• ابتداء
  • پچھلا
  • 12 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8769 / ڈاؤنلوڈ: 3314
سائز سائز سائز
بصیرتیں

بصیرتیں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

بصیرتیں

پروفیسر سید مجاور حسین رضوی

ماخذ:اردو کی برقی کتاب

***

قصیدہ

تمام اصناف سخن میں قصیدہ واحد صنف سخن ہے جسے منتخب افراد، منتخب قارئین یا ناظرین کے لئے منتخب زبان میں پیش کرتے ہیں۔ قصیدہ کے پورے عمل میں لفظ انتخاب کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اس کے ممدوحین منتخب روزگار ہوتے ہیں ان سے وابستہ تاریخیں منتخب ہوتی ہیں کسی صنف سخن کو یہ امتیاز حاصل نہیں ہے کہ یہ پہلے سے طئے ہو کہ تیرہ رجب جب آئے گی تو قصیدہ خوانی کی بزم سجے گی سترہ ربیع الاول کو قصیدہ کی محفل آراستہ ہو گی تیسری شعبان کو فضا میں درود کی آوازیں گونجیں گی پندرہ رمضان کو بھی نعرہ صلوات سے اس تاریخ کا استقبال ہو گا۔

اور یہ اسوقت ہے جب بعض منفی ذہن رکھنے والے محققین اور نقاد قصیدہ کو مردہ صنف سخن قرار دے چکے ہیں دراصل کچھ لوگوں نے مشاہدات کی دنیا چھوڑ کر مزعومات کی دنیا کو اپنایا اور ان کے خیال میں اردو شاعری صرف غزل یا مغرب سے مستعار ہئیتی تجربوں تک محدود ہے دراصل یہ وہ لوگ ہیں جنہیں مشرق کے علم و فضل کی روایات سے کبھی ہم آہنگی تو رہی نہیں یہ لوگ صرف اک پیمانہ جانتے تھے اور وہ پیمانہ تھا بازار کا جو چیز۔ بازار میں چلتی ہے بس وہی زندہ ہے۔

قصیدہ نے اس طرح کے تمام ادبی اوہام باطلہ کی بت شکنی کی۔ کوئی شخص بھی ہر صنف سخن کو سڑک پر یا بازاروں میں پڑھتے ہوئے چل سکتا ہے مگر قصیدہ کو سڑک پر یا بازار میں نہیں پڑھا جاتا نہ پڑھا جاسکتا ہے یہ صرف اہل علم و فضل کے دربار کی چیز ہے۔ لوگوں کے ذہن میں غلط تصور تھا کہ قصیدہ کا دربار یادگار سے وابستہ تھا بیشک قصیدے کا تعلق دربار درگاہ سے تھا لیکن وہ دربار یقیناً ختم ہو گئے جہاں مہ نو جھک کے سلام کیا کرتا تھا لیکن وہ دربار نہ کبھی ختم ہوئے ہیں نہ کبھی ختم ہوں گے جن کے درکار ذرہ آفتاب ہے جہاں صبح کو سورج کی کرنیں سجدہ ریز ہو کے تابانی حاصل کرتی ہیں۔

یہ امتیاز صنف قصیدہ کو حاصل ہے کہ اس نے منتخب افراد کو اپنا ممدوح بنایا۔

یہاں اس نکتہ کی وضاحت ضروری ہے کہ اس صنف سخن کو مذہبی اور عصبیت و تنگ نظری کے حصار میں قید کر کے نہ دیکھا جائے اس صنف سخن کو بھی یہ امتیاز حاصل ہے کہ دوارکادس شعر مہاراجہ بلوان سنگھ سے لے کر دور حاضر میں جگن ناتھ آزاد، وشنو کمار شوق تک نے بڑے معرکے کے قصائد لکھے ہیں اگر کسی نے یہ قصائد نہیں پڑھے تو بے اختیار یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ

گر نہ بلند بروز سپرہ چشم

چشمۂ آفتاب را چہ گناہ

قصائد کو حالی سے متاثر ہو کر تضحیک آمیز خطابات سے سرفراز کرنا دلیل کم نظری ہے شاعر قصائد کے ذریعہ ممدوح کا نام لے کر اخلاقیات کے اعلیٰ ترین معیار پیش کرتا ہے بالخصوص مذہبی دنیا میں جو ممدوحین ہیں وہ اپنی صفات کے اعتبار سے اس منزل پر فائز ہیں جہاں الفاظ کی تنگ دامانی کا احساس ہوتا ہے صفات زیادہ لفظوں کی دنیا بہت مختصر۔ لیکن جیسا کہ ابتداء ہی میں عرض کیا گیا قصیدہ نگاری بھی منتخب افراد کا کام ہے قصیدے کے ممد و حین بھی منتخب روزگار ہوتے ہیں اور بے اختیار یہ عرض کرنے کو جی چاہتا ہے کہ قصیدہ شناسی بھی ہر حرف شناس کا کام نہیں ہوسکتا اس کے لئے بھی کڑھی ہوئی شخصیت وسیع مطالبہ اور بیشتر عوام و فنون سے واقفیت اور آگہی لازمی ہے اس لئے قصائد میں اصلاحات علمیہ کے ساتھ مختلف فنون کے لئے اشارے اور کتابیں بھی ملتے ہیں اور ان سب کے ساتھ ابری اقدار حیات کی مالک شخصیتوں کے تذکرے میں مذہبی تاریخ اور طہارت نفس کے تذکرے بھی نظر آتے ہیں اور یہ کام صرف وہ لوگ انجام دے سکتے ہیں جو شعراء میں بھی ’’منتخب‘ ہوتے ہیں۔

ایسے ہی منتخب شعراء میں سید زوار عباس مرحوم تھے۔

***

سید زوار عباس مرحوم

ان کا تعلق قصبہ کراری سے تھا آپ کاسلسلۂ نسب حضرت امام محمد تقی کے دوسرے صاحبزادے سید موسیٰ برقع سے ملتا ہے یہ لوگ فیروز شاہ تغلق کے عہد میں ہندوستان آئے فیروز شاہ تغلق نے انہیں گورنری کی سند دی سید حسام الدین نے کراری کے خطے کو آباد کیا یہ لوگ حقیقی معنوں میں کرارے کی تانیث نہیں بلکہ کراری ہیں اس وجہ سے قصیدے کی زبان میں جو مداحی اہلبیت کی چاشنی ہونی چاہئے وہ اہل کراری کے پاس ہے۔ زوار عباس مرحوم کی شخصیت میں جو وجاہت وزن اور وقار تھا وہ بھی قصیدے کی مخصوص فضاء اور زمین سے ہم آہنگ تھا وہ انسپکٹر جنرل (رجسٹریشن) بھی رہے۔ امیر صدر ان لوگوں کا خاندانی خطاب تھا بظاہر یہ نکتے غیر اہم سمجھے جاتے ہیں لیکن شخصیت بہرحال شاعری میں جلوہ گر ہو کر رہتی ہے اور قصیدہ جس جاہ و جلال، عظمت شان و شکوہ وقار اور رکھ رکھاؤ کا مطالبہ کرتا ہے وہ سب پہلو زوار عباس کی شخصیت میں نظر آتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ ان کا مزاج کلاسیکی تھا لیکن وہ اپنے عہد کے معاصرین کے انکار اور لب و لہجہ سے بے خبر نہ تھے انہوں نے اس کا لحاظ رکھا کہ ان کا کلام بے وقت کی راگنی معلوم نہ ہو۔

قصیدہ عربی میں ایسی صنف سخن تھی جس میں غزل کا شباب اور رثائیت کا گداز، فخر و لہجہ، مدح و ز سبھی کچھ تھا زوار عباس غزل کے شاعر تھے مگر انہوں نے غزل کو ’’سلام‘ نہیں کیا بلکہ اسے صلابت فکر سے قصیدہ کا جز بنا دیا ان کے بعض بے حد مقبول قصائد کی نشیب میں رنگ تغزل اس طرح جھلکتا ہے جسے سبز پتیوں کی آڑ لے گلاب کے پھول کا حُسن دہائی دے رہا ہو نشیب کے دو چار اشعار ملاحظہ ہوں۔

دیوانے سنگ راہ سے ٹکرائے جاتے ہیں

یہ کس نے کہہ دیا ہے کہ وہ آئے جاتے ہیں

دو دن کی زندگی میں یہ کب تک سنا کروں

وہ چار دن کی بات ہے وہ آئے جاتے ہیں

نظریں جھکائے بیٹھے ہیں مٹھی میں دل لئے ہوئے

پوچھا پتہ تو کہہ دیا کا ہے کا اضطراب ہے

یہ عریضے تو ہیں تجدید تمنا کے لئے

آرزو دل میں ہیں کیا جانئے کیا کیا باقی

تغزل کے ساتھ ان کے یہاں علم بدیع و بیان کے وہ خوبصورت پہلو بھی نظر آتے ہیں جنہیں عرب عام میں صناعی کہا جاتا ہے مختلف صنعتوں کی نمائندگی کرنے والے کچھ اشعار پیش کئے جا رہے ہیں مثلاً صنعت براعتدالاسہلال کا نمونہ ملاحظہ ہو اس صنعت کے ماہرین میں دیا شنکر نسیم اور مرزا دبیر کے نام بہت مشہور ہیں یہ وہ صنعت ہے جس میں ابتدائی اشعار میں بعد میں آنے والے واقعات کی حُسن کارانہ انداز میں نشاندہی کر دی جاتی ہے۔

درہم و برم جہاں میں اب نظام امن ہے

ہے ترقی پر نفاق و فتنہ و شر کا چلن

اب شاعرانہ فنکاری دیکھئے متذکرہ بالا شعر میں بھی اور درج ذیل شعر میں اس صنعت کے ساتھ عصری حسیت بھرپور طور سے نظر آ رہی ہے۔

اب یہ شعر دیکھئے امام زمانہ علیہ السلام کی مدح میں ہے عرض مدعا ہے اور عصری حسیت بھرپور طور سے موجود ہے

حرمت مسجد اقصیٰ کو بچا لے آ کر

اہل شر کا ہے فلسطین پہ قبضا باقی

ایسا نہیں ہے کہ یہ پہلو صرف سنگلاخ زمینوں میں نظر آتا ہے ہو انہوں نے قصیدے کی زمین میں ایسے تجربہ بھی کئے جہاں عصری حسیت آہنگ، لحن اور ترنم ہے یہ شعر ملاحظہ ہو:

زمانہ کا ہر اک قدم ہے انقلاب آفریں

سیاست جہاں کا مکر وجہ انتشار ہے

لیکن ان کا شعری مزا ج اور شعری وراثت کلاسیکی رچاؤ اور صناعی سے الگ نہیں ہٹ سکتا چنانچہ ان کے کلام میں نمایاں ہی نہیں بلکہ غالب عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔

قسمت سے وہاں حُسن تصور کا گزر ہے

واللیل جہاں شام ہے والعجز سحر ہے (صنعت تلمیع)

وہ نور جو ہے دامن والشمس کی زینت

جس سے کہ زمانہ میں تجلی سحر ہے (صنعت تلمیع)

ہوتی ہے جہاں بارش انوار الٰہی

ہر ذرہ جہاں غیرت خورشید و قمر (صنعت طباق)

V ہر نقش قدم صورت ’’والنجم‘ ہے روشن

غیرت دہ صد کا ہکشاں راہ گزر ہے (تلمیع و رعایت لفظی)

تین اشعار میں صنعت تلمیع ہے جسے ملمع بھی کہتے ہیں یہ وہ صنعت ہوتی ہے جس میں اپنی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان کی ترکیب خصوصاً عربی کی ترکیب۔ فارسی میں قرۃ العین طاہرہ نے اس صنعت میں بڑی شہرت حاصل کی مراثی ہیں اس کی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں قصائد میں بھی یہ صنعت کلام کو شعری جلالت پیدا کرتی ہے اب مثلاً پہلے شعر میں ’’واللیل‘ دوسرے شعر میں ’’والشمس‘ چوتھے شعر میں ’’والنجم‘ نے ان اشعار کو صنعت ملمع کا نمونہ بھی بنایا اور جلالت فکر بھی عطا کی، ان صنعتوں کی وجہ سے حُسن معنی ہیں چار چاند لگ جاتے ہیں۔

مشکل اور سنگلاخ زمینوں کو سامعین کے ذہنوں سے اس طرح ہم آہنگ کر دینا کہ جس رات محفل ہو دوسری صبح قصیدے کے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سیر کر رہے ہوں۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی مدح

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی مدح میں ان کا معرکۃ الآرا قصیدہ قبولیت عام کے عطر سے آج تک مہک رہا ہے یہ اشعار ملاحظہ ہوں

خامشی میں یوں نظام جبر کو دی ہے شکست

حلم و تقویٰ تھے علم بردار زین العابدین

طشت میں دھو دن کا ہر قطرہ بنا لعل و گہر

اللہ اللہ دست فیض آثار زین العابدین

اس پہ ہوتے ہیں ملائک اجبہ سا شام و سحر

عرش رفعت کیوں نہ ہو سرکار زین العابدین

یہ اشعار وہ ہیں جن کی لطافت خیال دلوں کو تڑپا دیتی ہے صرف ایک شرط ہے اور وہ اردو کے شعری مزاج سے باخبری یہ ایسے اشعار ہیں جن پر رگھوپتی سہائے فراق خوش ہو کر کہا کرتے تھے یہ زوار عباس ہم لوگوں کا شاعر ہے۔

منقبت کے ساتھ نعتیہ قصائد بھی لکھے ہیں ان کا مندرجہ شعر سرکار دو عالم کی مدح میں ہے اور اہل دل کے لئے بارش انوا رہے کہتے ہیں۔

حبیب کے جمال میں خود اپنا جلوہ دیکھ کر

مصور جمال کا کمال مسکرا اٹھا

یہاں بندش کی چستی اور ترکیب کی حُسن اور الفاظ کے در و بست نے اک جہاں معنی کو خلق کیا ہے۔

کہیں کہیں ایسے قصائد ملتے ہیں جہاں اساتذہ کی زمین میں طبع آزمائی گئی ہے مثلاً امام حسن علیہ السلام کی مدح میں یہ قصیدہ کا یہ شعر بے اختیار سودا کی یاد دلاتا ہے۔

نظر افروز ہے حسن ازل کی جلوہ سامانی

کہاں جاتی ہیں لیکن دیدہ حیراں کی حیرانی

ان سب محاسن پر مستزاد یہ انہوں نے اپنے عہد کے شعری مزاج کی صالح اور صحت مند اقدار کو نظرانداز نہیں کیا انہیں یہ خیال رہا کہ وہ قدیم رنگ اپنی جگہ پر حَسین اور خوبصورت صحیح لیکن مذاق عصر نو کے تقاضوں سے صرف نظر ممکن نہیں ہے ان کی شاعری کا عروج اور اسی زمانہ میں اقبال، جوش کا بلند آہنگ کلام ترقی پسند تحریک کی صدائے احتجاج ہے۔ ادبی محفلوں میں معاصر شعراء کا ساتھ ان سب نے انہیں متاثر کیا اب قصائد کے یہ اشعار دیکھئے ایسا نہیں معلوم ہو گا کہ یہ کسی اور زمانہ کا نغمہ کہتی ہے بلکہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اپنے عصر کے تناظر میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نظر نظر حق آگہی قدم قدم بلندیاں

حسین تیری زندگی پیام انقلاب ہے

نظروں میں اعتبار محبت بڑھا گئی

کس کی صدائے دل ہے کہ دنیا پہ چھا گئی

اجل کو زندگی نو کا یہ خطاب آیا

سنبھل سنبھل کہ خداوند انقلاب آیا

رخ حیات پہ سرخی تازہ دوڑ گئی

حسین آئے کہ اسلام پر شباب آیا

ان اشعار میں اک ولولہ تازہ، زندگی کی تغیر پذیر اقدار کے لئے دعوت تفہیم ہے اور نور کو عالم آب و گل میں دیکھنے کی سعی مشکور ہے۔

زوار عباس صاحب مرحوم نے قصائد کی دنیا میں اک نئی جہت کی نشاندہی کی ہے ان کا کلام یہ سمجھتا ہے کہ چراغ ہنر ا کر روشن ہوتا ہے تو پھر کبھی نہیں بجھتا وہ شاعری کے ایسے ہی روشن چراغ تھے جنہوں نے فانوس فکر کو محبت اہلیت کے نور سے منور کیا ہوسکتا ہے زمانہ کا قرینہ بدل جائے ممکن ہے زبان کا یہ سفینہ نہ رہے امکان ہے کہ تہذیب و ادب کا یہ فریضہ بھی نہ رہے لیکن ان کے چراغوں میں جو روشنی ہے وہ باقی رہے گی اس لئے کہ یہ وہ روشنی ہے جو کسی علاقہ کی پابند نہیں ، جو افق تا افق فضائے بسیط کو منور کرتی رہتی ہے۔

***

دل آگاہ کا شاعر : اکبر الہ آبادی

آپ نے الہ آباد دیکھا ہے؟

یہ درست ہے کہ آزادی کے بعد اس شہر نے وزیر اعظم دئیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا سنگم صرف گنگا جمنا کے وصال کا نام نہیں ہے بلکہ یہ شہر دلوں کا سنگم بھی ہے۔ جمنا تو بہت ساری جگہوں سے گزرتی ہے مگر جمنا کے ہونٹوں پر جس طرح الہ آباد میں غزل رقصاں نظر آتی ہے وہ شاید آگرہ میں ہو تو اور تو کہیں نہیں ہے! یہاں تو گنگا کی ہر بوند میں روایات کے سمندر نظر آتے ہیں۔ یہ شہر دل کی دھڑکنوں کا، علم کے نشے سے بوجھل آنکھوں کا، پر کیف انگڑائیوں کا شہر ہے۔

لیکن یہ شہر جو شہر گل عذاراں ہے اور جو نگارستان عیش ہے، وہیں اس شہر میں ایک ایسی سڑک ہے جس کے ہر ذرہ میں تاریخ لپٹی ہوئی ہے، سنار گاؤں سے پیشاور جانے والی شاہراہ اعظم چپ چاپ پڑی ہوئی تاریخ کے ستاروں کو طلوع و غروب ہوتے دیکھا کرتی ہے۔ وسط شہر میں اس کے کنارے داہنی طرف بہت بڑی سی مسجد ہے اور تھوڑاسا صلیبی زاویہ لئے ہوئے گرجا گھر ہے۔ مسجد کے سامنے کوتوالی ہے۔ گرجا گھر کے پاس نیم کا پیڑ اور لوک ناتھ کا تاریخی محلہ ہے۔

۱۸۵۷ ء میں یہ سڑک شہیدان وطن کے خون سے لالہ زار بن گئی تھی۔ مہنگاؤں کے مولوی لیاقت علی، قاضی محسن علی اور اسی طرح کے بہت سے سورماؤں نے انگریزوں سے ٹکر لی تھی۔ ہاں وہ شہر جہاں خسرو باغ کا سبزہ شاداب تھا اور درخت پھلوں سے لدے رہتے تھے۔ وہ شہر خون سے لالہ زار ہوا تھا اور درختوں پر بلند ہوتے ہوئے مجاہدوں کے سرنظر آئے جنہوں نے ایسے چراغ روشن کئے تھے، جن کی روشنی کو تاریخ بھی نہ دھندلا سکی۔

ایسے میں تصور کیجئے! بارہ تیرہ سال کا ایک لڑکا متوسط طبقہ کا! ان واقعات کے بارے میں سنتا ہو گا تو اس پر کیا کچھ نہ گزرتی ہو گی۔ کیا اس نے یہ نہ سوچا ہو گا کہ الہ آباد میں اکبر کا بنوایا ہوا قلعہ اور اب دھیرے دھیرے اس شہر کی تاریخ کا سہاگ چھن گیا ہے۔ وہ سر برہنہ اپنے ہی ملک میں اجنبی بن گئی ہے۔

یہ لڑکا اپنے ہم نام کو تو ضرور یاد کرتا ہو گا۔ ساتھ ہی ساتھ اس لٹی ہوئی بساط، اجڑی ہوئی محفل اور نفسیاتی طور پر کچلی ہوئی شخصیت کو یقیناً کچھ ہی دنوں بعد قفس کی تیلیاں نشیمن کے تنکوں سے زیادہ اچھی لگنے لگی ہوں گی۔

ایسے میں اگر کہیں پناہ مل سکتی تھی تو پھر شعر و نغمہ کی محفلوں میں ہی مل سکتی تھی اس لئے ادبی وراثت کے طور پر غزل کا جادو مسحور کرنے لگا۔ کوٹھوں پر رقص، گھنگھروؤں کی جھنکار، طبلوں کی تھاپ اور نازو انداز کے ساتھ سنائی جانے والی غزلیں گونجنے لگیں۔

شعر و سخن کا ماحول، روایات کی پاسداری، طبع موزوں۔ چنانچہ سترہ سال کی عمر میں غزل لکھی تو اس طرح کے شعر کہے

چشم عاشق سے گرے سخت دل بیتاب و اشک

آپ یوں دیکھتے تماشا جان کر سیماب و اشک

یہ قافیہ پیمائی یا فنی لوازم کی پابندی بہت دنوں تک ساتھ رہی۔ بائیں برس کے ہوئے تو ایسے شعر کہہے

لکھا ہوا ہے جو رونا میرے مقدر میں

خیال تک نہیں جاتا کبھی ہنسی کی طرف

یہ شعر پڑھنے کے بعد ذرا اکبر کی بعد کی شعری زندگی کے ایک رخ کے بارے میں سوچئے۔ وہ جس کا خیال تک ہنسی کی طرف نہ جاتا تھا۔ زیادہ تر ہنساتا ہی رہا اور دراصل اس کا سبب تھا۔

اعجاز صاحب بتاتے تھے کہ اکبر کا قد ’’فتنہ‘ یعنی قلیل تھا، اس پر شکل و صورت کے اعتبار سے نہ صرف یہ کہ جاذبیت نہ تھی بلکہ کچھ بے ڈھنگے پن کیا احساس ہوتا تھا اس طرح کی شخصیت عموماً احساس کمتری کا شکار ہوتی ہے۔

یہ ذاتی احساس کمتری جب ماحول کے جبر سے ہم آہنگ ہوتا ہے تو کھیائی ہوئی شخصیت وجود میں آتی ہے۔ دراصل طنز، استہزاء اور تمسخر، کھسیاہٹ کی پیداوار ہیں۔ سیاسی طور پر ہندوستان کی صورتحال جو کچھ تھی وہ اپنی جگہ پر۔ تہذیبی طور پر اتنی زبردست یلغار ہوئی تھی کہ اپنے گھر کی کوئی چیز بچتی ہوئی نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے اپنے گھر میں خود اجنبی ہو رہے ہیں۔ تہذیبی طور پر ایک حساس دل ویسی ہی کیفیت سے دوچار تھا۔ جیسی کیفیت اس لڑکے کی ہوتی ہے جو اپنے سے طاقتور سے پٹ جانے کے بعد اسے چونچ دکھا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہے۔

اکبر کے یہاں بھی دراصل یہی کیفیت ہے، اسے طنز و مزاح نہیں اعلان بے بسی سمجھئے جو کچکچلاہٹ اور کھسیاہٹ کا رد عمل ہے۔ چنانچہ اکبر کی شعری شخصیت کا وہ رخ جسے عرف عام میں طنزیہ و مزاحیہ شاعری کہا جاتا ہے۔ دراصل مغربی یلغار کو چونچ دکھانے کے مترادف تھا۔

اکبر بے حد ذہین اور حساس تھے۔ اپنی شعری روایات سے باخبر تھے۔ انہیں یقیناً یاد رہا ہو گا کہ انشاء نے دوسری زبانوں خصوصاً انگریزی کے الفاظ کھپا کر صنعت ملمع کے سہارے سے ایک بے تکی شکل بنا کے گدگدایا ہے۔ اکبر نے بھی اپنے گرد و بیش سے اثر لیتے ہوئے نئی تیز روشنی میں بسورتے ہوئے، منھ بناتے ہوئے لیکن آنکھیں بند کر کے لفظی پتھراؤ شروع کر دیا۔

البتہ جب کبھی انہیں فرصت ملتی تھی وہ غزل کے آہوئے رم خوردہ سے گفتگو کر کے اپنی وحشت کم کر لیا کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے اشعار کی نصف سے کچھ کم تعداد غزلوں کی ہے۔ ان کی غزلیں مشرق شعری روایات کی پاسدار ہیں لیکن کہیں کہیں ایک نیا راستہ بھی تلاش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان غزلوں میں بالکل نئی دنیا ہے۔ عشق کی دنیا اور یہ عشق حقیقی بھی ہے اور مجازی بھی۔ مجازی عشق میں کہیں کہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یسے ذاتی تجربات میں جو اشعار میں ڈھل گئے ہیں۔ یہاں وہ ’’مسٹر۔ سسٹر‘ والے اکبر نہیں ہیں بلکہ ایک معصوم صفت بھولے بھالے مگر ’’پورے‘ آدمی ہیں جو رنگینیوں پر پھسل جاتا ہے۔ انگڑائیوں سے جس کا بدن ٹوٹتا ہے جو کسی ندیدے بچے کی طرح مٹھائی دیکھ کر منھ بھی چلنے لگتا ہے اور موقع محل دیکھ کر مٹھائی پار بھی کر جاتا ہے۔ ان کے کلام کے اس رخ پر امیر و داغ کے اثرات ہیں ، کسی حد تک ان کی بے حجابی ہے مگر ان کا پھوہڑ پن نہیں ہے۔ داغ و امیر کا عشق ’’باریش‘ کچھ اس انداز میں بھی آتا ہے کہ شرافت ’’شر‘ اور ’’آفت‘ میں بدل جاتی ہے۔ شیخ اور واعظ میں یہی شرافت ہے۔ اس پر شوخ طنز دیکھئے

دل بھی کانپا ہونٹ بھی تھرانے، شرمایا بھی خوب

شیخ کو لیکن تیری مجلس میں پینا ہی پڑا

نا تجربہ کاری سے واعظ کی ہیں یہ باتیں

اس رنگ کو کیا جانے پوچھو تو کبھی پی ہے

جلیل مانک پوری نے میخانے کی دنیا بہت بعد میں اس انداز سے سجائی تھی جہاں توبہ شکنی بھی تھی اور بادل کا رنگ دیکھ کر نیت بھی بدل جاتی تھی۔

لیکن اکبر رنگ شراب سے ہی نیت بدل لیتے ہیں

رنگ شراب سے میری نیت بدل گئی

واعظ کی بات رہ گئی ساقی کی چل گئی

اور جب ذکر شراب ہے تو پھر شباب کے بھی تقاضے ہیں۔

نگاہ ناز بتاں پر نثار دل کو کیا

زمانہ دیکھ کے دشمن سے دوستی کر لی

بیان حور اور ذکر سلسبیل اس لئے بھی اچھا لگتا تھا کہ جوانی تھی اور عقیدہ عشرت امروز کا تھا۔ کبھی داغ کا رنگ ابھر آتا ہے تو کہتے ہیں

زبان و چشم بتاں کا نہ پوچھئے عالم

وہ شوخیوں کے لئے یہ نہیں حیا کے لئے

اکبر اس رنگ کے ساتھ غزل میں حسن مکالمہ کے قائل ہیں۔ مکالمہ ڈرامائیت تو پیدا کرتا ہی ہے، شاعر کے جذبات کو قاری کے بھی قریب لے آتا ہے، جو اشعار پیش کئے جا رہے ہیں ان میں یہ غور نہ کیجئے کہ شوخی، بے حجابی کی سرحدوں پر کھڑی ٹھٹھا لگا رہی ہے بلکہ صرف یہ سوچئے کہ جب دنیا جوان ہوتی ہے تو عشق کرنا ہی پڑتا ہے اور جب عشق ہوتا ہے تو کچھ اس طرح کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔

’’دل میں جو ہے وہ ہو گا شب وصل میں ضرور؟‘

ہو گا حضور آپ کی شرم و حیا سے کیا

میں حال دل تمام شب ان سے کہا کیا

ہنگام صبح کہنے لگے کس ادا سے ’’کیا‘

آپ کے سر کی قسم میرے سوا کوئی نہیں

بے تکلف آئیے کمرے میں تنہائی تو ہے

اکبر نے بھی غزل کی روایات کے مطابق بوسہ کو عشق کی منزلِ اولیں قرار دیا ہے ان کے یہاں بوسہ بے اذن، بوسہ بالجبر، بوسہ با رضا، بوسہ زلف، بوسہ رخ، بوسہ لب، بوسہ قدم ملتا ہے۔ بوسہ زلف کا ذکر کچھ زیادہ ہے۔ کچھ شعر ملاحظہ ہوں :

اس بت نے کہا بوسہ بے اذن پہ ہنس کر

بس دیکھ لیا آپ کا ایمان یہی ہے

کیوں زلف کا بوسہ مجھے لینے نہیں دیتے

کہتے ہیں کہ واللہ پریشاں نہ کریں گے

مطلب یہ ہے کہ تمہیں اپنی زلف کا بڑا خیال ہے کہ وہ برہم نہ ہو۔ وعدہ کیا جاتا ہے کہ بوسہ دو تو زلفیں پریشاں نہ ہونے پائیں گی۔ دراصل یہ بہت باسلیقہ بوسہ ہے کہ جس میں زلف پریشاں ہو۔ بوسہ کبھی اضطراری اور کبھی ارادی بھی ہوتا ہے، کبھی والہانہ ہوتا ہے۔ دراصل بوسہ اعتراف حُسن کا دوسرا نام ہے اکبر اس اہم نکتہ کو سمجھاتے ہیں۔

لیا ہم نے بوسہ رخ تو نہ بدگماں ہو اے جاں

کوئی پھول دیکھ لیتے تو اسے بھی پیار کرتے

پیار کی یہ کیفیت مزاج یار میں برہمی نہیں پیدا کرتی۔ مکالمہ کا لطف لیتے ہوئے ان اشعار پر بھی غور کیجئے

جو کہا میں نے کہ پیار آتا ہے مجھ کو تم پر

ہنس کے کہنے لگے اور آپ کو آتا کیا ہے

کہا جو میں نے کہ دل چاہتا ہے پیار کروں

تو مسکراکے وہ کہنے لگے کہ ’’پیار کے بعد؟‘

کچھ آج علاج دل بیمار تو کر لیں

اے جان جہاں آؤ ذرا پیار تو کر لیں

ان کے محبوب کے پاس کہیں بھی غصہ نہیں ہے بلکہ عموماً وہ ہنس کے ہی گفتگو کرتا ہے اور اس کا انداز یہ ہے

کس ناز سے کہتا ہے شب وصل وہ ظالم

برہم نہ کرے گیسوؤں کو پیار تمہارا

روایتی معاملہ بندی کے اشعار ان کے یہاں اکثر ملتے ہیں ، ان میں فحاشی تو نہیں ہے لیکن پڑھئے تو زہد و تقویٰ کا بدن ٹوٹنے لگتا ہے۔ جذبات انگڑائیاں لینے لگتے ہیں۔

محروم ہی رہ جاتی ہے آغوش تمنا

شرم آ کے چرا لیتی ہے سارا بدن ان کا

یہ انتہاجیت، یہ نشاطیہ رنگ، یہ انگڑائیوں اور بدن چرا لینے کا تذکرہ یا کچھ لوگوں کی زبان میں ارضیت اور جنسیت فراق صاحب سے بہت پہلے سے موجود تھی۔ اس کا سلسلہ تو محمد قلی سے شروع ہوا تھا۔ اکبر نے اس میدان میں بھی چونکا دیا تھا۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ ان کے ’’مسٹر‘ اور ’’سسٹر‘ کے چکر میں ادھر نظر ہی نہیں گئی۔

انہیں اس کا احساس ہے کہ انسانی زندگی میں جنس ناگزیر حیثیت رکھتی ہے، اس سے کون بچ سکتا ہے! کہتے ہیں۔

موسیقی و شراب و جوانی و حُسن و ناز

بچتا ہے کون اور خدا بھی بچائے کیوں

ٹک ٹکی بندھ گئی ہے بوڑھوں کی

دیدنی ہے تیرے شباب کا رنگ

یہ عمر، یہ جمال یہ جادو بھری نگاہ

پھر واعظوں کا اس پر یہ کہنا کہ ’’باز رہ‘