نیمہ شب میں تلاوت قرآن کی آواز سنائی دی، کوئی ایک درد ناک، آواز میں خوبصورت انداز سے قرآن پڑھ رہا تھا، جوصحابی امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ تھا کہنے لگا کاش میں اس کے بدن کا ایک بال ہوتا، کیونکہ سوائے بہشت کے اس شخص کا کوئی ٹھکانا ہو ہی نہیں سکتا، حضرت نے تقریباً اس جیسا جملہ ارشاد فرمایا تھوڑا صبر کرو اس قدر جلدی فیصلہ نہ کرو،اور یہ واقعہ گزر گیا یہاں تک کہ نہروان کی جنگ چھڑ گئی۔اس جنگ میں یہی، شدت پسند، بد زبان ،متعصب غصہ ور خارجی، ہاتھ میں تلوار لیے مسلح ہو کر امیرالمومنین علیہ السلام کے مقابلے میں آگیا،حضرت علیہ السلام نے فرمایا جو میدان سے چلا جائے یا اس علم کے نیچے پناہ لے لے گا میں اس سے جنگ نہیں کروںگا اور آپ کے اس اعلان پر کچھ آئے بھی لیکن تقریباً چار ہزار ۴۰۰۰ لوگ رہ گئے پھر آپ علیہ السلام نے اس جنگ میں ان تمام لوگوں کو تہہ تیغ کر دیا اور لشکرکے دس ۱۰ لوگ ہی زندہ بچے بقیہ سب کے سب قتل ہو گئے، اس جنگ میں امیرالمومنین علیہ السلام فاتح قرار پائے جب کہ اس میں بہت سے مقتولین اہل کوفہ تھے یا کوفہ کے قرب وجوار کے رہنے والے تھے۔ وہی لوگ جو صفین و جمل میں حضرت کے ساتھ ہم رزم رہ چکے تھے اور اس کے بعد ان کے ذہن بھٹک گئے تھے زمین پر ان کے لاشے یونہی بکھرے ہوئے تھے اور حضرت ایک خاص کیفیت کے ساتھ ان کے درمیان میں قدم زنی فرما رہے تھے ، اس کے باوجودکہ وہ سب مر چکے تھے مگر حضرت ان سے،حکمت کی ایک تہہ اپنے اندر سموئے ہوئے گفتگو فرمارہے تھے اس کے بعد ایک مقتول کے قریب پہنچے اور فرمایا اسے ذرا پلٹو: آپ نے اسپر ایک نگاہ ڈالی اور اس صحابی سے کہ جو ایک شب ان کے ساتھ چہل قدمی کر رہا تھا خطاب کر کے فرمایا! کیا تم اس مقتول کو پہچانتے ہو؟ اسنے کہا نہیں یا امیرالمومنین علیہ السلام !فرمایا! یہ وہی شخص ہے اس رات کو اسطرح دردناک انداز میں تلاوت قرآن کر رہا تھا اور تم تمنّا کر رہے تھے کہ کاش تم اس کے جسم کا ایک بال ہوتے ! وہ اس طرح سوزو گداز سے تلاوت قرآن کر رہاتھا مگر قرآن مجسم( علی علیہ السلام ) سے لڑنے کیلئے آیا تھا علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے ایسے لوگوں سے جنگ کی اور انہیں قلع قمع کیا،البتہ خوارج مکمل طور پر قلع قمع نہیں ہوئے ۔اور ہمیشہ ایک محکوم اقلیت کی حیثیت سے باقی رہے۔وہ معاشرہ پر تو مسلط نہیں ہو سکے مگر ان کا مقصد اس سے کہیں زیادہ وسیع اور آگے کا تھا جو پورا نہیں ہو سکا۔
استقامت کے لیے بصیرت لازمی ہے:
میںہمیشہ سے تکرار کرتا رہا ہوں کہ اگر کوئی قوم حالات کا تجزئیہ و تحلیل کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے تو وہ شکست کھا جائیگی، اصحاب امام حسن علیہ السلام تجزئیے کی صلاحیت سے محروم تھے وہ یہ نہیں سمجھ سکے تھے کہ ماجرا کیا ہے اور ان کے ساتھ کیا چال چلی جا رہی ہے، (اسی طرح) اصحاب امیرالمومنین علیہ السلام بھی حالات کو نہیں سمجھتے تھے کہ جنہوں نے آپ کو خون دل پینے پر مجبور کیا ،وہ سب کے سب آپ کے دشمن نہیں تھے، لیکن اس میں سے بہت سے ایسے تھے جیسے خوارج، جو پوری طرح واقعات کو سمجھنے سے قاصر تھے ان کے اندر تجزیہ و تحلیل کی قوت مفقودتھی ایک بد جنس ایک ناکارہ شخص ادھر ادھر نکل آتا تھا اور لوگوں کو ایک طرف کھیچ لیتا تھا، سنگ میل کو کھو بیٹھتے تھے اور راستے سے بھٹک جاتے تھے، راستہ چلتے وقت ہمیشہ سنگ میل پر نظر رکھنی چاہیے اگر سنگ میل نظروں سے اوجھل ہو گیا تو یاد رکھیئے بہت جلد راستے سے بھی بھٹک جائیں گے۔
امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے تھے ’’ولا یحمل هذا العلم الا اهل البصر و الصبره
‘‘
سب سے پہلے بصیرت، ہوشمندی، ہوشیاری ، تجزئیہ وتحلیل اور فھم و درک کی صلاحیت حاصل کرنا پھر اس کے بعد صبرو استقامت سے کام لینا چاہیے جو واقعات پیش آرہے ہیں اس سے بہت جلد دل برداشتہ نہ ہو، حق کا راستہ بہت دشوار گذار راستہ ہے۔
دنیا کے سارے ظالمین اور طاقتور آئے اور کچھ نہ کچھ باطل کے لشکر میں انہوں نے اور اضافہ ہی کیا طول تاریخ اور ہمارے زمانے میں بھی سارے شیطان صفت انسان آئے اور اس باطل کے بند کو (جو امیرالمومنین علیہ السلام اور بندگان خدا کے راستہ میں حائل تھا)کواور قوت بخشی جب کہ حق انسانوں کے راستے میں حائل اس بند اور اس ٹیلے کو ہٹا دینا چاہتا ہے جو خود اپنی جگہ کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ ایک مشکل امر ہے جو صبر و تحمل کے ساتھ ساتھ سعہ صدر اور اپنی روحانی قوت کی طرف رجوع کرنے کے علاوہ اپنے اندرونی چشمے کے ابلنے کا مطالبہ کرتا ہے، تاکہ انسان حق کی ڈگر پر چل سکے،البتہ راہ حق پر چلنے کی کوشش زندگی کو لذیذ بنا دیتی ہے، ایک ایسی زندگی جس میں ظلم و زیادتی، زور و زبردستی نہ ہو، کوئی چیز الگ سے اس پر تھوپی نہ جائے ایک ایسی زندگی جس میں انسان کے اعمال پر شیطان کا بسیرا نہ ہو، بلکہ اس کی زندگی روحانیت اورمعنویت سے لبریز ہو۔
____________________