تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 157883
ڈاؤنلوڈ: 4715

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157883 / ڈاؤنلوڈ: 4715
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

٣۔ زینب بنت جحش:

زینب، رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پھوپھی کی لڑکی تھیں اور اس سے قبل (پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منھ بولے بیٹے) زید بن حارثہ کی زوجہ تھیں۔(١) اور زید سے جدائی کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عقد میں آگئیں۔

زید پہلے حضرت خدیجہ کے غلام تھے انھوں نے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ شادی کرنے کے بعد زید کو اپنے شوہر حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالے کردیا۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بعثت سے قبل اس کو آزاد کردیا اور پھر اپنا منھ بولا بیٹا قرار دیا۔ اس دن سے اس کو ''زید بن محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' کہا جانے لگا۔(٢)

بعثت کے بعد خداوند عالم نے منھ بولے بیٹے کی رسم کو باطل اور بے اعتبار قرار دیا۔

''اللہ نے نہ تمہاری منھ بولی اولاد کواولاد قرارنہیں دیا یہ سب تمہاری زبانی باتیں ہیں اور اللہ تو صرف حق کی بات کہتا ہے اور سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے''۔

ان بچوں کوان کے باپ کے نام سے پکارو کہ یہی خدا کی نظر میں انصاف سے قریب تر ہے اور اگر ان کے باپ کو نہیں جانتے ہو تو یہ دین میں تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور تمہارے لئے اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے جو تم سے غلطی ہوگئی ہے۔ البتہ تم اس بات کے ضرور ذمہ دار ہو جو تمہارے دلوں نے قصداً انجام دیاہے اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔(٣)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان آیات کے نزول کے بعد زید سے فرمایا: تم زید بن حارثہ ہو اور اس دن سے وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا آزاد کردہ (مولیٰ رسول اللہ) کہا جانے لگا۔(٤)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے زینب کی شادی کرنا چاہی۔ زینب جو کہ عبد المطلب کی نواسی اور جن کا تعلق قریش کے مشہور قبیلہ سے تھا پہلے راضی نہیں ہوئیں کیونکہ زید نہ صرف قریش سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ ایک آزاد

______________________

(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٨، ص ١٠١؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، ج٢، ص ٢٢٦؛ ابن حجر ، الاصابہ، ج٤، ص ٥٦٤.

(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٢٤؛ ابن حجر ، گزشتہ حوالہ، ص ٥٦٣.

(٣)سورۂ احزاب، آیت ٤، ٥.

(٤) آلوسی، تفسیر روح المعانی، (بیروت: دار احیاء التراث العربی)، ج٢١، ص ١٤٧.

۲۰۱

شدہ غلام تھے لیکن چونکہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اس کی شادی کے بارے میں زیادہ تاکید فرمائی لہٰذا زینب راضی ہوگئیں یہ شادی نسلی اور طبقاتی امتیازات کے خاتمہ کا ایک نمونہ تھی اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصرار کا راز بھی یہی تھا۔

طرفین میں بدسلوکی اور بدخلقی کی وجہ سے کچھ دن میں اس جوڑے کی مشترک زندگی کی بنیادیں ہلنے لگیں اور جدائی کے قریب پہنچ گئیں۔ چند مرتبہ زید نے چاہا کہ اس کو طلاق دیدیں لیکن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے مصالحت کرنے کے لئے کہا اور فرمایا: اپنی زوجہ کو رکھو!۔(١)

آخر کار زید نے اس کو طلاق دیدی، جدائی کے بعد پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م خدا کی طرف سے مامور ہوئے کہ زینب کے ساتھ شادی کریں تاکہ منھ بولے بیٹے کی مطلقہ کے ساتھ شادی کرنا مسلمانوں کے لئے دشوار نہ ہواور غلط رسم و رواج جو کہ زمانہ ٔ جاہلیت سے لوگوں کے درمیان رائج تھا۔ عملی طور سے اسے ختم کردیں۔ کیونکہ عرب منھ بولے بیٹے کو ہر لحاظ سے اپنا واقعی بیٹا سمجھتے تھے۔ لہٰذا اس کی زوجہ کے ساتھ شادی کرنا جائز نہیں جانتے تھے قرآن مجید نے اس شادی کے مقصد اور سبب کواس طرح سے بیان کیا ہے:

''او راس وقت کو یاد کرو جب تم اس شخص سے جس پر خدا نے بھی نعمت نازل کی اور تم نے بھی احسان کیا یہ کہہ رہے تھے کہ اپنی زوجہ کو روک کر رکھو، اور اللہ سے ڈرو اورتم اپنے دل میں اس بات کو چھپائے ہوئے تھے جسے خدا ظاہر کرنے والا تھا(٢) اور تمھیں لوگوںکے طعنوں کا خوف تھا حالانکہ خدا زیادہ حقدا رہے کہ اس سے ڈرا جائے اس کے بعد جب زید نے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے

______________________

(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٨، ص ١٠٣.

(٢) مفسروں کے عقیدہ کے مطابق جو کچھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دل میں تھا وہ یہ تھا کہ خداوند عالم نے ان کو باخبر کردیا تھا کہ زید اپنی زوجہ کو طلاق دے گا اور وہ اس کے ساتھ شادی کریں گے تاکہ اس جاہلانہ رسم کوتوڑیں لیکن پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے لوگوںکے ڈر سے اس کا اظہار نہیں کیا۔ یہ مطلب چوتھے امام سے نقل ہوا ہے (آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٢، ص ٢٤؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٨، ص ٣٦٠.)

۲۰۲

اس عورت کا عقد تم سے کردیا تاکہ مومنین کے لئے منھ بولے بیٹوںکی بیویوں سے عقد کرنے میں کوئی حرج نہ رہے جب وہ لوگ اپنی ضرورت پوری کرچکیں اور اللہ کا حکم بہرحال نافذ ہو کر رہتا ہے''۔(١)

منافقوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تہمت اور بدگوئی کے لئے اس شادی کو دلیل اور بہانہ بنایا کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے لڑکے کی زوجہ (بہو) کے ساتھ شادی کی ہے۔(٢)

خداوند عالم ان کے جواب میں فرماتا ہے:

''محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں اور اللہ ہر شی کو خوب جاننے والا ہے''۔(٣)

بعض مسیحی مورخین نے اس شادی کوایک عشقیہ داستان کی صورت میں پیش کیاہے اور اس کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے۔(٤)

______________________

(١) سورۂ احزاب، آیت ٣٧.

(٢) ابن اثیر ، گزشتہ حوالہ، ج٧، ص ٤٩٤؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٨، ص ٣٣٨؛ قسطلانی ، المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ، تحقیق: صالح احمد الشامی، (بیروت: المکتب السلامی ط١، ١٤١٢ھ)، ج٢، ص ٨٧.

(٣) سورۂ احزاب، آیت ٤٠.

(٤) دائرة المعارف الاسلامیہ، عربی ترجمہ احمد السنتناوی (اور اس کے معاونین) ، ج١١، ص ٢٩، کلمۂ زینب؛ محمد حسین ھیکل، حیات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ص ٣٢٣۔ ٣١٦۔ مغربی مورخین کے کہنے کے مطابق پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م ایک دن زید کے گھر گئے اور وہاں اچانک ان کی نظر زینب پر پڑی اور وہ اس کے حسن و خوبصورتی کے عاشق ہوگئے جب زید کو اس بات کی خبر لگی تو اس نے زینب کو طلاق دیدی! اور...جبکہ زینب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رشتہ داروں میں سے تھی اور حجاب اس زمانہ میں معمول نہیں تھا اور وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے کوئی نئی فرد نہیں تھیں۔ عام طور سے ایک خاندان کے لوگ ایک دوسرے سے آگاہ رہتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد دہانی کرانی چاہئے کہ اس طرح کے کچھ واقعات جو مغربی مورخین کے سوء استفادہ کا باعث بنے ہیں وہ غیر معتبر اور بے بنیاد روایتوں سے ماخوذ ہیںجو بعض تاریخ اسلام (جیسے تاریخ طبری ، ج٢، ص ٤٢، طبقات الکبریٰ، ج ٨، ص ١٠١)، میں نقل ہوئے ہیں اور دوسرے مؤلفین نے بھی بغیر توجہ کے ان سے نقل کیا ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ قرآن نے بھی اس واقعہ کو وضاحت کے ساتھ دوسرے انداز میں بیان کیا ہے اور علمائے اسلام نے بھی ان روایات کو غیر قابل قبول قرار دیا ہے ان میں سے سید مرتضی علم الہدی، شیعوں کے نامور عالم دین (م: ٤٣٦ھ)، نے اس روایت کو ''روایت خبیثہ'' کہا ہے۔ (تنزیہ الانبیائ، ص ١١٤) اور آلوسی بغدادی نے اس کو واقعہ نگاروںکی ناقابل قبول بات کہی اور شارح مواقف سے نقل ہوا ہے اس نے کہا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس ناروا نسبت سے مبرا سمجھنا چاہئے (روح المعانی، ج٢٢، ص ٢٥۔ ٢٤)

۲۰۳

لیکن ان کا یہ دعوا، پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی نبوت اور عصمت کی شان کے مطابق نہیں ہے اور اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ مسئلہ کچھ اور تھا جو تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے اور قرآن نے بھی اس کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی ازواج میں سے ان چند کا تذکرہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے متعدد ازواج کے ہونے کے مقصد کو واضح کردیتا ہے اور بقیہ کے حالات بھی تقریباً انھیں کے مثل ہیں لہٰذا ان کے تذکرہ کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے۔

قرآن کی جاذبیت

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے میں بہت کم اپنی طرف سے کچھ کہتے تھے. ان کی دعوت کا بہترین وسیلہ قرآن کی آیات ہوا کرتی تھیں جو عربوں کی سماعتوں کو سحر انگیز کشش میں بدل دیتی تھیں۔

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن ہے جو فصاحت و بلاغت، الفاظ و کلمات، جملوں کی ترکیب، انتخاب الفاظ اور آیات قرآن کی ایک خاص صدا کے لحاظ سے معجزہ ہے جس میں بے انتہا زیبائی ،دلکشی اور جذابیت پائی جاتی ہے کہ جس کا مثل پیش کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔ اسی وجہ سے قرآن مجید ''چیلنج'' کرتا ہے اور منکروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ اگر تمھیں ا س میں کوئی شک ہے تو اس کے ایک سورہ کا جواب لے آؤ۔(١)

حجاز کے عرب، شاعر اور شعر شناس تھے، قرآن کی آیات کی فصاحت و بلاغت اور زیبائی کودیکھ کر وہ اس کے شیدائی اوراس میں مجذوب ہوجاتے تھے۔ وحی کے کلمات ، ان کی سماعتوں میں دلکش نغموں اور دلنشین صداؤوں سے زیادہ، لذت بخش محسوس ہوتے تھے اور کبھی تو شدت تاثیر سے قرآن کی

______________________

(١)سورۂ بقرہ، آیت ٢٣۔

۲۰۴

آیات ان کے وجود کی تہوں تک اس قدر نفوذ کرجاتی تھیں کہ کافی دیر تک اپنی جگہ پر لذت و کشش میں غرق کھڑے رہتے تھے!۔

ایک شب قریش کے کچھ سردار جیسے ابوسفیان اورابوجہل ایک دوسرے سے بے خبر حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر کے اطراف میں چھپ گئے اور صبح تک قرآن کی آیات کو سنتے رہے جو آپ نماز شب میں تلاوت فرماتے تھے اور صبح سویرے پلٹتے وقت جب ایک نے دوسرے کو دیکھا تو ایک دوسرے کی ملامت کرنے لگے اور کہا: پھر ایسی حرکت نہیں کریں گے کیونکہ اگر احمقوں نے ہمیں دیکھ لیا تو ہمارے بارے میں کچھ اور سوچیں گے (سوچیں گے کہ ہم مسلمان ہوگئے) لیکن اس کے باوجود یہ حرکت کئی دوسری راتوں میں پھر انجام دی اور ہر مرتبہ یہ طے کرتے تھے کہ دوبارہ اس طرح کی بے احتیاطیاں نہیں کریں گے۔(١)

جادوگری کا الزام

حج کا موسم پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تبلیغ او ردعوت کے لئے مناسب موقع ہوا کرتا تھا کیونکہ عرب کے مختلف قبیلوں کے لوگ اعمال حج بجالانے کے لئے مکہ میں آیا کرتے تھے ،لہٰذا اس موقع پر حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے صدائے توحید کو جزیرة العرب کے تمام رہنے والوں تک پہنچانا آسان کام تھا۔ لہٰذا اس لحاظ سے حج کا موسم سرداران قریش کے لئے خطرناک بن گیا تھا اور وہ اس سے خوف زدہ رہتے تھے لہٰذا موسم حج کے شروع ہوتے ہی بزرگان قریش کا ایک گروہ، ولید بن مغیرہ (جوکہ ایک سن رسیدہ شخص اور قبیلہ بنی مخزوم کا سردار تھا) کے پاس جمع ہوا ،اس نے کہا کہ حج کا موسم آگیا ہے لوگ ہر طرف سے تمہارے شہر میں آرہے ہیں اور انھوں نے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں سن رکھا ہے۔ لہٰذا تم سب اس کے بارے میں ایک

______________________

(١) ابن ہشام، الشیرة النبویہ، ج١، ص ٣٣٧.

۲۰۵

ہی بات کہو، مختلف باتیں کہہ کر ایک دوسرے کو جھٹلاؤ نہیں۔

ان لوگوں نے کہا: جو کچھ تم کہو وہی ہم بھی کہیں گے۔

اس نے کہا: تم لوگ کہو، میں سنتا ہوں۔

ہم اسے کاہن کہیں گے۔

نہیں، خدا کی قسم وہ کاہن نہیں ہے ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے وہ نہ کاہنوں کی طرح پڑھتا ہے اور نہ مسجع کلام کرتا ہے۔

ہم اسے دیوانہ کہیں گے۔

نہیں وہ دیوانہ بھی نہیں ہے۔ ہم نے دیوانگی کودیکھا ہے اور اس کے آثار کو بھی جانتے ہیں نہ اس کا جسم غیر ارادی طور پر لرزتا ہے اور نہ ہی دیو اس میں وسوسہ کرتا ہے۔

ہم اسے شاعر کہیں!

شاعر بھی نہیں ہے۔ ہم شعر کی قسموں کو پہچانتے ہیں جو وہ کہتاہے وہ شعر نہیں ہے۔

ہم اسے ساحر اور جادوگر کہیں۔

نہیں وہ ساحر بھی نہیں ہے۔ ہم نے ساحروں کے سحر کو دیکھا ہے کہ کس طرح وہ رسیوں کو پھونکتے اور ان کو گرہ لگاتے ہیں۔! اس کا کام سحر نہیں ہے۔

پھر ہم اسے کیا کہیں؟

خدا کی قسم اس کا کلام شیرین اور دلنشین ہے اور اس کا درخت شاداب اور اس کی ٹہنیاں پرثمر ہیں اس طرح کی جتنی باتیں اس کے بارے میں کہوگے، اس کا غلط ہونا واضح ہو جائے گا۔ لہٰذا تمام چیزوں سے بہتر ہے کہ ہم اسے جادوگر کہیں ۔ کیونکہ وہ اپنے سحر آمیز کلمات کے ذریعہ باپ بیٹے، بھائی بھائی ، عورت مرد اور ایک قبیلہ کے افراد میں جدائی ڈال دیتا ہے۔!

۲۰۶

لہٰذا قریش کے سردار، اس ارادہ سے متفرق ہوگئے اوراس دن سے حاجیوں کے راستے میں بیٹھتے تھے اور ان کو ہوشیار کرتے تھے کہ رسو لخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات نہ کریں۔(١)

قریش کی اعلی کمیٹی نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جس کلام کو ''جادو'' کہا وہ قرآن مجید کی دلنشین آیات تھیں کہ جس کو سننے کے بعد ہر شخص متاثر ہو جاتا تھا اور اس کو قرآن کا گرویدہ اور عاشق بنا دیتا تھا۔قرآن کی آیات سننے پر پابندی ا س حد تک لگائی کہ قریش کے سردار، بڑی شخصیتوں سے جیسے اسعد بن زرارہ جو کہ مدینہ سے مکہ آیا ہوا تھا اس سے جاکر کہا کہ طواف کے وقت اپنے کان میں روئی لگالیں تاکہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سحر کے خطرہ سے محفوظ رہیں!!(٢)

طائف کا تبلیغی سفر

طائف مکہ سے ١٢ فرسخ (تقریباً ٧٢ کلومیٹر) کے فاصلہ پر واقع ہے یہ علاقہ اور یہاں کی آب و ہوا بہترین اور موسم خوش گوار ہے ۔ اس زمانہ میں طائف کے باغوں کے انگور مشہور تھے۔(٣)

قریش کے بعض ثروتمندوں کے باغ اور زمینیں وہاں تھیں۔ خود طائف کے لوگ بھی دولت مند تھے اور رباخوری میں مشہور تھے اور طائف میں اس وقت ایک قدرت مند قبیلہ ''ثقیف'' رہا کرتا تھا۔

جناب خدیجہ اور جناب ابوطالب کی رحلت کے بعد قریش کی جانب سے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر دباؤ اور اذیتیں بڑھ گئیں اورمکہ میں تبلیغی کام دشوار ہوگیااور دوسری طرف سے یہ بھی ضروری تھا کہ لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے کا کام نہ رکے، لہٰذا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارادہ کیا کہ طائف جائیں اور وہاں کے لوگوں کواسلام کی طرف دعوت دیں، شاید وہاں پر ان کا کوئی ناصر و مددگار پیدا ہوجائے اس سفر میں

______________________

(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٨٩۔ ٢٨٨.

(٢) طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٥٦.

(٣) یاقوت حموی، معجم البلدان، ج ٤، ص٩.

۲۰۷

زید ابن حارثہ(١) اور حضرت علی(٢) آپ کے ساتھ تھے۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے طائف میں قبیلۂ ثقیب کے تین افراد سے، جن میں ایک کی زوجہ، قبیلۂ قریش ''خاندان بنی جمح''(٣) سے تھی ملاقات کی اور ان کو اسلام کی طرف دعوت دی اور ان سے مدد چاہی۔ لیکن انھوں نے آپ کی بات قبول نہیں کی اور آپ کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آئے۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے درخواست کی کہ وہ اس بات کو چھپالیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ چیز مکہ تک پہنچ جائے اور قریش کی دشمنیاں اور گستاخیاں ہم سے زیادہ نہ بڑھ جائیں۔ لیکن ان لوگوں نے کوئی توجہ نہیں دی۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دوسرے بزرگان طائف کے پاس بھی گئے لیکن ان لوگوں نے بھی آپ کی بات قبول نہیں کی اور اپنے جوانوں کے بارے میں ڈرے کہ کہیں وہ نئے دین کے گرویدہ نہ ہوجائیں۔(٤)

طائف کے بزرگوں نے، اوباشوں کمینوں پست لوگوں اور غلاموں کو ورغلایا اور ان لوگوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہلّڑ، ہنگامہ اور گالم گلوج کرتے ہوئے پیچھا کیا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر پتھر برسائے جس سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دونوں پیر اور زید کا سر زخمی ہوگیا۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک انگور کے باغ میں جو عتبہ اور شیبہ (قریش کے سرمایہ دار) کا تھا وہاں چلے گئے اور ایک

______________________

(١) طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٢، ص ٢٣٠؛ بلاذری، انساب الاشراف۔ تحقیق: محمد حمید اللہ (قاہرہ: دار المعارف)، ج١، ص ٢٣٧.

(٢) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمدابوالفضل ابراہیم، (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦١ئ)، ج١٤، ص٩٧و ج٤، ص ١٢٨۔ ١٢٧؛ مدائنی کی نقل کے مطابق۔

(٣) طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٠؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٦٠.

(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢١٢.

۲۰۸

انگور کے درخت کے سایہ میں پناہ لی اور وہاں بیٹھ کر خدا سے مناجات کی۔

عتبہ اور شیبہ جوانگور کے باغ کے اندر سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تعاقب اور اذیت کا منظر دیکھ رہے تھے ان کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حالت زار پر ترس آیا۔ لہٰذا کچھ انگور اپنے مسیحی غلام ''عدّاس'' (جوکہ نینوا کا رہنے والا تھا) کے ذریعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس بھیجا۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو نوش فرماتے وقت ''بسم اللہ'' کہی یہ دیکھ کر ''عداس'' کے اندر تحقیق و جستجو کا جذبہ بھڑک اٹھا۔اور پھر اس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مختصر گفتگو کے بعد کہ جس میں آپ نے اپنی رسالت کا تذکرہ کیا۔ آپ کے قدموں پر گر پڑا اور آپ کے ہاتھ پیر اور سرکا بوسہ لینے لگا(١) اور مسلمان ہوگیا۔(٢)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م دس دن طائف میں(٣) رہنے کے بعد ثقیف کی عدم حمایت اور ان کے اسلام نہ قبول کرنے پر مایوس ہوکر دوبارہ مکہ واپس آگئے۔

کیا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی سے پناہ مانگی؟

کہا جاتا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکہ میں دوبارہ پلٹنے کے بعد مطعم بن عدی سے پناہ مانگی اور اس کی پناہ میں مکہ میں داخل ہوئے لیکن اس سلسلے میں جو قرائن اور شواہد ملتے ہیں ان کودیکھنے کے بعد یہ بات بالکل بعید نظر آتی ہے. ان میں سے کچھ شواہد یہ ہیں:

١۔ یہ بات کس طرح سے قبول کی جاسکتی ہے کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے دس سال تبلیغ و دعوت اور بت

______________________

(١) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٣٠؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٦٢.

(٢)ابن واضح ، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٣٠.

(٣) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٢؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٤، ص ٩١؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ٢٢؛ طائف میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قیام کی مدت اس سے بھی زیادہ لکھی گئی ہے۔

۲۰۹

پرستوں سے مقابلہ کرنے کے بعد، پناہندگی کی ذلت و خواری کو قبول کیا ہو؟ جبکہ اپنی ساری عمر میں کسی کے احسان مند نہیں ہوئے۔

٢۔ اگر چہ جناب ابوطالب، اس وقت دنیا سے رحلت فرماگئے تھے لیکن بقیہ بنی ہاشم وہاں موجود تھے او ران کے درمیان بہادر افراد جیسے جناب حمزہ موجود تھے جن سے قریش کو ڈر تھا کہ کہیں وہ انتقام نہ لیں جیسا کہ شب ہجرت کے واقعہ میں بھی سردار ان قریش نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل کی سازش میں بنی ہاشم کے خون خواہی او ر انتقام کے خوف سے چند قبیلوں کو اپنے ساتھ کرلیا تھا۔

٣۔ بعض تاریخی کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ زید آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ تھے اور بعض مورخین کی نقل کے مطابق حضرت علی بھی آپ کے ہمراہ تھے (اصولی طور پر یہ بعید ہے کہ حضرت علی ایسے سفر میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ نہ رہے ہوں) لہٰذا تین افراد کا ایک گروہ موجودتھا جو اپنا دفاع کرسکتا تھا۔ لہٰذا پناہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

٤۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م عرب کے بہادروں میں سے تھے لہٰذا ان کوایک کمزور اور ضعیف انسان نہیں سمجھنا چاہئے کہ جو بھی چاہے انھیں ضرر پہنچا دے۔ جیسا کہ حضرت علی نے میدان جنگ میں ان کی شجاعت کی تعریف ا س طرح کی ہے:

''جس وقت جنگ کی آگ شدید شعلہ ور ہوتی تھی تو ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پناہ مانگتے تھے اور اس وقت ہم میں سے کوئی بھی ان سے زیادہ دشمن سے نزدیک نہیں ہوتا تھا''۔(١)

٥۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے قبیلہ جاتی نظام سے جو کہ بہت ساری مشکلات اور پریشانیوںکی جڑ تھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،پناہندگی کی رسم جو کہ قبیلہ جاتی نظام کا ایک حصہ تھی اس کا سہارا لیتے اور اس کی تائید فرماتے ۔

______________________

(١) کنا اذا احمر البأس اتقینا برسول اللّٰہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فلم یکن احد منا اقرب الی العدو منہ (نہج البلاغہ، تحقیق: صبحی صالح، ص٥٣٠؛ غریب کلامہ، نمبر ٩٠).

۲۱۰

٦۔ بلاذری(١) اور ابن سعد(٢) کی خبر میں بیان ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طائف کی طرف سفر شوال کے آخری دنوں میں ہوا تھا اگر اس خبر کو صحیح مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طائف میں قیام اور پھر مکہ واپسی، حرام مہینے میں ہوئی تھی اور حرام مہینوں میں عام طور سے لڑائی جھگڑا اور خون ریزی بند ہو جاتی تھی اسی بنا پر آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا تاکہ پناھندگی کا مسئلہ پیداہوتا۔

ان قرائن کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم طائف سے واپس ہونے کے بعد (کہتے ہیں کہ ایک شب آپ نے ''نخلہ''(٣) میں قیام کیا اور وہاں جنّات کے ایک گروہ نے، قرآن کی آیات کو سنا)،(٤) وادی نخلہ کے راستے سے مکہ آگئے۔(٥)

عرب قبائل کو اسلام کی دعوت

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے مکہ اور اس کے اطراف میں رہنے والے قبائل عرب کو اسلام کی طرف دعوت دی جیسا کہ آپ کِندَہ، کَلب، بَنی حنیفہ اور بنی عامر بن صعصعہ ، قبیلے کے پاس تشریف لے گئے او ران کو اسلام کی طرف دعوت دی۔ ابولہب بھی آپ کے پیچھے گیا اور لوگوں کو آپ کی پیروی کرنے سے منع کیا۔(٦)

______________________

(١) انساب الاشراف، ج١، ص ٢٣٧.

(٢) طبقات الکبریٰ، ج١، ص ٢١٠.

(٣) طائف اور مکہ کے درمیان ایک محلہ ہے جس کی دوری ایک رات میں طے ہوتی ہے۔ (السیرة النبویہ، ج٢، ص ٦٣)

(٤)طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣١؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٦٣.

(٥) مراجعہ کریں: الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج٢، ص ١٦٨۔ ١٦٧.

(٦) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٦۔ ٦٥؛ طبری ، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث) ، ج٢، ص ٢٣٣؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٢٣٨۔ ٢٣٧؛ ابن اسحاق، السیر و المغازی، تحقیق: سہیل زکار، ص ٢٣٢؛ نیز قبائل: بنی فزارہ ،غسان، بنی مرہ، بنی سلیم، بنی عبس، بنی حارث، بنی عذرہ، حضارمہ، بنی نضر اور بنی بکاء میں سے ہر ایک کودعوت دی لیکن کسی نے قبول نہیں کیا۔ (ابن سعد، طبقات الکبریٰ)، (بیروت: دار صادر، ج١، ص ٢١٧۔ ٢١٦)

۲۱۱

جس وقت پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے بنی عامر سے گفتگو کی، ان کے بزرگوں میں سے ایک شخص جس کا نام بحیرہ بن فراس تھا ، اس نے کہا: ''اگر ہم آپ کی بیعت کریں اور دعوت کو قبول کریں او رخدا آپ کو آپ کے دشمنوں پر کامیاب کرے تو کیا آپ وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کا جانشین ہم میں سے ہوگا؟''

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''یہ کام خدا سے مربوط ہے وہ ا س امر کو جہاں چاہے گا وہاں قرار دے گا''(١)

اس نے تعجب اور انکار کے عالم میں جواب دیا: ہم آپ کی راہ میں قبائل عرب سے مقابلہ کریں اورآپ سینہ سپر بنیں اور جب خدا آپ کو کامیاب کردے تو مسئلہ دوسرے کے ہاتھ میں چلا جائے؟ہم کو آپ کے دین کی ضرورت نہیں ہے۔(٢)

منقول ہے کہ ایسی پیش کش قبیلۂ کندہ کی طرف سے بھی ہوئی اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جواب بھی وہی تھا۔(٣)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ جواب اور رد عمل دو اعتبار سے قابل توجہ ہے:

اول: یہ کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا تاکید فرماناکہ ان کی جانشینی کا مسئلہ خدا سے مربوط ہے، خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانشینی کے انتصابی ہونے پر گواہ ہے یعنی یہ منصب ایک الٰہی منصب ہے اور اس سلسلے میں انتخاب، خدا کی طرف سے انجام پاتا ہے نہ لوگوں کی طرف سے۔

دوسرا: سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے انسانی حکمرانوں کے برخلاف جو کہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہر طرح کی چال چلتے تھے اور اس کی توجیہ و تاویل کرتے تھے ، امر تبلیغ میں غیر

______________________

(١) الأمر للہ {الی اللّٰہ} یضعہ حیث یشائ۔

(٢) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٦؛ حلبی ، السیرة الحلبیہ، (بیروت: دار المعرفہ)، ج٢، ص ١٥٤؛ ذینی دحلان، السیرة النبویہ والآثار المحمدیہ، (بیروت: دار المعرفہ، ط٢)، ج١، ص ١٤٧؛ سید جعفر مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی، ج ٢، ص ١٧٦۔ ١٧٥

(٣) ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، (بیروت: مکتبہ المعارف، ط ١، ١٩٦٦.)، ج٣، ص ١٤٠

۲۱۲

اخلاقی روش اختیار نہیں کی ۔ جبکہ اس زمانہ میں ایک بہت بڑے قبیلہ کا مسلمان ہو جانا بہت اہمیت رکھتا تھا لیکن (اس کے باوجود بھی آپ تیار نہیں ہوئے کہ لوگوں سے ایسے وعدے کریں جس کا پورا کرنا آپ کے بس سے باہر ہو)۔

بہر حال حج و عمرہ کے موسم میں، اور حرام مہینوں کے احترام میں، امنیت پیدا ہوئی اور بہت سے گروہ مختلف علاقوںسے مکہ اور منی یا مکہ کے اطراف میں لگنے والی بازاروں جیسے موسمی بازار عکاظ، مجنّہ اورذی المجاز میں جاتے تھے(١) اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں پر اپنے تبلیغی مشن کو جاری رکھتے اور اس کو اور توسیع دیتے تھے ۔

آپ بزرگان قبائل کے پاس جاتے تھے اور ان کو تبلیغ کرتے اور اگر مکہ کے مسافر اور زائر خود مسلمان نہیں ہوتے تھے تو کم از کم آپ کے بعثت کی خبر اپنے علاقہ میں پھیلاتے تھے اور یہ کام آپ کی کامیابی کی راہ میں ایک قدم تھا۔

______________________

(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٦.

۲۱۳

چوتھا حصہ

ہجرت سے عالمی تبلیغ تک

پہلی فصل: مدینہ کی طرف ہجرت

دوسری فصل: مدینہ میں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے بنیادی اقدامات

تیسری فصل: یہودیوں کی سازشیں

چوتھی فصل: اسلامی فوج کی تشکیل

۲۱۴

پہلی فصل

مدینہ کی طرف ہجرت

مدینہ میں اسلام کے نفوذ کا ماحول

وادی القریٰ ایک بڑا درّہ ہے جہاں سے، یمن کے تاجروں کا شام جانے کا راستہ مکہ کے اطراف سے ہوتا ہوا گزرتا ہے اس درّے کی لمبائی شمال سے جنوب تک ہے اور اس میں چند ایسی زمینیں بھی تھیں جو آب و گیاہ سے مالا مال اور کھیتی باڑی کے لائق تھیں ۔(١) اور وہاں سے قافلے گزرتے وقت اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ مکہ کے شمال میں ٥٠٠ کلومیٹر کے فاصلہ پر انھیں زمینوں میں سے ایک زمین میں قدیمی شہر ''مدینہ'' پڑتاتھا جو ہجرت رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا کے بعد ''مدینة الرسول'' اور پھر ''مدینہ'' کہا جانے لگا۔

اس شہر کے لوگوں کا پیشہ اہل مکہ کے برخلاف کھیتی باڑی اور باغبانی تھا۔ مدینہ کے اجتماعی حالات اور آبادی کا تناسب بھی مکہ سے بالکل الگ تھا۔ اس شہر میں یہودیوں کے تین بڑے قبیلے ''بنی نضیر''، ''بنی قینقاع'' اور ''بنی قریظہ'' رہتے تھے۔ دو مشہور قبیلہ ''اوس اور خزرج'' بھی جن کی اصالت یمنی (قحطانی) تھی مأرب بند ٹوٹنے کے بعد(٢) جنوب سے ہجرت کر کے اس شہر میں یہودیوں کے بغل

______________________

(١) یاقوت حموی ، معجم البلدان، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ١٣٩٩ھ) ج٤ ، ص ٣٣٨.

( ۲) وہی مصنف، ج٥، ص ٣٦، مأرب بند ٹوٹنے کا تذکرہ ہم اس کتاب کے پہلے حصہ میں کرچکے ہیں.

۲۱۵

میں آکر رہنے لگے تھے۔

جس زمانے میں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م مکہ میں تبلیغ الٰہی میں سرگرم تھے مدینہ میں ایسے واقعات رونما ہو رہے تھے جن سے ہجرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ماحول ہموار ہو رہا تھا اور پھر یہ شہر اسلام کے پیغام اور تبلیغی مرکز میں تبدیل ہوگیا ان واقعات میں سے چند یہ ہیں۔

١۔ یہودیوں کے پاس شہر کے اطراف میں زرخیز زمینیں تھیں اور ان میں انھوں نے کھجور کے باغات لگا رکھے تھے جن سے ان کی مالی حالت اچھی ہوگئی تھی(١) کبھی کبھار ان کے اور اوس و خزرج کے درمیان نوک جھوک ہوجایا کرتی تھی۔ یہودی ان سے کہتے تھے کہ عنقریب ایک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آنے والا ہے ہم اس کی پیروی کریں گے اور اس کی مدد سے تم کو قوم عاد وارم کی طرح نابود کردیں گے۔(٢)

______________________

(١) مونٹگری واٹ، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فی المدینہ، تعریف: شعبان برکات (بیروت: منشورات المکتبة العصریہ) ، ص ٢٩٤ پرکہتے ہیں کہ اوس و خزرج کے مدینہ آنے سے قبل ،قبائل عرب ١٣ قلعوں اور کالونیوں کے مقابلے میںیہودیوں کے پاس ٥٩ قلعہ تھے (گزشتہ حوالہ، ٢٩٣؛ وفاء الوفاء ، ج١، ص ١٦٥.) اس سے دونوں کی زندگی کے معیار اور فاصلہ کا پتہ چلتا ہے۔

(٢) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج ٢، ص ٧٠؛ طبری ، ج٢، ص ٢٣٤؛ بیہقی، دلائل، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی (تہران، مرکز انتشارات علمی و فرہنگی، ١٣٦١) ج٢، ص١٢٨۔ مراجعہ کریں: ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب ، ج١، ص ٥١؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٥٦، جو یہودی بعثت پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے بارے میں اس طرح پیشین گوئی کرتے تھے ،وہی بعثت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ان سے دشمنی کے لئے کھڑے ہوگئے۔ اس وجہ سے قرآن ان سے اس طرح سے معترض ہوا ''اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے کتاب آئی ہے جوان کی توریت وغیرہ کی تصدیق بھی کرنے والی ہے اور اس کے پہلے وہ دشمنوں کے مقابلہ میں اسی کے ذریعہ طلب فتح بھی کرتے تھے لیکن اس کے آتے ہی منکر ہوگئے حالانکہ اسے پہچانتے بھی تھے تو اب ان کافروں پر خدا کی لعنت ہو۔

۲۱۶

چونکہ یہودیوں کے کلچر کا معیار بلند تھا اور بت پرست انھیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ لہٰذا اس سلسلے میں ان کی باتوں کو باور کرتے تھے اور چونکہ یہ دھمکیاں کئی بار دی گئیں تھیں لہٰذا مسئلہ مکمل طور سے اوس و خزرج کے ذھن میں جاگزیں ہوگیا تھا اور ذہنی طور پر مدینہ والے ظہور پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے لئے آمادہ ہوگئے تھے۔

٢۔ برسوں پہلے سے اوس و خزرج کے درمیان کئی مرتبہ جنگ و خونریزی ہوچکی تھی ان میں سے آخری جنگ ''بغاث'' تھی جس کے نتیجہ میں بے انتہا جانی نقصانات او ربربادیاںدونوں طرف ہوئی تھیں اور دونوں گروہ نادم و پشیمان ہوکر صلح کرنا چاہتے تھے لیکن کوئی معتبر اور بے طرف شخص نہیں مل رہا تھا جو ان کے درمیان صلح کراسکے۔ عبد اللہ بن ابی جو خزرج کے بزرگوں میں سے تھاجنگ بعاث میں بے طرف ہوگیا اور چاہتا تھا کہ دونوں گروہ میں صلح کرا کے ان پر حکومت کرے اور اس کی تاج پوشی کے اسباب بھی مہیا ہوچکے تھے۔(١) لیکن مکہ میں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م سے اوس و خزرج کی ملاقاتوں نے (جن کا عنقریب ذکر کریں گے) واقعات کا رخ یکسر بدل دیا۔ اور عبد اللہ بن ابی اپنا مقام کھو بیٹھا۔

مدینہ کے مسلمانوں کا پہلا گروہ

مکہ میں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے ظاہری پیغام کے ابتدائی سالوں میں مدینہ کے لوگ مکہ کے مسافروں اور زائروں کے ذریعہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت سے آگاہ ہوگئے تھے اور ان میں سے کچھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت سے مشرف ہوکر مسلمان ہوگئے لیکن کچھ ہی دنوں بعد وہ رحلت کرگئے یا قتل کر دیئے گئے تھے۔(٢) بہرحال وہ، لوگوں کواسلام کی طرف نہیں بلا سکے تھے۔

______________________

(١) طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص ٥٨٠.

(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٧٠۔ ٦٧؛ طبری ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٣٣؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص٢٣٨؛ بیہقی ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١١٨.

۲۱۷

بعثت کے گیارہویں سال پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بزرگان خزرج میں سے چھ لوگوں کو حج کے موسم میں منیٰ میں دیکھا اور ان کو اسلام کی طرف دعوت دی ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: جان لو! یہ وہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہے جس کی بعثت سے یہودی ہمیں ڈراتے ہیں۔ لہٰذا ایسی صورت میں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہم سے پہلے اس کے دین کو قبول کرلیں۔ لہٰذا وہ سب اسلام لے آئے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا: ہم اپنی قوم کو دشمنی اور ٹکراؤ کی بدترین حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال آپ کے ذریعہ ان میں الفت ڈال دے گا۔ اب ہم مدینہ واپس جارہے ہیں اور ان کواس دین کی طرف بلائیں گے۔ اگر ان لوگوں نے بھی اس دین کو قبول کرلیا تو کوئی بھی ہماری نظروں میں اپ سے زیادہ عزیز و محترم نہ ہوگا۔

اس گروہ نے مدینہ واپس جانے کے بعد لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دی۔ ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ نغمۂ اسلام پورے یثرب میں پھیل گیا اور کوئی گھر ایسا نہیں بچا جہاں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی باتیں نہ ہوتی ہوں۔(١)

عقبہ کا پہلا معاہدہ

بعثت کے بارہویں سال مدینہ کے بارہ لوگوں نے حج کے موسم میں ''عقبۂ منیٰ''(٢) کے کنارے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیعت کی۔(٣) اس گروہ میں دس خزرجی اور دو اوسی تھے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں قبیلے گزشتہ کدورتوں کو بھول کر ایک دوسرے کے دوش بدوش اسلام کے پرچم تلے جمع ہوگئے تھے۔

______________________

(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٧٣۔ ٧٠؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٥۔ ٢٣٤؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٢٨؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ٢٥.

(٢) ''عقبہ''

(٣)گزشتہ سال، بیعت کرنے والے ٥ افراد تھے جن میں ٧ افراد کا اور اضافہ ہوا

۲۱۸

اور بیعت کی تھی کہ کسی کو خدا کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے، چوری اور زنا نہیں کریں گے، اپنے بچوں کو قتل نہیں کریں گے، ایک دوسرے پر تہمت (زنا کا الزام) نہیں لگائیں گے نیک کاموں میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کی مخالفت نہیں کریں گے۔(١)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اس عہد کی پابندی کرنے والوں سے ، اس کے عوض میں بہشت کا وعدہ کیا۔(٢)

وہ موسم حج کے بعد مدینہ آگئے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تقاضا کیا کہ ایک شخص کو ان کے شہر میں بھیجیں تاکہ وہ مدینہ کے لوگوں کو اسلام اور قرآن کی تعلیم دے۔رسول خدا نے مصعب بن عمیرکو بھیجا۔(٣)

مصعب کی تبلیغ اور کوششوں سے مسلمانوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ مکہ کے اہم اور خاص لوگ اسلام کی مخالفت کے لئے کمر بستہ ہوگئے تھے مگر جوانوں اور مستضعفوں نے آپ کا استقبال کیا۔ لیکن مدینہ میں تقریباً اس کے بالکل برعکس ماحول تھا یعنی اہم اور خاص لوگ پیش قدم اور آگے تھے اور عوام ان کے پیچھے چل رہی تھی یہ ایک ایسا سبب تھا جس کی وجہ سے اسلام تیزی کے ساتھ اس شہر میں پھیلا۔

______________________

(١) چونکہ اس عہد میں جنگ و جہاد کی بات نہیں ہوئی ۔ لہٰذا اس کو ''بیعة النسائ'' کہا گیا جیسا کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اس کے بعد فتح مکہ میں اس شہر کی مسلمان عورتوں سے اسی طرح کا عہدو پیمان کیا جس کا ذکر سورۂ ممتحنہ کی آیت ١٢ میں ہوا ہے

(٢) وہی حوالہ؛ ابن طبقات الکبریٰ ج١، ص ٢٢٠

(٣) مصعب، قریش کے ایک جوان اور قبیلہ بنی عبددار کے ایک ثروتمند اور مالدار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اوران کے والدین ان سے بہت محبت کرتے تھے لیکن مسلمان ہو جانے کی وجہ سے انھیں گھر سے نکال دیا اور مال و ثروت سے محروم کردیا، وہ ایک حقیقی اور انقلابی مسلمان تھے اوردوبار حبشہ کی طرف ہجرت کرچکے تھے (ابن اثیر، اسد الغابہ، ج٤، ص٣٧٠۔٣٦٨)

۲۱۹

عقبہ کا دوسرا معاہدہ

بعثت کے تیرہویں سال حج کے موسم میں ٧٥ افراد جن میں سے گیارہ افراد او سی (اور بقیہ خزرجی) اور دو خاتون تھیں قافلۂ حج کے ساتھ مدینہ سے مکہ آئے اور ١٢ ذی الحجہ کو ''عقبۂ منیٰ'' کے کنارے دوسرا عہد شب کی تاریکی میں (مخفی صورت میں) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کیا۔ اس عہد میں انھوں عہد کیا کہ اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے شہر کی طرف ہجرت کی تو وہ اسی طرح ان کی حمایت کریں گے جیسے وہ اپنی ناموس اور اولاد کی حمایت کرتے ہیں اور جن لوگوں سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ کریں گے ان سے وہ لڑیں گے۔ اس اعتبارسے اس بیعت کو ''بیت الحرب'' بھی کہا گیا ہے۔

عہد کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے بارہ افراد نمائندے کے طور پر(نقیب) انتخاب ہوئے (مرکزی کمیٹی) تاکہ مدینہ پلٹنے کے بعد ہجرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے تک ان کے امور کی سرپرستی کرسکیں۔(١)

اور یہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی کارکردگی کا ایک طریقہ تھا اور موجودہ افراد کو منظم کرنے میں آپ کی سعی و کوشش تھی۔

عہد نامہ کے تمام ممبران کے نام تاریخ اسلام کی مفصل کتابوں میں تحریر ہیں۔

مدینہ کی طرف ہجرت کا آغاز

تمام مخفیانہ امور کے باوجود جو کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مدینہ والوں کے درمیان انجام پائے تھے، قریش اس بیعت سے آگاہ ہوکر بیعت کرنے والوں کی گرفتاری میں لگ گئے۔ مگر انھوں نے اتنی تیزی سے کام کیا کہ فوراً مکہ کو ترک کردیا اورصرف ایک شخص کے علاوہ کوئی گرفتار نہ ہوا۔

______________________

(١) بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٤٠۔ ١٣٢؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ٩٠۔ ٨١؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٥٤۔ ٢٤٠؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٣۔ ٢٢١؛ گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٧؛ طبرسی، اعلام الوریٰ ، ص ٦٠۔ ٥٩؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج ١٩، ص ٢٦ ۔ ٢٥.

۲۲۰