حضرت امام حسن عسکری- اور سیاست
حضرت امام علی نقی- اور امام حسن عسکری- کو حکومت نے سامرہ بلوایا اس کی وہی سیاست تھی جو مامون نے امام رضا- کے ساتھ چلی تھی وہ یہ کہ امام کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکے۔ حکومت کی کوشش تھی کہ اس مضبوط زنجیر کو توڑ دیں جو کہ امام اور ان کے حامیوں کے درمیان بن چکی تھی حکومت نے امام سے کہا تھا کہ آپ حکومت سے اپنارابطہ برقرار رکھیں گے جس کے لئے امام کو ہر پیر اور جمعرات کو دربار میں جانا ضروری تھا۔ حکومت نے بظاہر کچھ عرصہ کی قید کے علاوہ امام- کو کوئی اذیت نہیں پہنچائی لیکن زمانے کی حالت کا اندازہ ہم مندرجہ ذیل واقعہ سے لگا سکتے ہیں۔
علی بن جعفر حلبی کہتے ہیں کہ ہم چھاؤنی میں جمع تھے اور منتظر تھے امام کے، کیوں کہ ان کو دربار میں جانا تھا کہ اتنے میں مجھے ایک رقعہ ملا جس پر لکھا تھا کہ:
"کوئی مجھ کو سلام نہ کرے کوئی تم میں سے مجھ کو اشارہ نہ کرے تم خطرے میں ہو"
یہ واقعہ بخوبی ہم کو حکومت کی سختی کے بارے میں بتاتا ہے کہ حکومت نے امام- اور شیعوں کے روابط کو کس قدر کنٹرول میں رکھا تھا۔
امام- نے حکومت کے ان ہی حربوں کو دیکھتے ہوئے اپنے بعد آنے والے امام کے لئے میدان فراہم کیا اور اصحاب کا ایک ایسا گروہ تیار کرلیا جو فقط خط و کتابت کے ذریعے سے آپ- سے رابطہ برقرار رکھتا تھا۔
آپ- نے تمام علاقوں میں اپنے وکیل مقرر کئے تھے جو علاقہ کے مسائل اور وہاں جمع ہونے والی رقم آپ- کے ان نمائندوں تک پہنچاتے تھے جن کا آپ سے رابطہ تھا اس سلسلے کی سب سے اہم شخصیت عثمان بن سعید عمری کی ہے جو امام زمانہ عج کے پہلے نائب خاص بھی تھے۔
خط بھیجنے کے لئے بھی امام- کے مخصوص افراد تھے جن میں ایک ابو الدیان تھے وہ کہتے ہیں کہ:
میں امام حسن عسکری- کا خدمت گزار تھا اور حضرت کے خطوط کو مختلف شہروں میں لے کر جاتا تھا آخری خط دیتے ہوئے امام- نے فرمایا کہ یہ خط مدائن لے کر جاؤ اور تم پندرہ دن میں واپس آؤگے جب پلٹو گے تو مجھ کو غسل دینے کی حالت میں پاؤگے ابو الدیان کہتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی پایا۔
امام- نے اپنی وکالت کے جال کو منظم کیا اور اس کے دو مقاصد تھے۔
۱ ۔ شیعوں کی ہدایت راہنمائی کرنا، ان کی واجب رقم کی ادائیگی کے سلسلے میں تاکہ دین کی حفاظت ہوسکے۔
۲ ۔ ایسے افراد کی پہچان کروانا جن پر آپ- مکمل اعتماد کرتے تھے تاکہ معاشرے میں ان کی شخصیت بنے۔
بہرحال یہ افراد آگے چل کر امام زمانہ (عج) کی غیبت صغری اور پھر غیبت کبریٰ میں لوگوں کی رہنمائی کا ذریعہ بنے۔
اس طرح امام- نے ایک ایسے زمانے میں کہ جب آپ- پر حکومت کی کڑی نظر تھی ایک ایسا نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جو امامت کی درپردہ شخصیت کے پیغام کو لوگوں تک پہنچاسکے۔
نتیجہ
آئمہ اطہار(علیہم السلام)کی زندگی کو اگر ہم دقت کی نظر سے دیکھیں یا اس کا مطالعہ کریں تو پھر ہمارے لئے یہ سوال باقی نہیں رہے گا کہ ہم کس شخصیت کو اپنے لئے مثال (آئیڈیل) بنائیں کس روش کو اپنائیں کس تنظیم میں شمولیت اختیار کریں ہمارے لئے راستہ روشن ہے صرف اس بات کی دیر ہے کہ ہم اس پر عمل کریں۔ آئمہ(علیہم السلام)کی زندگی کے ان پہلوں کو نظر میں رکھ کر ہم کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہماری شخصیت بحثیت شیعہ کے کیا ہے؟
کہیں ایسا تونہیں کہ آئمہ(علیہم السلام)کی محبت ہماری زبانوں تک ہی محدود ہو یایو ں کہہ لیجئے کہ ہم سال کے کچھ ہی دنوں میں ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور سال کے باقی حصہ میں ہماری زبان ان کے ساتھ مگر ہماری تلواریں (اعمال) یزید اور معاویہ کے ساتھ۔ سال کے باقی دنوں میں آئمہ(علیہم السلام)کی تعلیمات کا ہمارے آس پاس سے گزر بھی نہیں ہوتا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اعمال بھی آئمہ(علیہم السلام)کے ساتھ ہوں تواس کا فقط اور فقط ایک ہی پیمانہ ہے اور ایک ہی میزان ہے اور وہ ہے عمل۔ہر شخص اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ وہ کس کا ماننے والا ہے۔
ہم سیرت آئمہ اطہار(علیہم السلام)کویہ کہہ کر نہ چھوڑدیں کہ ہم تو اس قابل نہیں اور یہ عمل تو فقط آئمہ(علیہم السلام)ہی انجام دے سکتے تھے۔اگر ہم یہ سوچ کر آئمہ اطہار(علیہم السلام)کی عملی زندگی کو چھوڑدیں گے یہ سب سے بڑاظلم ہوگا جو کہ ہم خود ان کے چاہنے والے آئمہ اطہار(علیہم السلام)پر کریں گے
والسلام علینا وعلی عباداللّٰہ الصالحین
( ۱۲ صفر المظفر ۱۴۱۵ ھ)