اقدار، ولایتِ اسلامی کا سرچشمہ:
اسلام میں ولایت کاسرچشمہ ارزش اور قدریں(ثقافت و روایات) ہیں، ایسی قدریں کہ جن کا وجود خود اس منصب کو اور عام لوگوں کو آفات و خطرات سے محفوظ رکھتی ہیں مثال کے طور پر عدالت اپنے معنی خاص کے لحاظ سے (یعنی ایک ملکہ نفسانی کی حیثیت) ازجملہ ولایت کی شرائط میں شمار ہوتی ہے، اگر یہ شرط موجود ہے تو ولایت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا کیونکہ جیسے ہی حاکم سے کوئی ایسا عمل سرزد ہوا کہ جس کا اسلام سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور وہ اسلام کے اوامر و نواہی کے خلاف ہے تو خود بخود شرط عدالت اس سے ختم ہو جائیگی ، ایک چھوٹا سا ظلم، کج رفتاری جو شریعت کے خلاف ہے عدالت کو سلب کر لیتا ہے فرائض انجام دینے میں کوتاہی ، لوگوں میں عدم مساوات بھی حاکم سے سلب عدالت کے لیے کافی ہے اور جیسے ہی عدالت سلب ہوحاکم خود بخود اس منصب سے معزول ہو جاتا ہے جس کی بنیاد پر اس کے حاکم رہنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی تو پھر ذرا بتایئے دنیا کے کس نظام حکومت میں ایسا کوئی قانون پایا جاتا ہے؟
کس ’’سسٹم اور جمہوری حکومت میں اس جیسا کوئی طریقہ موجود ہے کہ جس میں، معاشرے اور انسانیت کی خیر و صلاح کے ساتھ اقدار کی ، نمائندگی ‘‘ ہوتی ہو؟
البتہ ان بتائے گئے معیارات کی خلاف ورزی تمام صورتوں میں ممکن ہے، آپ یہاں فرض کیجئے کہ سارے معیار اپنی جگہ محفوظ ہیں پھر بتائیے کہ ایسی متن و شکل و صورت اسلام کے علاوہ اور کسی نظام یا مکتب و مذھب میں دکھائی دیتی ہے ؟
مسلمانوں کے ذریعے ولایت کا تجربہ:
ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ ولایت کا تجربہ کریں، طول تاریخ میں کچھ ایسے لوگ رہے ہیں جنہوں نے اس کا تجربہ نہیں ہونے دیا، آخر یہ کون لوگ تھے؟ وہی لوگ جو نظام ولایت کو اپنی حکومت و اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے تھے جب کہ اس میں خود لوگوں کا فائدہ ہے، ایسے کون سے ممالک ہوں گے ؟جن کو یہ بات پسند نہ ہو کہ ان کا حاکم بجائے یہ کہ شہرت پرست ، شرابخور، دنیا دار اور ثروت کی پوجا کرنے والا ہو ایک متقی،پرہیز گار،حکم خدا کی رعایت کرنے والا اورنیکیوں پر عملدرآمد کرنے والا انسان ہو؟ کوئی ملت و مذہب نہیںجو ایسے حاکم کو پسند نہ کرتی ہو ۔ولایت اسلامی یعنی مومن و متقی کی حکومت ایسے انسان کی حکومت جو اپنی خواہشات سے دور نیک اور عمل صالح بجا لاتا ہے، ایسی کونسی قوم اور کونسا ملک ہے جو اپنے نفع کو نہ چاہتے ہوں اور ایسا حاکم پسند نہ کرتے ہوں کہ جس کے تصور کے ساتھ ہی اس کی تصدیق بھی خود بخود ہو جاتی ہے؟آخر وہ کون لوگ ہیں جو اس روشن اور نظام حکومت کی مخالفت کرنے پر تلے ہیں؟ یہ تو معلوم ہے کہ وہی صاحبان اقتدار جو کہ خود اپنے اندر پارسائی اور مخالفت نفس کی سکت نہیں پاتے اور اپنی خواہشات کے مقابل میں سر تسلیم خم کئے ہوئے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
موجودہ زمامداران حکومت میں سے وہ کون سے حکاّم ہیں جو اسلامی معیار کے مطابق حکومت کرنے کو پسند کرتے ہیں؟
ہم لوگوں نے ہمیشہ یہ بات دہرائی ہے اور یہ ہمارے انقلاب کا حصہ ہے کہ انقلاب اور نظام جمہوری اسلامی ، آج کی غیر اسلامی او رضد اسلامی سلطنتوں اور عالمی حکومتوں کے خلاف ایک چیلنج ہے یہی وجہ ہے کہ دنیاکی حکومتیں اس انقلاب اور اسلام،اور اس حکومت کی مخالف ہیں،کیونکہ دنیا کی آمرانہ اور جارحانہ، حکومتوں پر اس انقلاب نے سوالیہ نشان لگا دیا ہے!۔
جیسا کہ آپ حکومتوں کے مابین سیاسی ارتباطات اور لوگوں کے درمیان حکومتوں کے رابطے کی حالت و کیفیت کو خود ملاحظہ کر رہے ہیں ہمارا تمدّن اور ہماری ثقافت دنیا کی مسلط شدہ ثقافت و تمدّن سے بالکل الگ تھلگ ایک مستقل تمدّن ہے ۔
ولایت اسلامی، اقوام عالم کے لئے سعادت کا راستہ:
جو چیزیں اصل ولایت اسلام سے حاصل ہوتی ہیں، کس قدر انسانوں کے لیے مفید ہیں اور کتنی خوبصورت، پر جاذب اور پرکشش ہیں۔ دنیا کا کوئی شخص بھی ہمارے ملک کو جس زاویے سے بھی دیکھنا چاہے دیکھے وہی ساری چیزیں جو حضرت امام خمینی ۲ کی زندگی میں موجود تھیں اور وہی ساری باتیں جس سے یہ قوم دس۱۰، بارہ ۱۲ سال کی مدت میں مانوس رہی ہے، دکھائی دیں گی، یہ ہے ولایت کا معنی، میرے عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اقوام عالم ان ادیان و مذاہب کہ جس کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہے ہیں اس سے ہٹ کر سعادت و خوش بختی کی راہ تلاش کرنا چاہتے ہیں تو انھیں ولایت اسلامی کی طرف پلٹنا ہوگا۔البتہ یہ مکمل اسلامی ولایت محض ایک اسلامی معاشرے ہی میں عملی ہو سکتی ہے اس لیے کہ اسلامی قدروں کی بنیاد پر ولایت ، عدالت اسلامی ، علم اسلامی اور دین اسلامی کو ہی کہتے ہیں جو نامکمل اور ناقص انداز میں سارے معاشروں اور اقوام و ملل کے یہاں قابل تصور ہے۔ لیکن اگر کسی کو حقیقی رہبر اور حاکم بنانا چاہتے ہیں تو پھر ان لوگوں کے پیچھے بھٹکنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جن کا سرمایہ دار حضرات بحیثیت لیڈر تعارف کراتے پھرتے ہیں بلکہ کسی پارسا، متقی، اور دنیا سے بے رغبت ترین انسان کی تلاش کرنی ہوگی ،جو اقتدار اور حکومت کو اپنے ذاتی مفاد سے الگ ہو کر عوام الناس اور معاشرے کی فلاح و بہبود اورا س کی اصلاح کی خاطر چاہتا ہے یہ ہے ایک اسلامی ولایت کا خاکہ کہ جس سے دنیا کی نام نہاد جمہوری حکومتیں بے بہرہ ہیں، یہ توصرف اسلام کی برکتوں کا ثمر ہے۔
اسی لیے ابتدائے انقلاب سے یہی عنوانِ ولایت ، اور ولایت فقیہ آپس میں دو ۲ جداگانہ مفہوم ہیں ایک خود مفہوم ولایت، دوسرے یہ کہ یہ ولایت ایک فقیہ اور دین شناس اور عالم دین سے مختص ہے۔ایسے افراد کی جانب سے شدّت سے بڑھ رہی ہے جو اسلامی قدروں کی بنائ پر ایک کامل حاکمیت کو برداشت کرنے کی قوت و طاقت نہیں رکھتے تھے اگرچہ آج بھی یہی صورتحال ہے یہ تو امیرالمومنین علیہ السلام کی پاکیزہ زندگی اور ان کی مختصر سی خلافت و حکومت اور غدیر و اسلام کی برکتوں کا نتیجہ ہے جو آج الحمدللہ(ہمارے ملک کے)لوگ اس راستے کو پہچانتے ہیں۔
شجاعت حضرت علی علیہ السلام :
تقریباً چودہ سو سال ہو رہے ہیں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں بولنے والے لکھنے والے، متفکرین ،شعرائ مرثیہ سرا ، نوحہ خواں اور قصیدہ گو حضرات وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ، شیعہ ہوں یا غیر شیعہ کچھ نہ کچھ کہتے اور لکھتے
رہے ہیں اور اسی طرح تا ابد آپ کے سلسلے میں یہ لوگ لکھتے اور بولتے رہیں گے۔
مگر اس قدر آپ کے فضائل و مناقب کے باب گستردہ اور وسیع ہیں کہ آپ کے جس پہلو کو بھی بیاں کیا جائے آخر کار انسان کو احساس ہونے لگتا ہے کہ پھر بھی ابھی بھی آپ کے وسیع وجود مبارک کے سلسلہ میں بہت کچھ رہ گیا ہے...!
آج میں یہ سوچ رہا تھا کہ اگر میں فضائل و مناقب امیرالمومنین علیہ السلام کو نسبتاً جامع طور پر پیش کرنے کی کوشش کروں تو مجھے کہاں سے آغاز سخن کرنا ہوگا، البتہ آپ کے جوہر ملکوتی اور وجود حقیقی کہ جو آپ کا الہیوجود ہے۔میں اس کے بارے میں نہیں عرض کر رہا ہوں کہ جس تک ہم جیسے لوگوں کی رسائی بھی نہیں ہے بلکہ میری مراد آپ کے وسیع وجود کا وہ حصہ ہے کہ جس تک پہنچنا ممکن ہے اور اس کے بارے میں غور و فکر کیا جا سکتا ہے بلکہ آپ کو زندگی کے لیے نمونہ بنایا جا سکتا ہے۔پھر مجھے احساس ہو ا کہ یہ بھی، ایک خطبہ یا ایک گھنٹہ میں ممکن نہیں اس لیے کہ آپ کی شخصیت کے تہہ در تہہ پہلو ہیں،’’لا هوا سجر من ای النواحی اتیتهه
‘‘
جس طرف سے بھی وارد ہوئے فضائل و مناقب کا ایک سمندر ہے اس لیے کوئی مختصر جامع تصور مخاطب کے حوالے نہیں کیا جاسکتا کہ کہا جائے: یہ ہیں امیرالمومنین علیہ السلام ۔
البتہ یہ ممکن ہے کہ آپ کے مختلف پہلوؤں کو اپنی فکر و ہمت کے مطابق پیش کر سکوں اور میں نے جب اس لحاظ سے تھوڑاسوچا تو دیکھا شاید آپ کی ذات میں ۱۰۰ سو صفات ۔کہ یہی سو ۱۰۰ کی تعبیر روایات میں بھی وارد ہوئی ہیں ۔اور سو ۱۰۰ خصوصیات کو تلاش کیا جا سکتا ہے وہ چاہے آپ کی روحانی ومعنوی خصوصیات ہوں جیسے آپ کا علم، تقوی زہد حلم و صبر کہ یہ سب کے سب انسان کے نفسانی اور معنوی خصال وجمال میں سے ہیں یا رفتار و عمل جیسے امیرالمومنین علیہ السلام بحیثیت باپ، بحیثیت شوہر یا بحیثیت ایک باشندہ، سپاہی و مجاہد ، سپہ سالار جنگ، حاکم اسلامی و بحیثیت خلیفہ وقت یا پھر لوگوں کے ساتھ تواضع و انکساری کے ساتھ پیش آنا، آپ کا بعنوان ایک ماضی ، عادل اور مدبر کہ شاید اس طرح حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی سو ۱۰۰ خصوصیات کو شمار کیا جا سکتا ہے اور اگر کوئی انہیں صفات کو لے کر گویا اور رسا انداز میں ایک جامع بیان پیش کر سکے تو گویا اس نے حضرت امیرالمومنین کا ایک مکمل مگراجمالی خاکہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے، مگر ان صفات کا دائرہ اس قدر وسیع اور دامن گستردہ ہے کہ ہر ایک صفت کے لیے کم از کم ایک کتاب درکار ہے۔
مثال کے طور پر حضرت علی علیہ السلام کے ایمان کو پورا مدنظر رکھیں؟۔ البتہ میں جس خصوصیت کو یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ ایمان کے علاوہ ایک دوسری خصوصیت ہے جس کو میں بعد میں بیان کروں گا۔
بہرحال آپ ایک مومن کامل تھے یعنی ایک فکر، ایک عقیدہ اور ایک ایمان یہ آپکے وجود مبارک میں راسخ تھا ذرا آپ اب خود ہی بتائیے کہ آخر کس کے ایمان سے حضرت علیہ السلام کے ایمان کا موازنہ کیا جائے کہ عظمت ایمان امیرالمومنین علیہ السلام کا اندازہ لگایا جا سکے، خود وہ فرماتے ہین ’’لو کشف الغطائ ما ازددتُ یقینا
‘‘
یعنی اگر غیب کے سارے پردے ہٹا دیے جائیں مراد ذات مقدس خداوند، فرشتگان الہی جہنم اور وہ تمام باتیں جیسے دین لانے والے بعنوان غیب بیان کر چکے ہیں۔ اور میں اپنی انہی آنکھوں سے ان سب کا مطالعہ کروں تو میرے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا!
گویا آپ کا یقین اس کے یقین کے مانند ہے کہ جس نے ان ساری چیزوں کو اپنی ظاہر ی آنکھوں سے دیکھا ہے! یہ ہے آپ کا ایمان اور اس کا رُتبہ ومقام کہ ایک عرب شاعر کہتا ہے ’’اگر ساری مخلوقات کے ایمان کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور ایمان علی علیہ السلام کوترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو پھر بھی علی علیہ السلام کے ایمان کو تولنا ممکن نہیں ہے!یا آپ کے سابق الاسلام ہونے کو ہی لے لیجئے کہ نوجوانی اور کمسنی ہی سے خدا پر ایمان لائے اورا س راستہ کو دل و جان سے قبول کر لیا اور آخر عمر تک اس پر ثابت قدم رہے ، جو ایک عظیم اور وسیع پہلووں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے کہ جسے ایک کلمہ میں نہیں بیان کیا جاسکتا!۔
ہم لوگوں نے بہت سے بزرگوں کو دیکھا ہے یا آپ کے بارے میں کتابوں میں پڑھا ہے کہ انسان جب امیر المومنین علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں تصور کرتا ہے تو خود کو ان کے مقابل حقیر و ذلیل پاتا ہے۔
جیسے کہ کوئی آسمان میں،چاند،ستارہ، زہرہ ،مشتری،زحل یا مریخ کو دیکھے مگر اسکے باوجود اندربہت نورانیت اور چمک پائی جاتی ہے وہ اپنی جگہ بہت بڑے ہیں مگر اس کے باوجود ہماری نزدیک دیکھنے والی آنکھیں،اپنی کمزوری و ضعف کی وجہ سے یہ اندازہ نہیںلگا سکتیں کہ مثلاً ستارہ ،مشتری، یا زھرہ میں کیا فرق ہے ، یا وہ ستارہ جن کو ٹیلی اسکوپ کی مدد سے دیکھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان کے اندرکئی ملین نوری سالوں کا ایک دوسرے کے درمیان فاصلہ پایا جاتا ہے، ہم نہیں دیکھ سکتے جب کہ دونوں ستاروں میں اور ہماری آنکھیں آسمان میں ان دونوں کو تاحد نظر دیکھتیں ہیں،مگر یہ کہاں اور وہ کہاں! اور اسی طرح چونکہ ہم لوگ عظمتوں سے کوسوں دور ہیں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اور دیگر تاریخ بشریت یا تاریخ اسلام کے اکابرین، بزرگان اعظم کے درمیان تاریخ بشریت یا تاریخ اسلام کہ جن کا کتابوں اور دنیائے علم یا دیگر میدانوں میں سراغ ملتا ہے صحیح طریقہ سے موازنہ کرنے پر قدرت و طاقت نہیں رکھتے حقیقتاً،ذات امیرالمومنین علیہ السلام ایک حیرت انگیز شخصیت ہے!
مشکل تویہاں پیش آتی ہے،کہ ہم اور آپ شیعہ علی ابن ابی طالب ہونے کی حیثیت سے انکے پیروکہے جاتے ہیں؛اور اگر ہم آپ کی ذات گرامی کے مختلف پہلوؤں سے واقف نہ ہوں تو پھر اپنی شناخت مجروح ہونے لگتی ہے اس لیے کہ جو دعویدار محبت نہیں ہے اس میں اور ہم میں فرق ہے اور چونکہ ہم دعویدار ہیں ہم ’’علوی‘‘ بن کر رہنا چاہتے ہیںاور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ،علوی معاشرہ کہلائے لہذا ہم شیعان علی علیہ السلام سے پہلے درجہ میں اور غیر شیعہ مسلمان دوسرے درجہ میں اس مشکل سے بہرحال روبرو ہیں اس لیے کہ سبھی علی علیہ السلام کو مانتے ہیں فقط فرق یہ ہے کہ ہم شیعہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے ایک خاص عقیدت و احترام رکھتے ہیں۔
شجاعت ایک عظیم اور تعمیری صفت:
آج میں امیرالمومنین علیہ السلام کی جس خصوصیت کو بیان کرنا چاہتا ہوں وہ ہے آپ کی شجاعت۔ خود شجاعت ایک بہت عظیم اور تعمیری صفت ہے اسی صفت کی وجہ سے انسان خطرات سے بے خوف ہو کر میدان جنگ میں کود پڑتا ہے جس کے نتیجہ میں دشمن پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔
عام لوگوں کی نگاہ میں شجاعت کے یہی ایک معنی ہیں،مگر میدان جنگ کے علاوہ دیگر اور میدانوں میں بھی یہ صفت بہت اہمیت رکھتی ہے ۔جیسے حق و باطل سے ٹکراو کے وقت خود زندگی میں معرفت کے میدان میں حقائق کی دو ٹوک توضیح کی ضرورت کے وقت اور زندگی کے دیگر میدان،جہاں انسان کو اپنے موقف کی وضاحت کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اس صفت کا ہونا لازمی ہے۔
یہاں پر شجاعت اپنا اثر دکھاتی ہے ، کہ جب ایک بہادر و شجاع انسان حق کو پہچان جاتا ہے اور پھر اس کی پیروی کرتا ہے پھر اُس راستہ مین بیجا شرم و حیا ئ اور خود غرضی وغیرہ کو آڑے نہیں آنے دیتا۔ یہ ہے حقیقی شجاع اور بہادر کہ دشمن یا مخالفت کی ظاہری قوت و طاقت اس کے لیے رکاوٹ نہیں بن پاتی اور کبھی کبھی شجاع بن کر ابھرنے والے بعض لوگوں کی شجاعت کی قلعی(خصوصاً یہ افراد اگر معاشرے میں کسی پوسٹ و منصب کے حامل ہوتے ہیں)بھی کھل جاتی ہے اور وہ شجاع ہونے کے بجائے بزدل ثابت ہوتے ہیں ، شجاعت اس جیسی صفت کا نام ہے۔
کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک مسّلم حق کسی شخص کی بزدلی کی وجہ سے ناحق بن جاتا ہے یا ایک باطل کہ جس کے بارے میں کسی کو جرآت اظہار کرنا چاےئے تھا، خود حق کا سوانگ بھر لیتا ہے اسے اخلاقی شجاعت اجتماعی جرآت اور زندگی میں ہمت و بہادری سے تعبیر کرتے ہیں کہ جو میدان جنگ کی شجاعت سے بھی ایک بلند و بالا قسم کی شجاعت ہے۔
امیرالمومنین علیہ السلام میدان جنگ کے لیے بے بدیل بہادر و شجاع تھے ہر گز کبھی بھی اپنے دشمن کو پشت نہیں دکھائی ،یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے آپ کے بارے میں جنگ خندق کے قصے مشہور ہیں کہ جہاں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابیاپنی جگہ پر آنے والے نمائندہ کفر سے لرز رہے تھے اور آپ آگے بڑھے ، بدر و احد فتح خیبر و خندق و حنین وغیرہ جس جنگ کو بھی آپ اٹھا کر دیکھ لیں علی علیہ السلام کی شجاعت کا سکہ چلتا ہوا نظر آتا ہے جب کہ اس میں سے بعض وہ جنگیں بھی ہیں جس میں آپ کل چوبیس ۲۴ سال یا بعض میں پچیس ۲۵ ،تیس ۳۰ سال سے زیادہ عمر نہیں رکھتے تھے گویا ایک ۲۷، ۲۸ سالہ جوان نے اپنی شجاعت و بہادری کے بل بوتے پر جنگ کے میدان میں اسلام کی کامیابی و کامرانی کیسے کیسے گل کھلائے ہیں ،یہ تو رہی میدان جنگ میں آپ کی شجاعت و بہادری کی داستان۔
مگر میں یہاں امیرالمومنین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کروں گا کہ اے عظیم و بزرگ و الاعلی علیہ السلام ، اے محبوب خدا، آپ کی زندگی اور میدان زندگی کی شجاعت میدان جنگ کی شجاعت سے کہیں ارفع و اعلیٰ دکھائی دیتی ہے،مگر کب سے؟ نوجوانی سے ۔آپ یہی سابق الاسلام ہونے کو ہی لے لیجئے ۔آپ نے ایسے پر آشوب ماحول میں دعوت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبول کیا کہ جب سبھی آپ کی دعوت کو ٹھکرا رہے تھے اور کوئی جرآت و ہمت نہیں کرتا تھا کہ اس دعوت کو قبول کرے اور دعوت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قبول کر لینا خود اپنی جگہ ایک شجاعانہ عمل ہے البتہ ایک ہی واقعہ ممکن ہے مختلف زاویوں سے دیکھا جائے اور اس واقعہ میں مختلف پہلو پائے جاتے ہوں مگر یہاں پر آپ کی شجاعت و بہادری کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے اس واقعے کو پیش کیا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے معاشرے کو ایک ایسا پیغام دے رہے ہیں جو اس معاشرے پر قابض اسباب و عوامل کے بالکل برخلاف ہے، لوگوں کی جہالت، نخوت و کدورت اشرافیت، ان کے طبقاتی اور مادی منافع و مصلحتیںیہ ساری چیزیں اس پیغام کے برخلاف اور اس کی ضد ہیں ذرا اب کوئی بتائے کہ ایک ایسے معاشرے میں ایسے پیغام کی کیا ضمانت ہے؟۔
ابتداً آپ آیۃ ’’و انذر عشیرتک الا قربین
‘‘ (شعرائ۲۱۴) پر عمل کرتے ہیں اور وقت کے یہ مستکبرین نخوت و غرور کا مکمل مظاہرہ کرتے ہوئے ہر حرف حق کا تمسخراڑاتے ہیںاسکے باوجود کہ دعوت دینے والا یہ (پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود انھیں کے جسم و تن کا ایک ٹکڑا ہے ۔جب کہ یہ وہی لوگ ہیں جو خاندان کے ہیں اور ان کے اندر رگ حمیت و عصبیت پھڑک رہی ہے جو کبھی کبھی ایک دو نہیں دس سال تک تنہا خاندانی ناطے اور رشتہ داری کی وجہ سے دشمن سے برسر پیکار رہا کرتے تھے! مگر یہاں (ذوالعشیرہ) میں جب ان کے خاندان کے ایک شخص نے اس مشعل کو اپنے ہاتھوں میں لے کر بلند کیا تو ان لوگوں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں، اپنے منہ پھیر لیے۔ بے اعتنائی سے کام لیا اھانت وتحقیر کی اور صرف مذاق اڑایا!
ایسے موقع پر یہ نوجوان اٹھا اور پیغمبر سے خطاب کرکے کہتا ہے اے میرے ابن عم میں آپ پر ایمان لاتا ہوں، البتہ آپ پہلے ایمان لا چکے تھے یہاں صرف اس ایمان کا اعلان کر رہے ہیں اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ان مومنوں میں سے ہیں کہ ابتدائی چند دنوں کے علاوہ تیرہ ۱۳ سالہ مکے کی زندگی میں ہرگز آپ کا ایمان ڈھکا چھپا نہیں تھا۔ جب کہ سارے مسلمان چند سالوں تک اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھے مگر یہ سب جانتے تھے کہ امیرالمومنین علی (علیہ السلام) ابتدائ ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لا چکے ہیں لہذا کسی پر بھی آپ کا ایمان پوشیدہ نہیں تھا۔
ذرا آپ اپنے ذہنوں میں اس کا صحیح طورپر تصورکریں،کہ پڑوسی توہین کر رہے ہیں،معاشرے کے بڑے بڑے اشخاص تحقیر و تذلیل کر رہے ہیں، شاعر،خطیب ، ثرو ت مند سب کے سب مذاق اڑا رہے ہیں،پست و ذلیل اور بے مایہ ہر ایک توہین آمیز القاب سے پکار رہا ہے اور ایک انسان اس طوفان حوادث کے درمیان تن تنہا ایک کوہ محکم کی طرح ثابت و استوار کھڑا ہوا ببانگ دہل یہ اعلان کر رہا ہے۔
یہ امیرالمومنین علیہ السلام کی منطق تھی۔یعنی منطق شجاعت اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ آپ کی پوری زندگی اور آپ کی حکومت (کہ جس کی مدت پانچ ۵ سال سے کم تھی)میں ہمیشہ یہی منطق کار فرما رہی۔اگر آپ نظر دوڑائیں تو یہی چیز روز اول اور یہی بیعت کے وقت بھی دکھائی دیتی ہے یہاں تک کہ آپ کی خلافت سے قبل جو بیت المال کا غلط مصرف ہو چکا تھا اس کے بارے میں فرمایا:’’والله لو وجدته تزوج به النسائ ملک به الامام
‘‘ وغیرہ ۔۔۔ بخدا وہ پیسہ جومیری خلافت سے پہلے ناحق کسی کو دیا گیا ہے چاہے وہ عورتوں کی مہر قرار دے دیا گیا ہو یا اس سے کنیزیں خریدی گئی ہوں یا اس سے شادیاں رچائی گئی ہوں ہر حالت میں اسے بھی بیت المال میں لوٹا کر رہوں گا! اور تنہا کہا ہی نہیں بلکہ سختی سے اس پر عمل کرنا شروع کیا جس کے نتیجہ میں دشمنی کا ایک سیلاب آپکے حق میں امنڈ پڑا!
کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی شجاعت ہو سکتی ہے؟ سخت اورضدی ترین افراد کے مقابل اٹھ کھڑے ہونا، ایسے لوگوں کے خلاف عدالت کی آواز اٹھانا جو معاشرے میں نام نمود رکھتے تھے ان سے مقابلہ کیا جو شام کی پٹی ہوئی دولت و ثروت کی مدد سے ہزاروں سپاہیوں کو آپ کے خلاف ورغلا سکتے تھے، مگر جب خدا کے راستے کو اچھی طرح تشخیص دے دیا تو پھر کسی کی کوئی پرواہ نہ کی، یہ ہے شجاعت علی علیہ السلام۔ کیا تو ایسے شخص سے دشمنی رکھتا ہے جس کا ایک جرآت مندانہ اقدام دنیا و مافیہا سے بلند و برتر ہے؟!
یہ وہ بزرگ امیرالمومنین علیہ السلام ہیں، یہ وہ تاریخ میں چمکنے والے علی علیہ السلام ہیں۔وہ خورشید جو صدیوں چمکتا رہا اور روز بروز درخشندہ تر ہوتا جا رہا ہے۔جہاں جہاں بھی جوہر انسانی کا مظاہرہ ضروری تھا۔یہ بزگوار وہاں وہاں موجود تھے چاہے اس جگہ کوئی اور نہ رہا ہو مگر یہ موجود تھے آپ کا ہی یہ فرمان تھا ’’لا تستوحشوا فی طریق الهديٰ لقلّة اهله
‘‘
ترجمہ’’ راہ ہدایت میں ساتھیوں کی کمی سے خوف و ہراس کو اپنے دل میں جگہ بھی نہ دو‘‘ اور خود آپ بھی اسی طرح تھے یعنی جب تم نے صحیح راستے کو پا لیا ہے تو صرف اس لیے کہ تم اقلیت میں ہو، چونکہ دنیا کے سارے لوگ تم کو توجہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں چونکہ دنیا کی اکثریت تمہارے راستے کو قبول نہیں رکھتی و حشت نہ کرو اس راستے کو ترک نہ کرو بلکہ اپنے پورے وجود سمیت اس راستے پر چل پڑو۔یہاں سب سے پہلے جس نے اٹھ کر حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر لبیک کہی اور عرض کیا ’’ اے رسول خدا میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں کوئی اور نہیں یہی نوجوان تھا! ایک بیس ،پچیس سالہ جوان نے اپنے ہاتھ بڑھا دئے اور کہتا ہے میں آپ کے ہاتھ پر مو ت تک کی بیعت کرتا ہوں۔آپ کے اس شجاعانہ عمل کے بعد دوسرے مسلمانوں میں بھی جرآت پید اہوئی یکے بعد دیگرے لوگ بیعت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے’’لقد رضی الله عن المومنین اذیبا یعونک تحت الشجرة فعلم ما فی قلوبهم
۔،،(فتح ۱۸) اسے شجاعت کہتے ہیں ۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جہاں جہاں بھی انسانی جوہر کے مظاہرے کا وقت آتا تھا آپ کی ذات والاصفات سامنے ہوتی تھی ہر مشکل کام میں پیش پیش رہا کرتے تھے!
ایک دن ایک شخص عبداللہ بن عمر کے پاس آکر کہتا ہے! میں علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتا ہوں۔جیسے اس کا خیال تھا کہ یہ لوگ آپس میں خاندانی دشمن ہیں شاید وہ اپنے اس بیان سے عبداللہ بن عمر کو خوش کرنا چاہتا تھا ۔عمر کے بیٹے عبداللہ نے اس سے کہا،’’ ابغضک اللہ‘‘ خد اتم کودشمن رکھے، اصل عبارت یہ ہے ’’فقال ابغضک الله!فبغض و یحک اجلاً سابقة من سوابقه خیر من الدنیا بما فیها
‘‘
’’ میں نے خدا اور اس کے راستے کو پہچان لیا ہے اور تاحیات اس پر قائم رہوںگا‘‘ یہ ہے شجاعت اسے کہتے ہیں ہمت ۔
زندگی کے تمام مراحل میں شجاعت:
امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کے تمام مراحل میں یہی شجاعت نظر آتی ہے مکے میں یہی شجاعت تھی، مدینے اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کرتے وقت یہی شجاعت تھی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،نے مختلف مناسبتوں سے مکرراً بیعت لی اس میں سے ایک بیعت جو شاید سخت ترین بیعت تھی، حدیبیہ کے موقع پر بیعت الشجرہ۔بیعت رضوان ۔ہے جیسا کہ سارے مورخین نے لکھا ہے کہ جب معاملہ ذرا سخت ہو گیا اور حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک ہزار۱۰۰۰ سے کچھ زیادہ اصحاب جو آپ کے اطراف میں تھے سب کو جمع کیا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میں تم لوگوں سے موت پر بیعت لیتا ہوں ،کہ تم میدان جنگ سے ہرگز فرار نہیں کرو گے! اور اس قدر تم کو جنگ کرنا ہے کہ یا تو اس راہ میں قتل ہو جاو یا پھر کامیابی تمہارا نصیب ہو۔
میرا خیال ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوائے اس موقع کے کہیں اور اس قدر سخت انداز میں اصحاب سے بیعت نہیں لی ہے ظاہر ہے کہ اس مجمع میں ہر قسم کے لوگ موجود تھے، سست ایمان بلکہ منافق صفت نیز اس بیعت میں شامل تھے! جب کہ تاریخ میں نام تک مذکور ہیںوغیرہ سب کچھ ظاہری اور غیر واقعی تھا، تنہا دین کی طرف لوگوں کی تحریک و تشویش ایک عمومی اور واقعی شی تھی کہ جسے بغض و نفرت آمیز نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور اس تحریک کے مقابلے میں ذرا پھیکے رنگ و بو کے ساتھ وطن پرستی کے نام پر ایک اور احساس بھی ملک کے گوشہ و کنار میں دکھائی دے رہا تھا۔اور قوم کے لیے اس قسم کی صورتحال پیدا کر دی تھی پھر آپ نے ہی بنیادی اور اساسی اقدام کر کے قوم کی ہر چیز کو از سر نو تعمیر کیا ہے ۔
آج اس حکومت میں علم و صنعت، یونیورسٹی کی تعلیم، وغیرہ سب ارتقائ حاصل کر رہی ہیں،لوگوں کی شخصیتیں،ان کے خیالات ،رشد و نمو پا رہے ہیں،آزادی اپنے حقیقی معنی و مفہوم میں ترقی پا رہی ہے۔
اس قوم کی تحریک آہستہ آہستہ وہاں تک پہنچ رہی ہے کہ اب دنیا میں خود اس کے خریدار پیدا ہونے لگے ہیں، کل تک ملت ایران اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ لوگ اس کی طرف توجہ کرتے مگر آج اس کے برعکس ہے، آج آپ ایک اہم قوم کی حیثیت رکھتے ہیں آپ کی رائے آپ کی حمایت آپ کی ممانعٰت اہمیت رکھتی ہے آپ نے ایک مسئلے کی مخالفت کی ہے وہ ابھی تک دنیا میںکسی بھی علاقے میں یا کسی کوہ و صحرا میں بھی کسی ایرانی کو امریکا نواز دکھائی دے جائے تو لوگ اس کے سائے تک کو تیر باران کرنے کے لئے تیار ہیں۔!
اس ملک میں ایک دن قوم و ملت کی کوئی حیثیت نہیں تھی،ان کو حق رائے دہی حاصل نہیں تھا،انتخابات اور پارلیمنٹ کا اتہ پتہ بھی نہیں تھاملک میں جو کچھ بھی تھا وہ سب غیر واقعی اور بناوٹ سے زیادہ، کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا، حقیقتاًپہلوی بادشاہت کا زمانہ عجیب و غریب زمانہ تھا بالکل اسی طرح کہ جیسے کوئی بڑے سے ہال میں ایک بہت بڑا کارخانہ لگائے اور دیکھنے والا اس کی عظمت ،بزرگی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔مگر جب اس کے نزدیک سے اس کا نظارہ کرے تو اسے پتہ چلے کہ اس کی ساری چیزیں، پلاسٹک کا ایک بازیچہ ہے یا مثلاً کوئی شخص ایک بلند و بالا عمارت بنائے کہ دور سے دیکھنے والے کو وہ ایک عظیم محل لگے مگر جب وہ اس کے نزدیک جانے سے تو ایسے معلوم ہو کہ یہ تو برف سے بنا ہوا ہے ایک محل ہے۔
بالکل اسی طرح اس ملک کی ساری چیزیں غیر حقیقی تھیں، یونیورسٹی، روشن خیال طبقہ ،روزنامہ، مجلّات، پارلیمنٹ، حکومت میں رکاوٹ بننے والی ایک ایک چیز کم ہو گئی،اور اس طرح سے یہ لوگ اپنے مقصد کی راہ میں موجودہر رکاوٹ کو اپنے راستے سے ہٹاتے ہیں!
جہاں پر ہر شیعہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، بلکہ ہر اس مسلمان کو جو علی علیہ السلام پر ایمان رکھتا ہے اور دل سے معتقد ہے علی علیہ السلام کی شخصیت سے درس شجاعت لینا چاہتے ہیں کہ جن کا فرمان ہے’’ تم کو راہ ہدایت میں افراد کی کمی سے ہراساں نہیں ہونا چاہیے‘‘ دشمن کے پشت کرنے اوراس کے منہ موڑنے سے تم کو ڈرنا نہیں چاہیے احساس تنہائی نہ کرو،دشمن کے تمسخر اور اس کے مزاق اڑانے سے تمہارے ہاتھوں میں جو گوہر ہے ۔اس کے سلسلہ میں تمہارے عقیدے میں کوئی سستی نہ آنے پائے،اس لیے کہ تم لوگوں نے ایک عظیم کام انجام دیا ہے ایک ایسا خزانہ اپنی مملکت میں تم لوگوں نے کشف کر لیاہے،جو تمام ہونے والا نہیں ہے ،تم نے اسلام کی برکت سے آزادی حاصل کی استقلال حاصل کیا، اور شاطر طاقتوں کے پنجے سے رہائی حاصل کی ہے۔
ایک دن وہ بھی تھا جب یہ مملکت و سلطنت، یہ یونیورسٹی، یہ دار الحکومت(تہران) یہ فوجی مراکز،یہ فوجی اورحفاظتی دستے،یہ حکومتی ادارے،اوپر سے لے کر نیچے تک سب کے سب امریکاکے ہاتھوں میں تھے مگر آج انقلاب اسلامی کی برکت کے نتیجہ میں مملکت سے دور رہ کر شراب سے دوری کا اور حدود الہیوغیرہ کے نفاذکا مذاق اڑاتے ہیں! کبھی کبھی یہی تحقیر و تذلیل یہی مذاق اور توہین اچھے اچھوں کے لئے شک و تردید میں پڑ جانے کا سبب بن جاتا ہے اور ان کی استقامت جواب دے جاتی ہے اور وہ اپنی ہم فکر جماعت کوہی ہرانے پر مجبور ہو جاتے ہیں وہ کہتے ہیں آخر ہم کیا کریں اب سب کچھ برداشت سے باہر ہے ، اور اس وقت یہ عالمی طاقتیں اپنی اس کامیابی پر چھپ چھپ کر قھقھہ مار کر ہنستی ہیں اس لئے کہ انہیں اپنے راستے میں موجود ایک رکاوٹ کے ختم کرنے کی خوشی ہے! ان کی روش یہی ہے کہ وہ ایک انقلابی تحریک یا اقدام کو اس قدر ہلکا بنا کر پیش کریں،اس کے خلاف پروپیگنڈہ کریں کہ آخر کار اس کے اصلی چہرے دل برداشتہ ہو کر اسے واپس لے لیں! یا وہ خود اس کا مذاق اڑانے لگیں! عالمی میدان سیاست میں کچھ آپ کو ایسے چہرہ نظر آجائیں گے جو کل تک دشمن کے مقابل ڈٹے ہوئے تھے اور آج خود اپنے اعمال و رفتار کامذاق اڑاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو دشمن کی ہنسی اور خوشحالی کا سبب ہے، یہ اپنے اعمال و رفتار کا مذاق صرف اسلئے اُ ڑاتے تھے کہ یہ صاحب بھی اپنی جماعت میں شامل ہوسکیں البتہ وہ عالمی طاقتیں اس کی تشویش بھی کرتی ہیں اور کہتی ہیں ’’ سبحان اللہ‘‘ آپ کس قدر متمدن ہیں اور یہ صاحب بھی خوشحال ہوتے ہیں مگر یہ جو کچھ بھی پیش آیا ہے حقیقتاً ان سیاسی بازیگروں کی راہ ہے کہ جس نظام حکومت کو چاہتے ہیں بروئے کار لے آتے ہیں اور جس نظام کو چاہتے ہیں ختم کر دیتے ہیں ! آج یہی مکارو دغا باز و فریب کار عالمی طاقتیں پوری طرح ،جمہوری اسلامی کی طرف متوجہ ہیں اور ان کی ایک سیاست یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح سے جمہوری اسلامی اور ایرانی عوام کا مذاق اڑائیں،انہیں شک و شبہ میں ڈالیں ! اور انہیں یہ پڑھائیں کہ تم لوگ جو بین الاقوامی عرفیات کے خلاف ہو کر اپنی سیاست و حکومت چلا رہے ہو غلطی کر رہے ہو۔تم غلط کر رہے ہو جو عالمی سیاست اور امریکی بین الاقوامی پالیسیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں ،وہ مسئلہ فلسطین ہو یا پھر مسئلہ بوسنیا، یا دیگر اسلامی مسائل وغیرہ اور جو تم دوسروں کی آواز سے آواز نہیں ملاتے غلط کر رہے ہو تم کو تو دنیا والوں کے ساتھ ہونا چاہیے ۔
آج کی سیاست یہ ہے اور آج کی ہی نہیں بلکہ ابتدائے انقلاب سے ان کی سیاست یہی تھی کہ ایرانی قوم کے ذمہ داران مملکت اور ہر وہ شخص جو ان کا واقعی مخالف ہے اس کامذاق اڑائیں اسے زیادہ سے زیادہ شک و تردید میں ڈالیں اور جس کام سے بھی انہیں زیادہ نقصان پہنچنے کا خطرہ محسوس ہو اس کا زیادہ سے زیادہ مذاق اڑائیں،عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا مضحکہ،یونیورسٹی کا مذاق ،عبادت نماز جماعت کا مضحکہ لیکن اقتدار تسلط یہی ہے۔
آج ہم اور آپ اس شجاعت علوی کے ضرورتمند ہیں، ایرانی عوام اس کی ضرورت مند ہے ،اس مملکت میں جو کوئی بھی کسی عہدے یا منصب پر فائز ہے اسے اس صفت کی زیادہ ضرورت ہے، مسلمانوں کے بیت المال تک جس کی بھی رسائی ہے وہ اس شجاعت و ہمت کا زیادہ ضرورت مند ہے آج مجموعاً ،ایرانی قوم، اور فرداً فرداً ہر شخص اس شجاعت کا محتاج ہے اور جس شخص پر لوگ زیادہ بھروسہ رکھتے ہیںاور وہ لوگوں کا اطمینان مورداعتماد و اطمینان ہے دوسروں کی نسبت اس شجاعت علوی اور جرآت و ہمت کا زیادہ سے زیادہ محتاج وضرورت مند ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت سے درس عمل:
آج کی دنیا ابولہب و ابوجہل جیسے ہٹ دھرم جاہلوں کی نہیں ہے بلکہ آج دنیا کے کفّار ،معاندین،دنیا کے چالاک ترین و ہوشیارترین لوگ ہیں ایسے ہیں جو دنیا کے بڑے بڑے سیاسی مسائل اور پروپگنڈہ مشینری کو اپنے ہاتھوں میں لئے ہوئے گردش کر رہے ہیں اور دیگر قوموں اور ملتوں کی تقدیر بدلتے ہیں غیر ملکوں میں اپنی پسند سے حکومتیں بناتے ہیں یا بنی بنائی حکومتوں کو گرا دیتے ہیں، دنیا کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہیں اس سے جس طرح چاہتے ہیں نفع اٹھاتے ہیں ،جنگ و جدال چھیڑتے ہیں پھر جنگ ختم کرتے ہیں!امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیںوالله لو ان الحسن والحسین فعلا مثل الذی فعلت ما کانت لهما عندی هواده لاظفرا منی با راده حتی آخذا الحق منهما و از یسح الباطل ان مظلمتهما
‘‘
قسم بخدا یہی فعل جو تم نے انجام دیا ہے اگر میرے بیٹے حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام انجام دیتے تو اس سلسلے میں میرے لئے کوئی عذرقابل قبول نہیں ہوتا! اور ان کے نفع میں کوئی عمل سر زد نہ ہوتا یہاں تک کہ ان سے بھی حق کو لے لیتا!۔
حضرت علی علیہ السلام کا اقتدار نفس:
امیرالمومنین علیہ السلام کو بخوبی معلوم ہے کہ حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام معصوم ہیں مگر پھر بھی فرماتے ہیں کہ اگر ان دونوں میں سے کسی سے بھی یہ عمل ۔کہ ہر گز سرزد نہیں ہو سکتا ۔سر زد ہوجائے ،تو میں اس سلسلے میں ان پر بھی رحم نہ کرتا،یہ بھی شجاعت ہے جو اگرچہ ایک زاویہ سے عدل بھی ہے اور قانون کی بالادستی اور اس کا احترام بھی ہے، اس کے مختلف عنوانات ہو سکتے ہیں،مگر جس زاویے سے میں نے اسے عرض کیا ہے وہ شجاعت بھی ہے بلکہ یہ ایک ایسا منصب ہے جس تک ہر کس و ناکس کی رسائی نہیں البتہ تم کوشش کرو کہ اس راہ میں قدم اٹھاو اور پارسائی و خدا کی اطاعت کے ذریعے اپنے امام کی اتباع میں نزدیک سے نزدیک تر ہو، عبداللہ بن عباس حضرت کے سچے چاہنے والے ہیں اور دیگر اصحاب کی نسبت آپ کے قریبی،محب،مخلص اور ہمراز بھی ہیں مگرزندگی میں ایک خطا آپ سے ہو گئی جس کی بنائ پر امیرالمومنین علیہ السلام نے آپ کو ایک خط لکھا جس میں آپ کی اس خطا کو خیانت سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے اپنے اس عمل سے خیانت کی ہے! والی اسلامی کی حیثیت سے ان کے خیال میں کچھ دولت ان کا حق بنتی تھی اس لیے انہوں نے اپنا حق سمجھ کر اُسے لے لیا تھا اور راہی مکہ ہو گئے تھے۔ اور امیرالمومنین علیہ السلام نے اسی لغزش کی بنیاد پر اس قدر سخت خط لکھا کہ اسے پڑھ کر جسم کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں !۔
آخر یہ کیسا انسان ہے! یہ کیسا عظیم المرتبت شخص ہے ! کہ عبداللہ بن عباس جو کہ آپ کے چچا زاد بھائی بھی ہیں ان سے خطاب کر کے فرماتےهیں’’لا فانک ان لم تفعل ثم امکننی الله منک لا عذرن اليٰ الله فیک و لا فربنّک بسیفی الذی ماضربت به احداً الا دخل النار
‘‘
حضرت امام سجاد علیہ السلام سے خود آپ کی عبادت اور حضرت علی علیہ السلام کی عبادت کے سلسلے میں گفتگو چھڑ گئی،تو امام سجادعلیہ السلام آب دیدہ ہو گئے اور فرمایا! میں کہاں؟ اور جناب امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات والا صفات کہاں؟خود امام سجادعلیہ السلام کہ جنہیں زین العابدین کہا جاتا ہے، نے فرمایا،کیا یہ ممکن ہے کہ مثل علی علیہ السلام کوئی بننے کا دعوی کر سکے؟! آج تک دنیا کے بڑے بڑوں میں بھی یہ ہمت نہ ہو سکی کہ ان کے مثل ہونے کا دعویٰ کر سکیں نہ ہی ایسی کوئی فکر کرتا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی غلطی کسی کے ذہن میں آج تک خطور ہوئی کہ وہ امیرالمومنین علیہ السلام کے مثل ہونے یا ان کی طرح کام کر سکنے کا دعویٰ کرے! البتہ جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ ،راستہ اور سمت سفر،وہی ہو جو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا راستہ تھا جیسا کہ گذشتہ گفتگو کے دوران اس پر روشنی ڈالی جا چکی ہے ۔
خود آنجناب نے عثمان بن حنیف کو ایک خط کے ذریعے اپنی سادہ زیستی کا ذکر کرتے ہوئے کہ’’الا و ان اما مکم قداکتفيٰ من دنیاه بطمریه
‘‘
میں اس طرح زندگی بسر کرتا ہوں فرمایا؛ ’’الا وانکم لا تقدرون علی ذلک
‘‘؛
یعنی میں ضرور اس طرح زندگی گزار رہا ہوں مگر تم خیال نہ کرنا کہ میری طرح تم بھی ہو سکتے ہو۔
آپ کی شخصیت مجروح کرنے کے لئے حدیثیں گڑھی گئیں یا آپ کے افکار و خیالات کے برخلاف فکریں پیش کی گئیں مگر ان تمام زہر افشانیوں اور دشمنیوں کے باوجود سالھا سال گذر جانے کے بعد بھی آخر کار ان اتہمات و خرافات کے دبیز پردوں کے پیچھے سے خود کو پھر سے پہچنوایا اور اپنی شخصیت کو منوانے میں کامیاب ہو گئے،یہ تھی آپ کی شخصیت اور آپ کے اندر موجود کشش۔
گلِ گلاب:
علی علیہ السلام کی طرح کاکوئی بھی گوہر ہو جو ایک پھول کی طرح چمن انسانیت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خوشبو دیتا ہے اور خار و کانٹے خس و خاشاک اور بدبو دار چیزیں اسے آلودہ نہ کر سکیں تو اس کی قیمت میں کبھی بھی کمی نہ آئے گی اگر آپ ہیرے کا کوئی ٹکڑا کیچڑ میں بھی ڈالدیں تو وہ بہرحال ہیرا ہی رہے گا اور جب بھی مٹی ہٹے گی تو وہ خود چمک کر اپنا وجود ظاہر کرے گا،تو پھر گوہر بننا ہو تو اس طرح بنیے۔ ہر مسلمان فرد پر لازم ہے کہ وہ ذات علی علیہ السلام کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا کر نظروں کے سامنے رکھے اور اسی سمت زندگی کے سفر کا آغاز کرے۔کوئی بھی دعویٰ نہیں کر سکا ہے کہ ہم علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرح ہیں،خواہ مخواہ ان سے اور ان سے نہ کہا جائے کہ آخر آپ علی علیہ السلام کی طرح کیوں نہیں عمل کرتے آپ اس پر غور تو کریں ان باتوں کا کہہ دینا تو آسان ہے، مگر اس پر عمل کرنابہت مشکل ہے،میں یہاں پر اس حقیقت کا خود اعتراف کر رہا ہوں کہ ایک دن میں علی علیہ السلام کو نمونہ زندگی کے طور پر پیش کرتا تھا، مگر اس کی تہہ تک نہیں اترا تھا مگر آج جب مملکت اسلامی کی باگ ڈور ہم جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے تو پھر ان باتوں کا صحیح معنوں میں ادراک و احساس ہوتا ہے اور اب معلوم ہوتا ہے کہ علی علیہ السلام واقعاً کتنے بزرگ و عالی مرتبت تھے!
____________________