تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 157614
ڈاؤنلوڈ: 4712

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157614 / ڈاؤنلوڈ: 4712
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

اور ہم پیمان ہونے کی وجہ سے ان کے قضائی قوانین سے آگاہی بھی رکھتے تھے۔

توریت میں اس طرح سے نقل ہوا ہے: ''جس وقت کسی شہر کی طرف جنگ کے لئے جاؤ تو پہلے ان تک صلح کا پیغام پہنچاؤ اور اگر وہ تم کو صلح آمیز جواب دیں اور شہر کا دروازہ تمہارے لئے کھول دیں، جس میں تمام قوم کے لوگ پائے جاتے ہوں اور ٹیکس دیکر تمہارے تابع ہو جائیں، تو ان سے جنگ نہ کرنا ۔ اور اگر تم سے صلح نہ کرکے، جنگ کریں تو ان کا محاصرہ کرلو اور چونکہ تمہارے خدا نے کا ان کو تمہارے حوالے کردیا ہے لہٰذا ان کے تمام مردوں کو تلوار سے قتل کرڈالو۔اور ان کی عورتوں، بچوں اورمویشیوں اور جو کچھ ان کے شہر میں ملے یعنی ان کے تمام مال غنیمت کو لوٹ لو اور اسے کھاؤ۔(١)

٢۔ اس دور کا ایک محقق، بنی قریظہ کی سزائوںکا منکر ہوگیاہے اور کچھ دلائل اور قرائن کو دلیل بنا کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے اس طرح کی سخت سزاؤوں کے دیئے جانے کو بعیدقرار دیتا ہے۔(٢)

یہ نظریہ ـ اگرچہ بعض یورپی تاریخ نگاروںکی تنقید یا صہیونزم کے پروپیگنڈہ کے مقابلہ میں ایک طرح کا دفاعیہ تو ہوسکتا ہے لیکن جیسا کہ بعض بڑے دانشمندوں نے اس نظریہ پر تنقید کی ہے،(٣) یہ دلائل محکم نظر نہیں آتے، خاص طور سے اس استدلال میں سورۂ احزاب کی ٢٦ ویں آیت کی طرف توجہ نہیں دی گئی ہے جو کہ اصل واقعہ کی حکایت کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ، جنگ احزاب کے بعد سے تاریخ میں بنی قریظہ کا کوئی واقعہ نظر نہیں آتا جبکہ اگر واقعہ صحیح نہ ہوتا تو فطری طور ان کے بعد کے حالات، تاریخ میں ذکر ہوتے۔

______________________

(١) توریت ، ترجمۂ ولیم کلن قیس اکسی، لندن، ١٣٢٧ ھجری ، سفر مثنی، بیسویں فصل اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے سعدکی کتابوںکی طرف رجوع کریں: جعفر سبحانی، فروغ ابدیت، ج٢، ص ١٥٧۔ ١٥٤.

(٢) سید جعفر شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام تا پایان امویان (تہران: مرکز نشر یونیورسٹی، ط ٦، ١٣٦٥)، ص ٧٥۔ ٧٣

(٣) سیدعلی میر شریفی، نگرشی کوتاہ بہ غزوۂ بنی قریظہ، مجلہ نور علم، شمارہ ١١، اور ١٢.

۳۰۱

جنگ بنی مصطلق

شعبان ٦ھ(١) میں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کو خبر ملی کہ حارث بن ابی ضرار، بنی مصطلق کا رئیس (قبیلۂ خزاعہ کا ایک خاندان) ، اپنے قبیلہ والوں اوراس کے علاقہ کے کچھ عرب لوگوں کو مدینہ پر حملہ کے لئے تیار کر رہا ہے ۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی سپاہیوں کو آمادہ کیا اور ''مریسیع'' ٭کنواں کے پاس، بحر احمر کے ساحلی علاقہ تک گئے. اس علاقے میں جنگ ہوئی اور بنی مصطلق بہت جلد ہار کھا گئے اوران سے بہت ساری دولت اور اسیر مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔(٢)

جُویریہ ـ حارث کی لڑکی ـ بھی اسیروں میں تھی۔ حارث اپنی لڑکی کی آزادی کے لئے مدینہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے غیب سے خبر دی کہ وہ دو اونٹ اپنی لڑکی کی رہائی کے لئے لایاہے اور راستے میں چھپا رکھاہے، تو وہ مسلمان ہوگیا۔ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جویریہ کو آزاد کردیااور پھر اس سے شادی کرلی۔(٣)

______________________

(١) مورخین کے بعض گروہ، جیسے واقدی، بلاذری، اور محمد بن سعد اس غزوہ کو پانچویں سال کے حوادث میں سے شمار کرتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے اس کو جنگ احزاب کے پہلے تحریر کیا ہے۔ بعض قرائن ، ان کے اس نظریہ کی صحت پر دلالت کرتے ہیں۔ رجوع کریں: السیرة النبویہ، ج٣، ص٣٠٢، حاشیۂ؛ وفاء الوفائ، ج١، ص٣١٤.

٭اسی مناسبت سے اس غزوہ کو غزوۂ مریسیع بھی کہا جاتاہے۔

(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣٠٨۔ ٣٠٢؛ طبری ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٦٦۔ ٦٣؛ مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج ٢٠، ص ٢٩٠۔ ٢٨١)

(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣٠٨؛ مفید، الارشاد (قم: المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید، ط ١، ١٤١٣ھ.ق)، ص ١١٩۔ ١١٨؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج١، ص ٢٠١.

۳۰۲

مسلمانوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احترام میں اسیروں کو جو اب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ کے رشتہ دار سمجھے جانے لگے تھے، آزاد کردیا اس وجہ سے جویریہ کو اپنے رشتہ داروں کی بہ نسبت سب سے بابرکت عورت کے عنوان سے یاد کرتے تھے۔(١)

یہ شادی پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شادیوں میں ایک نمونہ تھی جو بہت سارے اجتماعی فوائد رکھتی تھی اور ذاتی پہلؤوں سے ہٹ کر اجتماعی لحاظ سے انجام پائی تھی۔

عمرہ کا سفر

٦ھ میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قصد کیا کہ ''عمرہ'' کرنے کے لئے مکہ جائیں۔ ہجرت کے بعد سے اس دن تک مسلمان حج و عمرہ نہیں کرپائے تھے، اس مذہبی سفر میں معنوی پہلؤوں کے علاوہ ایک طرح کی مذہبی نمائش بھی تھی جو تبلیغی اثر رکھتی تھی، کیونکہ اس سے زائرین اوراہل مکہ کو اپنی طرف متوجہ کرنا تھا اور پیغمبر کو اپنے اصحاب کی کثرت تعداد کو دکھاناتھا۔ اور نیز یہ اقدام اس بات کی بھی علامت تھا کہ حج و عمرہ جو کہ مشرکین کے یہاں ایک عظیم اور مقدس عبادت ہے وہ دین محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بھی موجود ہے اور اسے ایک فریضہ واجب قرار دیاگیاہے ۔ اور یہ چیز ان کے قلوب و جذبات کو جلب کرنے میں موثر تھی. اور اگر قریش عمرہ بجالانے سے روکتے تو لوگوںکے خیالات ان کے حق میں مضر ثابت ہوتے، کیونکہ قریش کعبے کی کنجی کے مالک تھے اور ہمیشہ حجاج کو حج کی تشویق او رترغیب دلاتے تھے اوران کے ٹھہرنے اور کھانے کا انتظام کرتے تھے اور ا س کواپنے لئے ایک افتخار اور سعادت سمجھتے تھے۔ لہٰذا اگر وہ مسلمانوںکو مکہ میں داخل ہونے سے روکتے تو لوگ ان سے نفرت کرنے لگتے اور سبھی سمجھ جاتے کہ

______________________

(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣٠٨۔ ٣٠٧؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٤١١؛ طبری، اعلام الوریٰ، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ)، ص ٩٤؛ بعض تاریخی کتابوں میں یہ شادی دوسری طرح سے ذکر ہوئی ہے۔

۳۰۳

اس کام کا مقصد صرف مسلمانوں کے ساتھ دشمنی اور جھگڑا کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔(١)

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ذیقعدہ کے مہینہ میں ایک ہزار آٹھ سو افراد(٢) کے ہمراہ مکہ روانہ ہوئے اس سفر میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے تمام افراد، صرف ایک تلوار اپنے ساتھ حمائل کئے تھے (جو کہ اس زمانہ میں ہر ایک مسافر اپنے ساتھ رکھتا تھا) اور نیز قربانی کے اونٹ، مدینہ سے اپنے ساتھ لے کر گئے تھے تاکہ قریش کو معلوم ہو جائے کہ وہ جنگ کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔

قریش جب پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روانگی سے آگاہ ہوئے تو طے کیا کہ ان کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے اور ان کے سراغ میں سپاہیوںکے ساتھ مکہ سے باہر آگئے اورپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجبور ہوکر سرزمین ''حدیبیہ'' میں رک گئے۔ قریش نے کئی نمائندے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس بھیجے تاکہ ان کے مقصد سے آگاہ ہوں ہر مرتبہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا: ''ہم جنگ کا اراہ نہیں رکھتے ہیں او رعمرہ کے قصد سے آئے ہیں'' لیکن اس کے باوجود قریش ان کو اسی طرح شدت سے منع کرتے رہے اور مسئلہ مشکل میں پڑ گیا۔

______________________

(١) جیسا کہ جب قریش نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکا تومکہ کے ایک بزرگ حلیس بن علقمہ نے قریش کودھمکی دی کہ اگر وہ اس کام سے باز نہ آئے تو اپنے قبیلہ والوں کوان سے جنگ کے لئے اکٹھا کریں گے۔ (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٩٦؛ حلبی، السیرة النبویہ، ج٢، ص ٦٩٦.

(٢) کلینی، الروضة من الکافی (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ١٣٦٢)، ص ٣٢٢؛ مورخین نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ اصحاب کی تعداد ٧٠٠، ١٣٠٠، ١٤٢٥، ١٦٠٠، ١٧٠٠، تک نقل کی ہے۔ (السیرة الحلبیہ، ج٢، ص ٦٨٩، المغازی، ج٢، ص ٦١٤؛ طبقات الکبری، ج٢، ص ٩٨۔ ٩٥؛ تاریخ الامم و الملوک، ج٣، ص ٧٢؛ السیرة النبویہ، ابن ہشام، ج٣، ص ٣٣٢؛ مجمع البیان، ج٩ ، ص ١١٠.

۳۰۴

بیعت رضوان

آخرکار پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عثمان بن عفان کو ان کے پاس بھیجا تاکہ ان کے مقصد سے قریش کو آگاہ کریں۔ عثمان کے پلٹنے میں تاخیر ہوئی تو مسلمانوں کے درمیان یہ افواہ اڑی کہ قریش نے ان کو قتل کردیا ہے۔(١)

اس موقع پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب کوایک درخت کے نیچے جمع کیا او ران کے ساتھ عہد و پیمان پائیدار کیا۔(٢)

بیعت کی رسم ختم ہوئی ہی تھی کہ معلوم ہوا کہ عثمان کے قتل کی خبر غلط تھی یہ عہد نامہ چونکہ درخت کے نیچے کیا گیا او راس میں شرکت کرنے والوں سے خدا نے خوشنودی اور رضایت کا اظہار کیا(٣) لہٰذا اس کو ''بیعت رضوان'' اور ''بیعت شجرہ'' کہا گیا ہے۔

پیمان صلح حدیبیہ (فتح آشکار)

عثمان کے بے نتیجہ پلٹنے کے بعد آخرکار سہیل بن عمرو قریش کا نمائندہ بن کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مذاکرات کئے او رکہا کہ قریش کی طرف سے ہر طرح کی بات چیت کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ اس سال مسلمان عمرہ نہ کریں۔(٤)

اس گفتگو کے ذریعہ جو عہد و پیمان کیا گیا وہ ''صلح حدیبیہ'' کے نام سے مشہو رہوا ،جس کی شرطیں یہ ہیں:

١۔ قریش اور مسلمان اس بات کا عہد کریں کہ دس سال تک ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے اور اجتماعی امن و امان برقرار رکھیں گے۔

٢۔ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور تمام مسلمان اس سال مکہ میں داخل نہیں ہوں گے لیکن آئندہ سال قریش اسی موقع پر مکہ سے باہر چلے جائیں گے اور مسلمان تین دن مکہ میں رہ کر عمرہ کریں گے؛ اور مسافر جتنا ہتھیار لے کر چل سکتا ہے اس سے زیادہ وہ اپنے ساتھ ہتھیار نہ رکھیں۔(٥)

______________________

(١) المغازی، ج٢، ص ٦٠٢.

(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٣٣٠؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٧٨؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٩٩۔ ٩٧؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج١، ص ٣٥٠؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٩٦.

(٣)''لقد رضی اللّٰه عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرة فعلم ما فی قلوبهم فانزل السکینة علیهم و اثابهم فتحاً قریباً' ' سورۂ فتح، آیت ١٨.

(٤) طبری، گزشتہ حوالہ، ص ٧٨؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٣٣١.

(٥) اس شرط کی رو سے، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم او رمسلمانوں نے ٧ھ میں عمرہ انجام دیا جس کو ''عمرة القضائ'' کہا گیا ہے۔

۳۰۵

٣۔ اگر قریش کا کوئی آدمی اپنے سرپرست کی اجازت کے بغیر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس چلا جائے تواس کو مکہ واپس کیا جائے اور اگر محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھیوں میں سے کوئی قریش کے پاس آجائے تو قریش اس کو واپس نہیں کریں گے۔

٤۔ ہر قبیلہ آزاد ہے چاہے وہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ عہد و پیمان کرے یا قریش کے ساتھ ، (اس مقام پر قبیلۂ خزاعہ نے مسلمانوں کے ساتھ عہد و پیمان کا اعلان کیا اور بنوبکر نے قریش کے ساتھ عہد و پیمان کا اعلان کیا)۔

٥۔ مسلمان اور قریش دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خیانت نہیں کریں گے اور ان کے دشمن کا ساتھ نہیں دیں گے اور دشمنی کا اظہار نہیں کریں گے۔(١)

٦۔ مکہ میں اسلام کی پیروی آزاد رہے گی ا و رکسی بھی شخص کو ایک خاص دین کی پیروی کی خاطر اذیت نہیں دی جائے گی اور اس کی مذمت نہیں کی جائے گی۔(٢)

٧۔ اصحاب محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں سے جو شخص حج یا عمرہ یا تجارت کے لئے مکہ جائے اس کی جان و مال امان میں رہے گی اور قریش میں سے جو شخص مصر یا شام جانے کے لئے مدینہ کے راستہ سے گزرے گا اس کی جان و مال امان میں رہے گی۔(٣)

______________________

(١) پیمان کی اس شرط کا عربی متن یہ ہے: ''لااسلال و لا اغلال و ان بیننا و بینہم عیبة مکفوفة'' اسلال کے معنی خفیہ چوری اور کسی کی حمایت و مدد کرنا اور نیز رات کو حملہ کرنے کے معنی میں ہے ۔ (ابن اثیر، النہایة فی غریب الحدیث والاثر، ج٢، ص ٣٩٢، مادۂ سل) قرائن کے حساب سے، یہاں دوسرے معنی مراد ہیں (احمد میانجی ، مکاتیب الرسول، ج١، ص ٢٧٧)، اسی وجہ سے (بعض معاصر مورخین کے برخلاف) ہم نے اس کا ترجمہ چوری نہیںکیاہے۔

(٢) طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٧؛ بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٣٥١۔ ٣٥٠؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٣٣٢؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٩٧؛ بحار الانوار، ج٢٠، ص ٣٥٢؛ او ررجوع کریں : طبقات الکبریٰ، ج٢، ص ٩٧، ١٠١، ١٠٢۔

(٣) طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٩٧؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، ج٢، ص ٧٧؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢٠، ص ٣٥٠ اور ٣٥٢.

۳۰۶

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پیشین گوئی

پیمان صلح کے اصول پر موافقت کے بعد، جس وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کہنے پر علی نے صلح نامے کا مضمون لکھا تو نمائندہ قریش نے صلح نامے کے اوپر، بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم،اور نام محمد کے بعد'' رسول اللہ'' لکھنے کی مخالفت کی اور اس موضوع پر گفتگو کافی طولانی ہوگئی اور آخرکار رسول خدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ا نے کچھ مصلحتوں کے پیش نظر جو اس عہد و پیمان میں پائی جاتی تھیں، مجبور ہوکر موافقت کی اور علی رسول اللہ کا عنوان مٹانے سے کنارہ کش ہوگئے تو آپ نے فرمایا: ایسے حالات تمہارے لئے بھی پیش آئیں گے او رمجبور ہوکر تمہیں بھی ماننا پڑے گا(١) اور یہ پیشین گوئی جنگ صفین میں مسئلہ حکمیت کے موقع پر معاویہ کے اصرار پر علی کے نام کے آخر سے'' امیر المومنین کا عنوان'' مٹانے پر ، پوری ہوئی۔(٢)

صلح حدیبیہ کے آثار و نتائج

چونکہ مسلمان مستقبل میں اس صلح کے آثار و نتائج سے بے خبر تھے، لہٰذا اس کو ''شکست'' سمجھتے تھے(٣) اور کچھ لوگ اس کو منت و سماجت کہتے تھے۔(٤) تاکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس صلح پر دستخط کرنے سے روک

______________________

(١) طبرسی، مجمع البیان، ج٩، ص ١١٨؛ مجلسی ، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٣٥٠۔ ٣٣٤؛ صلح حدیبیہ کے سلسلہ میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے رجوع کریں: مکاتیب الرسول، علی احمد میانجی، ج١، ص ٢٧٥ اور ٢٨٧؛ کتاب وثائق، تالیف محمد حمید اللہ، ترجمہ: محمود مہدوی دامغانی، (تہران: ط و نشر بنیاد، ط ١، ١٣٦٥)، ص ٦٦و ٦٨.

(٢) نصربن مزاحم، گزشتہ حوالہ، ص ٥٠٩۔ ٥٠٨؛ طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٧؛ ابن واضح ، تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢، ص ١٧٩؛ ابوحنیفہ دینوری، الاخبار الطوال، تحقیق: عدالمنعم عامر (قاہرہ: داراحیاء الکتب العربیہ ، ١٩٦٠.)، ص ١٩٤؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر)، ج٣، ص ٣٢؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٧٠٨.

(٣) مجلسی، گزشتہ حوالہ، ج٢٠، ص ٣٥٠.

(٤) واقدی، مغازی، ج٢، ص ٦٠٧؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص ٣٣١؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک ج٣، ص ٩٧؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، ج٢، ص ٧٠٦؛ اس واقعہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارادہ کی بعض مسلمانوں کی طرف سے کھلی مخالفت ایک طرح سے حکم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یادرحقیقت حکم خدا کے مقابلہ میں ان کے بے جا اجتہاد یا خودرائے کی علامت تھی۔ اس قسم کی حرکت جو کہ بعد میں بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چند صحابیوںکی طرف تکرار ہوئی، تاریخ اسلام میں تلخ و ناگوار واقعات کا سرچشمہ بنی جبکہ مسلمان ہونے کا مطلب حکم خدا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت اور پیروی ا وران کے ارادہ کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہے جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے: ''و ماکان لمؤمن و لامؤمنة اذا قضی اللّٰہ و رسولہ أمراً أن یکون لہم الخیرة من أمرہم و من یعص اللّٰہ و رسولہ فقد ضل ضلالاً مبیناً'' (سورۂ احزاب، آیت ٣٦.)

۳۰۷

سکیں؛ لیکن جیسا کہ پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پیشین بینی کی تھی،اس صلح میں متعدد سیاسی و سماجی اثرات و نتائج پائے جاتے تھے۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:

١۔ اس صلح کے نتیجے میں مشرکین نے مسلمانوں کے وجود کو تسلیم کیا۔ جبکہ اس سے پہلے مشرکین مسلمانوں کے وجود کوتسلیم نہیں کرتے تھے اور ان کی نابودی میں لگے ہوئے تھے۔

٢۔ مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان جو آ ہنی دیوار حائل تھی وہ اس صلح کے نتیجہ میں گر گئی او رمکہ و مدینہ میں امد و رفت، اور دونوں طرف کے لوگوں میں آزادانہ ارتباط اوراعتقادی بحث و مباحثہ کی وجہ سے مشرکین کی ایک بہت بڑی تعداد مسلمانوں کے استدلال اور نئی منطق کو سن کر اسلام کی طرف راغب ہوگئی اور مسلمان ہونے والوں کی تعداد اس صلح کے بعد فتح مکہ والے سال تک، ان کی گزشتہ مجموعی تعداد کے برابر یا اس سے زیادہ ہوگئی۔(١)

اس بارے میں یہ جاننا کافی ہوگا کہ اس سفر میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب اٹھارہ سو (١٨٠٠) سے زیادہ نہیں تھے جبکہ دو سال بعد فتح مکہ کے موقع پر اسلامی سپاہیوںکی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔

امام جعفر صادق ، اسلام کے حق میں حالات کی اس بڑی تبدیلی کے بارے میں فرماتے ہیں: ''ابھی دو سال صلح کا زمانہ تمام نہیں ہوا تھا کہ قریب تھا کہ اسلام پورے مکہ پر چھا جائے''۔(٢)

______________________

(١) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣٣٦؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٨١؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٧١.

(٢) طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ٩٨؛ مجلسی، بحار الانوار، ج٢٠، ص ٣٦٣.

۳۰۸

٣۔ قریش کی مخالفتیں او ردشمنیاں اور ان کے فوجی حملوں کی وجہ سے، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے اتنا موقع فراہم نہیں ہوسکا تھا کہ جزیرة العرب کے ا ندر اور باہر اعلیٰ پیمانے پر تبلیغ کرسکیں، لیکن صلح کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کامیاب ہوئے کہ دشمنوں کو مدینہ کے اطراف سے ختم کر کے متعدد تبلیغی جماعتیں مختلف علاقوں میں بھیجیں۔ جیسا کہ ہم بیان کریں گے۔ دنیا کے سربراہوں او راہم شخصیتوں کو اسلام کی طرف دعوت کے خطوط، صلح حدیبیہ کے بعد ہی بھیجے گئے ہیں۔

٤۔ یہ صلح ایک طرح سے فتح مکہ کا باعث قرار پائی۔ اس لئے کہ صلح کی چوتھی شرط کے بموجب قبائل کا قریش یا مسلمانوں سے ملنا، آزاد اعلان ہوا تھا اور قبیلہ ''خزاعہ'' مسلمانوں کے ساتھ متحد ہوگئے تھے اور قریش نے اس قبیلے پر حملہ کر کے عہد شکنی کی جس کے نتیجہ میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مکہ کا اقدام کیا۔

یہ صلح اپنے درخشندہ آثار و نتائج کے لحاظ سے، مسلمانوں کے لئے بہت بڑی فتح اور کامیابی قرار پائی۔ جیسا کہ حدیبیہ سے پلٹتے وقت، مدینہ کے راستے میں ''سورۂ فتح'' پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہوا(١) اور خداوند عالم نے اس صلح کو ''فتح مبین'' کہا۔(٢)

______________________

(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٠٥۔ ١٠٤؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣٣٤؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص٩٨؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٧١٤.

(٢) ''انا فتحنا لک فتحاً مبیناً''.

۳۰۹

پانچواں حصہ

عالمی دعوت سے رحلت پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک

پہلی فصل: عالمی تبلیغ

دوسری فصل: اسلام کا پھیلاؤ

تیسری فصل:حجة الوداع اور رحلت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

۳۱۰

پہلی فصل

عالمی تبلیغ

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عالمی رسالت

اگرچہ دین اسلام بظاہر جزیرہ نمائے عرب، اور ایک مختصر سے قبیلے سے شروع ہوا تھا اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اسی عرب قوم سے تعلق رکھتے تھے لیکن اسلام ایک علاقے یا عربوں سے مخصوص دین نہیں تھا جس پر قرآن مجید کی وہ بہت سی آیات دلیل اور شاہد ہیں جن میں عربوں یا قریش سے خطاب نہیں کیا گیا بلکہ قرآن کے مخاطب ناس (تمام لوگ) ہیں، البتہ جن مواقع پر اسلام کے پیروؤں سے کوئی پیغام مخصوص ہے یا انہیں کچھ شرعی احکامات بتائے گئے ہیں وہاں قرآن مجید کے مخاطب، صرف مومنین یا مسلمان ہیں۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اپنی بعثت کی ابتداء سے ہی مکہ میں اپنے دین کو عالمی عنوان سے پیش کیا۔ چنانچہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں اسلام کے اس عالمی پیغام کی طرف واضح اشارہ موجود ہے۔ جس کے چند نمونے ہم یہاں پیش کر رہے ہیں:

١۔'' اے پیغمبر! آپ کہہ دیجئے۔ اے لوگو!بیشک میں تم سب کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہوں''۔(١)

______________________

(١)قل یا ایها الناس انی رسول اللّٰه الیکم جمیعاً ، سورۂ اعراف، آیت ١٥٨.

۳۱۱

٢۔ ''اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا ہے مگر تمام انسانوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر''۔(١)

٣۔ ''یہ قرآن مجید تمام عالمین کے لئے یادآوری کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے''۔(٢)

٤۔ ''یہ کتاب ذکر اور قرآن مبین کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے تاکہ ان لوگوں کو ڈرائے جو زندہ ہیں''۔(٣)

٥۔ ''پروردگار وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجاتاکہ اس دین کو تمام ادیان پر کامیاب اور کامران کردے''۔(٤)

٦۔ ''اور ہم نے آپ کو عالمین کے لئے سوائے رحمت کے اور کچھ نہیں بنا کر بھیجا ہے''۔(٥)

یہ تمام آیتیں مکی سوروں کی ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت اور آپ کا پیغام سب لوگوں کے لئے تھا اور مکہ سے ہی آپ کے پیغام کی یہ خصوصیت واضح اور روشن تھی۔ لیکن ان تمام روشن اور واضح دلائل کے باوجود بعض مغربی لوگوں نے جیسے ''گولت زیہر'' نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دین اور پیغام نیز آپ کی رسالت کو بعد میں عمومیت دی گئی اور آپ کی ابتدائی تعلیمات اس زمانہ کے عرب ماحول کی ضروریات سے زیادہ نہیں تھیں(٦) جبکہ گزشتہ بیان کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ اس مغربی مدعی کی بات میں کتنا دم ہے اور ہمیں اس کے بارے میں مزید گفتگو کی ضرورت نہیں ہے۔

______________________

(١)و ما ارسلناک الا کافةً للناس بشیراً و نذیراً ، سورۂ سبا، آیت ٣٨.

(٢)و ما هو الا ذکر للعالمین ، سورۂ قلم، آیت ٥٢.

(٣)ان هو الا ذکر و قران مبین لینذر من کان حیاً ، سورۂ یٰس، آیت ٧٠۔ ٦٩.

(٤)هو الذی ارسل رسوله بالهدیٰ ودین الحق لیظهره علی الدین کله ...، سورۂ توبہ، آیت ٣٣.

(٥)و ما ارسلناک الا رحمة للعالمین ، سورۂ انبیائ، آیت ١٠٧.

(٦)رجوع کیجئے: محاکمۂ گولت زیہر، یہودی، محمدغزالی مصری، صدر بلاغی کا ترجمہ (تہران، حسینیۂ ارشاد ١٣٦٣)، ص ٨٠۔ ٧٩ ۔

۳۱۲

عالمی تبلیغ کا آغاز

اگر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکہ میں قیام کے دوران اور اس کے بعد ہجرت کے چند سال بعد تک، اسلام کو جزیرہ نمائے عرب سے باہر پھیلانے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ مشرکین مکہ، یہودیوں اور دوسرے دشمنان دین کی ریشہ دوانیوں نے آپ کو اس کا موقع ہی نہیں دیا تھا۔ لیکن جب صلح حدیبیہ کے بعد اسلام کے سامنے سے قریش کے تمام حملوں کے خطرات ٹل گئے اور آپ کو مدینہ میں نسبتاً سکون اور اطمینان حاصل ہوا تو آپ نے ذی الحجہ ٦ھ یا محرم ٧ھ میں اس دور کے اہم بادشاہوں کو خطوط لکھے جن میں ان کو اسلام کی طرف دعوت دی، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک دن کے اندر چھ خطوط اپنے چھ صحابیوں کے ذریعے اس دور کے شہنشاہان مملکت کے نام بھیجے جن کے نام یہ ہیں: نجاشی بادشاہ حبشہ، قیصر روم، خسرو پرویز بادشاہ ایران، مقوقص بادشاہ مصر، حارث بن شمر غسانی حاکم شام، حوضہ بن عدی بادشاہ یمامہ۔(١)

البتہ یہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عالمی تبلیغ کا آغاز تھا اور دنیا کے اہل اقتدار کی طرف آپ کے دعوت نامے صرف انھیں چھ خطوط میں محدود نہیں رہے بلکہ آپ نے اس کے بعد بھی اپنی وفات تک مختلف مواقع پر دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھی اپنے سفیر بھیجے تھے(٢) جن میں خطوط کا مضمون تقریباً ایک جیسا ہی تھا اور سب کے سب بہت ہی سادہ، بے تکلف اور صریح عبارت میں لکھے گئے تھے البتہ دنیا کے شہنشاہان مملکت کا عکس العمل ان کے مقابلے میں یکساں نہیں تھا۔

______________________

(١)ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج ١، ص ٢٦٢۔ ٢٥٨.

(٢)علی احمدی میانجی، مکاتیب الرسول، ج١، ص٣١، ابن ہشام نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خطوط کودس عدد (سیرة النبویہ، ج ٤، ص ٢٥٤)، یعقوبی نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کل تبلیغی خطوط کی تعداد تیرہ عدد (تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٦٧۔ ٦٦) اور مسعودی نے کتاب التنبیہ و الاشراف میں (ص ٢٣٦۔ ٢٢٧) ان خطوط کی تعداد چھ بتائی ہے۔ اس زمانے کے ایک محقق نے آپ کے خطوط کی کل تعداد بیس بتائی ہے۔ (احمد صابری ہمدانی، محمد و زمامداران، (قم: دار العلم، ج٢، ص ١٣٤٦)

۳۱۳

جنگ خیبر

خیبر چند قلعوں کے مجموعے کا نام تھا، جہاں کے لوگوں کا مشغلہ کھیتی باڑی کرنا اور مویشی پالناتھا، وہ علاقہ چونکہ بہت ہی زرخیز تھا لہٰذا اس کو حجاز کے غلّے(١) کا گودام کہا جاتا تھا۔ خیبریوں کی اقتصادی حالت بہت اچھی تھی جس کا پتہ اس غذا اور اسلحوں کے اس ذخیرے سے لگایا جاسکتا ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوں ان قلعوں کی فتح کے بعد سامنے آیا تھا۔ یہ قلعے نظامی اعتبار سے مستحکم اور مضبوط بنے ہوئے تھے جن کے اندر موجود فوجیوں کی تعداد دس ہزار تھی(٢) اسی وجہ سے یہودی اپنے کو سب سے طاقتور سمجھتے تھے اور یہ تصور کرتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر ان سے جنگ کرنے کی ہمت اور طاقت نہیں ہے۔(٣)

٦ھ میں سلام بن ابی الحقیق جو بنی نضیر کا ایک سردار تھا اور خیبر کے یہودیوں کی لیڈر شب اس کے ہاتھ میں آگئی تھی اس نے قبیلۂ غطفان اوردوسرے مشرک قبیلوں کو جمع کر کے مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کی خاطر بڑی فوج تیار کرلی اس کی ان فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے مسلمانوں کے ہاتھوں اس کے قتل ہو جانے کے بعد خیبریوں نے اس کی جگہ اسیر ابن زارم٭ کو اپنا سردار چن لیا اس نے بھی اسلام دشمنی کی وجہ سے ان قبائل کو اسلام کے خلاف اکسایا۔(٤)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے گزشتہ دشمنیوں اور جھگڑوں کو مصالحت کے ساتھ حل کرنے کے لئے عبد اللہ بن رواحہ کی سرپرستی میں ایک وفد اس کے پاس بھیجا تاکہ اس کو راضی کرسکے وہ جب عبد اللہ بن رواحہ اور

______________________

(١) واقدی ،المغازی، تحقیق مارسڈن جونس، ج٢، ص٦٣٤، سیرة النبویہ، ابن ہشام، ج٤، ص٣٦٠.

(٢) واقدی ،گزشتہ حوالہ، ص٧٠٣۔ ٣٦٧، یعقوبی نے ان کی تعداد بیس ہزار افراد لکھی ہے۔ (ج٢، ص٤٦.)

(٣) واقدی ،گزشتہ حوالہ، ص ٦٣٧۔

٭یسیرم بن رزام یا رازم بھی لکھا گیا ہے۔ (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص٢٦٦.)

(٤)الکبریٰ ابن سعد، ج٢، ص٩٢۔ ٩١.

۳۱۴

اپنے کچھ یہودی ساتھیوں کے ساتھ ایک وفد کی صورت میں مدینہ کی طرف آرہا تھا تو راستے میں اپنے اس فیصلے سے نادم ہوا اور اس نے سوچا کہ عبد اللہ کو قتل کردے، چنانچہ طرفین کی اس چھڑپ میں وہ اور اس کے ساتھی مارے گئے(١) اور اس طرح پیغمبر کی یہ مصالحت آمیز کوشش کارگر نہ ہوسکی۔

ان تمام سازشوں اور فتنوں کے علاوہ موجودہ دور کے ایک مورخ کے بقول اس وقت یہ خطرہ بھی پایا جاتا تھا کہ خیبر کے یہودی، مسلمانوںسے پرانی دشمنی کی بناپر اور بنی قینقاع، بنی نضیر اور بنی قریظہ کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے ایران یا روم کے آلۂ کار بن سکتے ہیں اور ان کے اشارے پر مسلمانوں پر حملہکر سکتے ہیں۔(٢)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب صلح حدیبیہ کے بعد جنوبی علاقے کے خطرات کی طرف سے مطمئن ہوگئے تو آپ نے ٧ھ کے آغاز میں ١٤٠٠، افراد پر مشتمل، لشکر کے ساتھ(٣) ، یہودیوں کی گوش مالی کے لئے شمال کی طرف روانہ ہوئے اور اسلامی فوج کے لئے ایسے راستے کا انتخاب کیا جس سے غطفان جیسے طاقتور قبیلے کا رابطہ جس کا اس وقت خیبریوں سے معاہدہ تھا خیبریوں سے ٹوٹ گیا ، جس کے بعد ان کے درمیان ایک دوسرے کی امداد اور تعاون کا کوئی امکان باقی نہیں رہ گیا۔(٤) یہودیوں پر اچانک اور ان کی بے توجہی سے فائدہ اٹھا کر حملہ کرنے کی حکمت عملی کے نتیجہ میں راتوں رات قلعۂ خیبر اسلامی فوج کے محاصرے میں آگیا اور جب صبح ہوئی تو یہودیوں کے سردار اس خطرہ کی طرف متوجہ ہوئے۔

______________________

(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ،ج ٤، ص ٢٦٧۔ ٢٦٦.

(٢)محمد حسین ہیکل، حیات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، (قاہرہ: مکتبہ النہضہ المصریہ، ط٨)، ص ٣٨٦.

(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٦٨٩، طبقات الکبریٰ محمد بن سعد، (بیروت: دار صادر) ج٢، ص ١٠٧، گزشتہ حوالہ، ابن ہشام، ج٤، ص ٣٦٤.

(٤)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٦٣٩.

۳۱۵

البتہ پھر بھی مسلمانوں اور خیبریوں کی یہ جنگ برابر کی لڑائی نہیں تھی کیونکہ وہ لوگ بہت ہی مضبوط و مستحکم اور مورچہ بند قلعوں کے اندر تھے اور انھوں نے قلعوں کے دروازے بند کر رکھے تھے اور میناروں کے اوپر سے تیر اندازی کر کے یا پتھر برسا کر اسلامی فوج کو قلعہ کی دیوار سے نزدیک نہیں ہونے دے رہے تھے چنانچہ ایک حملے میں اسلامی فوج کے پچاس سپاہی زخمی ہوگئے۔(١)

دوسری طرف سے ان کے پاس کافی مقدار میں خوراک کا ذخیرہ موجود تھا مگر اس محاصرہ کے طولانی ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے پاس خوراک کا ذخیرہ کم ہوگیاانجام کار نہایت دشواریوں اور زحمتوں کے بعد خیبر کے قلعے یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے قبضہ میں آنے لگے لیکن آخری قلعہ جس کا نام قموص تھا اوراس کا سپہ سالار مرحب تھا جو یہودیوں کا مشہور پہلوان بھی تھا یہ قلعہ آخر تک کسی طرح فتح نہ ہوسکا اور اسلامی فوج کے سپاہی اس پر قبضے نہ کرسکے۔ ایک روز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسلامی فوج کا پرچم حضرت ابوبکر اور دوسرے روزحضرت عمر کے حوالہ کیا اور فوج کو ان کے ساتھ یہ قلعہ فتح کرنے کے لئے روانہ کیا لیکن دونوں افراد کسی کامیابی اور فتح کے بغیر رسول خدا کے پاس واپس آگئے(٢) ۔ آپ نے یہ صورت حال دیکھ کر ارشاد فرمایا:

''کل میں یہ پرچم اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوںخداوند عالم اس قلعہ کو فتح کرائے گا وہ ایسا شخص ہے جو خدا اور رسول کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور اس کا رسول بھی اسے دوست رکھتے ہیں وہ کرار غیر فرار ہوگا'' اس رات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام صحابہ کی یہی آرزو تھی کہ کل پیغمبر، اسلامی فوج کا پرچم اس کے حوالے کردیں جب سورج طلوع ہوا، پیغمبر نے فرمایا: علی کہاں ہیں؟ سب نے عرض کی کہ علی کو آشوب چشم ہے اور وہ آرام کر رہے ہیں ،پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو طلب کیا اور آپ کی آنکھوں کو

______________________

(١)وہی حوالہ ، ص ٦٤٦.

(٢)طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٣، ص ٩٣؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص ٣٤٩؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ (بیروت: مکبتة المعارف، ط ٢، ١٩٧٧ع) ج٤، ص١٨٦.

۳۱۶

اپنی کرامت سے شفا بخشی اور اس کے بعد اسلامی فوج کا علم ان کے حوالے کیا اور فرمایا :

ان کی طرف جاؤ اور جب ان کے قلعہ کے پاس پہنچنا تو پہلے انھیں اسلام کی دعوت دینا اور خدا کے احکام کی اطاعت کے بارے میں جو ان کا وظیفہ ہے وہ ان کو یاد دلانا، خدا کی قسم اگر پروردگار نے تمہارے ہاتھوں ان میں سے ایک شخص کو بھی ہدایت کر دی تو یہ تمہارے لئے اس سے کہیں بہتر ہے کہ تمہارے پاس سرخ بالوں ٭ والے بہت سے اونٹ ہوں۔(١)

______________________

٭ سرخ بالوں والے اونٹ سب سے زیادہ پسندیدہ اور قیمتی ہوتے تھے یہ مثال بہت زیادہ مال و دولت کی طرف اشارہ تھی ۔

(١)پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کا یہ کلام اور حضرت علی کی سر داری تھوڑے سے الفاظ اور تعبیرات کے اختلاف کے ساتھ مندرجہ ذیل کتابوں میں نقل ہوئی ہیں:

صحیح بخاری، تحقیق: الشیخ قاسم اشماعی الرفاعی (بیروت: دار القلم، ط١، ١٤٠٧ھ.ق)، ج٥؛ کتاب المغازی، باب ١٥٥، ص٢٤٥؛ صحیح مسلم، بشرح النوی (بیروت: دار الفکر، ١٤٠١ھ.ق)، ج١٥، ص١٧٧۔ ١٧٦؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص١١١۔ ١١٠؛ صدوق، کتاب الخصال (قم: منشورات جماعة المدرسین، ١٤٠٣ھ.ق)، ص٣١١ (باب الخمسة)؛ طبری، تاریخ الامم والملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٣، ص٩٣؛ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات)، ج١، ص٤٧؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص ٢١٩؛ ابن عبد البر، الاسیتعاب فی معرفة الاصحاب، (در حاشیۂ الاصابہ)، ج٣، ص٣٦؛ حاکم نیشاپوری، المستدرک علی الصحیحین (بیروت: دار المعرفہ، ١٤٠٦ھ.ق)، ج٣، ص١٠٩؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص٣٤٩؛ ابن حجر ہیثمی مکی، الصواعق المحرقة، مکتبة القاہرہ، ١٣٨٥ھ.ق)، ص١٢١؛ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٣٥؛ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٤٦؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج٤، ص١٨٦؛ حلبی، انسان العیون (السیرة الحلبیہ)، ج٢، ص٧٣٦۔ ٧٣٣؛ ابوجعفر محمد بن حسن طوسی، الامالی (قم: دار الثقافہ، ١٤١٤ھ.ق)، ص٣٨٠۔

۳۱۷

حضرت علی ـ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کے مطابق روانہ ہوئے اور ایک دلیرانہ جنگ میں مرحب کو قتل کیا اور بے نظیر و لاجواب شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مستحکم او رمضبوط قلعے کو فتح کرلیا۔ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس فتنہ اور فساد اور سازشوں کے اڈے یعنی خیبر کی فتح میں چند اسباب اور عوامل کارفرما تھے جن میں سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بہترین سپہ سالاری اور جنگی حکمت عملی (جیسے دشمن کی غفلت سے فائدہ اٹھانا دشمن سے متعلق خبریں اور ان کے قلعوں کی اندرونی معلومات حاصل کرنا) اور بالآخر حضرت علی ـ کی بے نظیر شجاعت کا بھی اس میں کافی اہم کردار تھا۔ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی اس بہادری اور فداکاری کو اس انداز سے سراہا کہ اس دور کے ہر مسلمان بچے بچے کی زبان پر آپ کی بہادری کا کلمہ تھا اور اس کے مدتوں بعد تک آئندہ نسلوں کو بھی یہ واقعہ معلوم تھا اور اس دور کی تاریخ میں اسے اتنا عیاں اور روشن سمجھا جاتا تھا کہ معاویہ نے اپنی حکومت میں حضرت علی ـ پر سب و شتم کو عام کرنے کے باوجود جب ایک دن سعد وقاص سے کہا کہ تم علی پر سب و شتم کیوں نہیں کرتے ہو؟ تو اس نے کہا: میں یہ کام ہرگز نہیں کرسکتا ہوں، کیونکہ مجھے بخوبی یاد ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی ایسی تین فضیلتیں بیان فرمائی ہیں کہ میری آرزو اور تمنا ہے کہ کاش ان میں سے صرف ایک ہی فضیلت میرے اندر بھی پائی جاتی۔

١۔ ایک جنگ (جنگ تبوک) میں جاتے وقت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو مدینہ میں اپنا جانشین بنادیا تھا تو انھوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا تھا کہ آپ نے مجھے شہر میں بچوں اور عورتوں کے ساتھ چھوڑ دیا! پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: '' کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ تمہاری نسبت میرے ساتھ ویسی ہی ہو جو ہارون کو موسیٰ سے حاصل تھی (یعنی ان کی جانشینی اور خلافت) بس فرق اتنا سا ہے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا''۔

٢۔ آپ نے جنگ خیبر میں فرمایا: کل میں پرچم اس شخص کے سپرد کروں گا جو خدا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوست رکھتا ہوگا اور خدا اور پیغمبر بھی اس سے محبت کرتے ہوں گے اس دن ہم سب کی یہی آرزو تھی کہ یہ مقام اور منصب ہمیں مل جائے۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: علی کو بلاؤ! ان کو بلایا گیا جبکہ ان کی آنکھوں میں تکلیف تھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگایا اور آپ کی آنکھیں فوراً ٹھیک ہوگئیں اور آپ نے فوج کا علم ان کے حوالے کیا اور خدا نے ان کے سرپر قلعہ ٔ قموص کی فتح کا سہرا باندھا۔

۳۱۸

٣۔ جب مباہلہ سے متعلق قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ''فقل تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم''(١) تو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین کو بلایا اور کہا: ''خدایا! یہ میرے اہل بیت ہیں''(٢)

حضرت علی ـ نے اس تاریخ ساز جنگ کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا : ''ہمیں جنگجوؤں، اسلحوں اور جنگی سازو سامان کے ایک پہاڑ (طوفان) سے مقابلہ کرنا پڑا، ان کے قلعہ نا قابل تسخیر اور ان کی تعداد بہت زیادہ تھی ان کے دلاور اور بہادر ہر روز قلعوں سے باہر آتے تھے، مبارز طلب کرتے تھے اور ہماری فوج کا جو شخص بھی میدان میں قدم رکھتا تھا مارا جاتا تھا جس وقت جنگ کی آگ بھڑک گئی اور دشمن نے مبارز طلب کیا ،ہمارے سپاہیوں کے ہاتھ پیر دہشت اور خوف کے مارے لرز نے لگے اور وہ ایک دوسرے کو عاجزانہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے سب نے مجھ سے آگے بڑھنے کے

______________________

(١)سورۂ آل عمران، آیت ٦١.

(٢)شرح صحیح مسلم، النووی، ج١٥، ص ١٧٦، سعد وقاص (قبیلۂ بنی زہرہ سے) جو کہ سابقین اسلام میں سے تھا اور ١٧ سال کی عمر میں (الطبقات الکبریٰ، ج٣، ص ١٣٩، یا ١٩ سال کی عمر میں (السیرة الحلبیہ، ج٩، ص ٤٣٤) مکہ میں دائرہ اسلام میں آگیا وہ جب مدینہ میں تھا تو اس کا شمار بڑے مہاجروں میں ہوتا تھا اور سیاسی طور پر حضرت علی کا رقیب اور عمر کے قتل ہو جانے کے بعد خلافت کی چھ رکنی کمیٹی کا ایک ممبر تھا۔ اور اس کمیٹی میں اس نے علی کو ووٹ نہیں دیا، (ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج١، ص١٨٨) عثمان کے قتل ہو جانے کے بعد حضرت علی لوگوں کے عظیم استقبال پر ظاہری طور پر خلافت و حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اس وقت بہت ہی لوگ تھے جنھوں نے آپ کی بیعت نہیں کی ان میں یہ بھی ایک تھا۔ (مسعودی، مروج الذہب، ج٢، ص ٣٥٣؛ ابن اثیر ، الکافی فی التاریخ، ج٣، ص١٩١) لیکن ان تمام باتوں کے باوجود علی کی تین بڑی فضیلتوں کا معترف تھا۔

۳۱۹

لئے کہا: پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی مجھ سے کہا کہ آگے بڑھو اور قلعہ پر حملہ کرو، میں نے قدم آگے بڑھایا اور ان کے جس پہلوان اور بہادر سے روبرو ہوا اس کو ہلاک کر ڈالا اور ان کے جس جنگجو نے میرا مقابلہ کرنا چاہا وہ زمین پر نظر آیا اور آخر کار وہ عقب نشینی پر مجبور ہوگئے ،اس کے بعد اس شیر کی طرح جو اپنے شکار کا پیچھا کر رہا ہو میں نے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ انھوں نے قلعے میں پناہ لے لی اور اس کے دروازے کو بند کر لیا، میں نے قلعہ کے دروازے کو اکھاڑ پھینکا اور تنہا قلعہ میں داخل ہوگیا اس موقع پر خداوند عالم کے علاوہ میرا اور کوئی معاون و مددگار نہیں تھا۔(١)

آخری قلعہ فتح ہونے کے بعد خیبریوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی اور ہتھیار ڈال دئے اور جنگ تمام ہوگئی ۔ مورخین کے مطابق یہودیوں کے ٩٣ آدمی(٢) مارے گئے اور شہداء اسلام کی تعداد ٢٨ تھی۔(٣)

یہودیوں کا انجام

جب خیبر کے یہودیوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی تو انھوں نے اس بات کو دلیل بنا کر کہ وہ لوگ کھیتی باڑی کے ماہر ہیں، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ خواہش کی کہ وہ لوگ اپنے اس علاقہ میں اسی طرح باقی رہیں اور کھیتی باڑی کرتے رہیں۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی اس درخواست کو قبول فرما لیا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ ہر سال اپنی کھیتی باڑی اورغلہ کی آمدنی کا آدھا حصہ اسلامی حکومت کو ادا کریں گے(٤) اور جس وقت بھی

______________________

(١)صدوق، الخصال، ص ٣٦٩، باب السبعہ.

(٢)بحار الانوار، مجلسی، ج٢١، ص٣٢.

(٣)تاریخ پیامبر اسلام: محمد ابراہیم آیتی، (تہران: ناشر دانشگاہ تہران، چ ٣، ١٣٦١) ص ٤٧٥۔ ٤٧٣.

(٤) واقدی، المغازی، ج ٢، ص ٦٩٠، معجم البلدان، یاقوت حموی، ج٢، ص ٤١٠ (لغت خیبر.)

۳۲۰