تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 157886
ڈاؤنلوڈ: 4715

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157886 / ڈاؤنلوڈ: 4715
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

عیسائیوں کے ذریعہ تاریخ میں تحریف

بعض عیسائی مورخین نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بحیرا کی ملاقات کے واقعہ میں تحریف کی ہے اور یہ دعویٰ کیا

ہے کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس ملاقات میں بحیرا راہب سے توریت او ر انجیل کی تعلیمات حاصل کیں۔(١)

ویلڈورانٹ نے نرم لہجے میں اس بے بنیاد دعوے کی طرف اشارہ کیا ہے:

... آپ کے چچا ابوطالب آپ کو ١٢ سال کی عمر میں اپنے ساتھ ایک قافلہ کے ہمراہ شام کے شہر بصریٰ تک لیکر گئے، یہ بعید نہیں ہے کہ اس سفر میں آپ دین یہود اور آئین عیسیٰ کی بعض تعلیمات سے آگاہ ہوئے ہوں۔(٢)

اس تہمت اور تحریف کا ہمیں اس طرح جواب دینا چاہئے:

١۔ مورخین کا اتفاق ہے کہ محمد امی تھے اور لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔

٢۔ مورخین نے لکھا ہے کہ اس وقت اپ کی عمر ١٢ سال سے زیادہ نہیں تھی۔

٣۔ بحیرا کے دیدار اور آپ کی بعثت کے درمیان کافی عرصے کا فاصلہ تھا۔

٤۔ بحیرا سے آپ کی ملاقات بہت مختصر ہوئی تھی اس دوران اس نے کچھ سوالات کئے اور آپ نے ان کے جوابات دیئے۔

اس بنا پر یہ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ ایک بچہ جس نے مدرسے میں تعلیم حاصل نہ کی ہو وہ ایک مختصر ملاقات میں کیسے توریت و انجیل کی تعلیمات حاصل کرسکتا ہے کہ جسے چالیس سال کے بعد ایک

______________________

(١) گوستاولوبون، تمدن اسلام وعرب، ترجمہ: سید ہاشم حسینی، ص ١٠١؛ اجناس گلدزیھر، العقیدة و الشریعہ فی الاسلام، ترجمۂ عربی (قاہرہ: دار الکتب حدیثہ، ط٢)، ص ٢٥؛ محمد غزالی، محاکمۂ گلدزیھرصہیونیست، ترجمۂ صدر بلاغی (تہران: حسینیۂ ارشاد، ١٣٦٣)، ص ٤٧؛ کارل بروکلمان، تاریخ الشعوب الاسلامیہ،ترجمۂ عربی بہ قلم نبیہ امین فارس ( اور) منیر البعلبکی، (بیروت: دار العلم للملایین، ط١، ١٩٨٨ئ)، ص ٣٤؛ اسی طرح رجوع کریں: خیانت در گزارش تاریخ، ج١، ص ٢٢٥۔ ٢٢٠۔

(٢) تاریخ تمدن، عصر ایمان، (بخش اول) ، ترجمہ ابوطالب صارمی اور ان کے ساتھی (تہران: سازمان انتشارات وآموزش انقلاب اسلامی، ط ٢، ١٣٦٨)، ص ٢٠٧۔

۱۲۱

کامل شریعت کی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کرے؟

٥۔ اگر حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے راہب سے کچھ سیکھا ہوتا تو بہانہ باز ضدی اور ہٹ دھرم قریش اس کو محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف تبلیغ کرنے میں دستاویز قرار دیتے جبکہ تاریخ اسلام میں ہمیں اس طرح کی کوئی بات نظر نہیں آتی ہے اور نہ ہی قرآن مجید میں جہاں قریش کی تہمتوں کا جواب دیا گیا ہے وہاں پر اس موضوع کے بارے میں کوئی تذکرہ ہوا ہے۔

٦۔ اگر اس طرح کی کوئی بات صحیح تھی تو اسے قافلہ والوں نے کیوں نہیں نقل کیا؟

٧۔ اگر حقیقت میں اس طرح کا کوئی دعویٰ تھا تو شام کے مسیحیوں نے کیوں نہیں نقل کیا او ریہ دعویٰ کیوں نہ کیا کہ ہم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے استاد تھے؟

٨۔ اور اگر یہ دعو یٰ صحیح مان لیا جائے تواس کا لازمہ یہ ہوگا کہ اسلام کی تعلیمات اورتوریت و انجیل کی تعلیمات میں یکسانیت ہواور نہ صرف یہ کہ ان کی تعلیمات میں یکسانیت نہیں پائی جاتی بلکہ قرآن کریم نے یہودیوں اور عیسائیوںکے بہت سارے عقائداور توریت و انجیل کی بہت ساری تعلیمات کو نقل کرکے انھیں باطل قرار دیا ہے۔(١)

ایک روز عمرو بن خطاب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے، یہودیوں سے سنی ہوئی حدیثوں کو لکھنے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا: ''کیا تم یہود و نصاریٰ کے مانند اپنے دین کے بارے میں پریشان اور سرگرداں ہو؟ یہ نورانی اور پاک دین میں تمہارے لئے لیکر آیا ہوں اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو وہ صرف میری پیروی کرتے۔(٢)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینے میں (جہاں بہت سے یہودی رہتے تھے) بہت سارے احکام اور پروگراموں

______________________

(١) سورۂ نسائ، آیت ٤٧،٥١، ١٧١؛ سورۂ مائدہ، آیت ٧٣۔٧٢؛ سورۂ توبہ، آیت ٣٠۔

(٢) شیخ عباس قمی، سفینة البحار، ج٢، ص ٧٢٧، لفظ ''ھوک''؛ مجد الدین ابن اثیر، النہایہ فی غریب الحدیث و الاثر، ج٥، ص ٢٨٢، وہی الفاظ تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ.

۱۲۲

میں یہودیوںکی مخالفت کرتے تھے۔(١) یہاں تک کہ وہ (یہودی) کہنے لگے۔ یہ شخص ہمارے سارے پروگراموںکی مخالفت کرنا چاہتا ہے''۔(٢)

عیسائیوں کے درمیان جس شخص نے اس بات کو اسلام کے خلاف جھوٹ، افتراء پردازی او رزہر گھولنے کا بہانہ او ردستاویز قرار دیا وہ کونستان ویرژیل گیور گیو ہے جس نے اس بات کو اس قدر مسخ اور تحریف شدہ نقل کیاہے وہ نہ صرف یہ کہ کسی معیار سے تناسب نہیں رکھتا بلکہ خود عیسائیوں کے دعوے سے مناسبت نہیں رکھتا ہے، وہ کہتا ہے:

''ابن ہاشم ـ عرب کا راویـ لکھتا ہے: بحیرہ ؟ لوگوں کے تصور کے برخلاف عیسائی نہیں تھا بلکہ مانوی تھا اور ایک سن رسیدہ شخص کا پیرو تھا جس کا نام مانی تھا اور اس نے ساسانیوں کے دور حکومت میں پیغمبری کا دعوا کیا تھا اور ساسانیوں کے پہلے بادشاہ، بہرام اول نے اسے ٢٧٦ئ میں خوزستان میں گندی شاپور کے دروازہ کے سامنے سولی پر چڑھوا دیا تھا''۔

مانی جس نے پیغمبری کا دعوا کیا تھا اس کے پیرکاروں میں سے بحیرہ بھی تھا جو یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ خدا ایک قوم سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا کی ساری قوموں سے تعلق رکھتا ہے۔ اور چونکہ دنیا کی ساری قومیں اس سے وابستہ ہیں لہٰذا خداوند جس قوم میں جب چاہتا ہے ایک پیغمبرمبعوث کردیتا ہے جواسی قوم کی زبان میں لوگوں سے باتیں کرے۔(٣)

______________________

(١) مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم (قم: ١٤٠٣ھ.ق)،ص ١٠٦۔

(٢) حلبی، گزشتہ حوالہ،ج٢، ص٣٣٢۔

(٣) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیامبری کہ از نو باید شناخت، ترجمہ: ذبیح اللہ منصوری، ص ١٠٥، اس کتاب میں بے شمار غلطیاں اور تحریفات ہوئی ہیں جس نے کتاب کی علمی اہمیت کو کم کردیاہے۔ مترجم: کے طریقۂ کار کی بھی ایک الگ داستان ہے جو اہل فضل و شرف پر مخفی نہیں ہے ، رجوع کریں: مجلہ نشر دانش، سال ٨، نمبر٢، ص ٥٢، مقالہ پدیدہ ای بہ نام ذبیح اللہ منصوری، کریم امالی کے قلم سے۔

۱۲۳

بظاہر اس کی ابن ہشام سے مراد عبد الملک بن ہشام (م٢١٣ھ.ق) معروف کتاب ''السیرة النبویہ'' کے مؤلف ہیں جوتاریخ اسلام کا ایک مہم ماخد ہے لیکن کلمہ مانوی کا ذکر نہ صرف سیرۂ ابن ہشام میں بلکہ کسی بھی قدیمی اسلامی کتاب میں نہیں ملتا ہے اس شخص کو تاریخ کی کتابوں میں مسیحی (اور بہت کم یہودی) کہا گیا ہے او رخود موضوع بحث سے بھی اس کے مسیحی ہونے کا پتہ چلتاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ گیورگیو نے یہ باتیں کہاں سے نقل کی ہیں؟!

اس کے علاوہ دین مانی کا شام میں کوئی پیرو نہیں تھا اور جیسا کہ ہم نے (جزیرة العرب) میں ادیان و مذاہب کے تجزیہ کے باب میں یہ کہا ہے کہ دین مانی کا مرکز ایران تھا۔ لہٰذا ہمیں ایک محقق کے کہنے کی بنا پر، یہ سوچنے کا حق ہے کہ بحیرا کے مانوی ہونے کا دعوا صرف اس بنا پر تو نہیں ہے کہ خداوند عالم کی توحید اور اسلام کے عالمی دین ہونے کے مسئلہ میں مانی کی تقلید تو نہیں کی جارہی ہے؟

یہ وہ چیزیں ہیں جس کی مثال ہمیں گزشتہ صدیوں میں مسیحیوں سے بہت دیکھنے کو ملی ہیں او ران کے لئے یہ بات اہمیت نہیں رکھتی کہ بلند ترین فکر کو وہ منسوخ ادیان کی طرف نسبت دیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان ادیان کے ماننے والے زیادہ نہیں ہیں تاکہ ان کے لئے یہ چیز باعث افتخار بن سکے۔

صرف اسلام ایک ایسا دین ہے کہ، صلیبی جنگ کو سیکڑوں سال گزرنے کے باوجود، جس سے آج بھی عیسائی پریشان او رخوف زدہ ہیں۔ لہٰذا ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ جھوٹ او رسچ ہر طریقے سے اس دین کی تعلیمات کی عظمت کو لوگوں کی نظروں میں کم کریں۔(١)

لیکن اس بات پر توجہ رہے کہ اگر بالفرض اس واقعہ کی ہم نفی بھی کریں تو عظمت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں کوئی کمی نہیں واقع ہوگی کیونکہ بعثت اور پیغمبر موعود کے ظہور کی پیشین گوئیاں صرف اس مسئلہ میں منحصر نہیں ہیں لیکن جیسا کہ متن میں کہا گیا ہے کہ چونکہ مستشرقین نے اس واقعہ کو جو متون اسلامی میں آیا ہے تاریخ اسلام کی تحریف کا دستاویز قرار دیا ہے۔ لہٰذا ہم نے بھی ان کی باتوں کو ذکر کرکے اس پر تنقید کی ۔

______________________

(١) محمد خاتم پیامبران، ج١، ص١٨٨؛ مقالہ سید جعفر شہیدی۔ بعض معاصر ایرانی محققین نے بحیرا کے ساتھ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ملاقات میں شک و تردید پیدا کی ہے اور اصل واقعہ کی صحت کے بارے میں بحث کی ہے جو تاریخی لحاظ سے قابل بحث و تحقیق ہے۔ رجوع کریں: نقد و بررسی منابع سیرۂ نبوی (مجموعۂ مقالات) پژوہشکدۂ حوزہ و دانشگاہ ١٣٧٨ ؛ رمضان محمدی، نقد و بررسی سفر پیامبر اکرم بہ شام ، ص ٣٣٠۔ ٣٢١۔.

۱۲۴

تیسری فصل

حضرت محمد مصطفٰےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جوانی

حلف الفضول١

''حلف الفضول'' قریش کے بہترین او راہم ترین عہد و پیمان میں سے ہے.(٢) جو قریش کے چند قبیلوں کے درمیان انجام پایا۔ یہ پیمان اس بنا پر انجام پایا کہ قبیلۂ بنی زبید کا ایک شخص مکہ آیا اور اس نے عاص بن وائل کا سامان ، جو کہ بنی سہم کے قبیلہ سے تھا، فروخت کردیا۔ عاص نے مال کو لیا لیکن

______________________

١جس واقعہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جوانی کے عالم میں اس میں شرکت کی ''جنگ فجار'' ہے اس واقعہ کو حلف الفضول سے پہلے جب آپ کی عمر ١٤ سے ٢٠ سال کی تھی، نقل کیا گیا ہے ۔ لیکن چونکہ اس جنگ کے سلسلہ میں آپ کی شرکت میں شک پایا جاتا ہے بلکہ ایسے شواہد ملتے ہیں جواس کی نفی کرتے ہیں لہٰذا ہم نے اس کو بیان نہیں کیاہے۔ (الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج١، ص ٩٧۔ ٩٥؛ درس ھایی تحلیلی از تاریخ اسلام، ج١، ص ٥٠٣۔ ٣٠٣

(٢)ابن سعد، طبقات الکبری (بیروت: دار صادر)، ج١، ص ١٢٨؛ محمد بن حبیب، المنمق فی اخبار قریش، تحقیق خورشید احمد فارق (بیروت: عالم الکتب،ط١، ١٤٠٥ھ.ق)، ص٥٢۔

۱۲۵

اس کی قیمت نہیں دی زُبیدی نے بارہا اس سے مطالبہ کیا لیکن اس نے دینے سے انکار کردیا۔ جیسا کہ یہ چیز پہلے بیان کی جاچکی ہے کہ اس وقت جزیرة العرب میں قبیلہ جاتی نظام پایا جاتا تھا۔ او رہر قبیلہ اپنے افراد کے منافع کی حمایت کرتا تھا۔ اگر کسی پردیسی پر ظلم ہوتا تھا تو اس کا کوئی ناصر و مددگار اورانصاف کرنے والا نہیں ہوتا تھا۔ جب سرداران قریش، کعبہ کے پاس اکٹھا ہوئے تو زبیدی مجبور ہوکر ''ابوقبیس'' پہاڑی کے اوپر گیا اور رنج و مصیبت میں ڈوبے ہوئے اشعار پڑھ کر ان سے انصاف کی فریاد کی۔(١)

انصاف کی مانگ سن کر زبیر بن عبد المطلب کی سرکردگی اور پیش قدمی میں، بنی ہاشم، بنی عبد المطلب، بنی زہرہ، بنی تمیم، اور بنی حارث (جو کہ قریش کے نامور قبیلہ سے تھا) عبداللہ بن جدعان تیمی کے گھر میں جمع ہوئے اور عہد و پیمان کیا کہ ہر مظلوم اور ستم دیدہ کی فریاد پر حق وانصاف دلانے کے لئے ایک ہو جائیں اورشہر مکہ میں کسی پر ظلم نہ ہونے دیں، چاہے وہ ان لوگوں سے وابستہ ہو یا کوئی پردیسی ہو، چاہے وہ فقیر اور معمولی انسان ہو یا ثروتمند اور باعزت۔ اس کے بعد عاص کے پاس جاکر زبیدی کا حق لے کر اسے دیدیا۔(٢) حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عمر اس وقت ٢٠ سال تھی جب آپ اس عہد کے ممبران میں سے تھے۔(٣)

______________________

(١) یا آل فهر {یاللرجال خ ل} لمظلوم بضاعته

ببطن مکة نائی الأهل و النفر

و محرم اشعث {شعث خ ل} لم یقض عمرته

یا آل فهر و بین الحجر

والحجر هل مخفر من بنی سهم بخفرته

ام ذاهب فی ضلالح مال معتمر

ان الحرام لمن تمت حرامته

و لا حرام لثوب الفاجر الغدر

(٢) محمد بن حبیب، گزشتہ حوالہ، ص ٥٣۔ ٥٢؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٢٨؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص١٣؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص١٤٢؛ بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: الشیخ محمد باقرالمحمودی (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، ط١، ١٣٩٤ھ.ق)، ج٢، ص١٢۔

(٣) محمد بن سعد، گزشتہ حوالہ، حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سن اس وقت اس سے بھی زیادہ نقل ہوا ہے؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١٣، المنمق، ص ٥٣؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦٢م)، ج١٥، ص ٢٢٥

۱۲۶

اس عہد و پیمان میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شر کت میں ایک بہادرانہ قدم اور اس جاہل سماج میں ایک طرح سے ''حقوق بشر'' کی حمایت تھی۔ اور اس لحاظ سے یہ اقدام بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ آپ کے ہم سن و سال جوان، مکہ میں عیش و عشرت اور خوشگزرانی میں سرگرم تھے۔ اور انسانی اقدار جیسے مظلوم کی حمایت، سماج کی تطہیر او رعدالت کا نفاذ ان کے لئے معنی و مفہوم نہیں رکھتا تھا۔ اور آپ قریش کے بزرگوں کے بغل میں کھڑے ہوکر اس طرح کے عہد و پیمان میں شرکت فرماتے تھے۔ اور بعثت کے بعد اپنی اس شرکت کو نیک او راچھا کہتے تھے اور فرماتے تھے۔

''میں نے عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں ایک پیمان میں شرکت کی کہ اگر اس کے بدلے مجھے سرخ بالوں کا اونٹ دیدیا جاتا توپھر بھی میں اتنا خوش نہ ہوتا۔ اور اگر دور اسلام میں بھی ہمیں اس طرح کے عہد و پیمان کی دعوت دیں تو ہم ا سکو قبول کریں گے''۔(١)

یہ عہد اس لحاظ سے موجود عہدوں میں سب سے اہم او ربرتر تھا اور اسے ''حلف الفضول'' کہا گیاہے۔(٢) یہ عہد ہمیشہ مظلوموں اور بے پناہوں کی پناہ گاہ تھا او ربعد میں بھی کئی مرتبہ مظلوموں اور پردیسیوں کواس پیمان کی مدد سے مکہ کے بدمعاشوں اور سرغنہ لوگوںکے چنگل سے رہائی ملی۔(٣) ٭

______________________

(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ١٤٢؛ یعقوبی، گزشتہ حوالہ، ص١٣؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص١٦؛ محمد بن حبیب، گزشتہ حوالہ، ص١٨٨۔

(٢) محمد ابن حبیب، گزشتہ حوالہ، ص ٥٥۔ ٥٤۔

(٣) گزشتہ حوالہ، بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٣

٭عصر اسلام میں اس عہد و پیمان کی یاد بھی باقی ہے جیسا کہ امام حسین نے ولید بن عتبہ بن ابی سفیان سے جو معاویہ کا بھتیجا او رمدینہ کا حاکم تھا ایک زمین کے سلسلہ میں اختلاف کی صورت میں اسے دھمکی دی کہ اگر طاقت کا استعمال کیا تو تلوار لیکرمسجد پیغمبر میں (قریش) کو ایسے عہد و پیمان کی دعوت دوں گا۔ یہ بات سن کر قریش کی کچھ شخصیتوں نے آپ سے نصرت کا وعدہ کیا جب ولید کو اس کی اطلاع ملی تو وہ اپنے ارادہ سے پیچھے ہٹ گیا!(ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٤٢؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٤؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٥؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٥، ص ٢٢٦؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص ٤٢۔

۱۲۷

شام کی طرف دوسرا سفر

جناب خدیجہ (دختر خویلد) ایک تجارت پیشہ، شریف اور ثروتمند خاتون تھیں۔ تجارت کے لئے لوگوں کو ملازمت پر رکھتی تھیں اور انھیں اپنا مال دے کر تجارت کے لئے بھیجتی تھیں اور انھیں ان کی مزدوری دیتی تھیں۔(١)

جب حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ٢٥ سال کے ہوئے(٢) تو جنا ب ابوطالب نے آپ سے کہا: میں تہی دست ہوگیا ہوں او رمشکلات و دشواریوں میں گرفتار ہوں اس وقت قریش کا ایک قافلہ تجارت کے لئے شام جارہا ہے۔ کاش تم بھی خدیجہ کے پاس جاتے او ران سے تجارت کا کام لیتے،وہ لوگوں کو تجارت کے لئے بھیجتی ہیں ۔

دوسری طرف سے جناب خدیجہ جو حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پسندیدہ اخلاق، صداقت و راست گوئی اور امانتداری سے آگاہ ہوگئی تھیں آپ کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر ہمارے تجارت کے کام کو قبول کریں تو دوسروں سے زیادہ انھیں اجرت دوں گی۔ اور اپنے غلام میسرہ کو بھی ان کا ہاتھ بٹانے کے لئے بھیجوں گی۔

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی اس پیشکش کو قبول کرلیا۔(٣) او رمیسرہ کے ہمراہ قریش کے کاروان

______________________

(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٩٩؛ ابن اسحاق، السیر و المغازی، تحقیق: سہیل زکار (بیروت: دار افکر، ط١، ١٣٩٨ھ.ق)، ص٨١؛ سبط ابنالجوزی، تذکرة الخواص ،ص ٣٠١، میں کہتا ہے کہ ''جناب خدیجہ نے ان کو ٹھیکہ پر کام دیا تھا'' اورابن اثیر اسدالغابہ میں ، ج١، ص١٦ ۔ پر لکھتا ہے: '' ان کو مزدوری یا ٹھیکہ پر کام دیا تھا''۔

(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٢٩۔

(٣) ایسے ثبوت ملتے ہیں کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کام مضاربہ کی شکل میں تھا آپ مزدوری پر کام نہیں کرتے تھے (الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج١، ص ١١٢)

۱۲۸

کے ساتھ شام کے لئے روانہ ہوگئے(١) اس سفر میں انھیں گزشتہ سے زیادہ فائدہ ملا۔(٢)

میسرہ نے اس سفر میں حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ ایسی کرامتیں دیکھیں کہ وہ حیرت و استعجاب میں پڑ گیا۔ اس سفر میں ''نسطور راہب'' نے آپ کے آئندہ رسالت کی بشارت دی۔ اسی طرح میسرہ نے دیکھاکہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک شخص کا ، تجارت کے معالمہ میں اختلاف ہوگیاہے وہ شخص کہتا تھا کہ لات و عزیٰ کی قسم کھاؤ تاکہ میں تمہاری بات کو قبول کروں۔

آپ نے جواب دیا: میں نے ابھی تک کبھی لات و عزیٰ کی قسم نہیں کھائی ہے۔(٣)

میسرہ نے سفر سے پلٹتے وقت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کرامتوں اور جو کچھ اس نے دیکھا تھا۔جناب خدیجہ سے آکر بتایا۔(٤)

______________________

(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ١٩٩؛ ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص ٨١

(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٣٠

(٣) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٣٠۔

(٤) ابن اسحاق، گزشتہ حوالہ، ص٨٢؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٣١؛ ابناثیر، الکامل، فی التاریخ الکامل فی التاریخ ( بیروت: دار صادر)، ج٢، ص٣٩؛ طبری، تاریخ الامم والملوک (بیروت: دارالقاموس الحدیث)، ج٢، ص ١٩٦؛ بہقی، دلائل النبوة، ترجمۂ محمود مہدوی دامغانی (تہران: مرکز انتشارات علمی و فرہنگی، ١٣٦١)، ج١، ص٢١٥؛ ابن اثیر، اسد الغابہ (تہران: المکتبة الاسلامیہ)، ج٥، ص ٤٣٥؛ ابی بشر، محمد بن احمد الرازی الدولابی، الذریة الطاھرة، تحقیق:السید محمد جواد الحسینی الجلالی (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، ط٢، ١٤٠٨ھ.ق)، ص ٤٦۔ ٤٥۔

۱۲۹

جناب خدیجہ کے ساتھ شادی

جناب خدیجہ ایک باشعور ،دور اندیش او رشریف خاتون تھیں اور نسب کے لحاظ سے قریش کی عورتوں سے افضل و برتر تھیں۔(١) وہ متعدد اخلاقی اور اجتماعی خوبیوں کی بنا پر زمانۂ جاہلیت میں ''طاہرہ''(٢) اور ''سیدۂ قریش''(٣) کے نام سے پکاری جاتی تھیں۔ مشہور یہ ہے کہ اس سے قبل آپ نے دوبار شادی کی تھی اورآپ کے دونوں شوہروں کا انتقال ہوگیا تھا۔(٤)

تمام بزرگان قریش آپ سے شادی کرنا چاہتے تھے(٥) قریش کی معروف ہستیاں، جیسے عقبہ بن ابی معیط، ابوجہل اورابوسفیان نے آپ کے ساتھ شادی کا پیغام بھیجا لیکن آپ، کسی سے

______________________

(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٠١۔ ٢٠٠؛ ابن سعد ، گزشتہ حوالہ، ج١، ص١٣١؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٢١٥؛ رازی دولابی، گزشتہ حوالہ، ص٤٦؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص ٣٩۔

(٢) ابن اثیر، اسد الغابہ، ج٥، ص٤٣٤؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٢٤؛ عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ (بیروت: دار احیاء التراث العربی)، ج٤، ص٢٨١؛ ابن عبد البر، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب (الاصابہ کے حاشیہ پر) ج٤، ص ٢٧٩۔

(٣) حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٢٤۔

(٤) ان کے گزشتہ شوہر عتیق بن عائد (عابد نسخہ بدل) اور ابوھالہ ہند بن نباش تھے۔ (ابن کثیر، اسد الغابہ، ج٥، ص ٤٣٤؛ ابن حجر، گزشتہ حوالہ، ص ٢٨١؛ ابن عبد البر، گزشتہ حوالہ، ص ٢٨٠؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٢٩؛ ابو سعید خرگوشی، شرف النبی، ترجمہ: نجم الدین محمود راوندی (تہران: انشارات بابک، ١٣٦١)، ص ٢٠١؛ شیخ عبد القادر بدران، تہذیب دمشق (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط ٣، ١٤٠٧ھ۔ق)، ج١، ص ٣٠٢)، لیکن کچھ اسناد و شواہد اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ جناب خدیجہ نے اس سے قبل شادی نہیں کی تھی او رحضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کے پہلے شوہر تھے۔ بعض معاصر محققین بھی اس بات کی تاکید کرتے ہیں (مرتضیٰ العاملی، جعفر، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج١، ص ١٢١)۔

(٥) ابن سعد، گزشتہ حوالہ؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ٢١٥؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٩٧؛ حلبی، گزشتہ حوالہ؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص ٤٠.

۱۳۰

شادی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئیں۔(١)

دوسری طرف خدیجہ، حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رشتہ دار تھیں اور دونوں کا نسب قصی سے ملتا تھا آپ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے روشن مستقبل سے بھی باخبر تھیں(٢) اور ان سے شادی کی خواہش مند تھیں۔(٣)

جناب خدیجہ نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس شادی کا پیغام بھیجوایا اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے چچا کی مرضی سے اس پیغام کو قبول کرلیااور یہ شادی انجام پائی۔(٤) مشہور قول کے مطابق خدیجہ اس وقت ٤٠ برس کی تھیں اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ٢٥ سال کے تھے۔(٥) جناب خدیجہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ شادی کی۔(٦)

______________________

(١) مجلسی، بحار الانوار (تہران: دار الکتب الاسلامیہ)، ج١٦، ص ٢٢۔

(٢) مجلسی، گزشتہ حوالہ ، ص ٢١۔ ٢٠؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٠٣؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص ٤١۔

(٣) مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣۔ ٢١۔

(٤) ابن اسحاق،گزشتہ حوالہ، ص ٨٢؛ بلاذری، انساب الاشراف، محمد حمید اللہ (قاہرہ: دار المعارف)، ج١، ص٩٨؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص١٦؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج٢، ص٤٠؛ رازی دولابی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٦؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٧؛ ابن شہر آشوب، ج١، ص ٤٢؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٦، ص ١٩۔

(٥) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص٩٨؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٣٢؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ١٩٦؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٨؛ ابن عبد البر، الاستیعاب، ج٤، ص ٢٨٠؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج٥، ص ٤٣٥؛ الکامل فی التاریخ، ج٢، ص ٣٩۔ جناب خدیجہ کی شادی کے وقت ان کی عمر کے بارے میں دوسرے اقوال بھی موجود ہیں۔ رجوع کریں: امیر مھیا الخیامی، زوجات النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واولادہ (بیروت: مؤسسة عز الدین، ط١، ١٤١١ھ.ق)، ص ٥٤۔ ٥٣۔

(٦) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٠١؛ رازی دولابی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٩؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٦؛ ابو سعید خرگوشی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠١؛ شیخ عبد القادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق، ج١، ص ٣٠٢؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج٥، ص٤٣٤۔

۱۳۱

حجر اسود کا نصب کرنا

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نیک اخلاق و کردار، امانت و صداقت اور اچھے اعمال نے اہل مکہ کو ان کا گرویدہ بنادیاتھا۔ سب آپ کو ''امین'' کہتے تھے(١) آپ لوگوںکے دلوں میں اس طرح سے بس گئے تھے۔ کہ حجر اسود(٢) کے نصب کے سلسلہ میں لوگوں نے آپ کے فیصلہ کا استقبال کیا اور آپ نے اپنی خاص تدبیر او رحکمت عملی کے ذریعہ ان کے درمیان موجوداختلاف کو حل کردیا۔ جس کی توضیح یہ ہے۔

جس وقت حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ٣٥ برس کے ہوئے تو مکہ کے پہاڑوں سے چشمہ کے جاری ہونے کی وجہ سے خانہ کعبہ کی دیواریں کئی جگہ سے منہدم ہوگئیں کعبہ میں اس وقت تک چھت نہیں تھی اور اس کی دیواریں چھوٹی تھیں اس اعتبار سے اس کے اندر موجود چیزیں محفوظ نہیں تھیں۔ قریش نے چاہا کہ کعبہ کی چھت کو بنائیں لیکن وہ یہ کام نہیں انجام دے سکے۔ اس کے بعد مکہ کے بزرگوں نے چاہا کہ کعبہ کی دیوار کو توڑ کر پھر سے از نو تعمیر کریں او راس پر چھت بھی ڈالیں۔

لہٰذا کعبہ کی تعمیر نو کے بعد، قریش کے قبیلوں کے درمیان حجر اسود کے نصب کرنے کے سلسلہ میں اختلاف پیدا ہوگیااور قبیلہ جاتی رسّہ کشی اور فخر و مباہات دوبارہ زندہ ہوگئیں، ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ اس پتھر کے نصب کرنے کا شرف اس کو حاصل ہو بعض قبیلوں نے تواپنے دونوں ہاتھوں کو خون سے لبریز طشت میں ڈال کر یہ عہد کیا کہ یہ افتخار دوسرے قبیلہ کے پاس نہیں جانے دیں گے۔

______________________

(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٢١؛ ابن ہشام، ج١، ص ٢١٠؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١١؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٥، ص ٣٦٩۔

(٢) یہ پتھر کعبہ کے مقدس ترین اجزاء میں سے ہے۔ روایات میں نقل ہوا ہے کہ یہ بہشتی اور آسمانی پتھر ہے جس کو جنا ب ابراہیم نے حکم خدا سے کعبہ کا جزء قرار دیا ہے (مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٩٩۔ ٨٤)، ازرقی، تاریخ مکہ، تحقیق: رشدی الصالح ملحس، (بیروت: دارالاندلس، ط٣، ١٤٠٣ھ.ق)، ج١، ص ٦٣۔ ٦٢؛ حجر اسود ابھی تک باقی ہے جو انڈہ کے شکل ، سیاہ رنگ، مائل بہ سرخی ہے او رکعبہ کے رکن شرقی میں زمین سے ڈیڑھ میٹر کی بلندی پر نصب ہے او رطواف کا آغاز وہیں سے ہوتاہے۔

۱۳۲

آخرکار قریش کے ایک بزرگ اور سن رسیدہ شخص کے مشورہ پر یہ طے پایا کہ کل جو شخص سب سے پہلے باب بنی شیبہ (یا باب صفا) سے مسجد الحرام میں داخل ہوگا ۔ وہی قبائل کے درمیان حجر اسود کے نصب کرنے کا فیصلہ کرے گا۔

اچانک حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس دروازہ سے داخل ہوئے سب نے ملکر کہا: یہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، امین ہیں ہم سب ان کے فیصلہ پر راضی ہیں لہٰذا آنحضرت کے حکم سے ایک چادر منگائی گئی اور چادر کو پھیلا کر اس میں حجر اسود کو رکھا گیا اور قبائل کے سرداروں سے کہا گیا کہ ہر ایک اس کا ایک گوشہ پکڑ لے اور سب ملکر پتھر کو دیوار تک لائیں جب پتھر دیوار کے پاس آگیاتو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کواپنے دست مبارک سے اٹھاکر اپنی قدیمی جگہ پر رکھ دیا۔(١) اور اس طرح آپ نے اپنے حکیمانہ او رمدبرانہ عمل کے ذریعہ قبائل کے درمیان موجود اختلاف کو حل فرمایا اور انھیں ایک خون ریز جنگ سے بچالیا۔

علی مکتب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں

کعبہ کی تعمیر نو کے چند سال بعد او ربعثت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے چند سال قبل مکہ میں ایک مرتبہ سخت قحط پڑا۔ اس وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا جناب ابوطالب تہی دست اور کثیر العیال تھے۔ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دوسرے چچا عباس کو (جو کہ بنی ہاشم کے ثروتمند ترین افراد میں سے تھے) مشورہ دیاکہ ہم میں سے ہر ایک ابوطالب کے ایک فرزند کو اپنے گھر لے جائے تاکہ ان کا مالی بوجھ کم ہوجائے۔

______________________

(١) ابن سعد، گزشتہ ، ج١، ص ١٤٦۔ ١٤٥؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١٥۔ ١٤؛ مجلسی، گزشتہ، ج١٥، ص ٣٣٨۔ ٣٣٧؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٠٠۔ ٩٩؛ مسعودی، مروج الذہب، (بیروت: دار الاندلس، ط١، ١٩٦٥.)، ج٢، ص ٢٧٢۔ ٢٧١؛ بعض مورخین نے کعبے کی خرابی اوراس کی تعمیر نو کاسبب ایک دوسرا واقعہ نقل کیا ہے لیکن سب نے حجر اسود کے نصب کے سلسلے میں آپ کے فیصلہ کونقل کیاہے۔ رجوع کریں: ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص ١٠٣؛ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٠٥؛ بیہقی، دلائل النبوة، ترجمہ: محمود مہدوی دامغانی، ج١، ص٢١٠۔

۱۳۳

عباس اس بات پر راضی ہوگئے او ردونوں ابوطالب کے پاس گئے اور اپنی بات ان سے کہی تو وہ بھی راضی ہوگئے او رپھر جعفر کو عباس نے او رحضرت علی کو حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی تربیت اور کفالت میں لے لیا اور حضرت علی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر میں رہنے لگے۔ یہاں تک کہ خداوند عالم نے ان کو مبعوث بہ رسالت کیا اور علی نے آپ کی تصدیق اور پیروی کی۔(١)

حضرت علی اس وقت چھ سال کے تھے.(٢) یہ ان کی شخصیت سازی او رتربیت پذیری کا حساس دور تھا گویا حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم چاہتے تھے کہ ابوطالب کے کسی ایک لڑکے کی تربیت کر کے ان کی اور ان کے شریک حیات کی زحمتوں کا بدلا چکا دیں۔ لہٰذا ابوطالب کی اولاد میں سے علی کو اس معاملہ میں مستعدتر پایا۔ جیسا کہ آپ نے علی کی کفالت قبول کرنے کے بعد فرمایا ہے: میں نے اس کو منتخب کیا جس کو خدا نے منتخب کیا ہے۔(٣)

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کی تربیت میں کسی قسم کی کوشش سے پیچھے نہیں ہٹے۔ فضل بن عباس (علی کا چچا زادبھائی)کہتا ہے کہ: میں نے اپنے والد محترم (عباس بن عبد المطلب) سے پوچھا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے فرزند وں میں سے کس کو سب سے زیادہ چاہتے ہیں؟کہا: علی ابن ابی طالب کو۔

______________________

(١) ابن ہشام، السیرة النبویہ،(قاہرہ: مکتبہ مصطفی البابی الحلبی)، ١٣٥١ ھ.ق)، ج١، ص ٢٦٢؛ طبری، تاریخ الامم والملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٢، ص ٢١٣؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر)، ١٣٩٩ھ.ق)، ج٢، ص٥٨؛ بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: الشیخ محمد باقر المحمودی (بیروت: مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ط١)، ١٣٩٤ھ.ق، ج٢، ص ٩٠؛ ابن ابی الحدید ، شرح نہج البلاغہ (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦٢ئ)، ج١٣، ص ١٩ اور ج ١، ص ١٥۔

(٢) ابن ابی الحدید،گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٥؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج٢، ص١٨٠۔

(٣)ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبین (نجف اشرف: منشورات المکتبة الحیدریہ)، ص ١٥۔

۱۳۴

میں نے کہا: میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لڑکوں کے بارے میں پوچھا ہے ۔ کہا:رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے تمام لڑکوں میں علی کو زیادہ چاہتے ہیں اور سب سے زیادہ ان پر مہربان ہیں میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ انھوں نے علی کو زمانۂ کمسنی سے اپنے سے الگ کیاہو؟ مگر ایک سفر میں جو آپ نے جناب خدیجہ کے لئے کیا تھا۔ ہم نے کسی پدر کو اپنی اولاد کے بارے میں رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا سے زیادہ مہربان نہیں دیکھاہے اور نہ ہی علی سے زیادہ فرمانبردار کوئی لڑکا دیکھا ہے جواپنے باپ کی فرمانبرداری کرے۔(١)

بعثت کے بعد حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی کواس طرح سے تعلیمات اسلام سے آگاہ کیا کہ اگر رات میں وحی نازل ہوتی تھی تو صبح ہونے سے قبل علی کو بتادیتے تھے او راگر دن میں وحی نازل ہوتی تھی تو رات ہونے سے قبل علی کو اس سے آگاہ کردیتے تھے۔(٢)

علی سے پوچھا گیا: کس طرح آپ نے دوسرے اصحاب سے پہلے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حدیث سیکھی؟ تو آپ نے جواب دیا: جب میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھتا تھا تو وہ جواب دیتے تھے او رجب میں خاموش رہتاتھا تو وہ خود مجھے حدیث بتاتے تھے۔(٣)

حضرت علی نے اپنے دورخلافت میں اپنی تربیت کے زمانہ کو یاد کر کے اس طرح سے فرمایا ہے:

''او رتم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قریبی قرابت کے حوالے سے میرا مقام اور بالخصوص قدر و منزلت جانتے ہی ہو میں بچہ تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے اور بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے او رجسم مبارک کو مجھ سے مس کرتے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سنگھاتے تھے ۔ وہ کوئی چیز خود چباتے پھر اس کے لقمے میرے منھ میں دیتے تھے اور میں ان کے پیچھے پیچھے اس طرح لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے رہتا ہے وہ ہر روز مجھے اخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے تھے

______________________

(١) ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٣، ص ٢٠٠۔

(٢) شیخ طوسی، الامالی (قم: دار الثقافہ للطباعة والنشر و التوزیع، ط١، ١٤١٤ھ.ق)، ص ٦٢٤۔

(٣) سیوطی، تاریخ الخلفاء (قاہرہ: ط٣، ١٣٨٣ھ.ق)، ص ١٧٠۔

۱۳۵

اور مجھے اس کی پیروی کا حکم دیتے تھے۔ وہ ہمیشہ (کوہ) حرا میں مجھے ساتھ رکھتے تھے اور وہاں انھیں میرے سوا کوئی نہیں دیکھتا تھا... اور جب حضور پر پہلے پہل وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی چیخ سنی جس پر میں نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ آواز کیسی ہے؟

فرمایا: یہ شیطان ہے جواپنی عبادت سے محروم ہوگیا ہے جو کچھ میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو کچھ میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہوفرق صرف یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو بلکہ تم میرے وزیر ہو اور یقینا خیر پر ہو۔(١)

اگرچہ یہ بات بعثت کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عبادت سے مربوط ہوسکتی ہے جو آپ نے غار حرا میں انجام دی ہے لیکن یہ بات پیش نظر رہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عبادت غار حرا میں غالباً رسالت سے قبل رہی ہے ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ موضوع، حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت سے قبل کا تھا اور شیطان کے نالہ و فریاد کا سننا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کے وقت، جب قرآن کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں تھیں۔ اس وقت سے مربوط ہے۔ بہرحال علی کی پاکیزہ نفسی اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسلسل تربیت کی وجہ سے وہ بچپنے ہی سے اپنی چشم بصیرت و بصارت اور گوش سماعت اور قلبی ادراک کے ذریعہ ایسی چیز وںکو دیکھتے اور سنتے تھے جو عام انسانوں کے لئے ممکن نہیں تھا۔

______________________

(١) نہج البلاغہ، صبحی صالح، خطبہ ١٩٢

۱۳۶

تیسرا حصہ

بعثت سے ہجرت تک

پہلی فصل: بعثت اور تبلیغ

دوسری فصل: علی الاعلان تبلیغ اور مخالفتوں کا آغاز

تیسری فصل: قریش کی مخالفتوں کے نتائج اور ان کے اقدامات

۱۳۷

پہلی فصل

بعثت اور تبلیغ

رسالت کے استقبال میں

جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آباء و اجداد موحد تھے اور ان کا خاندان طیب و طاہر تھا اور خدا نے انھیں حسب و نسب کی طہارت کے علاوہ بہترین تربیت سے نوازا تھا وہ بچپنے سے ہی اہل مکہ کے برے اخلاق اور بت پرستی میں ملوث نہیں تھے۔(١) وہ بچپنے سے ہی خداوند عالم کی عنایت اور اس کی خاص تربیت کے زیر نظر تھے اور آپ کے زمانۂ تربیت کو حضرت علی نے اس طرح سے بیان فرمایا ہے:

''اور خدا نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دودھ بڑھائی کے وقت ہی سے اپنے فرشتوں میں سے ایک عظیم المرتبت ملک کو آپ کے ساتھ کردیا تھا جو شب و روز بزرگوں کی راہ اور حسن اخلاق کی طرف لے چلتا تھا۔(٢)

______________________

(١)علی بن برہان الدین الحلبی، السیرة الحلبیہ (انسان العیون) ، (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص ٢٠٤۔ ١٩٩؛ ابی الفداء اسماعیل بن کثیر، السیرة النبویہ، تحقیق: مصطفی عبد الواحد (قاہرہ: مطبعہ عیسی البابی الحلبی)، ج١، ص ٢٥

(٢)و لقد قرن اللّٰه به من لدن ان کان فطیماً اعظم ملک من ملائکته، یسلک به طریق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیله و نهاره... ، نہج البلاغہ، حطبہ ١٩٢.

۱۳۸

حضرت امام محمد باقر ـ نے فرمایا ہے: جس وقت سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دودھ چھوڑایاگیا خداوند عالم نے آپ کے ساتھ ایک بڑے فرشتہ کو کردیا تاکہ وہ آپ کو نیکیوں اور اچھے اخلاق کی تعلیم دے اور برائیوں اور برے اخلاق سے روکے یہ وہی فرشتہ تھا جس نے جوانی میں آپ کو مبعوث بہ رسالت ہونے سے قبل آواز دی تھی اور کہا تھا: ''السلام علیک یا محمد رسول اللّٰہ'' لیکن آپ نے سوچا کیا کہ یہ آواز پتھر اور زمین سے آرہی ہے کافی غور کیا لیکن کچھ نظر نہ آیا۔(١)

بعثت سے قبل حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عقل و فکر کامل ہوچکی تھی اور آپ کو اپنے یہاں کے آلودہ ماحول سے تکلیف اور کوفت ہوتی تھی لہٰذا آپ لوگوں سے بچتے تھے۔(٢) اور ٣٧ سال کی عمر میں آپ کے اندر معنویت پیدا ہوگئی تھی اور آپ محسوس کرتے تھے کہ غیب کے دریچے آپ کے لئے کھلے ہوئے ہیں آپ کے بارے میں جو باتیں اکثر آپ کے رشتہ داروں اور اہل کتاب کے دانشوروں جیسے بحیرا، نسطور وغیرہ کے ذریعہ سنی گئی تھیں، وہ عنقریب رونما ہونے والی تھیں کیونکہ آپ ایک خاص نور دیکھنے لگے تھے اور آپ کے اوپر اسرار فاش ہونے لگے تھے اور اکثر آپ کے کانوں سے غیب کی صدا ٹکراتی تھی لیکن کسی کو آپ دیکھتے نہیں تھے۔(٣) کچھ دنوں تک خواب کی حالت میں آواز سنائی پڑتی تھی کہ کوئی انھیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہہ رہا ہے ایک دن مکہ کے اطراف کے بیابانوں میں ایک شخص نے آپ کو رسول اللہ کہہ کر پکارا آپ نے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ''میں جبرئیل ہوں۔

______________________

(١) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابو الفضل ابراہیم (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦١ئ)، ج١، ص ٢٠٧

(٢) ابن کثیر ، سابق ، ج ١، ص ٣٨٩.

(٣) حلبی، سابق، ج١، ص ٣٨١۔ ٣٨٠؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، تحقیق : مصطفی السقاء او ردوسرے افراد(قاہرہ: مطبعہ مصطفی البابی الحبی، ١٣٥٥ھ) ، ج١، ص ١٥٠؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٢، ص ٢٠٤۔ ٢٠٣؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعہ العلمیہ)، ج١، ص ٤٣؛ مجلسی، بحار الانوار، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ج١٨، ص ١٨٤ اور ١٩٣؛ مراجعہ: تاریخ یعقوبی (نجف: المکتبہ الحیدریہ، ١٣٨٤ھ)، ج٢، ص ١٧.

۱۳۹

خداوند عالم نے مجھے بھیجا ہے تاکہ تمہیں پیغمبری کے منصب پر مبعوث کروں حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جس وقت یہ خبر اپنی زوجہ کو سنائی تو وہ خوش ہوکر بولیں ''امید کرتی ہوں کہ ایسا ہی ہو''۔(١)

اس وقت حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سال میں کچھ دن ''غار حرا''(٢) میں رہا کرتے تھے اور دعا و عبادت کیا کرتے تھے(٣) اور اس طرح کی گوشہ نشینی اور غار حرا میں عبادت، قریش کے خدا پرستوں میں سابقہ نہیں رکھتی تھی۔(٤) پہلا شخص جس نے اس سنت کو قائم کیا حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جد حضرت عبد المطلب تھے کہ جب ماہ رمضان آتا تھا تو غار حرا میں چلے جاتے تھے اور فقیروں کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔(٥)

______________________

(١) ابن شہر آشوب، سابق ، ج١، ص ٤٤؛ مجلسی ، سابق، ج١٨، ص ١٩٤؛ طبرسی، اعلام الوریٰ باعلام الہدی (تہران: دار الکتب السامیہ،ط٣)، ص ٣٦؛ ان دلائل و شواہد کو دیکھتے ہوئے جیسا کہ مرحوم کلینی نے روایت کی ہے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس وقت ''نبی'' تھے لیکن ابھی مرتبۂ رسالت پر نہیں پہنچے تھے (الاصول من الکافی، تہران: مکتبہ الصدوق، ١٣٨١ھ)، ج١، ص ١٧٦۔

(٢) غار حرا مکہ کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے اور اس لحاظ کہ خورشید وحی کے طلوع کی جگہ قرار پائی ''جبل النور'' (کوہ نور) کہا جاتا ہے کچھ سال پہلے شہر مکہ سے اس پہاڑ تک تھوڑا فاصلہ پایا جاتا تھالیکن اب، شہر مکہ کی توسیع کی بنا پر پہاڑ کے کنارے تک گھر بن گئے ہیں، حرا پہاڑ جو کئی پہاڑ کے بیچ میں ہے سب سے بلند اور اونچا ہے غار حرا جو پہاڑ کی چوٹی میں واقع ہے ''در اصل وہ غار نہیں ہے بلکہ پتھر کی ایک عظیم پٹیہ جو پتھر کے دو بڑے ٹکڑوں کے اوپر چپکی ہوئی اس سے ایک چھوٹا سا غار تقریباً ڈیڑھ میٹر کا بن گیا تھا ،غار کا منھ پھیلا ہوا ہے ہر شخص آسانی سے اس میں آجاسکتاہے لیکن آدھا حصہ اس کا بعد والا تنگ اور اس کی چھت چھوٹی ہے اور سورج کی روشنی غار کے آدھے حصہ سے زیادہ نہیں پہنچ پاتی ہے۔

(٣) نہج البلاغہ، تحقیق صبحی صالح، خطبہ ١٩٢ (قاصعہ)؛ ابن ہشام، سابق ، ج١، ص ٢٥١.

(٤) ابن ہشام، سابق ، ج١، ص ٢٥١؛ سابق، ج٢، ص ٢٠٦؛ ابن کثیر، سابق ، ج١، ص ٣٩٠؛ بلاذری۔

(٥) حلبی، سابق، ص ٣٨٢.

۱۴۰