تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 157884
ڈاؤنلوڈ: 4715

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157884 / ڈاؤنلوڈ: 4715
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

١۔ سریۂ ابوسلمہ : پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کو خبر ملی کہ ''قبیلۂ بنی اسد'' نے مدینہ پر حملے کا ارادہ کرلیا ہے لہٰذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے، ابوسلمہ کو ایک سو پچاس افراد کا کمانڈر بناکر ان کے علاقہ میں بھیج دیا او رحکم دیاکہ قبل اس کے کہ دشمن حملہ کریں تم ان پر حملہ کردینا۔ لہٰذا یہ لوگ نزدیک راستے سے ، بہت تیزی کے ساتھ بنی اسد کی سرزمین پر پہنچ گئے۔ جب ان کے قافلہ والوں نے دیکھا تو مبہوت اورہواس باختہ ہوگئے اور فوراً فرار کر گئے اور ابوسلمہ مال غنیمت اور چند اسیروں کو لے کر مدینہ پلٹ آئے۔(١)

اس کامیابی سے کسی حد تک مسلمانوں کے فوجیوں کا اعتبار بلند ہوا او رمنافقین و یہودی اوراطراف مدینہ کے قبائل سمجھ گئے کہ ان کی سوچ و فکر کے برخلاف، مسلمان ابھی کچلے نہیں گئے ہیں۔

٢۔ واقعۂ رجیع: ماہ صفر ٤ھ میں قبیلۂ ''بنی لحیان'' کے ورغلانے پر ''قبیلۂ عضل و قارہ'' کے چند افراد ، مدینہ میں داخل ہوئے اور اظہار اسلام کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا: ہمارے قبیلہ سے کچھ افراد مسلمان ہوگئے ہیں، کسی کو آپ بھیجئے جو ہم کو قرآن اور اسلامی احکام کی تعلیمات دے، پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے دس افراد٭ کو ان کے ہمراہ بھیجا۔ جب وہ لوگ قبیلۂ ہذیل کے ''رجیع'' نامی مقام پر پانی کے کنارے پہنچے تو قبیلۂ عضل و قارہ کے افراد نے بنی لحیان کی مدد سے ان پر حملہ کردیا، مبلغین اسلام نے دفاع کیا لیکن ایک طرفہ جنگ میں اکثر شہید ہوگئے اور دو افراد اسیر ہوئے۔ مشرکین ان دو اسیروں کو مکہ لے کر گئے اور انھیں جنگ بدر کے مقتولین کے ورثہ کے ہاتھوں بیچ دیا اور ان لوگوں نے ان دو اسیروں کو بہت ہی دردناک اور فجیع طریقہ سے شہید کردیا۔(٢)

______________________

(١) گزشتہ حوالہ، ص ٣٤٣۔ ٣٤٠؛ محمد بن سعد، طبقات الکبریٰ ، ج ٢، ص ٥٠.

٭ بعض مورخین کے کہنے کے مطابق چھ یا سات افراد تھے (ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٧٨؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٩٤؛ واقدی ، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٥٥.)

(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٦٢۔ ٣٥٤؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٦۔ ٥٥؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٩٢۔ ١٧٨؛ ابن شہر آشوب ، گزشتہ حوالہ، ص ١٩٥۔ ١٩٤؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ١٥٢۔ ١٥١.

۲۸۱

ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ دو قبیلوں نے مشرکین مکہ کے ساتھ سازباز کر رکھا تھا اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے ایسی خیانت کی۔

٣۔ بئر معونہ کا قصّہ: یہ واقعہ، واقعۂ رجیع سے زیادہ دردناک اوردلخراش تھا۔ اور ماہ صفر ٤ ھ میں رونما ہوا۔ ابوبراء ـ قبیلۂ بنی عامر کا بزرگـ مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوااور بغیر اسلام کا اظہار کئے یا اس کی طرف بے رغبتی کا اظہار کئے ہوئے درخواست کی کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے ایک گروہ کو ''نجد'' کے لوگوںکو اسلام کی طرف دعوت دینے کے لئے ، اس علاقہ میں بھیجیں ، شاید وہ اسلام کو قبول کرلیں۔

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے فرمایا: ''میں نجد کے لوگوں سے مسلمانوں کے بارے میں ڈرتا ہوں'' ۔

ابوبراء نے کہا: ''یہ لوگ ہمارے پناہ میں رہیں گے''۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اپنے بہترین اصحاب اور قاریان قرآن میں سے ستر(١) افراد کو بھیجا ۔ یہ گروہ جب ''بئر معونہ'' پر پہنچا، تو اپنے ایک قاصد کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک خط دے کر عامر بن طفیل کے پاس بھیجا۔ اس نے خط کو نہیں پڑھا اور اس کو قتل کردیا۔ اس وقت بنی عامر سے اس کے ساتھیوں کو قتل کرنے کے لئے مدد مانگی تو ان لوگوں نے ابوبراء کے امان کے احترام میں اس کام سے اجتناب کیا ۔ عامر بن طفیل نے قبیلۂ ''بنی سلیم'' کے کچھ افراد کی مدد سے مبلغین اسلام کے گروہ پر حملہ کردیا تو مجبور ہوکر انھوں نے اپنا دفاع کیا اور صرف کعب بن زید اور عمر و بن امیہ خمری کے علاوہ سب شہید ہوگئے۔(٢)

______________________

(١) ایک نقل کے مطابق چالیس آدمی تھے (طبری، تاریخ الامم والملوک، ج٣، ص٣٤؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص١٩٤؛ واقدی، المغازی، ج١، ص٣٤٧.)

(٢) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣٤۔ ٣٣؛ طبرسی، مجمع البیان، (شرکة المعارف الاسلامیہ)، ج٢، ص ٥٣٣؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص ١٩٦۔ ١٩٥؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ١٤٨۔ ١٤٧؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٣٤٨۔ ٣٤٦؛ ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٩٣؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج٢، ص ٥٣۔ ٥١.

۲۸۲

عمرو بن امیہ دشمن کے ذریعہ اسیر ہوا اور پھر آزاد ہوکر مدینہ پلٹتے وقت بنی عامر کے دو افراد کو جو کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ عہد و پیمان کئے ہوئے تھے (اور وہ اس سے بے خبر تھا) قتل کردیا۔(١)

بنی نضیر کے ساتھ جنگ(٢)

عمرو بن امیہ کے ذریعہ بنی عامر (پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے ہم پیمان) کے دو افراد کے قتل ہونے پر پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اس واقعہ پر افسوس اور ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا: ''ان کو ہمیںدیت دینی چاہیئے''۔(٣)

دوسری طرف سے قبیلۂ بنی عامر نے ایک خط کے ذریعہ ان سے دیت کا مطالبہ کیا۔(٤)

اس لئے کہ بنی عامر نے قبیلۂ بنی نضیر کے ساتھ بھی عہد و پیمان کیا تھا۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م ان کو دیت دینے کے لئے مہاجر و انصار کے چند افراد کے ساتھ مدینہ کے اطراف میں ان کے ٹیلہ کے پاس گئے اور ان سے باتیں کیں۔ بنی نضیر کے سردار تیار ہوگئے۔ لیکن خفیہ طور پر ایک شخص کو بھیجا تاکہ دیوار کے اوپر جاکر جہاں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بیٹھے تھے ایک بڑا پتھر پھینک کر آپ کو قتل کردے.رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غیبی راستے سے ان کی اس سازش سے آگاہ ہوگئے۔(٥) اور فوراً اس جگہ کو ترک کر کے مدینہ واپس چلے آئے اور

______________________

(١) طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٣٤؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٩٥؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٥٣.

(٢) کچھ مورخین اور سیرت نگاروں نے (مشہور قول کے برخلاف) اس واقعہ کی تاریخ، جنگ احد سے قبل اور اس کی وجہ دوسری چیز ذکر کی ہے۔ استادعلامہ سید جعفر مرتضی العاملی نے اس نقل کو ترجیح دیاہے (الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج٦، ص ٤٤۔ ٣٢)

(٣) ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج٢، ص ٥٣؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٩٥؛ طبری، تاریخ الامم والملوک، ج٣، ص ٣٥؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٥٢.

(٤) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٥٢ اور ٣٦٤.

(٥) بیہقی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٣٣٥؛ واقدی ، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٦٦۔ ٣٦٥؛ طبرسی، اعلام الوریٰ باعلام الہدیٰ (تہران: دار الکتب الاسلامیہ)، ص٨٨.

۲۸۳

ان کو خبردار کیاکہ مدینہ کو ترک کردیں اور اپنے ما ل و اثاث کو اپنے ساتھ لے کر چلے جائیں۔ وہ لوگ مرعوب ہوکر مدینہ سے چلے گئے؛ لیکن عبد اللہ بن ابی نے ان کو مقابلہ کرنے کے لئے کہا اوران سے وعدہ کیا کہ جنگ پیش آنے کی صورت میں مسلح افراد کے ساتھ ان کی مد د کریں گے۔ اوراگر انھیں مدینہ سے نکالا گیا تو وہ بھی مدینہ کو ترک کردیں گے۔(١)

کچھ تاریخی خبریں بتاتی ہیں کہ اس واقعہ سے قبل، قریش نے ان کو مسلمانوں کے خلاف سازش اور جنگ کرنے کے لئے ورغلایا تھا۔(٢) اور اس واقعہ میں ان کا بھڑکانا اور ورغلانا بے اثر نہیں تھا۔

بنی نضیر، عبد اللہ کے جھوٹے وعدوں سے دھوکہ کھا گئے اور مدینہ ترک کرنے سے پھر گئے۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم پر لشکر اسلام نے پندرہ دن تک ان کے قلعہ کا محاصرہ کیا۔اس عرصہ میں کہیں سے مدد کی کوئی خبر نہیں آئی لہٰذا وہ مجبور ہوکر، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی موافقت پر اپنے اسلحوں کو زمین پر ڈال کر اپنے مال و اثاثہ زندگی کو اونٹوں پر لاد کر کچھ لوگ اذرعات شام اور کچھ لوگ جن میں ان کا رئیس حی ابن اخطب بھی تھا۔ خیبر کی طرف چلے گئے۔ اور اہل خیبر نے ان کا پرجوش استقبال کیا اور ان سے اظہار اطاعت کیا۔(٣)

چونکہ بنی نضیر بغیر جنگ کے تسلیم ہوئے تھے۔ لہٰذا ان کے مال و اثاثہ کو بہ شکل ''خالصہ''(٤) پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مہاجر و انصار کے درمیان پیمان اخوت و برادری کی

______________________

(١) سورۂ حشر، آیت ١١؛ طبرسی، مجمع البیان، (تہران: شرکة المعارف الاسلامیہ، ١٣٧٩ھ.ق)، ج١٠، ص ٣٦٤؛ مجلسی ، بحار الانوار، ج٢٠، ص ١٦٥ اور ١٦٩.

(٢) سمہودی، وفاء الوفائ، ج١، ص ٢٩٨۔ ٢٩٧.

(٣) ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص ٢٠٣۔ ١٩٩؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣٩۔ ٣٦؛ واقدی، المغازی، ج١، ص ٣٨٠۔ ٣٦٣؛ بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: محمد حمید اللہ (قاہرہ: دارالمعارف)، ص ٣٣٩؛ رجوع کریں: سمہودی، وفاء الوفائ، ج١، ص ٢٩٨۔ ٢٩٧.

(٤) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠١؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٩٨؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢٠، ص ٦٦ اور ١٧٣.

۲۸۴

بنیاد پر انصار کی مرضی اور موافقت سے اس کو مہاجرین کے درمیان تقسیم کردیا۔(١)

خداوند عالم نے قرآن مجید میں بنی نضیر کی خیانت اوران کے برے انجام کااس طرح سے تذکرہ فرمایا ہے:

''وہی وہ ہے جس نے اہل کتاب کے کافروں کو پہلے ہی حشر میں ان کے وطن سے نکال باہر کیا تم تواس کا تصور بھی نہیں کر رہے تھے کہ یہ نکل سکیں گے اور ان کا بھی یہی خیال تھا کہ ان کے قلعے انھیں خدا سے بچالیں گے لیکن خداایسے رخ سے پیش آیاجس کا انھیں وہم و گمان بھی نہیں تھا اوران کے دلوں میں رعب پیدا کر دیا کہ وہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے اور صاحبان ایمان کے ہاتھوں سے اجاڑ نے لگے تو صاحبان نظر عبرت حاصل کرو۔ اور اگر خدا نے ان کے حق میں جلاوطنی نہ لکھ دی ہوتی توان پر دنیا ہی میں عذاب نازل کردیتا اورآخرت میں تو جہنم کا عذاب طے ہی ہے۔ یہ اس لئے کہ انھوں نے اللہ اور رسول سے اختلاف کیا او رجو خدا سے اختلاف کرے اس کے حق میں خدا سخت عذاب کرنے والا ہے۔(٢)

جنگ خندق (احزاب)

یہ جنگ، ماہ شوال ٥ھ میں ہوئی(٣) جنگ کا آغاز اس طرح سے ہوا کہ ''حی ابن اخطب'' اور ''بنی نضیر'' کے کچھ سردار جو خیبر میں پناہ لئے ہوئے تھے نیز قبیلۂ بنی وائل کا ایک گروہ مکہ میں قریش سے ملا اور ان کو پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م سے جنگ کے لئے رغبت دلائی اور اس راہ میں ان کی ہر طرح کی مدد و نصرت کا وعدہ کیا۔

______________________

(١) سمہودی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠١؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠١؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٧٧؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٢۔ ١٧١.

(٢) سورۂ حشر ، آیت ٤۔ ٢؛ ابن عباس سورۂ حشر کو سورۂ ''بنی نضیر'' کہتے ہیں (طبرسی، مجمع البیان، ج١٠، ص ٢٥٨.)

(٣) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٤٣؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٥؛ ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٢٢٤.

۲۸۵

قریش نے ان سے پوچھا: کہا ہمارا دین بہتر ہے یا محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین؟ وہ یہودی اور خدا پرست تھے اور فطری طور پر انھیں بت پرستی کی تائید نہیں کرنی چاہیئے تھی۔ کہنے لگے: تمہارا دین، محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دین سے بہتر ہے۔ اور تم حق سے نزدیک تر ہو۔

قریش ان کی باتوں سے خوش حال ہوکر جنگ کے لئے آمادہ ہوگئے۔ خداوند عالم ان کے دشمنانہ فیصلہ کی اس طرح مذمت فرماتاہے۔

''کیاتم نے نہیں دیکھاکہ جن لوگوں کو کتاب کا کچھ حصہ دے دیا گیا وہ شیطان اور بتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور کفار کو بھی بتاتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں سے زیادہ سیدھے راستے پر ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور جس پر خدا لعنت کردے آپ پھر اس کا کوئی مددگار نہ پائیں گے۔(١)

یہودی لیڈروں کا یہ کینہ توز فیصلہ، عدل و انصاف اور منطق سے اس قدر دور تھا کہ آج کے دور کے بعض یہودی، اس فعل کی وجہ سے ان کی مذمت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اسرائیل ولفنون یہودی، ''سرزمین عرب میں یہودیوں کی تاریخ ''نامی ایک کتاب میں لکھتا ہے:

''ان کو اتنی واضح اور آشکار غلطی نہیں کرنا چاہیئے کہ قریش کے لیڈروں کے سامنے بتوںکی عبادت کو توحید اسلامی سے افضل و برتر بتائیں اگر چہ قریش ان کے تقاضا کو رد کردیتے کیونکہ بنی اسرائیل بت پرستوںکے درمیان صدیوں سے پرچمدار توحیدتھے۔(٢)

بہرحال، یہودیوں کے لیڈر پھر قبیلۂ ''غطفان'' کے پاس گئے اوران سے مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے میں ساتھ دینے کے لئے کہا٣) اس قبیلہ سے خاندان بنی فزارہ، بنی مرہ اور بنی اشجع نے

______________________

(١) سورۂ نسائ، آیت ٥٢۔ ٥١.

(٢) محمد حسین ھیکل، حیات محمد (قاہرہ: مکتبة النہضة المصریہ، ط ٨، ١٩٦٣.)، ص ٣٢٩.

(٣) انھوں نے غطفان سے وعدہ کیا کہ اس حمایت و نصرت کے بدلہ میں خیبر میں ایک سال خرمہ کی پیداوار کو انھیں دیدیں گے (بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٤٣؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٤).

۲۸۶

حمایت کا اعلان کیا(١) اور اسی طرح قبیلۂ بنی سلیم اور بنی اسد کی بھی حمایت حاصل کر لی۔(٢)

قریش نے بھی اپنے اتحادیوں اور حامیوں، جیسے قبیلۂ ثقیف اور بنی کنانہ کی حمایت حاصل کرلی۔(٣) اور اس طریقے سے ایک طاقتور فوجی اتحاد وجود میں آگیا اورایک دس ہزار کا لشکر(٤) ابوسفیان کی سرکردگی میں مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔ مدینہ کے راستہ میں ، حی ابن اخطب نے ابوسفیان سے وعدہ کیا کہ قبیلۂ بنی قریظہ کو بھی جس کے پاس سات سو پچاس (٧٥٠) جنگجو تھے، ان کے لشکر کی حمایت میں جنگ میں شامل کریں گے۔(٥)

اس لحاظ سے قریش اور یہودیوں نے اس جنگ کی تیاری میں عظیم دولت صرف کردی اور سپاہیوں کو مختلف قبائل سے اکٹھا کیاوہ اس جنگ کو کامیاب ترین جنگ تصور کرتے تھے اور قصد کرلیا تھا کہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیں گے۔

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م ، قبیلۂ خزاعہ (جو کہ مسلمانوں کے حامی تھے) کی خفیہ خبروںکے ذریعہ لشکر احزاب کی حرکت سے باخبر ہوگئے۔(٦)

______________________

(١) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٤؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٢٢٥.

(٢) محمد بن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٦؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٤٣؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص ١٩٧؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢٠، ص ١٩٧.

(٣) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٤٣.

(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٦؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٦؛ ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٢٣٠؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٠١؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٢٠٠.

(٥) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٥٤.

(٦) حلبی، انسان العیون (السیرة الحلبیہ)، (بیروت: دار المعرفہ، ج٢، ص ٦٣١.

۲۸۷

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے ایک فوجی کمیٹی تشکیل پائی اور گویا جنگ احد کے تجربہ کے پیش نظر کسی نے مدینہ سے باہر جانے کا مشورہ نہیں دیا اور سب شہر میں رہنے پر متفق ہوگئے۔(١)

مدینہ کے اردگرد قدرتی روکاوٹیں ، جیسے گھر، کھجور کے باغ وغیرہ، موجود تھیں جودشمن کو شہر میں داخل ہونے سے روک رہی تھیں(٢) سلمان فارسی نے مشورہ دیا کہ اطراف شہر کے جس حصہ میں اس طرح کی روکاوٹ موجود نہیں، ایک خندق کھودی جائے جو لشکر کے گزرنے میں رکاوٹ بنے۔(٣)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کی مسلسل کوشش اور زحمتوںکے ذریعہ اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عملی شرکت سے ایک بڑی خندق کھودی گئی۔(٤) پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے عورتوں، بچوں اور عام لوگوںکو شہر کے اندر قلعوں اور

______________________

(١) شیخ مفید، الارشاد (قم: الموتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید، ط ١، ١٤١٣ھ.ق)، ص ٩٦؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٩٧؛

(٢) حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٣٦؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٦؛

(٣) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٣٤٣؛ ابن سعد ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٦؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٤؛ ابن شہر آشوب ، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٩٨؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص٩٠؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢٠، ص ٢١٨

(٤) ابن سعد کے نقل کے مطابق، خندق کی کھودائی چھ دن میں تمام ہوئی۔ (طبقات الکبریٰ، ج٢، ص ٦٧) پروفیسر محمد حمید اللہ، اس دور کا مسلمان دانشور جس نے ، دشمنان اسلام کے ساتھ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگ کے میدانوں کو کئیمرتبہ قریب سے مشاہدہ کیااور اس کے بارے میں تحقیقات کی ہیں وہ معتقد ہے کہ خندق بہ شکل N اور ساڑھے پانچ کلو میٹر لمبی تھی (رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم در میدان، ترجمۂ سید غلام رضا سعیدی، (تہران: کانونانتشارات محمدی، ١٣٦٣ش)، ص ١١٤۔ ١١٣؛ گویا اس محاسبہ کا اصول اور قاعدہ یہ ہے کہ اسلامی سپاہیوں کی تعداد تین ہزار (٣٠٠٠) افراد پر مشتمل تھی اور خندق کھودتے وقت دس دس افراد کے دستے بنائے گئے تھے اور ہر دستہ ٤٠ ہاتھ کھودتا تھا (طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٥؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ١٩٨؛ لہٰذا فطری طور پر ہرایک کے حصہ میں ٤ ہاتھ آیا ہوگا جو تقریباً ٦ ہزار میٹر (٦ کلو میٹر) ہوگا ۔

۲۸۸

پناہ گاہوں میں رکھا۔(١) لشکر اسلام میں (قول مشہور کی بنا پر) کل تین ہزار افراد تھے۔(٢) خندق اور ''سلع'' پہاڑ کے بیچ ٹھکانہ بنایا۔ اور پہاڑ کواپنی پشت پر قرار دیا۔(٣)

لشکر احزاب کا کمانڈر سمجھ رہا تھا کہ جنگ احد کی طرح شہر کے باہر مسلمانوں سے مقابلہ کریں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوا او رجب وہ شہر کے دروازے کے پاس پہنچے تو خندق دیکھ کر حواس باختہ ہوگئے! کیونکہ خندق کا استعمال، جنگی ٹکنیک کے لحاظ سے عرب میں رائج نہ تھا۔(٤) ا س وجہ سے مجبور ہوکر خندق کے پیچھے ڈیرہ ڈال کر شہر کا محاصرہ کرلیا۔

محاصرہ بیس روز تک باقی رہا اس دوران طرفین خندق کے دونوں طرف سے ایک دوسرے کے اوپر تیراندازی کرتے تھے اور قریش کے جنگجو مسلمانوں کی صفوں میں رعب و وحشت ڈالنے کے لئے فوجی مشقیں اور تیراندازی کرتے تھے(٥) دشمن کے ذریعہ شہر کا محاصرہ کرنے سے مسلمان مشکلات اور دشواریوں میں پڑ گئے تھے اور شہر کے حالات برے اور خطرناک ہوگئے تھے جس کا تذکرہ خداوند عالم نے اس طرح سے کیا ہے:

______________________

(١)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٦٧؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٤٦؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٦٣٦۔

(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٦؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٦؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٢٣١؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص٢٠٠، سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٠١۔

(٣) بلاذری، ج٢٠، ص٣٤٣؛ محمد بن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٦٦؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٢٣١؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٤٦؛ سمہودی، ج١، ص٣٠١۔

(٤) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٤٣؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٤٨؛ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢، ص٤١؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٦٣٦و ٦٥٧۔

(٥) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٧؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٦٣٧۔ ٦٣٦۔

۲۸۹

''اس وقت جب کفار تمہارے اوپر کی طرف سے اور نیچے کی سمت سے آگئے اور دہشت سے نگاہیں خیرہ کرنے لگیں اور کلیجے منھ کو آنے لگے اورتم خدا کے بارے میں طرح طرح کے خیالات میں مبتلا ہوگئے۔ اس وقت مومنین کا باقاعدہ امتحان لیا گیا اورانھیں شدید قسم کے جھٹکے دیئے گئے''۔(١)

بنی قریظہ کی خیانت

اس موقع پر ایک دوسرا واقعہ رونما ہوا جس نے مسلمانوں کی حالت کو بدتر کردیا وہ یہ کہ قبیلۂ بنی قریظہ نے عدم تجاوز کے پیمان کو توڑ دیا اور لشکر احزاب کی حمایت کا اعلان کردیا۔ اس قبیلہ کی خیانت، حی ابن اخطب کے شیطانی وسوسہ کے ذریعہ انجام پائی۔(٢) اس سازش کے فاش ہونے سے بہت سارے مسلمانوں کے حوصلہ پست ہوگئے۔ لیکن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی کوشش تھی کہ اس کے برے اثرات کو مٹادیں۔

بنی قریظہ نے صرف عہد شکنی پر اکتفا نہ کی بلکہ عملی طور سے دو دوسری بڑی خیانتوں کے مرتکب ہوگئے۔ پہلی یہ کہ لشکر احزاب کے لئے غذائی رسد کا کام انجام دیا جو کہ آذوقہ کے لحاظ سے سخت مشکلات میں گرفتار تھے اسی طرح سے ایک مرتبہ مسلمانوں نے ''قبا'' کے علاقہ میں ایک قافلہ کودیکھا جو خرما، جو اور چارہ لئے ہوئے تھا اور وہ قریظہ کی طرف سے سپاہ احزاب کے لئے بھیجا جارہا تھا، لہٰذا اس کو ضبط کرلیا۔(٣)

دوسری یہ تھی کہ شہر کے اندر پناہ گاہوں میںعورتوں اور عام لوگوں کے درمیان، دہشت گردی کے

______________________

(١) سورۂ احزاب، آیت ١١۔ ١٠.

(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٦٧؛ ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٢٣١؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٧۔ ٤٦؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٠٣؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٢٠١۔ ٢٠٠.

(٣) سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٠٤؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٤٧.

۲۹۰

ذریعہ ان کے اندر رعب و وحشت پیدا کردیاتھا اور ایک روز ان میں سے ایک شخص قلعہ کے اندر تک پہنچ گیا تھا جو ''صفیہ'' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پھوپھی کے ذریعہ مارا گیا۔(١)

ایک رات بنی قریظہ نے قصد کیا کہ مرکز مدینہ پر حملہ کریں اس وجہ سے حی ابن اخطب کو قریش کے پاس بھیجا اوران سے کہا کہ ایک ہزار افراد قریش سے اور ایک ہزار افراد غطفان سے اس حملہ میں ان کی مدد کریں۔ اس نقل و حرکت کی خبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ملی اور شہر میں سخت رعب و وحشت طاری ہوگیا۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پانچ سو افراد کواس شہر کی حفاظت کے لئے مامور کیا ۔ وہ لوگ راتوں کو تکبیر کے نعروں کے ساتھ گشت کرتے تھے اور لوگوں کے گھروں کا پہرہ دیتے تھے۔(٢)

لشکر احزاب کی شکست کے اسباب

لیکن ان تمام دشواریوں کے باوجود ، خندق کھودنے کے علاوہ، چند دوسرے اہم اسباب کی وجہ سے حالات مسلمانوں کے حق میں بدل گئے تھے۔ اور آخرکار لشکر احزاب کی ناکامی کا باعث بنا۔ وہ اسباب یہ تھے:

______________________

(١) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٤٧؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٦٣۔ ٤٦٢؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٥٠؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٠٢.

(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٤٦٠؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٣٦؛ ابوبکر سے نقل ہواہے کہ وہ جنگ احزاب کو یاد کرتے تھے اور بنی قریظہ کی اس خیانت کے بارے میں کہتے تھے: ہم مدینہ میں اپنے بچوں (اور عورتوں) کے بارے میں قریش او رغطفان کے بہ نسبت بنی قریظہ سے زیادہ ڈرتے تھے (واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٦٠.)

۲۹۱

١۔ بنی قریظہ اور لشکر احزاب کے درمیان اختلاف کاپیدا ہونا

نعیم بن مسعود، قبیلۂ غطفان کا ایک فرد تھا جو جلدی ہی مسلمان ہواتھااس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجازت سے(١) بنی قریظہ سے جاکر ملاقات کی اوران سے پرانی دوستی ہونے کی بنا پر پہلے ان کو اپنی طرف متوجہ کیا پھر عہد شکنی پر ان کی مذمت کی اور کہا:تمہاری صورت حال، لشکر قریش سے الگ ہے اگر جنگ کسی مرحلہ پر نہ پہنچی تووہ اپنے وطن کی طرف پلٹ جائیں گے لیکن تم کہاں جاؤ گے؟ اگر جنگ تمام نہ ہوئی تو مسلمان تم کونابود کردیںگے۔ اور پھر ان کو مشورہ دیا کہ لشکر احزاب کے کچھ کمانڈروں کواغواہ کر کے ضمانت کے طور پر جنگ کے تمام ہونے تک رکھے رہیں۔

پھر اس بات کو فوجی راز اور بنی قریظہ کے مخفی ارادے کے عنوان سے قریش اور اپنے قبیلہ غطفان کے سرداروں سے بتایا اور کہا کہ بنی قریظہ کاارادہ ہے کہ اس بہانہ سے تمہارے کچھ افرادکو گرفتار کرکے حسن نیت اور پچھلی باتوںکی تلافی کے عنوان سے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالہ کریں۔ اوران کو خبردار کیا کہ ایسا مشورہ قبول نہ کریں۔ اس نے یہ چال اپنائی اوران دوگروہوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا اور متحدہ احزاب کا محاذ اندر سے کمزور ہوگیا۔(٢)

عمرو بن عبدود کا قتل

گویا قریش تین لحاظ سے مشکلات اوردشواریوں میں گرفتار تھے اور چاہتے تھے کتنی جلدی جنگ کو تمام کریں۔

پہلا: یہ کہ جنگ میں تاخیر ہونے کی بنا پر غذائی مواد کم ہوگیا تھا۔

______________________

(١) ان الحرب خدعة.

(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٩؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٢٤٠؛ طبری ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٥١۔ ٥٠؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٥٠؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٠٤؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٢٠٧.

۲۹۲

دوسرا: یہ کہ آہستہ آہستہ ہوا ٹھنڈی ہونے لگی تھی جس کی وجہ سے خیموں میں رہنا دشوا رہوگیا تھا۔

تیسرا: یہ کہ ماہ ذیقعدہ جو کہ ماہ حرام تھا وہ قریب ہوگیا تھا لہٰذا اگر جنگ ماہ شوال میں تمام نہ ہو پائی تو مجبوراً انھیں تین مہینے مسلسل رکنا پڑے گا۔(١)

اس وجہ سے طے کیا کہ ہر صورت میں جنگی روکاوٹوں کو ختم کریں اس بنا پر لشکر احزاب کے پانچ بہادر اپنے گھوڑوں کوایڑ لگا کرخندق کے باریک حصہ سے دوسری طرف پہنچ گئے(٢) اور تن بہ تن جنگ کے لئے رجز خوانی کرنے لگے ان میں سے ایک عرب کا سب سے بہادر اور نامور پہلوان ''عمرو بن عبدود'' تھا جو کہ ''شہشوار قریش'' اور ''شہشوار یلیل'' کے نام سے مشہور تھا۔(٣) خندق کو پھاند کر ''ھل من مبارز'' کی صدا بلند کی۔ لیکن کوئی مسلمان اس سے مقابلہ کے لئے تیار نہ ہوا۔(٤) یہ چیلنج کئی

______________________

(١) محمد حمید اللہ، رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم در میدان جنگ، ترجمہ : سید غلام رضا سعیدی، ص ١٢٨

(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٦٨؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٤٧٠؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٤٨؛ شیخ مفید، الارشاد، (قم: المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید، ط١، ١٤١٣ھ.ق)، ص٩٧؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص٢٠٣۔

(٣)چونکہ وہ ''یلیل'' نامی سرزمین پر تن تنہا، دشمن کے ایک گروہ پرغالب ہواتھا لہٰذا وہ اسی نام سے مشہور ہوا (بحار الانوار، ج٢٠، ص ٢٠٣) وہ جنگ بدر میں زخمی ہوگیا تھا اسی وجہ سے جنگ احد میں شریک نہیں ہوا تھا۔ اور تین سال کے بعد پھر جنگ خندق میں آیاتھا لہٰذا اپنے کو ایک علامت کے ذریعہ مشخص کر رکھا تھا تاکہ لوگوں کی توجہ اپنی جانب جلب کرے۔ (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص ٢٣٥؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج٣، ص ٤٨؛ ابن اثیر، الکامل فی تاریخ، ج٢، ص ١٨١)۔

(٤)واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٤٧٠؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم(دار احیاء الکتب العربیة، ١٩٦٤ئ)، ج١٣، ص٢٩١ و ج١٩، ص٦٣؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢٠، ص٢٠٣۔

۲۹۳

مرتبہ دھرایا اورہر مرتبہ صرف علی ، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجازت سے اس کی طرف بڑھے۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''کل ایمان، کل کفر و شرک کے مقابلہ میں جارہا ہے''۔(١)

علی نے ایک فردی جنگ میں بہادرانہ انداز میں عمرو بن عبدود کو ہلاک کردیا، عمرو بن عبدود کے قتل ہوتے ہی چار دوسرے پہلوان جواس کے ساتھ خندق پھاند کر آئے تھے اور علی سے لڑنے کے منتظر تھے، فرار کر گئے! اور ان میںسے ایک گھوڑے کے ساتھ خندق میں گر گیا اور مسلمانوں کے ذریعہ قتل ہوا۔(٢)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے علی کی اس عظیم شجاعت و بہادری پر ان سے فرمایا: ''آج اگر میں تمہارے اس عمل کواپنی پوری امت کے اعمال سے موازنہ کروں تو تمہارا یہ عمل ان پر بھاری قرار پائے گا۔ کیونکہ عمرو بن عبدود کے قتل ہونے سے مشرکین کا کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس میں ذلت و رسوائی نہ چھائی ہو اور مسلمانوں کا کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس میں عزت و سربلندی نہ آئی ہو۔(٣)

اہل سنت کے ایک بزرگ محدث حاکم نیشاپوری کے نقل کے مطابق، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: جنگ خندق میں علی بن ابی طالب کی لڑائی عمرو بن عبدود سے روز قیامت تک میری امت کے اعمال سے یقینا افضل ہے''۔(٤)

عمرو کے قتل ہوتے ہی لشکر احزاب کے حوصلہ پست ہوگئے اور شکست کے آثار ان کے لشکر میں نمودار ہوئے اور مختلف قبیلے جو جنگ کرنے کے لئے آئے تھے ہر ایک اپنے وطن کی طرف واپس جانے لگا۔(٥)

______________________

(١) برز الاسلام کلہ الی الشرک کلہ۔ (ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٩، ص٦١؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص٢١٥.)

(٢) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٤٥؛ محمد بن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٦٨؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٢٣٦؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٨؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٠٣.

(٣) ابو الفتح محمد بن علی الکراجکی، کنز الفوائد (قم: دارالذخائر، ١٤١٠ھ.ق)، ج١، ص ٢٩٨؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢٠، ص ٢٠٥، ٢١٦.

(٤) المستدرک علی الصحیحین، تحقیق: عبد الرحمن المرعشی (بیروت:دار المعرفہ، ط ١، ١٤٠٦ھ.ق)، ج٣، ص ٣٢.

(٥) کراجکی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٩٩.

۲۹۴

غیبی امداد

آخری وار، خداوند عالم نے امداد غیبی کی شکل میں ان پر یہ کیا کہ ٹھنڈی ہوااور شدید طوفان کو رات میں ان پر مسلط کردیا۔ طوفان نے ان کے ٹھکانوں کو تہس نہس کردیا اور ان کے لئے وہاں ٹھہرنا دشوار ہوگیا آخر کار ابوسفیان نے مکہ پلٹنے کا حکم صادر کیا۔(١)

خداوند عالم نے اپنی نصرت کا اس طرح سے تذکرہ فرمایا ہے:

''ایمان والو! ا سوقت اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب کفر کے لشکر تمہارے سامنے آگئے او رہم نے ان کے خلاف تمہاری مدد کے لئے تیز ہوااور ایسے لشکر بھیج دیئے جن کو تم نے دیکھا بھی نہیں تھا اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔ اور خدا نے کفار کوان کے غصہ سمیت واپس کردیا کہ وہ کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکے اوراللہ نے مومنین کو جنگ سے بچالیا اوراللہ بڑی قوت والا اور صاحب عزت ہے''۔(٢)

اس جنگ میں احزاب کے سرداروں کی طرف سے عظیم سرمایہ خرچ کرنے ،اور اتنی کثیر تعداد میں سپاہیوں کواکٹھاکرنے کے باوجود ان کے لئے اس جنگ کا نتیجہ تلخ آور اورغم انگیز تھا۔ کیونکہ نہ مدینہ کو کوئی نقصان پہنچا اور نہ ہی وہ شام کے تجارتی راستے کو آزاد کراسکے۔ اس وجہ سے ابوسفیان کی کمانڈری بدنام ہوئی اور قریش کی عظمت و ہیبت کم ہوگئی۔ یہ وہ جنگ تھی جس کے بعد مسلمان دفاعی حالت سے نکل کر تہاجمی قدرت کے مالک ہوگئے یعنی حملہ کرنے کی پوزیشن میں آگئے ۔

______________________

(١) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٤٥؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٧١؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٥٢۔ ٥١؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص١٩٨؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص٩٢؛ سمہودی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٠٥؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص٢٠٩۔ ٢٠٨۔

(٢) سورۂ احزاب، آیت ٩ اور ٢٥.

۲۹۵

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے فرمایا: ''اس کے بعد ہم حملہ کریں گے وہ ہم پر حملہ نہیں کرسکتے''(١) اور اسی طرح سے ہوابھی۔ اس جنگ میں چھ افرادشہید ہوئے(٢) اور دشمن کی طرف کے تین افراد مارے گئے۔(٣)

جنگ بنی قریظہ

لشکر احزاب کے پلٹ جانے کے بعد، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مامور ہوئے کہ بے خوف بنی قریظہ کی طرف جائیں اوران کا کام تمام کردیں۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فوراً لشکر کے کوچ کا حکم دیا اور اسی روز عصر کے وقت لشکر اسلام نے قلعہ بنی قریظہ کا محاصرہ کرلیا۔ بنی قریظہ نے اپنے قلعہ میں مورچہ سنبھال کر تیراندازی شروع کردی اور پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی شان میں نازیبا کلمات کے ذریعہ گستاخی کی۔

٢٥ روز محاصرہ کے بعد آخرکار ان کے پاس تسلیم کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا قبیلۂ اوس جس نے پہلے بنی قریظہ کے ساتھ عہد و پیمان کیا تھا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست کی کہ ان کے ہم نواؤوں کے ساتھ بنی قینقاع کے یہودیوں جیسا برتاؤ کریں۔

______________________

(١) شیخ مفید، الارشاد، ص١٠٦؛ صحیح بخاری، تحقیق: الشیخ قاسم الشماعی الرفاعی (بیروت: دار القلم، ط١، ١٤٠٧ھ.ق)، ج٥، ص٢١٥؛ کتاب المغازی، باب ١٤٦، حدیث ٥٩٣؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٨، ص٣٤٥؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص٢٠٩۔

(٢) ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٤٢؛ واقدی، المغازی، ج٢، ص٤٩٢؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص٢٦٤؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٥٨؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج١، ص١٩٨۔ اس جنگ کے شہداء کی تعداد اس سے زیادہ نقل ہوئی ہے۔رجوع کریں: تاریخ پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، محمد ابراہیم آیتی (تہران: مؤسسہ انتشارات و طبع تہران یونیورسٹی، ١٣٦١)، ص٣٧٢۔

(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٤٩٦؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٢٦٥؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص٥٩؛ ابن شہر آشوب، گزشتہ حوالہ، ج١، ص١٩٨؛ یعقوبی نے دشمن کے مقتولین کی تعداد آٹھ بتائی ہے۔ (ج٢، ص٤٢.)

۲۹۶

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' تمہارے بزرگ، سعد بن معاذ کو اس سلسلے میں قضاوت کا حق حاصل ہے '' اوسیوں اور بنی قریظہ نے اس قضاوت کو قبول کیا، سعد کو ایسی ماموریت ملنے کے بعد قبیلہ جاتی اور جاہلی رسم و رواج کے مطابق، بنی قریظہ کے حق میں فیصلہ کرنا چاہیئے تھا ۔ لیکن وہ اپنے قبیلہ والوں کی باتوں سے متأثر نہیں ہوئے اور اعلان کیا کہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے ۔ اس کے بعد دونوں طرف کی تائید حاصل کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ ان کے لوگوں کو قتل کردیا جائے اور ان کے بچوں اورعورتوں کو اسیر اوران کے مال ودولت کو غنیمت سمجھ کر لے لیا جائے۔

یہ حکم اجرا ہوا، حی ابن اخطب، قبیلۂ بنی نضیر کا سردار بھی قتل ہونے والوں میں تھا، جس نے مسلمانوں کے ساتھ ان کی پیمان شکنی میں تشویق اوراہم کردار ادا کیا تھا۔ کیونکہ اس نے بنی قریظہ سے وعدہ کیا تھا کہ ان کا ساتھ دے گا اور شکست کھانے کی صورت میں ان کے انجام میں شریک رہے گا۔ اسے جب زندگی کے آخر لمحات میں، خیانت اور فتنہ گری کے باعث، برا بھلا کہا گیا تو بجائے گناہوں کے اعتراف اور اظہار پشیمانی کے، اپنی اور بنی قریظہ کی بری عاقبت کو خداوند عالم کے جبر و تقدیر کا نتیجہ قرار دیا۔ اس نے پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م سے کہا: میں تمہاری دشمنی سے پشیمان نہیں ہوں لیکن جو خدا جس کو رسوا کرے رسوا ہو جاتا ہے'' اور پھر لوگوں سے مخاطب ہوکر کہا: خدا کے ارادہ کے مقابلہ میں مجھے ڈر اور خوف نہیں ہے اور یہ شکست و رسوائی یقینی ہے جو خدا کی جانب سے بنی اسرائیل کے لئے مقرر ہوئی ہے''۔(١)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اسیروں کے ایک گروہ کوایک مسلمان کے ذریعہ نجد بھیجا تاکہ ان کو بیچ کر

______________________

(١) اس جنگ کی تفصیل معلوم کرنے کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں کی طرف رجوع کریں: (طبقات الکبری، ج٢، ص٧٨۔ ٧٤؛ تاریخ الامم والملوک، ج٣، ص٥٨۔ ٥٣؛ المغازی، ج٢، ص٥٢٤۔ ٤٩٦؛ السیرة النبویہ، ج٣، ص٢٦١۔ ٢٤٤؛ وفاء الوفائ، ج١، ص٣٠٩۔ ٣٠٥؛ بحار الانوار، ج٢٠، ص٢٣٨۔ ٢٣٣۔

۲۹۷

مسلمانوں کے لئے اسلحے اور گھوڑے خریدے ۔(١)

قرآن کریم نے ان کے برے انجام کا اس طرح سے ذکر کیا ہے:

''اوراس نے کفار و مشرکین کی پشت پناہی کرنے والے اہل کتاب کوان کے قلعوں سے نیچے اتاردیااوران کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ تم نے ان میں سے کچھ کو قتل کیا اور کچھ کو قیدی بنالیا۔ اور پھر تمہیں ان کی زمینوں ان کے گھروں اور ان کے اموال اور ایسی زمین کا وارث بنادیا جن میں تم نے قدم بھی نہیں رکھا تھا اور بیشک اللہ ہر شے پر قادر ہے۔(٢)

تجزیہ و تحلیل

اگرچہ اس واقعہ کی تفصیلات (جیسے بنی قریظہ کے سپاہیوں کی تعداد یا جو لوگ فرمان قتل کو بجالائے) کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف موجود ہے لیکن اصل واقعۂ زمانۂ قدیم سے مورخین کے درمیان مشہور اور مسلم تھا اور ہے یہاں پر اگر اس مسئلہ کے بارے میں دو نظریوںکا تجزیہ و تحلیل کریں تو بے جا نہ ہوگا۔

١۔ بعض یورپی تاریخ نگاروں نے بنی قریظہ کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سلوک پر نکتہ چینی کی ہے اور اسے

______________________

(١) ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص ٢٥٦؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج٣، ص ٥٨؛ ایک گروہ کو بھی ، سعد ابن عبادہ کے ذریعہ اس سلسلہ میں شام بھیجا (واقدی، المغازی، ج٢، ص ٥٣٣) جنگ خندق و بنی قریظہ کے بارے میں مذکورہ کتابوںکے علاوہ رجوع کریں: تفسیر المیزان، ج١٦، ص ٣٠٣۔ ٢٩١.

(٢) سورۂ احزاب، آیت ٢٧۔ ٢٦.

۲۹۸

ایک وحشیانہ اور غیر انسانی اقدام کہا ہے۔(١) لیکن بنی قریظہ کے جرم و جنایات کودیکھتے ہوئے اس نکتہ چینی کو قبول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان لوگوں نے نہ صرف عہد شکنی اور جنگ کے اعلان پر اکتفا کی بلکہ جیسا کہ بیان ہوا مدینہ کے اندر دہشت پھیلانے والی کاروائیاں اور نیز لشکر احزاب کے لئے غذائی رسد کا کام انجام دے کر او رحقیقت میں ان کی مالی امداد کے ذریعہ عملی طور پر جنگ میں شریک تھے اور ہم جانتے ہیںکہ اس طرح کے اقدامات جنگ کے مواقع پر کسی قوم کے نزدیک قابل چشم پوشی نہیں ہیں اور اس کے مجرموں کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م اس عہد و پیمان کی رو سے جوان سے کیا تھا ان کو سزائیں دینے کا حق رکھتے تھے لیکن اوسیوں کی درخواست پر فضل کے عنوان سے سعد کی قضاوت کا مشورہ دیا اور اس مشورہ کو اوسیوں اور بنی قریظہ نے قبول کرلیا. لہٰذا اعتراض کا کوئی سوال باقی نہیں رہ جاتا ہے۔

اس سے قطع نظر، یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ عفو و درگزر کہاں اور کس کے بارے میں بہتر او رمناسب ہے؟ کیا وہ لوگ ، جو انسانی صورت تو رکھتے ہیں لیکن انسانی وقار کو پائمال کردیتے ہیں اوراپنے کسی معاہدہ کے پابند نہیں ہوتے ۔

______________________

(١) مونٹ گری واٹ، محمد فی المدینہ، تعریب: شعبان برکات (بیروت: منشورات المکتبة العصریہ)، ص ٣٢٧، مولف کتاب نے بھی ٢٣ سال تک ان یورپی سیرت نگاروں کا ہم نوا بن کر بنی قریظہ کی مذمت پر اعتراض کیا ہے وہ بنی قریظہکی بڑی خیانت کا تذکرہ کرنے کے باوجود لکھتاہے: ''جنگ خندق میں مدینہ کا محاصرہ کرنے سے مسلمانوںکی زندگی دشوار ہوگئی تھی اور مکہ پر حملہ آوروں کے ساتھ بنی قریظہ کا مل جانا ایک ممکن الوقوع امر تھا اور جب بھی ا یسا ہوتا، مسلمانوں کی شکست یقینی تھی اور احتمال قوی پایا جاتا تھا کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تحریک بالکل مٹ جاتی...'' اس کے باوجود وہ مزید لکھتا ہے لیکن محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان پر رحم کرنا چاہیئے تھا (مصطفی حسینی طباطبائی، خیانت در گزارش تاریخ (تہران: انتشارات چاپخش، ط ١، ١٣٦٦)، ج٣، ص ١٦٥۔ ١٦٤)

۲۹۹

جن کا وجود، دشمنی، کینہ او رہٹ دھرمی سے لبریز ہو، عفو و گزشت کے قابل ہیں؟(١)

کیا بنی نضیر کے یہودیوں کے ساتھ ''حی ابن اخطب'' کی رہبری میں نرمی کا سلوک نہیں کیا گیا تھا؟ لیکن وہ سازش کرنے سے باز نہ آئے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک ہوگئے۔ کیا ضمانت پائی جاتی تھی کہ حی ابن اخطب اور کعب بن اسد گزشتہ امور کی تکرار نہیں کریں گے۔ اور دوسرے بڑے لشکر کو اسلام او رمسلمانوں کی نابودی کے لئے اکٹھا نہیں کریں گے؟ کیا ان کے ساتھ نرمی اور مہربانی کا برتاؤ ، ایک خونخوار جانور پر رحم کرنے جیسا نہیں ہے۔

مدینہ کے محاصرہ کے ایام میں ، ایک دن ابوسفیان نے پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کوایک دھمکی آمیز خط میں لکھا: ''لات و عزیٰ کی قسم، اس لشکر کے ساتھ تجھ سے جنگ کرنے کے لئے آیا ہوں اور ہم چاہتے ہیںکہ ہرگز دوبارہ جنگ کی ضرورت نہ پڑے اس حملہ میں تم کو نیست و نابود کردیں گے۔ لیکن اگر (بغیر جنگ کے) مکہ پلٹ گئے تو روز احد کے مانند تمہارے لئے ایک دن ایسا لائیں گے کہ عورتیں اس دن گریبان چاک کر ڈالیں گی۔(٢) کیااگر ایسی صورت حال پیش آجائے تو بنی قریظہ دوسری بار لشکر احزاب کا ساتھ نہیں دیں گے؟

اس سے قطع نظر کہ سعد کا حکم توریت کے حکم کے مطابق تھا اور شایدوہ یہودیوں سے قریبی تعلقات

______________________

(١) بنی قریظہ کے آخری ایام میں ان کے بعض مخفی مذاکرات (جیسے کعب بن اسد کا مشورہ، عورتوں اور بچوں کے قتل کرنے اور پھر مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے کا ) او رنیز پھانسی دینے سے قبل ان کی بعض حرکتوں اور عکس العمل نے، ان کی شدید دشمنی، بے رحمی او رہٹ دھرمی کا پردہ فاش کردیا، جیسا کہ ان میں سے ایک کو بعض مسلمانوں کی درخواست پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے معاف کردیا لیکن وہ اپنی حرکت سے باز نہ آیا اور اسے بھی قتل کرنا پڑا ۔ (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص ٢٥٤۔ ٢٥٣.)

(٢) واقدی، المغازی، ج٢، ص ٤٩٢.

۳۰۰