تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 157581
ڈاؤنلوڈ: 4712

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157581 / ڈاؤنلوڈ: 4712
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

آنحضرت کہیں ان لوگوں کواس ملک سے باہر جانا ہوگا.(١) یہ معاہدہ حضرت عمر کی خلافت کے زمانہ تک اسی طرح باقی رہا مگر خلیفۂ دوم کے دور حکومت میں ان لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف پھر شورش کرنا چاہی تو حضرت عمر نے ان کو شام کی طرف جلاوطن کردیا۔(٢)

فدک

اہل خیبر کی شکست کے بعد، فدک کے یہودی کسی مقابلہ کے بغیر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے تسلیم ہوگئے اور خیبریوں کے معاہدے کی طرح، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک معاہدہ کیا اور چونکہ فدک کسی جنگ کے بغیر فتح ہوا تھا لہٰذا اس کی آدھی آمدنی ''خالصہ'' یعنی رسول خدا کی ذاتی ملکیت قرار پائی۔(٣)

______________________

(١) ابن ہشام،السیرة النبویہ، ج ٣، ص ٣٥٢.

(٢) یاقوت حموی،گزشتہ حوالہ، ص ٤١٠، فتوح البلدان (بیروت: ١٣٩٨) ص ٣٧۔ ٣٦.

(٣) بلاذری، گزشتہ حوالہ،ص ٤٢، گزشتہ حوالہ، ابن ہشام، ج ٢، ص ٣٥٢، الکامل فی التاریخ ، ابن اثیر، ج٢، ص ٢٢٤، گزشتہ حوالہ واقدی، ج ٢، ص٧٠٧، گزشتہ حوالہ، یاقوت حموی، ج ٤، ص ٢٣٨ (لغت فدک): الاموال، ابو عبید قاسم بن سلام: تحقیق محمد خلیل ہراس (بیروت: دار الفکر، ط ٢، ١٣٩٥ھ ص ١٦.

۳۲۱

دوسری فصل

اسلام کا پھیلاؤ

جنگ موتہ

جیسا کہ گزر چکا ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صلح حدیبیہ کے بعد اپنی عالمی رسالت کا آغاز کیا اور دنیا کے شہنشاہان مملکت کو اسلام کی طرف دعوت دی اس زمانے کے ملکوں میں روم اور ایران جیسی بڑی حکومتیں سپر پاور سمجھی جاتی تھیں، قیصر روم تک پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت کے بارے میں خبریں پہنچی تھیں جس کی بنا پر وہ اسلام قبول کرنے کی طرف مائل تھا لیکن جب اس نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو اسے عیسائیوں اور روم کی فوج کی بہت سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جس کی بنا پر اسے مجبوراً اپنے فیصلہ کو تبدیل کرنا پڑا،(١) اس سے صاف واضح ہے کہ ان کے دوسرے امراء اور عہدے دار اسلام کے بارے میں معاندانہ رویہ رکھتے تھے۔ اس زاویہ نگاہ سے جنگ موتہ کی ابتدا کی صحیح علت تلاش کی جاسکتی ہے!! پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے جزیرۂ نمائے عرب سے باہر اپنی دعوت اور تبلیغ کو عام کرنے کے لئے ٨ھ میں حارث بن عمیرازدی کو یہ خط دے کر بُصریٰ ''شام'' کے بادشاہ کے پاس بھیجا۔(٢)

______________________

(١)زینی دحلان، السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ (بیروت : دار المعرفہ ، ط٢) ج٢، ص ١٧٠۔ ١٧١؛ حلبی، السیرة الحلبیة (انسان العیون) ، (بیروت،: دار المعرفة)، ج٣، ص ٢٨٩۔ ٢٩٠.

(٢) حلبی لکھتا ہے کہ یہ خط، روم کے بادشاہ ہرقل کے نام تھا جو اس وقت شام میں رہتا تھا، سیرة الحلبیہ، ج٢، ص ٧٨٦.

۳۲۲

شرخبیل بن عمروغسانی جو اس وقت قیصر روم کی طرف سے شام کا گورنر تھا(١) اس نے رسول خدا کے سفیر کو قید کرلیا اوران سے ان کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھ تاچھ کرنے کے بعد ''موتہ'' نامی گاؤں میں انھیں قتل کر ڈالا، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے یہ حادثہ تلخ اور ناگوار تھا اور آپ اس سے بہت غمزدہ اور متأثر ہوئے۔(٢)

اگرچہ ایک آدمی کے قتل ہو جانے سے کوئی جنگ نہیں چھڑتی ہے لیکن اس دور میں سفرائے ملت کو جو اہمیت اور حقوق حاصل تھے ان کے مطابق اور دوسرے اخلاقی اصولوں کے برخلاف پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سفیر کا قتل در حقیقت آپ کے لئے ایک طرح کی نظامی اور فوجی دھمکی تھی اور شام کے گورنر کی طرف سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسالمت آمیز دینی دعوت کے مقابلے میں اپنی قدرت کا اظہار تھا اسی وجہ سے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس علاقہ میں ایک فوج روانہ کرنے کا ارادہ کیا آپ کے اس اقدام کو اسلام کا پیغام عزت اوردشمن کے مقابل اپنی نظامی قوت کے اظہار کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ اس بنیاد پر رسول خدا نے ٣ ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک لشکرسرزمین موتہ کی طرف روانہ کیا جس کی سپہ سالاری بالترتیب جناب جعفر بن ابوطالب(٣) ؛ زیدبن حارثہ اور عبد اللہ بن رواحہ کے حوالے کی۔ یعنی اگر ان میں سے کوئی ایک شخص

______________________

(١)وہی حوالہ ، ج٢، ص ٧٨٦.

(٢)واقدی، المغازی، تحقیق مارسڈن جونس (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات) ج٢، ص ٧٥٥، طبقات الکبریٰ، ابن سعد، بیروت: دار احیائ، ج٢، ص ١٢٨.

(٣)جعفر بن ابی طالب، حبشہ میں برسوں سکونت کے بعد ٧ھ میں مدینہ پلٹ کر آئے اور فتح خیبر کے بعد اسی علاقہ میں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ (ابن سعد، الطبقات الکبری، (بیروت: دار صادر)، ج٤، ص٣٥؛ ابن اثیر، اسد الغابہ (تہران: المکتبة الاسلامیہ، ١٣٣٦ش)،ج١، ص ٢٨٧؛ ابن عبد البر، الاستیعاب، (حاشیہ اصابہ میں)، ج ١، ص ٢١٠؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، تحقق سید احمد صفر (قم: منشوراتالشریف الرضی، ١٤١٦ھ)، ص٣٠؛ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، (بیروت: مکتبة المعارف) ، ج٤، ص٢٠٦.)

۳۲۳

شہید ہو جائے تو دوسرا شخص اس کے بعد فوج کا سپہ سالار ہوگا۔(١)

موتہ نامی ایک دیہات کے کنارے اسلامی فوج کا سامنا روم کی فوج سے ہوا جس کے فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ تھی۔ تینوں سپہ سالاروں نے ترتیب واراسلامی فوج کا پرچم اپنے ہاتھوں میں بلند کرتے ہوئے جنگ کی اور منزل شہادت پر فائز ہو گئے اس کے بعد اسلامی فوج کے سپاہیوں نے خالد بن ولید کو اپنا سپہ سالار منتخب کیا اس نے مختلف طریقوں سے پہلے تو دشمن کو مرعوب کیا اور اس کے بعد عقب نشینی کا حکم دیدیا اور اسلامی فوج کو مدینہ واپس لے آیا۔(٢)

واقدی نے... اس جنگ کے شہداء کی تعدادآٹھ(٣) اور ابن ہشام نے بارہ(٤) ذکر کی ہے اور

______________________

(١)طبرسی، اعلام الوریٰ بأعلام الہدیٰ (دار الکتب الاسلامیہ)، ط٣، ص ١٠٧۔ مشہور یہ ہے کہ اس لشکر کی سپہ سا لاری میں جناب زید جناب جعفر پر مقدم تھے لیکن کچھ شیعہ روایات (جیسا کہ طبرسی نے نقل کیا ہے) جناب جعفر کے مقدم ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور قرائن و شواہد بھی اسی کی تائید کرتے ہیں۔ (جعفر سبحانی، فروغ ابدیت (قم: مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، ١٣٦٨، ط٥، ج٢، ص ٢٩٣۔ ٢٩١۔) محمد بن سعد کی ایک روایت بھی اسی مضمون کی تائید کرتی ہے۔ (الطبقات الکبریٰ، ج٢، ص١٣٠) مزید اطلاع کے لئے مجموعۂ مقالات ''دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام''، جعفر مرتضی، ج١، ص٢١٠ کے بعد، مراجعہ کریں۔

(٢)ابن ہشام، السیرة النبویہ (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلبی، ١٣٥٥ھ ) ج٤، ص٢١۔ ١٩؛ محمد بن جریر طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٣، ص١١٠۔ ١٠٧؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٥٦٩۔ ٧٥٥؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٣٠۔ ١٢٨؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٧٩٣۔ ٧٨٧؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ١٠٤۔ ١٠٢؛ زینی دحلان، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٧٢۔ ٦٨؛ مجلسی، بحار الانوار (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ١٣٨٤ھ)، ج٢١، ص ٦٣۔ ٥٠؛ طوسی، الامالی (قم: دار الثقافہ، ط١، ١٤١٤ھ)، ص ١٤١۔

(٣)المغازی، ج٢، ص ٧٦٩.

(٤) السیرة النبویہ، ج٤، ص ٣٠.

۳۲۴

بعض جدید کتابوں میں ان کی تعداد سترہ (١٧)(١) ذکر کی گئی ہے آج بھی ان شہداء کی قبریں، شہر موتہ(٢) کے نزدیک موجود ہیں اور تینوں سپہ سالاروں کی قبروں کے اوپر بہترین گنبد موجود ہیں اور جناب جعفر کی قبر کے نزدیک ایک خوبصورت مسجد بھی موجود ہے۔(٣)

فتح مکہ

جیسا کہ گزر چکا صلح حدیبیہ کے معاہدے کی ایک شق دس سال تک مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان جنگ بندی تھی، اس کی بنا پر پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کو قریش کی شرارتوں اور ان کے فوجی حملوں کی طرف سے سکون اور اطمینان حاصل ہوگیا تھا۔ اسی کے بعد آپ نے بہت بلند اقدامات کئے اور مختلف علاقوں میں تبلیغ کے لئے متعدد لوگوں کو بھیجا اور اپنی عالمی رسالت کا باقاعدہ آغاز کیا۔ مدینہ کے اطراف میں بہت سے دشمن قبائل کو غیر مسلح کردیایاان سے صلح اوردوستی کا معاہدہ کیا اور خیبر جو تمام فتنوں کا اڈہ اور مرکز تھا وہ تو آپ کے ہاتھ پہلے ہی فتح ہو چکا تھا۔

قریش کی عہد شکنی

صلح حدیبیہ کے معاہدے کے دو سال بعد قریش نے اس معاہدے کو توڑ دیا کیونکہ اس صلح نامہ کی چوتھی شق کے مطابق ہر قبیلہ کو یہ اختیار تھا کہ وہ یا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ معاہدہ کرلے یا قریش کے ساتھ دوستی

______________________

(١) محمد ابراہیم آیتی، تاریخ پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (تہران: ناشر : تہران یونیورسٹی ، ١٣٦١)، ص ٥٠١.

(٢) یہ شہر ملک اردن کے جنوبی صوبہ کرک میں ہے جو کہ شہر امان ( اردن کا دار الحکومت) سے ١٣٥ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے.

(٣) جعفر سبحانی، ملک اردن کے سفر کی رپورٹ (موتہ: ایک یادگاری جگہ ہے) مجلہ ٔ درسہائی از مکتب اسلام، سال ٣٨ شمارہ ٧ ، ماہ مہر ١٣٧٧.

۳۲۵

کرلے۔ اسی دوران قبیلۂ خزاعہ نے مسلمانوں کے ساتھ اور قبیلۂ بنو بکر (بنی کنانہ) نے قریش کے ساتھ اتحاد کرلیا۔(١) ٨ ہجر ی، میں قبیلہ بنی بکر نے، قبیلۂ خزاعہ پر حملہ کردیا ،اس حملہ میں قریش نے فوجی سازو سامان اور لاؤ لشکر کے ساتھ بنی بکر کا تعاون کیا اورکچھ خزاعیوں کو قتل کرڈالا۔ جس کی بنا پر حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔(٢) اس کی وجہ سے قبیلۂ خزاعہ کے سردار نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مدد طلب کی۔ حضرت نے عمومی تعاون کا اعلان کردیا(٣) اور یہ ارادہ کیا کہ مکہ پر حملہ کردیا جائے مگر اس حملہ کی اطلاع قریش کو نہ ہونے پائے اور دشمن کو اس بات کا پتہ نہ چلے اور مکہ کسی طرح کی خونریزی اور جنگ کے بغیر مسلمانوں کے قبضہ میں آجائے،آپ نے اپنے مقصد کو پوشیدہ رکھا(٤) اور یہ حکم دیا کہ مکہ کے راستہ کو زیر نظر رکھا جائے(٥) اور خدا سے دعا کی کہ قریش کو آپ کے اس اقدام سے بے خبررکھے۔(٦) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمام قوت و طاقت کو جمع کر کے دس ہزار(٧) کا لشکر لیکر مکہ کی طرف روانہ

______________________

(١)ظہور اسلام سے قبل ان دو قبیلوں کے درمیان دشمنی اور خون خرابہ ہوتا رہتا تھا۔ (السیرة النبویہ، ابن ہشام، ج٤، ص ٣١) اسی زمانہ سے خزاعہ نے عبد المطلب کے ساتھ عہد باندھاتھا۔ (المغازی، واقدی، ج٢، ص ٧٨١.)

(٢) السیرة النبویہ، ابن ہشام، ج١، ص ٣٣، المغازی واقدی، ج٢، ص٧٨٣، تاریخ یعقوبی، ابن واضح (نجف، المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق) ابن ہشام کہتا ہے: ''اس حملہ میں ایک شخص قبیلۂ خزاعہ کا مارا گیا''(ج٤، ص ٣٣) لیکن واقدی اور ابن سعد نے مارے جانے والوں کی تعداد ٢٠ عدد لکھی ہے (المغازی، ج٢، ص ٧٨٤، طبقات الکبریٰ، ج٢، ص ١٣٤.)

(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ،ج٢، ص ٨٠٠۔ ٧٩٩، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٣٥.

(٤)واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٨٠٢۔ ٧٩٦؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٣٤.

(٥)واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٧٩٦ ۔ ٧٨٦؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٣٤.

(٦) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٤؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٣٤؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٤٧.

(٧) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٤٢۔ ٤٣؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٣٥؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٨٠١.

۳۲۶

ہوگئے آپ کی یہ تدبیر کارگر ثابت ہوئی اور جب تک اسلامی فوج نے مکہ کے دروازہ کے سامنے (مرّ الظہران کے مقام پر) پڑاؤ نہ ڈال دیا قریش کے جاسوس اس سے باخبر تک نہ ہوسکے۔

جناب عباس، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا اس وقت تک مکے میں موجود تھے اور جب اسلامی لشکر مکہ کی طرف آرہا تھا تو یہ مدینے کی طرف جارہے تھے، جحفہ کی منزل پر وہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہونچے اور مسلمانوں کے ساتھ مکہ واپس پلٹ آئے۔ اسلامی لشکر نے مکہ کے باہر جو پڑاؤ ڈال رکھا تھا اس کی آخری شب میں شہر سے باہر ابو سفیان سے آپ کا سامنا ہوا آپ اس کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں لائے(١) ابوسفیان اسلامی لشکر کی عظمت اور کثرت کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا رسول خدا نے اس کو معاف فرما دیا اور جناب عباس کی اس درخواست کے مطابق کہ جو شخص بھی مسجد الحرام میں پناہ لے لے یا اپنے گھر میں بیٹھا رہے یا ابوسفیان کے گھر میں پناہ لے لے، وہ امان میں ہے۔

اسلامی لشکر کے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ابوسفیان نے رسول خدا کی طرف سے جاری امان نامے کی اطلاع اہل مکہ کو دیدی اس تدبیر کی وجہ سے آپ کو کسی طرح کے خون خرابے کی نوبت نہیں ائی اوراہل شہر کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت اور مقابلہ کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور مکہ آسانی کے ساتھ فتح ہوگیا، شہر کے صرف ایک حصہ میں جہاں کچھ ہٹ دھرم قسم کے قریش رہتے تھے انھوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقابلہ کرنا چاہا جن میں سے کچھ لوگ مارے گئے۔(٢)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکہ میں داخل ہونے کے بعد اونٹ پر سوار ہوکر خانہ کعبہ کا طواف کیا اور اس دوران آپ کے ہاتھ میں جو عصا تھا اس کے ذریعہ کعبہ کے چاروں طرف رکھے ہوئے بتوں کو گراتے رہے اور فرماتے رہے: (حق آگیا اور باطل چلا گیا بیشک باطل، تو نابود ہونے والا ہے)۔(٣)

______________________

(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٤٢، ٤٤، ٤٦؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٨١٩۔ ٨١٧.

(٢)١٥ سے ٢٨ افراد ۔ (ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٥٠؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٨٢٥؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٣٦.)

(٣)(جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل کان زهوقاً )، سورۂ اسرائ، آیت ٨١.

۳۲۷

اور اس کے بعد جیسا کہ مورخین اور محدثین کے درمیان مشہور ہے حضرت علی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے آپ کی دوش مبارک پر چڑھے اور وہ بڑا بت جو کعبہ کے اوپر تھا اس کو نیچے گرادیا اور وہ زمین پر گرتے ہی چکنا چور ہوگیا۔(١)

علامہ امینی نے اس واقعہ کو اہل سنت کے ٤١ محدثین سے نقل کیا ہے (الغدیر، ج٧، ص ١٢١، تذکرة الخواص، اور بحار اور دوسری کتابوں میں منقول کچھ روایات کے مطابق) یہ واقعہ ہجرت سے پہلے کسی سال میں رونما ہوا ہے اور شب میں قریش کی نظروں سے دور انجام پایا ہے اور اس بات کا احتمال پایا جاتا ہے کہ واقعہ دو طرح سے رونما ہوا ہے۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے شانے پر علی کے سوار ہونے کا واقعہ قدیم زمانے سے متعدد شعراء کے اشعار میں بیان ہوا ہے ان میں سے ابن العرندس حلی نویں صدی ہجری کے شاعر نے ایک بہترین قصیدہ کے ضمن میں کہا ہے: و صعود غارب احمد فضل لہ دون القربة و الصحابہ افضلا (الغدیر، ج٧، ص ٨) یعنی علی کا احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شانے پر سوار ہونا ایک ایسی بڑی فضیلت ہے اور ان کے لئے یہ فضیلت قرابتداری اور صحابی ہونے کے علاوہ ہے۔ اسی طرح ابن ابی الحدید نے اپنے ''سبع علویات'' قصائد میں سے ایک قصیدے میں جو کہ فتح مکہ کے موقع کا ہے، کہا ہے کہ:

رغبت بأسمیٰ غارب احدقت به

ملائک یتلون الکتاب المسطرا

بغارب خیر المرسلین و اشرف الأ

نام و ازکیٰ فاعل و طیء الثّریٰ

''قرآن کی تلاوت کرنے والے ملائکہ جس بلندترین دوش مبارک کا احاطہ کئے ہوئے تھے اس پر آپ سوار ہوئے ، جو اس دنیا میں سب سے بہترین ذات گرامی رسولوں میں سب سے بہتر لوگوں میں سب سے زیادہ باعظمت اور مقدس جس نے اس زمین پر قدم رکھا ''(دکتر محمد ابراہیم آیتی بیرجندی، تاریخ پیامبر اسلام، انتشارات دانشگاہ تہران، ص ٥٣٠۔ ٥٢٩).

______________________

(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٥٩؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٨٣٢؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٣٦؛ اسی طرح رجوع کریں، طوسی، امالی (قم: دار الثقافہ، ١٤١٤ھ)، ص ٣٣٦؛ حلبی، السیرة الحلبیہ (بیروت: دارالمعرفہ)، ج٣، ص ٣٠؛ زینی دحلان، السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ (بیروت: دار المعرفہ، ط١، ١٤١٦ھ)، ج١، ص ٣٢٢؛ علی بن موسی بن طاووس، الطرائف فی معرفة مذاہب الطوائف (قم: مطبعة الخیام)، ج١، ص٨١۔ ٨٠؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب (قم: المطبعة العلمیہ)، ج٢، ص ١٣٦۔ ١٣٥؛ جار اللہ زمخشری، تفسیر کشاف، مکتبہ مصطفی البابی الحلبی، ج٢، ص ٢٤٤.

۳۲۸

امام جعفر صادق سے منقول روایت کے مطابق حضرت علی نے جس بت کو توڑا تھا اس کانام ''ہبل'' تھا جس کو پیغمبر کے حکم سے باب بنی شیبہ میںدفن کردیا جو مسجد الحرام کا ایک دروازہ ہے تاکہ لوگ مسجد الحرام میں داخل ہوتے وقت اس کے اوپر سے گزر کر جائیں اور اسی بنا پر اس دروازے سے مسجد الحرام میں داخل ہونا مستحب قرار پایا ہے۔(١)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی طرف سے عام معافی کا اعلان

اگر چہ قریش اور مشرکین مکہ نے آغاز اسلام سے لیکر اب تک مسلمانوں کی دشمنی، مخالفت اور ان پر دباؤ اور ظلم اور تشدد میں کسی قسم کی فروگزاشت نہیں کی تھی اور اس دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس ہر قسم کا انتقام لینے کی قوت اور طاقت تھی اس کے باوجود آپ نے چند لوگوں کے علاوہ کہ جنھوں نے کچھ زیادہ ہی بڑے جرائم کا ارتکاب کیا تھا،(٢) بقیہ سب لوگوں کو عام معافی دینے کا اعلان کر دیا اور فرمایا :

میں اپنے بھائی یوسف کی بات ہی کہوں گا کہ آج تمہارے اوپر کوئی سرزنش نہیں ہے خدا تمہیں معاف کرے اور وہ ارحم الراحمین، سب سے زیادہ مہربان ہے(٣) جاؤ تم لوگ جاؤ، تم لوگ آزاد شدہ ہو۔(٤)

______________________

(١)حر عاملی، وسایل الشیعہ (بیروت: دار احیاء التراث الاسلامی)، ج ٩، ص ٣٢٣، ابواب مقدمات الطواف، باب استحباب دخول المسجد الحرام من باب بنی شیبہ، حدیث ١.

(٢)مورخین نے ان کی تعداد آٹھ سے دس تک لکھی ہے (السیرة النبویہ، ابن ہشام، ج ٤، ص ٥٣ ۔ ٥١؛ المغازی

واقدی، ج٢، ص ٨٢٥، طبقات الکبریٰ ابن سعد، ج٢، ص ١٣٦، البتہ ان میں سے کچھ لوگوں کو معاف کردیا گیا اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا گیا۔

(٣)''لاتثریب علیکم الیوم یغفر اللّٰه لکم و هو ارحم الراحمین ''سورۂ یوسف ، آیت ٩٢.

(٤) حلبی، السیرة الحلبیہ (انسان العیون)، ج٣، ص ٤٩؛ زینی دحلان، السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ، ج٢، ص ٩٨.

۳۲۹

قریش جو ذلت کے ساتھ تسلیم ہوئے تھے اور انھیں حضرت کی طرف سے سخت انتقامی کاروائی کا خدشہ تھا آپ کی اس شرافتمندانہ اور کریمانہ عفو و بخشش سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ رسول خدا نے خانۂ کعبہ کے پاس لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

خداوند عالم نے اول تخلیق سے مکہ کو محترم اور مقدس قرار دیا ہے یہ شہر روز قیامت تک حرم اور مقدس سرزمین ہے کسی مسلمان کو حق نہیں ہے کہ اس سرزمین پر خون ریزی کرے اس کا درخت کاٹے، اس شہر کی حرمت مجھ سے پہلے کسی شخص پر حلال نہیں ہوئی اور نہ میرے بعد کسی پر حلال ہوگی اور میرے لئے بھی صرف اسی وقت (یہاں کے لوگوں پر غصہ کی وجہ سے) حلال ہوئی ہے اور اس کے بعد اس کی وہی صورت حال رہے گی یہ بات حاضرین، غائبین تک پہونچادیں۔(١)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے فتح مکہ کے بعد وہاں کی مسلمان عورتوں سے یہ عہد لیاکہ کسی کو خدا کا شریک نہ بنائیں، چوری نہ کریں، زنا نہ کریں، اپنے بچوں کو قتل نہ کریں، اپنے ناجائز بچوں کو بہتان اور حیلے کے ذریعہ اپنے شوہروں کے سر نہ تھوپیں اور نیک کاموں میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نافرمانی نہ کریں۔(٢)

بعض شہرت یافتہ لوگوں نے جو بعد میں بہت ہی مشہور ہوئے اور کسی عہدے یا مقام تک

______________________

(١)ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٥٨؛ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٥٠؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج ٢، ص ٨٤٤؛ الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ۔

(٢) سید محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ج١٩، ص ٢٤٦۔ یہ عہدنامہ سورۂ ممتحنہ کی آیت نمبر ١٠ ''یا ایہا النبی اذا جاء ک المؤمنات یبایعنک علی ان لا یشرکن باللّٰہ شیئاً و لایسرقن و لایزنین و لایقتلن اولادہن و لایأتین ببھتان یفترینہ بین أیدیہن و أرجلہن و لایعصینک فی معروف فبایعہن و استغفر لہن اللّٰہ ان اللّٰہ غفور رحیم'' کے نازل ہونے کے بعد انجام پایا، اس کو بیعة النساء بھی کہا جاتا ہے۔

۳۳۰

پہونچے انھوں نے بھی فتح مکہ میں اسلام کا اظہار کیا ، جس میں ابوسفیان(١) اور اس کا بیٹا معاویہ(٢) بھی شامل تھا۔

فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں کے سخت اور دشوار گزار حالات کی بنا پر اور فتح مکہ کے بعد اس کی جگہ، امن و سکون اور اطمینان کا ماحول پیدا ہو جانے کی وجہ سے پروردگار عالم نے فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہو جانے والے افراد کو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والے لوگوں سے بہتر اور با عظمت قرار دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ''تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم راہ خدا میں انفاق نہیں کرتے ہو جب کہ آسمان اور زمین کی میراث کا تعلق خدا سے ہے جن لوگوں نے فتح مکہ سے پہلے انفاق اور جہاد کیا ان کا درجہ یقینا ان لوگوں سے زیادہ افضل ہے جنھوں نے بعد میں انفاق اورقتال کیا ہے خدا کا ہر وعدہ نیک ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو پروردگار اس سے بخوبی واقف ہے۔(٣)

فتح مکہ کے آثار اور نتائج

چونکہ مکہ مشرکین بلکہ اسلام مخالف تمام طاقتوں کا سب سے اہم اڈا اور سب سے مضبوط قلعہ اور مورچہ تھا اور مخالفین اسلام کی اصل حمایت اور پشت پناہی یہیں سے ہوتی تھی اور اسی کی بنا پر ان کے حوصلے بلند رہتے تھے۔ اس بنا پر اس شہر کی پسپائی اور اس شہر پر مسلمانوں کا قبضہ تاریخ اسلام میں ایک اہم

______________________

(١)ابن سعد، طبقات الکبریٰ، ج ٢، ص ١٣٥؛ ابن اثیر ، اسد الغابہ (تہران: المکتبة الاسلامیہ، ١٣٣٦)، ج٤، ص ٣٨٥ و ج٥، ص ٢١٦؛ ابن عبد البر، الاستیعاب (در حاشیہ الاصابة) ج٢، ص ٨٥.

(٢) ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٣٨٥؛ زینی دحلان، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٩٦.

(٣)''وما لکم ان لا تنفقوا فی سبیل اللّٰه و لله میراث السمٰوات والارض لایستو منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولٰئک اعظم درجة من الذین انفقوا من بعد وقاتلوا وکلًّا و عد اللّٰه الحسنی واللّٰه بما تعملون خبیر'' سورۂ حدید ، آیت ١٠.

۳۳۱

باب ہے جس کے بعد یہ بالکل مسلم ہوگیا کہ اب یہاں بت پرستی کا کوئی وجود باقی نہیں رہ سکتا۔ دوسری طرف عرب کے دوسرے قبیلے بھی فتح مکہ اور قریش جیسے بڑے قبیلے کے اسلام لانے کے منتظر تھے اورجس وقت مکہ فتح ہوا اور قریش مسلمان ہوگئے تو ہر طرف سے تمام قبائل کے نمائندے یکے بعد دیگرے دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے(١) صرف دو قبیلوں ،ہوازن اور ثقیف کے علاوہ تمام عرب قبائل نے اسلام کے مقابلے میں اطاعت کا اظہار کیا،(٢) جن میں مندرجہ ذیل قبیلوں کے نمائندے شامل تھے:

قشیر بن کعب،(٣) باھلہ،(٤) ثعلبیہ،(٥) صُدا،( ٦) بنی اسد،(٧) بلّی،(٨) عذرة،(٩) ثمالہ،(١٠) اور حدّان(١١) ، ان سب نمائندوں نے پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی خدمت میں پہنچ کر آپ کی اطاعت کا اعلان کردیا۔

______________________

(١) شہاب الدین احمد نویری، نہایة الارب فی فنون الادب، ترجمۂ محمود مہدی دامغانی، (تہران: امیر کبیر، ١٣٦٥) ج ٣، ص ١١.

(٢)حلبی، السیرة الحلبیہ (بیروت: دار المعرفہ)، ج ٣، ص ٦١.

(٣)ابن سعد، طبقات الکبریٰ (بیروت: دار صادر)، ج١، ص ٣٠٣.

(٤)گزشتہ حوالہ، ص ٣٠٧.

(٥)گزشتہ حوالہ، ص ٢٩٨؛ نویری، گزشتہ حوالہ، ص ٣٧.

(٦)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٣٢٦.

(٧)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٩٢؛ نویری، گزشتہ حوالہ، ٣٨.

(٨)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٣٣٠؛ نویری، گزشتہ حوالہ، ٨٩.

(٩)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص٣٣١ ؛ نویری، گزشتہ حوالہ، ٨٣.

(١٠)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٣٥٢؛ نویری، گزشتہ حوالہ، ١٠٣.

(١١)ابن سعد، گزشتہ حوالہ.

۳۳۲

جنگ حنین (ھوازن) اور جنگ طائف کے بعد جو فتح مکہ کے بعدہوئیں ، قبیلۂ ثقیف، جس کی حیثیت طائف میں وہی تھی جو مکہ میں قبیلۂ قریش کو حاصل تھی اس طاقتور قبیلے کے نمائندے بھی رسول اللہ کی خدمت میں پہونچے اور اسلام قبول کرنے کے لئے آپ کے سامنے کچھ شرائط رکھے لیکن آپ نے ان میں سے کوئی ایک شرط بھی قبول نہیں کی جس کے بعد وہ لوگ کسی شرط کے بغیر اسلام لے آئے(١) جو اسلام کی پیش رفت کے لئے ایک بڑی کامیابی تھی۔

جنگ حنین ٭

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م فتح مکہ کے بعد (جو بیس رمضان المبارک( ٢) کو حاصل ہوئی) دو ہفتہ تک اسی شہر میں قیام پذیر رہے۔(٣) اور اس شہر کی صورت حال اور حالات کو درست کیا اور اپنے منادی کے ذریعے یہ اعلان کرایا کہ جس شخص کے گھر میں بھی کوئی بت ہو وہ اس کو توڑ دے۔(٤) اس کے علاوہ آپ نے کچھ لوگوں کو مکہ اور اس کے اطراف کے بتوں اور بتکدوں کو توڑ نے کے لئے مامور کیا۔(٥)

______________________

(١)واقدی، المغازی ، ج١، ص ٩٦٦.

٭ذو المجاز کے قریب ایک درہ جس کا نام حنین تھا۔ یا طائف کے قریب ایک پانی کی جگہ جس کا فاصلہ مکہ تک تین رات تک کا تھا۔(المواہب اللدنیہ، ج١، ص٣٢٨.)

(٢) واقدی، المغازی، تحقیق مارسدن جونس (بیروت: مؤسسة الأعلمی للمطبوعات)، ج٣، ص ٨٨٩؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٣، ص ١٢٥.

(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ، طبری، گزشتہ حوالہ؛ قسطلانی، المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ط ١، ١٤١٦ھ) ج١، ص ٢٢٦.

(٤)ابن واضح، تاریخ، یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.)، ج٢، ص ٥٠.

(٥) قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٧؛ نویری، نہایة الارب فی فنون الادب، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی (تہران: امیر کبیر، ط١، ١٣٦٥) ج٢، ص ٢٨١۔ ٢٨٠؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ (بیروت: دار صادر)، ص ١٤٧۔ ١٤٥۔

۳۳۳

اسی دوران رسول خدا کو یہ اطلاع دی گئی کہ قبیلہ ہوازن، قبائل ثقیف ، نصر ، جشم، سعد بن بکر اور قبیلۂ بنی ہلال کے ایک گروہ کی پشت پناہی میں، مالک بن عوف نصری کی سرکردگی میں مکہ کے اوپر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں،(١) جب تحقیق کی گئی تو یہ اطلاع بالکل صحیح نکلی کہ مذکورہ بالا قبائل پر مشتمل ایک بڑی فوج مکہ پر حملہ کرنے کے ارادے سے اوطاس نامی سرزمین پر پڑاؤ ڈال چکی ہے۔ رسول خدا نے مزید تحقیق کے لئے اپنے ایک آدمی کو بھیجا اس نے خفیہ تحقیق کی جس کے نتیجے میں مکہ کی طرف ہوازن کی فوج کی پیش رفت مسلم ہوگئی۔(٢)

اس وقت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ فیصلہ کیا کہ فوجی حکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ ترکیب اپنائی جائے کہ دشمن کو حملے کا موقع ہی نہ ملے اسی لئے آپ نے بڑی سرعت کے ساتھ عتاب بن اسید کو مکہ کا حکمراں قرار دیا(٣) اور بارہ ہزار کی فوج (جن میں دس ہزار آپ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے اور دو ہزار مکہ میں تازہ مسلمان ہونے والے شامل تھے)،(٤) لیکر دشمن کی فوج کی طرف چل پڑے اور قبیلۂ بنی سلیم کو اپنی فوج کا مقدمة الجیش قرار دیا۔(٥) راستے میں مسلمانوں کی فوج کی کثرت کو دیکھ کر بعض مسلمانوں کو غرور ہو رہا تھا اور وہ کہہ رہے تھے کہ اب ہم فوج کی قلت کی بنا پر نہیں ہاریں گے(٦) ۔ لیکن عملاً بات اس کے برعکس ثابت ہوئی چنانچہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں اس امر کی صاف یاد دہانی کرائی ہے(٧) کہ اس جنگ میں افراد کی کثرت اور فوجیوں کی زیادتی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔

______________________

(١) ابن ہشام، سیرة النبویہ (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلبی )، ج٤، ص ٨٠؛ تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٣، ص ١٢٦.

(٢) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٨٢؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ١٢٧؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٨٩٣۔

(٣)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٨٨٩؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ١٢٧.

(٤) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٨٣؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ١٢٧؛ ابن سعد طبقات الکبریٰ (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص ١٥٠؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ط ٣، المکتبة الاسلامیہ، ص ١١٣؛ ابن واضح، ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٥٢

(٥)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٨٩٣؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٠.

(٦)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٨٨٩؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٠؛ طبرسی، گزشتہ حوالہ، ص ١١٣؛ شیخ مفید، الارشاد (قم: مکتبة بصیرتی)، ص ٧٤.

(٧) سورۂ توبہ، آیت ٩.

۳۳۴

آغاز جنگ میں مسلمانوں کی شکست اور عقب نشینی

اسلامی فوج صبح کی تاریکی میں وادی حنین پہونچی، وادی حنین میں پہنچتے ہی ہوازن کے جنگجو اور سپاہی جو پہلے ہی پتھروں کے پیچھے شگافوں اور درّوںکے اندر چھپے ہوئے تھے اور وہاں سے مورچے سنبھال رکھے تھے انھوں نے اچانک مسلمانوں پر دھاوا بول دیا،(١) دشمن کا اچانک یہ حملہ اتنا کاری تھا کہ مسلمان بالکل وحشت زدہ ہوکر رہ گئے۔ پہلے قبیلۂ بنی سلیم نے جو مقدمة الجیش تھا عقب نشینی اور راہ فرار اختیار کی ،(٢) اس کے بعد دوسرے لوگ بھی فرار کرنے لگے۔ اور نوبت یہاں تک پہونچی کہ صرف حضرت علی دوسرے چند لوگوں کے ساتھ رسول خدا کے پاس باقی رہ گئے اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا(٣) شیخ مفید کی نقل کے مطابق صرف بنی ہاشم سے نو افراد رسول خدا کے پاس باقی رہ گئے تھے جن میں ایک حضرت علی تھے، عباس بن مطلب آپ کے چچا آپ کے دائیں طرف اور فضل بن عباس رسول خدا کے بائیں طرف تھے اور حضرت علی آپ کے روبرو تلوار سے جہاد کر رہے تھے۔(٤)

مسلمانوں کی عالیشان فتح

اتنے مسلمانوں کے فرار کر جانے کے باوجود پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م صبر و استقامت، شجاعت اور بہادری کا بہترین نمونہ تھے چنانچہ آپ کے اندر کسی قسم کا ضعف و تزلزل یا گھبراہٹ پیدا نہ ہوئی اور آپ سکون اوراطمینان کے ساتھ میدان جنگ میں ڈٹے رہے اور فرار ہونے والوں سے فرمایا: اے لوگو! تم لوگ

______________________

(١) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٨٥؛ واقدی، گزشتہ ، ص ٨٩٥؛ طبری ، گزشتہ ، ص ١٢٨؛ طبرسی، اعلام الوریٰ، ص ١١٤؛ مجلسی، بحار الانوار، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ١٣٨٤ھ) ج٢١، ص ١٦٩؛ شیخ مفید، گزشتہ ، ص ٧٥۔

(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٨٩٧؛ ابن سعد ، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٠.

(٣)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٠٠؛ ابن واضح ، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٥٢.

(٤)الارشاد، ص ٧٤، اس جنگ میں حضرت علی کی شجاعت کے متعلق، رجوع کریں : امالی، شیخ طوسی (قم: دارالثقافہ، ط ١، ١٤١٤ھ)، ص ٥٧٥۔ ٥٧٤.

۳۳۵

کہاں بھاگ رہے ہو؟ واپس آؤ کہ میں پیغمبر خدا محمد بن عبد اللہ ہوں اور اپنے چچا جناب عباس (جو اس وقت آپ کے ساتھ میدان جنگ میں بنی ہاشم کے بچے افراد میں سے تھے اوربلند آواز رکھتے تھے) سے فرمایا کہ لوگوں کو آواز دو اور پکارو اور انھوں نے مجھ سے جو عہد و پیمان اور بیعت کی ہے اس کو انھیں یاد دلاؤ، جناب عباس نے ان لوگوں کو بلند آواز سے پکار کر کہا: ''اے اہل بیعت شجرہ! اے اصحاب سورہ بقرہ! تم کہاں فرار کر رہے ہو؟ تم نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جو عہد اور پیمان کیا تھا اس کو یاد کرو''(١)

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی استقامت آپ کی ثابت قدمی اور پائیداری نیز مسلمانوں کو باربار واپسی کی دعوت دینے کا یہ اثر ہوا کہ بھاگ جانے والے مسلمان آہستہ آہستہ واپس پلٹنا شروع ہوئے اور رسول خدا کے پرچم تلے دوبارہ دشمن کے مقابلے میں ڈٹ گئے، کچھ دیر نہ گزری تھی کہ دشمن کی فوج کا سپہ سالار اورعلمبردار حضرت علی کے ہاتھوں مارا گیا(٢) اور خداوند متعال کی غیبی امداد(٣) کے ذریعہ ہوازن کی فوج کو بہت سخت شکست کا سامنا کرنا پڑا اورچار ہزار اسیر، بارہ ہزار اونٹ اور بہت زیادہ مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔(٤) جنگ کے اختتام پر جن قبائل کے سردار مسلمان ہوگئے تھے ان کی خواہش اور درخواست کی بنا پر پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اسیروں کو آزاد کردیا۔(٥) اس جنگ کے شہداء کی تعداد چار افراد ذکر ہوئی ہے۔(٦)

______________________

(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ١٥١؛ ابن واضح ، تاریخ یعقوبی ، ج٢، ص ٥٢؛ مجلسی، بحار الانوار ، ج٢١، ص ١٥٠۔

(٢) ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٥٢۔

(٣) سورۂ توبہ، آیت ٢٦۔

(٤) طبرسی، اعلام الوریٰ، ج٢، ص ١١٦،کے مطابق اسیروں کی تعداد اور مال غنیمت کی مقدار چھ ہزار اسیر اور چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار سے زیادہ گوسفند اور چارہزار چاندی، (طبقات الکبریٰ، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص ١٥٢.)

(٥) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٥۔ ١٥٣؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص ١٣٢ اور ١٣٥۔

(٦) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ١٠١؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ١٥٢؛ واقدی،گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٩؛ ابن واضح، گزشتہ حوالہ، ص ٥٢؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ص١٣٢۔

۳۳۶

خداوند عالم نے اس جنگ میں مسلمانوں کی ابتدائی شکست اور آخر میں امداد غیبی کے سہارے ان کی بہترین کامیابی کا تذکرہ اس طرح فرمایا ہے:

''پروردگار عالم نے بہت سارے مواقع پر تمہاری مدد کی ہے اور حنین کے دن بھی کہ جب تمہاری کثرت نے تم کو غرور میں مبتلا کردیا تھا لیکن تم سے اس نے کوئی خطرہ دور نہیں کیا اور زمین اپنی تمام وسعتوں سمیت تمہارے اوپر تنگ ہوگئی اور تم دشمن کو پیٹھ دکھا کر فرار کر گئے''(١) تب پروردگار عالم نے اپنے رسول اور مومنین کے اوپر اپنا سکون نازل کیا اور ایسے لشکر نازل کئے جن کو تم نے نہیں دیکھا اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا تھا ان پر عذاب نازل کیا اور کافرین کی سزا یہی تھی''۔

جنگ تبوک٭

جنگ موتہ کے اسباب اور عوامل پر غور اور فکر کے درمیان ہم اس سے واقف ہوچکے ہیں کہ شہنشاہ روم کو اس تازہ اور جدید اسلامی حکومت سے کس قدر دشمنی تھی اور آپ نے یہ بھی ملاحظہ فرمایا کہ رومی فوج سے مسلمانوں کی فوج کی پہلی مڈبھیڑ میں مسلمانوں کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا، اس زمانے میں روم اور

____________________

(١) سورۂ توبہ، آیت ٢٦۔ ٢٥۔

٭تبوک مدینہ اور دمشق کے بالکل درمیان ایک مشہور و معروف جگہ ہے (قسطلانی، المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ١٣١٦ھ.ق)، ج١، ص٣٤٦؛ زینی دحلان، السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ (بیروت: دار المعرفہ، ج٢، ص١٢٥) مدینہ سے اس کا فاصلہ نوے فرسخ ہے اور یہ مسافت بارہ (١٢) رات میں طے ہوتی تھی۔ (مسعودی، التنبیہ والاشراف (قاہرہ: دار الصاوی للطبع والنشر، ص٢٣٥) اوراس زمانہ میں جزیرہ نمائے عربستان کا سرحدی علاقہ تھا جو روم کی سرحد سے شام میں ملتا تھا آج تبوک سعودی عرب کا ایک شہر ہے جو اردن کی سرحد کے نزدیک ہے اور مدینہ سے اس کا فاصلہ تقریباً چھ سو کلو میٹر ہے.

۳۳۷

ایران دو بڑی طاقتیں تھیں اور ان میں آپس میں بہت طویل جنگیں بھی ہوچکی تھیں لیکن اس کے باوجود ان کو یہ ہرگز برداشت نہیں تھا کہ ان کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی تیسری طاقت سر ابھار سکے! اس لئے یہ فطری بات تھی کہ فتح مکہ میں مسلمانوں کی بے مثال کامیابی اور جنگ حنین میں ان کے ہاتھوں قبیلۂ ھوازن کی شکست ، رومیوں کے لئے (جو جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں شام کے علاقہ میں واقع تھا) ایک اچھی خبر نہ تھی، ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے اور جنگ موتہ میں رومیوں کی کامیابی کو نظر میں رکھتے ہوئے شہنشاہ روم کی طرف سے فوجی نقل و حرکت ایک فطری بات تھی ٩ھ میں مدینہ اور شام کے درمیان تجارت کرنے والے قافلوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ اطلاع دی کہ شہنشائے روم ہرقُل مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہے۔(١)

حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس خبر کو سنجیدگی سے سنا اور اس سے مقابلہ کے لئے تیاریاں شروع کردیں کیونکہ شہنشاہ روم اپنی سیاسی اور فوجی قدرت اور طاقت اور مسلمانوں سے سابقہ دشمنی کی بنا پر اسلام اور مسلمانوں کا بدترین اور خطرناک ترین دشمن تصور کیا جاتا تھا۔(٢)

اطلاعات سے پتہ چلا تھا کہ ہرقل نے کچھ عرب قبائل جیسے لخم، حزام ، عملہ اور غسان کو بھی اپنی اس نقل و حرکت میں اپنے ساتھ کر رکھا ہے اور اس کے لشکر کا مقدمة الجیش عنوان سے بلقاء نامی علاقہ تک پیش روی کر کے آگے بڑھ آیا تھا۔(٣) اور ہر قل نے خود حمص کے علاقہ میں پڑاؤ ڈال رکھا ہے۔(٤)

______________________

(١) واقدی، المغازی، تحقیق: مارسڈن جانس (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات)، ج٣، ص٩٩٠؛ ابن سعد، طبقات الکبری، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص١٦٥؛ قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ص ٣٤٦؛ حلبی، السیرة الحلبیہ (بیروت: دار المعرفہ)، ج٣، ص٩٩۔ یہ گزارش نبطی تاجروں کے ذریعے دی گئی تھی جو تیل اور سفید آٹا مدینہ لے جاتے تھے۔ (واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩٠۔ ٩٨٩۔

(٢)واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩٠۔

(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ، ابن سعد، گزشتہ حوالہ۔

(٤)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٦٦۔

۳۳۸

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک یہ اطلاع اس وقت پہونچی جب گرمی اپنی شباب پر تھی،(١) فصل کاٹنے اور پھلوں کے چنّے کا زمانہ آچکا تھا لوگ بہت تنگی میں تھے اور اپنے گھروں اور کاروبار زندگی کو ترک کرنا ان کے لئے بہت دشوار تھا۔(٢) پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے سب کی رضا کارانہ شرکت کا اعلان کردیا اور مکہ کے علاوہ عرب کے دوسرے بادیہ نشین قبیلوں سے مدد طلب کی اور مسلمانوں سے یہ خواہش بھی کی کہ جنگ کے وسائل او راخراجات پورا کرنے میں مدد کریں،(٣) اس سے پہلے حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا طریقۂ کار یہ تھا کہ عام طور پر کسی بھی جنگ کے لئے نکلتے وقت اپنے مقصد اور اپنی منزل کا اعلان نہیں کرتے تھے لیکن اس بار آپ نے صاف طور پر یہ اعلان کردیا کہ ہماری منزل اور ہمارا مقصد تبوک ہے تاکہ لوگ اس طویل اور مشکل سفر کی زحمتوں کو نظر میں رکھ کر اس کے لئے تیاری کریں۔(٤)

ایسے نامناسب وقت اور حالات کے باوجود مسلمانوں نے بہت ہی اخلاص، لگن، انتہائی جوش اور جذبہ کے ساتھ آپ کی مدد کی۔(٥) تقریباً تیس ہزار(٦) کی فوج دس ہزار(٧) گھوڑوں، بارہ ہزار

______________________

(١) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، قسطلانی، گزشتہ حوالہ؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٣، ١٤٢۔

(٢) واقدی، گزشتہ حوالہ، قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٩٢؛ طبری، گزشتہ حوالہ؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ (قاہرہ: مکتبة مصطفی البابی الحلبی، ١٩٥٥ھ.ق)، ج٤، ١٥٩۔

(٣) ابن سعد، گزشتہ حوالہ؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٩١۔ ٩٩٠؛ قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٣٤٧؛ حلبی، گزشتہ حوالہ؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ١٦٠؛ طبرسی، اعلان الوری، دار الکتب الاسلامیہ ص١٢٢۔

(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٦٥ اور ١٦٧؛ واقدی، گزشتہ حوالہ؛ قسطلانی، ص٣٤٦؛ طبرسی، گزشتہ حوالہ؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص١٥٩۔

(٥) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩١؛ طبری، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص١٤٢۔

(٦)ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٦٦؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩٦ و ١٠٠٢؛ قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ص٣٤٩؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص١٠٢

(٧) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص١٠٠٢؛ ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٦٦۔

۳۳۹

اونٹوں(١) کے ساتھ روانگی کے لئے تیار ہوگئی اس کے برخلاف منافقوں نے نہ صرف یہ کہ کسی عذر کے بغیر میدان جنگ کی طرف حرکت نہیں کی(٢) ، بلکہ انھوں نے دوسرے لوگوں کو بھی مختلف بہانوں، جیسے گرمی زیادہ ہے وغیرہ وغیرہ میدان میں جانے سے روک دیا۔(٣) جن کی مذمت میں قرآن کی آیت بھی نازل ہوئی۔(٤)

بعض مسلمان کسی معقول عذر کے بغیر ، اسلامی لشکر کے ساتھ نہیں گئے ان کو قرآن کریم نے متخلفین (اپنی جگہ پر رہ جانے والا) قرار دے کر ان کی مذمت فرمائی ہے۔(٥) کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کو واقعاً جہاد میں جانے کا بے پناہ شوق تھا لیکن ان کے پاس جنگی سازو سامان نہیں تھا اس کی بنا پر وہ جنگ میں جانے سے محروم رہ گئے۔(٦)

مدینہ میں حضرت علی کی جانشینی

مدینہ کے حالات بھی کچھ کم حساس نہ تھے جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اسلامی فوج کو بہت دور دراز علاقے کا سفر درپیش تھا اور دوسری طرف منافقین، اسلام کا اظہار کرنے کے باوجود، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہمراہی سے سرپیچی کرچکے تھے اور عبد اللہ بن ابی جو منافقوں کا سرغنہ تھا اس نے کافی لوگوں کو اپنے گرد اکٹھاکر رکھا تھا۔(٧)

______________________

(١) مسعودی، النتبیہ والاشراف (قاہرہ: دارالصاوی للطبع والنشر)، ص٢٣٥۔

(٢) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٦٦۔ ١٦٥؛ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩٥۔

(٣) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص٩٩٣؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص ١٠٦؛ قسطلانی، گزشتہ حوالہ، ص٣٤٢۔

(٤)سورۂ توبہ، آیت ٨١۔

(٥) سورۂ توبہ، آیت ٨١۔

(٦) سورۂ توبہ، آیت ٩٣۔ ٨٧۔

(٧) واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٩٥؛ ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ١٦٢۔

۳۴۰