تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 157890
ڈاؤنلوڈ: 4715

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157890 / ڈاؤنلوڈ: 4715
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

اہل مدینہ کے کوچ کر جانے کے بعد قریش سمجھ گئے کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے لوگوں کو اپنا حامی اور مدینہ میں اپنا ایک مرکز بنالیا ہے لہٰذا انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ اور زیادہ سختی کرنا شروع کردی۔ اور حد سے زیادہ انھیں برا بھلا کہنے لگے اور اس قدر انھیں تکلیفیں پہنچائیں کہ ایک بار پھر (حبشہ کی ہجرت سے پہلے کی طرح) مکہ میں زندگی گزارنا دشوار ہوگیا۔(١)

اس بنا پر پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دیدی اور فرمایا: مدینہ کی طرف کوچ کرو خداوند متعال نے انھیں تمہارا بھائی اور جائے امن قرار دیا ہے۔(٢) مسلمانوں نے ڈھائی مہینے کے اندر (نصف ذی الحجہ سے آخری صفر تک) آہستہ آہستہ ان تمام مشکلات اور پریشانیوں کے باوجود جو قریش نے سرراہ کھڑی کر رکھی تھیں، مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مکہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، علی، ابوبکر اور چند افراد کے علاوہ کوئی مسلمان باقی نہ بچا۔

انصار کی تاریخ میں جوافراد مکہ سے مدینہ گئے ''مہاجرین'' او رمدینہ کے مسلمان جنھوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کی ''انصار'' کہلائے۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل کی سازش

مکہ کے مسلمانوں نے ہجرت کے بعد مدینہ میں قیام کیا ،ادھر قریش کے سردار سمجھ گئے کہ مدینہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوران کے چاہنے والوں کے لئے ایک مرکز اور پناہ گاہ بن چکا ہے اور وہاں کے لوگ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے

______________________

(١) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٥٧؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٤١۔ ٢٤٠؛ ابن سعد گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٢٦؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٦.

(٢)ان اللّٰه عزوجل قد جعل لکم اخوانأًو داراً تأمنون بها (ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١١١؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص ١٨٢؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج٣، ص ١٦٩.

(٤) حلبی، السیرة الحلبیہ، (انسان العیون) بیروت: دار المعرفہ) ج٢، ص ١٨٩.

۲۲۱

دشمن سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہیں اس وجہ سے وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت سے ڈرے کیونکہ اس چیز نے قریش کو چند خطرات سے روبرو کردیاتھا۔

١۔ مسلمان ان کی دسترس سے باہر ہوچکے تھے نئی صورت حال کے پیش نظر، حالات کے بارے میں پیش بینی اور حوادث کی راہ میں تاثیر گزاری قریش کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔

٢۔ چونکہ اہل مدینہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ میں حمایت کا عہد کرچکے تھے لہٰذا اس بات کا امکان تھا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انتقام کی خاطر ان کی مدد سے کہیں مکہ پر حملہ نہ کردیں۔(١)

٣۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ جنگ نہیں ہوئی پھر بھی ان کے لئے ایک بڑا خطرہ لاحق تھا۔ کیونکہ مدینہ، قریش کے تاجروں کے لئے مناسب بازار تھا اور اس شہر سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد، بہت بڑا اقتصادی نقصان ان کو ہونے والا تھا۔

٤۔ مدینہ، مکہ سے شام کے تجارتی راستہ کے کنارے پر پڑتا تھا اور مسلمان اس راستے کو ناامن بنا کر کاروبار تجارت میں خلل ڈال سکتے تھے۔

یہ فکریں اور الجھنیں باعث بنیں کہ سرداران قریش ''دار الندوہ'' (قریش کے سازشوں کا اڈہ اورقصی کی نشانی) میں اکٹھا ہوئے اور چارہ جوئی میں لگ گئے۔

کچھ نے مشورہ دیا کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شہر بدر یا قید کرلیا جائے لیکن یہ دو مشورے بعض دلیلوں کی بنیاد پر رد ہوگئے۔ آخر کار یہ طے پایا کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کردیا جائے لیکن ان کو قتل کرنا آسان کام نہیں تھا کیونکہ اس کے بعد بنی ہاشم سکون سے نہ بیٹھتے اور خون خواہی کے لئے کھڑے ہو جاتے اس بنا پر طے کیا کہ ہر قبیلہ سے ایک جوان تیار ہو ، تاکہ راتوں رات سب ملکر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حملہ کردیں اور ان کو بستر خواب پر ہی قتل کردیں۔ ایسی صورت میں قاتل ایک شخص نہیں ہوگا اور بنی ہاشم بھی خون خواہی کے لئے کھڑے نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کے لئے ان تمام قبیلوں سے جو اس قتل میںشریک تھے، جنگ کرنی ناممکن ہوگی ،لہٰذا

______________________

(١) گزشتہ حوالہ.

۲۲۲

وہ مجبور ہوکر خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں گے اور ماجرا اسی پر تمام ہو جائے گا۔ قریش نے اپنی سازش کوعملی جامہ پہنانے کے لئے ربیع الاول کی پہلی شب کاانتخاب کیا ۔ خداوند عالم ان کی سازش کو اس طرح سے بیان کرتا ہے:

''اور پیغمبر آپ اس وقت کو یاد کریں جب کفار تدبیریں کرتے تھے کہ آپ کو قید کرلیں یا شہر بدر کردیں یا قتل کردیں اور ان کی تدبیروں کے ساتھ سا تھ خدا بھی اس کے خلاف انتظام کر رہا تھا او روہ بہترین انتظام کرنے والا ہے''۔(١)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی ہجرت

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وحی کے ذریعہ ''دار الندوہ'' کی سازش سے آگاہ ہوئے اور حکم خدا ہوا کہ مکہ سے باہر چلے جائیں۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی ماموریت سے علی کو آگاہ کیا اور فرمایا: ''آج کی شب میرے بستر پر سوجاؤ اور میری سبز چادر اوڑھ لو''علی نے بے خوف و خطر اس ذمہ داری کو قبول کیا۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس شب ابوبکر کے ساتھ ''غار ثور'' میں چلے گئے جو مکہ کے جنوبی علاقے (مدینہ کے مخالف سمت) میں واقع تھا۔اور تین روز غار میں رہے تاکہ قریش ان کو پانے سے ناامید ہوجائیں اور راستہ پرامن ہو جائے اور آپ ہجرت کو جاری رکھ سکیں، خداوند عالم نے قرآن مجید میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تنہائی اور بے یاوری کا ذکر فرمایا ہے کہ آپ کے ساتھ ایک نصر کے علاوہ کوئی دوسرا نہ تھا اور وہ بھی اضطراب و پریشانی کا شکار ہوگیا تھا۔ لیکن قریش اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود خدا کی قدرت سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک نہیں پہنچ سکے۔

______________________

(١) ''و اذ یمکر بک الذین کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک و یمکرون و یمکر اللّٰه و اللّٰه خیر الماکرین'' سورۂ انفال، آیت ٣٠.

۲۲۳

''اگر تم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد نہ کرو گے تو ان کی مدد خدا نے کی ہے اس وقت جب کفار نے انھیں وطن سے باہر نکال دیا اور وہ ایک شخص کے ساتھ نکلے اور دونوں غار میں تھے تو وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ رنج نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے پھر خدا نے اپنی طرف سے اپنے پیغمبر پر سکون نازل کردیا اور ان کی تائید ان لشکروں سے کردی جنھیں تم نہ دیکھ سکے اور اللہ ہی نے کفار کے کلمہ کو پست بنا یا ہے اوراللہ کا کلمہ در حقیقت بہت بلند ہے۔ کہ وہ صاحب عزت و غلبہ بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے''۔(١)

عظیم قربانی

حضرت علی اس شب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر سوئے اور قریش کے مسلح افراد نے رات کی تاریکی میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور صبح سویرے ننگی تلواروں کے ساتھ گھر کے اندر گھس گئے ،اسی عالم میں علی بستر سے اٹھ گئے اس وقت تک وہ لوگ اپنے منصوبے کو سوفیصد درست اور کامیاب سمجھ رہے تھے لیکن علی کو دیکھتے ہی انھیں سخت حیرت ہوئی اور وہ ان کی طرف لپکے، یہ دیکھ کر علی نے اپنی تلوار کھینچ لی اور مقابلہ کے لئے تیار ہوگئے جب انھوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مخفی ہونے کی جگہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے بتانے سے انکار کردیا۔(٢)

______________________

(١) سورۂ توبہ، آیت ٤٠.

(٢) دارالندوہ اورلیلة المبیت کا واقعہ الفاظ اور عبارتوں کے فرق کے ساتھ اختصار و تفصیل سے مندرجہ ذیل کتابوں میں نقل ہوا ہے۔

تاریخ الامم و الملوک، ج٢، ص٢٤٥۔ ٢٤٢؛ السرة النبویہ، ج٢، ص١٢٨۔ ١٢٤؛ طبقات الکبریٰ، ج١، ص ٢٢٨۔ ٢٢٧؛ دلائل النبوة، ج٢، ص ١٤٩۔ ١٤٧؛ انساب الاشراف، ج١، ص٢٦٠۔ ٢٥٩؛ الکامل فی التاریخ، ج٢، ص ١٠٣۔ ١٠١؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٣٢؛ اعلام الوریٰ، ص٦١؛ امالی شیخ طوسی، ص ٤٤٧۔ ٤٤٥ و ص ٤٧١۔ ٤٦٣؛ مناقب ابن شہر آشوب، ج١، ص ١٨٣۔ ١٨٢؛ مناقب خوارزمی، ص ٧٣؛ کنز الفوائد کراجکی، ج٢، ص٥٥؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج٣، ص ١٨٠۔ ١٧٥؛ السیرة النبویہ، ج٢، ص٢٠٦۔ ١٨٩؛ تاریخ بغداد، ج١٣، ص ١٩٢۔١٩١؛ بحار الانوار، ج١٩، ص ٦٥۔ ٤٧۔

۲۲۴

اس رات جو شخص بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر سوتا اس کے بچنے کی امید نہیں تھی لیکن حضرت علی شعب ابوطالب میں بھی اکثر راتوں میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جگہ سوتے تھے اور اپنے کو سپر قرار دیتے تھے اور خطرہ مول لیتے تھے تاکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان محفوظ رہ سکے خداوند عالم نے ان کی اس قربانی کو اس طرح بیان کیا ہے:

''اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے''۔(١)

مفسرین او رمحدثین کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی کی عظیم قربانی کے سلسلے میں ''لیلة المبیت'' میں نازل ہوئی۔(٢)

حضرت علی نے اپنے ایک بیان میں قریش کی سازش کو ذکر کرنے کے بعد اس خطرناک رات میں اپنی حالت کواس طرح سے بیان فرمایا ہے:

''...پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے فرمایاکہ ان کے بستر پر سوجائوں اور اپنی جان کو ان کے لئے سپر قرار دوں۔ بے خوف اس ماموریت کو میں نے قبول کیا ،میں خوش تھا کہ آپ کی راہ میں قتل کیا جاؤوں ۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

______________________

(١) سورۂ بقرہ، آیت ٢٠٧۔

(٢) فتال نیشاپوری، روضة الواعظین (بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات، ط ١، ١٤٠٦ھ.ق)، ص ١١٧؛ ابن اثیر ، اسد الغابہ، ج٤، ص ٢٥؛ مومن شبلنجی، نور الابصار (قاہرہ: مکتبة المشہد الحسینی)، ص ٨٦؛ طبرسی، مجمع البیان، ج١، ص ٣٠١؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم (قاہرہ: داراحیاء الکتب العربیہ، ١٩٦١.)، ج١٣، ص ٢٦٢؛ سبط ابن الجوزی، تذکرة الخواص (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٣ھ.ق)، ص ٣٥؛ تقی الدین ابوبکر حموی، ثمرات الاوراق (حاشیہ المستطرف میں)، ص ٢٠؛ عبد الحسین امینی، الغدیر، ج٢، ص ٨٠؛ مرحوم مظفر نے اہل سنت کے نامور علماء اور مفسرین جیسے ثعلبی، قندوزی، حاکم نیشاپوری، احمد ابن حنبل، ابو السعادات، غزالی، فخر رازی، اور ذہبی سے نقل کیا ہے کہ سبھی نے کہا ہے کہ یہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔

۲۲۵

ہجرت کر گئے اور میں ان کے بستر پر لیٹا رہا۔ قریش کے مسلح افراد کو اس بات کا یقین تھا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کردیں گے لہٰذا وہ گھر میں گھس گئے اور جب وہاں پہنچے جہاں میں لیٹا تھا تو میں نے یہ دیکھ کر اور تلوار ہاتھ میں لے لی اور اپنا اس طرح دفاع کیا کہ خدا جانتاہے اور لوگ بھی اس سے آگاہ ہیں''۔(١)

قبا میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا داخلہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی سے فرمایا کہ میری ہجرت کے بعد اپنے مکہ ترک کرنے سے پہلے، لوگوں کی جو امانتیں ان کے پاس ہیں اسے لوگوںکو واپس کردیں۔(٢) اور ان کی دختر فاطمہ اور بنی ہاشم کے دوسرے چند افراد جواس وقت تک ہجرت نہیں کرسکے تھے ان کی ہجرت کے مقدمات فراہم کریں۔(٣)

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے چوتھی ربیع الاول (بعثت کے چودھویں سال) غار کو مدینہ کے ارادہ سے ترک کیا(٤) اور اسی مہینے کی بارہویں تاریخ کو مدینہ کے باہر محلہ ''قبا'' میں قبیلۂ بنی عمرو بن عوف کے رہنے کی جگہ پہنچے(٥) اور چند روز علی کے انتظار میں وہاں ٹھہرے رہے٭ اور اس دوران ایک مسجد

______________________

(١) صدوق، الخصال (قم: منشورات جامعہ المدرسین)، ج٢، ص ٣٦٧، باب السبعہ؛ مفید ، الاختصاص (قم: منشورات جماعة المدرسین)، ص ١٦٥.

(٢) ابن ہشام ، السیرة النبویہ، ج٢، ص ١٢٩؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٤٧؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٢٦١؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص ١٨٣.

(٣) شیخ طوسی، الامالی (قم: دارالثقافہ، ط١، ١٤١٤ھ.ق)، ص٤٦٨؛ رجوع کریں: مفید، الاختصاص، ص١٤٧؛ تاریخ الخلفائ، ص ١٦٦؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص٦٢۔

(٤) محمد بن سعد، طبقات الکبریٰ، ج١، ص٢٣٢؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص٨٧۔

(٥) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ١٣٧؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤٨؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٦٤؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص٢٦٣؛ بیہقی، دلائل النبوة، ترجمہ: محمود مہدوی دامغانی (تہران: مرکز انتشارات علمی و فرھنگی، ١٣٦١)، ج٢، ١٧٢۔

٭رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ٹھہرنے کی مدت میں اختلاف ہے۔

۲۲۶

وہاں پر تعمیر کی۔(١)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کے بعد علی تین دن مکہ میں ٹھہرے رہے اور اپنے فریضے کو بہ حسن و خوبی انجام دیا(٢) پھر اپنی والدۂ گرامی فاطمہ بنت اسد، فاطمہ زہرا دختر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور فاطمہ دختر زبیر بن عبد المطلب کودو دوسرے افراد کے ہمراہ لے کر قبا میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جاملے۔(٣)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مدینہ میں داخلہ

حضرت علی کے قبا میں پہنچنے کے بعد پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بنی نجار (عبد المطلب کے مادری رشتہ دار) کے ایک گروہ کے ساتھ مدینہ گئے۔ راستہ میں قبیلہ بنی سالم بن عوف کے محلہ میں پہلی نماز جمعہ پڑھی۔ شہر میں داخل ہوتے وقت لوگوں نے بہت ہی پرجوش انداز میں آپ کا استقبال کیا۔ قبائل کے سرداروں اور بڑی شخصیتوں نے ناقۂ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زمام کو پکڑ کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست کی کہ ان کے محلہ میں تشریف لے چلیں۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ناقہ کے راستہ کو خالی کردو اسے خدا کی جانب سے حکم ملا ہے وہ جہاں بیٹھے گا میں وہیں اتر جاؤوں گا''

گویا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی تدبیر اور حکمت عملی کے ذریعہ چاہتے تھے کہ (حجر اسود کے نصب کے فیصلہ کی طرح) ان کی میزبانی کا شرف و افتخار کسی خاص قبیلہ یا خاندان کو حاصل نہ ہو اور آئندہ سماج میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔

آخر کارآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اونٹ محلہ بنی نجار میں ابوایوب انصاری خالد بن خزرجی کے گھر کے قریب بیٹھ گیا اس وقت (ایسی جگہ پر بیٹھا جو دو یتیموں کی تھی جہاں بعد میں مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بنی) ۔

______________________

(١) ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٨٥؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٦٦ و ١٧٢؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٢٤٩۔

(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص١٣٨؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤٩۔

(٣)ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ص ١٨٣؛ رجوع کریں: اعلام الوریٰ، ص٦٦؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٣٤۔

۲۲۷

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چاروں طرف بے شمار لوگ اکٹھا ہوگئے ہر ایک کی آرزو تھی کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے میزبان ہم بنیں۔ ابوایوب انصاری آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامان سفر کواپنے گھر لے گئے اور ساتھ میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے۔ اور اس وقت تک وہاں آپ نے قیام کیا جب تک مسجد النبی اور اس کے ساتھ ہی آپ کی رہائش کے لئے حجرہ نہ بن گیا۔(١)

ہجری تاریخ کا آغاز

ہجرت بڑی تبدیلیوں کی شروعات اور اسلام کی پیش رفت میں ایک اہم موڑ کا نام ہے کیونکہ اسی کے سایہ میں مسلمانوں نے گھٹن اور دشواریوں کے ماحول سے نکل کر آزاد ماحول میں قدم رکھا اور آزادی کے ساتھ ایک نقطہ پر متمرکز ہوگئے اور ایسے حالات میں یہ چیز ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔اگر ہجرت انجام نہ پاتی تو مکہ میں اسلام گھٹ گھٹ کر دم توڑ دیتا اور ہرگز اسے ترقی نہ ملتی۔ ہجرت کے بعد مسلمانوں نے سیاسی اور نظامی سرگرمیاں شروع کردیں اور اسلام جزیرة العرب میں پھیل گیا۔

اس بنا پر ہجرت، اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کا آغاز قرار پائی لیکن کس شخص نے پہلی مرتبہ اس تاریخ کی بنیاد ڈالی؟ اور کس وقت سے یہ تاریخ رائج ہوئی؟ مورخین اسلام کے درمیان مشہور یہ ہے کہ یہ کام عمر بن خطاب کے زمانہ میں، اس کے ذریعہ سے اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشورہ سے انجام پایا۔(٢)

______________________

(١) گزشتہ حوالہ.

(٢) ابن واضح ، تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢، ص١٣٥؛ مسعودی، التنبیہ و الاشراف (قاہرہ: دارالصاوی للطبع والنشر، ص٢٥٢؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر)، ج١، ص١٠؛ الشیخ عبدالقادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق (تالیف حافظ ابن عساکر) (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط٣، ١٤٠٧ھ.ق) ، ج١، ص٢٤۔ ٢٣۔

۲۲۸

لیکن محققین اورتاریخ اسلام کے تجزیہ نگاروں کی تحقیقات سے پتہ چلتاہے کہ اس امر کے بانی خود پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م تھے۔ اسلام کے بڑے مورخین کے ایک گروہ نے لکھا ہے کہ پیغمبر ا کرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ماہ ربیع الاول میں حکم دیا کہ اسی مہینہ سے تاریخ لکھی جائے۔(١)

اس مطلب کے گواہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کچھ خطوط، مکاتبات اور تاریخی دستاویزات ہیں جو تاریخی کتابوں سے ہم تک پہنچی ہیں اور ان کی تاریخ نگارش آغاز ہجرت سے ذکر ہوئی ہے اس کے دو نمونہ یہاں پیش ہیں:

١۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے مُقنا کے یہودیوں سے ایک عہدو پیمان کیا اور اس پر آپ نے دستخط فرمائی اس کے آخر میں یہ لکھا ہے کہ اس عہد نامہ کو علی بن ابی طالب نے ٩ ھ میں تحریر کیا ہے۔(٢)

٢۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے نجران کے مسیحیوں کے ساتھ جو عہد و پیمان کیا اس میں بھی یہ ذکر ہوا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی کو حکم دیا کہ اس میں لکھو کہ یہ پیمان ٥ھ میں لکھا گیاہے۔(٣)

بعض قرائن اور شواہد کی بنا پر ٥ھ تک ہجرت کو اصل اور بنیاد بناکر واقعات اور روداد و حوادث کو مہینوںکی تعدا کے لحاظ سے لکھا جاتا تھا۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:

١۔ ابوسعید خدری کہتے ہیں: ''ماہ رمضان کا روزہ تغییر قبلہ کے ایک ماہ بعد، ہجرت کے

______________________

(١)طبری، تاریخ الامم و الملوک، (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٢، ص٢٥٢؛ نور الدین السمہودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط٣، ١٤٠١ھ.ق)، ج١، ص٢٤٨؛ مجلسی ، بحار الانوار، ج٤٠، ص٢١٨، ابن شہر آشوب کی نقل کے مطابق۔

(٢) بلاذری، فتوح البلدان (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ١٣٩٨ھ.ق)، ص ٧٢۔ ٧١؛ اس سند کے اصل متن میںعلی بن ابی طالب (واؤ کے ساتھ) لکھا ہوا ہے جس کی وجہ تاریخ کی کتابوں میں بتائی گئی ہیں ۔ رجوع کریں: الصحیح من سیر ة النبی الاعظم، ج٣، ص ٤٨۔ ٤٦.

(٣)الشیخ عبدالحی الکتانی، الترتیب الاداریہ (بیروت: دار احیاء التراث العربی)، ج١، ص١٨١۔

۲۲۹

اٹھارویں مہینہ میں واجب ہوا ہے۔(١)

٢۔ سفیان بن خالد سے جنگ کے لئے بھیجے ہوئے لشکر کا کمانڈر عبد اللہ بن اُنیَس کہتا ہے کہ میں پیر کے دن پانچ محرم کو ہجرت کے پچاسویں مہینے میں مدینے سے نکلا۔(٢)

٣۔ محمد بن مسلمہ قبیلۂ قرطا(٣) سے جنگ کے بارے میں لکھتا ہے:میں دس محرم کو مدینہ سے باہر گیا اور انیس دن کے بعد محرم کی آخری رات ، ہجرت کے ٥٥ویں مہینے میں، مدینہ واپس آیا۔(٤)

اس بنا پر ہجری، تاریخ کے بانی پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م ہی تھے۔ لیکن شاید خلافت عمر کے دور تک اسے بہت زیادہ شدت اور عمومیت نہیں مل سکی تھی۔(٥) اور چونکہ عمر کے دور میں زمان حوادث اور بعض دستاویزات اور مطالبات کی تاریخ میں اختلاف کی کچھ صورتیں پیش آئیں۔(٦) لہٰذا انھوں نے اس مسئلے کو ١٦ھ میں قانونی شکل دی اور ربیع الاول (مدینے میں پیغمبر کے داخلے کا مہینہ )کے بجائے ماہ محرم کو ہجری سال کا آغاز قرار دیا۔(٧)

______________________

(١) الشیخ حسن الدیار بکری، تاریخ الخمیس، (بیروت: مؤسسة شعبان)، ج١، ص ٣٦٨۔

(٢)واقدی، المغازی، تحقیق: مارسڈن جانس (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات)، ج٢، ص٥٣١۔

(٣) بنی بکر کا ایک خاندان ہے۔

(٤)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٥٣٤۔

(٥) سیدجعفر مرتضی عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج٣، ص ٥٥.

(٦) طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٥٢؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ (بیروت: مکتبة المعارف ط٢، ١٣٩٤ھ.ق)، ج٧، ص ٧٤۔ ٧٣؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦١م)، ج١٢، ص ٧٤؛ ابن کثیر، الکامل فی التاریخ، ج١، ص ١١۔١٠.

(٧) ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب ، ج١، ص ١٧٥؛ الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج٣، ص ٣٥؛ مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: الصحیح من سیر ة النبی الاعظم، ج٣، ص ٥٦۔ ٣٢.

۲۳۰

دوسری فصل

مدینہ میں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے سیاسی اقدامات

مسجد کی تعمیر

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے مدینہ میں(١) قیام کے بعد یہ ضرورت محسوس کی کہ ایک مسجد بنائی جائے جو مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا سینٹر اور نماز جمعہ اور جماعت کے وقت جمع ہونے کی جگہ قرار پائے۔ اس وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس زمین کو جہاں پہلے دن آپ کا اونٹ بیٹھا تھا اور وہ دو یتیموں کی تھی ان کے اولیاء سے خریدی اور مسلمانوں کی مدد سے وہاں ایک مسجد تعمیر کی(٢) جو آپ کے نام یعنی ''مسجد النبی'' کے نام

______________________

(١) یاقوت حموی، معجم البلدان (بیروت: داراحیاء التراث العربی، ١٣٩٩ھ.ق)، ج٥، ص ٤٣٠، (لغت: یثرب)

(٢)محمد بن سعد، طبقات الکبریٰ (بیروت: دار صادر)، ج١، ص ٢٣٩؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٢، ص ٢٥٦؛ بیہقی، دلائل النبوة، ترجمہ محمود مہدی دامغانی (تہران: مرکز انتشارات علمی و فرہنگی، ١٣٦١)، ج٢، ص ١٨٧؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص ١٨٥؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، (بیروت: مکتبة المعارف، ط ٢، ١٩٧٧.)، ج٣، ص ٢١٥؛ الدین الحلبی، السیرة الحلبیہ، (انسان العیون)، (بیروت: دار المعرفہ، ج٢، ص ٢٥٢؛ مجلسی، بحار الانوار، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ)، ج١٩، ص ١٢٤.

۲۳۱

سے مشہور ہوئی۔ ہجرت کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ پہلا اجتماعی اقدام تھا۔ مسجد کی تکمیل کے بعد، اس کے پہلو میںدو کمرے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کی ازواج کے رہنے کے لئے بنائے گئے۔(١) اس کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابوایوب کے گھر سے وہاں چلے گئے۔(٢) اور آخری عمر تک اسی کمرے میں زندگی بسر کی۔

اصحاب صُفّہ

مسلمانوں کے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد، انصار نے مہاجر مسلمانوں کو جہاں تک ہوسکا اپنے گھر وں میں ٹھہرایا اور ان کے لئے زندگی کی سہولتیں فراہم کیں۔(٣)

لیکن اصحاب صفہ جوایک فقیر، مسافر بے گھر اور ہر لحاظ سے محروم طبقہ تھا ان کے رہنے کے لئے مسجد کے آخر میں وقتی طور پر ایک سائبان بنادیا گیا تھا۔

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م ان کی خبرگیری فرماتے تھے اور جہاں تک ہوسکتا، ان کے لئے کھانے کی چیزیں فراہم کرتے تھے اور انصار کے سرمایہ داروں کو ان کی مدد کے لئے تشویق کرتے تھے۔ مسلمانوں کا یہ طبقہ جو انقلابی، مومن او رخوبیوں کا مالک تھا ''اصحاب الصفہ'' کے نام سے معروف ہوا۔(٤)

______________________

(١) ایک کمرہ سودہ اور ایک کمرہ عائشہ کے لئے بنایا گیا (محمد بن سعد، سابق، ص ٢٤٠؛ حلبی، سابق، ص ٢٧٣)

(٢)ابن ہشام، السیرة النبویہ، (قاہرہ: مطبعة المصطفی البابی الحلبی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج٢، ص١٤٣؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ص١٨٦۔

(٣)ابن واضح، تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢، ص٣٤۔

(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص٢٥٥؛ نور الدین السمہودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی (بیروت: داراحیاء التراث العربی، ط٣، ١٤٠١ھ.ق)، ج٢، ص٤٥٨۔ ٤٥٣؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٧، ص٨١؛ ج٢٢، ص٦٦، ١١٨، ٣١٠، ج٧٠، ص١٢٩۔ ١٢٨، ج٧٢، ص٣٨؛ رجوع کریں: مجمع البیان، ج٢، ص٣٨٦، تفسیر آیۂ: ''للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللّٰہ لایستطیعون ضربًا فی الارض...'' (سورۂ بقرہ، آیت ٢٧٣) و عبدالحی الکتانی، التراتیب الاداریہ، ج١، ص٤٨٠۔ ٤٧٣۔

۲۳۲

اس گروہ کی تعداد ہمیشہ گھٹتی بڑھتی رہتی تھی۔ جن کے رہنے کاانتظام ہو جاتا تھا وہ وہاں سے چلے جاتے تھے اور دوسرے نئے افراد آکر ان میں شامل ہو جاتے تھے۔(١)

عام معاہدہ

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے مدینہ میں قیام کے بعد ضرورت محسوس کی کہ لوگوں کی اجتماعی حالت کو منظم کریں؛ کیونکہ آپ کے بلند اہداف کی تکمیل کے لئے شہر کی تنظیم ضروری تھی جبکہ اس وقت مدینہ کی آبادی کی ترکیب غیر مناسب تھی۔ عرب کے متعدد گروہ اس شہر میں رہتے تھے اور ان میں سے ہر فرد دو بڑے قبیلہ اوس و خزرج میں سے کسی ایک سے تعلق رکھتا تھا۔ یہودی بھی اسی شہر میں ان کے اطراف میں بسے ہوئے تھے اور ان سے تعلقات رکھتے تھے اور اب مکہ کے مسلمان بھی ان میں اکثر بڑھ گئے تھے اس عالم میں ممکن تھا کہ کوئی حادثہ پیش آجائے اسی وجہ سے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تدبیر سے ایک پیمان نامہ لکھا گیا جسے اسلام میں ''پہلا اساسی قانون'' یا سب سے بڑی قرار داد اور تاریخی دستاویز کہا گیا۔

اس قرارداد نے مدینہ میں رہنے والے مختلف گروہوں کے حقوق معین کئے اور یہ قانون شہری آبادی میں مسالمت آمیز زندگی اوران کے درمیان نظم و عدالت کو برقرار رکھنے کا ضامن بنا اور ہرطرح کے ہنگامے اوراختلاف کے جنم لینے سے مانع بنا۔ اس عہدنامہ کے چند اہم بند یہ تھے:

______________________

(١) ابونعیم اصفہانی، حلیة الاولیاء (بیروت: دار الکتاب العربی، ط ٢، ١٣٨٧ھ.ق)، ج١، ص ٣٤٠۔ ٣٣٩؛ ابونعیم نے اصحاب صفہ کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (حلیة الاولیائ، ج١، ص ٣٨٥۔ ٣٤٧)، اس نے اس گروہ کی تعداد ٥١ افراد بتائی ہے اور ان میں سے ہر ایک کا ذکر کیاہے۔ (ان میں کچھ عورتوں کے نام بھی ملتے ہیں)۔ لیکن ان میں سے کچھ کواصحا ب صفہ میں شما رنہیں کیا ہے۔ جن افراد کوابونعیم نے اس گروہ میں شمار کیا ہے ۔ وہ یہ ہیں: بلال، براء بن مالک، جندب بن جنادہ، حذیفہ بن یمان، جناب بن الارت... ذوالبحاین، (عبد اللہ) سلمان، سعید بن ابی وقاص، سعد بن مالک، (ابو سعید خدری)، سالم (مولا ابی حذیفہ) اور عبد اللہ بن مسعود۔

۲۳۳

١۔ مسلمان اور یہودی(١) ایک امت ہیں۔

٢۔ مسلمان اور یہودی اپنے دین کی پیروی میں آزاد ہیں۔

٣۔ قریش کے مہاجرین، اسلام سے قبل اپنی سابق رسم (یعنی خون بہا دینے) پر باقی رہیں گے اگر ان کا کوئی فرد کسی کو قتل کرے یا اسیر ہو تو عدالت اور خیرخواہی کے جذبہ کے تحت سب مل کر اس کا خون بہا دیں اور فدیہ دے کر اسے آزاد کرائیں۔

٤۔ بنی عمرو بن عوف (انصار کا ایک قبیلہ) اور تمام دوسرے قبیلہ بھی خون بہا اور فدیہ کے سلسلہ میں اسی طرح عمل کریں۔

٥۔ کوئی یہ حق نہیں رکھتا ہے کہ کسی کے غلام، فرزند یا خاندان کے کسی دوسرے فرد کو بغیر اس کی اجازت کے پناہ دے۔

٦۔ اس عہدنامہ پر دستخط کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ سب مل کر شہر مدینہ کا دفاع کریں۔

٧۔ مدینہ ایک مقدس شہر ہے اس میں ہر طرح کا خون خرابہ حرام ہوگا۔

٨۔ اس عہدنامہ پر دستخط کرنے والوں میں اگر کبھی اختلاف پیدا ہوا تو اس اختلاف کو دور کرنے والے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں گے۔(٢)

سلسلۂ حوادث کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پیمان (جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ آنے کے ابتدائی مہینوں میں انجام پایا تھا)،(٣) شہر کے امن و سکون میں موثر ثابت ہوا؛ کیونکہ ٢ھ تک یعنی جنگ بدر کے بعد تک ''بنی قینقاع'' کی فتنہ پردازیوں کی بنا پر اس قبیلہ سے جو جنگ ہوئی، کوئی کشیدگی اہل مدینہ کے درمیان نقل نہیں ہوئی ہے۔

______________________

(١) یہاں پر یہودی سے مراد، بنی عمرو بن عوف اور مدینہ کے تمام مقامی یہودی ہیں لیکن یہودیوں کے تین قبیلے، بنی قینقاع، بنی نضیر، اور بنی قریظہ سے پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے الگ پیمان کیا تھا جس کی تفصیل آئندہ بیان ہوگی۔

(٢) ابن ہشام، سابق، ج٢، ص ١٥٠۔ ١٤٧؛ اس عہدنامہ کے بندوں سے تفصیلی آگاہی کے لئے، رجوع کریں: فروغ ابدیت ، ج١، ص ٤٦٥۔ ١٦٢

(٣) اسلامی مورخین نے اس عہد و پیمان کی تنظیم مدینہ میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پہلے خطبہ کے بعد نقل کی ہے لہٰذا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کا مدینہ میں اس عہد و پیمان کا منعقد کرنا، آپ کے ابتدائی اقدامات کا جز تھا۔

۲۳۴

مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارگی کا معاہدہ

ہجرت کے پہلے سال(١) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دوسرا اہم اجتماعی اقدام یہ کیا کہ مہاجرین و انصار کے درمیان رشتہ اخوت و برادری برقرار کیا۔ ماضی میں مسلمانوں کے ان دو گروہوں میں پیشہ اور نسل کے لحاظ سے تفاوت اور کشمش پائی جاتی تھی؛ کیونکہ انصار، جنوب (یمن) سے ہجرت کر کے آئے تھے اور انکا تعلق ''قحطانی'' نسل سے تھا۔ اور مہاجرین، عرب کے شمالی حصہ سے آئے او ران کا تعلق ''عدنانی'' نسل سے تھا اوردور جاہلیت میں، ان دونوں کے درمیان نسلی کشمش پائی جاتی تھی۔

دوسری طرف سے انصار کا مشغلہ کاشتکاری اور باغ بانی تھا۔ جبکہ مکہ کے عرب، تاجر تھے اور کاشتکاری کو ایک پست مشغلہ سمجھتے تھے۔ اس سے قطع نظر یہ دونوں گروہ دو الگ ماحول کے پروردہ تھے اور اب نور اسلام کے سبب آپس میں دینی بھائی ہوگئے تھے۔(٢) اور ایک ساتھ مدینہ میں رہتے تھے۔ لہٰذا اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں قدیمی عصبیت نہ بھڑک اٹھے کیونکہ مسلمانوں کے ان دو گروہوں میں گزشتہ افکار و خیالات اور کلچر کے اثرات ابھی بعض لوگوں کے ذہنوں میں باقی رہ گئے تھے۔ لہٰذا پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے ان دو گرہوں کے درمیان رشتہ اخوت و برادری برقرار کیا اور ہر مہاجر کو، انصار میں سے کسی ایک کا بھائی(٣)

______________________

(١) ہجرت کے پانچ یا آٹھ مہینے بعد (سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٦٨؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ١٣٠، حاشیہ مقریزی کے نقل کے مطابق)

(٢)''انما المومنون اخوة'' سورۂ حجرات ، آیت ١٠.

(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٥٠؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٢٣٨؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٩٢؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٩، ص ١٣٠؛ یہ دینی برادری اور دینی تعاون کی بنیاد پر تھی جیسا کہ روایت میں بیان ہوا ہے کہ اخی رسول اﷲ بین الانصار و المہاجرین، اخوة الدین (طوسی، امالی، (قم: دارالثقافہ، ١٤١٤ھ.ق)، ص ٥٨٧.

۲۳۵

بنایا اور علی کو اپنا بھائی بنایا۔(١)

البتہ مہاجرین و انصار کے درمیان رشتۂ اخوت و برادری برقرار کرنے میں ایمان و فضیلت کے لحاظ سے ایک طرح کے تناسب اور برابری کا لحاظ رکھا گیا(٢) اور پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کا رشتۂ اخوت علی سے قائم ہوا جبکہ دونوں مہاجر تھے لہٰذا اس زاویۂ نظر سے یہ بات قابل توجیہ و تاویل ہے۔

یہ عہد و پیمان مہاجروں اور انصار کے درمیان مزید اتحاد و اتفاق کا باعث بنا جیسا کہ انصار نے پہلے سے زیادہ، مہاجروں کی مالی امداد کے لئے تیار ہوگئے۔ اور مال غنیمت کی تقسم کے موقع پر ''بنی نضیر''

______________________

(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص١٥٠؛ عسقلانی، الاصابہ تمییز الصحابہ (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط١، ١٣٢٨ھ.ق)، ج٢، ص٥٠٧؛ الشیخ سلیمان القندوزی الحنفی، ینابیع المودة (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات)، ج١، باب٩، ص٥٥؛ سبط ابن الجوزی، تذکرة الخواص (نجف: المطبعة الحیدریہ، ١٣٨٣ھ.ق)، ص٢٠، ٢٢، اور ٢٣ کتاب فضال میں احمد ابن حنبل کی نقل کے مطابق؛ ابن عبد البر، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، (الاصابہ کے حاشیہ)، ج٣، ص٣٥؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٢٩٢؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٢٦٨؛ المظفر، دلائل الصدق (قم: مکتبہ بصیرتی)، ج٢، ص٢٧١۔ ٢٦٨۔

(٢) شیخ سلیمان قندوزی، گزشتہ حوالہ، ج١، باب٩، ص٥٥ احمد حنبل کے نقل کے مطابق؛ امینی، الغدیر، ج٣، ص١١٢؛ مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ١٤٠٣ھ.ق)، ج٣، ص٦٠؛ طوسی، الامالی، ص٥٨٧۔

وہ حدیثیں جو یہ بیان کرتی ہیں کہ اس عہد و پیمان میں حضرت علی کی اخوت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ برقرار ہوئی ہے وہ، حدیث شناسی کے معیار کے مطابق قابل انکار نہیں ہیں۔اس بنا پر ابن تیمیہ اور ابن کثیر کی باتیں اس سلسلہ میں ان کے خاص جذبہ اور فکر کی دین ہے اور علمی حیثیت نہیں رکھتی ہیں ۔ رجوع کریں: الغدیر ، ج٣، ص ١٢٥۔ ١١٢، ١٧٤۔ ٢٢٧، و ج٧، ص ٣٣٦.

۲۳۶

نے مہاجروں کی خاطر اپنے حق کو نظر انداز کردیا۔(١) اور بارگاہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں مہاجروں کی طرف سے ان کی کوششوں کا شکریہ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے حیرت آور تھا۔(٢) خداوند عالم نے اس موقع پر انصار کی ایثارگری کو اس طرح سراہا ہے۔

''یہ مال ان مہاجر فقراء کے لئے بھی ہے جنھیں ان کے اموال سے محروم اور گھروں سے نکال باہر کردیا گیا ہے اور وہ صرف خدا کے فضل اور اس کی مرضی کے طلبگار ہیں اور خدا و رسول کی مدد کرنے والے ہیں کہ یہی لوگ دعوئے ایمان میں سچے ہیں۔ اور جن لوگوں نے دارالہجرت اور ا یمان کو ان سے پہلے اختیار کیا تھا وہ ہجرت کرنے والوں کو دوست رکھتے ہیں اور جو کچھ انھیں دیا گیا ہے اپنے دلوں میں اس کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں اور اپنے نفوس پر دوسروں کو مقدم کرتے ہیں ، چاہے انہیں کتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہو۔ اور جسے بھی اس کے نفس کی حرص سے بچالیا جائے وہی لوگ نجات پانے والے ہیں''۔(٣)

صحرا نشینوں کا مزاج دو طریقے کا تھا ایک طریقہ ان کا یہ تھا کہ وہ اپنے قبیلہ کے اندر اپنے اعزاء و اقرباء کی مدد و نصرت کرتے تھے۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے ان کی اس خصوصیت کو اسلامی وحدت اور اتفاق کی راہ میں استعمال کیا (کہ مہاجروں کے ساتھ انصار کی ایثار و قربانی اس کا ایک جلوہ ہے) اور ان کا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ ان کے مزاج میں،بیگانہ افراد سے جنگ و جدال کرنا تھا۔ پیغمبر ا کرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے اس جذبہ

______________________

(١)واقدی، المغازی، تحقیق: مارسڈن جانس، (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات)، ج١، ص٣٧٩؛ ابن شبہ، تاریخ المدینة المنورة، تحقیق: فہیم محمد شلتوت (قم: دار الفکر، ١٤١٠ھ.ق)، ج٢، ص٢٨٩۔

(٢) مسند احمد، ج٣، ص ٢٠٤؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٢٩٢؛ ابن کثیر، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٢٢٨؛ ابن شبہ، گزشتہ حوالہ، ص٤٩٠۔

(٣) سورۂ حشر، آیت ٩۔ ٨۔

۲۳۷

کو دشمنان اسلام سے جنگ کرنے میں اور ان کے حملوں کا دفاع کرنے میں استعمال کیا۔(١)

______________________

(١)''محمد رسول اللّٰه و الذین معه اشداء علی الکفار رحماء بینهم'' (سورۂ فتح، آیت ٢٩.)

یہودیوں کے ان تین قبیلوں کے اصلی وطن اور نسب کے بارے میں مورخین کے درمیان اتفاق نظر نہیں پایاجاتا اس سلسلہ میں تاریخی اخبار و اسناد کی آشفتگی اور تناقض کے باعث، حقیقت کی تعیین بہت مشکل و دشوار ہوگئی ہے۔ مشہور یہ ہے کہ جب شام میں یہودیوں کے اوپر، شہنشاہ روم کی جانب سے سختی اور دباؤ بڑھا تو وہ جزیرة العرب کی سمت مدینہ میں چلے گئے اور وہاں جاکر بس گئے۔ (معجم البلدان، ج٥، ص ٨٤، لغت مدینہ، وفاء الوفاء ، ج١، ص ١٦٠)، قحطانی (اوس و خزرج) مارب بند ٹوٹنے کے بعد وہاں گئے اور اس کے کنارے جاکر بس گئے۔ (معجم البلدان، ج١، ص ٣٦؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، (بیروت: دار صادر، ج١، ص ٦٥٦) اور جیسا کہ اس سے قبل ہم بیان کرچکے ہیں کہ ان دو گروہوں کے درمیان آپس میں کشمکش پائی جاتی تھی۔لیکن کچھ مورخین کا عقیدہ ہے کہ وہ جزیرة العرب کے مقامی عرب تھے اور یہودیوں کی تبلیغات کے نتیجہ میں اس دین کوانھوں نے اپنالیا تھا۔ (احمد سوسہ، مفصل العرب والیہود فی التاریخ، (وزارة الثقافہ و الاعلام العراقیہ، ط ٥، ١٩٨١عیسوی)، ص ٦٢٩۔ ٦٢٩)، اور بعض دوسرے مورخین کا کہنا ہے کہ مدینہ میں یہودیوں کے بسنے کی تاریخ حضرت موسیٰ کے زمانہ میں بتائی گئی ہے جو ایک افسانہ اور من گڑھت قصہ ہے (معجم البلدان، ج٥، ص ٨٤؛ وفاء الوفاء ، ج١، ص ١٥٧) اور بعض تاریخی کتابوں و نیز کچھ روایات میں یہ نقل ہوا ہے کہ ان کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نشانیوں کے سلسلہ میں جو آگاہی تھی اس کی بنا پر وہ آپ کے محل ہجرت کی تلاش میں، فدک ، خیبر، تیماء اور یثرب ( مدینہ) گئے اور وہاں جاکر بس گئے۔ (معجم البلدان، ج٥، ص ٨٤؛ وفاء الوفائ، ج١، ص ١٦٠؛ کلینی ، الروضہ من الکافی، ص ٣٠٩؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٥، ص ٢٢٦) یہ مفہوم، پہلے نظریہ کے مطابق اوراس کے ساتھ جمع ہوسکتاہے۔ کیونکہ یہ بات ممکن ہے کہ وہ لوگ روم کے دباؤ کے بعد، پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے عنقریب مبعوث ہونے کے سلسلہ میں جو خبریں رکھتے تھے) اس کی بنا پر وہ اس علاقہ کی طرف چلے گئے ہوں اور روایتیں بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہیں۔(عبد القادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق، تالیف ابن عساکر، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط ٣، ١٤٠٧ھ.ق)، ج١، ص ٣٥١؛ وفاء الوفاء ، ج ١، ص ١٦٠)، یہودیوں کے ان تین قبیلوں کے نسب کے بارے میں بھی ( گزشتہ حاشیہ کا بقیہ)۔اختلاف نظر پایا جاتاہے کہ کیا یہ بنی اسرائیل کے یہودیوں میں سے تھے یا عرب نسل کے تھے؟ کچھ لوگ دوسرے نظریہ پر زور دیتے ہیں۔ (احمد سوسہ، گزشتہ حوالہ، ص ٦٢٧)۔ یعقوبی بھی قبیلۂ بنی نضیر اور بنی قریظہ کو، نسل عرب سے قرار دیتا ہے۔ (تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٤٢۔ ٤٠؛ رجوع کریں: وفاء الوفائ، ج١، ص ١٦٢) شاید یہ کہا جاسکتاہے۔ قرآن کی متعدد آیات میں یہودیوں کو ''بنی اسرائیل'' کے عنوان سے خطاب کیا گیا ہے جو کہ جزیرة العرب کے یہودیوں پر بھی صادق آتا تھا اور نیز پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م سے یہودیوں کی مخالفت اس نسلی جذبہ کے تحت کہ وہ بنی اسرائیل سے نہیں ہیں اور اسی طرح عرب کے علمائے نساب کی جانب سے ان کے نسب کو بیان نہ کیاجانا (جبکہ ان کا سارا دارومدار قبائل عرب کے نسب کی حفاظت پر تھا) ایساقرینہ ہے جو پہلے نظریہ کے درست ہونے کو بتاتا ہے۔ بہرحال چونکہ اس سلسلہ میں مزید تنقید و تحقیق اس کتاب کے دائرہ سے باہر ہے لہٰذا اتنے ہی پر اکتفا کرتے ہیں.

۲۳۸

یہودیوں کے تین قبیلوں کے ساتھ امن معاہدہ

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے عمومی عہد و پیمان کے علاوہ، (جس میں اوس و خزرج کے علاوہ یہودیوں کے یہ دو قبیلے بھی شریک تھے) یہودیوں کے تینوں قبیلوں بنی قینقاع، بنی نضیر اور بنی قریظہ میں سے ہر ایک کے ساتھ الگ الگ عہد و پیمان کیا کہ جس کو ''پیمان عدم تجاوز'' کا نام دیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل بیان کرچکے ہیں کہ یہ تینوں قبیلے مدینہ اور اس کے اطراف میں زندگی بسر کرتے تھے اور یہ لوگ اس پیمان میں پابند ہوئے تھے کہ مندرجہ ذیل چیزوں پر عمل کریں گے:

١۔ مسلمانوں کے دشمن کی مدد نہیں کریں گے اوران کو اسلحہ، سواری اور جنگی وسائل نہیں دیں گے۔

٢۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کے ضرر میں کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے۔اور علی الاعلان اور چھپ کر کسی طرح سے انھیں ضرر نہیں پہچائیں گے۔

٣۔ اگر اس معاہدہ کے برخلاف انھوں نے عمل کیا تو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ہر طرح کی سزا دینے کا حق ہے چاہے وہ، ان کو قتل کریںیا ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر کریں یا ان کی جائیداد ضبط کرلیں۔

اس معاہدہ پر ترتیب وار تینوں قبیلوں کے سرداروں نے یعنی ''مخیریق ، حی بن اخطب، اور کعب ابن اسد'' نے دستخط کئے۔(١)

گویا اس وقت یہودیوں کو مسلمانوں کی طرف سے خطرے کا احساس نہیں تھا۔ یا اپنے لئے بے طرفی بہتر سمجھتے تھے اور سوچتے تھے کہ اسلام کے دوسرے دشمن، مسلمانوں کی شکست کے لئے کافی ہیں۔ لہٰذا اس طرح کے عہد و پیمان کے کرنے میں وہ پیش قدم تھے۔(٢)

______________________

(١) طبری، اعلام الوری باعلام الھدیٰ (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ط٣)، ص٦٩؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٩، ص١١١۔ ١١٠؛ رجوع کریں: واقدی، مغازی، ج١، ص١٧٦، ٣٦٥، ٣٦٧ و ج٢، ص٤٥٤؛ ابن ہشام، السیر ة النبویہ، ج٣، ص٢٣١؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٤٣۔ بعد میں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اس عہدنامہ کی رو سے انہیں سزائیںدیں۔

(٢) مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ٦٩ اور ١١٠.

۲۳۹

ان اقدامات کی وجہ سے مدینہ اوراس کے اطراف کا ماحول پرامن ہوگیاتھا اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فتنہ و آشوب سے بے فکر ہوگئے تھے۔ اور وقت اس بات کا آگیا تھا کہ قریش کے خطرے سے مقابلہ کرنے کے لئے کوئی چارہ اور تدبیر اپنائیں اور ایک نئے معاشرے کی بنیاد کے مقدمات فراہم کریں۔

منافقین

یہودیوں کے گروہ کے علاوہ دوسرے گروہ بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کے بعد مدینہ میں وجود میں آئے کہ قرآن نے ان کو ''منافقین'' کہا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو بظاہر اپنے کو مسلمان کہتے تھے لیکن در حقیقت یہ بت پرست(٢) اور ان میں بعض یہودی(٣) تھے۔

ان لوگوں نے جب اسلام کی روز بروز بڑھتی ہوئی قدرت کو دیکھا اور علی الاعلان مقابلہ کرنے سے عاجز ہوگئے تو بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر خود کو مسلمانوں کی صفوں میں داخل کردیا۔

منافقین، یہودیوں سے راز و نیاز رکھتے تھے اور چھپ کر مسلمانوں کے خلاف سازشیںکرتے تھے۔ ان کا سرغنہ اور لیڈر عبد اللہ ابن ابی تھا جس کے بارے میں ہم کہہ چکے ہیں کہ مدینہ میں اس کی رہبری کے مقدمات فراہم ہوچکے تھے لیکن پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے تشریف لانے سے مدینہ کے سیاسی حالات بدل گئے اور وہ اس مقام پر پہنچنے سے محروم ہوگیا۔ اور اس کے دل میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے

______________________

(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٦٠ اور ١٦٦؛ نویری، نہایة الارب، ترجمہ: محمود مہدی دامغانی (تہران انتشاراتامیر کبیر، ط ١، ١٣٦٤)، ج١، ص ٣٣٢.

(٢) حلبی، السیرة الحلبیہ، (انسان العیون)، (بیروت: دار المعارفہ)، ج١، ص ٣٣٧؛ نویری، گزشتہ حوالہ، ص ٣٣٩؛ ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٤.

۲۴۰