تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 157613
ڈاؤنلوڈ: 4712

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157613 / ڈاؤنلوڈ: 4712
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

رسالت کا آغاز

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب چالیس برس کے ہوئے(١) تو اس وقت بھی آپ اپنے قدیمی دستور کے مطابق کچھ دن کے لئے غار حرا میں چلے گئے تو وہاں وحی کا نمائندہ نازل ہوا اور خدا کی بارگاہ سے قرآن مجید کی ابتدائی آیات آپ کے سینہ پر نازل ہوئیں۔(٢)

(بسم الرحمن الرحیم. اقرأ باسم ربک الذی خلق. خلق الانسان من علق. اقرأ و ربک الأکرم الذی علَّم بالقلم علم الانسان ما لم یعلم''(٣)

اس خدا کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا ہے

اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے

پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے

جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ہے

اور انسان کو وہ سب کچھ بتا دیا ہے جو اسے نہیں معلوم تھا۔

خداوند عالم نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ فرشتۂ وحی (جناب جبرئیل) کا دیدار اور اس کے پیغام پہنچانے کو قرآن مجید میں دو مقام پر ذکر فرمایا ہے:

______________________

(١) ابن ہشام، سابق، ص ٢٤٩؛ طبری ، سابق، ص ٢٠٩؛ بلاذری، ص ١١٥۔ ١١٤؛ ابن ، الطبقات الکبریٰ (بیروت: دار صادر)، ج١، ص ١٩٠؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف، (قاہرہ: دار الصاوی للطبع و النشر)، ص ١٩٨؛ حلبی ، سابق ، ص ٣٦٣؛ مجلسی، سابق ، ص ٢٠٤۔

(٢) طبرسی، مجمع البیان (تہران: شرکة المعارف الاسلامیہ، ١٣٧٩ھ )، ج١٠، ص ٥١٤؛ مسعودی، مروج الذہب، (بیروت: دار الاندلس، ط ١، ١٩٦٥ئ)، ج٢، ص ١٢٩و ٢٧٦۔

(٣) سورۂ علق، آیت ٥۔ ١

۱۴۱

قسم ہے ستارہ کی جب وہ ٹوٹا

تمہارا ساتھی (محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا

اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے

اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے

اسے (فرشتہ) نہایت طاقت والے (جبرئیل) نے تعلیم دی ہے

وہ صاحب حسن و جمال جو سیدھا کھڑا ہوا

جبکہ وہ بلند ترین افق پر تھا

پھر وہ قریب ہوا اور آگے بڑھا

یہاں تک کہ دو کمان یا اس سے کم کا فاصلہ رہ گیا

پھر خدا نے اپنے بندہ کی طرف جس راز کی بات کرنا چاہی وحی کردی

دل نے اس بات کو جھٹلایانہیں جس کو آنکھوں نے دیکھا

کیا تم اس سے اس بات کے بارے میں جھگڑا کر رہے ہو جو وہ دیکھ رہاہے۔(١)

تو میں ان ستاروں کی قسم کھاتا ہوں جو پلٹ جانے والے ہیں

چلنے والے اور چھپ جانے والے ہیں

اور رات کی قسم جب ختم ہونے کو آئے

______________________

(١) سورۂ نجم، آیت ١٢۔ ١ ؛ اسلامی دانشوروں نے ان آیات کو پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی بعثت سے مربوط قرار دیا ہے قرائن اور شواہد بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں (مراجعہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، ج١٨، ص ٢٤٧؛ محمد ہادی معرفت، التمہید فی علوم القرآن، ج١، ص ٣٥؛ احمد بن محمد القسطلانی، المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ، تحقیق: صالح احمد الشامی (بیروت: المکتب الاسلامی، ط ١، ١٤١٢ھ) ج٣، ص ٨٩۔ ٨٨؛ لیکن دوسری تفسیر کی بنیاد پر معراج سے مربوط ہے۔

۱۴۲

اور صبح کی قسم جب سانس لینے لگے

بیشک یہ ایک معزز فرشتے کا بیان ہے

وہ صاحب قوت ہے اور صاحب عرش کی بارگاہ کا مکین ہے

وہ وہاں قابل اطاعت اور پھر امانت دار ہے

اور تمہارا ساتھی پیغمبر دیوانہ نہیں ہے

اور اس نے فرشتہ کو بلند افق پر دیکھا ہے

اور وہ غیب کے بارے میں بخیل نہیں ہے

اور یہ قرآن کسی شیطان رجیم کا قول نہیں ہے

تو تم کدھر چلے جارہے ہو۔(١)

______________________

(١) سورۂ تکویر، آیت ٢٦۔ ١٥.

۱۴۳

طلوع وحی کی غلط عکاسی

بعض تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی بعثت کو غلط اور افسانوی شکل میں نقل کیا گیا ہے جو کسی طرح سے حدیث اور تاریخی معیاروں کے مطابق، قابل قبول نہیں ہے اور اس اعتبار سے کہ یہ خبر، مشہور ہے۔ فارسی کی درسی کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے۔ لہٰذا مناسب ہے ہم اس کو نقل کریں اور اس پر تنقید کریں۔

عائشہ کہتی ہیں کہ پہلی بار جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر وحی نازل ہوئی تو وہ سچا خواب تھا وہ جو بھی خواب دیکھتے تھے وہ صبح روشن کے مانند ہوا کرتا تھا اس کے بعد وہ چاہتے کہ گوشہ نشین ہوجائیں اور پھر غار حرا میں گوشہ نشین ہو جاتے تھے اور وہاں کچھ راتیں عبادت میں بسر کرتے اور پھر اپنے اہل خانہ کے پاس

واپس چلے آتے تھے اور خدیجہ سے آذوقہ لیتے تھے (اور پھر غار حرا میں واپس چلے جاتے تھے) یہاں تک کہ حق آپ کے پاس آیا اور آپ اس وقت غار میں تھے۔ فرشتہ وحی آپ کے پاس آیا اور کہا: پڑھو۔ کہا:میں پڑھنا نہیں جانتا ہوں۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ فرشتے نے مجھے پکڑا اور زور سے دبایا یہاں تک کہ میں بے دم ہوگیا پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو۔ میں نے کہا: میں پڑھنا نہیں جانتا ہوں دوبارہ ہم کو پکڑا اور اتنی زور سے دبایا کہ میری ساری طاقت چلی گئی۔ اس وقت مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھو میں نے کہا: میں پڑھنا نہیں جانتا ہوں تیسری بار پھر مجھے پکڑا اور اتنی زور سے دبایا کہ میری ساری طاقت ختم ہوگئی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھو اپنے پروردگار کے نام سے جو خالق ہے... (پانچویں آیت تک)

۱۴۴

اس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لرزتے ہوئے دل کے ساتھ پلٹے اور جناب خدیجہ کے پاس پہنچے اور فرمایا: مجھے اڑھادو! مجھے اڑھادو! تو انھوں نے اڑھا دیا تاکہ آپ کا اضطراب اور خوف ختم ہو جائے{!} رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ جو کچھ پیش آیا تھا اسے آپ نے خدیجہ سے بتایا اور فرمایا کہ میں اپنے بارے میں خوف زدہ ہوں{!} خدیجہ نے کہا: قسم خدا کی! خدا آپ کو ہرگز رسوا نہ فرمائے گا؛ کیونکہ آپ اپنے رشتہ داروں اور گھر والوں کے ساتھ نیکی اور غیروں کے ساتھ بخشش و خیرات کرتے ہیں ۔ فقیروں اور تہی دستوں کی دلجوئی اور مہمانوں کی ضیافت اور حق والوں کی مدد فرماتے ہیں۔

پھر جناب خدیجہ آپ کے ساتھ، اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں وہ ایک سن رسیدہ اور نابینا شخص تھے اور زمانۂ جاہلیت میں عیسائیت کے گرویدہ ہوگئے تھے وہ عبرانی زبان سے واقف تھے او رانجیل کو اسی زبان میں لکھتے تھے۔

خدیجہ نے ان سے کہا: عمو زادہ! اپنے بھائی کی بات سنیئے (کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟) ورقہ نے کہا: ''بھائی تم نے کیا دیکھا؟'' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا ان سے بتایا۔ ورقہ نے کہا: ''یہ وہی ناموس (فرشتہ) ہے جو موسیٰ پر نازل ہوا تھا کاش آج میں جوان ہوتا۔ کاش میں اس دن زندہ رہوں؟ جب تمہاری قوم والے تم کو شہر سے باہر کردیں گے''۔

۱۴۵

رسول خدا نے فرمایا: ''کیا یہ لوگ مجھے شہر سے باہر کردیں گے۔کہا: ہاں...''(١)

تنقید و تحلیل

جیسا کہ اشارہ کیا جاچکا ہے کہ یہ روایت اس شکل میں قابل قبول نہیں ہوسکتی کیونکہ مندرجہ ذیل دلائل کی بنیاد پر سند اور متن دونوں لحاظ سے ناقابل اعتبار ہے۔

١۔ اس واقعہ کی ناقل عائشہ ہیں اور وہ بعثت کے چوتھے یا پانچویں سال پیدا ہوئیں۔(٢) لہٰذا وہ واقعہ کے وقت موجود ہی نہیں تھیں کہ واقعہ کی عینی گواہ بن سکیں اور چونکہ وہ اصلی راوی کا نام کہ شاید جس سے یہ واقعہ سنا ہے ذکر نہیں کرتیں لہٰذا ان کی نقل، فاقد سند اور علوم حدیث کی اصطلاح میں ''مرسل'' ہے اور روایت مرسل قابل اعتبار نہیں ہے۔

٢۔ اس روایت کی بنیاد پر فرشتۂ وحی نے متعدد بار حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پڑھنے کے لئے کہا اور آپ نے اظہار ناتوانی فرمایا۔ اگر مقصد یہ تھا کہ آنحضرت کلام خدا کو لوح سے دیکھ کر پڑھیں تو ایسی چیز معقول نہ تھی؛ کیونکہ خدا اور اس کا فرشتہ جانتا تھا کہ آپ امی ہیں اور پڑھنا نہیں جانتے ہیں اور اگر مقصد یہ تھا کہ فرشتہ کے کہنے پر آپ پڑھیں تو یہ کام کوئی مشکل نہیں تھا۔ جس سے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (جو کہ ذہانت اور دقت میں معروف تھے) کمال عقل و فکر کے باوجود عاجز رہے ہوں!

______________________

(١) صحیح بخاری، شرح و تحقیق: الشیخ قاسم الشماعی الرفاعی (بیروت: دار القلم، ط١، ١٤٠٧ھ.ق)، ج١، ص٦٠۔ ٥٩،کتاب بدء الوحی؛ صحیح مسلم، بشرح امام النووی (بیروت: دار الفکر، ١٤٠٣ھ.ق)، ج٢، ص٢٠٤۔ ١٩٧، باب بدء الوحی الی رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٠٦۔ ٢٠٥۔

(٢) عسقلانی ، الاصابہ فی تمیز الصحابہ (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط١، ١٣٢٨ھ) ج ٤، ص ٣٥٩۔

۱۴۶

٣۔ فرشتۂ وحی کے ذریعہ مسلسل دباؤ کے کیا معنی ہوسکتے ہیں؟ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ یاد کرنا ایک ذہنی کام ہے جس میں دباؤ کارگر نہیں ہوتا ہے اگر خیال کریں کہ یہ کام اس لئے تھا کہ حضرت، قدرت خدا سے اچانک پڑھنا سیکھ جائیں تو صرف ارادۂ الٰہی اس کام کے لئے کافی تھا ان مقدمات کی ضرورت نہیں تھی اور اگر دباؤ کے مسئلہ کو رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا، پروردگار عالم اور عالم غیب سے مربوط سمجھیں پھر بھی قابل تاویل نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ خداوند عالم نے صراحت کے ساتھ قرآن میں بیان کردیا ہے کہ پیغمبروں کا رابطہ عالم غیب سے ان تین طریقوں میں سے کسی ایک کے ذریعہ رہا ہے۔

١۔ ڈائرکٹ رابطہ اور بغیر کسی واسطہ کے پیغام الٰہی کو دریافت کرنا؛

٢۔ آواز کے ذریعہ، بغیر کسی کو دیکھے ہوئے؛

٣۔ فرشتۂ وحی کے ذریعہ۔(١)

صرف وحی کے بغیر کسی واسطے کے دریافت کرنے پر پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے دباؤ اور سختی کو برداشت کیا اور بعض روایتوں کی بنیاد پر آپ کا چہرہ متغیر ہو جایا کرتا تھا اور عرق کے قطرات موتی کی شکل میں آپ کے چہرے سے گرنے لگتے تھے۔(٢)

لیکن اگر پیغام الٰہی فرشتہ کے ذریعہ بھیجا جاتا تھا تو حضرت پر کوئی خاص کیفیت طاری نہیں ہوا کرتی تھی جیسا کہ حضرت امام صادق فرماتے ہیں: ''جس وقت وحی جبرئیل لے آکر آتے تھے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عام حالت میں فرماتے تھے۔ یہ جبرئیل ہیں یا جبرئیل نے مجھ سے اس طرح یہ کہا ہے لیکن

______________________

(١)''و ما کان لبشر ان یکلمه اللّٰه الا وحیا او من ورآ حجاب او یرسل رسولاً فیوحی باذنه مایشاء انه عل حکیم'' (سورۂ شوریٰ، آیت ٥١) اس بارے میں مزید آگاہی کے لئے مراجعہ کریں: (بحار الانوار، ج١٨، ص ٢٤٦، ٢٥٤، ٢٥٧

(٢)ابن سعد، سابق، ج١، ص ١٩٧؛ ابن شہر آشوب، سابق ، ج١، ص ٤٣؛ مجلسی ، گزشتہ ، ج١٨، ص ٢٧١۔

۱۴۷

اگر وحی آپ پر براہ راست نازل ہوتی تھی تو گرانی اور بوجھ کا احساس کرتے تھے اور بے ہوشی جیسی کیفیت آپ پر طاری ہو جایا کرتی تھی''(١) جب جبرئیل حامل وحی ہوا کرتے تھے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کو دیکھ کر نہ تنہا کوئی خاص احساس نہ کرتے تھے بلکہ جب بھی آپ کی خدمت میں وہ حاضر ہوتے تھے، بغیر آپ کی اجازت کے آپ کی خدمت میں قدم نہیں رکھتے تھے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بارگاہ میں نہایت ہی ادب سے بیٹھتے تھے۔(٢)

اس تشریح اور توضیح کے ساتھ چونکہ مورخین کا اتفاق ہے کہ قرآن کی ابتدئی آیات کو جبرئیل غار حرا میں لے کر آئے تھے لہٰذا کسی طرح کا بوجھ اور سنگینی نہیں پائی جاتی تھی۔ لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ذمہ داری کی سنگینی کا احساس نہیں تھا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بت پرستوں کی مخالفت کی فکر نہیں تھی۔

٤۔ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آمادگیوں اور تیاریوں کو دیکھتے ہوئے اور اس سے قبل، غیبی پیغاموں کے دریافت کودیکھتے ہوئے، کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا کہ حضرت گھبرائے ہوں اور خوف و اضطراب آپ پر طاری ہوا ہو اس سے قطع نظر بعض کتابوں میں ذکر ہوا ہے کہ جناب جبرئیل شب شنبہ اور شب یکشنبہ کے ابتدائی حصہ میں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے قریب آئے اور تیسری بار (یعنی دوشنبہ کے دن) تھا کہ منصب رسالت پر آپ کو فائز کردیا گیا۔(٣) لہٰذا غار حرا میں بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پہلا دیدار، فرشتے سے نہیں

______________________

(١) مجلسی ، سابق، ص ٢٦٨ اور ٢٧١؛ صدوق ، التوحید (تہران: مکتبة الصدوق)، ص ١١٥؛ مراجعہ کریں: مہر تابان، (آیة اللہ سید محمد حسین حسینی طہرانی کا انٹریو مرحوم علامہ سید محمد حسین طباطبائی سے) ص ٢١١۔ ٢٠٧۔

(٢) صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ (ہم: موسسہ النشر الاسلامی، ١٤٠٥ھ)، ج١، ص ٨٥؛ علل الشرایع (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٥ھ)، باب ٧، ص ٧۔

(٣) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٠٧؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٠٥؛ مسعودی، مروج الذہب، ج٢، ص ٢٧٦؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١٧۔

۱۴۸

ہوا کہ اس کو دیکھ کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خوف و اضطراب طاری ہوا ۔ اصولی طور پر جب تک کوئی ہر لحاظ سے سرّ الٰہی (رسالت) کو لینے کے لئے تیار نہ ہو خدائے حکیم اتنا بڑا عہدہ اور منصب اس کو نہیں عطا کرتا ہے۔

٥۔ کس طرح یہ بات قابل قبول ہوسکتی ہے کہ جناب خدیجہ کی معلومات (جو کہ ایک عام فرد تھیں) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے زیادہ تھیں اور وہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خوف و اضطراب کو دیکھ کر ان کی دلجوئی اور دلداری کرتی تھیں۔

٦۔ اور سب سے زیادہ قبیح بات یہ کہ ہم حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں تصور کریں جو کہ رسالت اور لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے تھے کہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ کیا چیز آئندہ رونما ہونے والی ہے اور جبرئیل امین کو نہیں پہچانتے تھے اوراس کے پیغام کو صحیح طرح سے تشخیص نہیں دے سکتے یہاں تک کہ ایک ضعیف اور نابینا مسیحی نے ان کی رسالت کے اوپر مہر تصدیق لگائی اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کے اظہارات کے ذریعہ اپنی رسالت کے بارے میں اطمینان حاصل ہوا اور ان کے دل کو سکون و قرار ملا۔ اس بات کا بے بنیاد ہونا اتنا واضح ہے کہ کسی دلیل یا برہان کی ضرورت نہیں ہے۔

٧۔ اس خبر میں حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف جس شک و تردید کی نسبت دی گئی ہے وہ قرآن کی آیت کے مطابق نہیں ہے قرآن فرماتا ہے کہ (قلب محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) نے جس چیز کو دیکھا اس کو جھٹلایا نہیں۔(١)

طبرسی (مشہور شیعہ عالم دین اور مفسر) کہتے ہیں:

''خداوند عالم اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وحی نہیں کرتا مگر یہ کہ اس کو روشن دلیلوں کے ہمراہ کرے اور اسے اطمینان ہو جاتا ہے کہ جو کچھ اس پر وحی ہوتی ہے وہ خدا کی جانب سے ہے اور اسے کسی دوسری چیز کی ضرورت نہیں پڑتی اور اس پر خوف و اضطراب طاری نہیں ہوتا۔(٢)

______________________

(١)''ما کذب الفؤاد ما رأیٰ '' سورۂ نجم ، آیت ١١

(٢) مجمع البیان ، ج١٠، ص ٣٨٤، تفسیر آیہ ''یا ایها المدثر ...''

۱۴۹

حضرت امام صادق نے اپنے ایک صحابی کے سوال کرنے پر کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحی کے وقت، اس بات سے کیوں نہیں ڈرے کہ یہ شیطان کا وسوسہ ہوسکتا ہے؛ فرمایا: ''جس وقت خداوند عالم، اپنے کسی بندے کو رسالت کے درجہ پر فائز کرتا ہے تو اس کو ایسا اطمینان و سکون عطا کردیتا ہے کہ جو کچھ خدا کی جانب سے اس پر نازل ہو وہ اس کے لئے ویسے ہی ہو جیسے کوئی اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہو۔(١)

کتاب صحیح بخاری اور صحیح مسلم (جس میں عائشہ سے روایت نقل ہوئی ہے) کی شرح کرنے والے مشہور عالم ہونے کے باوجود، چونکہ اصل روایت کو مسلم جانتے تھے چونکہ اس کی صحیح تفسیر اور توضیح میں درماندہ اور حیران و پریشان ہوئے، ضعیف اور بے بنیاد توجیہات میں لگ گئے، جو باعث تعجب ہے۔(٢)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی بعثت کے بارے میں اس کے مشابہ چند حدیثیں، عبد اللہ بن شدّاد، عبید بن عُمیر، عبد اللہ بن عباس اور عروہ بن زبیر جیسے راویوں کے ذریعہ نقل ہوئی ہیں۔ جنکی ہم نے توضیحات پیش کی ہیں ان کے ذریعہ، ان کا جعلی ہونا واضح ہو جاتا ہے اور اس کے بیان کرنے کی ضرورت

______________________

(١) مجلسی، بحار الانوار ، ج١٨، ص ٢٦٢؛ محمد ہادی معرفت، التمہید فی علوم القرآن (مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم)، ج١، ص ٤٩.

(٢) جہاں تک ہمیں معلوم ہے کہ پہلا شخص جو اس روایت کے ضعیف اور بے اعتبار ہونے کی طرف متوجہ ہواوہ مرحوم سید عبد الحسین شرف الدین موسوی (١٢٩٠۔ ١٣٧٧ھ.ق) جبل عامل کے مایہ ناز شیعہ عالم دین تھے جنھوں نے اپنی کتاب ''الی المجمع العلمی العربی بدمشق'' اور کتاب النص و الاجتہاد، ص ٣٢٢۔ ٣١٩ میں اس روایت پر تنقید اور تجزیہ کیا ہے پھر ہمارے محققین اور علماء نے خاص طور سے دانشمند معظم جناب علی دوانی نے مذکورہ کتاب میں اس کے ذیل میں تفصیلی بحث اور تحقیق فرمائی ہے اور مسئلہ کو مکمل حل کردیا ہے اور ہم نے اس بحث میں ان کی تحقیقات سے استفادہ کیا ہے۔

شعاع وحی برفراز کوہ حرا، ص ١٠٨۔ ٧٠؛ تاریخ اسلام از آغاز تا ہجرت، ص ١١٠۔ ٩٨؛ نقشہ ائمہ در احیاء دین، ج٤، ص٤٤۔ ٦؛ الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج١، ص٢٣٢۔ ٢١٦؛ خیانت در گزارش تاریخ، ج٢، ص ٢٣۔ ١٣؛ التمہید، ج١، ص٥٦۔ ٥٢؛ درسھایی تحلیلی از تاریخ اسلام، ج٢، ص ٢٣٦۔ ١٩٦۔

۱۵۰

نہیں پڑتی۔(١) یہ غلط خبر مسیحیوں کی کتابوں میں بھی نقل ہونے لگی ہے او ران میں سے کچھ لوگوں نے اس کو زہر چھڑکنے اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف وسوسہ ڈالنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔(٢)

اس تنقید کے ذریعہ ان کی، غلط فہمی کا بے بنیاد ہونا بھی واضح اور آشکار ہو جاتا ہے۔

مخفی دعوت

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تین سال تک خاموشی سے لوگوں کو تبلیغ کی(٣) کیونکہ مکہ کے حالات ابھی ظاہری تبلیغ کے لئے ہموار نہیں ہوئے تھے۔ اس تین سال کے دوران آپ مخفی طور سے ایسے افراد سے ملے جن کے بارے میں آپ کو معلوم تھا کہ وہ اسلام قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

لہٰذا ان کو خدا کی وحدانیت اس کی عبادت اور اپنے نبوت کی طرف دعوت دی۔ اس عرصہ میں قریش آپ کے دعوے سے باخبر ہوگئے تھے۔ لہٰذا جب کہیں اپ کو راستے میں دیکھتے تھے تو کہتے تھے کہ نبی عبدالمطلب کا جوان آسمان سے باتیں کرتا ہے۔(١) لیکن چونکہ آپ عمومی جگہوں پر کلام نہیں کرتے تھے لہٰذا آپ کی دعوت کی باتوںسے کوئی باخبر نہیں تھا اور اسی بنا پر وہ لوگ کوئی عکس العمل نہیں دیکھاتے تھے۔

______________________

(١) سید مرتضیٰ عسکری، نقش عائشہ در احیائے دین، انتشارات مجمع علمی اسلامی، ج ٤، ص ١٢.

(٢) مراجعہ کریں: دائرة المعارف الاسلامیہ، ترجمہ عربی توسط محمد ثابت الفندی ( اور دوسرے افراد)، ج٣، ص ٣٩٨۔ (لفظ بحیرا)۔ مونٹگومری واٹ۔ ادینبورو یونیورسٹی کے عربی محکمہ کا چیرمین۔ ان لوگوں میں سے ہے جس نے اس سلسلہ میں زہر چھڑکا ہے اور بے بنیاد باتیں کہی ہیں ۔ وہ کہتا ہے: ''... ایک ایسے شخص کے بارے میں جس نے آٹھویں صدی عیسوی میں مکہ جیسے دور داراز شہر میں زندگی بسر کی، یہ ایمان رکھنا کہ خدا کی جانب سے وہ پیغمبری کے لئے مبعوث ہوا ہے حیرت کی بات ہے لہٰذا تعجب کی بات نہیں ہے اگر ہم یہ سنیں کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خوف اور شک لاحق ہوا تھا۔ اس سلسلے میں قرآن اور احادیث میں ایسے شواہد ملتے ہیں جو اس کی زندگی سے مربوط ہیں اور پتہ نہیں کب اسے، اطمینان حاصل ہوا کہ خدا نے اس کو فراموش نہیں کیا ہے !!۔دوسرا خوف، جنون کا خوف تھا کیونکہ اس زمانہ میں عرب عقیدہ رکھتے تھے کہ اس طرح کے افراد، روحوں یا جنات کے قبضہ میں ہیں ۔

مکہ کے کچھ لوگ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے الہامات کو ایسا بتاتے تھے اوروہ خود بھی کبھی اس تردید کا شکار ہو جاتے تھے کہ حق ان لوگوں کے ساتھ ہے یا نہیں؟!! (محمد پیامبر و سیاستمدار، ترجمہ اسماعیل والی زادہ (تہران: کتابفروشی اسلامی، ١٣٤٤)، ص ٢٧۔ ٢٦.

(٣) ابن ہاشم، سابق ، ج١، ص ٢٨٠؛ طبری، سابق ، ج٢، ص ٢١٦؛ مسعودی ، مروج الذہب، ج٢، ص ٢٧٦۔ ٢٧٥؛ بلاذری، سابق، ج١، ص ١١٦؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص١٩؛ حلبی، سابق، ج١، ص ٤٥٦؛ طوسی، الغیبہ (تہران: مکتبہ نینوی الحدیثہ)، ص٢٠٢؛ صدوق ، کمال الدین و تمام النعمة، (قم: موسسہ النشر الاسلامی، ١٣٦٣)، ج٢، ص ٣٤٤، ح ٢٩.

۱۵۱

اس عرصہ میں کچھ لوگ مسلمان ہوئے اور انھیں ابتدائی مسلمانوں میں سے ایک شخص جس کا نام ارقم تھا اس نے اپنا گھر (جو صفا پہاڑی کے کنارے تھا) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالہ کردیا حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور تمام مسلمان اسی گھر میں ؛ جو تبلیغات کا سنٹر تھا ظاہری تبلیغ کے زمانہ تک جمع ہوتے تھے اور وہیں نماز پڑھا کرتے تھے۔(٢)

پہلے مسلمان مرد اور عورت

تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ جناب خدیجہ وہ پہلی خاتون ہیں جو مسلمان ہوئیں اور مردوں میں حضرت علی ـ وہ پہلے شخص ہیں جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گرویدہ ہوئے۔(٣-٤) کیونکہ یہ بات فطری ہے کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م

نے غار حرا سے پلٹنے کے بعد اپنے آئین کو سب سے پہلے اپنی شریک حیات جناب خدیجہ اور حضرت علی جو اسی گھر کی ایک فرد اور آپ کی آغوش کے پروردہ تھے ان کے درمیان بیان کیا اور ان دونوں حضرا ت نے، جو کہ آپ کی نبوت کی نشانیوں اور صداقت و راستگوئی سے اچھی طرح واقف تھے، اس کی تصدیق کی۔

______________________

(١) تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١٩؛ ابن سعد ، الطبقات الکبریٰ ، ج١، ص ١٩٩؛ بلاذری، سابق ، ج١، ص ١١٥

(٢) حلبی، سابق، ج١، ص ٤٥٧۔ ٤٥٦.

(٣) ابن ہشام نے ابتدائی مسلمانوں کی تعداد ٨ افراد تک اس طرح سے نقل کی ہے ''علی، زید بن حارثہ، ابوبکر، عثمان بن عفان، زبیر بن عوام، عبد الرحمان بن عوف، سعد بن وقاص اور طلحہ بن عبید اللہ'' (السیرة النبویہ، ج١، ص ٢٦٩۔ ٢٦٢.)

(٤) جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ چونکہ علی بچپنے سے موحد تھے اور کبھی بت پرستی میں آلودہ نہیں ہوئے ان کے مسلمان ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ پہلے (معاذ اللہ) بت پرست تھے اور پھر اسے ترک کردیا۔ (جبکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے اصحاب کے بارے میں ایسا ہی تھا) بلکہ انھوں نے حقیقت میں دین اسلام جو کہ اسی توحید پر استوار تھا بہ عنوان دین آسمانی قبول کیا۔ زینی دحلان لکھتے ہیں'' علی ہرگز سابقہ شرک نہیں رکھتے تھے؛ کیونکہ وہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک فرزند کی طرح آنحضرت کے ہمراہ اور ان کے زیر تربیت تھے اور تمام امور میں ان کی پیروی کرتے تھے حدیث میں آیاہے کہ تین افراد نے ہرگز کفر نہیں اختیار کیا، مومن آل یاسین، علی بن ابی طالب ، آسیہ فرعون کی بیوی( السیرة النبویہ، ج١، ص ٩٢) ابن سعد علی کے بارے میں نقل کرتا ہے کہ لم یعبد الاوثان قط لصغرہ۔ (الطبقات الکبریٰ، ج٣، ص ٢١) اور ابن حجر ہیثمی مکی (٩٧٤٢ھ.ق) ابن سعد کے اس جملہ کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے: و من ثم یقال فیہ کرم اللّٰہ وجہہ۔ (الصواعق المحرقہ۔ الباب التاسع، ص ١٢٠) قبول اسلام کے وقت علی کے سن کے بارے میں مراجعہ کریں: شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید (ط مصر) ج١٣، ص ٢٣٥۔ ٢٣٤۔

۱۵۲

حضرت علی کی سبقت کی دلیلیں

جو کچھ ذکر ہو چکا ہے اس کے اعتبار سے اگر کوئی حدیث یا تاریخی سند اس مطلب کی تائید نہ بھی کرے پھر بھی اس کا ثابت کرنا اتنا مشکل نہیں ہے جبکہ بے شمار دلیلیں اور شواہد ایسے موجود ہیں جو اس موضوع کی تائید کرتے ہیں، نمونہ کے طور پر ان میں سے کچھ یہ ہیں:

١۔ حضرت علی کے پہلے اسلام قبول کرنے کو پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے بیان کیا ہے اور مسلمانوں کے ایک گروہ کے درمیان فرمایا ہے: ''تم میں سے سب سے پہلا شخص، جو روز قیامت مجھ سے حوض (کوثر) پر ملاقات کرے گا وہ علی بن ابی طالب ہوں گے جنھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے''۔(١)

______________________

(١) اولکم وروداً علی الحوض ، اولکم اسلاماً علی بن ابی طالب۔ (ابن عبد البر، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، حاشیة الاصابہ میں، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط ١، ١٣٢٨ھ)، ج٣، ص ٢٨؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٣، ص ٢٢٩؛ مراجعہ کریں: الحاکم النیشاپوری، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق: عبد الرحمن المرعشی(بیروت: دار المعرفہ، ط١، ١٤٠٦ھ)، ج٣، ص ١٧؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد (بیروت: دار الکتاب العربی)، ج٢، ص ٨١؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٤٣٢؛ بعض روایات میں اس طرح نقل ہوا ہے: اول ہذہ الامة وروداً علی الحوض اولہا اسلاماً علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ۔ (حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٣٢.)

۱۵۳

٢۔ علمائے کرام اور محدثین نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م دوشنبہ کے دن مبعوث بہ نبوت ہوئے اور علی ـ نے اس کے دوسرے دن (سہ شنبہ) آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔(١)

٣۔ حضرت علی نے خود فرمایا ہے:

اس روز اسلام، صرف پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور خدیجہ کے گھر میں داخل ہوا تھا اور میں ان میں سے تیسرا شخص تھا میں نے نور وحی اور رسالت کو دیکھا اور نبوت کی خوشبو کو محسوس کیا۔(٢)

٤۔ امیر المومنین علی ایک دوسری جگہ اسلام میں اپنی سبقت کے بارے میں اس طرح سے بیان فرماتے ہیں:

اے خدا! میں وہ پہلا شخص ہوں جو تیری طرف آیا ہوں اور تیرے پیغام کو سنا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت پر لبیک کہی ہے مجھ سے پہلے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے علاوہ کسی نے نماز نہیں پڑھی ہے۔(٣)

______________________

(١)استنبیء النبی یوم الأثنین و صلی علی یوم الثلاثائ ۔ (ابن عبد البر، گزشتہ حوالہ، ص ٣٢؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر، ١٣٩٩)، ج٢، ص ٥٧.) حاکم نیشاپوری، اس حدیث کو دو طریقہ سے ''نبیء رسول اللّٰه... '' اور ''وحی رسول اللّٰه یوم الاثنین ...'' نقل کیا ہے (گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١١٢.) بعض روایات میں اس طرح نقل ہوا ہے:استنبیء النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یوم الاثنین و اسلم علی یوم الثلاثائ ۔ (ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٩؛ جوینی خراسانی، فرائد السمطین (بیروت: مؤسسة المحمودی للطباعة و النشر، ط ١ ج١، ص ٢٤٤)۔ علی خود بھی اس بات پر تاکید کرتے تھے اور فرماتے تھے کہبعث رسول اللّٰه یوم الاثنین و اسلمت یوم الثلاثائ ۔ (سیوطی،تاریخ الخلفاء (قاہرہ: المکتبة التجاریہ الکبریٰ، ط ٣، ١٣٨٣ھ)، ص ١٦٦؛ الشیخ محمد الصبان، اسعاف الراغبین، درحاشیہ نور الابصار، ص ١٤٨؛ احمد بن حجر الھیتمی المکی، الصواعق المحرقہ (قاہرہ: ط٢، ١٣٨٥ھ ١٢٠.)

(٢)لم یجمع بیت واحد یومئذ فی الاسلام غیر رسول اللّٰه و خدیجه و انا ثالثهما، اریٰ نور الوحی و الرسالة و اشم ریح النبوة ۔ (نہج البلاغہ، تحقیق : صبحی صالح، خطبہ ١٩٢ (قاصعہ)

(٣)اللّٰهم انی اول من اناب، و سمع و اجاب، لم یسبقنی الا رسول اللّٰه بالصلاة ۔ (گزشتہ حوالہ، خطبہ ١٣١)

۱۵۴

٥۔ اور ایک جگہ آپ نے اس طرح سے فرمایا: میں خدا کا بندہ ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بھائی اور صدیق اکبر ہوں میرے بعد اس کلام کو، سوائے جھوٹے، افتراء پرداز کے کوئی نہیں کہے گا۔ میں نے سات سال کی عمر میں، لوگوں سے پہلے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔(١)

٦۔ عفیف بن قیس کندی کہتا ہے: میں دور جاہلیت میں عطر کا تاجر تھا۔ ایک تجارتی سفر کی غرض سے مکہ گیا جب مکہ میں داخل ہوا تو عباس (جو کہ مکہ کے ایک تاجر اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا تھے) کا مہمان ہوا، ایک دن میں مسجد الحرام میں عباس کے بغل میں بیٹھا ہوا تھا اور سورج نصف النہار کو پہنچ چکا تھا اس عالم میں ایک جوان مسجد میں داخل ہوا جس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا اس نے ایک نظر آسمان پر ڈالی اور پھر کعبے کی طرف رخ کر کے کھڑا ہوااور نماز پڑھنے میں مشغول ہوگیا کچھ دیر گزری تھی کہ ایک خوبصورت نوجوان آیا اور اس کے داہنی طرف کھڑا ہوگیا پھر ایک نقاب پوش خاتون آئی اور ان دونوں کے پیچھے کھڑی ہوگئی اور تینوں ایک ساتھ نماز میں مشغول ہوگئے اور رکوع و سجود بجالانے لگے۔

میں (بت پرستوں کے بیچ یہ منظر دیکھ کر کہ تین افراد آئین بت پرستی سے ہٹ کر ایک دوسرے آئین کو اپنائے ہوئے ہیں) حیرت میں پڑگیا اور عباس کی طرف رخ کر کے کہا: یہ بہت بڑا واقعہ ہے! اس نے بھی اسی جملہ کو دہرایا اور مزید کہا: کیا تم ان تینوں کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا نہیں: اس نے کہا: پہلا شخص جو دونوں سے پہلے داخل ہوا وہ میرا بھتیجا محمد بن عبد اللہ ہے اور دوسرا شخص میرا دوسرا بھتیجا علی بن ابی طالب ہے اور تیسرے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ ہیں. محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دعوا ہے کہ اس کا دین خدا کی طرف سے نازل ہوا

______________________

(١)انا عبد اللّٰه و اخو رسوله و انا الصدیق الاکبر لایقولها بعدی الا کاذب مفتر. صلیت مع رسول اللّٰه قبل الناس سبع سنین . (طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢١٢؛ ابن اثیر، کامل فی التاریخ، ج٢، ص٥٧.) اور اسی مضمون پر کتاب ''مستدرک علی الصحیحین، ج٣، ص ١١٢؛ میں جمع آوری ہوئی ہے۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج١٣، ص ٢٠٠، و ٢٢٨؛ مراجعہ کریں: مناقب علی بن ابی طالب ، ابوبکر احمد بن موسی مردویہ اصفہانی ، اور مقدمہ عبد الرزاق محمد حسین حرز الدین (قم: دار الحدیث، ط١، ١٤٢٢ھ)، ص ٤٨۔ ٤٧.

۱۵۵

ہے اور ابھی روئے زمین پر ان تینوں کے علاوہ کسی نے اس دین کی پیروی نہیں کی ہے۔(١)

اس واقعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی دعوت کے آغاز میں آپ کی زوجہ جناب خدیجہ کے علاوہ صرف حضرت علی ـ نے آپ کے آئین کو قبول کیا تھا۔

اسلام کے قبول کرنے میں پیش قدمی کرنا ایک ایسی فضیلت ہے جس پر قرآن نے تکیہ کر کے فرمایا ہے: ''جو لوگ اسلام لانے میں پیش قدم تھے خدا کی بارگاہ میں بلند درجہ رکھتے ہیں اور وہی اللہ کی بارگاہ میں مقرب ہیں''۔(٢)

دین اسلام، قبول کرنے میں سبقت کے موضوع پر قرآن کی خاص توجہ اس حد تک ہے کہ جو لوگ فتح مکہ سے قبل ایمان لائے اور خدا کی راہ میں اپنی جان اور مال سے دریغ نہیں کیا، یہ لوگ ان لوگوں سے جو فتح مکہ کے بعد ایمان لائے اور جہاد کیا، بنص قرآن ان سے افضل اور برتر ہیں۔

''اورتم میں فتح مکہ سے پہلے انفاق اور جہاد کرنے والا اس کے جیسا نہیں ہوسکتا ہے جو فتح کے بعد انفاق اور جہاد کرے۔ پہلے جہاد کرنے والے کا درجہ بہت بلند ہے اگر چہ خدا نے سب سے نیکی کا

______________________

(١) طبری ، سابق، ج٢، ص ٢١٢؛ ابن ابی الحدید، سابق، ج ١٣، ص ٢٢٦۔ ابن ابی الحدید نے اس واقعہ کو عبد اللہ بن مسعود سے بھی نقل کیا ہے: وہ مکہ کے سفر میں اس واقعہ کے گواہ تھے۔ حلبی، السیرة الحلبیہ، ج١، ص ٤٣٦۔ اسی طرح مراجعہ کریں: ابن عبد البر، الاستیعاب (الاصابہ کے حاشیہ میں) ج٣، ص ١٦٥؛ عفیف بن قیس کندی کے حالات زندگی کی تشریح میں، ص ٣٣؛ پر علی کے حالات زندگی میں تھوڑا لفظ کے اختلاف کے ساتھ؛ محمد بن اسحاق، السیر و المغازی، تحقیق: ڈاکٹر سہیل زکار، (بیروت، دار المعرفہ، ط١، ١٣٩٨ھ) ص ١٣٨۔ ١٣٧؛ ابو الفتح کراجکی، کنز الفوائد (قم: دار الذخائر، ط ١، ١٤١٠ھ)، ج١، ص ٢٦٢۔ اور اسلام قبول کرنے میں علی کی پیش قدمی کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لئے الغدیر کی طرف رجوع کریں۔ ج٢، ص ٣١٤؛ ج ٣، ص ٢٢٤۔ ٢٢٠

(٢) ''والسابقون السابقون. اولئک المقربون. '' سورۂ واقعہ، آیت ١١۔ ١٠.

۱۵۶

وعدہ کیا ہے اور وہ تمہارے جملہ اعمال سے باخبر ہے''۔(١)

مسلمانوں کے ایمان کی برتری کی وجہ فتح مکہ (جو کہ ٨ھ میں رخ پایا) سے پہلے یہ تھی کہ وہ لوگ ایسے وقت میں ایمان لائے کہ جب اسلام، جزیرة العرب میں پورے طور سے قدم نہیں جما سکا تھا اور ابھی بت پرستوں کا اڈہ ، یعنی شہر مکہ شکست ناپزیر قلعہ کے مانند باقی رہ گیا تھا اور ہر طرف سے خطرات مسلمانوں کی جان و مال کو خوف زدہ کئے ہوئے تھے. البتہ مدینہ کی طرف مسلمانوں کی ہجرت کے بعد اور دو قبیلے، اوس و خزرج اور مدینہ کے اطراف میں موجودہ قبائل کا، اسلام کی طرف رحجان پیدا ہونے سے وہاں ترقی اور کچھ امنیت پائی جانے لگی تھی اور بہت ساری لڑائیوں میں انھیں کامیابی بھی ملی۔ لیکن چونکہ خطرات ابھی پورے طور سے برطرف نہیں ہوئے تھے۔ لہٰذا ایسی صورت میں اسلام کی طرف رجحان اور جان و مال کی قربانی خاص اہمیت رکھتی تھی۔ یقینا ایسا کام، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تبلیغ کے آغاز میں جبکہ قریش کی قدرت کے علاوہ اور کوئی قدرت اور بت پرستوں کی طاقت کے علاوہ اور کوئی طاقت نہ تھی، بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

اسی وجہ سے پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے اصحاب کے درمیان اسلام میں سبقت کو ایک بہت بڑا افتخار سمجھا جاتا تھا اور اس توضیح کے ذریعہ اسلام کے سلسلہ میں حضرت علی کی سبقت کی اہمیت اور آپ کے معیار کا اچھی طرح سے اندازہ ہو جاتا ہے۔

اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنے والے گروہ

اس زمانہ کے اجتماعی گروہوں ا ور طبقوں میں سے دو طبقہ اسلام قبول کرنے میں پیش قدم تھا۔

الف: جوانوں کا طبقہ:

ابتدائی مسلمانوں کی فہرست کا تجزیہ کرنے اور دوسرے شواہد سے یہ پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر ابتدائی مسلمان جوان تھے۔ بزرگ اور سن رسیدہ افراد مخالف تھے اور بت پرستی

______________________

(١) ''لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح و قاتل اولٰئک اعظم درجة من الذین انفقوا من بعد و قاتلوا و کلًّا وعد اللّٰہ الحسنیٰ...'' (سورۂ حدید، آیت ١٠)

۱۵۷

کا رواج ان کے افکار میں رچ بس گیا تھا۔ لیکن جوان نسل کے اذہان اور افکار، جوانی کی بنا پر نئے عقائد او رافکار کو قبول کرنے کے لئے آمادہ اور تیار تھے۔

ایک تاریخی رپورٹ کی بنیاد پر پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے مخفی دعوت کے زمانہ میں جوانوں اور ضعیفوں کا ایک گروہ اسلام کا گرویدہ ہوگیا تھا۔(١)

جس وقت پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے ظاہری تبلیغ کا آغاز کیا اور آپ کی اتباع اور پیروی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا تو قریش کے سردار کئی مرتبہ ابوطالب سے شکایت کرنے کے بعد، آخری بار ان کے پاس آئے اور ان سے کہا: ہم کئی بار تمہارے پاس آچکے ہیں تاکہ تمہارے بھتیجے کے بارے میں تم سے بات کریں کہ ہمارے آباؤ و اجداد اور خداؤوں کو برا بھلا نہ کہیں اور ہمارے بچوں، جوانوں، غلاموں اور کیزوں کو ہمارے راستے سے نہ ہٹائیں...''۔(٢)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے جب طائف کا تبلیغی سفر کیا تو اس شہر کی اہم شخصیتوں نے اس ڈر سے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا کہ کہیں ان کے جوان آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیروی نہ کرنے لگیں۔(٣) مسلمانوں کے حبشہ ہجرت کرنے کے بعد جب قریش کے نمائندے مہاجرین کو پلٹانے کے لئے نجاشی کے دربار میں گئے تو درباریوں سے گفتگو کے دوران اسلام کی طرف مکہ کے جوانوں کے رحجانات کی شکایت کی۔(٤)

ایک شخص قبیلۂ ''ہذیل'' سے مکے میں آیا تو پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اسے اسلام کی طرف دعوت دی۔

______________________

(١) ابن سعد ، طبقات الکبریٰ (بیروت: دار صادر)، ج١، ص ١٩٩.

(٢)بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: محمد حمید اللہ (قاہرہ: دار المعارف، ط ٣)، ج١، ص ٢٢٩؛ مراجعہ کریں: بحار الانوار، ج١٨، ص ١٨٥

(٣)ابن سعد ، گزشتہ حوالہ، ص ٢١٢۔

(٤)ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٥٨؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ط ٣)، ص ٤٤؛ سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص (نجف: المکتبہ الحیدریہ، ١٣٨٣ھ)، ص ١٨٦۔

۱۵۸

ابوجہل نے اس ہذلی سے کہا: ''کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس کی بات کو قبول کرلو؛ اس لئے کہ وہ ہم کو بے وقوف اور ہمارے گزشتہ آبا و اجداد کو جہنمی کہتا ہے اور دوسری عجیب و غریب باتیں کرتا ہے!''

ہذلی نے کہا: تم کیوں نہیں اس کو اپنے شہر سے باہر کردیتے؟

ابو جہل نے جواب دیا: اگر وہ باہر چلا گیا اور جوانوں نے اس کی باتوں کو سن لیا اور اس کی شیرین بیانی کو دیکھ لیا تو وہ اس کے گرویدہ ہو جائیں گے اور اس کی پیروی کرنے لگیں گے اور ممکن ہے وہ ان کی مدد سے ہم پر حملہ کردے۔(١)

عتبہ: ( قریش کا ایک سردار) نے بھی اسعد بن زرارہ (جو کہ مدینہ میں قبیلۂ خزرج کے بزرگوں میں سے تھا) سے ملنے پر پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م سے جوانوں کے رحجانات اور لگاؤ کا شکوہ کیا۔(٢)

ابتدائی مسلمانوں کی فہرست کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتاہے کہ ان میں زیادہ تر افراد کی عمر، اسلام قبول کرتے وقت ٣٠ سال سے کم تھی۔ مثلاً سعد بن وقاص ١٧(٣) یا ١٩(٤) سال، زبیر بن عوام ١٥(٥) یا ١٦(٦) او رعبد الرحمن بن عوف ٣٠ سال کے تھے کیونکہ وہ ''عام الفیل'' کے دس سال بعد پیدا ہوئے تھے۔(٧) مصعب ابن عمیر بھی تقریباً ٢٥ سال کے تھے۔ کیونکہ جنگ احد ٣ھ میں شہادت کے وقت تقریباً چالیس سال کے تھے۔(٨) ارقم جن کا گھر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اختیار میں تھا وہ ٢٠ یا ٣٠

______________________

(١)بلاذری، سابق، ص١٢٨.

(٢) طبرسی ، سابق، ص ٥٦.

(٣) ابن سعد ، سابق، ج٣، ص ١٣٩.

(٤) حلبی، سیرة الحلبیہ، (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص ٤٤٦.

(٥) حلبی، سابق، ج١، ص ٤٣٤.

(٦) ابن سعد، سابق، ج٣، ص ١٠٢.

(٧) گزشتہ حوالہ، ص ١٢٤.

(٨) ابن سعد، سابق، ج٣، ص ٢٢٢.

۱۵۹

سال کے تھے کیونکہ مرتے وقت (٥٥ھ) میں وہ ٨٠ یا ٨٢ سال کے تھے۔(١)

ب: محروموں اور مظلوموں کا طبقہ:

اس گروہ کا مطلب جو اسلامی کتابوں میں ''ضعیفوں'' اور ''مستضعفین'' کے نام سے ذکر ہوا ہے۔ غلام یا آزاد شدہ افراد تھے جو اپنی آزادی کے باوجود عربوں کی رسم کے مطابق ایک طرح سے اپنے آپ کو آقاؤوں سے متعلق اور وابستہ سمجھتے تھے اور اصطلاح میں ان کو ''مولیٰ'' (آزاد شدہ) کہا جاتا تھا۔ مستضعفین کا دوسرا گروہ پردیسی اور مسافروں کا تھا جو دوسرے علاقوں سے آکر مکہ میں بس گئے تھے اور چونکہ وہاں کے کسی قبیلہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا لہٰذا وہ مجبوری کے تحت اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے کسی ایک طاقت ور قبیلہ کی پناہ میں رہتے تھے لیکن پھر بھی قریش کے لوگوں کے مساوی حقوق سے محروم تھے اور اجتماعی لحاظ سے انھیں ایک پست اور حقیر طبقہ سمجھا جاتا تھا۔

مکہ میں اس گروہ کا کوئی قبیلہ یا خاندان نہیں تھا اور نہ ہی اس کے پاس کوئی قدرت و طاقت تھی(٢) لیکن اسلام قبول کرنے میں سب سے آگے تھے لہٰذا ان کا مسلمان ہو جانا مشرکوں پر بہت ہی تلخ اور گراں گزرا اور انھیں مسلمانوں کی تحقیر کا مناسب بہانہ مل گیا۔

ایک روایت کی بنا پر جب پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م مسجد الحرام میں تشریف فرما ہوتے تھے تو آپ کے ضعیف پیرو، جیسے عمار یاسر، خباب بن الارت، صُہَیب بن سنان، بلال بن رَباح، ابوفَکیَہ اور عامر بن فُہَیر، آپ کے پہلو میں بیٹھتے تھے تو قریش ان کا مذاق اڑاتے تھے اور طعنہ دے کر ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ دیکھو اس کے ہم نشین ایسے لوگ ہیں۔ خدا نے ہم سب لوگوں کے درمیان میںسے فقط ان

______________________

(١) ابن سعد، سابق، ج٣، ص ٢٤٤۔ عبد المتعال مصری نے ایک کتاب ''شباب قریش فی بدء الاسلام'' کے نام سے تالیف کی ہے اورقریش کے جن چالیس جوان افراد نے دعوت اسلام کو قبول کیا تھا ان کو ترتیب کے ساتھ ذکر کیا ہے اور انھیں سنّی بتایا ہے ، جن میں سب سے اول حضرت علی ہیں۔ ص ٣٤۔ ٣٣.

(٢)بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٥٦اور ١٨١؛ رجوع کریں: طبقات الکبریٰ، ج٣، ص ٢٤٨۔

۱۶۰