دل آگاہ کا شاعر : اکبر الہ آبادی
آپ نے الہ آباد دیکھا ہے؟
یہ درست ہے کہ آزادی کے بعد اس شہر نے وزیر اعظم دئیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا سنگم صرف گنگا جمنا کے وصال کا نام نہیں ہے بلکہ یہ شہر دلوں کا سنگم بھی ہے۔ جمنا تو بہت ساری جگہوں سے گزرتی ہے مگر جمنا کے ہونٹوں پر جس طرح الہ آباد میں غزل رقصاں نظر آتی ہے وہ شاید آگرہ میں ہو تو اور تو کہیں نہیں ہے! یہاں تو گنگا کی ہر بوند میں روایات کے سمندر نظر آتے ہیں۔ یہ شہر دل کی دھڑکنوں کا، علم کے نشے سے بوجھل آنکھوں کا، پر کیف انگڑائیوں کا شہر ہے۔
لیکن یہ شہر جو شہر گل عذاراں ہے اور جو نگارستان عیش ہے، وہیں اس شہر میں ایک ایسی سڑک ہے جس کے ہر ذرہ میں تاریخ لپٹی ہوئی ہے، سنار گاؤں سے پیشاور جانے والی شاہراہ اعظم چپ چاپ پڑی ہوئی تاریخ کے ستاروں کو طلوع و غروب ہوتے دیکھا کرتی ہے۔ وسط شہر میں اس کے کنارے داہنی طرف بہت بڑی سی مسجد ہے اور تھوڑاسا صلیبی زاویہ لئے ہوئے گرجا گھر ہے۔ مسجد کے سامنے کوتوالی ہے۔ گرجا گھر کے پاس نیم کا پیڑ اور لوک ناتھ کا تاریخی محلہ ہے۔
۱۸۵۷ ء میں یہ سڑک شہیدان وطن کے خون سے لالہ زار بن گئی تھی۔ مہنگاؤں کے مولوی لیاقت علی، قاضی محسن علی اور اسی طرح کے بہت سے سورماؤں نے انگریزوں سے ٹکر لی تھی۔ ہاں وہ شہر جہاں خسرو باغ کا سبزہ شاداب تھا اور درخت پھلوں سے لدے رہتے تھے۔ وہ شہر خون سے لالہ زار ہوا تھا اور درختوں پر بلند ہوتے ہوئے مجاہدوں کے سرنظر آئے جنہوں نے ایسے چراغ روشن کئے تھے، جن کی روشنی کو تاریخ بھی نہ دھندلا سکی۔
ایسے میں تصور کیجئے! بارہ تیرہ سال کا ایک لڑکا متوسط طبقہ کا! ان واقعات کے بارے میں سنتا ہو گا تو اس پر کیا کچھ نہ گزرتی ہو گی۔ کیا اس نے یہ نہ سوچا ہو گا کہ الہ آباد میں اکبر کا بنوایا ہوا قلعہ اور اب دھیرے دھیرے اس شہر کی تاریخ کا سہاگ چھن گیا ہے۔ وہ سر برہنہ اپنے ہی ملک میں اجنبی بن گئی ہے۔
یہ لڑکا اپنے ہم نام کو تو ضرور یاد کرتا ہو گا۔ ساتھ ہی ساتھ اس لٹی ہوئی بساط، اجڑی ہوئی محفل اور نفسیاتی طور پر کچلی ہوئی شخصیت کو یقیناً کچھ ہی دنوں بعد قفس کی تیلیاں نشیمن کے تنکوں سے زیادہ اچھی لگنے لگی ہوں گی۔
ایسے میں اگر کہیں پناہ مل سکتی تھی تو پھر شعر و نغمہ کی محفلوں میں ہی مل سکتی تھی اس لئے ادبی وراثت کے طور پر غزل کا جادو مسحور کرنے لگا۔ کوٹھوں پر رقص، گھنگھروؤں کی جھنکار، طبلوں کی تھاپ اور نازو انداز کے ساتھ سنائی جانے والی غزلیں گونجنے لگیں۔
شعر و سخن کا ماحول، روایات کی پاسداری، طبع موزوں۔ چنانچہ سترہ سال کی عمر میں غزل لکھی تو اس طرح کے شعر کہے
چشم عاشق سے گرے سخت دل بیتاب و اشک
آپ یوں دیکھتے تماشا جان کر سیماب و اشک
یہ قافیہ پیمائی یا فنی لوازم کی پابندی بہت دنوں تک ساتھ رہی۔ بائیں برس کے ہوئے تو ایسے شعر کہہے
لکھا ہوا ہے جو رونا میرے مقدر میں
خیال تک نہیں جاتا کبھی ہنسی کی طرف
یہ شعر پڑھنے کے بعد ذرا اکبر کی بعد کی شعری زندگی کے ایک رخ کے بارے میں سوچئے۔ وہ جس کا خیال تک ہنسی کی طرف نہ جاتا تھا۔ زیادہ تر ہنساتا ہی رہا اور دراصل اس کا سبب تھا۔
اعجاز صاحب بتاتے تھے کہ اکبر کا قد ’’فتنہ‘ یعنی قلیل تھا، اس پر شکل و صورت کے اعتبار سے نہ صرف یہ کہ جاذبیت نہ تھی بلکہ کچھ بے ڈھنگے پن کیا احساس ہوتا تھا اس طرح کی شخصیت عموماً احساس کمتری کا شکار ہوتی ہے۔
یہ ذاتی احساس کمتری جب ماحول کے جبر سے ہم آہنگ ہوتا ہے تو کھیائی ہوئی شخصیت وجود میں آتی ہے۔ دراصل طنز، استہزاء اور تمسخر، کھسیاہٹ کی پیداوار ہیں۔ سیاسی طور پر ہندوستان کی صورتحال جو کچھ تھی وہ اپنی جگہ پر۔ تہذیبی طور پر اتنی زبردست یلغار ہوئی تھی کہ اپنے گھر کی کوئی چیز بچتی ہوئی نہیں دکھائی دے رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے اپنے گھر میں خود اجنبی ہو رہے ہیں۔ تہذیبی طور پر ایک حساس دل ویسی ہی کیفیت سے دوچار تھا۔ جیسی کیفیت اس لڑکے کی ہوتی ہے جو اپنے سے طاقتور سے پٹ جانے کے بعد اسے چونچ دکھا کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہے۔
اکبر کے یہاں بھی دراصل یہی کیفیت ہے، اسے طنز و مزاح نہیں اعلان بے بسی سمجھئے جو کچکچلاہٹ اور کھسیاہٹ کا رد عمل ہے۔ چنانچہ اکبر کی شعری شخصیت کا وہ رخ جسے عرف عام میں طنزیہ و مزاحیہ شاعری کہا جاتا ہے۔ دراصل مغربی یلغار کو چونچ دکھانے کے مترادف تھا۔
اکبر بے حد ذہین اور حساس تھے۔ اپنی شعری روایات سے باخبر تھے۔ انہیں یقیناً یاد رہا ہو گا کہ انشاء نے دوسری زبانوں خصوصاً انگریزی کے الفاظ کھپا کر صنعت ملمع کے سہارے سے ایک بے تکی شکل بنا کے گدگدایا ہے۔ اکبر نے بھی اپنے گرد و بیش سے اثر لیتے ہوئے نئی تیز روشنی میں بسورتے ہوئے، منھ بناتے ہوئے لیکن آنکھیں بند کر کے لفظی پتھراؤ شروع کر دیا۔
البتہ جب کبھی انہیں فرصت ملتی تھی وہ غزل کے آہوئے رم خوردہ سے گفتگو کر کے اپنی وحشت کم کر لیا کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے اشعار کی نصف سے کچھ کم تعداد غزلوں کی ہے۔ ان کی غزلیں مشرق شعری روایات کی پاسدار ہیں لیکن کہیں کہیں ایک نیا راستہ بھی تلاش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان غزلوں میں بالکل نئی دنیا ہے۔ عشق کی دنیا اور یہ عشق حقیقی بھی ہے اور مجازی بھی۔ مجازی عشق میں کہیں کہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یسے ذاتی تجربات میں جو اشعار میں ڈھل گئے ہیں۔ یہاں وہ ’’مسٹر۔ سسٹر‘ والے اکبر نہیں ہیں بلکہ ایک معصوم صفت بھولے بھالے مگر ’’پورے‘ آدمی ہیں جو رنگینیوں پر پھسل جاتا ہے۔ انگڑائیوں سے جس کا بدن ٹوٹتا ہے جو کسی ندیدے بچے کی طرح مٹھائی دیکھ کر منھ بھی چلنے لگتا ہے اور موقع محل دیکھ کر مٹھائی پار بھی کر جاتا ہے۔ ان کے کلام کے اس رخ پر امیر و داغ کے اثرات ہیں ، کسی حد تک ان کی بے حجابی ہے مگر ان کا پھوہڑ پن نہیں ہے۔ داغ و امیر کا عشق ’’باریش‘ کچھ اس انداز میں بھی آتا ہے کہ شرافت ’’شر‘ اور ’’آفت‘ میں بدل جاتی ہے۔ شیخ اور واعظ میں یہی شرافت ہے۔ اس پر شوخ طنز دیکھئے
دل بھی کانپا ہونٹ بھی تھرانے، شرمایا بھی خوب
شیخ کو لیکن تیری مجلس میں پینا ہی پڑا
نا تجربہ کاری سے واعظ کی ہیں یہ باتیں
اس رنگ کو کیا جانے پوچھو تو کبھی پی ہے
جلیل مانک پوری نے میخانے کی دنیا بہت بعد میں اس انداز سے سجائی تھی جہاں توبہ شکنی بھی تھی اور بادل کا رنگ دیکھ کر نیت بھی بدل جاتی تھی۔
لیکن اکبر رنگ شراب سے ہی نیت بدل لیتے ہیں
رنگ شراب سے میری نیت بدل گئی
واعظ کی بات رہ گئی ساقی کی چل گئی
اور جب ذکر شراب ہے تو پھر شباب کے بھی تقاضے ہیں۔
نگاہ ناز بتاں پر نثار دل کو کیا
زمانہ دیکھ کے دشمن سے دوستی کر لی
بیان حور اور ذکر سلسبیل اس لئے بھی اچھا لگتا تھا کہ جوانی تھی اور عقیدہ عشرت امروز کا تھا۔ کبھی داغ کا رنگ ابھر آتا ہے تو کہتے ہیں
زبان و چشم بتاں کا نہ پوچھئے عالم
وہ شوخیوں کے لئے یہ نہیں حیا کے لئے
اکبر اس رنگ کے ساتھ غزل میں حسن مکالمہ کے قائل ہیں۔ مکالمہ ڈرامائیت تو پیدا کرتا ہی ہے، شاعر کے جذبات کو قاری کے بھی قریب لے آتا ہے، جو اشعار پیش کئے جا رہے ہیں ان میں یہ غور نہ کیجئے کہ شوخی، بے حجابی کی سرحدوں پر کھڑی ٹھٹھا لگا رہی ہے بلکہ صرف یہ سوچئے کہ جب دنیا جوان ہوتی ہے تو عشق کرنا ہی پڑتا ہے اور جب عشق ہوتا ہے تو کچھ اس طرح کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔
’’دل میں جو ہے وہ ہو گا شب وصل میں ضرور؟‘
ہو گا حضور آپ کی شرم و حیا سے کیا
میں حال دل تمام شب ان سے کہا کیا
ہنگام صبح کہنے لگے کس ادا سے ’’کیا‘
آپ کے سر کی قسم میرے سوا کوئی نہیں
بے تکلف آئیے کمرے میں تنہائی تو ہے
اکبر نے بھی غزل کی روایات کے مطابق بوسہ کو عشق کی منزلِ اولیں قرار دیا ہے ان کے یہاں بوسہ بے اذن، بوسہ بالجبر، بوسہ با رضا، بوسہ زلف، بوسہ رخ، بوسہ لب، بوسہ قدم ملتا ہے۔ بوسہ زلف کا ذکر کچھ زیادہ ہے۔ کچھ شعر ملاحظہ ہوں :
اس بت نے کہا بوسہ بے اذن پہ ہنس کر
بس دیکھ لیا آپ کا ایمان یہی ہے
کیوں زلف کا بوسہ مجھے لینے نہیں دیتے
کہتے ہیں کہ واللہ پریشاں نہ کریں گے
مطلب یہ ہے کہ تمہیں اپنی زلف کا بڑا خیال ہے کہ وہ برہم نہ ہو۔ وعدہ کیا جاتا ہے کہ بوسہ دو تو زلفیں پریشاں نہ ہونے پائیں گی۔ دراصل یہ بہت باسلیقہ بوسہ ہے کہ جس میں زلف پریشاں ہو۔ بوسہ کبھی اضطراری اور کبھی ارادی بھی ہوتا ہے، کبھی والہانہ ہوتا ہے۔ دراصل بوسہ اعتراف حُسن کا دوسرا نام ہے اکبر اس اہم نکتہ کو سمجھاتے ہیں۔
لیا ہم نے بوسہ رخ تو نہ بدگماں ہو اے جاں
کوئی پھول دیکھ لیتے تو اسے بھی پیار کرتے
پیار کی یہ کیفیت مزاج یار میں برہمی نہیں پیدا کرتی۔ مکالمہ کا لطف لیتے ہوئے ان اشعار پر بھی غور کیجئے
جو کہا میں نے کہ پیار آتا ہے مجھ کو تم پر
ہنس کے کہنے لگے اور آپ کو آتا کیا ہے
کہا جو میں نے کہ دل چاہتا ہے پیار کروں
تو مسکراکے وہ کہنے لگے کہ ’’پیار کے بعد؟‘
کچھ آج علاج دل بیمار تو کر لیں
اے جان جہاں آؤ ذرا پیار تو کر لیں
ان کے محبوب کے پاس کہیں بھی غصہ نہیں ہے بلکہ عموماً وہ ہنس کے ہی گفتگو کرتا ہے اور اس کا انداز یہ ہے
کس ناز سے کہتا ہے شب وصل وہ ظالم
برہم نہ کرے گیسوؤں کو پیار تمہارا
روایتی معاملہ بندی کے اشعار ان کے یہاں اکثر ملتے ہیں ، ان میں فحاشی تو نہیں ہے لیکن پڑھئے تو زہد و تقویٰ کا بدن ٹوٹنے لگتا ہے۔ جذبات انگڑائیاں لینے لگتے ہیں۔
محروم ہی رہ جاتی ہے آغوش تمنا
شرم آ کے چرا لیتی ہے سارا بدن ان کا
یہ انتہاجیت، یہ نشاطیہ رنگ، یہ انگڑائیوں اور بدن چرا لینے کا تذکرہ یا کچھ لوگوں کی زبان میں ارضیت اور جنسیت فراق صاحب سے بہت پہلے سے موجود تھی۔ اس کا سلسلہ تو محمد قلی سے شروع ہوا تھا۔ اکبر نے اس میدان میں بھی چونکا دیا تھا۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ ان کے ’’مسٹر‘ اور ’’سسٹر‘ کے چکر میں ادھر نظر ہی نہیں گئی۔
انہیں اس کا احساس ہے کہ انسانی زندگی میں جنس ناگزیر حیثیت رکھتی ہے، اس سے کون بچ سکتا ہے! کہتے ہیں۔
موسیقی و شراب و جوانی و حُسن و ناز
بچتا ہے کون اور خدا بھی بچائے کیوں
ٹک ٹکی بندھ گئی ہے بوڑھوں کی
دیدنی ہے تیرے شباب کا رنگ
یہ عمر، یہ جمال یہ جادو بھری نگاہ
پھر واعظوں کا اس پر یہ کہنا کہ ’’باز رہ‘