اکبر یہ جانتے ہیں کہ
بوس و کنار و وصل حسیناں ہے خوب شغل
کمتر بزرگ ہوں گے خلاف اس خیال کے
ضمناً یہ عرض کرنے کو دل چاہتا ہے کہ عہد اکبری کے بزرگ یقیناً اس خیال کے خلاف نہ تھے۔
حالانکہ دور حاضر کے بزرگان جدید پیار کے خلاف فتویٰ دیتے ہیں ، آج کے شاعر سے نئے
بھول کر اپنا زمانہ یہ بزرگان جدید
آج کے پیار کو معیوب سمجھتے ہوں گے
اکبر اس سے باخبر ہیں کہ جوانی جب بھی آتی ہے بدنامی بردوش آتی ہے۔
خوب جی بھر کے ہو لئے بدنام
حق ادا کر دیا جوانی کا
غزل کا یہ تیز معاملہ بندی والا انداز ہی ان کے یہاں نہیں ہے بلکہ انہوں نے غزل کی روایات اور ان کے ان تلازموں کو بھی برتا ہے جن میں معنویت، تہہ داری اور کہیں کہیں نازک خیالی بھی نظر آتی ہے۔ ان کے اکثر اشعار پر غالب کا گہرا اثر ہے۔ کہیں کہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ غالب کا کلام سامنے رکھ کر لکھا ہے۔
عشق میں حُسن بتاں وجہ تسلی نہ ہوا
لفظ چمکا مگر آئینہ معنی نہ ہوا
اور کہیں بھونڈی تقلید بھی ملتی ہے، کہتے ہیں
تو کہئے اگر وقعت عاشق نہیں دل میں
ے کون سی سیکھی ہے زباں آپ نے ’’تیں ‘ کی
یہ لفظ ’’تیں ‘ اپنی خالص الہ آبادیت کے ساتھ محبوب کے ارزل ہونے کا پتہ دیتا ہے اور غالب بیچارے ’’تو‘ ہی پر کبیدہ خاطر تھے۔ اکبر ’’تو‘ پر راضی ہیں۔ ’’تیں ‘ پر برہم! محبوب اس سے بھی گیا گزرا ہے۔
غالب کی مشہور زمین ’’حال اچھا ہے‘ میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور کچھ اشعار لکھے ہیں۔ لیکن غالب کا اثر ان کی غزلوں میں شوخی، ظرافت اور مکالمہ کے انداز میں جھلکتا ہے۔ یہ شعر دیکھئے۔
کبھی لرزتا ہوں کفر سے میں کبھی ہوں قربان بھولے پن پر
خدا کا دیتا ہوں واسطہ جب تو پوچھتا ہے وہ بت ’’خدا کیا‘
کبھی غالب کا وہ گاڑھا رنگ بھی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں جو ذہن کو ہچکولے دیتا ہے
خدا بننا تا مقصد اس لئے مشکل یہ پیش آئی
نہ کھینچتا دار پر ثابت اگر کرتا خدا ہونا
’’ہونا‘ اور ’’بننا‘ میں جو نازک فرق ہے۔ وہ غالب کی ہی دین ہے اور اب غالب ہی کے رنگ میں یہ ضرب المثل شعر سنئے
ذہن میں جو گھر گیا لا انتہاء کیوں کر ہوا
جو سمج میں آ گیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا
غالب کا مشہور قطعہ ’’اے تازہ وار دان بساط ہوائے دل‘ ذہن میں رکھئے اور اب یہ شعر پڑھئے
نہ وہ احباب نہ وہ لوگ، نہ وہ بزم طرب
صبح دم وہ اثر جلسہ شب کچھ بھی نہیں
اکبر اپنے بہت ہی کم عمر ہم عصر اقبال سے بے حد متاثر تھے چنانچہ اکثر اقبال کا انداز بھی اپنانے کی کوشش کی ہے
یہ عشق ہی ہے کہ منزل ہے جس کی الا اللہ
خرد نے صرف رہ لا الہ پائی ہے
عارضی ہیں موسم گل کی یہ ساری مستیاں
لالہ گلشن میں اگر ساغر بدوش آیا تو کیا
لیکن غالب اور اقبال ان کے بس کی بات نہیں تھے اس لئے انہوں نے اس رنگ کو اپنایا نہیں ، ترک کیا اور غزل کی وہ روایات جو انہیں وراثت میں ملی تھیں اسے ہی آگے بڑھاتے ہوئے اس طرح کے شعر کہے
کرتی ہے بے خودی یہ سوز دروں کو ظاہر
اے شمع ہم تو عاشق تیری زبان پر ہیں
زندگانی کا مزا دل کا سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ دہا
یہ اسے کرتی ہے روشن وہ مٹاتا ہے اسے
رات سے پوچھو کہ بہتر شمع ہے یا آفتاب
کبھی کبھی ایسے معرکہ شعر بھی مل جاتے ہیں۔
عشق نازک مزاج ہے بے حد۔
عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا
غزلوں میں سہل ممتنع کا انداز بھی جھلکتا ہے
اب کہاں اگلے سے وہ راز و نیاز
مل گئے، صاحب سلامت ہو گئی
ہمیں تو آٹھ پہر رہتی ہے تمہاری یاد
کبھی تمہیں بھی ہمارا خیال آتا ہے؟
مسرت ہوئی ہنس لئے وہ گھڑی
مصیبت پڑی رو کے چپ ہولیے
اکبر نے اس عہد کے شعری مزاج کے مطابق مشکل قوافی میں بھی ا چھے شعر نکالے ہیں۔
یوں خیال گل رخاں میں ہے منور داغ دل
جل رہا ہو جس طرح پھولوں کی چادر میں چراغ
موضوع کے اعتبار سے ان کا ایک رخ معاملہ بندی کا تھا، تو دوسرا رخ تصوف ہے۔ دراصل بنیادی چیز اپنے جذبے، عقیدے یا عشق سے وفاداری ہے، عرفان یا بصیرت عطا کرنے والا جذبہ ہے، وہ تصوف کو عرفان اور بصیرت و آگہی کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے اس شعر سے ان کے نظریہ عشق پر روشنی پڑتی ہے۔
عجیب نسخۂ عرفاں دیا تصوف نے
کہ نشہ تیز ہوا اور شراب چھوٹ گئی
عقل زاہد، عشق صوفی میں بس اتنا فرق ہے
اس کو خوف آخرت ہے اس کو ذوق آخرت
خوف و ذوق کے لطیف رشتے پر جس انداز سے اکبر نے روشنی ڈالی ہے وہ بس انہیں کا حصہ ہے۔ انہوں نے تصوف سے اسی ذوق و عرفان کا اکتساب کیا ہے اس لئے ان کا تصور اخلاقی، روایتی اخلاق سے الگ ہے۔ وہ بے ثباتی دنیا کا تذکرہ اس انداز سے کرتے ہیں۔
ایک ساعت کی یہاں کہہ نہیں سکتا کوئی
یہ بھلا کون بتائے تمہیں کل کیا ہو گا
لیکن وہ اس بے ثباتی کے ساتھ مجہولیت کے قائل نہیں ہیں ، فعالیت کے قدردان ہیں ، ان کی اخلاقیات حالی طرح جذبے سے بے نیاز نہیں ہے بلکہ اقبال کی طرح بے چینی اور تڑپ پیدا کرنے والی ہے۔ وہ جہد و عمل کی تحریک دیتے ہیں اور بصیرت و آگہی کو سرمایۂ حیات سمجھتے ہیں۔ ان اشعار کے سحرجلال کو اکبر کی اخلاقیات کا مصحف کہنا چاہئے۔
سینے میں دل آگاہ جو ہو کچھ غم نہ کرو ناشاد سہی
بیدار تو ہے مشغول تو ہے نغمہ نہ سہی فریاد سہی
ہر چند بگولہ مضطر ہے اک جوش تو اس کے اندر ہے
اک وجہ تو ہے، اک رقص تو ہے بے چین سہی برباد سہی
وہ خوش کہ کروں گا قتل اسے یا قید قبض میں رکھوں گا
میں خوش کہ طالب تو ہے مرا صیاد سہی جلاد سہی
وہ گفتار کا غازی بننے پر زور نہیں دیتے بلکہ کردار کا غازی بنانا چاہتے ہیں۔ تقریر نہیں تاثیر کے قائل ہیں۔ شعر دیکھئے
باطن میں ابھر کر ضبط فغاں لے اپنی نظر سے کار زیاں
دل جوش میں لا فریاد نہ کر تاثیر دکھا تقریر نہ کر
دل آگاہ کا یہ شاعر ہر قیمت پر یہ چاہتا ہے کہ شمع بصیرت نہ بجھنے پائے وہ زمانے کے رنگ میں ڈھلنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ تہذیب نفس کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں۔
بدل گئی ہوں ہوائیں تو روک دل کی ترنگ
نہ پی شراب اگرموسم بہار نہ ہو
اہل نظر سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ موسم بہار اگر نہیں ہے اور شراب اگر نہ پینے پر زور ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ پہلے بہار پیدا کی جائے تب شراب پی جائے۔
ان کی شاعری کا یہ رخ بھی قابل توجہ ہے کہ وہ سفلہ پروری، زمانہ سازی، موقع پرستی، کم نظری برداشت نہیں کر پاتے۔ دل آگاہ کا شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے۔
کم بضاعت کو جو اک ذرہ بھی ہوتا ہے فروغ۔ ۔ ۔ خود نمائی کو وہ اڑ چلتا ہے جگنو کی طرح وہ کتنی خوبصورتی سے کہتے ہیں
معذور ہوں میں حضرت کو اگر مجھ سے ہو گلا بیباکی کا
نیکی کا ادب تو آساں ہے مشکل ہے ادب چالاکی کا
اس دور میں اشراف پر جو گزر رہی تھی اس کا ایک رخ ملاحظہ ہو
ادھر وہی طبع کی نزاکت ادھر زمانے کی آنکھ بدلی
بڑی مصیبت شریف کو ہے امیر ہو کر غریب ہونا
یہ شعر پڑھئے تو ایسا لگتا ہے کہ دور حاضر میں بیٹھا ہوا یہ درد مند بوڑھا ایٹمی توانائی کے اس دور کا سچا نقشہ کھینچ رہا ہے۔
لاکھوں کو مٹا کر جو ہزاروں کو ابھارے
اس کو تو میں دنیا کی ترقی نہ کہوں گا
اور انقلاب کے شائقین کے لئے اور دور حاضر کے ایک المناک بین الاقوامی سیاسی حادثے پر اکبر کی پیشن گوئی بھی ملاحظہ ہو۔
ہم انقلاب کے شائق نہیں زمانے میں
کہ انقلاب کو بھی انقلاب ہی دیکھا
ان اشعار کے خوش رنگ گلستاں میں وہ جو زندگی بھر اپنی بدصورتی کے ساتھ سارے زمانے کو ہنساتا رہا، اب ذرا اس کا درد و کرب بھی دیکھ لیجئے اس کی اپنی ذاتی زندگی میں ۱۹۱۰ ء میں اہلیہ کا صدمہ، ہاشم کی موت، ساری زندگی کی دربدری، مدخولہ، گورنمنٹ ہونے کی وجہ سے شدید گھٹن اور ان سے بڑھ کر تنہائی کا احساس، دوستوں کا ساتھ چھوڑ جانا، اپنے ہی وطن میں رہ کر اجنبی کی طرح زندگی گزارنا۔ غرض کہ درد و کرب کی دنیا ہے جو اس ستم ظریف شاعر کے یہاں نظر آتی ہے، کہتے ہیں۔
اس انقلاب پر جو میں روؤں تو ہے بجا
مجھ کو وطن میں اب کوئی پہچانتا نہیں
وہ مرے پیش نظر تھے فلک نہ دیکھ سکا
چھٹے تو پھر میں انہیں آج تک نہ دیکھ سکا
سیر غربت کوئی جلسہ جو دکھا دیتی ہے
یاد احباب وطن مجھ کو رلا دیتی ہے
خبر ملتی نہیں مجھ کو کچھ یاران گذشتہ کی
خدا جانے کہاں ہیں کس طرح ہیں کیا گزرتی ہے
اور اب یہ شعر ہر ڈھلتی ہوئی عمر کے آدمی کا المیہ بن جاتا ہے
اب جسم میں باقی ہے مسرت کا لہو کم
احباب میں مرحوم بہت ’’سلمہ‘ کم
اور اس شعر کے درد کو دیکھئے
بزم عشرت کہیں ہوتی ہے تو رو دیتا ہوں
کوئی گزری ہوئی محبت مجھے یاد آتی ہے
دل آگاہ کا یہ شاعر غزل میں نشاطیہ شاعری کا وہ رخ پیش کرتا ہے جو ذہنی عیاشی نہیں ہے بلکہ اس میں حقیقی تجربہ بھی جھلکتا ہے۔ ان اشعار میں ایک انسان کے دل کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔ آج بھی یہ انسان اصطلاحوں کے جنگل میں ثقیل الفاظ کے پتھروں سے سنگ سار ہو رہا ہے۔ وہ جو ایک شاعر ہے نرم و نازک جذبات و احساسات والا، دل آگاہ کا شاعر۔ اور اس پر پتھر برسائے جا رہے ہیں کہ یہ شاعر نہیں مصلح قوم ہے، معمار قوم ہے، تہذیبی محرکات کا ادا شناس ہے۔ کوئی اسے ترقی پسند کہتا ہے ، کوئی رجعت پسند، کوئی حقیقت پسند اور وہ ان پتھروں کے نیچے کراہتے ہوئے کہتا ہے
’’ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا‘
اس کی آہ تو سن لیجئے! دل آگاہ کا یہ شاعر جب آہ کرتا ہے تو یہ چاہتا ہے کہ اسے شاعر کی حیثیت سے دیکھا بی جائے، اس کی شناخت اور پہچان ایک ایسے انسان کی بھی ہو جو شخصیت پر پڑے ہوئے سارے غلاف ہٹا کر اپنی ذات کا درد و کرب سنانا چاہتا تھا۔
بے شک اس نے ہنسایا ہے لیکن اس ہنسی کے پس منظر میں اس کی آہ بھی شامل ہے۔ دراصل ذرا غور کیجئے تو یہ محسوس ہو گا کہ اکثر جسے ہم قہقہہ سمجھتے ہیں وہ صرف آہ ہوتی ہے!
اس کے مجلسی تبسم پر نہ جائیے۔ اس کی روح کی حقیقت اس کے آنسوؤں میں دیکھئے !