تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 157608
ڈاؤنلوڈ: 4712

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157608 / ڈاؤنلوڈ: 4712
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

کے وقت(١) جنگ دشمن کی شکست اور عقب نشینی پر تمام ہوگئی۔ مشرکین میں ٧٠ افراد مارے گئے(٢) اور ستر (٧٠) افراد اسیر ہوئے(٣) اور مسلمانوں میں سے چودہ (١٤) افراد شہید ہوئے۔(٤)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی موافقت سے قیدی خون بہا دے کر آزاد ہوگئے اور جن کے پاس پیسہ نہ تھا لیکن پڑھے لکھے تھے ان کے بارے میں رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ انصار کے دس جوانوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں پھر آزاد ہوجائیں۔(٥) اور بقیہ اسیر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احسان پر آزاد ہوئے۔(٦)

مسلمانوں کی کامیابی کے اسباب

مسلمانوں کی درخشاں کامیابی، ان کے پہلے فوجی حملہ میں ہی، قریش کے رعب و حشمت کو توڑ دیا اور ان کو سرگرداں اور مبہوت کردیا، لشکر قریش کی شکست اس قدر غیر متوقع تھی کہ جب رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا کا نمائندہ، لشکر اسلام کے مدینہ پلٹنے سے پہلے، شہر میں داخل ہوا اور کامیابی کی خبر سنائی، تو مسلمانوں کو

______________________

(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ١١٢؛ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے جنگ تمام ہونے کے بعد مدینہ کے راستہ میں نماز عصر پڑھی (واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ١١٤۔ ١١٢)

(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٨؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٢٩٤؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٣٧۔

(٣) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢۔ ١٨؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص١١٦؛ طبری، گزشتہ حوالہ، صص ٢٩٤؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٣٧؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص١٨٩؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج١٩، ص ٢٩١۔

(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٧؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٣٧؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ص١٨٩۔

(٥) زید بن ثابت نے اس طرح سے لکھنا پڑھنا سیکھا۔

(٦)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٨۔

۲۶۱

شروع میں باور نہ ہوا اور نمائندہ کو جنگ سے فراری اور ہارا ہوا سمجھا۔(١)

لیکن ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اسیروں کو شہر میں لایا گیا۔ اس کامیابی کا چرچہ حبشہ تک پہنچا اور جب نجاشی کو یہ خبر ملی تو اس نے خوشی کا اظہار کیا اور مسلمان مہاجروں کو دربار میں بلایا اور یہ خوش خبری ان کو سنائی۔(٢)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے فرمایا:

''جنگ بدر وہ پہلی جنگ تھی جس میں خداوند عالم نے اسلام کو عزیز اور شرک کو ذلیل و خوار کیا۔(٣)

شیطان، جنگ بدر کے دن اس قدر ذلیل و خوار ہوا کہ (عرفہ کے دن کے علاوہ کہ خدا کی رحمت کے نزول اور بڑے گناہوںکی مغفرت کا مشاہدہ کیا تھا) کبھی ایسا نہیں ہوا تھا''۔(٤)

اس حیرت انگیز کامیابی کے اسباب و علل کو اس طرح سے خلاصہ کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے:

١۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی لائق اور شائستہ کمانڈری٭ اور آپ کی شجاعت اور دلیری؛ علی جنگ بدر کو یاد کر کے فرماتے ہیں: ''جس وقت جنگ کی آگ سخت شعلہ ور ہوئی تو ہم رسول کی پناہ میں چلے گئے اور

______________________

(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص١١٥۔

(٢) گزشتہ حوالہ، ص ١٢١.

(٣) گزشتہ حوالہ، ص ٢١.

(٤) گزشتہ حوالہ، ص ٧٨.

٭اس کے باوجود کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م بعثت سے قبل، فوجی سابقہ نہیں رکھتے تھے اور موخین نے صرف ان کی شرکت جوانی میں (یا نوجوانی میں) جنگ ''فجار'' میں نقل کی ہے اوراس میں شک پایا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود آپ ایک ٹریننگ یافتہ کمانڈر یا تجربہ کار کمانڈر کی طرح، اتنے اچھے طریقہ سے کمانڈری کے فرائض انجام دیئے کہ کبھی بھی مسلمانوں کو اس طرح سے فتح حاصل نہیں ہوئی۔

۲۶۲

اس وقت ہم میں سے کوئی بھی، آپ سے زیادہ دشمن سے نزدیکتر نہیں تھا''۔(١)

٢۔ علی کی بے نظیر شجاعت اور جان نثاری؛ اس طرح سے کہ جنگ میں مارے گئے دشمنوں میں سے نصف کو آپ نے اکیلے قتل کیا تھا۔(٢)

شیخ مفید نے ٣٥ لوگوں کا نام لیا ہے۔ جو جنگ بدر میں مارے گئے تھے، اور کہتے ہیں: شیعہ اور اہل سنت راویوں نے بطور اتفاق لکھا ہے کہ اتنے افراد کو علی نے قتل کیا ہے اس کے علاوہ اور بھی قتل ہوئے تھے جن کے قاتل کے بارے میں اختلاف ہے یا علی ان کے قتل میں شریک تھے۔(٣)

٣۔ اگر چہ مسلمانوں کے ایک گروہ نے مدینہ سے نکلتے وقت، بے رغبتی اور کھلے انداز میں

______________________

(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٢٣؛ مسنداحمد حنبل، ج١، ص١٢٦؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦١ئ)، ج١٣، ص٢٧٩۔

(٢) ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١، مقدمہ، ص٢٤؛ شیخ مفید، الارشاد، (قم: المؤتمر العالمی لألفیة الشیخ المفید، ط١، ١٤١٣ھ.ق)، ص٧٢۔

(٣) شیخ مفید، گزشتہ حوالہ، ص ٧٢۔ ٧٠؛ بلاذری اور واقدی نے اس گروہ کی تعداد ١٨ افراد نقل کی ہے (انساب الاشراف، ج١، ص ٣٠١۔ ٢٩٧؛ المغازی، ج١، ص ١٥٢؛ اسی طرح سے رجوع کریں؛ بحار الانوار، ج ١٩، ص ٢٩٣) جنگ خندق، جنگ بدر کے تین سال بعد ہوئی۔ جس وقت عمرو بن عبدود، عرب کا مشہور پہلوان، خندق کے کنارے لڑنے کے لئے چیلنج کررہا تھا تو علی اس کے مقابلہ میں گئے اس نے علی سے کہا: تمہارا باپ میرا دوست تھا لہٰذا میں نہیں چاہتا ہوں کہ تم میرے ہاتھ سے قتل ہو! ۔ ابن ابی الحدید معتزلی، نہج البلاغہ کا مشہور شارح اس گفتگو کو نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ ''ہمارے استاد ابو الخیر مصدق بن شبیب نحوی جس وقت اس حصہ کو پڑھاتے تھے تو کہتے تھے: عمرو نے جھوٹ کہا ہے اس نے علی کی جنگ کو بدر و احدمیںدیکھ رکھا تھا لہٰذا اگر ان سے لڑتا تو قتل ہو جاتا، اس وجہ سے بہانہ کیا اور اس طرح سے علی سے لڑنے میں دیر کیا''۔ (شرح نہج البلاغہ، ج١٩، ص ٦٤.)

۲۶۳

ناپسندی کا اظہار کیا تھا۔(١) اور نیز کچھ بزرگ مہاجروں نے، فوجی کمیٹی میں، اپنی کمزوری کا اظہار کیا او رناامید کرنے والی باتیں کہیں۔(٢) لیکن زیادہ تر مسلمان ایمان میں غرق اوران کے حوصلہ بلند تھے۔ اور اس طرح سے بہادرانہ انداز میں لڑے کہ مشرکوں کو بہت تعجب ہوا۔

٤۔ خداکی غیبی مدد(٣) چند طریقے سے ہوئی:

الف: جنگ کی رات بارش کا ہونا، جس سے مسلمانوں کی پانی کی ضرورت پوری ہوگئی اور ان کے قدموں کے نیچے کی زمین سخت ہوگئی، اور اس پر چلنا آسان کام ہوگیا ۔(٤)

ب: اس رات مسلمانوں کو بڑی اچھی نیند آئی(٥) اور وہ سکون سے سوئے صرف پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م صبح تک بیدار رہے اور لشکر اسلام کی کامیابی کے لئے دعا کرتے رہے۔(٦)

ج: مسلمانوں کی نصرت و مدد کے لئے فرشتوں کا نزول اور ان کا میدان جنگ میں حاضر ہونا۔(٧)

د: مشرکین کے دلوں میں رعب ووحشت کا ڈالنا۔(٨)

______________________

(١) سورۂ انفال، آیت ٦۔ ٥

(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٤؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، (انسان العیون) (بیروت: دار المعرفہ)، ج٢، ص٣٨٦۔ ٣٨٥؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص٢٤٧۔

(٣) سورۂ آل عمران، آیت ١٢٣

(٤) سورۂ انفال، آیت١١؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٥٤؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص١٥ و ٢٥۔

(٥) سورۂ انفال، آیت ١١؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٥٤؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص٣٩٢۔ لیکن قریش خوف و اضطراب کی وجہ سے صبح تک بیدار تھے اور تکلیف کی وجہ سے کھانا نہیں کھا سکتے تھے۔ (واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٥٤۔

(٦) شیخ مفید، گزشتہ حوالہ، ص٧٣؛ مسند احمد، ج١، ص١٢٥؛ مجلسی، بحار الانوار، ج١٩، ص٢٧٩۔

(٧) سورۂ انفال، آیت ٩؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٧٩۔ ٧٦؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٨٦

(٨) سورۂ انفال، آیت ١٢.

۲۶۴

اسلامی لشکر کی کامیابی کے نتائج اور آثار

اس جنگ میں، اسلامی فوج کی کامیابی سے جو آثار و نتائج حاصل ہوئے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:

١۔ خداوند عالم نے پہلے ہی مسلمانوں سے مشرکین کے قافلہ یا مکہ کے فوجیوں کے مقابلہ میں کامیابی کا وعدہ کیا تھا۔(١) اور پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے جنگ کی کمیٹی کے جلسہ کے آخر میں خدا کا یہ وعدہ مسلمانوں کو پہنچادیا تھا۔(٢) اور خدا کی نصرت و مدد سے اس کامیابی کے ملنے پر مسلمان خوش ہوگئے۔ اور ان کا ایمان و اعتقاد قوی اورمستحکم ہوگیا۔

٢۔ منافقین اور مدینہ کے یہودی اس کامیابی سے بہت ناراض ہوئے اور ذلت و خواری کا احساس کیا جس وقت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نمائندہ نے مسلمانوں کی بڑی کامیابی کی اطلاع مدینہ کے لوگوں کو دی۔ منافقین نے افواہیں پھیلانا شروع کردیں اور کہنے لگے: ''محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قتل کردیئے گئے ہیں اور مسلمان شکست کھاکر متفرق ہوگئے ہیں''۔(٣)

یہودیوں نے بھی اپنے کینہ کا اظہار کیا۔(٤) کعب الاشرف، جو کہ یہودیوں کے بزرگوں میں سے تھا، اس نے کہا: یہ جو کہتے ہیں کہ جنگ میں مارے جانے والے عرب کے بڑے اور سربرآوردہ لوگ تھے۔ اگر یہ خبر درست ہے تو اس روئے زمین کی زندگی سے بہتر زمین کے نیچے دفن ہو جانا ہے''۔(٥)

٣۔ اطراف مدینہ کے قبائل: اس کامیابی کو اسلام کی حقانیت اور خدا کی نصرت کی نشانی سمجھ کر

______________________

(٢) سورۂ انفال، آیت ٧.

(٣)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٩.

(٤) گزشتہ حوالہ، ص ١١٥؛ بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: محمد حمید اللہ، (قاہرہ: دارالمعارف، ط ٣.)، ج١، ص ٢٩٤.

(٥) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٩٧.

(٦) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص١٢١؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٥٥؛ رجوع کریں: بیہقی، ج٢، ص٣٤١۔

۲۶۵

اسلام کی طرف راغب ہوگئے۔

یعقوبی لکھتاہے: جب خداوند عالم نے جنگ بدر میں اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سرافراز اور کامیاب کردیا اور قریش کے کچھ لوگ قتل ہوگئے تو قبائل عرب، اسلام کی طرف راغب ہوگئے اور کچھ وفود کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ وہ آگے لکھتا ہے کہ جنگ بدر کے چار یا پانچ مہینے بعد قبیلہ ربیعہ، سرزمین ''ذی قار'' میں کسریٰ سے لڑا اور انھوں نے ایک دوسرے سے کہا: کہ میدان جنگ میں اس تہامی (محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) کے شعار سے استفادہ کرو اس وقت وہ یا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، یا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی فریاد کے ساتھ لڑے اور کامیاب ہوئے۔(١)

٤۔ قریش کے لوگ متوجہ ہوئے کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قدرت اور مسلمانوں کی طاقت کا اندازہ لگانے میں وہ اپنے محاسبات میں غلطی اور اشتباہ کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ ہرگز تصور نہیں کرتے تھے کہ انھیں اتنی سخت شکست، چند فراری لوگوں کے ہاتھ، کاشتکاروں کی مدد سے، اٹھانی پڑے گی۔ قریش اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان کی تجارت خطرے میں پڑجائے گی اور اب وہ مکہ کے تجارتی راستے سے شام نہیں جاسکتے ہیں۔

صفوان بن امیہ نے قریش کے سرداروں کے مجمع میں کہا: ''محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس کے ساتھیوں نے ہماری تجارت کو خطرہ میں ڈال دیا ہے نہیں معلوم ان کے ساتھ کیا کریں؟ وہ ساحل کو نہیں چھوڑیں گے اور ساحل کے لوگ سب ان کے ہم پیمان اور ساتھ ہوگئے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کہاں جائیں؟ اس شہر میں ہمارے اخراجات، گرمیوں میں شام کے تجارتی سفر سے اور جاڑوں میں حبشہ کے تجارتی سفر سے، پورے ہوتے تھے۔ اگر ہم اسی طرح اس شہر میں رہیں تو مجبور ہوکر ہمیں اپنا سارا سرمایہ کھانا پڑے گا اور اپنی ساری دولت سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور ہماری زندگی ختم ہو جائے گی''۔

آخر کار اس مجمع میں طے پایا کہ عراق کے راستے سے شام جائیں اس وقت صفوان ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ، جس میں تنہا اس کا حصہ تین لاکھ درہم تھا، عراق کے راستے سے شام کی طرف روانہ ہوا۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م اس قافلہ کی روانگی سے باخبرہوکر جمادی الآخر ٣ھ میں ایک سو سپاہیوں کا ایک دستہ

______________________

(١) تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢، ص ٣٨.

۲۶۶

زید بن حارثہ کی سربراہی میں ان کے اموال کو ضبط کرنے کے لئے بھیجا۔ جب دستہ وہاں پہنچا تو یہودی قافلہ کے اکثر آدمی فرار کر گئے تھے۔ اسلامی سپاہیوں نے ان کے مال کو ضبط کرلیا اور ایک یا دو اسیر کے ساتھ مدینہ پلٹ آئے۔(١) تاریخ میں اس ماموریت کو ''سریة القرَدَہ''(٢) کہا گیا ہے۔(٣)

بنی قینقاع کی عہد شکنی

بنی قینقاع، پہلا یہودی قبیلہ تھا جس نے اپنے دوستی اور عدم تجاوز کے عہد کو توڑا۔ جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ جنگ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی، یہودیوں اور منافقوں کے لئے بہت شاق ، اور انھیں ناراض کرنے والی تھی۔ اس بنا پر یہ قبیلہ جنگ بدر کے بعد سے، دشمنی دکھانے لگا۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو خبردار کیا کہ قریش کے انجام سے نصیحت لواور مسلمان ہو جائو کیونکہ تم لوگوں نے ہمارے صفات اور نشانیوں کواپنی کتاب میں پڑھ رکھا ہے اور میری نبوت سے اچھی طرح آگاہ ہو۔(٤)

ان لوگوں نے کہا: قریش پر کامیابی نے تم کو مغرور کردیا ہے، قریش تاجر پیشہ لوگ تھے اگر ہم سے جنگ کی تو دیکھنا کہ ہم اہل جنگ ہیں! ان تکبرانہ باتوںکے ذریعہ انھوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وارننگ پر خاص توجہ نہیں دی، اور اسی طرح اپنے اختلافات کو برقرار رکھا۔ ایک دن ان یہودیوں میں سے ایک نے ،

______________________

(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٩٨۔ ١٩٧.

(٢) ''سریة القرَدہ'' بھی نقل ہوا ہے (بحارالانوار، ج٢٠، ص ٤؛ حوالہ، طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٥

(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٥٤۔ ٥٣؛ مجلسی، بحارالانوار، ج٢٠، ص ٥۔ ٤.

(٤) ''قل للذین کفروا ستغلبون و تحشرون الی جہنم و بئس المہاد. قد کان لکم آیة فی فئتین التقتا فئة تقاتل فی سبیل اللّٰہ و اخریٰ کافرة یرونہم مثلیہم رأی العین واللّٰہ یؤید بنصرہ من یشاء ان فی ذالک لعبرة لاولی الابصار'' سورۂ آل عمران، آیت ١٣۔ ٢١.

۲۶۷

مدینہ کے اطراف میں اس قبیلہ کے ایک بازار میں، ایک انصار کی زوجہ کی اہانت کی۔ اس حرکت سے مسلمانوں کے جذبات بھڑک اٹھے۔ اس عورت نے مسلمانوں سے فریاد کی تو ایک مسلمان نے اس یہودی کو قتل کردیا۔ اس پر سارے یہودی، اس مسلمان پر ٹوٹ پڑے اور اسے قتل کردیا۔ اس فتنہ انگیزی کی وجہ سے دو لوگ مارے گئے لیکن اگر وہ حسن نیت سے کام لیتے تو دوبارہ امنیت کا برقرار ہونا ممکن تھا، اور اس طرح کے واقعات دوبارہ پیش نہ آتے۔ لیکن ان لوگوں نے احتیاطی تدبیریں اپنانے کے بجائے قلعہ میں جا کر پناہ لے لی اور مسلمانوں کے خلاف مورچہ سنبھال لیا۔

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے ان کے قلعہ کے محاصرہ کا حکم صادر فرمایا۔ پندرہ دن محاصرہ کے بعد، عبد اللہ ابن ابی (خزرجی) جو کہ پہلے ان کا ہم پیمان تھا اس کے کہنے پر پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے موافقت کی کہ وہ اپنے اسلحوں کوچھوڑ کر مدینہ کے باہر چلے جائیں۔ چنانچہ وہ لوگ شام کے ''اذرعات'' علاقہ میں چلے گئے۔ یہ واقعہ ہجرت کے دوسرے سال ماہ شوال میں پیش آیا۔(١)

بنی قینقاع، شجاع ترین یہودی تھے(٢) اور جیسا کہ ان کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے سازو سامان اور قدرت پر مغرور تھے۔ او رشاید اپنے ہم نواؤوں، خزرج اور بنی عوف(٣) کی حمایت سے بھی دلگرم ہوگئے تھے۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ خزرجی جو کہ سب سے آگے تھے اور واسطہ بنے ہوئے تھے۔ وہ بھی ان کی سزاؤوں کے کم کرانے میں کچھ نہیں کرسکے(٤) عبادہ بن صامت عوفی بھی ان سے الگ ہوگئے۔(٥)

______________________

(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٥٢۔ ٥٠؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٠٩۔ ٣٠٨؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٩٨۔ ٢٩٧.

(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٨.

(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٨؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٥٠.

(٤) گویا پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے عبد اللہ بن ابی کے واسطہ بننے کواس اعتبار سے قبول کیا کہ بظاہر وہ مسلمان تھا اور مسلمانوں کی وحدت کی بقاء اور فتنہ و فساد کو روکنے کے لئے کوشش کررہا تھا۔

(٥) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٩.

۲۶۸

دوسری طرف سے یہودیوں کے دو قبیلے بنی نضیر اور بنی قریظہ کے پہلے ہمنوا، اوسی تھے اور گویا اسی وجہ سے وہ بنی قینقاع کی مدد کے لئے آگے نہیں بڑھے ۔ اور شاید سعد بن معاذ ۔ اوس کا سردار۔ اس بحران میں ان کے مداخلہ کو روکنے کے لئے اہم کردار رکھتا تھا۔ بہرحال مدینہ سے اس قبیلہ کی جلاوطنی، مسلمانوں کے لئے مفیدثابت ہوئی۔ اور اس طرح سے ان تینوں قبیلوںکی قدرت بھی بٹ گئی اور مدینہ کے بقیہ یہودیوں کے لئے ایک طرح سے وارننگ بھی تھی کہ اس طرح کی غلطیاں وہ آئندہ نہ کریں۔

جناب فاطمہ زہرا سے حضرت علی کی شادی

جنگ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی کے بعد دوسرا مبارک واقعہ جو خانۂ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں رونما ہوا ، وہ علی کی شادی تھی جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دختر، فاطمہ زہرا سے ہوئی۔(١)

فاطمہ زہرا، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص اکرام و احترام کے لحاظ سے اور اپنی لیاقت اور ممتاز شخصیت و فضیلت کے اعتبار سے ایسی خاتون تھیں جن کے متعدد لوگ خواستگار تھے۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے چند معروف اصحاب، جن میں بعض سرمایہ دار بھی تھے، ان سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ لیکن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے

موافقت نہیں کی(٢) اور فرمایا: ''خدا کے فیصلہ کا منتظر ہوں''(٣) انھوں نے حضرت علی کو مشورہ دیا کہ فاطمہ کی خواستگاری کے لئے جائیں۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب فاطمہ کی رائے معلوم کرنے کے بعد علی کی خواستگاری کی موافقت کردی۔(٤)

______________________

(١) مجلسی، بحارالانوار، ج٤٣، ص ٩٧

(٢) مجلسی، گزشتہ حوالہ، ١٠٨؛ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٣٤.

(٣) ابن سعد، طبقات الکبریٰ، (بیروت: دار صادر)، ج٨، ص١٩.

(٤) مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٣.

۲۶۹

اور اپنی دختر سے فرمایا: ''تجھ کو ایسے شخص کی زوجیت میں دے رہا ہوں جو سب سے نیک اور اسلام لانے میں پیش قدم تھا''(١) اور علی سے بھی فرمایا: ''قریش کے کچھ لوگ ہم سے نالاں ہیں کہ کیوں اپنی دختر انھیں نہیں دی۔ میں نے ان کے جواب میں کہا: یہ کام خدا کے ارادہ سے ہوا ہے۔ فاطمہ کی ہمسری کے لئے علی کے علاوہ کوئی شائستگی نہیں رکھتا ہے''۔(٢)

یہ شادی نہایت ہی سادگی اور خوشحالی کے ساتھ تھوڑے سے مہر(٣) او رمختصر سے جہیز کے ساتھ انجام پائی(٤) جو اسلام میں ازدواجی روابط کے لئے معنوی قدر و قیمت کے اعتبار سے اعلیٰ ترین نمونہ سمجھی جاتی ہے۔

جنگ احد

قریش نے جنگ بدر میں شکست کھانے کے بعد، مسلمانوں سے انتقام لینے کے لئے تجارتی قافلہ کے منافع کو خرچ کر کے، مدینہ پر حملہ کرنے کے مقدمات فراہم کرلئے۔(٥) اور بعض قبائل کی حمایت حاصل کرکے بہت سارے جنگی سازو سامان(٦) کے ساتھ مکہ سے نکل پڑے اور میدان جنگ میں

______________________

(١) امینی، الغدیر، ج٣، ص٢٠.

(٢) مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٢.

(٣) گزشتہ حوالہ، ص ١١٢.

(٤) مزید آگاہی کے لئے رجوع کریں: ڈاکٹر سید جعفر شہیدی، زندگانی فاطمہ زہرا (تہران: دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ١٣٦٥ ھ.ق)، ص ٧٦۔ ٤٤؛ امیر مھنا الخیامی، زوجات النبی و اولادہ، (بیروت: موسسہ عز الدین، ط ١، ١٤١١ھ.ق)، ص ٣٢٨۔ ٣٢٢.

(٥) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٠٠؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٤؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج٢، ص٣٧.

(٦) مشرکین کے سپاہیوں کی تعداد تین ہزار تھی جن میں سات سو افراد زرہ پوش، دو سو گھوڑے اور ایک ہزار اونٹ تھے۔ (واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠٤۔ ٢٠٣؛ محمد بن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٣٧؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ (قاہرہ: دار احیاء الکتب العربیہ، ١٩٦٢م)، ج١٤، ص ٢١٨.

۲۷۰

سپاہیوں کی تشویق کے لئے کچھ عورتوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔(١)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م، مکہ میں اپنے چچا عباس کی مخفی خبر کے ذریعہ قریش کے ارادے سے آگاہ ہوگئے۔(٢) اور آپ نے ایک فوجی کمیٹی بناکر دشمن سے مقابلہ کرنے کے لئے، مسلمانوں سے مشورہ کیا۔ عبد اللہ ابن ابی اور انصار کے کچھ بزرگ نیز بعض مہاجر شخصیتیں جیسے حمزہ، چاہتے تھے کہ شہر کے باہر دشمن سے مقابلہ کریں کیونکہ شہر میں رہنا دشمن کی جرأت کا باعث بنے گا اور مسلمانوں کی ناتوانی اور کمزوری کی علامت قرار پائے گا۔ اور جنگ بدر میں سپاہ اسلام کی قدرت نمائی کے اعتبار سے نامناسب سمجھا جائے گا۔(٣)

آخر کار پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اس بہادر او رانقلابی گروہ کی رائے کو قبول کیا او رایک ہزار(٤) افراد کے ساتھ احد٭کے پہاڑ کی طرف چل دیئے۔ بیچ راستے میں عبد اللہ بن ابی یہ بہانہ کر کے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جوانوں کے مشورے پر عمل کیا اور ہماری رائے کو نظر انداز کیا(٥) اور نیز اس بات کو دلیل بنا کر کہ

______________________

(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠٣۔ ٢٠٢؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٣٧؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٦٦.

(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠٤ اور ٢٠٦؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٤، ص ٢٧؛ ایک نقل کی بنا پر قبیلہ خزاعہ جو کہ دوست دار پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمان تھا۔ اس موضوع سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو باخبرکیا (ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ص ٢١٨)، اور ممکن ہے کہ دونوں طریقوں سے خبر پہنچی ہو۔

(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢١٢۔ ٢١٠، ٢١٣؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٦٧؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص٣٨.

(٤) ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص ١٩١؛ مجلسی ، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص١١٧.

٭ احد پہاڑ ، مدینہ کے شمالی سمت میں واقع ہے۔ اور قدرتی روکاوٹوں کی بنا پر دشمن جنوب کی سمت سے مدینہ میں داخل نہیں ہوسکتا تھا لہٰذا مجبور تھا کہ اطراف شہر کا چکر لگا کر شمال کی سمت سے حملہ کرے۔ (محمد حمید اللہ، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم در میدان جنگ، ترجمہ سیدغلام رضا سعیدی (تہران: مرکز انتشارات محمدی ، ١٣٦٣ھ.ش)، ص ٨٥۔ ٧٩.

(٥) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٩؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٣٩؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٦٨.

۲۷۱

جنگ نہیں ہوگی۔(١) ، تین سو (٣٠٠) افراد کے ساتھ مدینہ پلٹ آیا۔

اسلامی لشکر جس کی تعداد کم ہوکر سات سو (٧٠٠) افراد ہوچکی تھی،(٢) پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م لشکر اسلام کی تعداد کم ہونے کے باعث انھیں احد پہاڑ کے کنارے روکا۔ اس پہاڑ کو پیچھے، مدینہ کواپنے سامنے، اور عینین پہاڑ کو مسلمانوں کے داہنی طرف قرار دیا(٣) اسلامی لشکر مغرب کی سمت اور مشرکین، مشرق کی سمت میں تھے۔(٤) اس وقت پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے پورے علاقے پر فوجی نقطۂ نظر سے، نظر دوڑائی تو آپ کی توجہ عینین پہاڑ کی طرف مرکوز ہوگئی؛ کیونکہ ممکن تھا کہ دوران جنگ، دشمن اس گوشے سے مسلمانوں کے محاذ کے پیچھے پہنچ جائے۔ اس بنا پر ایک مسلمان کمانڈر عبد اللہ بن جبیر کو پچاس تیر اندازوں کے ساتھ اس گوشہ کی حفاظت کے لئے مامور کیا اور فرمایا: ''چاہے ہم جیتیں یا ہاریں، تم لوگ یہیں رہنا اور اسپ سوار لشکر کو تیر اندازی کے ذریعہ ہم سے دور کردینا تاکہ پشت کی جانب سے ہم پر حملہ نہ کرسکیں''(٥) ٭

______________________

(١) سورۂ آل عمران، آیت ١٦٧؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢١٩؛ طبرسی، مجمع البیان (شرکة المعارف الاسلامیہ، ١٣٧٩ھ.ق)، ج٢، ص ٥٣٣.(٢) طبرسی، اعلام اوریٰ، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ط٣)، ص ٨٠؛ ابو سعید واعظ خرگوشی، شرف النبی، ترجمہ: نجم الدین محمد راوندی (تہران: انتشاراتبابک، ١٣٦١ھ.ش)، ص ٣٤٥؛ حلبی، السیرة الحلبیہ (انسان العیون)، (بیروت: دار المعرفہ)، ج٢، ص ٤٩٤؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٧٠.(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٠؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٣٩؛ نور الدین سمہودی، وفاء الوفاء با اخبار دار المصطفی (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط ٣، ١٤٠١ھ.ق)، ج١، ص٢٨٤.(٤) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٢٢٠۔(٥) مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٢٥ و ٤٩؛ رجوع کریں: ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٧٠؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٠۔ ٣٩؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٨٥؛ محمد بن جریر الطبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دارالقاموس الحدیث)، ج٣، ص ١٤.

٭ تاریخی کتابوں میں، مسلمان تیر اندازوں کے مورچہ سنبھالنے کی جگہ کو ''پہاڑ'' یا وادی کا دہانہ کہا گیا ہے۔ عام طور سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ احد پہاڑ کے شگاف کی جگہ یہی ہے کہ جہاں سے جنگ کے دوسرے دور میں خالد بن ولیدنے مسلمانوں پر حملہ کیا تھا۔ لیکن محمد بن سعد کاتب ، واقدی، جس کے استاد کی رپورٹیں اور خبریں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ کی جنگوں کے بارے میں، خاص طور پر جغرافیائی لحاظ سے معتبر اور مستند ہیں، (المغازی، تحقیق: مارسڈن جونس، مقدمہ، ص ٦، ق٣١)، وہ اس حصہ کو عینین کے نام سے ذکر کرتا ہے (طبقات الکبریٰ، ج٢، ص ٣٩)، کہ جس کے بارے ہم نے بیان کیا ہے کہ وہ ایک پہاڑ تھا جو لشکر اسلام کے بائیں طرف موجود تھا۔ اور شاید اس لحاظ سے کہ اس کے بغل میں دو چشمے تھے۔ (الطبقات الکبریٰ، ج٢، ص ٣٩)، اس کا نام عینین رکھا گیا ہو؛ کیونکہ عین کا ایک معنی، چشمہ ہے۔ مسلمانوں کے قدیم جغرافیہ دانوں نے اس حصہ کو پہاڑ کہا ہے۔ یاقوت حموی لکھتا ہے: ''عینین احد کا ایک پہاڑ ہے ،اس کے اوراحد کے درمیان ایک وادی ہے'' (معجم البلدان، ج٤، ص ١٧٤؛ مادہ عین، عبد اللہ بکری اندلسی بھی کہتا ہے: ''عینین پہاڑ، احد میں واقع ہے اور پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے جنگ احد میں تیر اندازوں کو اس پہاڑ پر ٹھہرا رکھا تھا'' (معجم مااستعجم من سماء البلاد و والمواضع، ج٣، ص ٩٧٨؛ مادہ عین)تمام دستاویزات اور تاریخی و جغرافیائی قرائن و شواہد اور علاقہ احد کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا جاسکتاہے کہ عینین سے مراد ایک مٹی کا ٹیلہ تھا جو احد پہاڑ کے سامنے اور شہر مدینہ کے بائیں طرف واقع تھا اور جنگ اس ٹیلہ اور پہاڑ کے بیچ میں ہوئی ہے،اس جنگ کے شہدائ، میدان جنگ ہی میں مدفون ہیں اور ان کی قبریں ان دونوں کے بیچ میں ہیں۔ اس بنا پر تیراندازوں کے مورچہ سنبھالنے کی جگہ، احد کے پہاڑ میں نہیں تھی اور جیسا کہ خود مؤلف نے نزدیک سے اس جگہ کا مشاہدہ کیا ہے۔ اصولی طور پر احد پہاڑ میں کوئی ایسا شگاف نہیں موجود جس سے دو سو (٢٠٠)، گھوڑ سوار سپاہی گزر سکیں۔پروفیسر محمد حمید اللہ، جس نے ١٩٣٢۔ ١٩٤٥۔ ١٩٤٧۔ ١٩٦٣، عیسوی میں جنگ احد کے میدان کا دقیق طور سے مطالعہ او رتجزیہ کیا ہے اس سلسلہ میں اس نے اہم اور قیمتی تحقیقات انجام دی ہیں۔ رجوع کریں (رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم در میدان جنگ، ترجمہ سید غلام رضا سعیدی، ٩٥۔ ٩٢.

۲۷۲

ابوسفیان نے بھی لشکر کو آراستہ کیااورعلم دار کا انتخاب کیا، اس زمانہ میں ''علمدار'' میدان جنگ میں بہت اہم کردار ادا کرتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ علم کو کسی بہادر اوردلیر شخص کے ہاتھ میں دیا جاتاتھا۔ علمدار کی استقامت و پائیداری اور میدان جنگ میںعلم کا لہرانہ، سپاہیوں کے جوش و خروش کا باعث قرار پاتا تھا۔ اوراس کے برخلاف علمدار کا مارا جانا اورعلم کی سرنگونی ان کے حوصلے کے پست اور ثبات قدم میں لغزش کا باعث بنتی تھی۔

ابوسفیان نے علمداروں کو قبیلۂ ''بنی عبد الدار'' سے (جو کہ شجاعت اور بہادری میں مشہور تھے)

انتخاب کیا اوران سے کہا: ہم جانتے ہیں کہ تم عبدالدار علمداری کے لئے ہم سے لائق تر ہواو رعلم کی اچھی طرح سے حفاظت کرتے ہو او رہمارے خیال کو اس طرف سے مطمئن رکھو گے کیونکہ جب لشکرکا علم سرنگوں ہو گیا تو وہ لشکر ٹک نہیں پائے گا''۔(١)

جنگ کے پہلے مرحلے میں مسلمانوں کی فتح

ہجرت کے تیسرے سال(٢) ١٥ شوال کو جنگ شروع ہوئی اور زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ مسلمان جیت گئے اور مشرکین ہار کھا کر بھاگنے لگے۔ ان کے شکست کی وجہ ،بہت زیادہ نقصان نہیں تھی؛ کیونکہ جنگ کے آخر تک کل نقصان (اس سلسلہ میں سب سے زیادہ تعداد جو نقل ہوئی ہے) پچاس افراد سے زیادہ کا نہیں ہوا تھا۔(٣) اور یہ تعداد لشکر شرک کی کل تعداد کے بہ نسبت، بہت ہی کم تھی۔ بلکہ ان

______________________

(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٢١؛ ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص١٠٦۔

(٢) مجلسی، بحار الانوار، ج٢٠، ص ١٨؛ عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، دار احیاء التراث العربی، ط ١، ١٣٢٨ھ.ق، ج١، ص ٣٥٤۔ تیسرے ساتویں، آٹھویں، نویں، اور گیارہوں روز بھی بیان کیا گیا ہے۔ (تاریخ الامم و الملوک، ج ٣، ص ١٤، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی، ج١، ص ٢٨١.)

(٣) رجوع کریں: السیرة الحلبیہ، ج٢، ص ٥٤٧، کل قتل ہونے والے مشرکین کی تعداد ٢٣ اور ٢٨ افراد نقل ہوئی ہے ۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ، ج١٥، ص ٥٤؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ ، ج٢، ص ٤٣؛ بلاذری، اسباب الاشراف، ج١، ص ٣٢٨.

۲۷۳

کے شکست کھانے کی وجہ علمدار کا مارا جانا تھا۔ ان میں سے نو افراد علی کے قوی ہاتھوں کے ذریعہ ہلاک ہوئے تھے۔(١) اور مسلسل علم کے گرنے کی وجہ سے ان کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ فرار کرنے لگے۔(٢)

علی نے بعد میں اس موضوع کو دلیل بنایا جیسا کہ عمر کے قتل ہو جانے کے بعد خلیفہ کے انتخاب کے لئے جو چھ افراد پر مشتمل شوریٰ بنی اس میں اس موضوع کو آپ نے اپنے درخشاں کارناموں کا ایک حصہ سمجھ کر تذکرہ کیا جس کی تائید شوریٰ کے افراد نے کی۔(٣)

قریش کے علمدار کے قتل ہونے کے بعد لشکر شرک کی صفوں میں ہلچل مچ گئی اور سب فرار کرنے لگے ۔ اور مسلمانوں نے ان کا تعاقب کرتے وقت جب میدان جنگ میں مال غنیمت کودیکھا تواس کو اکٹھا کرنے میں مشغول ہوگئے۔ اکثر تیر اندازوں نے جب یہ منظر دیکھا تو مال غنیمت جمع کرنے کی لالچ میں اس خیال سے کہ جنگ ختم ہوچکی ہے اپنے محاذ کو چھوڑ دیا اور پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے دستور کے بارے میں عبد اللہ بن جبیر کے خبردار کرنے پر بھی کوئی توجہ نہیں دی۔(٤)

______________________

(١) شیخ مفید، الارشاد (قم: الموتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید، ط١، ١٤١٣ھ۔ق)، ص ٨٨؛ مجلسی ، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٥١؛ مجمع البیان، (شرکة المعارف الاسلامیہ)، ج٢، ص ٤٩٦۔

(٢) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٧؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤١؛ سمہودی، وفاء الوفائ، ج١، ص ٢٨٨؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج ٢٠، ص ٢٦.

(٣) صدوق، الخصال، (قم: منشورات جامعة المدرسین فی الجامعہ العلمیہ، ١٤٠٣ھ.ق)، ص ٥٦٠.

(٤) سورۂ آل عمران، آیت ١٥٢.

۲۷۴

مشرکوں کی فتح

تیراندازوں کی خلاف ورزی کے سبب جنگ کی صورت حال بدل گئی ؛کیونکہ خالد بن ولید نے دو سو (٢٠٠) سواروں کے ساتھ اس جگہ پر حملہ کردیا جہاں کے بارے میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے سپاہیوں کو آگاہ کیا تھا اور عبد اللہ بن جبیر کو بچے ہوئے دس افراد کے ساتھ شہید کردیا اور پشت محاذ سے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔

دوسری طرف سے عمرة ـ علقمہ کی لڑکی اور قریش کی ایک عورت جو کہ میدان جنگ میں موجود تھیـ نے علم کو زمین سے اٹھا کر فضا میں لہرا دیا.(١) قریش خالد کے حملے اور پرچم کو لہراتا ہوا دیکھ کرخوشحال ہوگئے اور انھوں نے دوبارہ حملہ کردیا۔(٢) چونکہ اس وقت مسلمانوں کی فوج تتر بتر گئی تھی اور کمانڈروں کا رابطہ سپاہیوں سے ٹوٹ گیا تھا۔ لہٰذا وہ مقابلہ نہیں کرسکے اور بری طرح سے شکست کھاگئے۔ چند دوسرے محرکات بھی اس شکست کا باعث بنے، وہ یہ ہیں:

١۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے قتل ہونے کی افواہ۔(٣)

٢۔ اس زمانے میں دونوں طرف کی فوجیں مخصوص لباس نہیں رکھتی تھیں اور میدان جنگ میں

______________________

(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٨٣؛ طبری، گزشتہ حوالہ ، ج٣، ص ١٧؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٥١؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٢، ص ٤٩٦۔ حسان بن ثابت ـ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کا شاعرـ نے اس مناسبت سے ایک شعر میں قریش کی مذمت کی ہے اور کہا ہے: اگر اس دن عمرہ نہ ہوتا تو بردہ فروشوں کے بازار میں بیچ دیئے جاتے (ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٨٤؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٤ ص ٢١٧.

(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٢۔ ٤١؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٨٢؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٧؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٤٩۔٢٦.

(٣)ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٨٢؛ گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٧؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٢٧۔ ٢٦.

۲۷۵

صرف نعروں کے ذریعہ ایک دوسرے کی فوج کو پہچانا جاتا تھا۔ جب قریش نے دوبارہ حملہ کیا تو مسلمانوں کی صفیں زیادہ سرگرداں ہوگئیں اور ایک دوسرے کو پہچان نہ سکے اور آپس میں ایک دوسرے کے اوپر اس طرح تلوار چلانے لگے(١) کہ حسیل بن جابر( حذیفہ بن یمان کے والد) مسلمانوں کے ہاتھ مارے گئے۔(٢) لیکن جب اپنی حالت سمجھ گئے تو دوبارہ نعرہ بلند کیا اور جنگ کا نقشہ بدلا۔(٣)

٣۔ ہوانے سمت بدلی، اس وقت تک جو ہوا مشرق سے چل رہی تھی۔ وہ مغرب سے چلنے لگی اور جنگ کو مسلمانوں پر دشوار کردیا۔(٤)

بہرحال مسلمانوں کی صفیں اس طرح سے منتشر ہوئیں کہ ان میں سے زیادہ تر لوگ فرار کر گئے اور کچھ لوگ پہاڑ کی چوٹی پر بھاگ گئے جبکہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے خود میدان جنگ میں مقابلہ کیا اور بھاگنے والوں سے پائیداری اوراستقامت کے لئے کہا۔(٥) صرف علی اور چند دوسرے افراد میدان جنگ میں ڈٹے رہے۔(٦)

علی ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بغل میں کھڑے ہوکر تلوار چلارہے تھے اور کئی مرتبہ انھوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنوں

______________________

(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٢؛ رجوع کریں: وفاء الوفائ، ج١، ص ٢٨٦.

(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٣ و ٤٥؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٩٣؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٨٨؛ سید علی جان مدنی، الدرجات الرفیعہ (قم: منشورات مکتبة بصیرتی، ١٣٩٧ھ.ق)، ص ٢٨٣.

(٣) بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: محمد حمید اللہ (قاہرہ: دار المعارف، ط ٣، )، ص ٣٢٢.

(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٢.

(٥) سورۂ آل عمران، آیت ١٥٤۔ ١٥٣؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٣١٨؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٢٠؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج ٢٠، ص ٤٧؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٥، ص ٢٣ و ٢٥.

(٦) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٧؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج ١٥، ص ٢١ و ٢٩.

۲۷۶

کے حملوں کودور کیا(١) اور آپ کی بے نظیر استقامت و پائیداری کی بنا پر آسمان احد میں صدائے غیبی گونجی: لا فتیٰ الا علی و لاسیف الا ذوالفقار۔(٢)

یہاں تک کہ ایک مسلمان نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہچان لیا اور میدان جنگ میں باقی رہ جانے والے چند افراد (یافرار کے بعد واپس آنے والے افراد) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گرد اکٹھا ہوئے اور جنگ کے عالم میں احد پہاڑ کے کنارے پہنچے(٣) اور جنگ کی گردو غبار بیٹھی۔

اس موقع پر ابوسفیان نے مسلمانوں کے حوصلہ کو کمزور کرنے کے لئے افواہیں پھیلانا شروع کردیں اور نفسیاتی جنگ چھیڑ دی اور نعرے لگانے لگا: اعل ھبل اعل ھبل، سرفراز ہو اے ھبل، سرفراز ہو اے ھبل! پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے نعرے کے جواب میں فرمایا: اللّٰہ اعلیٰ و اجل۔ خدا بلند و برتر ہے! ابو سفیان نے کہا: لنا العزی و لاعزی لکم۔ ہم عزی بت رکھتے ہیں اورتم عزی نہیں رکھتے ہو۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے ایک مسلمان نے اس کے جواب میں کہا: اللّٰہ مولیٰ و لا مولیٰ لکم۔ خدا ہمارا مولا ہے اور تمہارا کوئی مولا نہیں ہے۔(٤)

______________________

(١) شیخ مفید، الارشاد، (قم: الموتمر العالمی لالفیہ الشیخ المفید، ١٤١٣ھ.ق)، ص ٨٩؛ طبری ، گزشتہ حوالہ، ج١٤، ص ٢٥٠؛ حافظ بن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق (ترجمہ الامام علی ابن ابی طالب)، تحقیق: محمد باقر المحمودی (بیروت: دارالتعارف للمطبوعات، ط ١، ١٣٩٥ھ.ق)، ج١، ص ١٥٠؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٨٨.

(٢) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٧؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٤؛ شیخ مفید، گزشتہ حوالہ، ص ٨٧؛ مجلسی گزشتہ حوالہ، ج ٢٠، ص ٥٤، ١٠٥، ١٠٧۔

(٣) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص١٩؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٨٩۔٨٨؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٥٤۔

(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٨۔ ٤٧؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٢٧؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٢٤؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٥، ص ٣١۔ ٣٠؛ ابوسعید واعظ خرگوشی، شرف النبی، ترجمۂ نجم الدین محمود راوندی (تہران: انشارات بابک، ١٣٦١ھ.ق)؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٣١؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٣٢و ٤٥.

۲۷۷

اس جنگ میں (بنا بر مشہور) ستر(١) افراد مسلمانوں میں سے جن میں جناب حمزہ ـ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچاـ اور مصعب بن عمیر بھی تھے درجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔ جبکہ احد میں مسلمانوں نے شکست کھائی اور قریش کے سپاہیوں میں سے کوئی نہیں مرا اور ظاہری محاسبات کی بنیاد پر اگر وہ لوگ ، اس وقت مدینہ پر بھی حملہ کرتے تو کامیاب ہوجاتے لیکن قریش کے سردار، اس اقدام(٢) کے انجام سے پریشان ہوئے اوراس سے چشم پوشی کر کے مکہ واپس چلے گئے اور مسلمانوں سے انتقام لیکر خوش ہوگئے تھے کہ بدر میں جتنے لوگ ان کے مارے گئے تھے اتنے کو انھوںقتل کردیا ہے جبکہ نہ مدینے کو کوئی نقصان پہنچا تھا اور نہ شام کا تجارتی راستہ آزاد ہوا تھا۔ اس خیال سے کہ کہیں دشمن یہ گمان نہ کریں کہ مسلمانوں کو کچل دیا ہے ۔ اور مدینہ پر حملہ کی جرأت نہ کرسکیں، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ کے ایک دن بعد، اسلامی سپاہیوں کے ساتھ جو زیادہ تر زخمی تھے، سرزمین ''حمراء الاسد'' تک مشرکوں کا پیچھا کیا اور جب اطمینان حاصل ہوگیا کہ وہ دوبارہ حملے کا ارادہ نہیں رکھتے تو آپ مدینہ پلٹ آئے۔(٣)

______________________

(١) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٢٨؛ طبرسی، اعلام الوریٰ (تہران: دارالکتب الاسلامیہ، ط ٣)، ص ٨٢؛ ابوسعیدواعظ خرگوشی، گزشتہ حوالہ، ص ٣٤٦؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٩٢۔ ٢٩١؛ مجلسی ، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ١٨؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٤٧.

(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١١٠؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٥٠.

(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٠٧ اور ١١٠؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٥، ص ٣٣۔ ٣١؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٥٠؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٤٠، ٤١ اور ٩٩.

۲۷۸

جنگ احد کے نتائج

جنگ احد میں مسلمانوں کی شکست کے کچھ آثار و نتائج یہ ہیں:

١۔ اگر چہ اس جنگ میں فوجی لحاظ سے مسلمانوں نے شکست کھائی۔ لیکن ان کے لئے یہ عبرت تھی کہ آئندہ فرمان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سرپیچی نہ کریں اور بعد کی جنگوں میں اس طرح کی خلاف ورزیاں دوبارہ نہ ہوں۔

٢۔ منافقین فتنہ انگیزی پر اتر آئے اور مسلمانوں کی شکست پر خوشی کا اظہار کرنے لگے لہٰذا ان کی مذمت کی گئی۔(١)

٣۔ یہودیوں نے بھی اپنے کینہ کو آشکار کردیا او رکہا: محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، بادشاہی کے چکر میں ہیں۔ اور کوئی بھی پیغمبر اس طرح سے شکست نہیں کھایا ہے۔(٢)

٤۔ دشمنان اسلام، اطراف مدینہ میں گستاخ ہوگئے اور سازش اور فتنہ انگیزی کرنے لگے۔

مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے قبیلۂ بنی اسد کی ناکام نقل و حرکت کا نمونہ واقعۂ ''رجیع'' اور واقعہ ''بئر معونہ'' ہے۔

٥۔ مسلمانوں کے مدینہ پلٹنے کے بعد غم و اندوہ کا بادل شہر پر چھا گیااور مایوسی اور ناامیدی پورے شہر میں نظر آرہی تھی۔ اور منافقوں اور یہودیوں کے شیطانی وسوسے بھی احد میں ابوسفیان کی نفسیاتی جنگ کو مدینہ میں اپنائے ہوئے تھے اور اس طرح نقصان پہنچا رہے تھے. خداوند عالم نے سورۂ آل عمران کی کچھ آیات کے ذریعہ ان کے اثرات کو ختم کیااور مسلمانوں کے حوصلہ کو بلند کیا۔ ابن اسحاق کے کہنے کے مطابق اس سورہ کی ٦٠ آیتیں جنگ احد کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔(٣)

خداوند عالم نے ان آیات میں مسلمانوں کو شکست کے راز کی طرف متنبہ کیاہے اور ان کو خبردار کیا ہے کہ اگر ''فوجی شکست'' کھائے ہیں تو وہ ناامید نہ ہوں کہ ''نفسیاتی شکست'' بھی کھائیں اور نیز ان کو متوجہ کیا کہ ان کے ''شکست کا راز''، ''فوجی قوانین کی عدم پابندی'' اور مال دنیا کی طرف توجہ تھی اگر بدر میں خدا کی مدد سے کامیاب ہوئے تو اس بنا پر تھا کہ صرف خدا کے لئے لڑ رہے تھے لیکن اس جنگ میں مال غنیمت کے چکر میں پڑ گئے اور شکست کھاگئے۔ (یہاں پرسورہ آل عمران کی کچھ آیات کا ترجمہ پیش ہے)

______________________

(١) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣١٨۔ ٣١٧.

(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣١٧؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٤٩.

(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١١٢.

۲۷۹

''اور اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی ہے جب کہ تم کمزور تھے لہٰذا اللہ سے ڈرو شاید تم شکر گزار بن جاؤ''۔

اور اللہ و رسول کی اطاعت کرو کہ شاید رحم کے قابل ہو جاؤ ـ خبردار سستی نہ کرنا، مصائب پر محزون نہ ہونا اگر تم صاحب ایمان ہو تو سربلندی تمہارے ہی لئے ہے ـ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی تو قوم کو بھی ( دشمنوں)اس سے پہلے ( بدرمیں)ایسی ہی تکلیف پہنچ چکی ہے اور ہم ایام( فتح و شکست) کو لوگوں کے درمیان الٹتے پلٹتے رہتے ہیں تاکہ خدا صاحبان ایمان کو دیکھ لے اور تم میں سے بعض کوگواہ قرار دے اور وہ ظالمین کودوست نہیں رکھتا ہے۔

کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ تم جنت میں یوں ہی داخل ہو جاؤ گے جب کہ خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو بھی نہیں جانا ہے ـ تم موت کی ملاقات سے پہلے اس کی بہت تمنا کیا کرتے تھے اور جیسے ہی اسے دیکھا، دیکھتے رہ گئے ـ خدا نے اپنا وعدہ اس وقت پورا کردیا جب تم اس کے حکم سے کفار کو قتل کر رہے تھے یہاں تک کہ تم نے کمزوری کا مظاہرہ کیا اور آپس میں جھگڑا کرنے لگے او راس وقت خدا کی نافرمانی کی جب ا سنے تمہاری محبوب شے کودکھلادیاتھا۔ تم میں کچھ دنیا کے طلب گار تھے اور کچھ آخرت کے۔ اس کے بعد تم کو ان کفار کی طرف سے پھیر دیا تاکہ تمہارا امتحان لیا جائے اور پھر اس نے تمہیں معاف بھی کردیا کہ وہ صاحبان ایمان پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے۔

کیا جب تم پر وہ مصیبت پڑی جس کی دوگنی تم کفار پر ڈال چکے تھے تو تم نے یہ کہنا شروع کردیاکہ یہ ایسے ہوگیا تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کہہ دیجئے کہ یہ سب خود تمہاری طرف سے ہے اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔(١)

جنگ احد میں شکست سے مسلمانوں کے فوجیوں کا اعتبار ختم ہوگیااو رباعث بنا کہ مدینہ کے اطراف میںدشمنان اسلام، مسلمانوں کے خلاف سازش کریں اور مدینہ پر حملہ کی سازش اور نقشہ تیار کرنے کے لئے ایسے وقت کا انتخاب، مسلمانوں کی فوجی کمزوری کی خاطر تھا۔(٢) ان سازشوں کے چند نمونے یہ ہیں:

______________________

(١) سورۂ آل عمران، ١٢٣، ١٣٢، ١٣٩، ١٤٠، ١٤٢، ١٤٣، ١٥٢ اور ٦٥ ویں آیتیں

(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٤٢.

۲۸۰