شیعوں کی اصلاحی تحریکیں
اب تک ہم نے ایسی تحریکوں کا ذکر کیا جو کہ اہل تسنن نے چلائیں‘ اس میں شک نہیں کہ سید جمال ایران کے باشندے اور شیعہ تھے‘ لیکن سنی مشن میں اصلاحی تحریکوں کی کہانی سید جمال کو بھی اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ اہل شیعہ کی تحریکات جن کا بنیادی مقصد سنیوں سے بہت مختلف تھا‘ مختلف ماحول اور انواع میں ملتی ہیں‘ دنیائے شیعیت میں اصلاحی تحریکوں اور اصلاحی پروگراموں کے بارے میں بہت کم سنا گیا ہے‘ اس سوال پر کہ کیا کرنا چاہئے؟ شیعہ تحریکوں کا بڑا مقصد استبدادی اور استعماری طاقتوں کے خلاف مہم چلاتا رہا۔ سُنی تاریخ میں ہمیں ایسی کوئی تحریک نہیں ملتی جیسے شیعوں نے داخلی استبدادیت اور خارجی استعماریت کے خلاف چلائیں‘ مثلاً ایران میں تحریک تمباکو‘ جس کی قیادت مذہبی رہنماؤں نے کی‘ اس تحریک کے نتیجے میں غیر ملکی دباؤ کو قبول نہیں کیا گیا اور ان کو (غیر ملکی کمپنی) بہت سخت دھچکا لگا۔ انقلاب عراق جس میں عراقیوں نے انگلستان سے آزادی حاصل کر کے اسلامی مملکت عراق قائم کی‘ ایران میں آئینی تحریک جس میں استبدادی حکام کے خلاف مہم چلائی گئی اور استبدادی سلطنت کو ایک آئینی حکومت میں بدلا اور آخر میں موجودہ اسلامی تحریک ایران‘ جس کو مذہبی رہنماؤں نے چلایا‘ شیعہ تحریکیں ہیں۔
یہ تمام تحریکیں شیعہ روحانی رہنماؤں کی قیادت میں چلائی گئیں‘ ان رہنماؤں نے اصلاحی منصوبے بنا کر ان کو لاگو کرنے کے طریقے دریافت کئے۔ تمباکو تحریک ایران کے علماء نے شروع کی‘ اس کی رہنمائی شیعہ مجتہد آقائے میرزا حسن شیرازی نے کی اور اس کو کامیابی سے ہمکنار کیا‘ انقلاب عراق کی رہنمائی مجتہداعظم آقا میرزا محمد تقی شیرازی نے کی۔ یہ حیران کن بات ہے کہ میرزا محمد تقی شیرازی جیسے متقی‘ زاہد‘ محاسبہ نفس کرنے والا اور مصلح یکدم میدان جنگ میں آ جائے اور وہ بھی اس طرح گویا اس نے ساری عمر جنگوں میں گزاری ہو۔ ایران کی آئینی تحریک کی ابتدائی رہنمائی اخوند ملا‘ محمد کاظم خراسانی و آقا شیخ عبداللہ مازندرانی جو کہ مراجع نجف تھے‘ نے کی اور بعد میں علمائے تہران سید عبداللہ بہبہانی اور سید محمد طباطبائی نے رہنمائی کی۔
سنی دنیا میں مذکورہ بالا تحریکوں کی جو مذہبی مصلحوں اور روحانی رہنماؤں کی زیرنگرانی چلائی گئیں‘ نظیر نہیں ملتی اور وہ تحریکیں جو اصفہان‘ تبریز اور مشہد میں چلائی گئیں‘ ان کی مثال بھی سنی دنیا میں نہیں ملتی‘ مشہد کی تحریک حاجی آقا حسین قمی کی قیادت میں چلائی گئی۔
آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنی علماء نے کسی تحڑیک کی قیادت کیوں نہیں کی؟ جبکہ وہ استبدادیت اور استعماریت کے خلاف جہاد کے لئے بہت کچھ کہتے رہے‘ اس کے برعکس شیعہ علماء ان تحریکوں کی رہنمائی کر کے کامیابی کے ساتھ عظیم انقلاب لائے‘ لیکن انہوں نے موجود برائیوں کے متعلق کم سوچا اور ان بیماریوں کے حل کے سلسلے میں بہت کم تجاویز پیش کیں‘ اسلام کے سیاسی فلسفہ کے بارے میں کم گفتگو کی۔
ان دو پہلوؤں کی شیعہ اور سنی روحانی نظام میں حیثیت کے متعلق نہایت محتاط مطالعہ کی ضرورت ہے۔ سنی نظام روحانیت حکام کے ہاتھوں ایک مذاق بن گیا‘ کیونکہ سنی علماء نے حکام کو ”اولوالامر“ کا درجہ دے رکھا تھا۔
اگر عُبدہ جیسی شخصیت مفتی کا عہدہ لینا چاہتا ہے تو اس کو خدپو عباس کا اجازت نامہ چاہئے اور اگر شیخ محمود شلتوت جیسی عظیم المرتبت شخصیت اور مصلح کو جامعہ الازہر کا چانسلر بنانا یا اسلامی قوانین کے مفتی اعظم کے عہدہ پر بٹھانا مقصود ہے تو جمال عبدالناصر جیسی سیاسی اور فوجی شخص کے آرڈر کی ضرورت ہو۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ سنی روحانیت ایک پابند روحانی ہت ےاور اس میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ دوسری پارٹی کے خلاف اٹھے اور لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لے۔
لیکن شیعہ روحانیت ایک آزاد ادارہ ہے اور وہ اپنی طاقت (روحانی نقطہ نظر سے) صرف اللہ سے لیتے ہیں اور اجتماعی نقطہ نظر سے یہ عوام سے طاقت لیتے ہیں‘ لہٰذا تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں شیعہ روحانیت ایک ایسی طاقت رہی جو مظلوموں کی ڈھارس ہو‘ لہٰذا پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ سید جمال نے ان ملکوں جہاں سنی آبادی زیادہ تھی براہ راست عوام سے رابطہ قائم کیا‘ لیکن ایران میں جہاں شیعہ آبادی زیادہ تھی‘ علماء کی طرف رجوع کیا۔ سنی ممالک میں وہ چاہتا تھا کہ عوام کو جگایا جائے لیکن شیعہ ممالک میں علماء ہی انقلاب لانے کی ابتداء کریں‘ یہی بات ہے کہ شیعہ روحانیت حاکموں کی دسترس سے باہر رہی۔ اس کی وجہ سے شیعہ روحانیت میں انقلاب لانے کی صلاحیت موجود ہے‘ جبکہ سنی روحانیت میں ایسا نہیں۔
شیعہ روحانیت نے عملاً کارل مارکس کے اس نظریے کو مسترد کر دیا کہ مذہب حکومت اور سرمایہ کی مثلث تمام تاریخ میں قائم رہی‘ ان تینوں اسباب نے ہم دست اور ہم کار ہو کر عوام کے خلاف ایک طبقے کو جنم دیا اور ان اسباب کی وجہ سے لوگوں میں ذاتی بیگانگی پیدا ہوئی۔ تاہم فلسفی اور اصلاح پلان کے نقطہ نظر سے شیعہ دنیا میں ایسی شخصیتیں ظاہر ہوئیں جنہوں نے خالص اصلاحی نظریات پیش کئے‘ مثلاً آیت اللہ بروجردی‘ علامہ شیخ محمد کاشف انعطاء‘ علامہ سید محسن عاملی‘ اور علامہ شرف الدین عاملی اور خصوصاً علامہ نائینی۔ اہل نظر کے لئے یہ بات دلچسپ ہو گی کہ ان بزرگوں کے اصلاحی نظریات کا تجزیہ اور تحلیل کریں‘ یہ ظاہر ہے کہ یہ نظریات اپنے اپنے پس منظر میں محدود ہیں۔ میں نے اپنے مقالہ ”مزایا و خدمات آیت اللہ بروجردی“ میں ان کے اصلاحی نظریات خصوصاً اسلامی اتحاد کے بارے میں تشریح کی ہے‘ یہ پورا مقالہ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں درج کیا گیا ہے۔
ایرانی اسلامی تحریک
تاریخ دور حاضر کے صاحبان علم و دانش اس بات کو مانتے ہیں کہ ہماری صدی کے دوسرے نصف میں تقریباً تمام یا کم از کم کچھ ممالک میں اسلامی تحریکیں ظاہراً یا خفیہ طور پر ابھرتی رہی ہیں‘ یہ تحریکیں عملی طور پر سرمایہ داری‘ استبدادیت اور مادیت پرستی جو کہ استبدادیت کی جدید نئی شکل ہے‘ کے خلاف کام کرتی رہیں۔ سیاسی ماہرین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ مسلمان جہالت اور ”ذہنی قحط“ کے دور سے گزر کر اپنی ”ہیئت اسلامی“ کی تشکیل کر رہے ہیں‘ تاکہ سرمایہ دار مغرب اور کمیونسٹ مشرق کا مقابلہ کر سکیں‘ لیکن کسی بھی اسلامی ملک میں اس تحریک نے اتنی زیادہ وسیع اور عمیق شخل اختیار نہیں کی جتنی کہ ایران میں ۱۹۶۰ ء سے شروع کی ہے اور جو ایران میں اس تحریک کی موجودہ شکل ہے اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی‘ اس لئے یہ ضروری ہے کہ تاریخ کی اس لاجواب اور بہت اہم تحریک کا مفصل جائزہ لیا جائے۔
اب جبکہ ہمارے عوام اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں‘ ان کو اس تحریک کی ماہیت سے بے خبر نہیں رکھا جانا چاہئے‘ اب جب تحریک زوروں پر ہے تو یہ بہت ضروری ہے کہ اس کے تمام پہلوؤں کو ان لوگوں پر آشکارا کیا جائے جو کہ اس میں کام کر رہے ہیں‘ یہ ان لوگوں کے مفاد میں ہو گا کیونکہ وہ اس کے مقاصد کے حصول تک جدوجہد کر رہے ہیں‘ ساتھ ہی شاید یہ تجزیہ ان لوگوں کے لئے بہت ضروری نہیں ہو گا جو ان تمام معاملات کے احاطہ سے باہر ہیں۔
اس وقت جب تحریک اپنے عروج پر ہے اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک میدان جس میں گرد و غبار کا ایک بڑا طوفان آیا ہوا ہے‘ اس میں مشاہدہ کرنا یا تصویر اترانا ناممکن ہو جاتا ہے یہ صرف اس وقت ممکن ہے کہ ایک یا زیادہ تصویریں بنائی جائیں جب طوفان گرد و غبار ختم ہو جائے اور مطلع صاف ہو۔ بہرحال اس تحریک جا تجزیہ ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اس میں کام کیا اور ساتھ ہی ان بعد میں آنے والوں کے لئے جو اس کے دوررس نتائج کو دیکھیں گے‘ بہت اور مفید ہو گا۔ میری نظر میں اس کا تجربہ ان خطوط پر کرنا چاہئے:
۱ ۔ تحریک کی نوعیت
۲ ۔ تحریک کے مقاصد
۳ ۔ تحریک کی قیادت
۴ ۔ تحریک کا بحران
تحریک کی نوعیت
تمام قدرتی واقعات اور حوادث جو اجتماعی اور تاریخی ہوں‘ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ تمام تاریخی تحریکیں نوعیت کے اعتبار سے ایک طرح کی نہیں ہوتیں‘ اسلامی تحریک ”صدر اسلام“ کی نوعیت کسی بھی طور پر فرانسیسی انقلاب یا روس کے انقلاب اکتوبر کی طرح نہیں ہے۔
کسی ایک تحریک کی نوعیت کا تعین مختلف طریقوں سے کیا جا سکتا ہے‘ مثال کے طور پر ان لوگوں اور گروہوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے جو اس تحریک کے پہیہ کو گھما رہے ہوتے ہیں‘ پھر ان اسباب اور حالات سے جو کہ انقلاب کی زمین تیار کرنے میں ممد و معاون ہوئے ہیں یا ان راستوں سے بھی اس کی نوعیت کا تعین کیا جا سکتا ہے جو کہ تحریک اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر اختیار کرتی ہے اور وہ آواز بھی جو تحریک میں طاقت اور روحانیت پیدا کر دے‘ نوعیت کے تعین میں کام کر سکتی ہے۔
ایران کی موجودہ تحریک کسی ایک گروہ یا ٹریڈ یونین کی تحریک نہیں ہے‘ یہ تحریک نہ ایک مزدور‘ ایک کسان‘ ایک طالب علم‘ ایک دانشور‘ ایک صنعت کار‘ ایک روحانی عالم کی تحریک نہیں ہے‘ بلکہ یہ تحریک ہر ایک کی ہے‘ اس میں امیر اور غریب عورت اور مرد‘ سکول کا طالب علم اور استاد‘ مزدور‘ کسان غرضیکہ تمام طبقوں کی نمائندگی ہے۔ عظیم مراجع کا ایک اعلامیہ ملک کے پورے طول و عرض پر چھا جاتا ہے اور ہر طبقہ کے لوگ اس کو مانتے ہیں‘ اس کی آواز شہروں اور دیہاتوں میں یکساں سنائی دیتی ہے‘ اس کا خراسان اور آذربائیجان کے عوام پر اتنا ہی اثر ہے جتنا ملک سے دور یورپ اور امریکہ میں بیٹھے ہوئے ایرانی طلباء پر۔ اس نے غیر متاثرہ لوگوں میں اتنا ہی جوش و ہیجان پیدا کیا جتنا کہ مظلوم اور محروم لوگوں کے اندر‘ دونوں طبقوں کے دلوں میں استحصال کے خلاف یکساں نفرت ابھری۔
یہ تحریک ان مفسرین کے رد کے لئے ایک سنہری تاریخی ثبوت ہے‘ جو تاریخ کی تفسیر مادی نقطہ نظر سے کرتے ہیں اور مادیت پرستی کے حامی ہیں اور وہ صرف اقتصادیات ہی کو سوشل ڈھانچہ میں اہمیت دیتے ہیں اور اجتماعی تحریکوں کو طبقاتی کشمکش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ مادیت پرستوں کا عقیدہ کہ تمام راستوں کا منتہا ”شکم“ یعنی خوراک کا حصول ہے‘ اس تحریک کے سامنے ہیچ ہے۔
موجودہ تحریک ان تحریکوں کی مانند ہے جیسی پیغمبروں نے تاریخ انسانیت میں تحریکیں چلائی ہیں‘ جو ”خود آگاہی الٰہی“ یا ”خدا آگاہی“ کے لئے تھیں‘ خود آگاہی الٰہی کی جڑیں انسانی فطرت میں گہری اتری ہوئی ہیں اور یہ ضمیر باطن سے پھوٹتی ہیں پیغمبرانہ پیغام انسان فطری شعور کے ان پہلوؤں کو جگاتا ہے کہ اس کا اصل مقام کیا ہے‘ وہ کس شہر اور دیر سے آیا ہے‘ یہ احساس اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اندر عجیب اور حیران کن کیفیات اور لگاؤ محسوس کرنے لگتا ہے اور یہ لگاؤ اس کو خدا کے قریب لے جاتا ہے‘ خدا کی قربت ایک انتہائی سودمند قربت ہے‘ اس قربت میں تمام اچھی صفات مثلاً خوبصورتی‘ مساوات‘ عدل‘ کمال و زیبائی‘ قربانی‘ ایثار اور دوسرے کے مفادات کے لئے سوچنا موجود ہیں۔
ہر انسان کے دل میں خدا کی پہچان اور اس کی عبادت کرنے کا جذبہ موجود ہوتا ہے‘ پیغمبر انسان کے ان احساسات کو ابھارتے ہیں جو اس کو ہر شکل اور مظہر میں بلندی اور عالی مرتبت کی طرف لے جاتے ہیں اور پستی و کمزوری کے احساسات ختم ہو جاتے ہیں اور انسان کو یہ نظریہ دیتے ہیں کہ وہ سچائی اور صراط مستقیم کی اس لئے پیروی کریں کہ وہ حق اور حقیقت ہیں‘ نہ کہ اس لئے کہ ان کے اپنے ذاتی مفادات اس میں وابستہ ہیں اور باطل کی دشمنی اس لئے کرتے ہیں کہ باطل‘ باطل ہے۔
ہر نقصان اور فائدہ سے بے نیاز عدالت‘ انصاف‘ درستی اور سچائی‘ خدائی ہیں جو خود نصب العین اور مقصود کی صورت میں آتی ہیں‘ یہ صرف تنازعہ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے اوزار نہیں ہیں۔
جب کسی انسان میں خدائی بیدار ہو جاتی ہے تو انسانی اعلیٰ اقدار اس میں بصورت نصب العین آ جاتی ہیں‘ تو وہ ایک شخص کا طرفدار صرف ایک شخص کے عنوان سے یا ایک شخص کا دشمن صرف ایک شخص کے عنوان سے نہیں رہتا اور عدل کا طرفدار ہوتا ہے نہ کہ عادل کا‘ وہ ظلم کا دشمن ہوتا ہے نہ کہ ظالم کا۔ اس کی عادل کی طرفداری اور ظالم کی دشمنی نفسیاتی اور ذاتی دباؤ کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ اصولی اور مسلکی ہوتی ہے۔
جو اسلامی وجدان ہماری سوسائٹی میں پیدا ہوا ہے‘ وہ اسلامی اقدار کی جستجو کے لئے ہے‘ یہ وجدان تمام جماعتوں کا مشترکہ وجدان ہے اور تمام طبقات کو ہم آہنگ کر کے ایک ہی حرکت میں چلا رہا ہے۔
اس تحریک کی جڑیں ہمارے ملک میں اس صدی کے آخری حصہ میں ہونے والے واقعات میں ملتی ہیں اور ان حالات میں جہاں ان واقعات نے ہماری سوسائٹی کے اسلامی اقدار سے الجھنے کی کوشش کی۔
یہ ظاہر ہے کہ ہمارے ملک میں آخری نصف صدی میں ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے اسلامی اقدار کی مخالف سمت اختیار کی اور جن کا مقصد یہ تھا کہ ان مصلحوں کی لائی ہوئی اصلاحوں کو سبوتاژ کیا جائے جو بیسوی صدی کے آخر میں چلائی گئیں‘ ایسے حالات بغیر کسی شدید ردعمل کے زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے تھے۔
ایران میں نصف صدی کے اخیر میں کیا ہوتا رہا؟ اس کو مختصراً مندرجہ ذیل صورت میں پیش کیا جا سکتا ہے:
۱ ۔ مکمل استبدادیت اور ہر قسم کی آزادی کا خاتمہ‘ جدید نوآبادیاتی نظام کا نفوذ۔
۲ ۔ نفوذ استعمار نو‘ یعنی ایک خطرناک اور ناقابل دید صورت میں سیاسی‘ اقتصادی اور تہذیبی استعمار کو نافذ کرنا۔
۳ ۔ دین اور سیاست میں دوری پیدا کرنا‘ بلکہ دین کو میدان سیاست سے بالکل الگ کر دینا۔
۴ ۔ ایران کو زمانہ جاہلیت قبل از اسلام کی طرف لے جانے اور مجوسی تہذیب کے اجراء کی کوشش‘ مہمدی ہجری کی مجوسی کیلنڈر میں تبدیلی اس بات کی مظہر ہے۔
۵ ۔ اسلامی بیش بہا تہذیب میں تحریف اور تبدیلیاں لا کر اس کو موہوم ایرانی کلچر میں تبدیل کرنا۔
۶ ۔ ایرانی مسلمانوں کو بے دریغ قتل کرنا اور سیاسی لیڈروں کو جیلوں میں اذیتیں دے دے کر مارنا۔
۷ ۔ نام نہاد اصلاح کے باوجود سوسائٹی میں طبقاتی تفاوت کا پیدا کرنا۔
۸ ۔ غیر مسلموں کو مسلمانوں پر حکومت میں اور دیگر تمام شعبو ں میں فوقیت دینا۔
۹ ۔ اسلامی قوانین اور اقدار میں یا تو براہ راست تحریف کرنا اور ختم کرنا یا لوگوں کی کلچرل اور سوشل زندگیوں میں فساد کی ترویج اور اشاعت کی شکل میں اسلامی قوانین کا خاتمہ کرنا۔
۱۰ ۔ ادبیات فارسی کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا اور یہ جتلانا کہ فارسی زبان کو بیرونی اصطلاحات سے نجات دلائی جا رہی ہے (حالانکہ وہ اس فارسی ادب کو تباہ کر رہے تھے جو ہمیشہ اسلام کا حافظ و نگہبان رہا تھا)۔
۱۱ ۔ اسلامی ممالک کے ساتھ روابط کرنا اور غیر ممالک کے ساتھ استوار کرنا‘ اسلام دشمن ممالک جیسے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھانا۔
ان حالات نے جو تقریباً آدھی صدی تک رہے‘ ہماری سوسائٹی کے مذہبی ضمیر کو زخمی کیا اور بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔
دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر ہونے والے واقعات نے لبرل مغرب اور سوشلسٹ مشرق کے جھوٹے سیاسی پروپیگنڈہ کو بے نقاب کر دیا۔ روشن خیال طبقات کو جو امیدیں ان دونوں سے تھیں‘ وہ ناامیدی اور مایوسی میں تبدیل ہو گئیں۔ انہی حالات میں پچھلے چند سالوں سے اسلامی محققین‘ ناقدین‘ سکالرز‘ مصنفین اور مولفین اس مشن میں کامیاب ہونے لگے کہ نوجوان نسل کو اسلام کی دلکش اور کارآمد تعلیمات سے آگاہ کیا جائے۔
ایران کے بہادر اور جوشیلے مذہبی رہنما عرصہ سے ان زیادتیوں کی وجہ سے مغموم و فکرمند تھے اور اس موقع کی تلاش میں تھے کہ کب انقلاب کے لئے اٹھا جائے؟ ظلم اور دباؤ کی چکی میں پچھلے پچاس سال سے پسنے والی قوم نے جو مغرب پسند اور مشرق پسند کے پروپیگنڈہ میں محصور تھی‘ یک لخت اسلامی تعلیمات کی آواز پر لبیک کہا اور متحد ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ایرانی اسلامی تحریک میں یہ اسباب کافی کارگر ثابت ہوئے۔
اسلامی انقلاب کے نعرہ نے تمام ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا‘ شہروں‘ قصبوں‘ دیہاتوں دور دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو کسی ایک لائن کا انتخاب نہیں بتایا گیا ہے‘ کسی ایک نعرہ کا انتخاب بھی نہیں کرایا گیا‘ لیکن ان تمام نعروں سے لوگوں کی آشنائی ان کے اندر صرف اسلامی ضمیر کے بیدار ہونے پر ہوئی۔ کیا ان نعروں میں کوئی ایک نعرہ بتایا جا سکتا ہے جو کہ غیر اسلامی ہو؟