سید جمال الدین
پچھلے ایک سو سال کی تحریک کے سلسلے کی بنیادی حیثیت جمال الدین اسد آبادی بہ عرف عام ”افغانی“ کی ہے‘ یہ وہی شخصیت تھی جس نے اسلامی حکومت کو ضرورت اصلاح اور تشکیل نو کے لئے جگایا اور مسلمانوں میں معاشرتی برائیوں کو آشکارا کیا اور ان کو اصلاح کا راستہ دکھا کر ان برائیوں کی اصلاح کا راستہ دکھایا۔ اگرچہ سید کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے لیکن ان کے فلسفہ اصلاح کے بارے میں بہت کم بتایا گیا ہے یا شاید میں نے اس کے فلسفے کے بارے میں سنا اور جانا نہیں ہے‘ تاہم یہ معلوم کرنے سے کافی فائدہ ہو گا کہ سید نے اسلامی معاشرہ کی کن برائیوں کی تشخیص کی ہے اور ان کا کیا علاج تجویز کیا‘ نیز اپنے فلسفہ اصلاح کے مقاصد کے حصول کی خاطر کون سے راستے اختیار کئے۔
جس تحریک کی انہوں نے ابتداء کی وہ اپنی وسعت کے لحاظ سے فکری اور اجتماعی تھی جہاں وہ مسلمانوں کے خیالات میں تجدید چاہتے ہیں وہاں وہ نظام زندگی میں بھی احیاء چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو ایک شہر‘ ایک ملک حتیٰ کہ ایک براعظم تک محدود نہیں رکھا۔ ہر ملک میں تھوڑا تھوڑا وقت گزار کر انہوں نے ایشیاء‘ یورپ اور افریقہ کے طول و عرض میں سفر کیا‘ جس ملک میں بھی وہ گئے وہاں پر لوگوں کے مختلف طبقات کے ساتھ اپنی روحانی وابستگی کافی حد تک استوار کی‘ حتیٰ کہ کچھ ممالک کے فوجی یونٹوں میں دخل اندازی کی تاکہ افواج میں اثر و رسوخ پیدا کیا جائے۔
سید نے بہت سے اسلامی ملکوں کا دورہ کر کے قریبی مشاہدہ کیا جس سے انہیں ان ملکوں کے بارے زیادہ آگاہی ہوئی‘ اس سے ان کو موقع ملا کہ ان ملکوں کی پیچیدگیوں کو سمجھے اور وہاں کی قابل عزت شخصیتوں کا گہرا مطالعہ کیا‘ تمام دنیا کا دورہ اور خصوصاً یورپ میں ان کا زیادہ وقت گزارنا اس سلسلے میں کارآمد ثابت ہوا کہ ترقی یافتہ ممالک میں کیا ہو رہا ہے اور یورپ کی تہذیب کو سمجھنے اور یورپی لیڈروں کے ارادوں کو بھانپنے میں ممد و معاون ثابت ہوا۔ اپنی کوشش اور مشن کے دوران میں سید نے اپنے زمانے اور دنیا کو سمجھا اور اسلامی ممالک کا مناسب اور صحیح علاج بھی دریافت کیا جس کے لئے انہوں نے اپنا مشن شروع کیا تھا۔ سید کے نزدیک اندرونی استبداد اور بیرونی استعمار دو اہم اور توجہ طلب برائیاں تھیں جن سے اسلامی معاشرہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے‘ انہوں نے ان کے خاتمہ کے لئے کوششیں کیں اور بالآخر اپنے مشن کی خاطر جان دے دی‘ وہ یہ ضروری اور ناگزیر سمجھتے تھے کہ ان دو تباہ کن اسباب کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں میں سیاسی بیداری ہو اور وہ سیاست میں بھرپور حصہ لیں۔
اپنی کھوئی ہوئی عظمت کی بحالی اور دنیا میں پروقار مقام حاصل کرنے کے لئے کہ مسلمان بجا طور پر اس کے اہل ہیں‘ سید اس کو ناگزیر سمجھتے تھے کہ وہ اصلی اسلام کی طرف پلٹیں‘ حقیقت میں وہ مسلمانوں کے نیم مردہ بدن میں نئی روح پھونکنا چاہتے تھے۔ تجدید کی پہلی شرط یہ ہے کہ بدعنوانی کو ختم کر کے تنظیم نو کی جائے اور پھر مسلمانوں میں اتحاد پیدا کیا جائے‘ انہوں نے محسوس کیا کہ استعماریت آشکارا اور پوشیدہ دونوں طریقوں سے مذہبی اور غیر مذہبی نفاق و انتشار کا بیج بو رہی ہے‘ انہوں نے ان چھپے ہوئے عزائم کو واضح کیا۔
سید کی دو خصوصیات
سید کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ شیعہ اور سنی دونوں سوسائٹیوں کا بہت قریبی علم رکھتے تھے‘ لہٰذا وہ سنی اور شیعہ دونوں معاشروں کے فرق پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ سنی معاشرہ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ نہیں ہے اور وہ استبدادی اور استعماری طاقتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ سنیوں کے مذہبی علماء کا طبقہ حکومتوں سے وابستہ رہا ہے اور وہ صدیوں سے حکومت کو سوسائٹی کا ”اولوالامر“ کہتا چلا آیا ہے‘ اس لئے سنی معاشرے کے مذہبی علماء کو وہ نظرانداز کر دیتے تھے اور براہ راست عوام سے رابطہ رکھتے تھے۔ ان کے خیال میں سنی مذہبی علماء میں یہ صلاحیت پیدا نہ ہو سکی کہ وہ نوآبادیاتی نظام اور استحصال کے خلاف کوئی محاذ بنا سکیں اور اس سلسلے میں ان کا کوئی کردار نہیں۔
لیکن شیعی مذہبی علماء ایک آزاد ادارہ کی حیثیت سے واضح امتیاز کے ساتھ ایک قومی طاقت ہیں‘ ان کا عوام کے ساتھ گہرا رشتہ رہا اور ہمیشہ حکام کے استبداد کو چیلنج کرتے رہے ہیں‘ اس لئے سید جمال نے سب سے پہلے شیعہ سوسائٹی کے علماء سے اپیل کی۔ انہوں نے اپنی مہم کا آغاز ذی فہم لوگوں سے کیا اور فیصلہ کیا کہ یہی وہ طبقہ ہے کہ ہر آمر اور نوآبادیت کے خلاف جنگ میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
ان خطوط کی عبارت جو انہوں نے شیعہ علماء کو لکھی‘ خصوصاً مرحوم حاجی میرزا حسین شیرازی اور کئی وہ قراردادیں جو انہوں نے تہران‘ مشہد‘ اصفہان‘ تبریز‘ شیراز اور دوسری مذہبی جگہوں کے خدا پرست اہم شخصیات کو بھیجیں‘ اس امر کی کھل کر وضاحت کرتی ہیں۔
سید جمال سمجھ گئے تھے کہ گو کہ شیعی مذہبی علماء میں سے چند نے اپنے وقت میں استبدادی طاقتوں کے ساتھ روابط جوڑے‘ لیکن انہوں نے معاشرے‘ عوام اور مذہب سے بھی اپنا رشتہ قائم رکھا‘ دشمنوں کے کیمپوں سے اپنے عوام کی خدمت کی‘ تاہم کچھ ایسے لوت تھے جو یقینا اغیار کے بہت قریب چلے گئے‘ لیکن بہت ہی مختصر تھے۔ تاریخ سے واضح ہے کہ عموماً شیعوں نے اپنے مذہبی علماء سے اپنا مذہبی رشتہ نہیں توڑا۔
سید جمال کے مشن نے شیعی مذہبی علماء کے طبقے پر کافی اثرات مرتب کئے‘ چاہے وہ تمباکو تحریک ہو جس میں شیعہ علماء نے اندرونی استبداد اور بیرونی استعماریت کے خلاف ایک طوفان کھڑا کیا یا آئینی حکومت کے قیام کی تحریک ہو اور اس میں بھی شیعہ علماء کی رہبری اور تائید موجود تھی۔
تاریخ میں یہ نہیں ملتا کہ سید جمال الدین نے جو کہ ایک انقلابی مسلمان تھے‘ شیعہ مذہبی علماء کو کمزور اور پست کیا ہو‘ حالانکہ بعض لاعلمی اور ناواقفیت کے نتیجے میں ان کو کافی تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔
(نقش روحانیت پیشرو در جنبش مشروطیات ایران‘ تالیف حامد الگیار‘ ترجمہ: ابوالقاسم سری)
جناب محیط طباطبائی لکھتے ہیں کہ
”سید نے اپنے یورپ کے پہلے دورہ میں جب وہ وہاں ”عروة الوثقٰی“ رسالہ نکالنا چاہتے تھے‘ یہ محسوس کیا کہ روحانی لوگوں میں اصلاح لانے کی قوت موجود ہے اس بات کو انہوں نے ایک خط میں واضح کیا جو انہوں نے مصر میں مقیم ایک ایرانی بنام داغستانی کو لکھا (حکومت کو دھوکہ دینے کے لئے انہوں نے اپنا جعلی نام داغستانی رکھا ہوا تھا) اس میں انہوں نے فرمایا کہ علمائے ایران نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کی ہے اور یہ ایرانی حکومت ہے جو عوام کے لئے مشکلات پیدا کر رہی ہے اور ان کے زوال اور تباہی کا سبب بن رہی ہے۔ تہران میں موجودگی کے وقت علماء کے خلاف کوئی بات نہیں کی‘ جو کہ ان کے مزاج پر گراں گزرے‘ اس کے برعکس انہوں نے علماء کے ساتھ قریبی روابط رکھے۔ انہوں نے ایک رسالہ ”پنچیریہ“ شائع کیا‘ اس کا عربی ترجمہ بیروت میں ہوا اور چھپ کر تقسیم بھی ہوا۔ ایران آنے پر وہ اس رسالہ کی کچھ کاپیاں اپنے ساتھ لائے اور یہاں صاحبان علم و دانش میں تقسیم کیں‘ مذہبی اساتذہ کے ساتھ ملاقات کے دوران شعوری اور لاشعوری طور پر اس بات کا خیال رکھا کہ غرور و خود پسندی کا احساس نہ ہونے پائے‘ سنا ہے کہ جب سید نے مرحوم جناب جلوہ سے پہلی ملاقات کی تو انہوں نے اس بات کے پوچھنے پر کہ ”سید مصر میں شیخ (ابو علی سینا) کے کلمات پر درس دیتا ہے۔“ نفی میں جواب دیا‘ تاکہ جلوہ ان کی بات سے مشتعل نہ ہوں۔“
(نقش سید جمال الدین در بیداری مشرق زمین‘ ص ۳۹-۴۰‘ ۵۲)
سید جمال کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ گو وہ ایسے مصلح تھے جو مسلمانوں کو مغرب کی جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول پر آمادہ کر رہے تھے تاکہ جہالت اور لاعلمی پر قابو پایا جا سکے وہاں وہ جدیدیت میں انتہا پسندی کے خطرہ سے بھی پوری طرح آگاہ تھے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ مغربی سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی مسلمانوں کی جہان بینی اور نظریات کے درمیان ایک توازن برقرار رکھا جائے‘ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان مغربی طرز کی جہان بینی پر فریفتہ ہو جائیں اور اسی عینک سے دنیا کو دیکھنے کی کوشش کریں اور یوں اسلامی جہان بینی سے دور ہٹ جائیں‘ وہ نہ صرف مغربی سیاست اور استعمار کے خلاف لڑے‘ بلکہ تہذیبی استعمار کے خلاف بھی سعی کی‘ انہوں نے ان لوگوں کے خلاف مہم چلائی جو کائنات اور قرآن مقدس اور اسلامی فلسفہ کی مغربی نقطہ نظر سے تاویل کرنا چاہتے تھے‘ وہ یہ مناسب نہیں سمجھتے تھے کہ قرآن کے مابعدالطبیعاتی مفاہیم کی‘ انسان کے شعوری اور مادی معاملات کی اصطلاحوں میں تاویل کی جائے۔
ہندوستان کے دورے کے دوران ان کا تعارف ایک مسلمان مصلح سر سید احمد خان سے ہوا‘ انہوں نے دیکھا کہ وہ مابعدالطبیعاتی مسائل کی علم سائنس کے نام پر اور سائنس کے بہانے سے تشریح کی کوشش کر رہے ہیں کہ غیب اور معقولات کو قابل احساس و مشاہدہ قرار دے کر ان کی تاویل کی جائے اور وہ معجزہ کا ادراک عام اور سادہ معنوں میں کرنا چاہتے ہیں حالانکہ یہ معجزے قرآن میں بڑے واضح ہیں‘ قرآن کے آسمانی مفاہیم کو زمینی مفاہیم میں تبدیل کر دیں۔ سید نے ان باتوں پر اعتراض کیا‘ اس عہد کے ایک مورخ نے سید کے ہندوستانی دور کے متعلق اور سر سید احمد خان کے سلسلے میں ان کے موقف کے بارے میں لکھا ہے:
”اگر سید احمد نے مذہب میں اصلاح کے متعلق باتیں کی ہیں تو سید جمال نے مسلمانوں کو فتنہ انگیز مصلحوں اور اصلاحوں میں انتہا پسندی کے خطرات سے آگاہ کیا۔ جہاں سید نے جدید نظریات کو جذب کرنے کی ہدایت کی‘ وہاں سید جمال اپنے اس استدلال پر قائم رہے کہ صرف مذہبی عقیدہ ہی ان تمام اسباب سے افضل ہے اور اس میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ انسان کی راہ مستقیم پر چلنے کی رہنمائی کرے‘ اگر سید نے مسلمانوں کو جدید تربیت حاصل کرنے کا شوق دلایا تو سید جمال نے تربیت کے ان نئے طریقوں کو ہندوستانی مسلمانوں کے مذہب اور قوم کے لئے زہر قاتل قرار دیا۔ سید جمال جو کہ نئے نظریات اور تعلیمات کے علمبردار تھے‘ سید احمد جیسے جدیدیت پسند شخص کے سامنے آئے تو مجبور ہو گئے کہ وہ پرانے خیالات اور نظریات کے سرگرم حامی بنیں‘ تاہم وہ اپنے پہلے نظریے دینی فکری تحریک پر قائم رہے۔“
اسلامی سوسائٹی میں جن بیماریوں کی سید جمال نے تشخیص کی‘ وہ یہ ہیں:
۱ ۔ حکام کا استبداد۔
۲ ۔ عام مسلمانوں میں جہالت‘ بے خبری اور ان کے کاروان علم و تمدن میں سست رفتاری۔
۳ ۔ مسلمانوں میں خرافات کا نفوذ اور ان کی اصلی اسلام سے دوری۔
۴ ۔ مذہبی اور دنیاوی مسائل و معاملات میں مسلمانوں کے درمیان جدائی اور نااتفاقی۔
۵ ۔ مغربی استعمار کے اثرات۔
ان بیماریوں کے علاج کے لئے سید نے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لائے‘سفر‘ ذاتی روابط‘ خطبات‘ کتابوں کی اشاعت‘ رسالے اور مختلف پارٹیوں اور گروپوں کی تنظیم کرنا حتیٰ کہ فوجی ملازمت میں شمولیت۔ وہ ۶۰ سال زندہ رہے اور ہمیشہ کنوارے رہے اور اہل و عیال سے بے نیاز رہے‘ کیونکہ ان کی زندگی ہمیشہ غیر یقینی تھی۔ وہ ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر کرتے رہے تھے‘ زیادہ تر وقت جیل میں‘ جلاوطنی میں اور یا گھر میں نظربند کی حیثیت سے گزارتے تھے‘ اس صورت حال میں وہ بال بچوں کی ذمہ داری سے کیسے عہدہ برآ ہو سکتے تھے۔
اوپر دی ہوئی برائیوں کے ختم کرنے کے لئے جو تجاویز انہوں نے پیش کیں‘ وہ یہ ہیں: