تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 157670
ڈاؤنلوڈ: 4712

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157670 / ڈاؤنلوڈ: 4712
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

کینہ و حسد پیدا ہوگیا۔(١)

منافقین کی تخریب کاریاں اس قدر زیادہ تھیں کہ قرآن نے مختلف سوروں میں جیسے، بقرہ ، آل عمران، توبہ، نسائ، مائدہ، انفال، عنکبوت، احزاب، فتح ، حدید، منافقون، حشر و تحریم میں ان کا تذکرہ فرمایا ہے، لہٰذا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی لڑائی اس گروہ سے، مشرکوں اور یہودیوں سے زیادہ مشکل اور سخت تھی۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کے سامنے، اپنے کو مسلمان بتاتے تھے لہٰذا پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام کے ظاہری حکم کے تحت ان سے جنگ نہیں کرسکتے تھے۔ اسلام کے خلاف اس گروہ کی خراب کاریاں، منظم طریقے سے ایک گروپ کی شکل میں، عبد اللہ ابن ابی کی موت ( ٩ ھ)،(٢) تک اسی طرح جاری رہیں۔ لیکن اس کے بعد سست اور بہت کم ہوگئیں۔

______________________

(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٢٣٨۔ ٢٣٧؛ بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٦٥؛ نویری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٣٨؛ ابن شبہ، تاریخ المدینة المنورة، تحقیق: فہیم محمد شلتوت (قم: دار الفکر، ١٤١٠ھ.ق)، ج١، ص٣٥٧؛ احمد زینی دحلان، السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ (بیروت: دار المعرفہ، ط٢)، ج١، ص١٨٤۔

(٢) مسعودی، التنبیہ والاشراف (قاہرہ: دار الصاوی للطبع و النشر)، ص ٢٣٧.

۲۴۱

تیسری فصل

یہودیوں کی سازشیں

یہودیوں کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزیاں

یہودی (مسیحیوں کی طرح) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے عنقریب، مبعوث ہونے سے آگاہ تھے۔ قرآن مجید کے بقول ''اہل کتاب'' پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کو اپنی اولاد کی طرح پہچانتے تھے(١) اور انھوں نے جن اوصاف اور نشانیوں کو توریت اورانجیل میں پڑھ رکھا تھا، ان کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اندر منطبق پاتے تھے۔(٢)

اس بنا پر امید یہ تھی کہ یہ لوگ اوس و خزرج سے پہلے مسلمان ہو جائیں گے کیونکہ جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ اسلام کی طرف ان دو قبیلوں کے رجحانات کا ایک سبب یہ تھا کہ یہودیوں نے پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی بعثت کے بارے میں جو پیشین گوئیاں کر رکھی تھیں وہ ''وارننگ'' کی صورت میں تھیں۔ لیکن ان میں سے صرف چند افراد نے اسلام قبول کیا۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے دین پر قائم تھے، ہجرت کے ابتدائی سالوں میں ان کے روابط مسلمانوں سے ٹھیک تھے اور اس چیز پرشاہد؛ ان کا وہ معاہدہ ہے

______________________

(١) سورۂ بقرہ، آیت ١٤٦؛ سورۂ انعام، آیت ٢٠.

(٢) سورۂ اعراف، آیت ١٥٧؛ سورۂ آل عمران، آیت ٨١؛ سورۂ انعام، آیت ١١٤؛ سورۂ قصص، آیت ٥٢.

۲۴۲

جو''عدم تجاوز'' کے عنوان سے پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے ساتھ کیا گیاتھا۔ لیکن ابھی کچھ دن نہیں گزرے تھے کہ انھوں نے اپنا رویہ بدل دیا اور مخالفت پر اتر آئے ان کی ایک شرارت یہ تھی کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے صفات کو چھپاتے یا بدل دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صفات اپنی کتابوں میں نہیں ملے ہیں اور اس کے صفات، اس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صفات نہیں ہیں جو آنے والا ہے۔(١)

قرآن نے ان کے اس رویہ او رطرز عمل کی مذمت کی ہے:

''اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے کتاب آئی جوان کے توریت وغیرہ کی تصدیق بھی کرنے والی ہے اور اس کے پہلے وہ دشمنوںکے مقابلے میں اسی کے ذریعہ طلب فتح بھی کرتے تھے لیکن اس کے آتے ہی منکر ہوگئے حالانکہ اسے پہچانتے بھی تھے تو اب کافروں پر خدا کی لعنت ہے''۔(٢)

یہودی مختلف طریقے سے مخالفت اور شرارتیں کرتے تھے ان میں سے کچھ یہ ہیں:

١۔ نامعقول او رغیر منطقی چیزوں کی فرمائش کرتے تھے جیسے وہ مطالبہ کرتے تھے کہ ان کیلئے آسمان سے کوئی کتاب یا (نامہ) نازل ہو۔(٣)

٢۔ الٹے سیدھے اور پیچیدہ دینی سوالات کرتے تھے تاکہ مسلمانوں کے(٤) ذہن پریشان اور چکرا جائیں۔ اگر چہ تمام جگہوں پر پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے متقن اور واضح جوابات دیئے لیکن اس کا نتیجہ وہ برعکس نکالتے تھے۔

______________________

(١)حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٢٠؛ بیہقی، ج٢، ص ١٨٦؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص ٥١؛ واقدی، المغازی، ج١، ص ٣٦٧.

(٢) سورۂ بقرہ، آیت ٨٩.

(٣) سورۂ نسائ، آیت ١٥٣؛ سورۂ آل عمران، آیت ١٨٣.

(٤) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٦٠؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٥٤؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٢٢۔ ٣٢١؛ زینی دحلان، السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص ١٨٠۔ ١٧٨.

۲۴۳

٣۔ مسلمانوں کی ایمانی اور اعتقادی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے تھے جیسا کہ وہ ایک دوسرے سے کہتے تھے: (جاؤ اور بظاہر) جو کچھ مومنوں پر نازل ہوا ہے اس پر صبح کو ایمان لے آؤ اور شام کو انکار کردو (اور پلٹ آؤ ) شاید اس طرح وہ لوگ بھی پلٹ جائیں۔(١)

٤۔ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کی کوشش کرتے تھے جیسا کہ ان میں سے ایک شخص جس کا نام شأس بن قیس تھا وہ چاہتا تھا کہ اوس و خزرج کے درمیان پرانے کینہ و حسد کو جگا کر لڑائی جھگڑے اور جنگ کی آگ کو شعلہ ور کردے لیکن پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے بر وقت اقدام سے یہ سازش ناکام ہوگئی۔(٢)

یہودیوں کی مخالفت کے اسباب

یہودی دراصل ایک منافع پرست، لالچی(٣) ، ہٹ دھرم اور بہانہ باز لوگ تھے۔ قرآن مجید نے یہودیوں اور مشرکوں کو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیاہے۔(٤) کیونکہ یہ دونوں گروہ، صاحب منطق اور استدلال نہیں تھے. اپنی کینہ توزی کے باعث ہر طرح کی مخالفت اور خلاف ورزی سے باز نہیں آتے تھے یہودیوں کی اسلام سے مخالفت کے اسباب و علل کو چند چیزوں میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے:

١۔ یہودیوں کی متعصب فکریں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر رشک کرتی تھیں لہٰذا وہ کسی ایسے کی پیغمبری کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے جو ان کی نسل سے نہ ہو۔(٥)

______________________

(١) سورۂ آل عمران، آیت ٧٢.

(٢) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٠٤، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٣٢٠۔ ٣١٩.

(٣) ''و لتجدنہم احرص الناس علی حیوٰة...'' (سورۂ بقرہ، آیت ٩٦.)

(٤) سورۂ مائدہ، آیت ٨٢.

(٥) سورۂ بقرہ، آیت ٩٠، ١٠٩؛ سورۂ نسائ، آیت ٥٤؛ ابن ہشام،گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٦٠؛ زینی دحلان، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٧٦؛ واقدی، المغازی، ج١، ص ٣٦٥.

۲۴۴

٢۔ وہ لوگ (یہودی) نفوذ اسلام سے قبل مدینہ میں اقتصادی اور سماجی لحاظ سے اچھی پوزیشن رکھتے تھے کیونکہ وہ کاروبار، صنعت ، کاشتکاری(١) اور ربا خوری(٢) کے ذریعہ شہر کے اقتصاد کو اپنے کنٹرول میں لئے ہوئے تھے۔

دوسری طرف سے اوس و خزرج کے درمیان اختلافات ڈال کر ان کی قدرت و طاقت کو کمزور کردیاتھا۔ اور بنی قینقاع، خزرجیوں کے ساتھ رہ کر، اور بنی نضیر اور بنی قریظہ، اوسیوں کے ساتھ رہ کر اختلافات اور قبائلی جنگ کی آگ ان کے درمیان بھڑکا چکے تھے۔(٣)

ہجرت کے بعد اوس و خزرج پرچم اسلام کے زیر سایہ اکٹھا ہوگئے اور اسلام کی روز بروز بڑھتی ہوئی قدرت و طاقت کا وہ احساس کرنے لگے اور تصور کرتے تھے کہ بہت جلد علاقہ پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہو جائے گی اور وہ اپنا مقام کھو بیٹھیں گے اور یہ چیز ان کے تحمل سے باہر تھی۔

٣۔ علمائے یہود وہاں کے سماج میں اپنا ایک بڑا مقام اور درجہ رکھتے تھے اور عام لوگ بغیر قید و شرط کے ان کی پیروی اور اطاعت کرتے تھے۔ یہاں تک جو احکام وہ خدا کے حکم کے برخلاف کہتے تھے اسے بھی آنکھ بند کرکے وہ قبول کرلیتے تھے۔(٤)

______________________

(١) بنی قینقاع زرگری (زیورات) کا کام کرتے تھے (مونٹ گری واٹ، محمد فی المدینہ، تعریب: شعبان برکات، بیروت: المکتبة العصریہ) ، اور ایک بازار ان کے نام کا مدینہ میں موجود تھا (ابن شبہ، تاریخ المدینہ المنورہ، تحقیق: فہیم محمد شلتوت، قم: دار الفکر، ج١، ص ٣٠٦، یاقوت حموی، معجم البلدان، ج٤، ص ٤٢٤؛ اور بنی نضیر اور بنی قریظہ نے اطراف مدینہ میں قلعے اور کالونیاں بنا رکھی تھیں و کاشت کاری اور باغ داری کا کام کرتے تھے۔ (یاقوت حموی، گزشتہ حوالہ، ج١، کلمہ بنی نضیر اور بطحان؛ نور الدین السمہودی، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی ، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط ٣، ١٤٠١ھ.ق)، ج١، ص ١٦١.)

(٢) سورۂ نسائ، آیت ١٦١.

(٣) سورۂ نسائ، آیت ١٦١.

(٤) سورۂ توبہ، آیت ٣١.

۲۴۵

اور اس سے قطع نظر، ان کے آمدنی کا ذریعہ تحفے تحائف اور خیرات وغیرہ تھیں جسے عام یہودی توریت کی پاسداری اور محافظت کے عنوان سے دیتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ ڈرتے تھے کہ اگر یہودیوں نے اسلام کو قبول کرلیا تو یہ آمدنی ختم ہو جائے گی۔(١)

٤۔ وہ لوگ، جناب جبرئیل کے ساتھ (جو کہ خدا کا پیغام لے کر پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م پر نازل ہوتے تھے) دشمنی کرتے تھے(٢) اور اس بات کو بہانہ قرار دیکر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت کرتے تھے۔

٥۔ قرآن مجید یہودیوں کے بہت سارے عقائد و اعمال اور توریت کی تعلیمات کو باطل قرار دیتا ہے(٣) اور بہت سارے احکام اور پروگراموں میں یہودیوں کی مخالفت کرتا ہے۔(٤)

اس موضوع کا تعلق گزشتہ زمانہ سے ہے؛ ظہور اسلام سے قبل، اہل کتاب، ثقافتی لحاظ سے بت پرستوں کے مقابلے میں بلند درجہ رکھتے تھے اور مشرکین ان کو احترام کی نظروں سے دیکھتے تھے۔(٥)

ظہور اسلام کے بعد بھی یہ ذھنیت کم و بیش باقی تھی۔ اس بنا پر مدینہ کے مسلمان کبھی دینی مسائل کے بارے میں ان سے سوالات کرلیتے تھے اور وہ توریت کی باتوں کو عربی میں مسلمانوں کے

______________________

(١) سورۂ بقرہ، آیت ٧٩؛ سورۂ آل عمران، آیت١٨٧؛ سورۂ توبہ، آیت٣٤؛ بیہقی، دلائل النبوة، ترجمہ: محمود مہدوی دامغانی (تہران: مرکز انتشاراتعلمی و فرہنکی، ١٣٦١)، ج٢، ص١٨٧۔ ١٨٦۔

(٢) سورۂ بقرہ، آیت ٩٨؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ، (بیروت: دار صادر)، ج١، ص١٧٥؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، (انسان العیون) (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص٣٢٩۔

(٣) سورۂ نسائ، آیت ٤٦، ١٥٨۔ ١٥٥؛ سورۂ توبہ، آیت ٣٠۔

(٤) مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ١٤٠٣ھ.ق)، ج٣، ص١٠٦؛ رجوع کریں: صحیح بخاری، شرح و تحقیق: الشیخ قاسم الشماعی الرفاعی (بیروت: دارالقلم، ط١، ١٤٠٧ھ.ق)، ط٧، باب ٤٨٦، حدیث ١١٨٨؛ صحیح مسلم، بشرح النووی، ج١٤، ص٨٠۔

(٥) مرتضی العاملی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص١٧٦۔ ١٧٥۔

۲۴۶

لئے تفسیر کرتے تھے۔ جبکہ ان کی مذہبی معلومات زیادہ غلط اورتحریف شدہ ہوتی تھیں۔ اس وجہ سے پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ اہل کتاب کی باتوں کی تصدیق نہ کریں۔(١)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک دن عمر بن خطاب سے فرمایا: اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر خود حضرت موسیٰ زندہ ہوتے تو وہ میری پیروی کرتے(٢) اس طرح کے مسائل نے یہودیوں کی دشمنی کو بڑھا دیا تھا۔ لہٰذا وہ کہتے تھے کہ یہ شخص ہمارے تمام پروگراموں کی مخالفت کرنا چاہتا ہے۔(٣)

قبلہ کی تبدیلی

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، مکہ میں اپنی مدت اقامت کے دوران او رہجرت کے بعد کچھ عرصے تک حکم خدا سے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے. یہودیوں نے اپنی دشمنی کو آشکار کرنے کے بعد، اس موضوع کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف تبلیغ اور زہر چھڑکنے کے لئے دستاویز قرار دیا اور کہتے تھے: وہ اپنے دین میں استقلال نہیں رکھتا اور ہمارے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا ہے وہ لوگ اس بات پر زیادہ زور دیتے تھے۔

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م اس صورت حال سے آسودہ خاطر تھے اور راتوں کو آسمان کی طرف نگاہ کر کے نزول وحی کے منتظر رہتے تھے تاکہ نئے فرمان کے پہنچنے کے ساتھ یہودیوں کی

______________________

(١) صحیح بخاری، گزشتہ طبع، ج٩، باب ١١٩٠، ص٧٧٢۔

(٢) حلبی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٧٢؛ رجوع کریں: ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص٥٢۔

(٣) حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٣٣٢۔

۲۴۷

تبلیغات ختم ہو جائیں۔(١)

ہجرت کے سترہ مہینے کے بعد جس وقت پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م مسلمانوں کے ساتھ ظہر کی دو رکعت نماز ''بیت المقدس'' کی طرف پڑھ چکے تھے فرشتۂ وحی نازل ہوا اور قبلہ کی تبدیلی کا حکم سنایا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کعبہ کی طرف موڑ دیا اور پیغمبر نے بعد کی دو رکعت نماز کعبہ(٢) کی جانب رخ کر کے پڑھی۔ خدا نے اس چیز

______________________

(١)ابن واضح، تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢، ص٣٤؛ محمد بن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٢٤٢؛ الشیخ للحر العاملی، وسائل الشیعہ،ط٤، ١٣٩١ھ.ق)، ج٣، کتاب الصلوة، ابواب القبلہ، باب٢، حدیث٣، ص٢١٦؛ طباطبائی، المیزان، (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، ط٣، ١٣٩٣ھ.ق)، ج١، ص ٣٣١۔ قبلہ کی تبدیلی کی تاریخ، ہجرت کے بعد سات مہینے سے سترہ مہینے نقل ہوئی ہے۔ (وفاء الوفائ، ج١، ص٣٦٤۔ ٣٦١؛ بحار الانوار، ج١٩، ص ١١٣) لیکن علامہ طباطبائی ١٧ مہینے کی تائید فرماتے ہیں۔ (وہی حوالہ).

(٢) مورخین کے ایک گروہ کے کہنے کے مطابق یہ واقعہ، قبیلۂ بنی سلمہ کی ایک مسجد میں رونما ہوا جو ''مسجد القبلتین'' سے مشہور ہوئی۔ (ابن واضح، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٣٤؛ محمد بن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٤٢؛ سمہودی، وفاء الوفائ، ج١، ص ٣٦٢۔ ٣٦١؛ زمخشری ، تفسیر الکشاف، (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص ١٠١؛ لیکن ایک دوسرے گروہ نے قبیلۂ بنی سالم بن عوف کی مسجد کو، جہاں پر پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے پہلی نماز جمعہ برگزار کی تھی واقعہ کی جگہ بتایاہے (طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٧١؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ١٢٤؛ علی بن ابراہیم سے نقل کے مطابق) اور کچھ تاریخی خبریں بتاتی ہیں کہ یہ واقعہ خود مسجد النبی میں رونما ہوا (ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٤١؛ سمہودی، وفاء الوفائ، ج١، ص ٣٦٠؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٩، ص ٢٠١۔ ٢٠٠) مسجد القبلتین محل وقوع کے لحاظ سے جس کی ہمارے زمانے میں تعمیر نو ہوئی ہے اور مدینہ کے شمال میں واقع ہے قبیلہ بنی سلمہ سے میل کھاتی ہے ؛ کیونکہ قبیلہ بنی سالم، مدینہ کے جنوب میں بسا ہوا تھا بہرحال مورخین کے درمیان قبلہ کی تبدیلی کے مکان میں اختلاف نظر کا پایا جانا اس کی عظمت کو کم نہیں کرتا ہے۔

۲۴۸

کا تذکرہ اس طرح سے فرمایا ہے:

''اے رسول! ہم آپ کی توجہ کو آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں تو ہم عنقریب آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑ دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں لہٰذا آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیجئے اور جہاں بھی رہیئے اسی طرف رخ کیجئے ۔ اہل کتاب خوب جانتے ہیں کہ خدا کی طرف سے یہی برحق ہے اور اللہ ان لوگوںکے اعمال سے غافل نہیں ہے''۔(١)

قبلہ کی تبدیلی سے مسلمانوں کا استقلال پورا ہوگیا اور یہ یہودیوں کے لئے بہت ہی گراں حادثہ تھا۔ لہٰذا انھوں نے اب دوسرے طریقے سے کہنا شروع کردیا کہ کیوں مسلمانوں نے اپنے قدیمی قبلہ سے منھ پھیر لیا؟ خداوند عالم نے قبلہ کی تبدیلی سے پہلے ہی یہودیوں کی حرکت سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آگاہ کردیا تھا اور اس کے جواب کو بھی وضاحت کے ساتھ بیان کردیا تھا۔ کہ مشرق و مغرب اور روئے زمین کا ہر حصہ خدا کا ہے وہ جدھر نماز پڑھنے کا حکم دے، ادھر نماز پڑھنا چاہئے اور زمین کا کوئی حصہ اپنی جگہ پر ذاتی کمال نہیں رکھتا''۔

''عنقریب احمق لوگ یہ کہیں گے کہ ان مسلمانوں کواس قبلہ سے کس نے موڑ دیا ہے جس پر پہلے قائم تھے تو اے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! کہہ دیجئے کہ مشرق و مغرب سب خدا کے ہیں وہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت کردیتا ہے''۔(٢)

اس جواب کے بعد پھر یہودیوں کے پاس منفی تبلیغ کا کوئی بہانہ نہیں رہ گیا تھا اور قبلہ کی تبدیلی کے ساتھ دو نئے اور پرانے آئین کے پیرووں کے درمیان مشترک رابطہ ختم ہوگیا اور یہ دو گروہ ایک دوسرے سے جدا ہوگئے اور ان کے درمیان روابط میں خلل پڑ گیا۔

'' آپ ان اہل کتاب کے لئے کوئی بھی آیت اور دلیل پیش کردیں یہ آپ کے قبلہ کو ہرگز نہ مانیں گے اور آپ بھی ان کے قبلہ کو نہ مانیں گے اور یہ آپس میں بھی ایک دوسرے کے قبلہ کو نہیں مانتے اور

______________________

(١) سورۂ بقرہ، آیت ١٤٤

(٢) سورۂ بقرہ، آیت ١٤٢

۲۴۹

اپنے اور اے پیغمبر!آپ علم کے آجانے کے بعد اگر ان کے خواہشات کا اتباع کرلیں گے تو آپ کا شمار ظالموں میں ہوجائے گا''۔(١)

قرآن مجید کی آیات سے اس طرح استفادہ ہوتا ہے کہ قبلہ کی تغییرمیں خداوند عالم کی طرف سے یہودیوں پر انتقاد کے علاوہ مومنین کا امتحان بھی لیا گیا ہے کہ کس حد تک وہ ایمان و اخلاص رکھتے ہیں اور خدا کے حکم کے سامنے تسلیم ہیں۔

''اور ہم نے پہلے قبلہ کو صرف اس لئے قبلہ بنایاتھا کہ ہم یہ دیکھیں کہ کون رسول کا اتباع کرتا ہے اور کون پچھلے پاؤں پلٹ جاتا ہے۔اگر چہ یہ قبلہ ان لوگوں کے علاوہ سب پر گراں ہے جن کی اللہ نے ہدایت کردی ہے اور خدا تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرتا( سابق قبلہ کی طرف تمہاری نمازیں صحیح ہیں ) کیونکہ خدا بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے والا ہے''۔(٢)

کچھ روایات میں، اس امتحان کی اس طرح تفسیر کی گئی ہے کہ مکہ کے لوگ کعبہ کے فدائی تھے۔ خداوند عالم نے مکہ میں وقتی طور پر، بیت المقدس کو اس لئے قبلہ قرار دیا تاکہ خدا کے نیک اور فرمانبردار بندے (جواپنی خواہشات کے برخلاف صرف خدا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کی پیروی میں اس کی طرف نماز پڑھتے ہیں) خدا کے نافرمان اور خود رائے بندوں سے الگ پہچانے جائیں۔ لیکن مدینہ میں، جہاں زیادہ تر لوگ بیت المقدس کے طرفدار تھے خداوند عالم نے ان کے لئے کعبہ کو قبلہ قرار دیا تاکہ وہاں بھی یہ دو دستے معین ہوسکیں۔(٣)

______________________

(١) سورۂ بقرہ، آیت ١٤٥

(٢) سورۂ بقرہ، آیت ١٤٣.

(٣) طباطبائی، المیزان (بیروت: موسسة الاعلمی، للمطبوعات، ط ٣، ١٣٩٣ھ.ق)، ج١، ص ٣٣٣؛ بعض روایات و نیز کچھ تاریخی خبروں کی بنیاد پر پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م مکہ میں بھی کعبہ کی طرف پشت نہیں کرتے تھے۔ (وسائل الشیعہ، ج٣، ص ٢١٦، کتاب الصلاة، ابواب القبلہ، حدیث٤)، بلکہ اس کو بیت المقدس کے ساتھ ایک سمت میں قرار دیتے تھے اوردونوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ (حلی، السیرة الحلبیہ، ج٢، ص ٣٥٧.)

۲۵۰

چوتھی فصل

لشکر اسلام کی تشکیل

اسلامی فوج کا قیام

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م مکہ میں سکونت کے دوران فقط ایک مبلغ تھے اور لوگوں کے لئے عملی میدان میں ایک الٰہی راہنما تھے اور ان کی خدمات، لوگوں کی ہدایت و راہنمائی اور بت پرستوں اور مشرکوں سے فکری اوراعتقادی جنگ تک محدود تھیں۔ لیکن مدینہ میں آنے کے بعد، دینی رسالت کے ابلاغ و راہنمائی کے علاوہ مسلمانوں کی سیاسی رہبری بھی آپ کے ذمہ آگئی تھی؛ کیونکہ مدینہ میں نئی صورت حال پیش آگئی تھی اور آپ نے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ایک نئے معاشرے کے قیام کے سلسلہ میں ابتدائی قدم اٹھایا تھا۔ اس بنا پر آپ احتمالی خطرات اور دشواریوں سے مسلمانوں کو آگاہ کرکے ایک دور اندیش، شائستہ اور آگاہ سیاسی رہبر کی شکل میں اس کی چارہ جوئی کی فکر میں لگ گئے، مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیا ن رشتہ اخوت و برادری کی برقراری، عمومی عہد و پیمان کی تنظیم و اجراء و نیز یہودیوں کے ساتھ عدم تجاوز کے معاہدہ پر دستخط یہ وہ اقدامات تھے جنھیں آپ نے بطور احتیاط انجام دیئے تھے۔

۲۵۱

جو سورے اور آیات مدینہ میں نازل ہوئیں وہ سیاسی اور سماجی احکام و دستورات پر مشتمل تھیں اوروہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیلئے سیاسی امور میں مفید اور راہ گشا تھیں۔ جیسے کہ خداوند عالم کی طرف سے جہاد اور دفاع کا حکم صادر ہوا(١) اور اس کے بعد پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے قصد کیا کہ ایک دفاعی فوج تشکیل دیں۔

اس فوج کا قیام عمل میں آنا اس لحاظ سے اہمیت رکھتا تھا کہ اس بات کا گمان تھا کہ مکہ کے مشرکین (جو ہجرت کے بعد مسلمانوں کو سزائیں اور تکلیف نہیںدے پا رہے تھے) اس مرتبہ مرکز اسلام (مدینہ) پر فوجی حملہ کردیں۔ اس بنا پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس طرح کے گمان کا مقابلہ کرنے کے لئے ہجرت کے پہلے سال کے آخر میں ایک اسلامی فوج کی بنیاد ڈالی۔ یہ فوج شروع میں تعداد اور جنگی سازو سامان کے لحاظ سے محدود تھی ۔ لیکن بہت جلدی دونوں لحاظ سے اسے ترقی ملی۔ یہاں تک کہ آغاز قیام میں جنگی ماموریت یا گشتی عملیات میں بھیجی جانے والی ٹولیاں ساٹھ افرادسے زیادہ پر مشتمل نہیں ہوتی تھیں۔ اور ان کی سب سے زیادہ تعداد جو بہت کم دیکھنے میں ائی دو سو سے زیادہ نہیں پہنچی۔(٢)

ہجرت کے دوسرے سال جنگ بدر میں ان کی تعداد تین سو سے تھوڑا زیادہ تھی۔ لیکن فتح مکہ میں (ہجرت کے آٹھویں سال ) سربازان اسلام کی تعداد دس ہزار افراد تک پہنچ گئی تھی۔ اور فوجی سازوسامان کے اعتبار سے بھی بہت اچھی حالت ہوگئی تھی۔

بہرحال یکے بعد دیگرے، واقعات کے رونما ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی پیش بینی درست تھی۔ کیونکہ ہجرت کے دوسرے سال طرفین کے درمیان متعدد جھڑپیں ہوئیں اگر مسلمانوں کے پاس دفاعی طاقت نہ ہوتی تو ان جھڑپوں کے نتیجہ میں مسلمان، مشرکوں کے ہاتھوں بری طرح سے مارے جاتے۔(٣)

______________________

(١) ''اذن.... یقاتلون بانہم ظلموا و ان اللّٰہ علی نصرہم لقدیر، الذین اخرجوا من دیارہم بغیر حق'' (سورۂ حج، آیت ٤٠۔ ٩٣)، اسی طرح سے رجوع کریں : المیزان، ج١٤، ص ٣٨٣؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٣٦.

(٢) ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، (بیروت: دار صادر)، ج٢،ص ١١٢.

(٣) پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے کل غزوات کی تعداد ٢٦ اور سریات کی تعداد ٣٦ نقل ہوئی ہے۔ (ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب ، ج١، ص ١٨٦، طبرسی، اعلام الوریٰ ، ص ٧٢)، کچھ مورخین نے سریات کی تعداد اس سے زیادہ نقل کی ہے (مسعودی، مروج الذھب، ج٢، ص ٢٨٢)، بخاری، ایک روایت میں ان کی تعداد ١٩ ذکرہوئی ہے (صحیح بخاری ، ج٦، ص ٣٢٧.)

۲۵۲

فوجی مشقیں

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انھیں تھوڑے سے سپاہیوں کے ذریعے ایک طرح کی چھوٹی فوجی نقل و حرکت شروع کردی جس کو درحقیقت ایک مکمل جنگ نہیں کہہ سکتے ہیں۔ اوران مشقوں میں سے کسی ایک میں دشمن سے نوک جھوک اور جنگ پیش نہیں آئی جیسے حمزہ بن عبد المطلب کا تیس افراد پر مشتمل سریہ (ہجرت کے آٹھویں مہینے میں) جس نے قریش کے قافلہ کو مکہ کی طرف پلٹتے وقت پیچھا کیا تھا۔اور عبیدہ بن حارث کا ساٹھ افراد پر مشتمل سریہ جس نے (آٹھویں مہینے میں) ابوسفیان کے گروہ کا پیچھا کیا۔ اور سعید بن وقاص کا بیس افراد پر مشتمل سریہ جس نے ( نویں مہینے میں )قریش کے قافلے کا پیچھا کیا۔ لیکن اس کو پانہیں سکا۔(١)

اسی طرح سے خود پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے (گیارہویں مہینے میں) مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ، قریش کے قافلے کا تعاقب کیا اور سرزمین ''ابوائ'' تک پہنچ گئے، لیکن کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سفر میں قبیلۂ ''بنی ضَمرة'' سے عہد و پیمان کیا کہ وہ بے طرف رہیں اور دشمنان اسلام کا ساتھ نہ دیں۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ربیع الاول کے مہینے (بارہویں مہینے) میں، کرز بن جابر فہری، جس نے گلۂ (ریوڑ) مدینہ کو غارت کردیا تھا اس کا تعاقب، سرزمین بدر تک کیا لیکن وہ مل نہ سکا، جمادی الآخر

______________________

(١) واقدی، المغازی، تحقیق: مارسڈن جونس، ج١، ص ١١۔ ٩؛ محمد بن جریر الطبری، تاریخ الامم والملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٢، ص ٢٥٩؛ رجوع کریں: ابن ہشام ، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٢٤٥۔ ٢٥١؛ ابن اسحاق نے ان سریات کو ٢ھ کے واقعات میں قرار دیا ہے۔ (طبری، گزشتہ حوالہ،) اگر بالفرض اس نقل کو ہم صحیح قرار دیں تو ہمیں قبول کرنا چاہیئے کہ اسلامی فوج کی تشکیل ٢ھ میں ہوئی ہے لیکن پھر بھی یہ مطلب موضوع کی اہمیت کو کم نہیں کرتا بلکہ اس سلسلہ میں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے عمل کی تیزی کو بتاتا ہے.

۲۵۳

میں ایک سو پچاس یا (دوسو) افراد کے ساتھ قریش کے تجارتی قافلہ کو جو کہ ابوسفیان کی سرپرستی میں (مکہ سے شام) جارہا تھا، اس کا تعاقب کیا (غزوہ ذات العشیرہ) اور اس بار بھی اس کے قافلہ تک نہ پہنچ سکے اور قبیلۂ ''بنی مدلج'' کے ساتھ عہد و پیمان کیا اور مدینہ پلٹ آئے(١) لہٰذا اس طرح کی چھوٹی فوجی نقل و حرکت کو درحقیقت فوجی مشقیں یا قدرت نمائی کہنا چاہیئے نہ واقعی جنگ۔

فوجی مشقوں سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مقاصد

قرائن سے پتہ چلتاہے کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کا ان چھوٹے سرایااور غزوات سے مقصد، نہ دشمنوں کو لوٹنا اور غارت کرنا تھا اور نہ ان سے جنگ اور ٹکراؤ کرنا تھا۔ کیونکہ (جیسا کہ ہم نے مشاہدہ کیا ہے) ایک طرف سے اسلامی سپاہیوں کی تعداد کم تھی اور دشمن کے سپاہیوں کی تعداد ان کے دو برابر تھی۔ اور دوسری طرف ان سرایا میں سے کچھ میں انصار بھی شریک تھے اور ان لوگوں نے ''عقبہ دوم'' کے عہد و پیمان میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مدینہ کے اندر دفاع کا وعدہ کیا تھا نہ کہ مدینہ کے باہر دشمن سے جنگ کرنے کا۔

اس کے علاوہ مدینہ کے لوگ کاشتکار اور باغبان بھی تھے اور بادیہ نشین قبائل کی طرح غارت گری اور لوٹ مار کی عادت نہیں رکھتے تھے۔ اور اگر اوس و خزرج آپس میں جنگ بھی کرتے تھے تو وہ مقامی پہلو رکھتا تھا ۔ او رجنگ کی آگ بھڑکانے والے یہودی ہوتے تھے وہ کبھی قافلوں کے مال کو لوٹا نہیں کرتے تھے یا قبائل کے اموال کو ان کے علاقے سے ہڑپ کرلے نہیں جاتے تھے۔ اس کے علاوہ اگر ان کا سامنا دشمن سے ہوتا تھا تو جنگ کی رغبت نہیں رکھتے تھے ۔ جیسا کہ حمزہ نے ایک شخص کے ذریعہ جو بے طرف تھا، جنگ کرنے سے پرہیز کیا۔(٢)

ان قرائن و شواہد کے لحاظ سے گویا پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م ان مشقوں سے خاص مقصد رکھتے تھے ۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:

______________________

(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ١٣۔ ١١؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٢٦١۔ ٢٥٩.

(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٩.

۲۵۴

١۔ شام کی طرف جانے والے قریش کے تجارتی راستے کو دھمکی اور وارننگ دینا ؛مکے کے تاجروں کے قافلے شہر مدینہ کے پاس سے بحر احمر کے درمیان سے ہوکر گزرتے تھے لہٰذا وہ شہر سے ١٣٠ کلو میٹر سے زیادہ فاصلہ نہیں رکھ سکتے تھے۔(١)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی اس نقل و حرکت کے ذ ریعہ، قریش کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ اگر وہ چاہیں کہ مدینہ میں بھی (مکہ کی طرح) مسلمانوں کے کاموں میں رخنہ ڈالیں، تو ان کا تجارتی راستہ خطرہ میں پڑجائے گا اور ان کا تجارتی مال مسلمانوں کے ذریعہ ضبط ہوسکتا ہے۔٭

یہ وارننگ قہری طور سے مشرکین مکہ کو، کہ جن کے نزدیک تجارت ایک حیاتی مسئلہ تھا ، روکنے کے لئے ایک قومی محرک تھا اور ایک واقعی دھمکی تھی تاکہ اپنے محاسبات میں، مسلمانوں کے ساتھ رویہ میں تجدید نظر کریں۔

البتہ یہ خیال رہے کہ مسلمانوں کو حق حاصل تھا کہ مشرکین مکہ کے ا موال کو ضبط کرلیں؛ کیونکہ انھوں نے مہاجرین کو مکہ ترک کرنے کے لئے مجبور کیا تھا اور ان کی جائداد کو ہڑپ لیا تھا۔(٢)

______________________

(١) مونٹ گری، محمد فی المدینہ، تعریب: شعبان برکات (بیروت: المکتبہ العصریہ)، ص٥.

٭ بعد میں دھمکی صحیح ثابت ہوئی اور (جیسا کہ ہم بیان کریں گے) قریش شام کے تجارتی راستہ کے مسدود ہونے سے سخت ناراض ہوئے اور شام جانے کے لئے دوسرے راستہ کی تلاش میں لگ گئے۔

(٢) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کے بعد، عقیل نے مکہ میں خانہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (شعب ابوطالب) اور بنی ہاشم نے مہاجروں کے گھروں پر قبضہ کرلیا۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے فتح مکہ کے موقع پر حجون میں (مکہ کے باہر) خیمہ لگایا ۔ لوگوں نے عرض کیا ''کیوں اپ اپنے گھر تشریف نہیں لے جاتے؟'' آپ نے فرمایا: مگر عقیل نے ہمارے لئے گھر چھوڑ رکھا ہے؟!! (واقدی، مغازی، ج٣، ص ٨٢٨؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ (بیروت: دار صادر)، ج١، ص ١٣٦؛ قسطلانی، المواہب اللدنیہ والمنح المحمدیہ (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ط١، ١٣١٦ھ۔ق)، ج١، ص ٢١٨؛ بعد میں عقیل کے وارثوں نے اس گھر کو سودینار میں حجاج بن یوسف کے بھائیوں کے ہاتھ بیچ دیا (حلبی، السیرة الحلبیہ، ج١، ص ١٠٢۔ ١٠١؛ اسی طرح خاندان بنی جحش بن رئاب کے ہجرت کرنے کے بعد، ان کے گھر مکہ میں خالی پڑے رہے۔ ابوسفیان نے یہ کہکرکہ ان کی لڑکی ان میں سے ایک کی زوجہ ہے، ان کے گھروں کو لے لیا۔ (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ١٤٥)، اس کے علاوہ صہیب کے مدینہ ہجرت کرتے وقت، مشرکین نے ان کا پیچھا کیا اور مال و دولت کو چھین لیا لیکن اس کی جان بچ گئی (ابن ہشام، ج٢، ص ١٢١.)

۲۵۵

لیکن یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیئے کہ اسلام کا دائرہ کار، ذاتی انتقام اور فردی حساب چکانے کے مرحلہ سے آگے بڑھ کر درحقیقت دوبڑی قدرت کے ٹکراؤ میں بدل چکا تھا۔اور طرفین ایک دوسرے کے سپاہیوں کو کمزور کرنے میں لگ گئے تھے۔اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مسلمانوں کی نظر میں، دشمن کو اقتصادی نقصان پہنچانا اور ان کے اندر رعب و وحشت کا ڈالنا۔ ان کے تجارتی مال، یامال غنیمت سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ جیسا کہ عبد اللہ بن جحش کے سریہ اور جنگ بدر تک مشرکوں کا کوئی مال مسلمانوں کے ہاتھ نہیں لگا تھا۔

٢۔ یہ سرگرمیاں ، ایک طرح سے مسلمانوں کی جنگی قدرت کی نمائش اور مشرکین مکہ کے لئے وارننگ تھیں کہ مدینہ پر فوجی حملہ کرنے کے بارے میں نہ سوچیں۔ کیونکہ مسلمانوں میں دفاعی طاقت پیدا ہوگئی ہے اور وہ ان کے حملوں کا دفاع کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم قریش کی مخالفت کے اسباب و علل کے تجزیہ کی بحث میں پڑھ چکے ہیں کہ جس وقت پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م مکہ میں رہ رہے تھے ا ور مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی تو قریش کے سرمایہ دا راپنے اقتصادی تسلط کا زوال دیکھ رہے تھے اور اب جبکہ شہر مدینہ کافی امکانات اور استعداد کے ساتھ ایک اسلامی مرکز میں تبدیل ہوگیا تھا کس طرح ممکن تھا کہ مکہ کے ثروت پرست اپنے کو امان میں سمجھیں ، اس وجہ سے ضروری تھا کہ شروعات مسلمانوں کی طرف سے ہو، تاکہ مشرکین اس شہر پر قبضہ نہ کرسکیں۔

٣۔ شاید یہ فوجی سرگرمیاں ایک طرح سے مدینہ کے یہودیوں کے لئے بھی الٹی میٹم تھیں ( جو اپنی دشمنی کو آشکار کرچکے تھے) تاکہ تخریب کاری سے ہاتھ اٹھالیں اور فوجی کاروائی کا ارادہ نہ کریں ورنہ مسلمان، فتنہ کی آگ کو سختی کے ساتھ خاموش کردیں گے۔(١)

______________________

(١) محمد حسین ھیکل، حیات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (قاہرہ: مکتبة النہضة المصریہ، ط٨، ١٩٦٣م)، ص ٢٤٨۔ ٢٤.

۲۵۶

عبد اللہ بن جحش کا سریہ

ہجرت کے دوسرے سال رجب کے مہینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عبد اللہ بن جحش (اپنے پھوپھی کے لڑکے) کو مہاجرین میں سے آٹھ افراد کے ساتھ، خبر رسانی اور خفیہ اطلاعات کی مہم پر بھیجا اوران کو مہر بند خط دیا اور فرمایا: ''دوروز راستہ طے کرنے کے بعد اس خط کو کھولنا اوراس کے مطابق عمل کرنا اور اپنے ہمراہ لوگوں میں سے کسی کو ہمراہی پر مجبور نہ کرنا'' اس نے دو دن راستہ طے کرنے کے بعد، خط کو کھولا تو حکم اس طرح سے تھا ''جس وقت میرے خط کو پڑھنا اپنے راستہ کو جاری رکھنا اور جب سرزمین ''نخلہ'' میں (مکہ اور طائف کے درمیان) پہنچنا تو وہاں چھپ کر قریش کودیکھنا اور ہم کو وہاں کی صورت حال سے آگاہ کرنا'' عبد اللہ نے اعلان کیا کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کی اطاعت کرتے ہیں اور ان لوگوں سے کہا ''جو شخص بھی شہادت کے لئے تیار ہے آئے، ورنہ آزادہے اور پلٹ جائے۔ ان سب نے کہا کہ ہم تیار ہیں۔ یہ گروہ ''نخلہ'' میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ قریش کا ایک قافلہ عمربن الحضرمی کی سرپرستی میں طائف سے مکہ پلٹ رہا تھا ۔عبد اللہ اور اس کے ساتھیوں نے چاہا کہ قافلہ پر حملہ کردیں لیکن ماہ رجب کا آخری دن تھا۔ ایک نے دوسرے سے کہا:اگر یہ لوگ حرم میں داخل ہوگئے تو تقدس حرم کی خاطر ان سے جنگ نہیں ہوسکے گی اور اگر یہاں پر ہم ان سے جنگ کریں تو ماہ حرام کی حرمت کو پائمال کردیںگے۔

آخرکار قافلے پر حملہ کردیا اورعمرو بن الحضرمی کو قتل کر ڈالا اوردو لوگوں کو اسیر کرلیا اور مال غنیمت اور اسیروںکے ساتھ مدینہ پلٹ آئے۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے، ان کے اس خود سرانہ اقدام پر افسوس ظاہر کیا اور اسیروں اور مال غنیمت کو لینے سے انکار کردیا اور فرمایا: ''میں نے نہیں کہا تھا کہ ماہ حرام میں جنگ نہ کرنا''

اس واقعہ کا بہت چرچہ ہوا، ایک طرف اس گروہ کی جنگ و خون ریزی حرام مہینہ میں مسلمانوں کے لئے دشوار بن گئی اور عبد اللہ کی سرزنش کی اور دوسری طرف سے قریش اس واقعہ کا غلط پروپیگنڈہ کر کے کہتے تھے۔ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حرام مہینے کے تقدس اور احترام کو پائمال کردیا ہے،اور اس مہینہ میں خون ریزی کی ہے! یہودی بھی اس پر زہر چھڑک کر کہہ رہے تھے : یہ کام مسلمانوں کے ضرر میں تمام ہوگا، اسی وقت فرشتۂ وحی نازل ہوا اور خدا کا فرمان سنایا:

۲۵۷

''پیغمبر یہ آپ سے محترم مہینوں میں جہاد کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ ان میں جنگ کرنا گناہ کبیرہ ہے اور راہ خدا سے روکنا او رخدا او رمسجد الحرام کی حرمت کا انکار کرنا ہے اور اہل مسجد الحرام کو وہاں سے نکال دینا خدا کی نگاہ میں جنگ سے بھی بدتر گناہ ہے اور فتنہ و فساد برپاکرنا تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔ اور یہ کفار و مشرکین برابر تم لوگوں سے جنگ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کے امکان میں ہو تو تم کو تمہارے دین سے پلٹادیں...''۔(١)

ان آیات کے نزول کے ذریعہ کہ جس میں عبد اللہ کے ضمنی تبرئہ کے ساتھ قریش کو فتنہ کا باعث اور ان کے گناہ کو ماہ حرام میں قتل سے بہت بڑا بتایا گیاہے مسلمانوں کے خلاف جو فضا مکدر ہوگئی تھی وہ ختم ہوگئی اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش کے نمائندوں کی درخواست پر اسیروں کو رہا کردیا، ان میں سے ایک مسلمان ہو کر مدینہ میں رہ گیا۔(٢)

ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ کبھی افراد، یا پارٹیاں اپنے حسن نیت (لیکن سوء تدبیر کے ساتھ) کی بنا پر ایسے اقدامات انجام دیتی ہیں جس کے برے اثرات سماج میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کی حسن نیت، ان کے اقدامات کے خطرناک نتائج کا جبران نہیں کرسکتی ہے۔ عبد اللہ بن حجش اور ان کے ساتھیوں کا اقدام بھی کچھ اسی طرح کا تھا۔

جنگ بدر

یہ جنگ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فوجی مشقوں ، اور شام کی طرف قریش کے تجارتی راستہ کی دھمکی کے بعد ہوئی اور یہ مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان پہلی بڑی جنگ تھی جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے جمادی

______________________

(١) سورۂ بقرہ، آیت ٢١٧.

(٢) ابن ہشام، السیرة النبویہ، (مطبعہ مصطفی البابی، الحلبی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج٢، ص ٢٥٥۔ ٢٥٢؛

۲۵۸

الآخر کے مہینہ میں قریش کے قافلہ کا جو ابوسفیان کی سربراہی میں شام کی طرف جارہاتھا، سرزمین ''ذات العُشَیرہ'' تک تعاقب کیا لیکن ان تک پہنچ نہ سکے۔اس وجہ سے شام کے علاقہ میں سراغ رسان سپاہیوں کو بھیجا جن کے ذریعہ کفار قریش کے قافلہ کے پلٹنے کی خبر ملی۔(١)

مال و اسباب کے لحاظ سے قافلہ بہت بڑا تھا۔ ان کے اونٹ کی تعداد ایک ہزار تھی اور ان کا سرمایہ ٥٠ ہزار دینار نقل ہوا ہے کہ جس میں تمام قریش شریک تھے۔(٢)

قافلوں کا قدرتی راستہ ، بدر کے علاقہ سے شروع ہوتا تھا۔(٣) پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے قافلہ کو ضبط کرنے(٤) کے لئے تین سو تیرہ افراد(٥) اور بہت کم امکانات(٦) کے ساتھ، بدر کی طرف گئے۔

ابوسفیان شام سے پلٹتے وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارادہ سے آگاہ ہوگیا۔ لہٰذا ایک طرف مکہ میں اپنا تیز رفتار نمائندہ بھیج کر قریش سے مدد مانگی(٧) اور دوسری جانب سے قافلہ کے راستہ کو دا ہنی طرف (بحر احمر

______________________

(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٠.

(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٧؛ مجلسی ، بحار الانوار، (تہران: دارالکتب الاسلامیہ، ١٣٨٥ھ.ق)، ج١٩، ص ٢٤٨۔ ٢٤٥.

(٣) بدر، شہر مدینہ کے جنوب غربی میں پڑتا ہے جو آج ایک شہر کی شکل میں بدل گیا ہے اور علاقائی مرکز اسی نام پر ہے مدینہ کی شاہر اہ ، جدہ اور مکہ کی طرف اسی جگہ سے گزرتی ہے۔اور یہاں سے مدینہ کا فاصلہ ١٥٣ کلو میٹر او رمکہ کا فاصلہ ٣٤٣ کلو میٹر ہے۔ (محمد عبدہ یمانی، بدر الکبریٰ، جدہ: دار القبلہ للثقافہ الاسلامیہ، ط١، ١٤١٥ھ۔ق)، ص ٢٥۔ اور جس وقت سے مدینہ اور مکہ کے درمیان شاہراہ بنی ہے ۔ حج کے زمانہ میں حاجیوں کا سفر اس راستہ سے نہیں ہوتا ہے

(٤) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٥٨.

(٥) محمد بن سعد، طبقات الکبریٰ، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص ٢٠، طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٧٢.

(٦) مسلمانوں کے پاس ستر (٧٠) اونٹ تھے اور چند افرادایک اونٹ پر سوار ہوتے تھے (واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٦؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٦٣) اور صرف ایک گھوڑا (شیخ مفید ، الارشاد، ص ٧٣؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص ١٨٧؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص ٣٢٣؛ مسند احمد، ج ١، ص ١٢٥؛ اور بنا بر نقل دو گھوڑا رکھتے تھے (واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٦؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤۔ ٢٢؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٣٧)، اور چھ جنگی زرہ اور آٹھ تلوار رکھتے تھے۔ (ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ص ١٨٧؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٩، ص ٣٢٣.)

(٧) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٥٨؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٢٨.

۲۵۹

کے ساحل کی طرف) موڑ دیا اور قافلہ کو تیزی کے ساتھ، خطرے کے مقام سے دور کردیا۔(١)

ابوسفیان کی درخواست پر نوسو پچاس(٢) جنگجو مکہ سے قافلہ کی نجات کے لئے مدینہ کی طرف گئے۔ جبکہ مشرکین راستے میں ہی قافلے کی نجات سے آگاہ ہوگئے تھے لیکن ابوجہل کی لجاجت اور ہٹ دھرمی نے ان کو ٹکراؤ پر مجبور کردیا۔ ابھی مسلمان قافلہ کی جستجو میں تھے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خبر ملی کہ لشکر قریش بدر کے علاقہ کے قریب پہنچ چکا ہے۔ لہٰذا ایسے موقع پر کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہوگیاتھا۔ کیونکہ تھوڑے سے سپاہیوں اور اسلحوں کے ساتھ قافلہ کے افراد کو گرفتار کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے نہ کہ ایسی فوج سے جنگ کرنے کے لئے آئے تھے جن کے سپاہیوں کی تعدا، ان کے سپاہیوں کے تین برابر ہو۔ اگر (بالفرض) عقب نشینی بھی کرنا چاہتے تو فوجی مشقوں کے پروپیگنڈہ کا اثر ختم ہوجاتا اور ممکن تھا کہ دشمن ان کا پیچھا کر کے مدینہ پر حملہ کردیتے۔ لہٰذا فوراً ایک فوجی کمیٹی تشکیل پانے کے بعد، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں (خاص طور سے انصار) کی رائے اور مشورہ سے اور مقداد اور سعد بن عبادہ کی پرجوش تقریر کے بعد دشمن سے جنگ کا ارادہ کرلیا۔(٣)

١٧ رمضان(٤) کی صبح کو، جنگ کا آغاز ہوا۔ شروع میں حمزہ، عبیدہ اور علی نے شیبہ، عتبہ اور ولید بن عتبہ سے الگ الگ جنگ کی اور اپنے مدمقابل کو قتل کیا(٥) اور یہ سرداران قریش کے حوصلہ پر سخت چوٹ تھی(٦) لہٰذا سی وقت عمومی جنگ شروع ہوگئی۔ لشکر اسلام اتنی تیزی کے ساتھکامیاب ہوا کہ ظہر

______________________

(١)ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٧٠؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٤١.

(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٦٩؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٥؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٨٧؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٩، ص ٢١٩.

(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٦٨۔ ٢٦٦؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٩۔ ٤٨؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٤

(٤) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٧٨؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ١٩۔ ١٥ و ٢٠.

(٥) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٧٧؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣۔ ١٧ور ٢٤؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٩، ص ٢٧٩؛ ابن اثیر الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص ١٢٥.

(٦) شیخ مفید، الارشاد، (قم: الموتمر العالمی الفیہ الشیخ المفید، ط ١، ١٤١٣ھ.ق)، ص ٦٩.

۲۶۰