۶) چھٹا اندیشہ
جو الٰہی تحریک کیلئے خطرناک بن سکتا ہے وہ اس کے امور کے متعلق ہے
یہ افکار کی سمت میں تغیر اور ارادوں میں تبدیلی ہے‘ الٰہی تحریک اللہ کے لئے چلائی جاتی ہے اور اس کو اللہ کے لئے چلتے رہنا چاہئے۔ آخری کامیابی تک اس میں اللہ کے سوا کسی قسم کا خیال تحریک میں داخل نہیں ہونا چاہئے‘ تبدیلی کا ارادہ تک نہیں کرنا چاہئے‘ اگر ان میں ذرا بھی کمزوری ہو گی تو اندیشے اور خطرات اس کے راستے میں آ جائیں گے اور اس کو تباہ کر دیں گے جو تحریک کا آغاز کرتا ہے وہ خوشنودی اللہ کے علاوہ اور کچھ سوچ بھی نہیں سکتا‘ وہ اللہ کی ذات مقدس پر مکمل توکل رکھتا ہے اور ذہنی طور پر خود کو ہر وقت اللہ کے حضور میں حاضر سمجھتا ہے۔ قرآن میں شعیبعليهالسلام
نبی کی زبانی ارشاد ہوتا ہے:
(
ان ارید الا الاصلاح ما استطعت وما توفیقی الا بالله علیه توکلت و الیه انیب
)
”مسلمانوں کا ایک گروہ جنگ لڑنے کے بعد مدینہ واپس لوٹا تو رسول خدا نے ان سے فرمایا:
مرحبا بقوم قضوا الجهاد الاصغر و بقی علیهم الجهاد الاکبر
”آفرین ہے ان لوگوں پر جنہوں نے جہاد اصغر تو مکمل کر لیا‘ لیکن جہاد اکبر ابھی باقی ہے۔“
وہ بولے:
یا رسول الله وما الجهاد اکبر
”جہاد اکبر کیا ہے؟“
فرمایا:
”خواہش نفس کے خلاف جہاد۔“
انکار کی منزل پر جب ساری سرگرمیاں بیرونی دشمنوں سے برسرپیکار رہنے میں صرف ہو رہی ہوتی ہیں‘ خیال اور نیت کو پاک و آلائش سے الجھنا قدرے آسان ہوتا ہے لیکن جب تحریک عروج پر پہنچ جائے اور تعمیر کی مثبت منزل آ جائے اور جب موقع پرستوں کو کافی مواقع میسر ہوں تو اس منزل پر اتحاد و یگانگت اور خلوص کو قائم رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
سورئہ مائدہ تو قرآن کی ان آخری سورتوں میں سے ایک ہے جو رسول اکرم ۱ کی زندگی کے آخری دو تین مہینوں میں اتری۔ اس وقت مشرکین کی پوری طرح سرکوبی ہو چکی تھی اور ان کی طرف سے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں تھا‘ ایسے وقت غدیر خم کے مقام پر امامت کی اہمیت کے متعلق آگاہ کیا گیا۔ اللہ کے حکم سے علی علیہ السلام کی امامت اور خلافت کا اعلان کیا گیا اور مسلمانوں کے لئے اس خطرے کا خدائی اعلان ہوا:
”اب تک تم اپنے دشمنوں سے ڈرتے تھے کہ وہ تم کو تباہ و برباد کر دیں گے‘ اب یہ پریشانی دور ہو چکی ہے‘ اب پریشانی خدا کی طرف سے ہے‘ اب تم اپنے دشمنوں اور کافروں سے نہ ڈرو‘ بلکہ مجھ سے ڈرو‘ کیونکہ میں تمہاری گھات میں ہوں۔“
(
الیوم یئس الذین کروا من دینکم فلاتخشوهم واحشون
)
یعنی کیا؟ مطلب صرف یہ ہے کہ اسلامی معاشرے کو صرف اس بات سے خطرہ ہونا چاہئے کہ وہ اللہ کے راستے سے ہٹ نہ جائیں اور خدا کو بھلا نہ دیں اور سنت کو بدل نہ دیں‘ یہ ناگزیر الٰہی قانون ہے کہ جو قوم خدا کے بتائے ہوئے راستوں سے بھٹک جائے تو خدا ان کی حالت کو بدل دیتا ہے۔
(
ان الله لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما با نفسهم
)
(رعد‘ ۱۶)
”خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی‘ جب تک وہ خود اپنی سوچ اور عمل سے اپنے آپ کو نہیں بدلتے۔“
مصلح کی کامیابی کی شرطیں
میں اس مضمون کے اختتام پر مولائے متقیان حضرت علیہ علیہ السلام کے نہج البلاغہ میں منقول اقوال زرین میں سے ایک قول کو بیان کرنے کا شرف حاصل کرتا ہوں‘ جس میں انہوں نے چند ایسی خاصیتیں بتائی ہیں جو کہ ایک انقلابی مصلح کے لئے ضروری ہیں‘ میں اس کی تفسیر بیان کرنے کی بھی جسارت کر رہا ہوں۔
انہوں نے فرمایا:
انما یقیم امرالله سبحانه من لا یصانع ولا یضارع ولا یتبع المطالمع
(نہج البلاغہ‘ ۱۵۷)
ان جملوں کا مطلب ”فرامین خدا کی تائید کرنا“ ہے۔
پچھلی صدی میں جتنے اسلامی مصلح گزرے ہیں‘ انہوں نے اس قول کو ”اسلامی فکر کی احیاء“ سے تعبیر کیا ہے۔ ذکر اس کا ہے کہ بعض ایسے موقعے آتے ہیں کہ کسی معاشرے میں خدا کے احکام زمین پر آ رہتے ہیں‘ ان کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور ان احکام کو دوبارہ نافذ کرنا ہوتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون شخص ہے جو اس پیغمبرانہ کام کو سرانجام دینے کی قدرت رکھتا ہے؟
علی علیہ السلام کے اقوال زرین میں لفظ ”انما“ تین خصوصیتوں کی شرط لگاتا ہے جن سے ایک مصلح کو محفوظ رہنا چاہئے‘ یہ ہیں:
”مصانعہ‘ مضارعہ (مشابہت) اور لالچ کی غلامی۔“
لفظ ”مصانعہ“ کے لئے مجھ کو کوئی ایک ایسا لفظ نہیں مل سکا جو اس کے مفہوم کو پورے طور پر ادا کر سکے‘ مثلاً ”مصلحت“، ”احتیاط برتنا“ وغیرہ‘ یہ سب مصانعہ کے ذیل میں آتے ہیں لیکن مصانعہ کا مفہوم اس سے زیادہ وسیع ہے۔ جب علیعليهالسلام
کے سامنے یہ تجویز پیش کی گئی کہ معاویہ کو معزول کرنے کے سلسلے میں جلدی نہ کریں تو اس بات کو علیعليهالسلام
اور ان کے رفقاء نے ”مصانعہ“ سے تعبیر کیا‘ یہاں تک کہ علیعليهالسلام
اس ”مصلحت“ کی خاطر اس بات پر بھی تیار نہ ہوئے کہ معاویہ ایک گھنٹہ بھی اپنے عہدے پر باقی رہے۔ علیعليهالسلام
اس کو ”مصانعہ“ سمجھتے تھے‘ حالانکہ یہ اس طرح کی مصلحت تھی جس سے سیاست دان کام لیتے ہی رہتے ہیں۔
بعض اوقات رفقاء اور احباب علیعليهالسلام
کے پاس آتے تھے اور منہ پر ان کی تعریف کرتے تھے‘ ان کی عظمت کا ذکر کرتے تھے اور ان کے لئے القابات استعمال کرتے تھے اور اگر امور و معاملات میں کوئی نقص نظر آتا تھا تو وہ گول کر جاتے تھے اور ظاہر نہیں کرتے تھے۔ علیعليهالسلام
سختی سے منع کرتے تھے کہ یہ طرز عمل اختیار نہ کرو اور کہتے تھے کہ یہ طرز عمل ایک طرح کی ”مصانعہ“ ہے اور کہتے تھے:
لا تحالطونی بالمصانعه ولا تکلمونی بما تکلم به الجبابرة
”مصالحت کے ساتھمجھ سے نہ ملا کرو اور میرے ساتھ وہ اندازِ گفتگو اختیار نہ کرو جو ظالم و جابر لوگوں کے ساتھ گفتگو کرتے وقت اختیار کیا جاتا ہے‘ یعنی خوشامد‘ چاپلوسی‘ تعریف و ستائش اور بڑے بڑے القابات سے اپنی گفتگو کو آراستہ نہ کیا کرو۔“
وہ صاف صاف کہا کرتے کہ مجھ کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ جب لوگ مجھ سے ملیں تو تکلفات و تعریف و ستائش کی بجائے نقائص اور عیوب کو صاف صاف بیان کر دیا کریں۔
احکام خدا کے صادر کرنے کے معاملے میں جھجک اور ہچکچاہٹ ”مصانعہ“ ہے‘ امور میں دوست‘ ساتھی‘ اولاد‘ رشتہ دار اور مرید کے ساتھ رو رعایت سے کام لینا ”مصانعہ“ ہے۔
قرآن کریم میں لفظ ”ادھان“ آیا ہے‘ آج کل عام طور پر لفظ ”مداہنہ“ کا رواج ہے۔ ”ادھان“ یعنی ”لیسپاپوتی“، یہ لفظ ایسے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جب کسی کام کو سنجیدگی سے انجام نہ دیا جائے صرف اوپری سطح پر‘ صرف ظاہر کو در ست کر دیا جائے‘ لیکن کام کی اسپرٹ کی طرف توجہ نہ کی جائے۔
قرآن فرماتا ہے کہ
”کفار کو تو یہ پسند ہے کہ اہل مداہنہ میں سے ہوتے تاکہ وہ مداہنہ سے کام لیتے‘ مثلاً توحید‘ اخوت‘ مساوات‘ امتناع سود‘ ان سب کا ظاہر ٹھیک ٹھیک رہتا‘ نہ کہ ان کی روح اور ان کی حقیقت۔“
مختصر یہ کہ کفار چاہتے تھے کہ تم اہل مصانعہ ہوتے اور تم وہ نہیں ہو‘ پس محض ظاہر کو سنوارنے پر قناعت کر لینا ”مصانعہ“ ہے۔
ہم بتا چکے ہیں کہ خدائی احکام کی تعمیل کے سلسلے میں دوستوں‘ اولاد‘ رشتہ داروں‘ مریدوں کے ساتھ رعایت برتنا ”مصانعہ“ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ایک قصہ تاریخ میں درج ہے‘ جو اس لحاظ سے سبق آموز ہے:
”ایک دفعہ علیعليهالسلام
سپہ سالار کی حیثیت سے اپنے سپاہیوں کے ساتھ یمن سے واپس آ رہے تھے‘ یمنی پوشاکیں ان کے ساتھ تھیں‘ جو وہ بیت المال کے لئے لا رہے تھے۔ نہ تو خود آپعليهالسلام
نے ان میں سے کوئی پوشاک زیب تن فرمائی‘ نہ کسی سپاہی کو پہننے دی۔ جب آپعليهالسلام
مکہ سے ایک دو منزل کے فاصلے پر پہنچے (اس وقت رسول خدا حج کے لئے مکہ آئے ہوئے تھے) تو حضرت علیعليهالسلام
اپنی کارگزاری پیش کرنے کے لئے خود آگے بڑھ گئے اور آنحضرت ۱ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر اپنے لشکر کے پاس واپس آئے تاکہ سپاہیوں کے ہمراہ مکہ میں داخل ہوں۔ جس وقت آپعليهالسلام
لشکر کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ سپاہیوں نے وہ پوشاکیں پہن رکھی ہیں‘ علیعليهالسلام
نے بغیر کسی ہچکچاہٹ‘ رو رعایت اور سیاسی مصلحت اندیشی کے وہ لباس اتروا لئے اور واپس رکھوا دیئے‘ سپاہیوں پر یہ بات گراں گزری۔ جب یہ سپاہی آنحضرت کے حضور میں حاضر ہوئے تو آنحضرت ان سے مختلف مختلف سوالات کرتے رہے‘ اسلسلسے میں بھی پوچھا کہ کیا تم لوگ تم اپنے سپہ سالار کے رویے سے خوش ہو؟ وہ بولے کہ جی ہاں‘ لیکن اور پھر انہوں نے پوشاکوں والا واقعہ بیان کیا‘ اس موقع پر حضرت علیعليهالسلام
کے بارے میں رسول خدا نے وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:
انه لا خیش فی ذات الله
”وہ ذات خدا کے معاملے میں بہت سخت گیر ہیں۔“
یعنی جہاں تک احکام خداوندی کا تعلق ہے وہ کسی مصانعہ اور رو رعایت سے کام نہیں لیتے‘ مصانعہ اور مصانعہ پسندی ایک طرح کی کمزوری اور برائی ہے‘ اس کے مقابلے میں سخت گہری کا اصول ہے جو ایک طرح خی دلیری اور طاقت ہے۔“
اور اب ”مضارعہ“ مضارعہ یعنی مشابہت‘ جو شخص کسی معاشرے کی اصلاح کرنا اور اس کو بدلنا چاہتا ہے‘ اس کو خود اس معاشرے کے لوگوں جیسا نہیں ہونا چاہئے یعنی اس کو ان کمزوریوں سے پاک ہونا چاہئے‘ جن میں اس معاشرے کے لوگ مبتلا ہیں‘ تبھی وہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے ( ع)
و غیر تقی یا مر الناس بالتقی
طبیب ید اوی الناس وهو علیل
جہاں تک جسمانی بیماریوں کا تعلق ہے‘ یہ ممکن ہے کہ کبھی ایک بیمار دوسرے بیمار کی بیماری دور کرنے میں کامیاب ہو جائے‘ لیکن روحانی اور معاشرتی علاج کے معاملے میں یہ ناممکن ہے‘ اپنی ذات کی اصلاح معاشرے کی اصلاح پر مقدم ہے۔ اسی طرح آپ نے ارشاد فرمایا:
”خدا کی قسم میں نے تم کو کسی ایسی بات کا حکم نہیں دیا جس پر حکم دینے سے پہلے خود عمل نہ کیا ہو اور تم کو ایسی بات سے منع نہیں کیا جس سے پہلے خود پرہیز نہ کیا ہو۔“
جو شخص عوام الناس کا امام و رہنما بننے کا خواہش مند ہے‘ اس کو پہلے خود اپنی ذات کی تعلیم و تربیت پر توجہ کرنا ہو گی‘ اس کے بعد عوام الناس کی تعلیم و تربیت کی باری آئے گی۔ دوسروں کو تعلیم و ادب سے آراستہ کرنے والے زیادہ سے زیادہ محترم وہ شخص ہے جو خود اپنی شخصیت کو تعلیم و ادب سے سنوارے۔
اور اب ”لالچ کی غلامی“ علیعليهالسلام
نے فرمایا:
الطمع دق موبد
(نہج البلاغہ‘ کلمات قصاء‘ حکمت‘ ۱۸۱)
لالچ ایک جاودانی غلامی ہے‘ ہر قسم کی غلامی میں امید ہوتی ہے کہ مالک آزاد کر دے گا‘ لیکن لالچ جیسی غلامی میں تو ایسی کوئی امید نہیں ہوتی‘ اس غلامی میں وہاں کا اختیار آقا کی بجائے خود غلام کو ہوتا ہے‘ جو شخص احکام خدا کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہو اس کو ان زنجیروں سے آزاد ہونا چاہئے۔
دینی مصلح کی کامیابی کے لئے روحانی آزادی لازمی ہے‘ جس طرح مصلحتوں کو پیش نظر رکھنے والا گھٹیا انسان خدائی اصلاح کے سلسلے میں کامیاب نہیں ہوتا‘ جس طرح خود بیماری میں مبتلا انسان اپنے معاشرے کو شفا نہیں دے پاتا‘ اسی طرح نفسانی طمع اور لالچ کا بندہ بھی دوسروں کو معاشرتی اور روحانی زنجیروں سے آزاد کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
اے پروردگار! تو دلوں اور ذہنوں کا مالک ہے اور سب دل تیرے اختیار میں ہیں‘ ہم کو سیدھے راستے پر قائم اور نفس آمارہ کے شر سے محفوظ رکھ!