علی کی زندگی نمونہ عمل:
اگرچہ یہ باتیں کسی خاص طبقے یا فرد سے مخصوص نہیں بلکہ سب سے متعلق ہیں مگر فی الحال میں یہ باتیں اپنے لئے اور ان حضرات کے لئے عرض کر رہا ہوں جو اس مملکت اسلامی میں کسی نہ کسی عہدے پر فائز ہیں امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کچھ اس طرح تھی کہ آپ کی ذات اور وجود کی برکت سے لاکھوں لوگ اسلام اور حقیقت سے آشنا ہوئے،وہی امیرالمومنین علیہ السلام کہ جن کو تقریباً ۱۰۰ سو سال تک منبروں سے گالیاں دی گئیں ان پر لعن و طعن ہوئی،ساری دنیائے اسلام میں آپ کے خلاف زہر افشانی کی گئی ۔
اگردشمن مذاق اڑاتا ہے تو اسے مذاق اڑانے دو اسے تحقیر کرنے دو اور جو کچھ ہمارے خلاف بولنا چاہتا ہے بولنے دو،آج ہمارے لئے علی علیہ السلام کی شجاعت اور باطل کے مقابل ان کی مردانگی ایک درس عظیم ہے اور میں اپنے معززسامعین کو عمل کرنے اور اس پر مکمل توجہ کرنے کے لیے آپ سب کو نصیحت کرتا ہوں۔خدا انشااللہ آپ کامدد گار ہے۔
گذشتہ ۱۷ سترہ سالوں میں انہی بزرگوار کے نام کا سایہ اس ملت پر چھایا ہوا تھا اور اس قوم نے ان کے انوار سے کسبِِ فیض کیا اور استفادہ کیا،ہم بھی اس درس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں گے اور دشمن کی خواہش کے برخلاف ہم اسی طرف آگے بڑھتے رہیں گے یہاں تک کہ انشائ اللہ وہ دن بھی آئے جب ہمارا پورا معاشرہ حقیقتاً،علوی معاشرے کی صورت اختیار کرلے
۔
امیرالمومنین علیہ السلام کے ذریعے عدالت اور حدود الہی کا اجرائ:
میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے حالات کا مطالعہ کر رہا تھا، تو مجھے احساس ہوا کہ جو عدل آپ کے بارے میں شہرہ آفاق ہے۔اگرچہ میں گمان نہیں کرتا کہ حتی ہمارے شیعہ معاشرے اور اہم شیعوں نے بھی آپ کے اس عدل کو محسوس و ملموس کیا ہو۔بیشتر اس کا را بطہ ان باتوں سے ہے کہ آپ راہ حق اور احکام الہی نافذ کرتے وقت کبھی بھی رشتہ داری رفاقت و دوستی،کسی کے ذریعے اپنی تعریف و تمجید وغیرہ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے آپ بیت المال کا حساب کتاب لیتے وقت کسی قسم کی کوئی رو رعایت نہیں کرتے تھے ’’حسان بھی ثابت،جو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے مداح تھے اور دشمنان حضرت سے جنگوں میں مقابلہ کیا تھا کسی خلاف ورزی کی وجہ سے حدالہی کے مستحق قرار پائے تو حضرت علیہ السلام نے فرمایا،کوئی بھی ہو یہ حد الہٰی ہے، جاری ہوگی’’حسان ‘‘ نے اپنی ساری گذشتہ خدمتیں ایک ایک کر کے گنوائیں یا امیرالمومنین علیہ السلام میں آپ کا مداح ہوں میں نے آپ کی مدح و ستائش میں اتنے قصیدے کہے ہیں وغیرہ وغیرہ ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں تو سہی اگر ایسی جگہ ہم ہوتے تو کیا کرتے؟ جو میرے ذہن میں اس وقت ہے وہ یہ کہ حضرت علیہ السلام نے فرمایا: میں ان سب باتوں کی وجہ سے حد الہٰی کو معطل نہیں کر سکتا، چوں کہ ماہ رمضان میں دن میں شراب نوشی کی تھی لہذا شراب نوشی کی حد جاری ہوئی اور بیس ۲۰ تازیانے حرمت رمضان توڑنے کی وجہ سے لگائے گئے۔کہ اس کے بعد وہ کوفہ کو ترک کر کے معاویہ کی طرف شام چلے گئے اور شاید امیرالمومنین علیہ السلام کے خلاف شعر بھی کہے۔
نہج البلاغہ کے بیان کے مطابق ،عبداللہ بن عباس ،جو آپ کے حواریوں میں تھے اور ایک تعبیر کے مطابق اپنے سابقہ اعمال و کردار کی بنیاد پر آپ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بعد آپ کی حکومت میں دوسرے نمبر کی شخصیت شمار ہوتے تھے لیکن جب بصرہ میں ماموریت کے دوران عبداللہ بن عباس کے بارے میں میں حضرت کو یہ خبر معلوم ہوئی کہ انہوں نے بیجا مصارف بھی کئے ہیں تو آپ نے عبداللہ بن عباس کو خط لکھا اور اس سلسلے میں حساب و کتاب کا حکم فرمایا تو انہوں نے آپ کو خط لکھا جس میں اس بات کا شکوہ کیا ،حضرت نے جواب میں لکھا کہ میں تم سے حساب مانگ رہا ہوں تم کو حساب دینا چاہیے گلے اور شکوے کی کیا ضرورت ہے جس کی وجہ سے وہ حضرت سے خفا ہو کر کوفہ آئے بغیر بصرہ چھوڑ کر مدینہ چلے گئے اور خود گوشہ گیر ہو گئے اور علی علیہ السلام کی تائید و تصدیق سے ہاتھ کھینچ لیا اور ایک دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو فرصت کی تاک میں تھے قدرت و سلطنت کے بھوکے شام کی حکومت کے زیر سایہ معاویہ کی سرکردگی میں گھات لگائے بیٹھے ہوئے تھے اور قبائل کے بہت سے شہرت طلب، نام ونمود چاہنے والے،اقتدار و سلطنت کے حریص معاویہ کے دسترخوان پر لقمہ توڑنے والے علی علیہ السلام سے جنگ کر رہے تھے ادھر ایک مقدس مآب ،خشک و قدامت پرست گروہ بھی سر اٹھائے ہوئے ایک عجیب و غریب فضا بنا ئے ہوئے تھا ،یہ عظیم متحدہ محاذ تھا جو حکومت امیرالمومنین علیہ السلام کے خلاف جنگ کرنے پر تلا ہوا تھا،جمہوری اسلامی کے قیام اور لیبرل حکومت اور بانفوذ منافقین کے زوال کے وقت جو صورتحال تھی اس صورتحال سے کافی شباہت رکھتی ہے جو ایران میں جمہوری اسلامی کے قیام کے وقت اثر و رسوخ رکھنے والے (منافقین) لیبرل حکومت کے زوال کے وقت پیدا ہوئی تھی۔البتہ میں ان لوگوں کا ان سے موازنہ نہیں کرنا چاہتا۔ایک وہ گروہ جو امیرالمومنین علیہ السلام کے زمانہ میں،صدر اسلام میں اس فضا میں پلا بڑھا تھا، روحی اعتبار سے ان کے مقابل زیادہ صاحب اہمیت تھا، جو آج جمہوری اسلامی اور راہ انقلاب اسلامی کے مقابلے کے لئے دکھائی دیتے ہیں،لیکن مجموعی طور پر ایک صورت حال نظر آتی ہے کچھ لوگ تو پہلے سیاسی طور پر نام و نمود بھی رکھتے تھے سالہا سال سیاسی جنگ بھی کی تھی ۔اگرچہ کوئی کام بھی نہیں کیا تھا۔اور ایک گروہ وہ تھا جو سابقہ طاغوتی سلطنت کے لئے عزادار تھا اور انہی کے ساتھ میں مشرق سے وابستہ کمیونسٹوں کے حامی اتحادی تفکر رکھنے والے بھی تھے جو مختلف ناموں اور عنوانات سے ان کے اطراف میں کھڑے نظر آتے تھے،اور مٹھی بھر اسلام پر ظاہری طور پر عمل کرنے والے کچھ اور لوگ بھی تھے جو بنام اسلام،مکمل غیراسلامی چیزوں کو مشرق و مغرب سے جمع کر کے جھالت و التقاط کا نتیجہ پیش کر رہے تھے وہیں پر انقلاب کے مخالفین کا ایک وسیع و عریض جال بھی پھیلا ہوا تھا کہ جو فضل خدا اور پروردگار کی مدد سے حضرت امام خمینی ۲ کی علی علیہ السلام و ار تدبیر و حکمت کی وجہ سے وہ سب کے سب کائی کی طرح چھٹ گئے اور انھیں پوری طرح شکست اٹھانا پڑی،حزب اللہ ،امام خمینی ۲ کا بنا یا ہوا راستہ انقلاب کی راہ میں واضح تر ہو کر سامنے آگیا،لہذا تاریخ کے اس بیان سے ہم جو درس عبرت لیتے ہیں وہ ہے علی علیہ السلام کا راہ حق و جہاد خدا میں اٹل ہو جانا ان کا محکمیت کے ساتھ فیصلہ کرنا اور راہ صداقت و حق میں کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ کرنا
خدا کے کام میں کوئی رو رعایت نہیں:
آپ ذرا ملاحظہ کریں کہ خلافت و حکومت امیرالمومنین علیہ السلام کے دوران دو قسم کے صحابہ اور اسلام کے بزرگ لوگ دکھائی دیتے ہیں۔کچھ تو وہ لوگ جنہوں نے جیسے ہی دیکھا کہ حضرت امیرعلیہ السلام زمام حکومت ہاتھ میں لئے تخت خلافت پر متمکن ہوئے ہیں تو وہ حق کو پہچانتے ہوے آپ کی خدمت میں اپنی پوری ہستی سمیت سرگرم خدمت ہوگئے البتہ بعض اس شدّت کے ساتھ تو نہیں مگر پھر بھی حضرت کے ساتھ آگئے،اور کچھ وہ تھے جو شک و تردید کرنے لگے،جب کہ وفات حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اب تک ۲۳ تئیس سال گذر گئے انہیں کہیں شک لاحق نہیں ہوا،اور جیسے ہی حضرت امیرعلیہ السلام تخت خلافت پر بیٹھے ان کو شک ہونے لگا! بعض نے کہا ’’انا شککنا فی هذا القتال
‘‘
تو امیرالمومنین علیہ السلام ان کے سامنے ڈٹ گئے۔
مسجد مدینہ میں امیرالمومنین علیہ السلام کی بیعت کے بعد جن لوگوں نے بیعت نہیں کی تھی ان کو ایک ایک کر کے آپ کے سامنے حاضر کیا گیا تو آپ نے پوچھا تم نے کیوں بیعت نہیں کی؟ کہا،یا امیرالمومنین علیہ السلام میں دوسروں کا منتظر ہوں کہ وہ بیعت کر لیں پھر میں بھی بیعت کروں! حضرت نے کہا جاو اسی طرح ایک کے بعد دوسرے آتے گئے اور حضرت نے ان سب سے عدم بیعت کا سبب دریافت کیا،انہیں بزرگوں میں سے ’’عبداللہ ابن عمر‘‘ بھی تھے انھیں بھی مسجد میں لایا گیا،امیرالمومنین علیہ السلام نے سوال کیا تم نے بیعت کیوں نہیں کی؟ کچھ دیر تک ہاتھ ملتے رہے پھر کچھ توقف کیا اور مثلاً کچھ اس انداز سے کہا کہ اچھا، ٹھیک ہے! مالک اشتر جو وہاں کھٹرے ہوئے ماجرا دیکھ رہے تھے کہا یا امیرالمومنین علیہ السلام !آپ اجازت فرمائیں کہ میں ان کا سر(جو خلیفہ دوّم کے بیٹے بھی ہیں) قلم کردوں تاکہ دوسروں کو بھی اندازہ ہو جائے کہ یہ کوئی شوخی اور مذاق نہیں ہے اور رو رعایت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔امیرالمومنین علیہ السلام ہنسے اور فرمایا : نہیں جانے دو یہ شخص جوانی میں بھی بد اخلاق تھا اور آج جب بوڑھا ہو چکا ہے پھر بھی وہی حال ہے۔اس دن ’’مالک اشتر‘‘ نے وہ تاریخی جملہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے عرض کیا اور کہا: یا امیرالمومنین علیہ السلام ! انھیں نہیں معلوم کہ آپ کے پاس بھی تلوار و تازیانہ ہے،لہذا اجازت دیں میں ایک کا کام تمام کر دوں تاکہ یہ اپنی اوقات کو سمجھ سکیں۔
یاد رکھیئے یہ غلط فہمی ہے لوگوں کو کہ وہ خیال کرتے ہیں حکومت اسلامی،شمشیر و تازیانے سے کام نہیں لیتی،اس میں روک ٹوک نہیں پائی جاتی ،بلکہ یہ خیال خام ہے وہ تو بلا تکلف مجرمین کو سزا دیتی ہے کیونکہ یہ کام خدا کا کام ہے جس میں کوئی رو رعایت ہے ہی نہیں،وہ لوگ جو اس طرح حکومت اسلامی کے مقابلے کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں یا وہ لوگ جو مقابلہ تو نہیں کرتے مگر کسی خدمت کے لئے بھی تیار نہیں ہیں،انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی روش میں نظر ثانی کریں اور اپنی اصلاح کریں۔اور اس نظام و مملکت اسلامی کی قدر کریں ،ذرا کوئی بتائے توسہی اس طول تاریخ میں کب اسلام آج کی طرح سے اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر حکومت و سلطنت کر سکا اور دنیا میں اپنا لوہا منوا کر عزّت و وقعت کمائی؟ لہذا یہ ایک سنہری موقع ہے جسے ہم سب کو غنیمت جاننا چاہیے۔
۔
علی علیہ السلام کی یہاں کوئی ساز باز ممکن نہیں!
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی اور دوران حکومت ثابت کر دیا کہ وہ ایک ثابت قدم اور استوار انسان ہیں جو کسی معاملے میں کوئی سمجھوتہ یا ساز باز سے کام نہیں لیتے اور وہ واقعی ایک اصول پسند آدمی ہیں؛میں ان کی اسی صفت کے دو نمونے آج مختصر طور پر آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں : نمبر۱۔احکام اسلامی میں آپ کا اٹل رہنا اور کوئی سمجھوتہ نہ کرنا۔امیرالمومنین علیہ السلام کسی قیمت پر احکام اسلام۔یعنی وہ چیز جس کا حکم قرآن دے رہا ہے،اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا حکم فرمایا ہے اور مسلمانوں نے اسے سمجھا اور جانا پہچانا ہے۔حاضر نہیں تھے کہ کوئی تغیر و تبدل پیش آئے چاہے وہ مصلحت و مفاد پرستی کی وجہ سے ہو یا پھر ’’اجتہاد بہ رائے‘‘ کی بنیاد پر یہ تبدیلی ہو۔حضرت امیرعلیہ السلام سے قبل،خلفائ ’’ اجتہاد بہ رائے ‘‘ کو جائز سمجھتے تھے اور خود برادران اہلسنت بھی اسے مانتے ہیں۔امیرالمومنین علیہ السلام اس ’’اجتہاد بہ رائے‘‘ کو ناقابل قبول سمجھتے تھے آپ تنہا ،’’کتاب خدا اور سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ یعنی قرآن اور قول و فعل پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔پر عمل کرنے کو قبول رکھتے تھے ۔آپ ذرا تاریخ میں ان کی مثالوں اور نمونوں کو کھنگالیں اس وقت آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ امیرالمومنین علیہ السلام جو کہ ساز باز کو پسند نہیں کرتے تھے ان کی انقلابی حکومت کے لئے درد سر کا نقطہ آغاز کہاں پر ہے۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بیت المال کی تقسیم برابر سے تھی یہ کوئی نہیں کہتا تھا کہ فلاں،پہلے ایمان لائے ہیں،جو پہلے مسلمان ہوئے تھے یا جو بعد
میں مسلمان ہوئے تھے، اور وہ جو مکے سے ہجرت کر کے آئے تھے، جو مدینہ میں تھے یا جو صالح تھے ، جو ان پڑھ تھے سب کے سب بیت المال سے اپنا اپنا وظیفہ دریافت کرتے تھے ان میں کوئی تفریق نہیں تھی، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان چیزوں کو امتیاز نہیں مانتے تھے تا کہ اس وجہ سے کسی کا حصہ زیادہ نہ ہو، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہو گئی،خلافتِ حضرت ابوبکر دو سال سے کچھ زیادہ مدّت تھی۔یہی صورتحال رہی کہ تقسیم بیت المال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی،خلافت عمر بن خطاب کے دوران ایک مدت تک یہی صورتحال رہی مگر کچھ زمانے بعد خلیفہ دوم کے ذہن میں آیا کہ بہتر ہے مسلمانوں میں جو ظاہری امتیاز پائے جاتے ہیں اس کی بنیاد پر ایک کو دوسرے پر ترجیح دوں،یہ وہ چیز تھی جس کے بعض مسلمان بھی حامی تھے اور عمر بن خطاب کے اعتقاد میں بھی یہ اسلامی سماج اور مسلمانوں کے حق میں ایک مثبت قدم تھا،اور سابقین و غیر سابقین ، جو پہلے مسلمان ہوئے تھے اور جوبعد میں اسلام لائے تھے وہ آخر یکساں طور پر بیت المال سے کیوں استفادہ کریں؟ جو پہلے اسلام لائے تھے۔مہاجرین و انصار کے مابین فرق کیا جائے لہذا انھوں نے کہا مہاجرین انصا ر پر فضیلت رکھتے ہیں کیونکہ مھاجرین مکہ میں دورانِ سختی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ تھے اورانہوں نے جنگ کی لیکن انصار جب حکومت اسلامی کا قیام ہوا اسوقت مسلمان ہوئے ہیں،اس کے علاوہ مھاجرین کے درمیان بھی جو قریش تھے ان کو غیر قریش پر حق تقدم حاصل تھا،قبائل کے درمیان مضر جو عرب کا مشہور قبیلہ تھا اس کو قبیلہ ربیعہ پر ترجیح دی، مدینہ کے مشہور و معروف قبائل میں اوس کو خزرج پر فضیلت دی، بہرحال ان کے ذہن میں اس کی ایک توجیہہ تھی کہ میرا خیال ہے یہ تفریق و امتیاز بیسویں ہجری یعنی آغاز خلافت عمر سے سات۷،آٹھ ۸ سال بعد یہ کام شروع ہوا وہ ان کا کہنا تھا میں نے اس لیے یہ تفریق کی تا کہ دلوں میں الفت ایجاد کر سکوں ،گویا وہ خیال کررہے تھے یہ کام ہونا چاہیے اور اپنی نظر و ’’اجتہاد بہ رائے‘‘ کی وجہ سے یہ کام انجام دیا کہ زندگی کے آخری مہینوں میں اپنے کام پر عمر کو شرمندگی تھی کہ میں نے عبث(فضول) یہ کام کر ڈالا وہی روش اچھی تھی جو زمان پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رائج تھی اور بعد میں ابو بکر کی خلافت میں بھی رائج رہی اگر میں زندہ رہا تو پھر سے وہی روش اپناوں گا اور مسلمانوں کے درمیان برابری کروں گا،البتہ عمر زندہ نہیں رہے اور انھیں ایام یا مہینوں میں چل بسے۔
عمر کے بعد خلافت عثمان کے زمانے میں خلیفہ موجود کی عدم قوت ارادی وجہ سے یہ روش اور پھیل گئی،اور بعض لوگوں نے تو مختلف بہانوں ،مختلف عنوان کے تحت بیت المال سے خوب فائدہ اٹھایا اور دوران خلافت عثمان بارہ ۱۲سال یہی عمل جاری رہا۔
حفاظت بیت المال میں پر عزم :
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے مسند خلافت پر متمکن ہوتے ہی جب خطبہ دیا تو سب سے پہلے جو باتیں فرمائیں اس میں سے ایک یہ تھی’’واللہ لو وجدتہ تزّوج بہ النّسائ‘‘ اگر یہ بیت المال بغیر کسی حق یا استحقاق کے کسی مسلمان کو دیا گیا، اگر اس پیسے سے عقد کیا گیا،کسی عورت کا حق مہر دیا گیا ،کوئی کنیز خریدی گئی اور مثلاً اس سے صاحب فرزند ہوئے ان سب کے باوجود میں ان غصبی پیسوں کو بیت المال تک لوٹا کر رہوں گا! یہ ہے امیرالمومنین علیہ السلام کا عزم راسخ جو حکم خدا اور سنّت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں آپ انجام دے رہے ہیں۔البتہ امیرالمومنین علیہ السلام بھی یہاں مصلحت سے کام لے سکتے تھے مگر کوئی مصلحت اندیشی درمیان میں نہیں آنے دی یہی وجہ ہے کہ آپ نے طلحہ و زبیر سے ایک ہی جملے میں اپنی ساری پالیسی پیش کر دی کہ جس سے ساری چیزیں انسان کے لیے واضح ہو جاتی ہیں طلحہ و زبیر آپ کی خدمت میں آئے کہنے لگے یا امیرالمومنین علیہ السلام ! آپ ممالک کے حکام اور عاملین کے نصب و عزل میں ہم لوگوں سے کیوں مشورہ نہیں لیتے؟ آپ ہم لوگوں سے اس سلسلے میں رائے ،مشورہ لیا کریں۔حضرت امیرعلیہ السلام نے فرمایا؛ جو خلافت تم لوگوں نے میرے اوپر لاد دی ہے اس کو ذرّہ برابر بھی نہیں چاہتا تھا اور اب جبکہ یہ ذمہ داری میرے کاندھوں پر آہی گئی ہے ’’فلّما افضت الی
‘‘
تو جس وقت خلافت میرے ہاتھوں آئی’’نظرت اليٰ کتاب الله وما وضع لنا و امرنا بالحکم به فاتبعة
‘‘
میں نے قرآن میں غور و فکر کیا دیکھا وہ ہمارے لیے قوانین و دستورات پیش کرتا ہے اور میں نے اسی قوانین کی پیروی کی،’’وما استسن النبی صلی الله علیه وآله وسلمفاقتدته‘‘
میں نے سنّت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا تو جو آپ نے اپنے زمانہ حکومت میں طریقہئ کاراپنایا تھا میں نے اسے بھی دیکھا اور اس پر عمل درآمدکیا،’’فلم احتج فی ذالک الیئ آیکما ولائ آی غیر کما‘‘
تو پھر مجھے کسی سے رائے و مشورہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہی پھر تم لوگوں سے میں کیا مشورہ لیتا! اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت رائے ومشورے کے مخالف تھے ؛نہیں بلکہ وہ یقینا مشورہ کرتے تھے اور ان کی زندگی میں جابجا مشورے نظر آتے ہیں۔بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ ایک ممتاز طبقہ جو خلیفہ سوّم کے زمانے میں بیت المال اورمسائل مسلمین ،میں تصرف اور اپنی رائے پیش کرنے کاحق سمجھنے لگا اور ان کا خیال یہ تھا کہ حاکم اسلامی کو اس طبقہ ممتاز کی پیروی کرنا چاہیے۔حضرت اس گروہ کو مردہ سمجھتے تھے اور حضرت جس چیز کو حجت سمجھتے تھے خود کو اس کا پابند جانتے تھے اور وہ کتاب اللہ و سنت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔یہ آپ کی ثابت قدمی اور راہ حق میں بے خوف و خطر ہو کر ساز باز سے پرہیز کرنے کی دلیل ہے۔
آپ نے سارے احکام اسلامی کے مقابل یہی رویہ اپنایا چاہے وہ ’’نماز تراویح‘‘ کا مسئلہ ہو یا دیگر مسائل ،وہ چیزیں جو گذشتہ خلفائ کے نزدیک ازروئے اجتہاد (کہ وہ اجتہاد بہ رائے کو حجتّ جانتے تھے )اور دینی حیثیت سے لوگوں کی زندگی میں وارد ہو چکا تھا امیرالمومنین علیہ السلام نے ان سب کو لغو قرار دے دیا،اور پوری قاطعیت کے ساتھ آپ جس چیزکو اسلام سمجھتے تھے قرآن و سنّت سمجھتے تھے اس پر عمل پیرا تھے یہ آپ کی قاطعیت واستواری عمل کا ایک اور نمونہ ہے۔
بے جا توقعات کے مقابلہ میں اٹل رہنا:
ایک دوسرا نمونہ جو آپ کی ثابت قدمی اور قاطعیت کی دلیل ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کی بیجا توقعات کہ طلحہ و زبیر کا قصہ اس سلسلے میں آپ پڑھ چکے ہیں اور اس کے علاوہ بھی کچھ نمونے ہیں۔آپ جیسے ہی خلافت پر بیٹھے لوگوں کی توقعات منہ پھیلائے سامنے آگئیں،اسلام کے مشہور و معروف چہرے جن کی توقعات پوری نہیں ہوئیں وہ حضرت سے دور ہوتے گئے طلحہ و زبیر،سعد بن ابی وقاص،عبدالرحمن بن عوف اور اسی قسم کے بعض دیگر لوگ کہ جو مشہور و معروف بھی تھے،صحابی بھی تھے،محترم اور بزرگ بھی مانے جاتے تھے مگران کی حیثیت ایک ضعیف و کمزور انسان سے زیادہ کچھ نہ تھی۔کبھی کبھی انسان کی خواہشات نفس مقدر ساز جگہوں پرانسان کی بصیرت سلب کر لیتی ہے اور جو عمل اس کی بصیرت کے مطابق ہونا چاہیے یہ نفس اس کے درمیان فاصلہ ڈال دیتا ہے اور وہ درست فیصلہ لینے سے عاجز ہو جاتا ہے یہی وجہ تھی کہ بعض لوگ امیرالمومنین علیہ السلام کو چھوڑ کر چلے گئے میں گمان نہیں کر سکتا کہ آج دنیائے اسلام میں حتی ایک شخص بھی پایا جائے جو ان اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر امیرالمومنینعلیہ السلام کو چھوڑ جانے پر ملامت نہ کرے البتہ جو لوگ اس دوری اختیار کرنے کو عیب نہیں شمار کرتے وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے توبہ کر لی تھی یا غلطی کی تھی مگر یقینا کوئی ایسا نہیں کہ جو اس کام کو سراہتا ہو۔اس غیر پسندیدہ کام کو بہتوں نے انجام دیا ہے؟ اس لئے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام لوگوں کی توقعات کو تسلیم نہیں کرتے تھے،انھیں بیجا توقعات میں سے یہ بھی ایک توقع تھی کہ معاویہ کو فی الحال ہٹایا نہ جائے اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام معاویہ کو لمحہ بھر کے لئے حکومت اسلامی میں دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔
معاو یہ کے بار ے میں اھل سنّت کا نظر یہ:
میں ایک بار پھر اس مجمع میں موجود تمام شیعوں کی خدمت میں (کہ اس ملک میں آپ کی اکثریت ہے)اور دیگر ممالک میں رہنے والے شیعہ حضرات کی خدمت میں تاکید کر دینا چاہتا ہوں،کہ ہماے سنی برادران معاویہ کے سلسلے میں ۲ دو نظریے رکھتے ہیں ایک گروہ معاویہ کو مانتا ہے دوسرا گروہ نہیں مانتا،شافعی مسلک کے سنّی برادران زیادہ تر معاویہ کو قبول نہیںکرتے،یہاں تک کہ معاویہ کے بارے میں کتابیں لکھیں ہیں،مصر کے مشہور و معروف مصنف’’عباس عقاد‘‘ نے معاویہ کے بارے میں ایک کتاب ’’معاویہ فی المیزان‘‘لکھی ہے جس میں معاویہ کو تولا ہے ایک نہایت عجیب و غریب کتاب جس میں معاویہ کے کردار کا تجزئیہ کیا ہے، البتہ بہت سے برادران اھل تسنن جو حنفی مسلک ہیں اورہمارے ملک کی جنوبی اور مشرقی سرحدوں پر آباد ہیں۔اور اسی طرح عالم اسلام میں زندگی گذار رہے ہیں یہ لوگ معاویہ کو مانتے ہیں،اور ہم لوگ کہ جو معاویہ کو نہیں مانتے ان کے احساسات کو مجروح بھی نہیں کرنا چاہتے اور ان کی رائے کااحترام کرتے ہیں ہم اُن کی توہین نہیں کرتے،مگر جو تاریخی حقائق ہیں اس کو بیان کئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔حضرت امیرالمومنین علیہ السلام معاویہ کو قبول نہیں کرتے تھے حضرت امیرعلیہ السلام ،اور معاویہ کا کوئی تقابل ہی نہیں تھا۔یہ تو تاریخ اور زمانے کے بدترین مظالم میں سے ایک ظلم تھا کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا معاویہ سے موازنہ کیا گیا۔اس لیے نہیں کہ معاویہ نے اپنی حکومت میں سیاہ کارنامے انجام دئیے یا حضرت امیرعلیہ السلام کے ساتھ کیا نہیں کیا بلکہ یہ موازنہ اس لیئے غلط ہے کہ خود اس کی شخصیت اس قابل نہیں ،چاہے اسے قبل از خلافت حضرت امیرعلیہ السلام دیکھا جائے یا بعد از خلافت۔
امیرالمومنین علیہ السلام اس ذات کا نام ہے کہ جو اسلام کی کرن پھوٹتے ہی ایمان لائے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے ’’قولوا لا الہ الا اللہ ‘‘ جاری ہونے کے بعد مردوں میں اگر کسی نے یہ دعوت قبول کی ہے تو وہ علی علیہ السلام ہیں اور پھر تادم مرگ یعنی ۵۰ پچاس سال سے زیادہ عرصہ تک حضرت علیہ السلام اسی راہ میں عاشق صادق کی طرح ڈٹے رہے ،جہاد کیا،ہزاروں مرتبہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان سے دفاع کیا مقدسات اسلامی کی پاسبانی کی، مومنین واقعی اور مخلصین کی جان بچائی ساری زندگی زحمت و رنج اٹھاتے رہے ایک شب بھی آسودہ خاطر ہو کر نہ سو سکے،اور اسی ایماںکی وجہ سے مکہ میں ۱۳ تیرہ سال تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے اور مدینہ میں ۱۰ دس سال تک تمام آزمائشوں ،مشکلات و حوادث میں حضرت کے شانہ بشانہ ،سایے کی طرح ساتھ ساتھ تھے۔یہ تو رہا سکّے کا ایک رُخ اُدھر آپ کا علم،معرفت ،تقویٰ و پارسائی ،جہاد ،دنیا سے بے توجہی،زہد کہ جب یہ ساری خصوصیتں سامنے آتی ہیں تو ذہن میں ایک عظیم انسان کا تصور ابھرتا ہے۔اب آ کے ذرا معاویہ کو بھی دیکھ لیجئے،یہ وہی شخص ہے کہ جس وقت امیرالمومنین علیہ السلام ایمان لاتے ہیں یہ ایمان سے کوسوں دور تھا،حضرت امیرعلیہ السلام نے اسلام کا دفاع کیا اور اس کے باپ،بھائی،خاندان والے اور خود یہ بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،امیرالمومنین علیہ السلام اور اسلام کے مقابلے میں صف آرائی کئے ہوئے تھے،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری ۱۳ تیرہ سالہ مکی زندگی میں گروہ ابو سفیاناور اس کے بیٹے جنگ و جدال کر رہے تھے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکے سے ہجرت کر کے مدینہ آگئے پھر بھی یہ لوگ اپنی حرکت سے باز نہیں آئے اور مستقل فتنہ پروری کرتے رہے اور جنگ کرتے رہے بدر واحد،خندق کو ان ساری جنگوں میں کہ ۸ آٹھ ہجری تک سر اُٹھاتی رہیں ہیں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت و مدد کے لئے ساتھ ساتھ تھے معاویہ آپ کے مقابل جنگ و جدال کر رہا تھا،یہاں تک کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ فتح کر لیا۔اور اب ان سب کو مایوسی ہو گئی۔اس وقت ابو سفیان اسلام کے مقابل جھکا اور سارے مغلوبین نے بنا بر مجبوری اپنے سر اسلام کے سامنے جھکادئیے کہ جس میں سے ایک معاویہ بھی تھا!
آپ ذرا غور تو فرمائیں ان دو شخصیتوں کے حالات کہ ان میں سے ایک ابتدا سے ہی اسلام کو اپنے آغوش میں لے لیتا ہے ،اسے پروان چڑھاتا ہے،اس کی حفاظت کرتا ہے اس راستہ میں تلوار چلاتا ہے یہاں تک کہ اسی شمشیر زنی کے نتیجہ میں ایک دن مکے کی فتح نصیب ہوتی ہے جب کہ دوسرا شخص وہ ان ساری مدتوں میں ایمان سے بے بہرہ اسلام سے دور،اس سے جنگ و جدال کرتا ہے اور جب مکہ فتح ہوتا ہے تو وہ بھی ایمان لیے آتا ہے یعنی جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غالب ہو جاتے ہیں تو یہ تسلیم ہو جاتا ہے اور یہ صورتحال جو میں نے بیان کی ہے اس سے دونوں اشخاص کے مابین ایک بڑے فاصلے کو سمجھا جا سکتا ہے بہرصورت امیرالمومنین علیہ السلام کسی لحاظ سے بھی معاویہ کو ولایت و امارت اسلامی کے لیے مناسب نہیں سمجھتے تھے لہذا آپ جیسے ہی برسرِ خلافت پر بیٹھے معاویہ کو معزول کر دیا جب کہ اس سے قبل سالہا سال سے اس کے قبل اسکا بھائی،یزید بن ابوسفیان ،پھر معاویہ خود ۔شام میں حکومت کر رہا تھا حضرت نے اسکو معزول کر دیا! حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے کچھ لوگوں نے کہا،آپ اس قدر معاویہ کو معزول کرنے میں جلد بازی نہ کریں،ذرا اپنی حکومت کے پائے مستحکم کر لیجئے پھر یہ کام کریں فرمایا’’اقامرونی ان اطلب النصر بالجور
اورپھروہ حضرت سے علیحدہ ہو گئے اگرچہ دشمنوں سے بھی جا کر نہیں ملے کہ اس کی توقع بھی ان سے نہیں تھی۔
تاریخ میں جس قدر غور و غوض کریں آپ کو ایسی بہت سے مثالیں علی علیہ السلام کی حیات طیبہ میں نظر آئیں گی۔تو آیئے ہم بھی اپنی زندگی میں ان سب باتوں کو جگہ دیں اور حضرت کی اتباع میں اپنے رفتار و اعمال کی تصحیح کریں۔
تم مجھے حساب دو:
اس سے پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ ’’عبداللہ بن عباس‘‘ آپ کے چچا زاد بھائی،شاگرد،محب اور ان افراد میں سے ہیں جن کو دوسروں کی بہ نسبت امیرالمومنین علیہ السلام کی مصاحبت کا زیادہ شرف حاصل ہے، اور آپ کی جانب سے بصرہ کے والی بھی مقرر ہوئے تھے،اور اگرچہ یہ واقعہ آپ کی زندگی میں رونما ہوا اور نہج البلاغہ میں اس کا تذکرہ بھی ملتا ہے اور حضرت امیرعلیہ السلام نے اس پر شدید رد عمل بھی ظاہر کیا تھا مگر وہ آخر تک آپ کے مرید رہے بلکہ آپ کے مبلغ اور وفادار اور آپ کی عقیدت و محبت کے منادی تھے اور آپ کی رفاقت سے تاحیات منہ نہیں موڑا۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت علیہ السلام کو خبر ملی کہ ’’عبداللہ بن عباس‘‘ نے بیت المال کا کچھ بیجا تصرف کیا ہے لہذا حضرت نے ایک خط میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ تم مجھے اس کا حساب دو! ذرا توجہ کریں حضرت نے یہاں یہ نہیں دیکھا کہ وہ میرے چچا کے لڑکے ہیں اگر میں ان سے حساب و کتاب کے لیے کہوں گا تو انھیں برا لگے گا وہ اسے اپنی اھانت سمجھے گا۔جب ہم جانتے ہیں کہ ہر آن فردی یا اجتماعی ذمہ داری رکھنے والا کوئی بھی شخص لغزش کر سکتا ہے ،راستے سے بھٹک سکتا ہے تو پھر اس میںلحاظ کرنا،تکلفات سے کام لینا وغیرہ خود اپنی جگہ ایک بیجا چیز ہے۔کسی کی ناراضگی کے ڈر سے اپنی یہ ذمہ داری پوری نہ کرنا غلط ہے اس لیے کہ حساب و کتاب لینا یا ذمہ داران مملکت پر نظر رکھنا،ایک ذمہ دار حاکم کا فریضہ عینی ہے۔
تقسیم مناصب اور عہدے سے برخواست کرتے و قت علی علیہ السلام کے اٹل فیصلے:
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ ہر عہدہ و منصب ہر ایک کے حوالے نہیں کیا جا سکتا قانون اور ضابطے کے تحت عہدہ لیتے وقت شخص کے لیے اس عہدے کی اہلیت رکھنا ضروری ہے۔اور حضرت امیرعلیہ السلام کی حکومت میں اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا۔انھیں موارد میں سے ایک موردیہ بھی ہے کہ جب حاکم شام کی طرف سے مصر کی حکومت پردشمنوںکے حملہ بڑھنے لگے اور حضرت کو یہ احساس ہونے لگا کہ والی مصر حضرت محمد بن ابی بکر جو حضرت کے مخصوص شاگردوں او ر دوستوں میں سے تھے ۔مصر کی حکومت کو نہیں سنبھال سکتے اور وہاں کسی قوی و طاقتور شخصیت کی ضرورت ہے تو آپ نے مالک اشتر کو مصر کا والی بنا دیا اگرچہ جناب مالک اشتر مصر جاتے وقت راستے ہی میں دشمن کے ناپاک عزائم کا شکار ہو کر شہید ہوگئے اور مصر تک نہیںپہنچ سکے مگر جب حضرت کو یہ احساس ہوا کہ مالک اشتر اس کام کے لیے زیادہ اہل ہیں تو انھیں فوراً مصر روانہ کر دیا اور محمد بن ابی بکر کو وہاں کی حکومت سے معزول کر دیا۔بہر حال آپ بھی بشر اور ایک انسان تھے۔ اس لیئے آپ کو برا لگا اور حضرت کو ایک شکایت آمیز خط لکھا۔ حضرت آپ کو اپنا بیٹا بنا چکے تھے اور آپ سے غیر معمولی محبت کرتے تھے مگر جواب میںلکھا ’’میں نے چونکہ مالک اشتر کو اس عہدے کے لیے زیادہ اھل پایا اس لیے تمھیں معزول کر کے انھیں بھیج رہا ہوں، میں تم سے بدگمان نہیں ہوں ہاں البتہ مالک اشترکو اس جگہ کے لیے بھیج دیا ہے اس لیے نہیں کہ میں نے تم کو حقیر جانا ہے یا تم سے مجھے کوئی بدگمانی ہو گئی ہے‘‘یہ ہے علی علیہ السلام کا اٹل فیصلہ
____________________