تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 157593
ڈاؤنلوڈ: 4712

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157593 / ڈاؤنلوڈ: 4712
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

اسے پھینک دیں۔(١) (تاکہ مجبور ہوکر قریش سے لباس خریدیں) او رحاجیوں کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ اپنے پاس موجود غذا کو استعمال کریں بلکہ اہل مکہ کی تیار کردہ غذا استعمال کریں۔(٢) (اور ان کے بازاروں سے غذائیں خریدیں) ٩ھ میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی کو مکہ بھیجا تاکہ مشرکین سے برائت کا اعلان کریں۔ قطعنامہ کی ایک شق جس کا علی نے حج کے عمومی پروگرام میں اعلان کیایہ تھی کہ آج کے بعد سے کوئی بھی کعبہ کا برہنہ طواف نہ کرے۔(٣)

مکہ میں قریش کے اثر ورسوخ کا پتہ لگانااس اعتبار سے قابل اہمیت ہے کہ ہم اس کے ذریعہ سے پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی پریشانیوں اور مشکلات کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور پھر غور کریں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سامنا کتنے بڑے اور طاقتور دشمن سے تھا۔ خاص طور پر مکہ میں دعوت اور تبلیغ دین کے دوران بغیر کسی قوت و طاقت ونیز محدود حامیوں کے ساتھ، قریش سے ڈٹ کر مقابلہ کیااور ان کے پنجہ سے پنجہ لڑا دیا!

______________________

(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٧٢؛ ازرقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٤، ١٧٨، ١٨٢؛ کعبہ کا برہنہ طواف جس کے بارے میں پہلے بیان کرچکے ہیں اور نیز اس خاتون کی داستان جس نے بہت ہی بری حالت میں طواف کیا اور کہتی تھی: الیوم یبدو بعضہ او کلہ۔ و ما بدا منہ فلا احلہ، ا س سختی اورانحصا رطلبی کے نتیجہ میں تھا (ازرقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٧٨، ١٨٢؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ١٩٠؛ آلوسی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤٤؛ صحیح مسلم بشرح النووی، ج١٨، ص ١٦٢، کتا ب التفسیر.)

(٢) ازرقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٧.

(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ١٩٠.

۱۰۱

دوسرا حصہ

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ولادت سے بعثت تک

پہلی فصل: اجداد پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

دوسری فصل: حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بچپن اور جوانی

تیسری فصل: حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جوانی

۱۰۲

پہلی فصل

اجداد پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حسب و نسب

حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلۂ نسب میں، آپ کے بیس اجداد کا تذکرہ اس طرح سے موجود ہے:

عبد المطلب، ہاشم، عبد مناف، قصی، کلاب، مرہ، کعب، لوی، غالب، فھر، مالک، نضر، کِنانہ، خزیمہ، مدرکہ، الیاس، مُضَر، نِزَار، مُعَدّ اور عدنان۔(١)

لیکن حضرت اسماعیل تک آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اجداد اور ان کے ناموں کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔(٢)

______________________

(١) طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٢، ص ١٩١؛ ابن اثیر، اسد الغابہ (تہران: المکتبة الاسلامیہ)، ج١، ص١٣؛ طبرسی، اعلام الوری (تہران: دار الکتب الاسلامیہ،ط٣)، ص ٦۔٥۔

(٢) ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ص ١٣؛ ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوة، ترجمہ: محمود مہدوی دامغانی (تہران: مرکز انتشارات علمی و فرہنگی، ١٣٦١)، ص ١١٨؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف (قاہرہ: دارالصاوی للطبع و النشر)، ص١٩٦۔ ١٩٥؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دارصادر)، ج٢، ص٣٣؛ جمال الدین احمد بن عنبہ، عمدة الطالب فی انساب آل ابی طالب (قم: منشورات الرضی، ط ٢)، ص٢٨۔

۱۰۳

آپ اپنے سلسلۂ نسب کو بیان کرتے وقت جب عدنان پر پہنچتے تھے تو ٹھہر جاتے تھے اور بقیہ کو نہیں بیان فرماتے تھے۔(١) اور دوسروں کو بھی اسی بات کی نصیحت فرماتے تھے.(٢) اور عدنان سے اسماعیل تک اپنے اجداد کے سلسلۂ نسب کے بارے میں فرمایا: کہ اہل نساب نے جو بات کہی ہے وہ جھوٹ ہے۔(٣)

عرب کے تمام قبیلے دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ''قحطانی اور ''عدنانی''(٤) اور قریش عدنان (رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیسویں جد) سے انتساب کی بنا پر، عدنانی کہے جاتے ہیں۔ عدنانی عرب میں، جس کا خاندان اور سلسلۂ نسب نضر بن کنانہ سے ملتا ہے وہ قرشی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ قریش، آپ کا نام یا لقب تھا۔(٥)

______________________

(١) ابن سعد، طبقات الکبری، (بیروت: دار صادر)، ج١، ص ٥٦؛ ہشام بن محمد الکلبی، جمھرة النسب، تحقیق: ناجی حسن (بیروت: عالم الکتب، ط١)، ص ١٧۔

(٢) ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة ا لعلمیہ)، ج١، ص ١٥٥؛ طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص٦؛ مجلسی، بحار الانوار، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ)، ج١٥، ص ١٠٥۔

(٣) کلبی، گزشتہ حوالہ، ص١٧؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص٥٦؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٥؛ ابن عنبہ، گزشتہ حوالہ، ص ٢٨۔

(٤) پہلے گروہ کو یمانی (یمنی) اور دوسرے گروہ کو مضری، نزاری اور قیسی بھی کہتے ہیں

(٥)ابن شہرآشوب، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٤؛ ابن عنبہ، گزشتہ حوالہ، ص ٢٦؛ طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص٦؛ ابن قتیبہ، المعارف، تحقیق: ثروة عکاشہ (قم: منشورات الرضی، ١٤١٥ھ.ق)، ص٦٧؛ طبرسی، مجمع البیان، (تہران: شرکة المعارف الاسلامیہ)، ج١٠، ص ٥٤٥؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلبی،، ١٣٥٥ھ.ق)، ج١، ص ٩٦؛ ابن عبد ربہ، العقد الفرید (دار الکتاب العربی، ١٤٠٣ھ.ق)، ج٣، ص ٣١٢؛ ابن کثیر، السیرة النبویہ، (قاہرہ: مطبعة عیسی البابی الحلبی)، ج١، ص ٨٤؛ محمد امین بغدادی سویدی، سبائک الذہب فی معرفة قبائل العرب (بیروت: دار صعب)، ص ٦٢؛ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، (نجف : المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٣ھ.ق)، ج١، ص ٢٠٤۔

بعض اہل نساب نے، فہربن مالک بن نضر کو قرشی کہا ہے۔ رجوع کریں: کلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٢١؛ ابن سعد.گذشتہ حوالہ، ص٥٥؛ ابن عنبہ، گذشتہ حوالہ، ص٢٦؛ ابن ہشام، گذشتہ حوالہ، ص ٩٦؛ محمد امین بغدای، گذشتہ حوالہ، ص٦٢؛ ابن واضح، گذشتہ حوالہ، ص ٢٠٤؛ ابن حزم، جمھرة انساب العرب (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ط١، ١٤٠٣ھ.ق)، ص١٢؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، (انسان العیون) (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص٢٦۔ ٢٥۔ دوسرے اقوال بھی اس بات میں موجود ہیں کہ جن کا ذکر کرنا فائدہ نہیں رکھتا۔ رجوع کریں: السیرة الحلبیہ، ج١، ص٢٧۔

۱۰۴

قبیلۂ قریش(١) متعدد خاندانوں او رحصوں میں بٹا ہوا تھا۔ جیسے بنی مخزوم، بنی زھرہ، بنی امیہ ، بنی سہم اور بنی ہاشم(٢) اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آخری خاندان سے تھے ۔

حضرت عبد المطلب کی شخصیت

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اجداد میں ہم زیادہ تر معلومات آپ کے پہلے جد عبد المطلب کے بارے میں رکھتے ہیں کیونکہ ان کا دور حیات عصر اسلام سے نزدیک رہا ہے۔

جناب عبد المطلب، ایک ہر دل عزیز، مہربان، عقلمند، سرپرست اور قریش کی ایسی پناہ گاہ تھے(٣) جن کا کوئی مقابل اور رقیب نہیں تھا۔ وہ تمام عظیم الٰہی شخصیتوں کی طرح اپنے معاشرے میں نمایاں کردار رکھتے تھے ۔ طولانی عمر پانے کے باوجود مکہ کے آلودہ سماج کے رنگ میں اپنے کو کبھی

______________________

(١) عرب کے قبیلے اور گروہ چھوٹے اور بڑے ہونے کے لحاظ سے اور اس کے اندر جو شاخیں پیدا ہوئی تھیں ان کے اعتبار سے ترتیب وار انھیں شعب، قبیلہ، عمارہ، بطن، فخذ اور فصیلہ کہا جاتا تھا۔ جیسے خزیمہ، شعب، کنانہ، قبیلہ، قریش، عمارہ، قصی، بطن، ہاشم، فخذ، اور عباس کو فصیلہ کہا جاتا تھا (ابن حزم، العقدالفرید، ج٣، ص ٣٣٠؛ ڈاکٹر حسین مؤنس، تاریخ قریش، (دار السعودیہ، ط ١، ١٤٠٨ھ.ق) ، ص ٢١٥) اس بنیاد پر بعض دانشوروں نے قریش کو ''قبیلہ'' اور بعض نے ''عمارہ'' کہا ہے۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ اس تقسیم بندی کی بنیاد اور اصل ، محل بحث ہے۔ اور اصولی طور پر بعض محققین نے اس تقسیم بندی کو قبول نہیں کیا ہے۔ (تاریخ قریش، ص ٢١٦۔ ٢١٥)، ہم یہاں پر اس بحث سے ہٹ کر صرف آسانی کے لئے قریش کو قبیلہ کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں۔

(٢)مسعودی نے قبیلۂ قریش میں ٢٥ خاندان بتائے ہیں اور ان کا نام ذکر کیاہے۔ (مروج الذہب، (بیروت: دار الاندلس، ط١، ١٩٦٥)، ج٢، ص ٢٦٩.)

(٣) حلبی، گزشتہ حوالہ، ص٦۔

۱۰۵

نہیں رنگا۔ اس وقت مکہ میں معاد کا عقیدہ نہیں پایا جاتا تھا یا بہت کم تھا۔ لیکن عبد المطلب نہ صرف معاد کا عقیدہ رکھتے تھے بلکہ روز قیامت کی جزا اور سزا کے بارے میں بھی تاکید فرماتے تھے اور کہتے تھے: اس دنیا کے بعد ایسی دنیا آئے گی جس میں اچھے اور برے لوگ، اپنے اعمال کی جزا اور سزا پائیں گے۔(١)

جبکہ اس وقت جزیرة العرب کے ماحول میں قبیلہ جاتی عصبیت عام تھی اور جیساکہ ہم بیان کرچکے ہیں ہر شخص جھگڑے اور اختلافات میں (بغیر حق و باطل کا خیا ل کئے) اپنے قبیلے، خاندان اور احباب کی حمایت کرتا تھا۔ لیکن جناب عبد المطلب، ایسے نہیں تھے۔ چنانچہ حرب بن امیہ جو کہ آپ کے خاندان اور دوستوں میں سے تھا اس پر اتنا دباؤ ڈالا، تاکہ وہ ایک یہودی کا خون بہا دیدے جو اس کے ورغلانے پر قتل ہوا تھا(٢) وہ اپنی اولاد کو ظلم و ستم اور دنیا کے پست اور گھٹیا کاموں سے منع کرتے تھے اور اچھے صفات کی ترغیب دلاتے تھے۔(٣)

جناب عبد المطلب کا جو طریقۂ کار تھا اسلام نے زیادہ تر اس کی تائید فرمائی ہے ۔ ان میں کچھ چیزوں ، جیسے حرمت شراب، حرمت زنا، زناکار پر حد جاری کرنا، چور کے ہاتھ کاٹنا، فاحشہ عورتوں کو مکہ سے جلا وطن کرنا اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا، محرموں سے شادی کرنااور خانہ کعبہ کا برہنہ طواف کرنے کو حرام قرار دینا اور نذر کی ادائیگی کو واجب جاننا اور حرام مہینوںکی قداست و احترام او رمباہلہ

______________________

(١)گزشتہ حوالہ، ص٦؛ شکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب، تصحیح محمد بہجة الاثری، (قاہرہ: دار الکتب الحدیثہ، ط٢)، ج١، ص٣٢٤۔

(٢) حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٦؛ آلوسی، گزشتہ حوالہ، ص ٣٢٣؛ ابن اثیر ، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص ١٥؛ بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: محمد حمید اللہ (قاہرہ: دار المعارف)، ج١، ص٧٣.

(٣) حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٧؛ مسعودی، مروج الذہب، ج٢، ص ١٠٩.

۱۰۶

وغیرہ(١) کے وہ قائل تھے۔ایک روایت میں آیاہے کہ عبدالمطلب ''خدا کی حجت'' اورابوطالب ان کے ''وصی'' تھے۔(٢)

خاندان توحید

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان، موحد تھا۔ علماء امامیہ کے عقیدے کے مطابق آپ کے آباء و اجداد حضرت عبد اللہ سے لیکر حضرت آدم تک سب موحد تھے اوران کے درمیان کوئی مشرک نہیں تھا۔ اس بارے میں آیات و روایات سے استدلال ہوا ہے۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: ''خداوند عالم نے مجھے ہمیشہ پاک مردوں کی صلبوں سے پاکیزہ عورتوں کے رحموں میں منتقل کیا۔ یہاں تک اس دنیا میں بھیج دیا اور اس نے مجھے ہرگز جاہلیت کی کثافتوں سے آلودہ نہیں کیا''(٣) اور ہمیں یہ معلوم ہے

______________________

(١) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ٣٢٤؛ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٧؛ رجوع کریں: السیرة الحلبیہ، ج١، ص ٧؛ رجوع کریں: الخصال صدوق، باب الخمسہ، ج٢، ص ٣١٣۔ ٣١٢۔

(٢) صدوق، اعتقادات، ترجمہ: سید محمد علی بن سید محمد الحسنی (تہران: کتابخانۂ شمس، ط٣، ١٣٧٩ھ.ق)، ص١٣٥؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٥، ص ١١٧؛ رجوع کریں: اصول کافی، ج١، ص ٤٤٥۔

جناب عبد المطلب سے مربوط بحثوں میں سے ایک بحث خدا کی راہ میں ایک فرزند کی قربانی ، ان کی نذر ہے جس کی خبر مشہور ہونے کے باوجود جس طرح سے تاریخ کی کتابوں میں آئی ہے وہ سند اور متن کے لحاظ سے جائے اشکال ہے۔ اوراس سلسلہ میں بحث و تحقیق کی ضرورت ہے۔(رجوع کریں: علی دوانی، تاریخ اسلام از آغاز تا ہجرت، ص ٥٩۔ ٥٤؛ من لایحضرہ الفقیہ، تحقیق: علی اکبر غفاری، ج٣، ص ٨٩؛ باب الحکم بالقرعہ، حاشیہ، تعلیقہ ٔ آغائے غفاری) چونکہ یہ کتاب اختصار کے طور پر لکھی گئی ہے لہٰذا اس کے بارے میں بحث کرنے سے صرف نظر کرتے ہیں۔

(٣) صدوق، گزشتہ حوالہ، ص ١٣٥؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ١١٧؛ مفید، اوائل المقالات (قم: مکتبة الداوری)،ص ١٢؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٤، ص ٣٢٢؛ تفسیر آیہ ٧٤ سورۂ انعام، بعض معاصر دانشوروں نے اس حدیث کو طہارت نسل یعنی ولادت و پیدائش کا سبب، ازدواج قرار دیا ہے (نہ آزاد اور غیر مشروع روابط) سے تفسیر کیا ہے کہ اگر اس تفسیر کو قبول کریں تو ہماری بحث کے لئے شاہد قرار نہیں پائے گا۔ (سید ہاشم رسولی محلاتی، درس ھایی از تاریخ تحلیلی اسلام ماھنامہ پاسدار اسلام، ١٣٦٧، ج١، ص ٦٤).

۱۰۷

کہ کوئی بھی نجاست شرک سے بدتر نہیں ہے اگر ان کے درمیان کوئی ایک بھی مشرک ہوتا تو انھیں ہرگز پاک نہ کہا جاتا۔

علمائے امامیہ کا عقیدہ ہے کہ جناب ابوطالب اور آمنہ بنت وھب موحد(١) تھے۔

حضرت علی نے فرمایا ہے کہ خدا کی قسم! میرے والد اور اجداد عبد المطلب، ھاشم اور عبد مناف میں سے کوئی بھی بت پرست نہیں تھا وہ لوگ دین ابراہیمی کے پیرو تھے اور کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔(٢)

______________________

(١) مفید، گزشتہ حوالہ، ص ١٢؛ صدوق، گزشتہ حوالہ، اہل سنت کے بعض نامور علماء جیسے فخر رازی اور سیوطی بھی اس سلسلے میں امامیہ کے ہم عقیدہ ہیں۔ رجوع کریں: بحار الانوار، ج١٥، ص ١٢٢۔ ١١٨.

(٢) صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی اکبر الغفاری (قم: موسسہ النشر الاسلامی، ١٣٦٣)، ج١، ص ١٧٥؛ الغدیر، ج٧، ص ٣٨٧.

۱۰۸

دوسری فصل

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بچپن اور جوانی

ولادت

جاہل عرب میں تاریخ کی کوئی منظم اور مستقل، ابتدا مقرر نہیں تھی بلکہ علاقے کے اہم واقعات جیسے کسی بڑی اور مشہور شخصیت کے مرنے یا دو قبیلوں کے درمیان خون ریز جنگ کے دن کو ایک زمانے تک تاریخ کا آغاز قرار دیتے تھے۔(١) یہاں تک تمام قبائل عرب میں تاریخ کے آغاز کے لئے ایک معین دن نہیں تھا بلکہ اس قبیلہ کے نزدیک جو بھی اہم واقعہ رونما ہوتا تھا اسی کو تاریخ کی ابتدا قراردیتے تھے۔(٢)

جس وقت ابرہہ (حبشہ کا بادشاہ) نے، ہاتھیوں سمیت لشکر کے ساتھ خانۂ کعبہ کو مسمار کرنے کے

______________________

(١) اس واقعہ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے رجوع کریں: مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ص ١٨١۔ ١٧٢؛ ڈاکٹر محمد ابراہیم آیتی، تاریخ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (ط ٢، انتشارات دانشگاہ تہران، ١٣٦١)، ص ٢٧۔ ٢٦.

(٢) مسعودی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٧.

۱۰۹

لئے مکہ پر حملہ کیا(١) تو اعجاز پروردگار اور اس کی غیبی طاقت کے مقابلہ میں شکست کھا گیا۔ اور اس واقعہ سے اس زمانہ کے دوسرے تمام واقعات تحت الشعاع میں آگئے اور وہ سال ایک عرصہ تک''عام الفیل'' کے عنوان سے تاریخ کی شروعات قرار پایا٭ اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسی سال مکہ میں پیدا ہوئے۔(٢)

یہ واقعہ بعض قرائن اور شواہد کے لحاظ سے جیسے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت، جوکہ ٦٢٢ اور آپ کی وفات ٦٣٤ئ میں (٦٠ یا ٦٣) سال کی عمر میں ہوئی ہی اور یہ واقعہ تقریباً ٥٦٩ئ ، ٥٧٠ئ

______________________

(١) شیخ طوسی، الامالی، (قم: دار الثقافہ، ط١، ١٤١٤ھ.ق)، ص ٨٢۔ ٨٠؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٧۔ ٩٤،ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٥٥۔ ٤٤؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٩٦۔ ٦٧؛ محمد بن حبیب بغدادی، المنمق فی ا خبار قریش، تحقیق: خورشید احمد فارق (بیروت: عالم الکتب، ط ١، ١٤٠٥ھ.ق)، ص ٧٧۔ ٧٠)۔

٭ ہاتھیوں کے لشکر کے واقعہ سے پہلے قریش قصی (جو کہ ایک بڑی اور نامور شخصیت تھی اور جس نے پہلی بار قریش کو قدرت مند بنایا) کو تاریخ کی شروعات قرار دیتے تھے (ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٤)

(٢) کلینی ، اصول الکافی (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ١٣٨١ھ.ق)، ج١، ص ٤٣٩؛ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٤؛ مسعودی، مروج الذہب، ج٢، ص ٢٧٤؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٥، ص ٢٥٢۔ ٢٥٠؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٥؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ٧٣۔ ٧٢؛ ابن کثیر، السیرة النبویہ، ج١، ص٢٠١؛ محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج١، ص ١٠١؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج١، ص١٤؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص١٦٧؛ الشیخ عبد القادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق (بیروت:دار احیاء التراث العربی، ط٣، ١٤٠٧ھ.ق)، ج١، ص ٢٨٢؛ ابن اسحاق، السیر و المغازی، تحقیق: سہیل زکار (بیروت: دار الفکر، ط١، ١٣٩٨ھ.ق)، ص٦١۔

۱۱۰

کے بیچ میں رونما ہوا ہے۔(١)

___________________________

(١) علی اکبر فیاض، تاریخ اسلام، (تہران: انتشارات تہران یونیورسٹی، ط٣، ١٣٦٧)، ص ٧٢؛ عباس زریاب، سیرۂ رسول اللہ (پہلے حصہ سے ہجرت کے آغاز تک) (تہران: سروش، ط ١، ١٣٧٠)، ص ٨٧۔ ٨٦؛ سید جعفر شہیدی ، تاریخ تحلیلی اسلام تا پایان امویان (تہران: مرکز نشر یونیورسٹی، ط ١٠، ١٣٦٩)، ص ٣٧۔

اس سلسلہ میں کہ کیا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت ٹھیک اسی عام الفیل میں ہوئی یا اس سے پہلے یا بعد میں اورنیز عام الفیل کو عیسوی سالوں سے مطابقت کرنے میں دوسرے نظریات او راحتمالات بھی ذکر ہوئے ہیں کہ جس کے نقل کرنے کی اس کتاب میں ضرورت نہیں ہے۔ مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: محمد ختم پیامبران، ج١، ص ١٧٧۔ ١٧٦؛ مقالہ سید جعفر شہیدی؛ رسولی محلاتی ، درسھای از تاریخ تحلیلی اسلام (قم: ماہنامہ پاسدار اسلام ١٤٠٥ھ.ق)، ج١، ص ١٠٧ کے بعد؛ ابن کثیر ، السیرة النبویہ، ج١، ص ٢٠٣؛ تہذیب تاریخ ذمشق، ج١، ص ٢٨٢۔ ٢٨١؛ سید حسن تقی زادہ، از پرویز تاچنگیز (تہران: کتابفرشی فروغی، ١٣٤٩)، ص ١٥٣؛ جسین مونس، تاریخ قریش (الدار السعودی، ط ١، ١٤٠٨ھ.ق)، ص ١٥٩۔ ١٥٣؛ اس کے علاوہ بعض یورپی مورخین اسلامی کتابوں میں ابرھہ کی لشکر کشی کا مقصد دینی جذبہ اور کعبہ اور یمن میں قلیس معبد کے د رمیان رقابت کو بتایاہے، ملکوں کی فتح اورابرھہ کا حملہ ایران جزیرة العرب کے شمالی راستے سے حکومت روم کے اکسانے پر بتایا گیا ہے؛ فیاض، گزشتہ حوالہ، ص ٦٢؛ ابوالقاسم پایندہ، مقدمہ ترجمہ فارسی قرآن مجید، ص ۔ لز۔) جس کے بارے میں الگ سے بحث اور تحقیق کی ضرورت ہے جواس کتاب کے حجم سے باہر ہے۔

۱۱۱

کم سنی اور رضاعت کا زمانہ

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابھی دو مہینے کے تھے(١) کہ آپ کے پدر بزرگوار جناب عبد اللہ، ملک شام سے تجارتی سفر کی واپسی میں، شہر یثرب میں انتقال فرماگئے اور وہیں پر آپ کو سپردخاک کردیا گیا۔(٢)

قرآن کریم نے ان کی یتیمی کواس انداز میں بیان کیا ہے: ''کیااس نے تم کو یتیم پاکر پناہ نہیں دی

______________________

(١) کلینی ، گزشتہ حوالہ، ص ٤٣٩؛ ابن واضح، گزشتہ حوالہ، ص٦؛ ابوالفتح محمد بن علی الکراجکی، کنز الفوائد (قم: دارالذخائر،ط١، ١٤١٠ھ.ق)، ج٢، ص ١٦٧؛ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سن باپ کے مرنے کے سال، سات مہینے اور ٢٨ روز بھی لکھا ہے۔ (محمد بن سعد، طبقات الکبری، (بیروت: دار صادر، ج١، ص ١٠٠)، بعض مورخین نے، حضرت عبد اللہ کی وفات کو حضرت رسول اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی ولادت کے قبل ہی تحریر کیا ہے۔ (ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٠٠۔ ٩٩؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج١، ص ١٣؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٦٧؛ الشیخ عبدالقادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق، تالیف ابن عساکر (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط ٣ ، ١٤٠٧ھ.ق)، ج١، ص ٢٨٤.) لیکن بعض اسناد و شواہد، پہلی روایت کی تائید کرتے ہیں ان میں سے عبدالمطلب کے اشعار بھی ہیں جو اسی مطلب پر دلالت کرتے ہیں:

اوصیکم یا عبد مناف بعدی

بمفرد بید ابیه فرد

فارقه وهو ضجیج المهد

فکنت کالام له فی المجد

(تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١٠؛ رجوع کریں: ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص ٣٦.)

(٢) تہذیب تاریخ دمشق، ج١٧، ص ٢٨٢؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٩٩؛ مسعودی، التنبیہ والاشراف، ص١٩٦؛ محمد بن جریر الطبری، تاریخ الامم و الملوک، (بیروت: دارالقاموس الحدیث)، ج٢، ص ١٧٦؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص١٠۔

۱۱۲

ہے اور کیا تم کو گم گشتہ پاکر منزل تک نہیں پہنچایا اور تم کو تنگ دست پاکر غنی نہیں بنایا''۔(١)

آمنہ کے لال نے ولادت کے ابتدائی دنوں میں اپنی ماں کا دودھ پیا(٢) اور اس کے بعد تھوڑے دن تک (ابولہب کی آزاد شدہ کنیز) ثوبیہ نے اپنا دودھ پلایا۔(٣)

اس دور میں رسومات عرب(٤) کے مطابق آپ کو حلیمہ سعدیہ نامی دایہ کے سپرد کردیا گیا۔ وہ قبیلۂ بنی سعد بن بکر سے تعلق رکھتی تھیں اور دیہات(٥) میں زندگی بسر کرتی تھیں۔ دایہ حلیمہ نے دو سال تک آپ کو دودھ پلایا(٦) اور پانچ سال تک پرورش کی اس کے بعد آپ کے گھر والوں کے سپرد کردیا۔(٧)

ایک نومولود بچہ کو کسی بادیہ نشین کے سپرد کرنے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اس کی پرورش صحرا کی پاک و صاف اور کھلی فضا میں ہو اور مکہ میں ''وبا'' کی بیماری کے خطرے سے دور رہے۔(٨)

______________________

(١) سورۂ ضحی، آیت ٨۔ ٦۔

(٢) تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٦؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص١٤٣۔

(٣)تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٦؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص٦؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ١١٠؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج١، ص١٥؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٥، ص٣٨٤۔

(٤) حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص١٤٦۔

(٥)تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٧؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص١٧١؛ محمد بن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١١٠؛ مسعودی، التنبیہ والاشراف، ص ١٩٦؛ مروج الذہب، ج٢، ص٢٧٤؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص٦؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص١٠٢۔ ١٠١؛ ابن کثیر، السیرة النبویہ، ج١، ص٢٢٥؛ ابن اسحاق، السیر والمغازی، تحقیق: سہیل زکار، ط١، ١٣٩٨ھ.ق)، ص٤٩۔

(٦)بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: محمد حمید اللہ (قاہرہ: دارالمعارف)، ج١، ص٩٤؛ مقدسی، البدء و التاریخ، ط پیریس، ١٤٠٣ئ، ج٤، ص١٣١؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٥، ص ٤٠١؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ،ج١، ص١١٢۔

(٧) تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٧؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٣؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص٩٤؛ مسعودی، مروج الذہب، ج٢، ص٢٧٥۔

(٨) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق:محمد ابوالفضل ابراہیم (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیة، ١٩٦١)، ج١٣، ص٢٠٣؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص٤٠١۔

۱۱۳

اس کے علاوہ بدو قبیلوں کے درمیان زبان کی فصاحت و بلاغت اور خالص اصیل عربی سے آگاہی بھی ایک اہم چیز تھی جو بعض ہم عصر مورخین کی طرف سے بیان ہوئی ہے۔(١)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک جملہ، جو اس موضوع کی مناسبت سے نقل ہوا ہے جو شاید اس مقصد کے لئے شاہد قرار پائے، یہ ہے:

''میں تم لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح ہوں کیونکہ میں قرشی ہوں اور میں نے قبیلہ بنی سعد بن بکر میں دودھ بھی پیاہے''(٢)

بعض تاریخی کتابوں میں جناب حلیمہ کو دایہ کے طور پر انتخاب کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ چونکہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یتیم تھے لہٰذا کوئی دایہ آپ کو لینے کے لئے تیار نہیں ہوئی کیونکہ دائیاں دودھ پلانے کے عوض بچہ کے باپ سے اجرت لیتی تھیں اور چونکہ اس وقت دائی حلیمہ کو مکہ میں کوئی بچہ نہیں ملا تھا لہٰذا حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یتیم ہونے کے باوجود مجبوراً رضاعت کے لئے قبول کرلیا۔(٣) لیکن دایوں کی طرف

______________________

(١) جعفر سبحانی، فروغ ابدیت (قم: مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزۂ قم، ط٥، ١٣٦٨)، ج١، ص ١٥٩؛ سید جعفر مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم (قم: ١٤٠٠ھ.ق)، ج١، ص ٨١۔

(٢) انا اعربکم انا قرشی واسترضعت فی بنی سعد بن بکر، (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٧٦۔ اور رجوع کریں: ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١١٣؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ١٤٦؛ ابو سعید واعظ خرگوشی، شرف النبی، ترجمہ: نجم الدین محمود راوندی (تہران: انتشارات بابک، ١٣٦١). ص ١٩٦۔

کہا جاتا ہے کہ جس زمانہ میں حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حلیمہ کے پاس دیہات میں رہ رہے تھے واقعۂ شق صدر پیش آیا۔ لیکن تاریخ اسلام کے محققین اور تجزیہ نگاروں نے متعدد دلیلوں کی بنا پر اس موضوع کو حقیقت سے دور اور من گڑھت گردانا ہے۔ (رجوع کریں: سید جعفر مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج١، ص ٨٢؛ سید ہاشم رسولی محلاتی، تاریخ تحلیلی اسلام کے دروس، ج١، ص ١٨٩و ٢٠٤؛ شیخ محمد ابویہ، اضواء الی السنة المحمدیہ (مطبعة صور الحدیثہ، ط ٢، ھ.ق)، ج١، ص ١٧٧۔ ١٧٥.

(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٧٢۔ ١٧١؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ،ص٩٣؛ ابن سعد،گزشتہ حوالہ، ص١١١۔ ١١٠.

۱۱۴

سے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یتیمی کی خاطر قبول نہ کرنے کی وجہ قابل قبول نظرنہیں آتی۔ کیونکہ :

١۔ جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ بعض کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ جناب عبد اللہ کا انتقال، حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت کے چند مہینے بعد ہوا ہے اس لحاظ سے وہ اس وقت یتیم نہیں ہوئے تھے۔

٢۔ جناب عبد المطلب کی عظیم شخصیت اور مکہ میں ان کا بلند مقام اور درجہ اور ان کی دولت و ثروت کودیکھتے ہوئے نہ صرف دایوں نے لینے سے انکار نہ کیا ہوگا بلکہ ایسے خاندان کے بچہ کی رضاعت کے لئے آپس میں جھگڑا کرتی ہوں گی ۔

٣۔ بہت ساری تاریخی کتابوں میں یہ واقعہ نقل ہوا ہے لیکن یہ بات کہیں نہیں ذکر ہے۔(١) ٭

والدہ کا انتقال اور جناب عبد المطلب کی کفالت

جناب آمنہ دائی حلیمہ سے اپنے بچہ کو لینے کے بعد ام ایمن(جناب عبد اﷲ کی کنیز) کے ساتھ ایک قافلہ کے ہمراہ مدینہ گئیں تاکہ اپنے شوہر جناب عبد اللہ کی قبر پر جاکر حاضری دے سکیں اورآپ کے ماموؤں سے ملاقات کرسکیں۔(٢)

مدینہ میں ایک ماہ قیام کے بعد مکہ پلٹتے وقت مقام ابواء میں آپ کا انتقال ہوگیا اور وہیں آپ کو دفن کردیا گیا اس وقت حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چھ سال کے تھے۔(٣)

______________________

(١) منجملہ ایک بزرگ اور نامور محدث ابن شہر آشوب نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے لیکن حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یتیمی کے موضوع کو جس طرح سے بیان کیا گیا ہے اس میں نہیں ہے (مناقب آل ابی طالب، ج ١، ص ٣٣.)

٭ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رضاعت کا مسئلہ چاہے حلیمۂ سعدیہ کے ذریعہ ہو یا دیگر کنیزوں کے ذریعہ محل اختلاف ہے ، شیعہ محققین نے اسے قبول نہیں کیا ہے. مترجم.

(٢) عبدالمطلب کی ماں سلمی ، مدینہ کی رہنے والی تھیں اور بنی نجار سے تعلق رکھتی تھیں. (بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٢١.)

(٣) ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص٦٥؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٩٤؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١١٦؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص١٧٧؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٢١؛ طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص ٩؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی اکبر الغفاری (قم: مؤسسہ النشر الاسلامی، ١٣٦٣)، ج١، ص١٧٢؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٧؛ الشیخ عبدالقادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق، ج١، ص٢٨٣۔

۱۱۵

ام ایمن قافلہ کے ساتھ آپ کو مکہ لے کر آئیں اور جناب عبد المطلب کے حوالہ کردیا۔(١)

جناب عبد المطلب نے آپ کی سرپرستی اور کفالت کی ذمہ داری اپنے سر لے لی، اور جب تک وہ زندہ رہے اپنے پوتے کی اچھی طرح سے دیکھ بھال کرتے رہے اورآپپر ان کی نظر عنایت ہوتی تھی اور کہتے تھے کہیہ بلند مقام پائے گا۔(٢)

______________________

(١)حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٧٢۔

(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٧٨؛ صدوق، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٧١؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٠٦؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٩۔

۱۱۶

جناب عبد المطلب کا انتقال اورجناب ابوطالب کی سرپرستی

حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آٹھ سال کے تھے کہ آپ کے دادا جناب عبد المطلب کا انتقال ہوگیااور آپ کی کفالت کی ذمہ داری جناب ابوطالب کو سونپ دی۔ جناب ابوطالب اور جناب عبداللہ (رسول خدا کے پدر بزرگوار) ایک ہی ماں سے تھے۔(٣)

اس وقت جناب ابوطالب کی مالی حالت اچھی نہیں تھی وہ کثیر العیال اورتنگدست تھے۔(٤) لیکن وہ ایک بہادر، باعزت، قابل احترام(٥) اور قریش کے درمیان بلند درجہ رکھتے تھے۔(٦) وہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو

______________________

(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص١٨٩؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٠٦؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٩٤۔

(٤) تاریخ یعقوبی، ج٢، ص١١؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١١٩؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ٤٠٧؛ سہیلی، الروض الانف (قاہرہ: مؤسسة المختار)، ج١، ص ١٩٣۔

(٥) تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١١؛ جواد علی،المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام (بیروت: دار العلم للملایین، ط١، ١٩٦٨ئ)، ج٤، ص ٨٢۔

(٦) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابو الفضل ابراہیم (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦٢ئ)، ج١٥، ص ٢١٩۔

۱۱۷

بہت زیادہ چاہتے تھے ۔ یہاں تک کہ اپنے بیٹوں سے زیادہ انھیں عزیز رکھتے تھے۔(١)

فاطمہ بنت اسد نے بھی آپ کی پرورش اور سرپرستی میں اہم کردار ادا کیا اور اس سلسلے میں بہت زیادہ زحمتیں اٹھائیں وہ نہ صرف محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک مہربان ماں کی طرح چاہتی تھیں بلکہ آپ کواپنے بچوں پر ہمیشہ مقدم رکھتی تھیں۔ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کبھی بھی ان کی زحمتوںکو فراموش نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ اپنی ایک ماں کی طرح انھیں یاد فرماتے تھے۔(٢)

شام کا سفر او رراہب کی پیشین گوئی

ایک سال جناب ابوطالب قریش کے قافلہ کے ساتھ تجارت کے لئے شام گئے تو حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خواہش اوراصرار پر (مورخین کے اختلاف کے مطابق اس وقت آپ کی عمر ٨، ٩، ١٢یا ١٣ سال کی تھی) آپ کواپنے ہمراہ لے گئے جس وقت قافلہ مقام بصریٰ(٣) پر پہنچا توایک معبد کے کنارے آرام کی غرض سے رک گیا، اس معبد میں ''بحیرا'' نام کا ایک راہب رہتا تھا، جو عیسائیوں کا بزرگ پادری تھا۔ جب مجمع کے درمیان اس کی نظر ابوطالب کے بھتیجے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر پڑی تو اس کی خاص توجہ کا مرکز بن گئی اس لئے کہ وہ پیغمبر موعود کی بعض نشانیوں سے آگاہ تھا. جب اس نے ان نشانیوں کو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اندر دیکھا تو اس نے آپ سے مختصر گفتگو اور سوالات کے بعد آپ کے آئندہ ''نبی'' ہونے کے بارے

______________________

(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١١٩؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٦؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٠٧؛ شیخ عبدالقادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق، ج١، ص ٢٨٥.

(٢) تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١١؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٤؛ مقدمہ اصول کافی، ج١، ص ٤٥٣.

(٣) دمشق کے علاقہ میں حوران سرزمین کا ایک قصبہ ہے (یاقوت حموی، معجم البلدان، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ١٣٩٩ھ.ق)، ج١، ص ٤٤١.

۱۱۸

میں خبر دیدی اور جناب ابوطالب سے تاکید کی کہ اس بچہ کا خاص خیال کریں اور اس کویہود کے شر سے محفوظ رکھیں۔(١)

اس واقعۂ کے سلسلہ میں چند نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:

١۔ یہ واقعہ بعض تاریخی او رحدیثی کتابوں میں مختصر انداز میں اور بعض دوسری کتابوں میں بطور مفصل نقل ہوا ہے۔ لیکن اصل واقعہ میں کسی قسم کی شک و تردید نہیں پائی جاتی کیونکہ قرآن مجید نے متعدد آیات میں حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے سلسلہ میں گزشتہ پیغمبروں کی پیشین گوئیوں کونقل کر کے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات اور نشانیوں کے سلسلہ میں علمائے اہل کتاب کی آگاہی اور معرفت کی تائید کی ہے۔(٢) اور اسی طرح اہل کتاب کی متعدد پیشین گوئیاں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے سلسلہ میں تاریخ و

______________________

(١)اس واقعہ کو اسلامی مورخین و محدثین نے مندرجہ ذیل کتابوں میں نقل کیاہے:

ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ١٩٣۔ ١٩١؛ محمد بن جریر طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج٢، ص ١٩٥؛ سنن ترمذی، ج٥؛ المناقب، باب٣، ص ٥٩٠؛ المناقب، باب٣، ص ٥٩٠، حدیث ٢٦٢٠؛ ابن اسحاق، السیر و المغازی، تحقیق:سہیل زکار، ص٧٣؛ محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج١، ص ١٢١؛ مسعودی، مروج الذہب، ج٢، ص ٢٨٦؛ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، ج١، ١٨٦۔ ١٨٢؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٩٦؛ بیہقی، دلائل النبوة، ترجمۂ محمود مہدی دامغانی، ج١، ص ١٩٥؛ طبرسی، اعلام الوری، ص ١٨۔ ١٧؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص ٣٩۔ ٣٨؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص ٢٧؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج١، ص ١٥؛ شیخ عبد القادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق (تالیف حافظ ابن عساکر)، ج١، ص ٢٧٠ و ٣٥٤؛ ابن کثیر، سیرة النبی، ج١، ص ١٩١؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٥، ص ٤٠٩۔

(٢) سورۂ بقرہ، آیت ٤١، ٤٢، ٨٩، ١٤٦؛ سورۂ اعراف، آیت ١٥٧؛ سورۂ انعام، آیت ٢٠؛ سورۂ صف، آیت٦۔

۱۱۹

حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔(١)

٢۔ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں علمائے اہل کتاب کی کتابوں میں جو علامتیں اور نشانیاں تھیں ان میں سے کچھ آپ کی ذاتی زندگی اور جسمانی خصوصیات کے بارے میں تھیں (جیسے عرب ہونا ایک باعظمت خاتون سے شادی کرنا وغیرہ) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جسمانی نشانیوں میں سے سب سے نمایاں نشانی یہ تھی کہ آپ کے دونوں شانوں کے درمیان ایک بڑا تل تھا جس کو ''خال نبوت'' یا ''مہر نبوت'' کہا گیا ہے۔(٢)

٣۔ بحیرا راہب کی پیشین گوئی صرف قافلہ والوں کے لئے نئی بات تھی ورنہ جناب ابوطالب بلکہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام قریبی رشتہ دار آپ کے درخشندہ مستقبل سے باخبر تھے۔(٣)

______________________

(١) رجوع کریں: جعفر سبحانی، راز بزرگ رسالت (تہران: کتابخانۂ مسجد جامع تہران، ١٣٥٨)، ص ٢٧٨۔ ٢٦٢؛ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلسلہ میں گزشتہ پیغمبروں کی پیشین گوئیوں کے بارے میں مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے ذیل کی تین کتابوں کو نمونہ کے طور پر ذکر کیا جاسکتا ہے۔

محمد در تورات وانجیل تالیف: پروفیسر ، عبد الاحد داؤد: ترجمہ فضل اللہ نیک آئین؛ مدرسہ سیار، تالیف: شیخ محمد جواد بلاغی، ترجمہ: ع۔ و؛ انیس الاعلام، تالیف: فخر الاسلام۔

(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٩٣؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٩٥؛ سنن ترمذی، تحقیق: ابراہیم عطوہ عوض (بیروت: دار احیاء التراث العربی)، ج٥، المناقب، باب ٣، ص ٥٩٠، حدیث ٢٦٢٠؛ شیخ عبدالقادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق، ج١، ص ٢٧٨؛ ابن کثیر، سیرة النبی، ج١، ص ٢٤٥؛ صحیح بخاری، تحقیق: الشخ قاسم الشماعی الرفاعی، ج٥، ص ٢٨، باب ٢٣، حدیث ٧١۔

(٣) تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١١؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٨١؛ اصول کافی، ج١، ص ٤٤٧۔

۱۲۰