تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 157685
ڈاؤنلوڈ: 4712

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157685 / ڈاؤنلوڈ: 4712
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

ان کے اونٹوں کو لوٹ لیا کرتے تھے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنالیا کرتے تھے۔

دوسرا قبیلہ بھی کمین گاہ میں بیٹھا اسی تاک میں لگا رہتا تھا اور اسے بھی جب موقع ملتا تھا یہی حرکت کربیٹھتا تھا۔ اور جب دوسروں سے دشمنی نہیں ہوتی تھی تو آپس میں ایک دوسرے سے لڑتے تھے۔ جیسا کہ قطامی (بنی امیہ کے پہلے دور کا) شاعر اپنے اشعار میں ا س بات کا تذکرہ کرتا ہے:

ہمارا کام پڑوسیوں اور دشمنوں پر ہجوم اور غارت گری تھا اور اگرہمیں کبھی کوئی نہ ملتا تو اپنے بھائی کا مال لوٹ لیا کرتے تھے۔(١)

اس زمانے میں جو جنگیں اوس اور خزرج نامی دو قبیلوںکے درمیان قصاص اور خونخواہی کی بنا پر شروع ہوئی تھیں وہ یثرب (مدینہ) میں اس قدر شدید اور زیادہ بڑھ گئی تھیں کہ کسی میں جرأت نہیں تھی کہ وہ اپنے علاقے یا جائے امن سے دور جائے ان لڑائیوں نے عرب کی زندگی کو مفلوج اور ان کی حالت کو پست کردیا تھا۔ قرآن مجید ان کی اس رقت بار حالت کو یاد دلاکر، اسلام کے سایہ میں جو ان کے درمیان بھائی چارگی قائم ہوئی اس کے بارے میں اس طرح سے ذکر کرتا ہے۔

''... اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں نجات دی اور اللہ اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاؤ''۔(٢)

___________________

(١) و احیاناً علی بکر اخینا٭اذا مالم نجد الا اخانا ۔

احمد امین، گزشتہ حوالہ، ص٩؛ فیلیپ حتی، گزشتہ حوالہ، ص٣٥؛ حماسة ابی تمام حبیب اوس الطائی (کلکتہ: مطبع لیسی، ١٨٩٥ئ)،ص ٣٢.

(٢) سورۂ آل عمران،٣، آیت ١٠٣

۴۱

حرام مہینے

صرف حرام مہینوں (ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب) میں جو کہ جناب ابراہیم اور جناب اسماعیل کی دیرینہ سنت کی یاد اوران کی بچی ہوئی تعلیمات میں سے تھی(١) ان مہینوں کے احترام میں عربوں کے درمیان، آپس میں جنگ بندی (مقدس صلح) کا قانون پایا جاتا تھا۔ اور ان کو موقع ملتا تھا کہ وہ کچھ دن سکون سے رہیں اور تجارت اور کعبہ کی زیارت کرسکیں(٢) اور ان مہینوں میں کوئی جنگ ہوجاتی تھی تو اس کو ''حرب الفجار'' (ناروا اور گناہ آلود جنگ) کہتے تھے۔(٣)

عرب کے سماج میں عورت

جاہل عربوں میں جہالت اور خرافات کا ایک واضح نمونہ، عورت کے بارے میں ان کے مخصوص نظریات تھے۔ اس دور کے معاشرے میں عورت انسانیت کے معیار ،سماجی حقوق اور آزادی

______________________

(١) سید محمد حسین طباطبائی، تفسیر المیزان (بیروت: موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ط ٢، ١٣٩١ھ.ق)، ج٩، ص ٢٧٢.

(٢) وہ لوگ مہینوں کے ناموں کو بدل کر کے حرام مہینوں کو پیچھے کردیتے تھے اور اپنے کو اس کے حد و حدود سے الگ کر کے حرام مہینے میں بھی جنگ و خونریزی کرتے تھے اسی مناسبت سے خداوند عالم نے فرمایا ہے: ( محترم مہینوں میں تقدیم و تاخیر، کفر میں ایک قسم کی زیادتی ہے۔ جس کے ذریعہ کفار کو گمراہ کیا جاتا ہے کہ وہ ایک سال اسے حلال بنالیتے ہیں اور دوسرے سال اسے حرام کردیتے ہیں تاکہ اتنی تعداد برابر ہو جائے جتنی خدا نے حرام کی ہے۔ اور حرام خدا حلال بھی ہو جائے ...)، (سورۂ توبہ، ٩،آیت ٣٧.)

(٣) ابن واضح، تاریخ یعقوبی، (نجف: المکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج٢، ص١٢؛ شہرستانی، الملل و النحلل، (قم: منشورات الرضی، ط ٢)، ج٢، ص ٢٥٥.

۴۲

سے بالکل محروم تھی۔ اور اس سماج میں گمراہی اور سماج کے وحشی پن کی بنا پر لڑکی اور عورت کا وجود باعث ذلت و رسوائی سمجھا جاتا تھا۔(١) وہ لڑکیوں کو میراث کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ارث کے حقدار صرف وہ لوگ ہیں جو تلوار چلاتے ہیں اور اپنے قبیلہ کا دفاع کرتے ہیں۔(٢) ایک روایت کی بنا پر عرب میں عورت کی مثال اس مال جیسی تھی جو شوہر کے مرنے کے بعد (لڑکا نہ ہونے کی صورت میں) شوہر کے دوسرے اموال اور ثروت کی طرح سوتیلی اولاد کے پاس منتقل ہوجاتی تھی۔(٣)

واقعات گواہ ہیں کہ شوہر کے مرنے کے بعد اس کا بڑا لڑکا اگر اس عورت کو رکھنے کا خواہش مند ہوتا تھا (یعنی اپنی بیوی بنانا چاہتا تھا) تو اس کے اوپر ایک کپڑا ڈال دیتا تھا اور اس طریقہ سے میراث کے طور پر عورت اسے مل جایا کرتی تھی اس کے بعد اگر وہ چاہتا تھا تو اسے بغیر کسی مہر کے، صرف میراث ملنے کی بنا پر اس سے شادی کرلیتا تھا اور اگر اس سے شادی کا خواہش مند نہ ہوتا تو دوسروں سے اس کی شادی کردیتا تھا اور اس عورت کا مہر خود لے لیتا تھا۔ اور اس کے لئے یہ بھی ممکن تھا کہ اسے ہمیشہ کے لئے دوسرے مردوں سے شادی کرنے سے منع کردے، یہاں تک وہ مرجائے اور اس کے مال کا مالک بن جائے۔(٤)

______________________

(١) سید محمد حسین طباطبائی، تفسیر المیزان (قم: مطبوعاتی اسماعیلیان، ط٣، ١٣٩٣ھ.ق)، ج٢، ص٢٦٧۔

(٢) ابوالعباس المبرد، الکامل فی اللغة و الادب، مع حواشی: نعیم زرزور (اور) تغارید بیضون (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ط١، ١٤٠٧ھ.ق)، ج١، ص ٣٩٣؛ محمد بن حبیب، المحبر (بیروت: دارالافاق الجدیدة)، ص ٣٢٤۔

(٣) کلینی، الفروع من الکافی، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ، ط٢، ١٣٦٢)، ج٦، ص ٤٠٦.

(٤)طباطبائی، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٢٥٨۔ ٢٥٤؛ سیوطی، الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور، (قم: مکتبة آیة اللہ مرعشی نجفی، ١٤٠٤ھ.ق)، ج٢، تفسیر آیۂ ٢٢ سورۂ نسائ، ص ١٣٢۔ ١٣١؛ شہرستانی، الملل و النحل (قم: منشورات الرضی، ط٢)، ج٢، ص ٢٥٤؛ حسن، حسن، حقوق زن در اسلام و یورپ (ط٧، ١٣٥٧)، ص٣٤۔عرب اس شخص کو ''ضیزن'' کہتے تھے جو باپ کے مرنے کے بعد اس کی بیوی کو اپنی بیوی بنالیتا تھا۔ (محمد بن حبیب، المحبر ، ص ٣٢٥)، ابن قتیبہ دینوری نے اس قسمکی عورتوں کی تعداد کو ذکر کیا ہے، جنھوں نے شوہر کے مرنے کے بعد اپنے لڑکوں سے شادی کرلی تھی (المعارف، تحقیق: ثروة عکاشہ، قم: منشورات الرضی، ص ١١٢.)

۴۳

چونکہ باپ کی بیوی سے شادی کرنا اس وقت قانوناً منع نہیں تھا۔ لہٰذا قرآن کریم نے ان کو اس کام سے منع کیا(١) ۔ دور اسلام میں مفسرین کے کہنے کے مطابق ایک شخص جس کا نام ''ابو قبس بن اسلت'' تھا جب وہ مر گیا تو اس کے لڑکے نے چاہا کہ اپنے باپ کی بیوی کے ساتھ شادی کرے تو خدا کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی( لایَحِلُّ لَکُمْ اَن تَرِثُوْا النِّسَائَ... ) ،(٢) تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ تم عورت کو ارث میں لو۔

اس سماج میں متعدد شادیاں بغیر کسی رکاوٹ کے رائج تھیں۔(٣)

عورت کی زبوں حالی ( ٹریچڈی)

یہ بات مشہور ہے کہ عربوں میں سب سے بری رسم یہ تھی کہ وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ کیونکہ لڑکیاں ایسے سماج میں جو تہذیب اور تمدن سے دور، ظلم و بربریت میں غرق ہو، مردوں کی طرح لڑکر اپنے قبیلہ سے دفاع نہیں کرسکتی تھیں کیونکہ لڑنے کی صورت میں یہ ممکن تھا لڑکیاں دشمن کے ہاتھ لگ جائیں اور ان سے ایسی اولادیں پیدا ہوں جو باعث ننگ اور عار بنیںلہٰذا وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے(٤) اور کچھ لوگ مالی مشکلات کی خاطر، فقر و افلاس کے خوف

______________________

(١)''ولاتنکحوا ما نکح آبائکم من النسائ'' ( سورۂ نسائ، ٤،آیت ٢٢.)

(٢) طباطبائی، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٢٥٨؛ طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن (بیروت: دارالمعرفہ، ط ٢، ١٣٩٢ھ.ق)، ج٤، ص ٢٠٧؛ سورۂ نساء کی آیت نمبر ١٩ کی تفسیر کے ذیل میں۔

(٣) طباطبائی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٦٧۔

(٤) شیخ عباس قمی، سفینة البحار (تہران: کتابخانۂ سنایی، ج١)، ص ١٩٧ (کلمۂ جھل)؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق: محمد ابو الفضل ابراہیم (قاہرہ: دار احیاء العربیہ، ١٩٦١ئ)، ج١٣، ص ١٧٤؛ کلینی ، الاصول من الکافی، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ)، ج٢، باب ''البر بالوالدین''، ح١٨، ص ١٦٣؛ قرطبی، تفسیر جامع الاحکام (بیروت: دار الفکر)، ج١٩، ص ٢٣٢۔

۴۴

سے ایسا کرتے تھے۔(١)

مجموعی طور پر لڑکیاں اس سماج میں منحوس سمجھی جاتی تھیں قرآن کریم نے ان کی اس غلط فکر کو اس طرح سے نقل کیا ہے:

''اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے، قوم سے منھ چھپاتا ہے کہ بہت بری خبر سنائی گئی ہے اب اس کو ذلت سمیت زندہ رکھے یا خاک میں ملادے، یقینا یہ لوگ بہت برا فیصلہ کر رہے ہیں''۔(٢)

عورت کو محروم اور دبانے کی باتیں اس زمانے کے عربی ادب اور آثار میں بہت زیادہ ملتی ہیں جیسا کہ ان کے درمیان یہ بات عام تھی کہ جس کے پاس لڑکی ہوتی تھی اس سے وہ لوگ کہتے تھے کہ ''خدا تم کو اس کی ذلت سے محفوظ رکھے اور اس کے اخراجات کو پورا کرے اور قبر کو داماد کا گھر بنادے۔(٣)

ایک عرب شاعر نے اس بارے میں کہا ہے:

جس باپ کے پاس لڑکی ہو اور وہ اس کو زندہ رکھنا چاہے تو اس کے لئے تین داماد ہیں: ١)ایک وہ گھر جس میں وہ رہتی ہے۔ ٢)دوسرے اس کا شوہر جو اس کی حفاظت کرتا ہے۔ ٣)اور تیسرے وہ قبر جو اس کو اپنے اندر چھپالیتی ہے۔ لیکن ان میں سب سے بہتر قبر ہے۔(٤)

______________________

(١) سورۂ انعام،٦، آیت ١٥١؛ سورۂ اسرائ،١٧، آیت ٣١؛ قرطبی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٣٢۔

(٢) سورۂ نحل، ١٦،آیت ٥٩۔ ٥٨۔

(٣)آمنکم اللّٰه عار ها و کفاکم مؤنتها، وصاهرتم القبر!

(٤) لکل اب بنت یرجی بقائها

ثلاثة اصهار اذا ذکرو الصهر

فبیت یغطیها و بعل یصونها

و قبر یواریها و خیرهم القبر!

(عائشہ عبد الرحمن بنت الشاطی، موسوعة آل النبی (بیروت: دار الکتاب العربیہ، ١٣٨٧ھ.ق، ص ٤٣٥.)

کہتے ہیں کہ ایک شخص جس کا نام ابوحمزہ تھا وہ صرف اس وجہ سے اپنی بیوی سے ناراض ہوگیا اور پڑوسی کے یہاں جاکر رہنے لگا کہ اس کے یہاں لڑکی پیدا ہوئی تھی۔ لہٰذا اس کی بیوی اپنی بچی کو لوری دیتے وقت یہ اشعار پڑھتی تھی۔

۴۵

ابوحمزہ کو کیا ہوگیا ہے کہ جو ہمارے پاس نہیں آتا ہے اور پڑوسی کے گھر میں رہ رہا ہے وہ صرف اس بنا پر ناراض ہے کہ ہم نے لڑکا نہیں جنا! خدا کی قسم یہ کام میرے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے جو بھی وہ ہم کو دیتا ہے ہم اسے لے لیتے ہیں۔ہم بمنزلۂ زمین ہیں کہ کھیت میں جو بویا جائے گا وہی اگے گا ۔(١)

حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو اس کی ماں کی باتیں اس سماج کے نظام کے خلاف ایک احتجاج ہیں اور ان کے درمیان عورت کی پائمالی کا ایک طرح سے اظہار ہے۔

سب سے پہلا قبیلہ جس نے اس غلط رسم کی بنیاد ڈالی، وہ قبیلۂ ''بنی تمیم'' تھا کہا جاتا ہے کہ اس قبیلہ نے نعمان بن منذر کو ٹیکس دینے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے ان کے درمیان جنگ ہوئی جس میں بہت ساری لڑکیاں اور عورتیں اسیر کرلی گئیں جس وقت بنی تمیم کے نمائندے اسیروں کو چھڑانے کے لئے نعمان کے دربار میں حاضر ہوئے تو اس نے یہ اختیار خود ان عورتوں کو دیدیا کہ چاہیں تو حیرہ میں رہیں اور چاہیں تو بنی تمیم کے پاس چلی جائیں۔ قیس بن عاصم جو کہ قبیلہ کا سردار تھا اس کی لڑکی بھی اسیروں کے درمیان تھی اس نے ایک درباری سے شادی کرلی تھی لہٰذا اس نے دربار میں رکنے کا

______________________

(١) ما لابی حمزة لایأتینا

یظل فی البیت الذی یلینا

غضبان الا نلد البنینا

تالله ما ذالک فی ایدینا

وانما نأخذ ما أعطینا

و نحن کالارض لزارعینا

ننبت ما قدزرعوه فینا

(جاحظ، البیان والتبیین، بیروت: داراحیاء التراث العربی، ١٩٦٨ئ، ج١، ص ١٢٨۔ ١٢٧؛ عایشہ بنت الشاطی، گزشتہ حوالہ، ص ٤٣٤۔ ٤٣٣؛ آلوسی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب، ج٣، ص ٥١.

۴۶

فیصلہ کرلیا، قیس اس بات سے سخت ناراض ہوا اور اس نے اسی وقت عہد کرلیا کہ اس کے بعد وہ اپنی لڑکیوں کو قتل کر ڈالے گا،(١) اور اس نے یہ کام انجام دیا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ رسم دوسرے قبیلوں میں بھی رائج ہوگئی، کہا جاتا ہے کہ اس جرم اور جنایت میں قیس، اسد، ہذیل اور بکر بن وائل نامی قبیلے شامل تھے۔(٢)

البتہ یہ رسم عام نہیں تھی کچھ قبیلے اور بڑی شخصیتیں اس کام کی مخالف تھیں، ان میں سے جناب عبد المطلب پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م کے جد تھے جو اس کام کے شدید مخالف تھے،(٣) اور کچھ لوگ جیسے زید بن عمرو بن نفیل اور صعصعہ بن ناجیہ، لڑکیوں کو ان کے باپ سے فقر کے خوف سے زندہ درگور کرتے وقت لے لیتے تھے اور ان کو اپنے پاس رکھتے تھے۔(٤) اور کبھی لڑکیوں کے عوض میں ان کے باپ کو اونٹ دیدیا کرتے تھے۔(٥) لیکن واقعات گواہ ہیں کہ یہ رسم عام طور پر رائج تھی، کیونکہ :

١۔صعصعہ بن ناجیہ نے زمانۂ اسلام میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا تھا کہ میں نے دور جاہلیت میں ٢٨٠ لڑکیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا ہے(٦)

______________________

(١)ابوالعباس المبرد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٩٢؛ ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٣، ص ١٧٩۔

(٢) ابن ابی الحدید، گزشتہ حوالہ، ج١٣، ص ١٧٤۔

(٣) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٢٤؛ تاریخ یعقوبی، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص١٠

(٤) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٤٥، ابن ہشام، السیرة النبویہ، تحقیق: مصطفی السقاء (اوردوسرے لوگ) (تہران: آفسٹ، مکتبة الصدر)، ج١، ص ٢٤٠۔

(٥) محمد ابوالفضل ابراہیم( اور ان کے معاونین)، قصص العرب (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط٤)، ج٢، ص٣١؛ ابوالعباس المبرد، گزشتہ حوالہ، ص ٢٩٤؛ فرزدق کے جد، صعصعہ، عصر اسلام کے شاعر تھے اور وہ اپنے جد کے اس فعل پر افتخار کرتے تھے اور کہتے تھے : و منا الذی منع الوائدات فأحیا الوئید فلم یوأد۔ (قرطبی، تفسیر جامع الاحکام، ج١٩، ص ٢٣٢)۔

(٦) ابوالعباس المبرد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٣٩٤

۴۷

٢۔قیس بن عاصم نے عہد کرنے کے بعد (جیسا کہ پہلے گزر چکا) اپنی ١٢ یا ١٣لڑکیوں کو قتل کیا۔(١)

٣۔پیغمبر اسلاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے پہلے پیمان عقبہ میں (بعثت کے بارہویں سال) جو کہ یثربیوں کے ایک گروہ کے ساتھ کیا تھا،معاہدہ کی ایک شرط یہ قرار دی کہ لڑکیوں کو زندہ درگور نہ کریں۔(٢)

٤۔ فتح مکہ کے بعد پیغمبر اکرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم م نے خدا کے حکم سے اس شہر کی مسلم عورتوں سے بیعت لیتے وقت یہ شرط رکھی تھی کہ اپنی لڑکیوں کو قتل کرنے سے پرہیز کریں۔(٣)

٥۔قرآن کریم نے متعدد مقامات پر اس رسم کی شدید مذمت فرمائی ہے۔ لہٰذا ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مسئلہ اس سماج کی سب سے بڑی مشکل تھی جس کے بارے میں قرآن کریم نے خبردار کیا ہے۔

١۔ اور خبردار! اپنی اولاد کو فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو کہ ہم انھیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی رزق دیتے ہیں بیشک ان کا قتل کردینا بہت بڑا گناہ ہے۔(٤)

______________________

(١) ابن اثیر، اسد الغابہ (تہران: المکتبة الاسلامیہ، ١٣٣٦)، ج٤، ص ٢٢٠ (شرح حال قیس بن عاصم) منقول ہے کہ قیس عصر اسلام میں مسلمان ہوئے اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا: زمانۂ جاہلیت میں،میں نے اپنی آٹھ لڑکیوںکو زندہ درگور کردیاتھا اب اس فعل کا جبران کیسے کروں؟ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ ان میں سے ہر ایک کے بدلے ایک غلام آزاد کرو ۔ اس نے کہا: میرے پاس بہت اونٹ ہیں ۔ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ان میں سے ہرایک کے بدلے اونٹ کی قربانی بھی کرسکتے ہو۔ (قرطبی، تفسیر جامع الاحکام، ج١٩، ص ٢٣٣.)

(٢) ابن ہشام ، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص٧٥.

(٣) ''یا ایها النبی اذا جائک المؤمنات یبایعنک علی ان لا یشرکن بالله شیئاً ولایسرقن و لایزنین و لا یقتلن اولادهن و لایأتین ببهتان یفترینه بین ایدیهن و ارجلهن ولایعصینک فی معروف فبایعهن واستغفر لهن اللّٰه ان اللّٰه غفور رحیم ۔'' (سورۂ ممتحنہ،٦٠،آیت ١٢.)

(٤) سورۂ اسرائ،١٧، ''ولا تقتلوا اولادکم خشیة املاق نحن نرزقهم وایاکم ان قتلهم کان خطأ کبیراً ، آیت ٣١.

۴۸

٢۔ اور اسی طرح ان شریکوں نے بہت سے مشرکین کے لئے اولاد کے قتل کو بھی آراستہ کردیا ہے تاکہ ان کو تباہ و برباد کردیں اوران پر دین کو مشتبہ کردیں۔(١)

٣۔ یقینا وہ لوگ خسارہ میں ہیں جنھوں نے حماقت میں بغیر جانے بوجھے اپنی اولاد کو قتل کردیا۔(٢)

٤۔ اپنی اولاد کوغربت کی بنا پر قتل نہ کرنا کہ ہم تمھیں بھی رزق دے رہے ہیں اورانھیں بھی۔(٣)

٥۔ اور جب زندہ درگور لڑکیوںکے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ انھیں کس گناہ میں مارا گیا ہے۔(٤)

______________________

(١) سورۂ انعام، ٦،(وَکَذَلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیرٍ مِنْ الْمُشْرِکِینَ قَتْلَ َوْلاَدِهِمْ شُرَکَاؤُهُمْ لِیُرْدُوهُمْ وَلِیَلْبِسُوا عَلَیْهِمْ دِینَهُمْ وَلَوْ شَائَ اﷲُ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا یَفْتَرُونَ) آیت ١٣٧.

(٢) سورۂ انعام، ٦،( قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ قَتَلُوا َوْلاَدَهُمْ سَفَهًا بِغَیْرِ عِلْمٍ ) آیت ١٤٠.

(٣)سورہ انعام،٦،( وَلاَتَقْتُلُوا َوْلاَدَکُمْ مِنْ ِمْلاَقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَِیَّاهُم ) آیت ١٥١.

(٤) سورۂ تکویر، ٨١،( واذالمؤودة سئلت بای ذنب قتلت) آیت ٩۔ ٨.

۴۹

دوسری فصل

عربوں کے صفات اور نفسیات

متضاد صفات

بدو عرب میں وحشیانہ عادت اور لوٹ مار کے باوجود اچھی عادتیں ، جیسے عفو و کرم، مہمان نوازی، شجاعت اور دلیری بھی پائی جاتی تھی۔ خاص طور سے وہ اپنے وفائے عہد و پیمان کے شدید پابند تھے یہاں تک کہ اپنے عہد و پیمان کی خاطر اپنی جان کی بازی لگادیتے تھے۔ اور یہ ان کی سب سے نمایاں صفت شمار ہوتی تھی۔ ان کے اندر متضاد صفات کو دیکھ کر لوگ حیرت و استعجاب میں پڑ جاتے تھے۔ اور وہ ایسے دور دراز علاقہ میں زندگی بسر کرتے تھے جو دنیا میں کم نظیر تھا۔ اگر ان کے حالات زندگی ایسے نہ ہوتے تو اس بات کا سمجھنا بہت مشکل تھا۔ وہی لڑاکو عرب جو لوٹ مار کے پیاسے تھے جس وقت ان کے اندر انتقام کی آگ بھڑکتی تھی تو وہ بدترین جرائم کرنے سے بازنہیں آتے تھے۔ اپنے گھر میں بہت بڑے مہمان نواز، مہربان اور مونس تھے۔ اگر ایک کمزور اور بے چارہ، ان سے پناہ مانگتاتھا یا ایک ستمدیدہ (اگرچہ دشمن ہی کیوں نہ ہو) ان کی طرف دست نیاز دراز کرتا تھا یا اس کو اپنی پناہ گاہ سمجھتا تھا تو اس کے ساتھ اس طرح پیش آتے تھے کہ گویا وہ شخص، ان کے خاندان یا قبیلہ کا ایک فرد ہے. او رکبھی تو اس کادفاع

۵۰

کرنے میں اپنی جان کی بازی لگا دیتے تھے۔(١)

میدان جنگ میں شجاعت و دلیری عفو و درگزر، قبیلہ کے سامنے تسلیم اور ایسے ظالموںسے انتقام لینے میں ، جنھوں نے اس کے یا اس کے رشتہ داروں کے حقوق کو پائمال کردیا تھا بے رحمی کے ساتھ پیش آنا عرب کی شرافت اور فضیلت سمجھی جاتی تھی۔(٢)

عربوں کی اچھی صفتوں کی بنیاد

جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ عربوں کے درمیان اگرچہ پانی اور چراگاہوںکے بارے میں رقابت اکثر کشمکش کا باعث بنتی تھی اور قبائل کوایک دوسرے کے ساتھ الجھا اور کشت و کشتار پر مجبور کردیتی تھی۔ لیکن دوسری طرف سے ان کے اندر کمزوری اور عاجزی کے احساس نے ہی ان کے مزاج کی سختی اور لجاجت کے مقابلہ میں اس فکر کو ہوا دی تھی کہ سبھی ایک مقدس رسم کے محتاج ہیں۔ اور ایسی سرزمین میں جہاں مہمان سرائیں اور مسافر خانے نہ ہوتے ہوں، مہمانوں کی ضیافت سے بچنا ان کے اخلاق اور عزت کے خلاف تھا۔ عہد جاہلیت کے شعراء ہمارے زمانے کے صحافیوں کا رتبہ رکھتے تھے۔ان کی بہادری اور دلیری کے ساتھ ان کی مہمان نوازی ، قوم عرب کی نمایاں فضیلت شمار کی جاتی تھی ۔ اور اس کے بارے میں وہ اشعار کہا کرتے تھے اور پڑھتے تھے۔(٣)

______________________

(١) ڈاکٹر گوسٹاولوبون، تمدن اسلام و عرب، ترجمہ: سید ہاشم حسینی، ص ٦٥۔ ٦٤؛ ویل ڈورانٹ، اس بارے میں لکھتا ہے: ''عرب کے بدو، مہربان بھی تھے اور خونخوار بھی، سخی بھی تھے اور کنجوس بھی، خیانت کار بھی تھے اورامین بھی، محتاط بھی تھے اور بہادر بھی ،اگرچہ فقیر تھے لیکن دنیا میں کرم و بزرگی سے پیش آتے تھے'' تاریخ تمدن، ترجمہ: ابوطالب صارمی (تہران: سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، ط ٢،)، ج٤، ص ٢٠١.

(٢) احمد امین، فجر الاسلام، (قاہرہ: مکتبة النہضة المصریہ، ط ٩، ١٩٦٤م)، ص ٧٦.

(٣) فلیپ حتی، تاریخ عرب، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ، (تہران: آگاہ، ط ٢، ١٣٦٦)، ص ٣٥۔ ٣٣.

۵۱

لیکن یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ ان کی بہت ساری اچھی خوبیاں جیسے شجاعت، مہمان نوازی، کرم اور پناہ گزینوں کی حمایت (جیسا کہ بعد میں اسلامی تعلیم اور کلچر میں یہ چیزیں ذکر ہوئی ہیں) روحانی اور انسانی اقدار سے نشأت نہیں پائی ہیں۔ بلکہ معاشرتی اسباب اور جاہلی کلچر جیسے قبیلوں کے درمیان فخر و مباہات کی بنا پر تھیں۔ کیونکہ ایسے ماحول میں جہاں پر نظم و امنیت نہ ہو، شجاعت اور دلیری ان کی زندگی کا لازمہ تھی۔ نام و نمود سے دلچسپی، منصب کی آرزو و تمنا، شعراء کی مذمت کا خوف، ذلت و رسوائی اور بدمزاجی وغیرہ نے عربوں کو جود و سخاوت، وفائے عہد، پناہ گزینوں کی حمایت اور اس طرح کی دوسری اچھائیوں پر اکسایا تھا۔ مہمان نوازی اور دلیری کی عادتیں ایسے ماحول میں کہ جہاں لوگ مال واولاداور جنگجوؤں کی کثرت تعداد پر فخر کیا کرتے تھے۔ ان کی سربلندی اور عزت کا وسیلہ بن گئی تھی اور یہ بات اس کے لئے واضح ہے جو تاریخ اسلام سے آگاہ ہے۔(١)

جہالت اور خرافات

حجاز کے عرب جو عموماً صحرا میں زندگی بسر کرتے تھے۔ تہذیب اور کلچر سے دور فکری جمود میں اس طرح سے گرفتار ہوگئے تھے کہ بہت سی چیزوں کے درمیان موجود نسبت کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ وہ چیزوں کی منطقی تحلیل اور تجزیہ نہیں کرسکتے تھے اور نہ ہی علت و معلول کے درمیان موجود رابطے کو پوری طرح سے سمجھ سکتے تھے۔ مثلاً اگر ایک شخص مریض ہوگیا اور تکلیف جھیل رہاہے تو ا سکے اطراف کے لوگ اس کے لئے دوا تجویز کرتے تھے اور وہ اس درد و درمان کے درمیان ایک طرح کا ربط سمجھتا تھا لیکن یہ فہم، دقیق اور تحلیلی نہیں ہوا کرتی تھی۔ وہ صرف اتنا جانتا تھا کہ اس کے قبیلہ کے لوگ اس دوا کو فلاں درد میں استعمال کرتے ہیں۔ بطور نمونہ وہ آسانی سے یہ بات مان لیتا تھا کہ قبیلہ کے سردار کا خو ن ہادی نامی

______________________

(١) رجوع کریں: جعفر مرتضی العاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، (قم: ١٤٠٢ھ.ق)، ج١، ص ٥٤۔ ٥٠.

۵۲

مسری بیماری ( جو عموماً کتے کے کاٹنے سے پیدا ہوتی ہے)کا علاج کرتاہے اسی طرح وہ یہ تصور کرتا تھا کہ بیماری کی وجہ، روح کی کثافت ہوا کرتی ہے جو بیمار کے اندر داخل ہوجاتی ہے اسی بنا پر یہ کوشش ہوا کرتی تھی کہ وہ روح، بیمار کے بدن سے نکل جائے، یا اگر کسی کے بارے میں پاگل ہو جانے کا خطرہ ہوتا تھا تواس کی گردن میں مردار کی ہڈی یا غلاظت مل دیا کرتے تھے تاکہ وہ جنون سے محفوظ رہ سکے۔ دیو کا عقیدہ بھی ان کے یہاں ملتاہے وہ معتقد تھے کہ بھیانک شکلیں رات کے وقت خالی مکانوں میں دکھائی پڑتی ہیں یا بیابانوں میں لوگوں کے راستے میں حائل ہوجاتی ہیں اور ان کو آزار و اذیت پہنچاتی ہیں۔

جس وقت وہ اپنے مویشیوں کو پانی پلانے کے لئے گھاٹ پر لے جاتے تھے تو اگر وہاں پر وہ پانی نہیں پیتے تھے تو یہ خیال کرتے تھے کہ ان کے سینگ کے درمیان ایک دیو بیٹھا ہے جو انھیں پانی نہیں پینے دیتا ہے لہٰذا وہ دیو کو بھگانے کے لئے ان مویشیوں کے سر او رمنھ پر ڈنڈے مارا کرتے تھے۔(١) اس قسم کی مضحکہ خیز حرکتیں ان کے درمیان بہت زیادہ رائج تھیں۔

وہ اس طرح کی حرکتوں کے بارے میں (جب کہ یہ حرکتیں ان کے قبیلہ کے اندر پائی جاتی ہوں) زرّہ برابر بھی شک و تردید نہیں کرتے تھے کیونکہ انکار اور تردید کی وجہ، دقت نظر، بیماری کی تحقیق کی صلاحیت، اسباب و عوارض اور ان کا علاج وغیرہ ہے جبکہ اس زمانہ میں عرب، جہالت میں زندگی بسر کر رہے تھے اور اس حد تک فہم و فراست ان کے اندر نہیں پائی جاتی تھی۔(٢)

البتہ کبھی جاہلیت کے اشعار یا اس زمانے کے محاورے یا ان کی داستانوں میں روشن فکری کے اشارے اور علت و معلول کے درمیان میں ارتباطات کی باتیں ملتی ہیں ۔ لیکن وہ بھی عمیق تفکر ،تشریح اور تجزیہ کے قابل نہیں ہیں۔ اور چیزوںکے بارے میں تجزیہ کی صلاحیت کے نہ ہونے کا اصل راز

______________________

(١) محمود شاکری آلوسی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب، تصحیح: محمد بہجة الاثری (قاہرہ: دار الکتب الحدیثہ ط٣)، ج٢، ص ٣٠٣.

(٢) جاہل عربوں کی خرافات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے رجوع کریں: بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب، ج٢، ص ٣٦٧۔ ٣٠٣؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، (قاہرہ: دا راحیاء الکتب العربیہ)، ج١٩، ص ٤٢٩۔ ٣٨٢۔

۵۳

ان کے درمیان موجود مختلف طرح کے موہومات اور خرافات تھے جنھیں وہ یقین کرتے تھے۔ اور اس طرح کے باور سے عرب اوراسلام کی تاریخی کتابیں پر ہیں۔(١)

علم و فن سے عربوں کی آگاہی

بعض دانشوروں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ عربوں کے یہاں مختلف طرح کے علوم جیسے طب، ستارہ شناسی، قیافہ شناسی(٢) وغیرہ پائے جاتے تھے لیکن یہ دعوا مبالغہ آمیز ہے۔ عربوں کی آگاہی ان علوم و فنون سے ایک علم و فن کی حد تک منظم و مرتب شکل میں نہیں تھی بلکہ ایک سطحی اور بکھری ہوئی معلومات کی شکل میں تھی جوان کو حدس و گمان اور قبیلہ کے بڑے بوڑھے مرد اور عورتوں سے سن سنا کر حاصل ہوئی تھیں۔ لہٰذا اس طرح کی معلومات کو ''علم'' نہیں کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً ستارہ شناسی کے سلسلے میںعربوں کی آگاہی صرف بعض ستاروں کے وقت طلوع اور غروب تک محدود تھی وہ بھی صرف اس بنا پر تھی کہ اس وسیع و عریض صحرا میں راستوں کی تلاش یا شب و روز کے اوقات کو معلوم کرسکیں۔ طب کے بارے میں ان کی آگاہی، ابن خلدون کے کہنے کے مطابق اس طرح سے تھی:

طب کے بارے میں معلومات عام طور سے بعض لوگوں میں مختصر اور محدود تجربات کی بنیاد پر تھی اور علم طب وراثتی طور پر قبیلہ کے بڑے بوڑھوںکے ذریعہ نسل در نسل منتقل ہوتے ہوئے ان کی اولاد تک پہنچ جاتا تھا۔ اور کبھی کبھار بعض مریض اس علاج کے ذریعہ ٹھیک بھی ہوجایا کرتے تھے۔ لیکن وہ معالجہ نہ طبی قانون کے مطابق ہوا کرتا تھا او رنہ ہی انسان کے مزاج او رفطرت کے مطابق۔(٢) حارث بن کلدہ کی طبابت بھی اسی طرح کی تھی۔

______________________

(١) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ١٨٢، ٢٦١۔ ٢٢٣ ؛ اور ٣٢٧.

(٢) مقدمہ، ترجمہ: محمد پروین گنابادی، (تہران: مرکز انشارات علمی و فرہنگی، ١٣٦٢، ط ٤)، ج٢) ص ١٠٣٤۔

۵۴

امی لوگ

اہل حجاز قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق ''امی'' یعنی نومولود بچہ کے مانند ہمیشہ جاہل اور ان پڑھ ہوا کرتے تھے ۔اور لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔

بلاذری اس بارے میں لکھتا ہے:

ظہور اسلام کے وقت صرف ١٧ افراد قریش میں او ریثرب (مدینہ) میں دو بڑے قبیلے اوس اورخزرج کے درمیان ١١، افراد لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔(١)

جبکہ قریش مکہ میں ایک خاص مقام او ردرجہ رکھتے تھے او رتجارت کے پیشہ میں لکھنے پڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس وجہ سے یہ کیسے باور کیا جاسکتاہے کہ وہ قوم جوا س حد تک جہالت اور نادانی میں ڈوبی ہواس کے پاس اس قسم کے علوم ہوں جس کا بعض دانشوروں نے دعوی کیا ہے؟!

شعر

عہد جاہلیت کے عربوں میں صرف ایک اہم خوبی پائی جاتی تھی کہ وہ شعر او رخطابت میں مہارت رکھتے تھے ان کے یہاں، شاعر ایک مورخ، ماہر نساب، ھجاگر، عالم اخلاق، صحافی، پیشین گوئی کرنے والا اور جنگ کا وسیلہ سمجھا جاتا تھا۔(٢) اس زمانے میں عرب کے بڑے شعراء کی موسمی بازاروں میں جیسے عکاظ، ذی المجاز اور مجنہ(٣) میں تجارتی اور ادبی آثار کی موسمی اور عمومی نمائشیں لگتی تھیں جس میں

______________________

(١) فتوح البلدان، (قم: منشورات مکبتة الارمیہ، ١٤٠٤ھ.ق)، ص ٤٥٩۔ ٤٥٧.

(٢) ویل ڈورانٹ، تاریخ تمدن، ج٤، عصر ایمان (بخش اول)، ترجمہ ابوطالب صارمی (تہران: سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی ط٢)، ص ٢٠٢.

(٣) اس بازار کے بارے میں رجوع کریں : بلوغ الارب، ج٢، ص ٢٧٠۔ ٢٦٤

۵۵

شعراء اپنے عمدہ اشعار او رقصیدوں کو پیش کیا کرتے تھے اور اس میں سے جس کے اشعار منتخب ہوتے تھے وہ اور اس کے قبیلہ والے اسے اپنے لئے باعث فخر و عزت سمجھتے تھے اور اس کے اشعار کو اہمیت او راعزاز کے طور پر خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکادیا جاتا تھا ''معلقات سبعہ'' سات بہترین، فصیح و بلیغ اور عمدہ قصیدے سات عظیم شاعر کے تھے جس کی مثال اور نظیر اس زمانہ میں نہیں ملتی تھی۔ لہٰذا انھیں دیوار کعبہ پر لٹکادیاگیاتھا۔(١) اور اسی وجہ سے انھیں معلقات سبعہ(سات عددلٹکے ہوئے قصیدے) بھی کہا جاتا تھا۔

عرب کے اشعار اپنے تمام تر لفظی حسن کے باوجود تہذیب و ثقافت کے نہ ہونے کی بنا پربلندی فکر سے خالی ہوا کرتے تھے۔ اس زمانہ کے اشعار کے عناوین، زیادہ تر عشق، شراب، عورت، جنگ اور قومی مسائل ہوا کرتے تھے۔ او راس میں لفظی جذابیت او رادبی نزاکتیں پائی جاتی تھیں۔

عرب اور ان کے پڑوسیوں کی تہذیب

علم و ہنر کے لحاظ سے عرب کے حالات کا تجزیہ کرنے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عرب کے جاہل اس زمانہ کے دو متمدن پڑوسی ملک یعنی ایران اور روم کے ساتھ تجارتی روابط اور مبادلہ کی بنا پر وہاں کے تمدن سے بہرہ مند تھے؟ او رکیا یہ روابط اور تعلقات ان کی زندگی میں ا نقلاب کا باعث بنے تھے؟

اس سوال کا جواب دینے کے لئے ہمیں یہ یاد دہانی کرانی چاہیئے کہ حجاز کے لوگ اس علاقے کی قدرتی اور جغرافیائی صورت حال کے لحاظ سے نہ صرف سیاسی اعتبار سے اس زمانے کی حکومتوںکے اثر و رسوخ سے دور تھے بلکہ تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے بھی ان کے دائرہ نفوذ سے خارج رہے ہیں عربوں کے لئے پڑوسی ملکوںکی تہذیب اور کلچر سے متاثر ہونے کے صرف تین راستے تھے:

١۔ تجارت ٢۔ ایران و روم کے زیر نفوذ حکومتیں (حیرہ او رغسان) ٣۔ اہل کتاب (یہودی اور عیسائی)لیکن ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ یہ اثرات کس حد تک تھے۔ اس سلسلہ میں بعض مورخین کے

______________________

(١) رجوع کریں: معلقات سبع، ترجمہ: عبد المحمد آیتی، تہران: سازمان انتشارات اشرفی، ط٢، ١٣٥٧)

۵۶

تاثرات مبالغہ آرائی سے خالی نہیں ہیں، جیسا کہ بعض نے کہا ہے:

قبائل عرب کے تعلقات ایران اور روم کے ساتھ ہونے کی بنا پر ایک حد تک وہ ان دونوں ملکوںکے کلچر اور تہذیب سے واقف ہوگئے تھے۔ عرب کے لوگ جب بھی تجارت کے لئے ایران اور روم جایا کرتے تھے تو ان دونوں ملکوں میں تہذیب اور کلچر کے نمونہ دیکھتے تھے۔ اور متوجہ ہوتے تھے کہ ایرانیوں اوررومیوں کی زندگی، عربوں کی زندگی سے کتنا فرق کرتی ہے۔ جیسا کہ ان کے آثار کو واضح طور پر زمانۂ جاہلیت کے اشعار میں دیکھا جاسکتا ہے اس کے علاوہ مسافر اور تاجر حضرات بہت سارے الفاظ اور قصوں کو ایران او روم کی سرزمین سے عربوں کے لئے تحفہ کے طور پر لیجاتے تھے اور اس کے ضمن میں ایرانیوں اور رومیوں کے بعض عقائد اور افکار بھی ان تک پہنچ جاتے تھے۔(١)

لیکن یہ خیال رہے کہ ان دونوں ملکوں میں حجاز کے تاجروںکی آمد و رفت بہت زیادہ ہونے کے باوجود ان کے تمدن اور فکری ارتقاء میں مؤثر نہیںبن ہوسکی کیونکہ ان تمدنوںکی روشنی بہت ہی تنگ راہ گزر سے پہنچتی تھی او رکبھی تودوسروں سے منقول باتوں میں تحریف پائی جاتی تھی ۔ جیسا کہ بعض واقعات جوایرانیوں او ررومیوں کے سلسلے میں نقل کئے گئے ہیں ان میں تحریف پائی گئی ہے درحقیقت اس زمانہ کے عرب، علم و دانش کو اپنے پڑوسیوں سے حاصل نہیں کیا کرتے تھے کیونکہ اس سلسلے میں ان کے لئے رکاوٹیں درپیش تھیں کہ جن میں سے کچھ یہ ہیں:

١۔ قدرتی رکاوٹ: جیسے پہاڑ، سمندر، صحراء وغیرہ جس کی بنا پر پڑوسیوں سے عربوں کے رابطے دشوار او رمشکل ہوگئے تھے۔

٢۔ عربوں کی اجتماعی زندگی اور عقلی و فکری سطح: اس زمانے کے ایرانیوں اور رومیوں سے

______________________

(١) حسن ابراہیمی، تاریخ سیاسی اسلام ، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ(تہران: سازمان انتشارات جاویدان، ط ٥، ١٣٦٢)، ج١، ص ٣٤.

۵۷

بہت فاصلہ رکھتی تھی جبکہ دوسری قوموں کے تمدن کو اپنانا ثقافتی نزدیکی کی صورت میں ممکن تھا۔

٣۔ عربوںکے درمیان جہالت: یہ چیز سبب بنی کہ جو لوگ رومیوں اور ایرانیوں سے رابطہ رکھتے تھے ان کے درمیان بعض حکمت آمیز باتیں یا داستانیں اور محاورات یا تاریخی واقعات اس انداز سے نقل ہوں کہ ناقل آسانی سے اس کو اپنے دل و دماغ میں محفوظ کر سکے اور بدو عرب یا دوسرے لوگ اس کو سمجھ سکیں اس وجہ سے ان کے درمیان رابطہ سطحی حد تک تھا اور وہ دقیق او رعمیق آگاہی سے بے خبر تھے۔

لہٰذا یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ پڑوسی ملکوں سے عربوں کے تعلقات صرف ان کی مادی اور ادبی زندگی میں مؤثر واقع ہوئے ہیں۔(١)

یہودیوں کی موجودگی کے اثرات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہودی حضرت موسیٰ کے زمانے سے اوراس کے بعد رومیوں کے مظالم، خاص طور سے یروشلم کی تباہی و بربادی کے بعد حجاز کی طرف ہجرت کرگئے۔(٢) حجاز میں یہودیوں کی آمد سے اس علاقہ کی زندگی کے حالات میں کافی تبدیلی آئی۔ اور توریت اور تلمود کی داستانیں بھی عربوں میں منتقل ہوگئیں۔(٣)

ایسی دستاویزات سامنے آئی ہیں جن سے پتہ چلا ہے کہ عربوں کے مقابلہ میں یہودیوں کی فکری اور مذہبی سطح بلند تھی. ظہور اسلام کے بعد بھی وہ بعض مسلمانوں سے اپنے مذہبی سوالات پوچھتے تھے۔(٤) لیکن چونکہ دین یہود (عیسائیوں کے دین کی طرح) بری طرح سے تحریف کا شکار ہوگیاتھا،لہٰذا عرب، جو افکار یہودیوں سے لیتے تھے وہ بیہودہ اور مسخ شدہ ہوا کرتے تھے یہودیوں کی تعلیم نہ صرف یہ کہ ان کے لئے راہ گشا نہ تھی بلکہ ان کی گمراہی میں اضافہ کا باعث تھی۔

______________________

(١) رجوع کریں: فجر الاسلام، ص ٢٩.

(٢) یہودی عام طور سے مدینہ میں خیبر ، فدک، او رتیماء میں رہتے تھے او رکچھ طائف میں بھی تھے لیکن کوئی ایسی نشانی نہیں ملتی جس سے پتہ چلے کہ مکہ میں بھی یہودی رہا کرتے تھے۔

(٣) جرجی زیدان، تاریخ تمدن اسلام، ترجمہ: علی جواہر کلام (تہران: امیر کبیر ١٣٣٣)، ج١، ص ١٦، تلخیص کے ساتھ)

(٤) صحیح بخاری، دار مطابع الشعب، ج٩، ص ١٣٦، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنہ.

۵۸

ایران اور روم کے مقابلہ میںعربوں کی کمزوری اور پستی

جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ حجاز کے لوگ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ایک قبیلہ کی شکل میں زندگی بسر کرتے تھے اور زیادہ تر بادیہ نشین ہوا کرتے تھے، ان کے درمیان ایک مرکزی حکومت نہیں تھی جوان کو منظم کرسکے ۔ وہ ہمیشہ لڑائی جھگڑا اور قبائلی جنگوں میں الجھے رہا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ ذلیل اور کمزور تھے اور اس زمانہ میں دوسری قوموںکے نزدیک ہرگز عزت نہیں رکھتے تھے اور جیسا کہ یہ قوم، قبیلہ اور خاندان کے دائرہ میں محصور تھی اور خیموں کی محدود فضا، اور اونٹوں کے چرانے سے تعصب، محرومیت اور بے نظمی کا شکار تھے۔ لہٰذا وہ ہرگز اپنے ملک اورجزیرة العرب کے حدود سے باہر نکل کر نہیں سوچتے تھے۔ او رنہ صرف ان کے ذہنوں سے پڑوسی ملکوں پر فتح و کامرانی کا تصور ختم ہوگیا تھا بلکہ اس زمانہ کی قدرتمند طاقتوں، یعنی روم اور ایران کے سامنے بری طرح سے کمزوری اور حقارت کا احساس کرنے لگے تھے جیسا کہ ایک شخص جس کا نام قتادہ تھا جو کہ خود ایک عرب تھا اس زمانے کی عرب قوم کو حقیر و ذلیل، پست و گمراہ اور گرسنہ ترین قوم تصور کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ''وہ لوگ دوشیروں یعنی بڑی طاقتوں ایران او رروم کے درمیان پھنسے ہوئے تھے اوران سے ڈرتے تھے۔(١)

اس بات کی شہادت اس طرح سے دی گئی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکہ میں اپنی دعوت کے زمانے میں ایک دن عرب کے کچھ بزرگوں سے گفتگو کی اوران کو اسلام کی طرف دعوت دی اور قرآن مجید کی چند آیات جو فطری اور اخلاقی تعلیمات پر مشتمل تھیں ان کے سامنے پڑھیں تو وہ سب کے سب متأثر ہوگئے، ہر ایک نے اپنے طور سے تعریف کی لیکن ان کے بزرگ مثنی بن حارثہ نے کہا:

ہم دو پانی کے درمیان گھرے ہوئے ہیں ایک طرف سے عرب کا پانی اور ساحل اور دوسری جانب سے ایران اور کسریٰ کی نہروں کا پانی، کسریٰ ہم سے عہد و پیمان باندھ چکا ہے کہ کوئی حادثہ نہیں رونما ہونے دیں گے او رکبھی خطا وار کو پناہ نہیں دیں گے۔ شاید تمہارے آئین کو قبول کرنا، شہنشاہوں کی خوشی کا باعث قرار نہ پائے اگر اس سرزمین پر ہم سے کوئی خطا سرزد ہو تو قابل چشم پوشی ہے لیکن ایسی خطائیں ایران کے علاقہ میں (کسریٰ کی طرف سے) قابل بخشش نہیں ہیں۔(٢)

______________________

(١) طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، (بیروت: دار المعرفہ، ط٢، ١٣٩٢ھ.ق)، ج٤، ص٢٥ (تفسیر آیۂ...و کنتم علی شفاحفرة من النار ...) زاہیة قد ورة ،الشعوبیة ، و اثرہ الاساسی،الاجتماعی فی الحیاة الاسلامیة فی عصر العباسی الاول. (بیروت: دار الکتاب اللبنانی، ط١، ١٩٧٢ئ)، ص٣٤؛ احمد امین، ضحی الاسلام، (قاہرہ: مکتبة النہضہ، ط٧)، ج١، ص١٨.

(٢) محمد ابوالفضل ابراہیم ( اور ان کے معاونین)، قصص العرب (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ١٣٨٢ھ.ق)، ج٢، ص ٣٥٨؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، (بیروت: مکتبة المعارف، ط٢، ج٣، ص ١٤٤۔

۵۹

موہوم افتخار

مورخین، عربوں کے احساس حقارت کے متعلق لکھتے ہیں کہ ایک سال قبیلہ بنی تمیم، خشک سالی میں گرفتار ہوگیا اور کسریٰ نے ان کو اجازت نہیں دی کہ عراق کے سرسبز و شاداب او رزرخیز علاقہ سے فائدہ اٹھائیں۔ یہاں تک کہ ان کے بزرگوں میں سے ایک شخص جس کا نام حاجب ابن زرارہ تھا اس قبیلہ کی نمائندگی میں کسریٰ کے دربار میں گیا اور اس سے مدد مانگی کسریٰ نے کہا: ''تم عرب لوگ خیانت کار ہو، اگر اس بارے میں تم کو اجازت دیدوں تو تم بلوا اور فتنہ برپا کردو گے۔ لوگوں کو میرے خلاف ورغلاؤ گے اور مجھے رنجیدہ اور ملول کروگے۔ حاجب نے کہا: میں ضمانت لیتا ہوں کہ اس قسم کی بات پیش نہیں آئے گی۔ کسریٰ نے پوچھا: کیا ضمانت رکھتے ہو؟'' اس نے کہا:اپنی کمان تمہارے پاس گروی رکھ دیتا ہوں۔ کسریٰ نے قبول کرلیا اور حاجب نے اپنی کمان (جو کہ شجاعت و دلیری کا نمونہ اور بہادری کی علامت سمجھی جاتی تھی) کسریٰ کے پاس گروی رکھ دی اور اس طرح سے کسریٰ کی موافقت حاصل کرلی۔ حاجب کے مرنے کے بعد اس کے لڑکے عطارد نے باپ کی کمان کسریٰ

۶۰