۵) بیرونی استعمار کے خلاف جنگ
اس کا مطلب اسلامی ممالک کے اندرونی معاملات میں سیاسی دخل اندازی اور اقتصادی استعمار جس میں حصول مراعات کے ظالمانہ نظام کا اجراء اور مسلمانوں کے اقتصادی اور مالی ذرائع کو ختم کر کے تہذیبی استعمار کو لانا اور پھر مسلمانوں کی تہذیب کو برباد کرنا اور ان کو تہذیبی طور پر کمزور بنانا ہے۔ آخری نوآبادیاتی یا استعمار یہ ہے کہ اس بات کو ثابت کریں کہ صرف مغربی تہذیب ہی ہے جو انسان کی خوشحالی کا سبب بن سکتی ہے‘ تہذیبی استعمار اتنی شدت کے ساتھ پھیلایا گیا کہ ذی فہم مسلمان بھی یہ یقین کرنے لگے کہ اگر کسی مشرقی کو تہذیب یافتہ ہونا ہے تو وہ اہل یورپ کی تقلید کرے‘ وہ یورپی وضع قطع اختیار کر کے ان کی زبان سیکھے‘ ان کا لباس زیب تن کرے‘ ان کی عادات‘ خصائل‘ اعتقادات‘ فلسفہ‘ آرٹ اور تمام دیگر چیزیں اپنائے۔
سید نے دین اور سیاست کی ہم بستگی کو دو محاذوں پر ضروری قرار دیا‘ پہلا محاذ‘ اندرونی استبداد اور دوسرا خطرہ بیرونی استعمار۔ انہوں نے انتھک کوشش کی کہ مسلمانوں کے ضمیر کو استبداد اور استعمار کے خلاف بیدار کیا جائے اور اس پروگرام کا ان کے اصلاحی مشن میں اہم مقام ہے۔ اس کے مقابل میں استعمار کے کارندوں نے”سیکولرزم“ اور ”علمانیت“ کے نام پر مذہب اور سیاست کے درمیان دیوار بنانے کی کوشش کی۔ اس مخالف تحریک کی روح رواں کمال اتاترک تھا اور اس کا واحد مقصد سید جمال کے پروگراموں کو چیلنج کرنا تھا۔ عرب دنیا میں سیکولرزم کا پروپیگنڈہ عربی عیسائیوں نے کیا۔ یہ نظریہ صاف ظاہر کرتا ہے کہا گر مذہب اور سیاست میں ہم بستگی پیدا کر دی جائے تو عربی عیسائیوں کو لئے کوئی ایسا کام نہیں رہ جاتا جو وہ سوسائٹی میں ادا کر سکیں۔ عرب عیسائی اس میں اکیلے نہیں تھے بلکہ کچھ مسلمان بھی اس نظریہ میں ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہبی روشن خیال اور ذی فہم لوگ بھی ان کے پرجوش طرفدار بن گئے‘ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟
یہ مسلمان حقیقت میں ایک اور بیماری کا شکار تھے‘ ہم جانتے ہیں کہ سنی دنیا میں خلیفہ اور حاکم ایک ہی ہوتا تھا اور جس کی اطاعت مذہبی فریضہ تھا‘ دین اور سیاست کا ایسا رابطہ بنایا گیا کہ سیاست نے دین کو استعمال کرنا شروع کر دیا‘ اس لئے ان کا مقصد یہ تھا کہ عثمانی خلیفہ اور حاکم مصر ایک دنیاوی مقام پر فائز سمجھے جائیں نہ کہ دینی‘ تاکہ لوگوں کا مذہبی اور ملی ضمیر ان پر تنقید کے سلسلے میں آزاد رہے‘ یہ صحیح راستہ تھا‘ سید جمال کے نزدیک دین اور سیاست کی وابستگی کا یہ مطلب نہیں‘ بقول کواکبی:
”جو کچھ اس نے تعلیم دی وہ یہ تھی کہ مسلمان عوام اپنی سیاسی سرنوشت میں اپنی شرکت کو ایک مذہبی فریضہ و ذمہ داری سمجھیں‘ دین اور سیاست کی وابستگی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مذہب کو سیاست سے ملایا جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاست کو مذہب کے ساتھ ملا دیا جائے۔
وہ عرب جو سیکولرزم اور دین کو سیاست سے جدا رکھنے کے لئے مہم چلاتے رہے‘ انہوں نے کبھی اس سے انکار نہیں کیا کہ عوام کا سیاست میں شامل ہونا ایک دینی فریضہ ہے‘ لیکن دین اور سیاست کی جدائی کی جو پالیسی اتاترک نے اختیار کی وہ عوام کے لئے ایک بدبختی تھی‘ ایران میں بھی ایسا ہی ہوا اور عملاً دین کو سیاست سے جدا کر دیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں اس کو اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ پیکر اسلام سے اسلام کا ایک عزیز ترین عضو جدا کر دیا گیا۔“
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اوپر دیئے گئے مفہوم کے تحت دین اور سیاست کی وابستگی یعنی حکام کو مقام قدس دینا صرف سنی مکتب کے ساتھ وابستہ ہے‘ تشیع اس کو قبول نہیں کرتا‘ اس کا ان کی تاریخ میں وجود نہیں ملتا‘ ان کے ہاں ”اولوالامر“ کی تشریح ایسی ہرگز نہیں ہے جو سنیوں نے کی ہے۔
۶) اسلامی اتحاد
غالباً سید جمال ہی پہلا شخص تھا جس نے مغرب کے خلاف اسلامی اتحاد کا نعرہ بلند کیا‘ اسلامی اتحاد کا مطلب مذہبی اتحاد نہیں ہے جو کہ غیر عملی امر ہے‘ اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایک متحدہ سیاسی محاذ بنایا جائے اور استعماریت کے خلاف متحدہ صف بنائی جائے۔
سید نے مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ مغربی عیسائیوں میں عموماً اور انگلستان میں خصوصاً ابھی تک ”صلیبی روح“ زندہ اور شعلہ زن ہے‘ بے شک مغرب نے تعصب کے خلاف آزاد منشی کا برقعہ پہن لیا ہے‘ لیکن ان کے اندر مسلمانوں کے خلاف تعصب ابھی تک موجود ہے۔ مغرب پرستوں کے برخلاف تعصب کا ہونا سید کے نزدیک برا نہیں تھا‘ ہر دوسری چیزوں کی طرح تعصب بھی افراط و تفریط اور اعتدال رکھتا ہے‘ تعصب میں افراط انسان میں غیر استدلالی جانبداری اور اندھی تقلید پیدا کرتا ہے‘ جو برائیاں ہیں‘ اپنے منطقی و عقلی عقائد کی حمایت کے معنی میں تعصب بہت اچھی چیز ہے۔
سید نے فرمایا:
”اہل یورپ جو یہ جانتے ہیں کہ دین ہی وہ واسطہ ہے جو کہ مسلمانوں کو آپس میں ملاتا ہے‘ اس کو کمزور کرنے کے لئے انہوں نے تعصب کی مکارانہ مخالفت کی‘ لیکن خود ہر مذہب اور ہر جماعت سے زیادہ متعصب ہیں‘ گلیڈسٹوں سینٹ پرس کی روح کا ترجمان ہے‘ یعنی صلیبی جنگوں کی یاددہانی کرانے والا۔“
سید کے حقیقت پسندانہ خیالات کو اس وقت مزید تقویت پہنچی‘ جب جنگ عظیم اول میں یہودی افواج کے یورپی کمانڈر نے عرب اسرائیل جنگ کے دوران بیت المقدس کو مسلمانوں سے لے کر یہودیوں کی تحویل میں دے دیا اور صیہونی حکومت اسرائیل کا قیام کر کے یہ اعلان کیا ”اب صلیبی جنگیں ختم ہو گئیں“۔
استعماریت نے قوم پرستی اور نسل پرستی کے بیج بوئے اور مسلمان ملکوں میں ”پان عربی ازم‘ پان ایرانی ازم‘ پان ترکی ازم اور پانی ہندو ازم“ کے نعرے بلند ہونے لگے۔ ایسی پالیسی کے تحت مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دی گئی‘ شیعہ سنی جھگڑے ہوئے‘ دنیائے اسلام کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے بہت سے حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ یہ سب کچھ ”اسلامی اتحاد“ کے خلاف استعماری سازشیں تھیں۔
سید کا مقصد اسلامی سوسائٹی کے نیم مردہ بدن میں حضرت عیسیٰعليهالسلام
کی طرح مزاحمت اور جہاد کی روح پھونکنا تھا‘ انہوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ جہاد کے اصول کو دوبارہ اپنائیں‘ کیونکہ اس کا بھولنا ان کے انحطاط کا اہم سبب تھا‘ اگر مغربی لوگوں میں صلیبی روح ابھی تک موجود ہے تو مسلمان جہادی روح کو کیوں چھوڑ چکے ہیں؟
کتاب سیری در اندیشیا ہائے سیاسی عربی میں منقول ہے کہ
”سید برطانیہ کو نہ صرف استعماری قوت بلکہ مسلمانوں کا ”صلیبی دشمن“ تصور کرتا تھا‘ ان کا خیال تھا کہ برطانیہ کا مقصد اسلام کی مکمل بیخ کنی ہے اور وہ مسلمانوں کا اس لئے دشمن ہے کہ وہ اسلام کے ماننے والے ہیں۔ یہ برطانیہ کی پالیسی رہی ہے کہ مسلمانوں کا کچھ علاقہ ان سے چھین کر کسی دوسری اسلام دشمن کمیونٹی کو دے دیتا ہے‘ لہٰذا وہ مسلمانوں کی شکست پر خوش ہوتا ہے اور اپنا مفاد مسلمانوں کی تباہی و بربادی میں دیکھتا ہے۔ برطانیہ کے خلاف مہم میں ان کو اور بھی یقین ہو گیا کہ اسلام مزاحمت اور جہاد کا دین ہے اور انہوں نے دینی جہاد کے شروع کرنے پر مزید زور دیا۔ ان کے نزدیک اس حکومت کے خلاف جس نے اسلام کو ختم کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا‘ طاقت استعمال کرنے کے سوا کوئی اور چارئہ کار نہیں تھا۔“
۷) مغرب کے جاہ و جلال کے خلاف جنگ
انیسویں صدی میں جو واقعات و تبدیلیاں مغرب میں ہوئے ہیں‘ ان سے اکثر مسلمان ناواقف رہے اگر ان میں کسی نے یورپ کا چکر لگایا اور تھوڑا بہت جانا کہ مغرب میں خیا ہو رہا ہے‘ تو ان سے مرعوب ہو گئے اور ان کی ترقی نے ان کو بہت متاثر کیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مشرق کے مسلمان مغرب کے عیسائیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کے اندر اتنی طاقت ہے کہ وہ اٹھ سکیں۔ ناصرالدین نے مغرب کے ایک دورے کے دوران اپنے وزیراعظم کو کہا کہ
”اے وزیراعظم! ہم مغرب تک پہنچنے کی کوشش نہ کریں‘ آپ نے فقط جو کرنا ہے‘ وہ یہ ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں‘ کوئی شخص اپنی آواز بلند نہ کرے۔“
سر سید احمد خان جو ہندوستان میں مسلم لیڈر تھے‘ شروع شروع میں مسلسل برطانوی استعماریت کے خلاف لڑتے رہے‘ یہ بات ان کے دوستوں اور مخالفین دونوں نے تسلیم کی ہے کہ ۱۲۸۴ ھ میں پہلے برطانوی دورے نے ان کے ذہن پر کافی اثرات مرتب کئے۔ انہوں نے مغرب کی تمدنی اور سیاسی ترقی‘ اقتصادی فوجی اور تہذیبی طاقت کا مشاہدہ کیا‘ تو استعماریت دشمن خیالات ہوا میں بکھر گئے‘ وہ مغربی تہذیب سے اس قدر متاثر ہوئے اور اس کے رعب و دبدبہ میں آئے کہ یہ گمان کر بیٹھے کہ اس تہذیب کو توڑنا یا اس کے آگے چوں چرا کرنا محال ہے۔ انہوں نے سوچا کہ برطانیہ کے خلاف جہاد کرنا بے فائدہ ہے‘ اس لئے انہوں نے نہ صرف اپنے آپ کو ہندوؤں کی کوششوں سے لاتعلق کر لیا جو وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر برطانوی استعماریت کے خلاف کر رہے تھے‘ بلکہ مسلمانوں کی تحریک مسلم لیگ کو بھی سبوتاژ کرنے کی کوشش کی‘ جس تحریک کے علامہ اقبال ایک کارکن تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ سے تعاون کرنا چھوڑ دیا‘ انہوں نے یہ رائے قائم کی کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ ہندوؤں کے مقابلے میں انگریزوں کی خوشنودی حاصل کریں۔ اب بدلا ہوا سر سید مغربی تہذیب و تمدن کا پرچار کرنے والا بن گیا‘ شاید انہوں نے یہ بھی کوشش کی کہ قرآن کی تاویل مغربی مادی نقطہ نظر سے کی جائے۔
اس کے برعکس سید جمال نہ تو مغربی تہذیب سے متاثر ہوئے اور نہ ہی اس سے مرعوب ہوئے‘ انہوں نے مسلمانوں کو ناامیدی اور مایوسی سے دور رہنے کی تلقین کی اور مغربی استعماریت کے ہّوے کے خلاف جرات مندی کے ساتھ جہاد کرنے کے لئے اکٹھا کیا۔
ڈاکٹر حمید عنایت نے لکھا ہے:
”سید جمال نے ناامیدی اور مایوسی کے خلاف اپنے جہاد کو اپنے رسالہ ”عروة الوثقٰی“ میں خوب ابھار‘ وہ یہ رسالہ عربی زبان میں پیرس سے نکالتے تھے۔ یہ بات اسی زمانے کی ہے جب کہ برطانوی استعمار ایشیاء میں پوری طرح کامیاب و کامران ہو چکا تھا۔ کئی واقعات کے رونما ہونے سے مثلاً ایران کی ۱۸۵۶ ء میں جنگ ہرات میں شکست‘ ۱۸۵۷ ء میں ہندوستانی بغاوت کی ناکامی اور ۱۸۸۲ ء میں مصر پر قبضہ ہو جانا‘ مسلمانوں کے ذہنوں میں برطانوی استعماریت ایک ناقابل شکست طاقت کی حیثیت سے جاگزیں ہو گئی۔ سید جمال نے سوچا کہ جب تک مسلمانوں کو ”عقدئہ ب یچارگی“ سے آزاد نہ کرا لیا جائے ان کا بیرونی نوآبادیت اور اندرونی استبداد کے خلاف انقلاب برپا کرنا ناممکن ہے۔ انہوں نے اپنا مشن بنایا کہ مسلمانوں میں جہاد کی روح پھونکی جائے‘ انہوں نے مسلمانوں کی صفوں میں مکمل اتحاد و یکجہتی پر زور دیا تاکہ برطانیہ کے توسیع پسندانہ عزائم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے۔“
سید کے اس نظریے کا اظہار ان کے اس مضمون سے ہوتا ہے جو انہوں نے ”ایک کہانی“ کے عنوان سے اپنے رسالہ ”عروة الوثقٰی“ میں شائع کیا‘ اس کا خلاصہ یہ ہے:
”شہرالتسخر کے باہر ایک عبادت گاہ تھی جہاں ہر مسافر رات کے اندھیرے کے ڈر سے پناہ لیتا تھا‘ لیکن جو کوئی بھی عبادت گاہ جاتا تھا تو پراسرار موت کا شکار ہو جاتا۔ اس نے لوگوں کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا اور لوگوں نے عبادت گاہ میں پناہ لینی چھوڑ دی۔ آخرکار ایک ایسا شخص جو اپنی زندگی سے عاجز تھا‘ پختہ ارادے کے ساتھ اس کے اندر گھس گیا‘ اچانک خوفناک اور ڈراؤنی آوازیں ہر طرف سے آنے لگیں‘ لیکن آدمی ڈٹا رہا اور ہر خوف و اندیشہ کے لئے تیار رہا‘ کیونکہ وہ اپنی زندگی سے تنگ تو آ ہی چکا تھا۔ اس کے عزم سے عبادت گاہ کا خوفناک طلسم دھڑام سے گر گیا‘ عبادت گاہ کی دیواروں میں بڑے شگافوں سے ان کے گنجینے اس آدمی کے قدموں میں گر گئے‘ تب اس کو معلوم ہوا کہ سابقہ لوگ جس چیز سے قتل ہوئے وہ صرف غیبی خوف تھا۔ برطانیہ بھی اسی طرح ایک عبادت خانہ ہے جہاں بھٹکے ہوئے لوگ سیاست کے اندھیرے سے خوف کھا کر پناہ لیتے ہیں‘ دہشت نات توہمات ان کو برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی کوئی ایسا شخص جو کہ اپنی زندگی سے مایوس ہو چکا ہو‘ لیکن ناقابل تسخیر حوصلے کا مالک ہو تو وہ اس طلسمی عبادت گاہ کے اندر داخل ہو کر بلند چیخ کے ساتھ اس کی دیواروں کو پاش پاش کر دے۔“
یہ اسی طرح کی کہانی ہے جو کہ مثنوی مولانا رومی کی تیسری کتاب میں ”مہمانوں کو قتل کرنے والی مسجد“ کے عنوان سے موجود ہے‘ لیکن سید نے اس کو تھوڑے سے رد و بدل کے ساتھ مسجد کی بجائے عبادت گاہ کے نام سے بتایا ہے تاکہ غیر مسلم ماحول میں بھی اس کو سمجھایا جا سکے۔