تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 157882
ڈاؤنلوڈ: 4715

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157882 / ڈاؤنلوڈ: 4715
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

اہل سنت و الجماعت کے عظیم محدث،'' مسلم''، سعد وقاص سے نقل کرتے ہیں کہ ان کا بیان ہے کہ جس روز یہ آیت ''فقل تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم'' نازل ہوئی ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی اور فاطمہ اور حسن اور حسین کو بلایا اور فرمایا: ''خدایا! یہ میرے اہل بیت ہیں''(١)

زمخشری نے واقعۂ مباہلہ اور روایت عائشہ کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ واقعہ اصحاب کساء کی سب سے طاقتور دلیل ہے اور پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی حقانیت کا سب سے واضح اور روشن برہان ہے۔(٢)

قاضی بیضاوی نے بھی واقعۂ مباہلہ کو نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ واقعہ پیغمبر کی نبوت کی حقانیت اور آپ کے ساتھ آنے والے آپ کے اہل بیت کی فضیلت کی بہترین دلیل ہے۔(٣)

سید بن طاوؤس نے کتاب سعد السعود میں تحریر کیا ہے کہ ''محمد بن عباس بن مروان نے اپنی کتاب ''مانزل من القرآن فی النبی و اہل بیتہ'' میں حدیث مباہلہ کو صحابہ اور غیر صحابہ کی ٥١ سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے''(٤)

اس بحث کے اختتام پر صرف یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ واقعۂ مباہلہ کی تاریخ، سن اور مہینہ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے(٥) کیونکہ اس مقام پر اس کی تحقیق کی گنجائش نہیں ہے لہٰذا ہم نے مورخین کے طریقۂ کار اور سنت کے مطابق اس کو ١٠ھ کے واقعات میں ذکر کردیا ہے۔

______________________

(١) صحیح مسلم، بشرح النووی، ج١٥، ص١٧٦۔

(٢)تفسیر الکشاف، ج١، ص١٩٣۔

(٣)انوار التنزیل، طبع قدیم، رحلی، ص٧٤۔

(٤)مجلسی، بحار الانوار، ج٢١، ص٣٥٠۔

(٥)اس کے متعلق مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: مکاتیب الرسول، ج١، ص١٧٩ و فروغ ابدیت،ط٥، ج٢، ص٤٤٥۔ ٤٤١۔

٭یہ وہ جگہ تھی جہاں سے مختلف ممالک کے حاجیوںکے راستے الگ ہو جایا کرتے تھے۔ مصر عراق اور مدینے کا راستہ وہیں سے جدا ہوتا تھا۔

۳۶۱

واقعۂ غدیر اور مستقبل کے رہنما کا تعارف

حجة الوداع سے واپسی کے موقع پر ١٨ ذی الحجہ کے دن حجفہ سے تین میل کے فاصلہ پر سرزمین ''غدیر خم'' ٭میں آیۂ (یا ایہا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ...)(١) کے نزول کے بعد پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے بے آب و گیاہ میدان میں شدید گرمی کے باوجود ایک لاکھ حاجیوں کے کاروان کو رکنے کا حکم دیا اور نماز ظہر ادا کرنے کے بعد ایک بلند مقام پر تشریف لے گئے اور ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا: اس میں پہلے تو آپ نے اپنی عمر کے تمام ہونے کی اطلاع دی اور اس کے بعد اپنی تبلیغ او ررسالت سے متعلق مسلمانوں کے خیالات معلوم کئے تو سب نے ایک زبان ہو کر آپ کی تبلیغ، ہدایت اور ارشاد و راہنمائی کی تعریف کی۔ اس کے بعد آپ نے کتاب و عترت یعنی ثقلین کے بارے میں نصیحت فرمائی اور یہ تاکید کی کہ مسلمان دونوں سے متمسک رہیں تاکہ گمراہ نہ ہوں اور آپ نے مزید فرمایا کہ خداوند عالم نے ان کو یہ اطلاع دی ہے کہ یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے لہٰذا لوگ ان سے آگے نہ بڑھیں اور نہ ہی ان سے پیچھے رہ جائیں۔

اس موقع پر آپنے حضرت علی کا ہاتھ بلند کیا اور ان کو مسلمانوں کے آئندہ رہبر اور خلیفہ کے عنوان سے پہچنواتے ہوئے یہ فرمایا: خداوند عالم میرا مولا ہے اور میں تمام مومنین کامولاہوں(اور ان کے اوپر ان سے زیادہ اولویت رکھتا ہوں) اور جس کا میں مولا ہوں علی اس کے مولا ہیں۔ پروردگارا! تو اس سے محبت فرما جو علی سے محبت کرے اس کو دشمن رکھنا جو علی سے دشمنی رکھے۔ خدایا! علی کے مددگاروں کی مدد فرما ان کے دشمنوں کو خوار اورذلیل فرما، پروردگارا! علی کو حق کا محور قرار دے۔

______________________

(١) اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پہنچا دیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیاگیاہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کونہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ، اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔ (سورۂ مائدہ، آیت ٦٧)

۳۶۲

اسی وقت یہ آیۂ قرآن نازل ہوئی:( الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً... ) (١) جس میں دین کی تکمیل اور ہدایت کی نعمت کے اتمام کا اعلان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں حضرت علی کے خلیفہ منسوب ہو جانے کے بعد کردیا گیااس کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب نے حضرت علی کو اس منصب کی مبارکبادی۔(٢)

یہ واقعۂ غدیر کا ایک مختصر سا خاکہ ہے اور چونکہ یہ اہم واقعہ اتنا مشہور اور متواتر ہے جس کی وجہ سے ہم نے اس پورے واقعہ کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی ،کیونکہ دوسرے اسلامی محققین اور دانشوروں نے اس واقعہ کے مختلف گوشوں اور پہلوؤں کو بیان کیاہے خاص طور سے علامہ امینی نے اپنی بیش قیمت اور اہم کتاب الغدیر میں اس واقعہ کی سند اور متن او ردلالت پر ہر اعتبار سے بحث کی ہے اور اس واقعہ کے تمام اہم پہلوؤں کے بارے میں تحقیق اور جستجو فرمائی ہے لہٰذا اسی بنا پر ہم اس مقام پر صرف چند نکتوں کو بطور یاد دہانی ذکر کر کے چند اہم سوالات کے جوابات دینا چاہتے ہیں۔

١۔ واقعۂ غدیر، حضرت علی کی ولایت اور امامت کی اہم دلیل اور سند ہے او رزمانہ کی ترتیب کے اعتبار سے یہ آخری سند ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کی امامت کی صرف یہی ایک تنہا دلیل ہے کیونکہ جیسا کہ آپ نے اس کتاب میں بھی ملاحظہ فرمایا کہ امت کی رہبری اور امامت کی اہمیت کے پیش نظر، پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے بعثت کے ابتدائی ایام میں ہی اپنے اعزاء اور اقرباء کو اپنی رسالت اور اسلام کی طرف دعوت دیتے وقت واقعۂ ذوالعشیرہ میں اپ کی امامت کا بھی تذکرہ کیاتھااور اس کے بعد بھی آپ مختلف مواقع پر (جیسا کہ تبوک میں) ا س بات کی مسلسل یاد دہانی کراتے رہے۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانشینی، ایک خدائی مسئلہ ہے اس کے بارے میں بھی آپ پہلے یہ پڑھ چکے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علنی دعوت کے ابتدائی سالوں میں جب مختلف قبائل کو اسلام کی دعوت دی تو قبیلۂ بنی عامر بن

______________________

(١) آج کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیاہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیاہے۔ (سورۂ مائدہ، آیت ٣)

(٢)علامہ امینی، الغدیر فی الکتاب والسنہ و الادب (بیروت: دار الکتاب العربیہ)، ج١، ص١١۔ ١٠۔

۳۶۳

صعصہ کے سردار کے جواب میں آپ نے فرمایا: '' میری جانشینی خدا سے مربوط ہے اور وہ اس کو جہاں چاہے گا قرار دیدے گا''(١)

اپنی جانشینی سے متعلق پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی تبلیغ کے دوران جو طریقۂ کار اپنایاتھااورایک ہی شخصیت پر آپ کی نگاہ مسلسل ٹکی ہوئی تھی اگر ہم اس کو انصاف کے ساتھ دیکھیں نیز اگر ہم علمی برتری، ایثار و فداکاری، لیاقت وشایستگی اور تجربہ کے لحاظ سے اصحاب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان غور سے دیکھیں اور ان تمام باتوں اور فضیلتوں کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانشینی کا معیار قرار دیں توہم اس نتیجہ تک پہونچیں گے کہ حضرت علی ہر لحاظ سے بے مثال اور لاجواب نظر آتے ہیں کیونکہ پیغمبر کھلم کھلا اور علی الاعلان آپ کو اپنی جانشینی کے لئے پیش کرنے پر تاکید فرماتے تھے اور ہر موقع اور مناسبت پر کسی نہ کسی طرح آپ کی برتری، فضیلت اورافضلیت کو لوگوں کے گوش گزار کرتے تھے اوران تمام فضائل اور کمالات میں پیغمبر کا کوئی صحابی بھی حضرت علی کے ہم پلہ نہیں تھا۔

٢۔ جیسا کہ اس بارے میں اشارہ کیا گیا ہے کہ حدیث غدیر کی شہرت اور تواتر کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں پایا جاتا اور علماء اہل سنت کے ایک گروہ نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے۔٭

______________________

(١) الامر للّٰہ یضعہ حیث یشائ۔

٭وہ لوگ حضرت علی کی امامت سے متعلق اس کی دلالت کی بارے میں شک و شبہ پیدا کرتے ہیں کہ جس کی وضاحت ہم پیش کریں گے۔ مثلاً ١٣٧١.ش، میں ترکی کے شہر استانبول میں شیعہ شناسی سے متعلق ایک بین الاقوامی کانفرس منعقد ہوئی تھی جس میں اسلامی ممالک کے علماء اوردانشوروں نے شرکت کی تھی اور اس میں ایک وفد ایران کے برجستہ علماء اور محققین پر مشتمل تھا اسی کانفرنس میں کسی مقرر نے جب حدیث غدیر کا انکار کیا تو سوریہ یونیورسٹی کے مشہور اور معروف دانشمند ڈاکٹر محمد سعید رمضان بوتی نے یہ کہا تھا کہ حدیث غدیر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے یہ آپ سے نقل ہوئی ہے اس میں کسی قسم کی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ البتہ یہ شیعوںکے مدعا پر دلالت نہیں کرتی... البتہ اگرچہ اس کے بعد اس جملہ کا جواب بھی، ایران کے محقق نے اس طرح سے پیش کردیا کہ ''یہ شیعہ عقیدہ پر دلالت کرتی ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں: ''منطق شیعہ ھا در کنکرھا و مجامع علمی'' آیة اللہ سبحانی، انتشارات مکتب اسلام ط١، ١٣٧٦۔ش، ص ٢١، ٢٧۔

۳۶۴

جیسا کہ علامہ امینی نے الغدیر میں یہ ثابت کیا ہے کہ اس اہم تاریخی واقعہ کو ایک سو دس (١١٠) صحابیوں اور ٨٤ تابعیوں نے نقل کیاہے اور ٣٦٠ علماء و محققین اہل سنت نے اس حدیث کواپنی کتابوں میں ذکر کیا اور ان میں سے کچھ لوگوں نے اس کی سند کی صحت کا بھی اعتراف کیا ہے(١) اسلامی تاریخ کے اہم واقعات میں سے شاید ہی کوئی واقعہ ہو جس کی شہرت اور سند اتنی محکم اور مستحکم ہو۔

البتہ واقعۂ غدیر کو اکثر محدثین نے نقل کیاہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ (مختلف اسباب کی بنا پر جو اہل علم اور تحقیق سے پوشیدہ نہیں ہے) مورخین نے اس واقعہ کو ہضم کرلیا ہے صرف مورخین کے درمیان یعقوبی نے اس کو حجة الوداع کے بعدمختصر طور پر ذکر کیا ہے۔(٢)

______________________

(١) الغدیر، ج١، ص١٥١۔ ١٤۔

(٢)و خرج صلی اللّٰه علیه و آله و سلم لیلاً منصرفاً الی المدینة فصار الی موضع بالقرب من الجحفة یقال له ''غدیرخم'' لثمانیة عشر لیلة من ذی الحجة و قام خطیبا'ٔو أخذ بید علی بن ابی طالب علیه السلام فقال:ألست اولی بالمؤمنین من أنفسهم؟ قالوا: بلی یا رسول اللّٰه، قال: فمن کنت مولاه فعلی مولاه، اللّٰهم و ال من والاه و عاد من عاداه ۔ (ج٢، ص١٠٢)

مسعودی نے (مشہور کے خلاف) اس کو حدیبیہ کے سفر سے پلٹتے وقت ذکر کیا ہے، وہ یوں رقمطراز ہے:

''... و فی منصرفہ عن الحدیبیة قال لامیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ بغدیر خم: من کنت مولاہ فعلی مولاہ و ذلک فی الیوم الثامن عشر من ذی الحجہ...'' (التنبیہ و الاشراف (قاہرہ: دار الصاوی للطبع و النشر و التألیف)، ص٢٢١)

وہ مروج الذہب میں حضرت علی کے برجستہ فضائل کو شمار کرتے ہوئے حدیث ولایت کواختصار کے ساتھ یوں نقل کرتے ہیں:

''الاشیاء التی استحق بها اصحاب رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و آله و سلم الفضل هی: السبق الی الایمان، والهجرة، والنصرة لرسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و آله و سلم، والقربی منه، والقناعةو بذل النفس له، والعلم بالکتاب و التنزیل، والجهاد فی سبیل اللّٰه، والورع، والزهد، والقضائ، والحکم، والفقه، والعلم، و کل ذلک لعلی علیه السلام، منه النصیب الاوفر، و الحظ الأکبر، الی ما ینفرد به من قول رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حین آخی بین اصحابه،: ''انت أخی''وهو صلی اللّٰه علیه و آله و سلم لاضد له و لاند. و قوله صلوات اللّٰه علیه : ''انت منی بمنزلة هارون من موسیٰ الا انه لانبی بعدی'' و قوله علیه الصلاة والسلام : ''من کنت مولاه فعلی مولا، اللّٰهم وال من والاه و عاد من عاداه...'' (مروج الذهب، (بیروت: دار الاندلس، ط١، ١٩٦٥)، تحقیق: یوسف اسعد داغر، ج٢، ص٤٢٥.)

۳۶۵

اگر چہ تاریخ طبری میں جن کا طریقۂ کار ہی یہ ہے کہ وہ ہر واقعہ کی تفصیل اور گہرائی تک جاتے ہیں لیکن توقع کے برخلاف اس واقعہ کوذکر ہی نہیںکیا ،اگر چہ انھوں نے غدیر کے اثبات کے لئے ایک مستقل کتاب ''کتاب الولایة''(١) کے نام سے تالیف کی کہ جوآٹھویں صدی ہجری تک موجودتھی اور نجاشی(٢) {متوفی ٥٤٠ھ} اور شیخ طوسی(٣) { متوفی ٤٦٠۔ ٣٨٥ ہجری قمری} نے اس کتاب کا تذکرہ کیاہے اور اس کتاب تک اپنی سند کو بھی ذکر کیا ہے۔

______________________

(١)ابن شہر آشوب، معالم العلماء (نجف: المطبعة الحیدریہ، ١٣٨٠ھ.ق)، ص١٠٦؛ ابن طاووس، الطرائف فی معرفة مذاہب الطوائف (قم: مطبعة الخیام، ١٤٠٠ھ.ق)، یہ بطریق، عمدة عیون صحاح الاخبار، تحقیق: مالک المحمودی و ابراہیم البھادری (قم: ١٤١٢ھ.ق)، ج١، ص١٥٧۔

اس کتاب کے دوسرے نام بھی ذکر ہوئے ہیں۔ جیسے: کتاب الفضائل، حدیث الولایہ اور کتاب غدیر خم، گویا انمیں سے کچھ عنوان ایسے ہیں جو کتاب کے مطالب کے لحاظ سے کتاب شناس لوگوں کے ذریعہ سے رکھے گئے ہیں۔ اور کچھ دوسرے نام شاید کتاب کے ایک خاص حصہ کا ہے جو مستقل طور پر شائع ہوا ہے جیسا کہ بعد کے حاشیہ میں آیا ہے نجاشی نے اس کو ''الرد علی الحرقوصیہ'' کے نام ذکر کیاہے۔ ''حرقوص بن زہیر'' خوارج کاایک سردار تھا۔ گویااس نام گزاری کا مقصد یہ تھا کہ مخالفین ولایت علی کو ناصبی اور خارجی بتائیں۔

(٢)محمد بن جریر ابوجعفر الطبری عامی لہ کتاب الرد علی الحرقوصیة ذکر طرق خبر یوم الغدیراخبرنا القاضی ابواسحاق ابراہیم بن مخلد قال حدثنا ابی قال حدثنا محمد بن جریر بکتابہ ''الرد علی الحرقوصیة'' (نجاشی، فہرست مصنفی الشیعہ، قم: مکتبة الداوری، ص٢٢٥؛ ) ''سید ابن طاووس'' نے بھی کتاب الاقبال ، ج٢، ص٢٣٩ ، میں اسی نام سے ذکر کیا ہے۔

(٣) محمد بن جریر طبری، ابوجعفر صاحب التاریخ، عامی المذہب لہ کتاب غدیر خم و شرح امرہ بصفتہ اخبرنا بہ احمد بن عبدون عن الدوری عن ابن کامل عنہ (طبرسی، الفہرست، مشہد: مشہد یونیورسٹی ١٣٥١ش، ص٢٨١.)

۳۶۶

ابن کثیر متوفی ١٧٤ھ نے بھی واقعہ غدیر کو حجة الوداع کے بعد ذکر کر کے یہ کہا ہے: ابو جعفر محمد بن جریر طبرسی مولف تفسیر اور تاریخ نے اس حدیث پر توجہ کی ہے اور اس کی سند اور الفاظ کو دو جلدوں میں جمع کیا۔(١) اس کے بعد انھوں نے طبری کی کچھ روایات کو حدیث غدیر سے متعلق نقل کیا وہ دوسرے مقام پر لکھتے ہیں : میں نے طبری کی ایک کتاب دیکھی ہے جو دو بڑی جلدوں پر مشتمل تھی اور اس میں انھوں نے حدیث غدیر کو جمع کیا ہے۔(٢)

ابن شہر آشوب متوفی ٥٨٨ ھ لکھتے ہیں اس (طبری) نے کتاب غدیر خم کو تالیف کی اور اس میں اس واقعہ کی شرح کی اور اس کتاب کا نام ''الولایة'' رکھا۔(٣)

ابن طاوؤس بھی راوة حدیث غدیر کو شمار کرتے وقت کہتے ہیں :حدیث غدیر کو محمد بن جریر مولف تاریخ نے ٧٥ سندوں کے ساتھ روایت کیا اور اس بارے میں ایک مستقل کتاب تالیف کی ہے جس کا نام حدیث الولایہ ہے۔(٤)

یحییٰ بن حسن معروف جو ''ابن بطریق'' کے نام سے معروف ہیں (٦٠٠ھ۔ ٥٢٣ھ) تحریر کرتے

______________________

(١) وقد اعتنی بأمر ہذا الحدیث ابوجعفر محمد بن جریر طبری صاحب التفسیر و التاریخ فجمع فیہ مجلد ین اورد فیہما طرقہ والفاظہ... (البدایہ والنہایہ، ج٥، ص٢٠٨.) یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابن کثیر نے عین حادثۂ غدیر کو نقل کرتے وقت اس میں خدشہ ظاہر کیا ہے انشاء اللہ ہم بعد میں اس کے متعلق بحث کریں گے۔

(٢)و قدرأیت له کتاباً فجمع فیهااحادیث غدیر خم فی مجلدین ضخمین ۔ (گزشتہ حوالہ، ج١١، ص١٤٧، حوادث سال ٣١٠ کے ضمن میںجو کہ طبری کے مرنے کا سال ہے، )

(٣)لہ (طبری) کتاب غدیر خم و شرح امرہ و سماہ کتا ب الولایة۔ (معالم العلمائ، ص١٠٦)

(٤) و قد روی الحدیث فی ذالک محمد بن جریر الطبری صاحب التاریخ من خمس و سبعین طریقاً و افرد لہ کتاباًسماہ حدیث الولایة. (الطرائف، ج١، ص١٤٢.)

۳۶۷

ہیں: محمد ابن جریر طبری مولف کتاب تاریخ نے روایت غدیر کو ٧٥ سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے اور اس بارے میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس کا نام کتاب ''الولایہ'' ہے۔(١)

جن محققین اور مورخین کے نام ہم نے ذکر کئے ہیں ان لوگوں نے کتاب الولایہ کا ایک مختصر اور اجمالی خاکہ ہی بیان کیا ہے اور بعض حضرات جیسے ابن کثیر نے اس کی صرف بعض روایات نقل کرنے پر اکتفا کی ہے، قاضی نعمان مغربی مصری (ابو حنیفہ نعمان بن محمد تمیمی متوفی ٣٦٣ھ) وہ واحد شخص ہیں جنھوں نے طبری کی روایات میں سے ٧٥ روایتیں حضرت علی ـ کے فضائل میں اپنی کتاب ''شرح الاخبار فی فضائل الائمة الاطہار'' میں نقل کی ہیں اوراسی طرح انھوں نے طبری کی باتوں کو آئندہ نسلوں کے لئے منتقل کردیا۔(٢)

وہ کہتے ہیں کہ: ''یہ کتاب بہت ہی دلچسپ کتاب ہے جس میں طبری نے حضرت علی کے فضائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔(٣)

طبری نے اس کتاب کو کس بنا پر تالیف کیا ہے۔(٤) قاضی نعمان اس سبب اور وجہ کو بیان کرنے

______________________

(١)و قدذکر محمد بن جریر الطبری، صاحب التاریخ خبر یوم الغدیر و طرقہ من خمسة و سبعین طریقاً و افردالہ کتاباً سماہ کتاب الولایة۔ (عمدة عیون صحاح الاخبار، ج١، ص١٥٧.)

(٢)یہ کتاب ١٤١٤ھ.ق، میں مؤسسہ نشر اسلامی در قم، کے توسط سے تین جلدوں میں طبع ہوچکی ہے اور پہلی جلد میں صفحہ ١٣٠ کے بعد طبری کی روایات نقل ہوئی ہیں۔

(٣)و ہو کتاب لطیف بسط فیہ ذکر فضائل علی علیہ السلام (گزشتہ حوالہ، ج١، ص١٣٠.)

(٤) گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣١٠؛ ان کے کتاب تالیف کرنے کا سبب یہ تھاکہ انھیں اطلاع ملی کہ علمائے بغداد میں سے ایک نے حدیث غدیر کا انکار کیا ہے او ریہ دعوی کیا ہے کہ حضرت علی حجة الوداع سے واپسی کے موقع پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ نہیں تھے بلکہ یمن میں تھے، طبری کو یہ بات سن کر بہت غصہ آیا اورانھوں نے اس کی رد میں کتاب الولایہ تحریر کی اور اس میں حدیث غدیر کو مختلف سندوں کے ساتھ ذکر کر کے اس کی صحت کو ثابت کیا۔ حافظ ابن عساکر اور شمش الدین محمد ذہبی کے بقول مذکورہ شخص ابوبکر ابوداؤد {سلیمان بن اشعث} سجستانی مؤلف {سنن} تھا۔ اور یہ حضرت علی کے بغض و دشمنی میں مشہور تھا۔ (تاریخ مدینہ دمشق، ج٢٩، ص٨٧؛ میزان الاعتدال، ج٢، ص٤٣٤؛ تاریخ بغداد، ج٩، ص٤٦٨ ٤٦٧.)

۳۶۸

کے بعد مزید یہ کہتے ہیں کہ طبری نے اس کتاب میں ولایت علی سے متعلق ایک باب مختص کیا ہے اور اس میں پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م سے مروی صحیح روایات کو ذکر کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خواہ حجة الوداع سے پہلے یا حجة الوداع کے بعد فرمایا:

''من کنت مولاه فعلی مولاه اللّٰهم وال من والاه و عاد من عاداه و انصر من نصره و اخذل من خذله''اور یه بھی فرمایا : علی امیر المومنین ، علی اخی، علی وزیری، علی وصیی، علی خلیفتی علی امتی من بعدی، علی اولی الناس بالناس من بعدی''

اور اس کیعلاوہ دوسری روایتیں بھی ہیں جو حضرت علی کی جانشینی کو ثابت کرتی ہیں اور جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امت کی رہبری اور اس کی قیادت کی باگ ڈور آپ کو ہی ملنا چاہئے تھی اور کسی کو آپ سے آگے بڑھنے کا یا آپ کے اوپر حکومت کرنے کا حق نہیں ہے''۔(١)

٣۔ اس بارے میں جو لائق ذکرشبہ ایجاد کیاگیا ہے وہ بعض علمائے اہل سنت جیسے فخر رازی اور قاضی عضد ایجی کی طرف سے اس کے مفاد میں شک و شبہ پیدا کرنا ہے۔ انھوں نے اصل واقعہ کو تو قبول کیا ہے لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خطبۂ غدیر میں حضرت علی کے بارے میں جو کلمۂ مولیٰ استعمال کیا ہے اور اس سے ولایت الٰہیہ اور امامت کے معنی سمجھ میں آتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ کلمۂ مولا، دوست اور ناصر وغیرہ کے معنی میں ہے او ران کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ واقعہ حضرت علی کی ولایت اور خلافت پر دلالت نہیں کرتا ہے بلکہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس خطبہ میں حضرت علی کی دوستی اور محبت کا حکم دیا تھا یہ لوگ کہتے ہیں کہ مَفعَل (مولیٰ) لغت میں اَفعل (اولیٰ) کے معنی میں نہیں آیا ہے اس بنا پر پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس خطبہ میں لفظ مولیٰ کے معنی دوست کے ہیں۔(٢)

______________________

(١) شرح الاخبار، ج١، ص١٣٥۔ ١٣٤۔ اسی طرح کتاب الولایہ کے متعلق مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: پارہ ھای بر جای ماندۂ کتاب فضائل علی بن ابی طالب، رسول جعفریان، فصلنامۂ میقات حج، شمارۂ ٣٤۔

(٢) الغدیر، ج١، ص٣٥٠، ٣٥٤ و ٣٥٦۔

۳۶۹

علامہ امینی نے اپنی بہت ہی علمی، تحقیق اور جستجو کے بعد قرآنی، حدیثی، لغوی اور دوسرے شواہد ذکر کرنے کے بعد ادیبوں اور بڑے بڑے لغت شناس کے کلام سے استشہاد کرنے کے بعد اس دعویٰ کی بے مائیگی اور کمزوری کو ثابت کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ان تینوں مقامات پر لفظ مولا، اولیٰ کے معنی میں شائع اور رائج تھا۔ نمونہ کے طور پر مندرجہ ذیل آیتوں میں سیاق و سباق کا لحاظ رکھتے ہوئے لفظ مولا کے معنی ولی یا متولی امر یا صاحب اختیار کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوسکتے۔

آیہ:( فالیوم لایؤخذ منکم فدیة و لا من الذین کفروا مأوٰیکم النار هی مولیٰکم و بئس المصیر ( ۔(١) ) واعتصموا باللّٰه هو مولیٰکم فنعم المولیٰ و نعم النصیر ( ۔(٢) ) ذٰلک بأن اللّٰه مولی الذین آمنوا و ان الکافرین لا مولیٰ لهم ( ۔(٣) ) بل اللّٰه مولیٰکم و هو خیر الناصرین ( ۔(٤) ) قل لن یصیبنا الا ماکتب اللّٰه لنا هو مولیٰنا ( ۔(٥) ) یدعوا لمن ضره أقرب من نفعه لبئس المولی و لبئس العشیر ) (٦)

مفسرین نے ان آیات میں ''مولیٰ'' کے معنی کی تفسیر اوراس کے معنی ''اولیٰ'' ہی ذکر کئے ہیں۔

حدیث میں یہ بھی آیا ہے''ایما امرأة نکحت بغیر اذن مولاه فنکاحها باطل'' (٧) ،

______________________

(١) سورۂ حدید، آیت ١٥۔

(٢) سورۂ حج، آیت ٧٨۔

(٣) سورۂ محمد، آیت ١١۔

(٤) سورۂ آل عمران، آیت ١٥٠۔

(٥) سورۂ توبہ، آیت ٥١۔

(٦) سورۂ حج، آیت ١٣۔

(٧)ابو جعفر محمد بن الحسن طوسی، الاقتصاد الہادی الی طریق الرشاد (تہران: مکتبہ جامع چہل ستون، ١٤٠٠ھ۔ق)، ص٢١٧۔ مسند احمد کے نقل کے مطابق، ج٦، ص٤٤؛ یہ بطریق، عمدة عیون صحاح الاخبار، ج١، ص١٥٩؛ ابن حزم، ابومحمد علی بن احمد، المحلی، تحقیق: احمد محمد شاکر، (بیروت: دارالآفاق الحدیثہ)، ج٩، ص٤٧٤، مسألة ١٨٣٨۔

۳۷۰

(جو عورت اپنے مولا کی اجازت کے بغیر، نکاح کر لے تو اس کا نکاح باطل ہے)، محدثین اور فقہاء نے اس حدیث میں مولیٰ کے معنی بھی عورت کا ولی اور سرپرست بیان کئے ہیں۔

علامہ امینی نے ''لفظ مولا'' کے ستائیس احتمالی معنی گنوائے ہیں اوریہ ثابت کیا ہے کہ بروز غدیر خطبۂ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ان معانی میں سے بعض معنی کا مراد لینا مستلزم کذب ہے اور بعض کاارادہ کرنا مستلزم کفر ہے ، بعض دوسرے معنی کامراد لینا ناممکن اور بعض کا مراد لینا لغو اور بے فائدہ ،یا بالکل ہلکا اور سبک ،لہٰذا صرف اور صرف ''اولیٰ بالشیئ'' ہی مراد لیا جا سکتا ہے۔(١)

اس کے بعد علامہ امینی نے ان چودہ جید علماء اور محدثین اہل سنت کی گفتگو کو بھی ذکر کیاہے جنھوں نے ''خطبہ غدیر'' میں لفظ مولیٰ سے اولیٰ بالشیء کے معنی مراد لیئے ہیں جن میں شمس الدین ابو المظفرسبط ابن جوزی حنفی (٦٥٤۔ ٥١١ ہجری قمری) بھی ہیں۔ جو یہ کہتے ہیں:

''اہل سیرت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ واقعۂ غدیر حجة الوداع سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی واپسی کے موقع پر ١٨ ذی الحجہ کو اصحاب کی کثیر تعداد اور ایک کثیر مجمع کے درمیان جنکی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار تھی پیش آیا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں''

اس کے بعد انھوں نے لفظ مولا کے دس احتمالی معنی ذکر کئے اور پھر اس کے نو معنی میں رد وقدح کرنے کے بعد صرف دسویں معنی یعنی وہی اولیٰ بالتصرف کے معنی کی تصدیق کی ہے اور اس کے لئے سورۂ حدید کی ١٥ ویں آیت کو شاہد اور دلیل کے طور پر پیش کیا ہے اور تعبیر مولیٰ کو، حضرت علی کی امامت اور آپ کی اطاعت کو قبول کرنے کے بارے میں صریح اور واضح نص قرار دیا ہے۔(٢)

______________________

(١) الغدیر، ج١، ص٣٧٠۔ ٣٦٧۔

(٢) ۔۔۔فتعین الوجه العاشر و هو ''الاولی'' و معناه من کنت اولی به من نفسه فعلی اولی به فعلم ان جمیع المعانی راجعة الی الوجه العاشر ودل علیه ایضاً قوله صلی اللّٰه علیه وآله وسلم، الست اولی بالمؤمنین من أنفسهم و هذا نص صریح فی اثبات امامته و قبول طاعته ۔۔۔ (تذکرة الخواص، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٣ھ۔ق)، ص٣٣۔ ٣٠۔

اس کے بعد اس زمانے کے کچھ شعراء کے اشعار منجملہ حسان بن ثابت ( جو خود واقعۂ غدیر میں موجود تھے)کے اشعار نقل کئے ہیں کہ انھوں نے کلمۂ مولیٰ سے لفظ ''امام'' سمجھاہے اور اس کواپنے اشعار میں نظم بھی کیا ہے۔

۳۷۱

شواہد اور قرائن

خطبہ کے اندر اور اس سے الگ ایسے متعدد شواہد و قرائن بھی موجود ہیں جن سے معنی ٔ مذکور کی تائید ہوتی ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسئلہ حضرت علی کی دوستی اور محبت کے اعلان سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:

الف: ایک لاکھ حاجیوں کواس چلچلاتی دھوپ میں، صرف حضرت علی کی دوستی اور محبت کے اعلان کے لئے رکنے کا حکم دینا کوئی معقول بات نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں کی برادری اور بھائی چارگی اور آپسی محبت کوئی ایسے ڈھکی چھپی بات نہیں تھی جو مسلمانوں سے پوشیدہ ہو اور اس کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کواعلان کی ضرورت پیش آئے خاص طور سے حضرت علی کی شخصیت سے دوستی اور محبت، کس سے پوشیدہ رہ سکتی ہے۔

ب: خطبے کا مقدمہ جو پیغمبر کی رحلت کے قریب ہونے کے بارے میں ایک طرح کی پیشین گوئی ہے آنحضرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ت کی جانشینی سے ارتباط اور مناسبت رکھتا ہے نہ کہ حضرت علی کی دوستی سے۔

ج: پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے پہلے اپنے بارے میں ''اولیٰ بالنفس'' کی تعبیر استعمال کی اس کے بعد حضرت علی کو دوسروں سے اولیٰ ہونے کے طور پر پہچنوایا یہ مقارنت واضح اور روشن دلیل ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حضرت علی کے لئے اسی مقام ولایت امر مسلمین کو ثابت کر رہے تھے جس منصب پر آپ خود فائز تھے٭۔

______________________

٭ احمد بن حنبل نے اپنی مسند جلد١، ص١١٩، پر اور ابن اثیر نے اسد الغابہ ، ج٤، ص٢٨۔ پر ایک روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''الست اولی من المومنین من انفسہم و ازواجی وأمّہاتہم'' کیامیں مومنین پر ان کی جانوں کی بہ نسبت اولی بالتصرف اورمقدم نہیں ہوں اور کیا میری بیویاں ان کی مائیں نہیں ہیں۔ یہ بالکل واضح اور طے شدہ بات ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کا مسلمانوں کی ماں ہونا ، سورہ احزاب کی چھٹی آیت کے مطابق صرف حضرت سیمخصوص ہے جو آپ کے منصب سے مناسبت رکھتا اور اس مقام پر اس کو مسلمانوں کی جان و مال پر اولویت کے ساتھ ذکر کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے عہدہ نبوت کو پہچنوانا چاہتے تھے اور پھر اسی کے مثل یعنی حضرت علی کی ولایت اور خلافت کا اعلان کرنا مقصود تھا۔ واضح رہے کہ ابن کثیر کہ جس کا ایک خاص نظریہ اور عقیدہ ہے اور اس نے مذکورہ حدیث کونقل کرنے کے بعد کسی وضاحت اوردلیل کے بغیر اس روایت کو ضعیف اورغریب کہا ہے۔ البدایہ والنہایہ، ج٥، ص٢١١۔ جبکہ اس کے پہلے راوی یعنی عبد الرحمان بن ابی لیلی علماء اہل سنت کے مطابق موثق ہیں اور یہ روایت دوسری سندوں سے بھی نقل ہوئی ہے۔ رجوع فرمائیں: الغدیر، ج١، ص ١٧٨۔ ١٧٧۔

۳۷۲

د: خطبۂ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد مسلمانوں کا حضرت علی کو ''مولائے مومنین'' کے عنوان سے مبارکباد پیش کرنا یہ صرف امامت سے مناسبت رکھتاہے۔ خداوند عالم کی طرف سے دین کے اکمال اور نعمت کے اتمام کا اعلان دوستی کے موضوع اور عنوان سے کسی طرح میل نہیں کھاتا ہے۔

و: حسان بن ثابت شاعر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس زمانہ میںعرب کا مشہور شاعر اور ادیب جو خود واقعۂ غدیر میں موجود تھا اس نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اجازت سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خطبہ کو نظم میں پیش کیا اور اس میں کلمۂ مولیٰ کو ''امام'' اور ''ہادی'' کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ ایک شعر:

و قال له قم یا علی فاننی

رضیتک من بعدی اماماً و هادیاً

امیر المومنین نے معاویہ کو جو اشعار لکھ کر بھیجے تھے، اس میں اس طرح لکھا ہے:

واوجب لی ولایته علیکم

رسول اللّٰه یوم غدیر خم(١)

______________________

(١) مکمل طور سے ان قرائن اور شواہد کے بارے میں آگاہی کے لئے رجوع کریں: الغدیر، ج١، ص٣٨٥۔ ٣٧٠؛ پیشوائی از نظر اسلام، جعفر سبحانی، ص٢٣٨۔ ٢٣٤۔

۳۷۳

٤۔ ابن کثیر نے واقعۂ غدیر کو حضرت علی کے سفر یمن سے مربوط قرار دیا ہے جو حجة الوداع سے پہلے پیش آیا تھا اور اس میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ چونکہ اس سفر میں حضرت علی نے اپنے ہم سفر ساتھیوں کے مال غنیمت میںبے جا اور غیر شرعی استعمال کی (قبل اس کے کہ اس کو رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پیش کرتے) مخالفت کی تھی اور آپ کے ساتھی آپ کی ا س عدالت پر رنجیدہ ہوئے تھے۔(١) اسی بنا پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غدیر خم میں حضرت علی کی فضیلت اور امانتداری اور عدالت کو بیان کیا اور آپ کے نزدیک جو قرب و منزلت ان کو حاصل تھی اس کو بیان کیا ۔ اور بہت سارے لوگوں کے دلوں میں جو آپ کے تئیں کینہ و کدورت اور حسد تھا اسے ختم کیا۔(٢)

یہ تاویل اور توجیہ صحیح نہیں ہے کیونکہ یمن کے سفر سے متعلق، پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پہلی ملاقات میں حضرت علی کے ہم سفر ساتھیوں کا جواب مکے میں (حج سے پہلے) دیدیا تھا۔ اور فرمایا تھا: لوگ علی کی شکایت نہ کریں۔ خدا کی قسم وہ حکم الٰہی کے نافذ کرنے میں بہت سخت اور بے خوف ہیں۔(٣)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس صریحی بیان سے مسئلہ ان لوگوں کے لئے تمام ہوگیا جوآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کچھ سننا چاہتے تھے اور پھر کوئی بات نہیں رہ جاتی کہ تین سو (٣٠٠) افراد(٤) کے لئے جو رنجش حضرت علی سے پیدا ہوگئی تھی اور اس کوآپ نے بھی دور کردیا تھا۔ دوبارہ اس کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک لاکھ کے مجمع میں بیان فرماتے۔

______________________

(١) اس واقعہ کی مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: واقدی، مغازی، ج٣، ص١٠٨١؛ البدایہ والنہایہ، ج٥، ص٢٠٩۔ ٢٠٨۔

(٢)فبین فیها فضل علی بن ابی طالب و براء ة عرضه مماکان تکلم فیه بعض من کان معه بأرض الیمن، بسبب ماکان صدر منه الیهم من المعدلة التی ظنها بعضهم جوراً و تضییقاً و بخلاً، و الصواب کان معه و ذکر من فضل علی و امانته و عدله و قربه الیه ما ازاح به ماکان فی نفوس کثیر من الناس منه (البدایہ والنہایہ،ج٥، ص٢٠٨۔)

(٣)یا ایها الناس لاتشکوا علیاً فو اللّٰه انه لاخشن فی ذات اللّٰه او فی سبیل اللّٰ ہ {من ان یشکی}۔ (تاریخ الامم والملوک، ج٣، ص١٦٨؛ (نہایة الارب فی فنون الأدب، ترجمۂ :محمودمہدوی دامغانی، ج٢، ص٣٢٩؛ الدایہ والنہایہ، ج٥، ص٢٠٩؛ رجوع کریں: ترجمة الامام علی من تاریخ مدینة دمشق، تالیف: حافظ ابن عساکر، تحقیق: الشیخ محمد باقر المحمودی (بیروت: دار التعارف للمطبوعات، ١٣٩٥ھ۔ق)، ج١، ص٣٨٦۔

(٤) مورخین اور سیرت نگاروں نے یمن کی ماموریت میں حضرت علی کی سپہ سالاری کے ماتحت سپاہیوں کی تعداد تین سو (٣٠٠) افراد لکھی ہے۔ رجوع کریں: واقدی، مغازی، ج٣، ص١٠١٩؛ طبقات الکبری، ج٢، ص١٦٩۔

۳۷۴

٥۔ اگر حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو غدیر میں امام بنایا ہوتا تو اصحاب آپ کے بعد آپ کے اس حکم کی مخالفت نہ کرتے اور آپ کی صریحی تاکید اور وصیت سے منہ نہ موڑتے کیونکہ آپ کے اصحاب صالح اور با ایمان لوگ تھے۔ جنھوں نے راہ اسلام میں اپنی جان اور مال کے ذریعے کامیاب امتحان دیاتھا لہٰذا یہ بہت ہی بعید بات ہے کہ اتنا عظیم واقعہ پیش آئے اور وہ لوگ اس کی مخالفت کر بیٹھیں خاص طور سے جبکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت اور غدیر کے درمیان میں تقریباً ستر (٧٠) دنوں کا مختصر سا فاصلہ پایا جاتا ہے لہٰذا یہ بہت بعید ہے کہ اتنی جلدی لوگ ایسے واقعہ کو فراموش کر دیں۔

اس سوال کے جواب کے لئے اگر ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دور کے حادثات اور واقعات پر ایک سرسری نگاہ ڈالیں تو اگرچہ اصحاب کے روحانی مراتب اور درجات مجموعی طور سے اپنی جگہ پر مسلم ہیں مگر پھر بھی پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمان سے سرپیچی کرنا ان لوگوں کے درمیان کوئی نئی بات نہیں تھی کیونکہ اس دور میں بھی کچھ مسلمانوں کا ایمان ایسا ناپختہ تھا کہ وہ لوگ خدا و پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے احکام کے سامنے مکمل طور پر سرتسلیم خم نہیں کرتے تھے خاص طور پر جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حکم ان کے ذاتی مفادات، قبیلہ کے رسم و رواج اور ان کے سیاسی افکار سے میل نہیں کھاتا تھا تو پھر وہ لوگ ایک طرح سے اپنی رائے اور اجتہاد کے ذریعہ یہ کوشش کرتے تھے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رائے کو تبدیل کردیں ورنہ خود ہی اس پر عمل پیرا ہونے میں کوتاہی کرتے تھے اور بسا اوقات آپ کے اوپر اعتراض بھی کرتے تھے۔ اس طرح کے حادثات اور مخالفتوں کے نمونے، جیسے صلح حدیبیہ میں صلح نامہ لکھتے وقت، حجة الوداع میں احرام سے خارج ہونے کا مسئلہ، لشکر اسامہ کی روانگی اور حیات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آخری ایام میں قلم و دوات جیسے مشہور واقعات بھی تاریخ میں ثبت ہیں ایسے تمام واقعات کو علامہ سید شرف الدین نے اپنی گراں قدر کتاب ''النص و الاجتہاد'' میں ذکر فرمایا ہے۔

۳۷۵

اس کے علاوہ قرآن مجید کی متعدد آیات، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم کی پیروی کے واجب و لازم ہونے کے اوپر تاکید کرتی ہیں اور اس کو ایمان کا جز قرار دیتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو اس خطرہ کی طرف متوجہ بھی کیاہے کہ حکم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سرپیچی یا آپ کے اوپر سبقت نہ کریں اور یہ امیدنہ رکھیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ان کی اطاعت کریں گے۔ مندرجہ ذیل آیات سے یہ صاف واضح ہو جاتاہے کہ اس زمانہ میں بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت ہوتی رہتی تھی جیسا کہ ارشاد ہے:

( فلیحذر الذین یخالفون عن امره أن تصیبهم فتنة او یصیبهم عذاب الیم ) (١)

''جو لوگ حکم خدا کی مخالفت کرتے ہیں وہ اس امر سے ڈریں کہ ان تک کوئی فتنہ پہنچ جائے یا کوئی دردناک عذاب نازل ہوجائے''

( یاایها آمنوا لاتقدموا بین یدی اللّٰه و رسوله و اتقوا اللّٰه ان اللّٰه سمیع علیم ) (٢)

''ایمان والو! خبردار خدا و رسول کے سامنے اپنی بات کو آگے نہ بڑھاؤ اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ ہر بات کا سننے والا اور جاننے والا ہے''

( واعلموا ان فیکم رسول اللّٰه لو یطیعکم فی کثیر من الامر لعنتم ) (٣)

''اور یاد رکھو کہ تمہارے درمیان خدا کا رسول موجود ہے یہ اگر بہت سی باتوں میں تمہاری بات مان لیتا تو تم زحمت میں پڑ جاتے''

( و ما کان لمومن و لا مومنة اذا قضی اللّٰه و رسوله امراً ان یکون لهم الخیرة من امرهم و من یعص اللّٰه و رسوله فقد ضل ضلالاً بعیداً ) (٤)

''اور کسی مومن مرد یا عورت کواختیار نہیں ہے کہ جب خدا و رسول کسی چیز کا فیصلہ کردیں (یا کوئی حکم دیں) تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحب اختیار بن جائے اور جو بھی خدا و رسول کی نافرمانی

______________________

(١) سورۂ نور، آیت ٦٣۔

(٢) سورۂ حجرات، آیت ١۔

(٣) سورۂ حجرات، آیت ٧۔

(٤)سورۂ احزاب، آیت ٣٦۔

۳۷۶

کرتا ہے وہ کھلی ہوئی گمراہی میں ہے''

( و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللّٰه فلا و ربک لایومنون حتی یحکموک فیما شجر بینهم ثم لایجدوا فی انفسهم حرجاً مما قضیت و یسلموا تسلیماً ) (١)

''اور ہم نے کسی رسول کو بھی نہیں بھیجا ہے مگر صرف اس لئے کہ حکم خدا سے اس کی اطاعت کی جائے پس آپ کے پروردگار کی قسم کہ یہ ہرگز صاحب ایمان نہ بن سکیں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات میں حَکَم نہ بنائیں۔ اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تواپنے دل میں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپ کے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوجائیں''

( یأ ایها الذین آمنوا اطیعوا اللّٰه و رسوله و لاتولوا عنه و انتم تسمعون ) (٢)

''ایمان والو! اللہ و رسول کی اطاعت کرو اور اس سے روگردانی نہ کرو جب کہ تم سن بھی رہے ہو''

ان تمام باتوں کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر چہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے بے پناہ محنت و مشقت اور زحمتیں اٹھا کر قبیلہ یا قوم پرستی کے نظام اور اس کے خطرناک اثرات جیسے قبیلہ جاتی تعصب، ایک دوسرے سے رقابت، یا قبیلوں کے درمیان میں رقابتیں جو خود دور جاہلیت کے لوگوں کے لئے ایک درد سر تھا، ان سب کو ختم کردیاتھا، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تمام رسم و رواج بعض مسلمانوں کے اندر اسی طرح چھپے ہوئے تھے جس طرح سے راکھ کے نیچے آگ دبی ہوتی ہے اور اسی لئے مختلف اوقات میں وہ ابھر کے سامنے آجاتے تھے۔

جیسا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے فوراً بعد اوس اور خزرج دونوں قبیلے والوں نے اپنے پرانے قبیلہ جاتی

______________________

(١)سورۂ نسائ، آیت٦٥۔ ٦٤۔

(٢) سورۂ انفال، آیت ٢٠۔

۳۷۷

نظام کو زندہ کردیا اور دونوں طرف سے یہ آوازیں بلندہوگئیں ''نحن الامراء و انتم الوزراء و منا امیر و منکم امیر''ہم لوگ حاکم اور امیر ہیں اور تم لوگ وزیر ہو یا ایک امیر اور حاکم ہمارے درمیان سے ہوجائے اور ایک امیر و حاکم تمہارے درمیان سے ہوجائے۔(١) جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ''میں اور ہم'' کی حدوں کو قبیلوں کی سرحدوں سے اٹھا دیا گیا تھا اور سب کے سب ایک ''ہم'' کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ایمانی بھائی تھے جیسا کہ ارشاد ہے''انما المومنون اخوة''

اس بنا پر یہ بالکل طے شدہ بات ہے کہ چاہے کتنی ہی خوش فہمی اور حسن ظن کیا جائے پھر بھی قریش کے بعض سیاسی لوگ مکہ کے زمانہ کی طرح بنی ہاشم سے رقابت کا احساس رکھتے تھے اور اس طرح کے معیاروں کی بنا پر انھیں ایک ہاشمی کی خلافت قبول نہیں تھی۔

٦۔ سورۂ مائدہ کی تیسری اور ٦٧ ویں آیت کی شان نزول کے بارے میں کتب تفسیر و حدیث میں دوسرے اور بھی احتمالات ذکر کئے گئے ہیں لیکن ان کی اسناد اور دوسرے فراوان شواہد اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ دو آیتیں غدیر خم میں نازل ہوئیں ہیں۔(٢)

ان دونوں آیتوں کا مضمون بھی گواہ ہے کہ ان دونوں آیتوں کا تعلق پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد امت کی رہبری اور امامت جیسے اہم کام سے ہے اور وہ دوسرے واقعات جنھیں بعض لوگوں نے ذکر کیا ہے ان سے ان کا کوئی رابطہ نہیں ہے مثلاً تیسری آیت میں مندرجہ ذیل جن چار باتوں کی تاکید کی گئی ہے اور اس میں ان پر تکیہ کیا گیا ہے یہ صرف امامت ہی سے مناسبت رکھتی ہیں۔

الف: کفار کی مایوسی کیونکہ وہ لوگ یہ تصور کرتے تھے کہ اسلام صرف اور صرف پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی تک باقی ہے اور آپ کی وفات کے بعد اسلام کی بساط خود بخودالٹ جائے گی لیکن حضرت علی جیسی ایک مضبوط، مستحکم،عادل اور برجستہ شخصیت کی جانشینی کے اعلان کے بعد یہ طے ہوگیاکہ

______________________

(١) ابن قتیبہ دینوری، الامامة و السیاسة (قم: منشورات الشریف الرضی)، ص٢٥۔ ٢٤۔

(٢) اس مضمون سے مزید آگاہی کے لئے، رجوع کریں: الغدیر، ج١، ص٢٤٧۔ ٢١٤۔

۳۷۸

اسلام باقی رہے گا لہٰذا وہ لوگ اس سے مایوس ہوگئے۔

ب: تکمیل اسلام، کیونکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا جانشین معین ہوئے بغیر اور امت کی رہبری کا سلسلہ جاری رہے بغیر یہ دین و مذہب منزل تکمیل تک نہیں پہونچ سکتا تھا۔

ج:تکمیل رہبری کے تسلسل کے ساتھ، ہدایت کی نعمت کا اتمام۔

د: خداوندعالم کی طرف سے اسلام کی تکمیل کے اعلان کے علاوہ اس کو آخری مذہب اوردین قرار دیا جانا۔(١)

لشکر اسامہ

پہلے آپ پڑھ چکے ہیں کہ ٨ھ میں جنگ موتہ میں اسلامی فوج کے ایک سپہ سالار جناب زید بن حارثہ بھی تھے اور اس میں مسلمانوں کورومیوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اوراس لشکر کے تینوں سردار سمیت بعض دوسرے اسلامی سپاہیوں نے بھی جام شہادت نوش کیا تھا۔

٩ ھ میں بھی رسول خدا نے سر زمین تبوک تک اسلامی فوج کے ساتھ پیش قدمی کی تھی لیکن وہاں کوئی جنگ نہیں ہوئی اور آپ کا یہ اقدام ایک قدرتمند فوجی مشق کی حد تک ہی رہ گیااسی لئے گزشتہ واقعات کی بنا پر شہنشاہ روم کی دشمنی اور اس کی فوجی قدرت و طاقت آپ کے لئے ہمیشہ ایک مسئلہ بنی ہوئی تھی اور آپ مسلسل رومیوں سے ٹکراؤ اور جنگ کے بارے میں متفکر رہتے تھے اسی بنا پر جب آپ حجة الوداع سے لوٹ کر مدینہ واپس آئے تو آپ نے زید بن حارثہ کے بیٹے اسامہ کی سپہ سالاری میں ایک لشکر منظم کیااور ایک فوج بنائی اوران کو یہ حکم دیا کہ سرزمین

______________________

(١) اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے اور سورۂ مائدہ کی ان دو آیتوں کے درمیان ایک آیت کے فاصلہ کے بارے میں اور یہ کہ، یہ تیسری آیت حرام گوشت کے احکام سے متعلق ہے اور یہ ولایت کے مسئلہ سے مناسبت نہیں رکھتی ان تمام چیزوں کے بارے میں رجوع کریں تفسیر نمونہ، ج٤، ص ٢٧١۔ ٢٦٣۔

۳۷۹

''اُبنیٰ'' ٭جوان کے والدکی شہادت کی جگہ ہے وہاں تک پیش قدمی کریں اور رومیوں سے جنگ کریں۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فوج کی سربراہی کا پرچم اسامہ(١) کے حوالے کیااوران کو فوجی اور نظامی احکامات کے متعلق نصیحتیںبھی کیں،انھوں نے مقام جُرف٭ کو اپنی فوج کے قیام کے لئے منتخب کیا تاکہ باقی فوج بھی وہاں آکر جمع ہو جائے۔(٢)

اس فوج میں انصار و مہاجرین کے کچھ شناختہ اور مشہور و معروف افراد جیسے ابوبکر، عمر، ابوعبیدہ جراح، سعد بن ابی وقاص(٣) ، عبد الرحمان بن عوف، طلحہ، زبیر، اسید بن حضیر، بشیر بن سعد(٤) (ابوالاعور) سعید بن زید(٥) ،قتادہ بن نعمان اور سلمہ بن اسلم(٦) ، بھی موجود تھے۔

______________________

٭ ابنیٰ، دنیا کے وزن پر ہے۔ سرزمین شام کا ایک علاقہ ہے جو عسقلان اور رملہ کے درمیان، موتہ سے نزدیک ہے۔ (حلبی، السیرة الحلبیہ(بیروت: دارالمعرفہ)، ج٣، ص٢٢٧)۔

(١) اسامہ کا سن اس وقت ١٧ ، ١٨ یا ١٩ سال لکھا ہے اور کسی تاریخ میں بھی ان کا سن ٢٠ سال سے زیادہ نہیں لکھا گیاہے۔

٭شام کی جانب مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک جگہ ہے۔

(٢)ابن سعد، طبقات الکبری، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص١٩٠؛ شیخ عبد القادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق، تالیف حافظ ابن عساکر (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ١٤٠٧ھ۔ق)، ج١، ص١٢١؛ زینی دحلان، السیرة النبویہ والآثار المحمدیہ، ج٢، ص١٣٨؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص٢٢٧۔

(٣) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٩٠؛ حلبی، السیرة الحلبیہ، (بیروت: دار المعرفہ)، ج٣، ص٢٢٧؛ زینی دحلان، السیرة النبویہ و الآثار المحمدیہ، ج٢، ص١٣٨۔

(٤) ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، دار الکتب العربیہ، ج٦، ص٥٢؛ سقیفۂ ابوبکر احمد بن عبد العزیز جوہری کے نقل کے مطابق۔

(٥) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٩٠؛ شیخ عبدالقادر بدران، تہذیب تاریخ دمشق، تالیف حافظ ابن عساکر، (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ١٤٠٧ھ۔ق)، ج١، ص١٢١۔

(٦) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص١٩٠؛ تقی الدین احمد بن علی مقریزی، امتاع الاسماع، تحقیق: محمد عبد الحمید النمیسی (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ط١، ١٤٢٠ھ۔ق)، ج٢، ص١٢٤؛ تہذیب تاریخ دمشق، ج١، ص١٢١۔

۳۸۰