تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 157664
ڈاؤنلوڈ: 4712

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157664 / ڈاؤنلوڈ: 4712
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جب اسامہ کی فوج کو حرکت کرنے کا حکم دیا تھااس وقت تک آپ بالکل صحت مند اور تندرست تھے لیکن اگلے ہی دن آپ کو بخار عارض ہوا اور بالآخر یہی آپ کے مرض الموت میں تبدیل ہوگیا۔ بستر بیماری پر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ کچھ لوگ اسامہ کی کم عمری کی بنا پر ان کی سپہ سالاری پر معترض ہیں اسی لئے ابھی اسامہ کی فوج مدینہ سے حرکت نہیں کرپائی ہے. رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسی بیماری کی حالت میں اور رنج والم کے ساتھ مسجد میں تشریف لے گئے اور ایک خطبہ میں لوگوں کواسامہ کی فوج کے ساتھ تعاون اور ان کے ساتھ روانہ ہونے کی ترغیب دلائی اور فرمایا:

ایہا الناس! اے لوگو! یہ کیا باتیں ہیں جو میں نے اسامہ کی سپہ سالاری کے بارے میں بعض لوگوں سے سنی ہیں؟ آج تم اسامہ کی سپہ سالاری کے بارے میں گلہ مند ہو اور اس سے پہلے ان کے والد کی

سپہ سالاری کے بار ے میں بھی تمہیں گلہ تھا جب کہ خدا کی قسم زید، سپہ سالاری کے لائق تھے اور ان کا بیٹا بھی ان کے بعد ا س منصب کے لائق اور اس کا سزاوار ہے ۔الخ۔(٣)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں آپ کی صحت بہت ہی زیادہ ڈھل گئی اور آپ پر مسلسل غش طاری ہو رہا تھا جب ایک بار آپ کو بے ہوشی سے افاقہ ہوا توآپ نے لشکر اسامہ کے بارے میں پوچھا، تو لوگوں نے کہا کہ روانگی کے لئے تیار ہو رہاہے۔ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ: ''اسامہ کی فوج کو

______________________

(٣) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، مقریزی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص١٢٤؛ زینی دحلان، گزشتہ حوالہ؛ شیخ عبدالقادر بدران، گزشتہ حوالہ؛ حلبی، گزشتہ حوالہ، ص٢٢٨۔ بخاری اور مسلم میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا فرمان اس طرح سے نقل ہوا ہے:

''ان تطعنوا فی امارته فقد کنتم تطعنون فی امارة ابیه من قبل و ایم اللّٰه ان کان لخلیقا للامارة وان کان لمن احب الناس الی و ان هذا لمن احب الناس الی بعد'' ۔ (صحیح بخاری، تحقیق: شیخ قاسم الشماعی الرفاعی، (بیروت: دار القلم، ١٤٠٧ھ۔ق)، ج٦، ص٣٢٦؛ المغازی، باب ٢٠٣، حدیث٩؛ صحیح مسلم، بشرح النووی، (قم: دار الفکر، ١٤٠١ھ۔ق)، ج١٥، فضائل الصحابة، ص١٩٥۔)

۳۸۱

روانہ کرو خدا ان لوگوں پر لعنت کرے''(١) جو اسامہ کے لشکر کے ساتھ نہ جائیں، پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ان تمام تاکیدوں کے بعدچودہ روز تک جن میں آپ مریض رہے(٢) مختلف لوگوں کے متعددبہانوں کی وجہ سے اسامہ کی فوج کی روانگی اسی طرح تعطل کا شکار رہی اور اس فوج نے حرکت نہیں کی یہاں تک کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت ہوگئی، جیسا کہ ہم نے غدیر خم کے واقعہ کے ذیل میں وضاحت کی تھی کہ یہ واقعہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ بعض مسلمان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صریحی احکام اور فرامین سے سرپیچی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اعلیٰ مقصد

اسامہ کی فوج کو روانہ کرنے کے لئے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسلسل کوششوں اور محنتوں کے اندر بعض اہم نکات اور موضوعات پائے جاتے ہیں جن کی طرف توجہ دینا بہت ضروری ہے۔

١۔ اتنی عظیم اسلامی فوج کو روانہ کرتے وقت اس کی سپہ سالاری ایک ایسے سردار کے حوالے کرناجس کی عمر بیس سال سے کم تھی جبکہ یہ فوج اس وقت کے قوی ترین دشمن اور اسلامی دارالحکومت سے بہت دور اور حساس علاقہ میں جنگ کے لئے بھیجی جارہی تھی۔

٢۔ اس فوج میں اسامہ کی سپہ سالاری کے تحت ایسے تجربہ کار اور ماہرین جنگ سپہ سالار اور کمانڈر بھی رکھے گئے تھے نیز اس میں ایسے قبیلوں کے سردار اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشہور اصحاب بھی موجود تھے جواپنے

______________________

(١) ''جهزوا جیش اسامة، لعن اللّٰه من تخلف عنه ۔ (محمد بن عبد الکریم شہرستانی (قم: منشورات الشریف الرضی)، ص٢٩؛ اگرچہ شہرستانی نے اس گروہ کے بارے میں رسول خدا کی لعنت کو حدیث مرسل کہا، لیکن ابی الحدید، ابوبکر احمد بن عبد العزیز جوہری نے ''سقیفہ'' کتاب میں ا س لعنت کو حدیث مسند کے طور پر عبداللہ بن عبد الرحمان سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے کئی مرتبہ فرمایا: انفذ وابعث اسامہ، لعن اللّٰہ من تخلف عنہ (شرح نہج البلاغہ، ج٦، ص ٥٢)۔

(٢) ابو واضح، تاریخ یعقوبی (نجف: المکتبة الحیدریہ، ٢٣٨٤ھ۔ق)، ج٢، ص١٧٨۔

۳۸۲

کو مقام و منزلت اور ایک خاص عظمت کا حامل سمجھتے تھے اور وہ لوگ اس نوجوان سپہ سالار کا یہ منصب خود حاصل کرنے کے لئے تیار ی کر رہے تھے۔

٣۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م اگر چہ یہ بخوبی جانتے تھے کہ اب یہ آپ کی عمر مبارک کے آخری ایام ہیں (اور خطبۂ غدیر میں آپ نے اس کی طرف اشارہ بھی فرما دیا تھا) اور اسی کے ساتھ تاریک فتنہ اور خطرناک حوادث کے بادل امت اسلامیہ کے سر پر منڈلارہے ہیں آپ نے اسلامی فوج کوایک دور ترین خطے کی طرف روانہ فرمایا اور انصار و مہاجرین کے سرکردہ افراد کوان کے ساتھ کردیا آپ کی اس تدبیر اور دور اندیشی اور الٰہی سیاست کو نظر میں رکھنے کے بعد اس میں کوئی تردید نہیں رہ جاتی کہ آپ نے اتنے عظیم اقدام کو یقینا کسی اہم مقصد کے لئے انجام دیا تھا کہ ان تمام مشکلات اور خطرات کو سہہ لینااس کے مقابلہ میں بہت آسان تھا۔

ان تما م نکات کی تحقیق اور ان پر توجہ کرنے کے بعد بہ آسانی یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ رومیوں سے فوجی ٹکراؤ کے علاوہ آپ کی نظر میں دو اہم مقصد اور بھی تھے۔

(الف) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسامہ کو اسلامی لشکر کا سپہ سالار اس لئے بنایا تھا تاکہ مسلمانوں کو عملاً اس حقیقت کی طرف متوجہ کردیں کہ کسی عہدے اور مقام تک پہنچنے کے لئے صلاحیت اور لیاقت معیار ہوتی ہے اور کسی کی کم عمری اور جوانی سے اس کی لیاقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، جس طرح کسی انسان کے سن کی زیادتی سے اس کے اندر لیاقت پیدا نہیں ہوجاتی اسی لئے پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اعتراض کرنے والوں کو یہ جواب دیا تھا کہ : ''زید بھی سپہ سالاری کے لائق تھے اور اب ان کا بیٹا ان کے بعد اس منصب کے لائق ہے''

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اپنے اس واضح اور دو ٹوک بیان سے اسامہ کی لیاقت اور شائستگی کو واضح کردیا اور جو لوگ عمرکی زیادتی یا قبیلہ وغیرہ کوایسے عہدے اور مقام میں دخیل سمجھتے ہیں ان کے باطل افکار کی وضاحت فرمادی ۔ کیا اس کے علاوہ اس کی اور کوئی وجہ ہوسکتی ہے کہ آ پ نے اسامہ کی سپہ سالاری کے

۳۸۳

بارے میں جو اتنی تاکید کی تھی اس کے ذریعہ آپ عملاً حضرت علی کی خلافت کے لئے راہ ہموار کر رہے تھے اور جو لوگ حضرت علی کی جوانی کو بہانہ بنا کر خلافت سے متعلق آپ کی لیاقت اور صلاحیت کے بارے میں انگلی اٹھانا چاہتے تھے آپ ان کا جواب دے رہے تھے۔

(ب) پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارادہ یہ تھاکہ آپ کی وفات کے وقت حضرت علی کے وہ سیاسی رقباء جن کے دل میں خلافت کی لالچ تھی مدینہ سے دور رہیں (اسی لئے مہاجرین و انصار کے چنندہ افراد کو آپ نے اسامہ کی فوج میں شامل کیا تھا تاکہ ان لوگوں کے جانے کے بعد ان کے عدم موجودگی میں حضرت علی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے لیں او رمخالفین کے لئے کوئی صورت باقی نہ رہے اور جب وہ لوگ میدان جنگ سے واپس پلٹیں تو حضرت علی کی حکومت مستحکم ہوچکی ہو۔(١)

اسی سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ پیغمبر کی اتنی تاکید اور اصرار کے باوجود بھی کچھ لوگ اسامہ کے ساتھ جانے سے کیوں جان چرا رہے تھے؟ اور آج یاکل پر ٹال مٹول کے ذریعہ، انھوں نے لشکر اسامہ کو روانہ ہونے سے کیوں روک دیا؟ یہاں تک کہ رسول اللّٰہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات ہوگئی۔

______________________

(١) ابن ابی الحدید، (٦٥٦ھ) نے اس تحلیل پر جو ناقابل قبول تنقید کی ہے (شرح نہج البلاغہ، ج١، ص١٦) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیعوں کی یہ تحلیل قدیم زمانہ سے مورخین کے درمیان پائی جاتی تھی۔

۳۸۴

وہ وصیت نامہ جو لکھا نہ جاسکا!

پنجشنبہ کے دن (رحلت سے چار دن پہلے) جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بستر علالت پر تھے آپ نے فرمایا: ''قلم اورکاغذ لے آؤ تاکہ میں تمہارے لئے کچھ لکھ دوں جس سے تم لوگ میرے بعد گمراہ نہ ہو'' حاضرین میں سے ایک صاحب نے کہا آپ کے اوپر درد اور مرض کا غلبہ ہے اور آپ ہذیان بک رہے ہیں قرآن ہمارے پاس ہے وہی ہمارے لئے کافی ہے۔ اسی دوران حاضرین کے درمیان اختلاف ہوگیا بعض لوگوں نے اُس کی بات کی تائید کی اور کچھ لوگ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرمان کی تائید کر رہے تھے اسی میں شور و ہنگامہ بڑھتا گیا

اسی دوران پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا : آپ کے حکم کی تعمیل کی جائے آپ نے فرمایا: ''یہ سب کچھ ہونے کے بعد؟ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو (جو مجھے درد و غم اور تکلیف ہے) مجھے اسی حالت پر رہنے دو اور تم لوگ میرے بارے میں جو کچھ کہہ رہے ہو (میری طرف ہذیان کی جو نسبت دے رہے ہو) میری یہ حالت اس سے کہیں بہتر ہے، یہاں سے باہر نکل جاؤ''۔

جو کچھ آپ نے پڑھا یہ اس قصے کا خلاصہ ہے جو اہل سیرت او رمحدثین نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عمر کے آخری ایام کے واقعات کے ذیل میں نقل کیا ہے۔(١)

اگر چہ یہ واقعہ بعض کتابوں میں تحریف کر کے یاتوڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے کچھ لوگوں نے پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کا نام ہی غائب کردیا، یا صرف اس کی بات کے مضمون کو نقل کیا ہے اور بعض اوقات اس کی طرف سے عذر تراشی کی کوشش کی گئی ہے لیکن تما م شواہد و قرائن اس بات کے گواہ ہیں کہ پیغمبر کا یہ اقدام در اصل اپنی جانشینی کے لئے حضرت علی کی شناخت کرانا اور مسلمانوں کو رہبری اور قائد کے بغیر نہ چھوڑ دینے کے سلسلے کی ایک کڑی تھی اور اگر بعض حاضرین نے کسی نہ کسی طریقے سے آپ کو وصیت نامہ لکھنے نہیں دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ آپ کیا تحریر کرنا چاہتے ہیں۔

جیساکہ عبد اللہ بن عباس اس نکتہ پر توجہ او رمذکورہ واقعہ کی طرف اشارہ کرنے کے بعد افسوس بھرے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں۔ (پنجشنبہ کا دن کتنا دردناک تھا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میرے لئے کاغذ اور دوات لے آؤ تاکہ تمہارے لئے کچھ لکھ دوں اور تم اس کے بعد گمراہ نہ ہو لیکن انھوں نے

______________________

(١) نمونہ کے طور پرملاحظہ کریں: صحیح بخاری، تحقیق: الشیخ قاسم السماعی الرفاعی؛ (بیروت: دار القلم، ط١، ١٤٠٧)، ج١، کتاب العلم، باب کتابة العلم (باب ٨٢،)، ج١٢، ص١٢٠ و ج٦؛ المغازی، باب ١٩٩، ص ٣١٨۔ ٣١٧؛ صحیح مسلم، بشرح النووی، ج١١، باب ترک الوصیة لمن لیس لہ شیء یوصی فیہ، ص٨٩؛طبقات الکبری، (بیروت: دار الصادر)، ج٢، ص٢٤٢، ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ابوبکر جوہری کے نقل کے مطابق۔

۳۸۵

نہیں سنا.....''(١) کیونکہ یہ واقعہ بہت مشہور بلکہ تاریخ اسلام کے مسلمات میں سے ہے اور گزشتہ اورموجودہ تمام لوگوں نے ا س کو نقل کیا ہے اور کافی حد تک اس کے بارے میں بحث کی ہے لہٰذا اسی مقدار پر ہم اکتفا کر رہے ہیں اور اس کے بارے میں مزید تحقیق و جستجو اور اس سے متعلق عذر تراشیوں پر تنقید یا بعض ابہامات کا جواب دینے یا اس بارے میں جو سوالات پیدا ہوتے ہیں ان کو ذکر کرنا نہیں چاہتے بلکہ اس کے لئے اس کی متعلقہ کتابوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔(٢)

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی رحلت

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م ٢٣ سال تک الٰہی پیغام کو پہنچا کر اور اس راہ میں مسلسل دعوت و جہاد اور اپنی رسالت کی انجام دہی کے راستے میں مختلف نشیب و فراز سے گزر کر آخرکار روز دوشنبہ ٢٨ صفر ١١ھ(٣) کے دن ١٤

______________________

(١)''لما اشتد النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وجعه قال ائتونی بکتاب اکتب لکم کتاباً لاتضلوا بعده قال عمر ان النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غلبه الوجع و عندنا کتاب اللّٰه حسبنافاختلفوا و کبر اللغط قال قوموا عنی ولاینبغی عندی التنازع فخرج ابن عباس یقول ان الرزیة کال الرزیة ماحال بین رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و بین کتابه ۔ (صحیح بخاری، ج١، ص١٢٠؛ رجوع کریں:الطبقات الکبری، ج٢، ص٢٤٤۔)

(٢) مثال کے طور پر ذکر شدہ کتب کی طرف رجوع کریں: الطرائف، ابن طاووس، علی بن موسی، (قم: مطبعة الخیام)، ج٢، ص٤٣٥۔ ٤٣١؛ النص والاجتہاد، شرف الدین، سید عبد الحسین موسوی (بیروت: دار النعمان، ط٣، ١٣٨٤ھ۔ق)، ص١٧٧۔ ١٦٢؛ جعفر سبحانی، فروغ ابدیت، (قم: مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، ط٥، ١٣٦٨)، ج٢، ص٥٠٠۔ ٤٩٣؛ مصطفوی، حسن الحقائق فی تاریخ الاسلام والفتن والاحداث، ص ١٣٥۔ ١٢٩؛ یوسف غلامی، پس از غروب (قم: دفتر نشر معارف، ج١، ١٣٨٠)، ص٥٣۔ ٣٨۔ محمد حسین ھیکل، حیات محمد (قاہرہ: مکتبة النہضہ المصریہ، ط٨، ١٩٦٣)، ص٥٠١؛ شرح امام نووی بر صحیح مسلم (طبع شدہ با اصل صحیح مسلم) ج١١، ص٩٣۔ ٨٩۔

(٣) محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ١٣٨٥ھ۔ق)، ج٢٢، ص٥١٤، تاریخ وفات رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں دوسرے اقوال بھی نقل ہوئے ہیں۔ رجوع کریں: گزشتہ حوالہ، ص ٥٢١۔ ٥١٤؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج٣، ص٢٧٤۔ ٢٧٢؛ السیرة الحلیة، ج٣، ص٤٧٣۔

۳۸۶

روز بیمار(١) رہنے کے بعد عالم بقا کی طرف رحلت فرما گئے اور مسجد کے برابر میں آپ کا جو حجرہ تھا اسی میں آپ کودفن کیا گیا بعد میں جب بعض خلفاء کے دور میں اس مسجد کی توسیع کی گئی تو آپ کا مرقد مطہرمسجد ( مشرقی سمت )میں شامل ہوگیا۔

اگر چہ ہجرت کے کچھ دنوں بعد مسلمانوں کی مالی حالت اور خود پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مالی حالت بھی بہتر ہوگئی تھی اور آپ کے مخصوص اموال (اموال خالصہ) اور دوسری آمدنی کے ذرائع بھی آپ کے پاس موجود تھے اور آپ کی ظاہری قدرت و طاقت اور روحانی نفوذ میں بے حد اضافہ ہوچکا تھا لیکن آپ کی ذاتی زندگی میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی تھی اور آپ مسجد کے برابر میں اپنے حجرے میں اسی طرح سادگی کے ساتھ رہتے تھے نہ آپ نے کوئی مال جمع کیاتھا ،نہ لوگوں کی طرح آپ کے پاس کوئی بڑا گھر تھا آپ کا وہ بستر جس پر آپ آرام فرماتے تھے وہ بھی ایک چمڑے کا بستر تھا جس کے اندر کھجور کی پتیاں بھری ہوئی تھیں،(٢) چٹائی کے اوپر نماز پڑھتے تھے اور اکثر اوقات اسی چٹائی اور بوریئے کے اوپر آرام کرتے تھے جس کے نشان آپ کے چہرے یا بدن پر نمایاں ہو جاتے تھے۔(٣) آپ نے اپنی عمر کے آخری ایام میں یہ حکم فرمایا کہ بیت المال کے وہ چند دینار جو آپ کی ایک زوجہ کے پاس بچے ہوئے تھے ان کو غرباء میں تقسیم کردیا جائے۔(٤) آپ نے اسی طرح سادگی سے زندگی گزاری اور بالآخر اپنے سادے حجرے میں دنیا سے تشریف لے گئے لیکن اس کے باوجود آپ نے ایک عظیم دین ایک آسمانی کتاب اور ایک موحد اور خدا پرست امت کو اپنی یادگار کے طور پر چھوڑا او ردنیا کی تاریخ میں ایک نئے تمدن اور ثقافت کی بنیاد رکھی۔

______________________

(١) ابن واضح، تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ۔ق)، ج٢، ص١٧٨۔

(٢)حلبی، السیرة الحلبیہ، ج٣، ص٤٥٤۔

(٣)گزشتہ حوالہ۔

(٤)ابن سعد، طبقات الکبری، ج٢، ص٢٣٩۔ ٢٣٧۔

۳۸۷

رحلت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وقت اسلامی سماج، ایک نظر میں

پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے مکہ سے ہجرت کے بعد مدینہ میں قیام کر کے وہاں کے آزاد اور معاون ماحول سے استفادہ کرتے ہوئے اسلامی معاشرے کی سنگ بنیاد رکھی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے راستوں سے رکاوٹوں کو ہٹاتے چلے گئے اسلامی امت کو ایک دینی اور سیاسی شناخت عطا کی اور الٰہی پیغام کو مکمل طور سے لوگوں تک پہنچا دیااور جس وقت آپ نے رحلت فرمائی آپ اپنی رسالت کو پایۂ تکمیل تک پہنچا چکے تھے اور درخشندہ اور روشن کامیابیاں آپ کے قدم چوم رہی تھیں لیکن اس کے باوجود اس وقت کے معاشرے میں کچھ مخصوص حالات اور افکار پھیلے ہوئے تھے جن میں سے اہم چیزوں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔

١۔ جیساکہ اشارہ کیا جاچکا ہے کہ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے اسلامی تعلیم کے سایہ میں عرب کے مختلف اور پراگندہ قبیلوں کو (جن کا کام ایک دوسرے سے جھگڑا کرنا تھا) ایمان اور عقیدے کے مشترک رشتے کی بنا پر ایک دوسرے سے جوڑ دیا اور ان کے درمیان میں دینی بھائی چارا (عقد مواخات) قائم کردیا۔ ماضی کی پراکندہ قوم اور افراد کو امت واحدہ میں تبدیل کردیا اور آپ نے انھیں لوگوں کی مدد سے الٰہی حکومت تشکیل دی جس کی رہبری کے فرائض آپ خود انجام دے رہے تھے۔ آپ کا دار الحکومت اور مرکز شہر مدینہ تھا، اس حکومت میں وہ مسائل اور سماجی باتیں جن کے بارے میں خدا کی طرف سے نص موجود نہیں تھی مسلمانوں کی رائے اور مشوروں سے حل ہوتے تھے، ان کے پاس مکمل طور سے آزادیٔ رائے پائی جاتی تھی عربوں نے اسلام کے سایہ میں پہلی بار اس قسم کی وحدت، قدرت اور معنویت کو قریب سے دیکھا تھا لیکن اس کامیابی کو اسی طرح باقی رکھنے کے لئے ایسے ہی مقتدر، شائستہ اور لائق رہبراور قائد کی ضرورت تھی جو پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے بعد نظام امت و امامت پر بھروسہ کرتے ہوئے خود پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرح اسلامی معاشرے کو معنوی اور سیاسی دونوں لحاظ سے آگے بڑھا سکے۔

۳۸۸

٢۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت پورے جزیرہ نمائے عرب سے تقریباً بت پرستی کا خاتمہ ہوچکا تھا اگرچہ جزیرة العرب کے باہر کوئی فتح نہیں ہوئی تھی لیکن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عالمی دعوت اور تبلیغ کی بنا پر اسلام کا پیغام دنیا کے شہنشاہان مملکت کے کانوں تک پہونچ چکا تھا لیکن خود جزیرہ نمائے عرب میں وہ بہت سے لوگ جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں مسلمان ہوئے تھے (خاص طور سے فتح مکہ اور جنگ تبوک کے بعد) وہ صرف اور صرف ظاہری طور اسلام لائے تھے کیونکہ انھوں نے اسلامی حکومت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لئے اسلام قبول کیا تھا ان میں سے اکثر لوگوں کے دلوں تک اسلام اور ایمان نہیں اترا تھا اور پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کو اتنی فرصت نہیں مل پائی کہ آپ دینی مبلغین کو بھیج کر ان کی ثقافتی اور مذہبی بنیادوں کودرست کرسکیں اس میں سے بہت سے لوگوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک بار بھی نہیں دیکھا تھا بلکہ ان کے سردار اور نمائندے ہی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرتے تھے اسی لئے دوبارہ اسلام کی قدرت کے ضعیف ہونے اور کفر و بت پرستی اور ارتداد کی واپسی کا بہت احتمال تھا اس وجہ سے بھی اسلامی رہبری کا جاری رہنا ضرور ی تھا تاکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ ثقافتی مشن جاری رہے اور اسلام کی تعلیمات کی وضاحت اور تبیین اور تبلیغی اور ثقافتی نیز روحانی رشد و ہدایت کا سلسلہ منزل تکمیل تک پہونچ جائے۔

٣۔ ٩ھ میں منافقین کے سرکردہ لیڈر عبد اللہ بن ابی کی موت کے بعد اگر چہ اس خائن گروپ کی قدیم شکل و صورت ختم ہوگئی تھی اور وہ استحکام باقی نہیں رہ گیا تھا لیکن پھر بھی اس ٹولہ کے افراد مدینہ اور اس کے اطراف میں موجود تھے یہ لوگ ہر لمحہ ایسی فرصت کی تلاش میں رہتے تھے جس سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں پر کوئی کاری ضرب لگا سکیں۔ منافقین (جو اسلام کے اندرونی دشمن تھے) کے علاوہ دو بیرونی خطرے بھی اسلام کے سامنے تھے ایک شہنشاہ روم دوسرے شہنشائے ایران جیسا کہ اس وقت کے قرائن و شواہد سے ان کی اسلام دشمنی اور اسلام کے بارے میں ان کے منفی نظریات کی تائید ہوتی ہے۔ یہ خطرناک مثلث یقینا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو متفکر کرنے کے لئے کافی تھا اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے اس کو ناکارہ بنانے کے واسطے چارہ جوئی کرنا ضروری تھی۔ یہ مسئلہ بھی ایسے حساس لمحات اور حالات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جس کے لئے مسلمانوں کی وحدت اور ایک پرچم تلے کسی طاقت ور رہبر اور قائد کی رہبری کی ضرورت ہے۔

۳۸۹

٤۔ جیسا کہ گزر چکا ہے کہ اسلام کے ظہور سے پہلے جزیرہ نمائے عرب میں رہنے والے لوگوں کی زندگی قبیلہ جاتی نظام پر استوار تھی اور قبیلہ جاتی نظام، رشتہ داری اور نسل پرستی کی بنیادوں پر استوار تھا ایسے نظام کے سماجی اسباب، جیسے قبیلہ جاتی تعصب فخر و مباہات ایک دوسرے سے انتقام لینا، قبیلہ جاتی جنگ ، یہ سب ان کے لئے درد سر بنے ہوئے تھے۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بے پناہ زحمت و مشقت برداشت کر کے اسلام کی وحدت بخش تعلیم اور کلمۂ توحید کے سہارے اس نظام کو درہم برہم کردیا اور مشترک ایمان کو مشترک خون اور مشترک نسل کا جائے گزین بنادیا اور قبیلہ جاتی نظام کے جو خطرناک اور برے اثرات تھے ان کو کافی حد تک ختم کردیا یہ سب اسلام، قرآن اور رسالت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہترین نتائج ہیں۔

لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس نظام جاہلیت کی جڑیں (اس کی پرانی جڑوں کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں ابھی تک باقی تھیں اور جب کبھی کسی حادثہ کی ہوائیں اس دبی ہوئی آگ کے اوپر سے راکھ کو اڑا لیجاتی تھیں تو ان کی قبیلہ پرستی کی فکریں سامنے آجاتی تھیں اور پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نہایت زیرکی اور ہوشیاری سے اس کا سد باب کردیتے تھے اور اس کو کسی بحران اور حادثہ میں تبدیل نہیں ہونے دیتے تھے یہ بات اس زمانہ کے حساس حالات کی عکاس ہے کہ مسلمانوں کی وحدت جو بہت قیمتی سرمایہ لگا کر حاصل ہوئی تھی اس کو کس قدر خطرہ تھا انھیں قبیلہ جاتی رسم و رواج اور ذہنیتوں کی بہترین دلیل خود سقیفہ کا واقعہ بھی ہے جو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے فوراً بعد سامنے آیا تھا یہ قلبی دھڑکن اور فکر اس زمانہ کے مسلمانوں کے سرکردہ افراد کے وظیفہ کواور بھی سنگین کردے رہی تھی۔ اور ان کے سامنے ایک سخت امتحان تھا اس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ کون لوگ وحدت اور اتحاد کی حفاظت کے لئے ایثار و قربانی کے لئے حاضر ہیں اور کون لوگ پر انے نظام جاہلیت پر اب بھی مصر ہیں۔

۳۹۰

٥۔ پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م مدینہ ہجرت کر نے کے بعد مسلمانوں کے دینی اور سیاسی قائد و رہبر تھے اور آپ یہ دونوں وظیفے ایک ساتھ انجام دیتے تھے۔ جس طرح مسلمان آپ کی خدمت میں بیٹھ کر آپ کی تقریریں، خطبات اور آپ کے ہونٹوں سے نکلنے والے کلمات وحی کو سنتے رہتے تھے اسی طرح آپ کی امامت میں نماز جماعت پڑھتے تھے اور روحانی اعتبار سے آپ کی ذات اور شخصیت میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ آپ کے وضو کے پانی کے قطروں کو تبرک سمجھتے تھے اور یہی لوگ آپ کے حکم سے میدان جنگ میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے تھے، دشمنوں کو قتل کرتے تھے، اور خود بھی شہید ہو جاتے تھے، آپ کی طرف سے شہروں کی حکمرانی اور گورنری کے لئے منصوب ہوتے تھے، آپ کی نمائندگی اور سفارت کے طور پر مخالفین سے مذاکرات کرتے تھے۔

لہٰذا آپ کی رحلت کے بعد صرف یہ کافی نہیں تھا کہ آپ کا جانشین صرف اسلامی معاشرے کی سیاسی رہبری کرے بلکہ اس کے لئے یہ ضروری تھا کہ آپ کی جگہ پر کوئی ایسا شخص بیٹھے جو سیاسی رہبری کے علاوہ لوگوں کی دینی ضروریات او ر ان کے دینی مسائل سے بھی بخوبی عہدہ برآ ہوسکے یعنی دینی اور ا سلامی علوم اور معارف کے بارے میں اتنا وسیع علم اور آگہی رکھتا ہو کہ اس جگہ پر بھی وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خالی جگہ کو پُر کرسکے۔

۳۹۱

فہرست

حرف اول ۴

عرض مترجم ۷

مقدمۂ مولف ۸

پہلا حصہ ۱۱

مقدماتی بحثیں ۱۱

پہلی فصل ۱۲

جزیرة العرب کی جغرافیائی، سماجی اور ثقافتی صورتحال ۱۲

جزیرة العرب کی تقسیم ۱۴

جزیرة العرب کی تقسیم، اس کے شمالی اور جنوبی (قدرتی) حالات کی بنا پر ۱۵

جنوبی جزیرة العرب (یمن) کے حالات ۱۵

جنوبی عرب کی درخشاں تہذیب ۱۷

مأرب کے بند کی تباہی ۱۹

جزیرة العرب پرجنوبی تہذیب کے زوال کے اثرات ۲۱

شمالی جزیرة العرب{حجاز} کے حالات ۲۲

صحرا نشین ۲۴

قبائلی نظام ۲۶

نسلی رشتہ ۲۷

قبیلہ کی سرداری ۲۷

قبائلی تعصب ۲۹

۳۹۲

قبائلی انتقام ۳۰

قبائلی رقابت اور فخر و مباہات ۳۱

نسب کی اہمیت ۳۳

قبائلی جنگیں ۳۷

غارت گری اور آدم کشی ۳۹

حرام مہینے ۴۲

عرب کے سماج میں عورت ۴۲

عورت کی زبوں حالی ( ٹریچڈی) ۴۴

دوسری فصل ۵۰

عربوں کے صفات اور نفسیات ۵۰

متضاد صفات ۵۰

عربوں کی اچھی صفتوں کی بنیاد ۵۱

جہالت اور خرافات ۵۲

علم و فن سے عربوں کی آگاہی ۵۴

امی لوگ ۵۵

شعر ۵۵

عرب اور ان کے پڑوسیوں کی تہذیب ۵۶

ایران اور روم کے مقابلہ میںعربوں کی کمزوری اور پستی ۵۹

موہوم افتخار ۶۰

دور جاہلیت ۶۲

۳۹۳

تیسری فصل ۶۵

جزیرہ نمائے عرب اور ا سکے اطراف کے ادیان و مذاہب ۶۵

موحدین ۶۵

عیسائیت ۶۷

یمن میں عیسائیت ۶۸

حیرہ میں عیسائیت ۶۹

دین یہود ۷۱

یمن میں یہودی ۷۲

صابئین ۷۳

مانی دین ۷۵

ستاروں کی عبادت ۷۶

جنات اور فرشتوں کی عبادت ۷۸

شہرمکہ کی ابتدائ ۸۰

دین ابراہیم کی باقی ماندہ تعلیمات ۸۰

عربوں کے درمیان بت پرستی کا آغاز ۸۲

کیا بت پرست، خدا کے قائل تھے؟ ۸۴

پریشان کن مذہبی صورتحال ۸۸

ظہور اسلام کی روشنی میں بنیادی تبدیلی ۹۰

شہر مکہ کی توسیع او رمرکزیت ۹۲

الف: تجارتی مرکز: ۹۲

۳۹۴

ب: کعبہ کا وجود: ۹۵

قریش کی تجارت اور کلیدبرداری ۹۶

قریش کا اقتداور اثر و رسوخ ۹۹

دوسرا حصہ ۱۰۲

حضرت محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ولادت سے بعثت تک ۱۰۲

پہلی فصل ۱۰۳

اجداد پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱۰۳

حضرت محمد مصطفی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حسب و نسب ۱۰۳

حضرت عبد المطلب کی شخصیت ۱۰۵

خاندان توحید ۱۰۷

دوسری فصل ۱۰۹

حضرت محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بچپن اور جوانی ۱۰۹

ولادت ۱۰۹

کم سنی اور رضاعت کا زمانہ ۱۱۲

والدہ کا انتقال اور جناب عبد المطلب کی کفالت ۱۱۵

جناب عبد المطلب کا انتقال اورجناب ابوطالب کی سرپرستی ۱۱۷

شام کا سفر او رراہب کی پیشین گوئی ۱۱۸

عیسائیوں کے ذریعہ تاریخ میں تحریف ۱۲۱

کامل شریعت کی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کرے؟ ۱۲۲

تیسری فصل ۱۲۵

۳۹۵

حضرت محمد مصطفٰے صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جوانی ۱۲۵

حلف الفضول١ ۱۲۵

شام کی طرف دوسرا سفر ۱۲۸

جناب خدیجہ کے ساتھ شادی ۱۳۰

حجر اسود کا نصب کرنا ۱۳۲

علی مکتب پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ۱۳۳

تیسرا حصہ ۱۳۷

بعثت سے ہجرت تک ۱۳۷

پہلی فصل ۱۳۸

بعثت اور تبلیغ ۱۳۸

رسالت کے استقبال میں ۱۳۸

رسالت کا آغاز ۱۴۱

طلوع وحی کی غلط عکاسی ۱۴۴

تنقید و تحلیل ۱۴۶

مخفی دعوت ۱۵۱

پہلے مسلمان مرد اور عورت ۱۵۲

حضرت علی کی سبقت کی دلیلیں ۱۵۳

اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنے والے گروہ ۱۵۷

الف: جوانوں کا طبقہ: ۱۵۷

ب: محروموں اور مظلوموں کا طبقہ: ۱۶۰

۳۹۶

دعوت ذو العشیرہ ۱۶۳

دوسری فصل ۱۶۶

علی الاعلان تبلیغ اور مخالفتوں کا آغاز ۱۶۶

ظاہری تبلیغ کا آغاز ۱۶۶

قریش کی کوششیں ۱۶۷

ابوطالب کی طرف سے حمایت کا اعلان ۱۶۹

قریش کی طرف سے مخالفت کے اسباب ۱۶۹

١۔ سماجی نظام کے بکھرنے کا خوف ۱۷۱

اقتصادی خوف ۱۷۲

پڑوسی طاقتوں کا خوف و ہراس ۱۷۵

قبیلہ جاتی رقابت اور حسد ۱۷۶

تیسری فصل ۱۷۸

قریش کی مخالفت کے نتائج او ران کے اقدامات ۱۷۸

مسلمانوں پر ظلم و تشدد ۱۷۸

حبشہ کی طرف ہجرت ۱۷۹

حضرت فاطمہ زہرا ٭ کی ولادت ۱۸۳

اسراء اور معراج ۱۸۳

روایات معراج کی تحلیل اور ان کا تجزیہ ۱۸۴

بنی ہاشم کا سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ ۱۸۶

جناب ابوطالب اور جناب خدیجہ کی وفات ۱۹۰

۳۹۷

جناب خدیجہ کا کارنامہ ۱۹۱

جناب ابوطالب کا کارنامہ ! ۱۹۲

ایمان ابوطالب ۱۹۳

ازواج پیغمبر اسلا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م ۱۹۷

۱ام حبیبہ: ۱۹۸

٢۔ ام سلمہ: ۱۹۹

٣۔ زینب بنت جحش: ۲۰۱

قرآن کی جاذبیت ۲۰۴

جادوگری کا الزام ۲۰۵

طائف کا تبلیغی سفر ۲۰۷

کیا پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی سے پناہ مانگی؟ ۲۰۹

عرب قبائل کو اسلام کی دعوت ۲۱۱

چوتھا حصہ ۲۱۴

ہجرت سے عالمی تبلیغ تک ۲۱۴

پہلی فصل ۲۱۵

مدینہ کی طرف ہجرت ۲۱۵

مدینہ میں اسلام کے نفوذ کا ماحول ۲۱۵

مدینہ کے مسلمانوں کا پہلا گروہ ۲۱۷

عقبہ کا پہلا معاہدہ ۲۱۸

عقبہ کا دوسرا معاہدہ ۲۲۰

۳۹۸

مدینہ کی طرف ہجرت کا آغاز ۲۲۰

پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قتل کی سازش ۲۲۱

پیغمبر اسلا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کی ہجرت ۲۲۳

عظیم قربانی ۲۲۴

قبا میں پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا داخلہ ۲۲۶

پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مدینہ میں داخلہ ۲۲۷

ہجری تاریخ کا آغاز ۲۲۸

دوسری فصل ۲۳۱

مدینہ میں پیغمبر اسلا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے سیاسی اقدامات ۲۳۱

مسجد کی تعمیر ۲۳۱

اصحاب صُفّہ ۲۳۲

عام معاہدہ ۲۳۳

مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارگی کا معاہدہ ۲۳۵

یہودیوں کے تین قبیلوں کے ساتھ امن معاہدہ ۲۳۹

منافقین ۲۴۰

تیسری فصل ۲۴۲

یہودیوں کی سازشیں ۲۴۲

یہودیوں کی طرف سے معاہدے کی خلاف ورزیاں ۲۴۲

یہودیوں کی مخالفت کے اسباب ۲۴۴

قبلہ کی تبدیلی ۲۴۷

۳۹۹

چوتھی فصل ۲۵۱

لشکر اسلام کی تشکیل ۲۵۱

اسلامی فوج کا قیام ۲۵۱

فوجی مشقیں ۲۵۳

فوجی مشقوں سے پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مقاصد ۲۵۴

عبد اللہ بن جحش کا سریہ ۲۵۷

جنگ بدر ۲۵۸

مسلمانوں کی کامیابی کے اسباب ۲۶۱

اسلامی لشکر کی کامیابی کے نتائج اور آثار ۲۶۵

بنی قینقاع کی عہد شکنی ۲۶۷

جناب فاطمہ زہرا سے حضرت علی کی شادی ۲۶۹

جنگ احد ۲۷۰

جنگ کے پہلے مرحلے میں مسلمانوں کی فتح ۲۷۳

مشرکوں کی فتح ۲۷۵

جنگ احد کے نتائج ۲۷۹

بنی نضیر کے ساتھ جنگ(٢) ۲۸۳

جنگ خندق (احزاب) ۲۸۵

بنی قریظہ کی خیانت ۲۹۰

لشکر احزاب کی شکست کے اسباب ۲۹۱

١۔ بنی قریظہ اور لشکر احزاب کے درمیان اختلاف کاپیدا ہونا ۲۹۲

۴۰۰