تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )0%

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک ) مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 403

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف: مہدی پیشوائی
زمرہ جات:

صفحے: 403
مشاہدے: 157669
ڈاؤنلوڈ: 4712

تبصرے:

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 403 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 157669 / ڈاؤنلوڈ: 4712
سائز سائز سائز
تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

تاریخ اسلام( دور جاہلیت سے وفات مرسل اعظم ۖ تک )

مؤلف:
اردو

تھے جو برسوں سے شریعت ابراہیمی کی پیروی کرتے تھے۔ یعقوبی کے کہنے کے مطابق:

قریش اورجناب عدنان کی ساری اولادیںدین ابراہیمی کے بعض احکام کی پابند تھیں وہ لوگ کعبہ کی زیارت کیا کرتے تھے، حج کے اعمال بجالاتے تھے، مہمان نواز تھے، حرام مہینوں کا احترام کیا کرتے تھے برے کاموں سے پرہیز اور ایک دوسرے کے ساتھ قطع تعلق اور ظلم کو برا سمجھتے تھے اور بدکاروں کو سزا دیتے تھے۔(١)

سنت ابراہیمی اوران کی بچی ہوئی تعلیمات جیسے خدا پر اعتقاد ، محارم کے ساتھ شادی کی حرمت، حج و عمرہ اور قربانی کے اعمال، غسل جنابت(٢) ختنہ، میت کی تکفین و تدفین(٣) وغیرہ ظہور اسلام کے زمانہ تک اسی طرح ان کے درمیان رائج تھیں اور جسم کی نظافت او رزائد بالوں کے کاٹنے وغیرہ کے بارے میں موجودہ دس سنتوں کے وہ پابند تھے۔(٤) اسی طرح وہ چار مہینوں کا تقدس واحترام جو سنت ابراہیمی(٥) میں پایا جاتا تھا اس کا بھی وہ عقیدہ رکھتے تھے او راگر ان کے درمیان کسی وجہ سے کوئی جنگ یا خون خرابہ، ان مہینوں میں واقع ہو جاتا تھا تواسے ''جنگ فجار'' (ناروا اور گناہ آلودجنگ) کہا کرتے تھے۔(٦) اسی وجہ سے آئین توحید اس علاقہ کے عربوں کے درمیان بہت زمانہ سے پایا جاتا تھا اور بت پرستی بعد میں وہاں پر آئی ہے جوان کے دین توحیدی سے منحرف ہونے کا باعث بنی ۔

______________________

(١) تاریخ یعقوبی، ج١، ص ٢٢٤.

(٢) مجلسی، بحار الانوار، (تہران: دار الکتب الاسلامیہ)، ج١٥، ص ١٧٠؛ ہشام کلبی، الاصنام، ص ٦.

(٣) شیخ حرعاملی، وسائل الشیعہ (بیروت: دار احیاء التراث العربی، ط ٤،)، ج١، کتاب الطہارة ، ابواب الجنابہ حدیث ١٤، ص ٤٦٥؛ طبرسی، احتجاج (نجف: المطبعة المرتضویہ، ١٣٥٠ہ.ق)، ص ١٨٩.

(٤) شہرستانی، الملل و النحل (قم: منشورات الرضی)، ج٢، ص ٢٥٧.

(٥) طباطبائی ، المیزان (بیروت: موسسة الاعلمی للمطبوعات)، ج٩، ص ٢٧٢.

(٦) شہرستانی، گزشتہ حوالہ، ص٢٥٥؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ١٢.

۸۱

عربوں کے درمیان بت پرستی کا آغاز

مختلف دستاویزات اور شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ عربوں کے درمیان بت پرستی کے نفو ذ کا اصلی سرچشمہ اوران کے درمیان بت پرستی کے آغاز کے دو سبب تھے۔

الف: عمرو بن لُحیّ (قبیلۂ خزاعہ کا سردار)نام کا ایک شخص، جو کہ اپنے زمانہ میں مکہ میں بہت زیادہ با اثر و قدرت مند اور کعبہ کا متولی تھا۔(١) شام گیااور وہاں پر عمالقہ(٢) کے ایک گروہ سے اس کی ملاقات ہوئی جو بت پرست تھے۔ جب اس نے ان لوگوں سے بت پرست ہونے کی وجہ دریافت کی توان لوگوں نے کہا: یہ ہمارے لئے بارش نازل کرتے ہیں، ہماری مدد کرتے ہیں'' اس نے ان لوگوں سے ایک بت مانگا توان لوگوں نے اسے ''ھبل'' بت دیا اور وہ اسے لیکر مکہ آیا اور کعبہ میں نصب کردیا اور لوگوں سے کہا کہ اس کی عبادت کریں۔(٣)

______________________

(١) ازرقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٨٨، ١٠٠، ١٠١؛ محمود آلوسی، بلوغ الارب فی معرفة احوال العرب (قاہرہ: دار الکتب الحدیثہ، ط٣)، ج٢، ص ٢٠٠؛ علی بن برہان الدین الحلبی، السیرة الحلبیہ (بیروت: دار المعرفہ)، ج١، ص١٦۔

(٢) عمالقہ، جناب نوح کے لڑکوںکا ایک گروہ تھاان کے جد عملاق یا عملیق کی مناسبت سے ان کا نام عمالقہ پڑا۔ (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٨ اور ٧٩؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج٢، ص ١٨٨؛ علی ابن برہان الدین الحلبی، السیرة الحلبیہ، ج١، ص١٧.

(٣) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٠١؛ شہرستانی، گزشتہ حوالہ، ص ٢٤٣؛ علی بن برہان الدین الحلبی، گزشتہ حوالہ، ص١٧؛ تاریخ یعقوبی، ج٢، ص ٢٢٤؛ شہاب الدین الابشہی، المستطرف (بیروت: دار احیاء التراث العربی)، ج٢، ص٨٨؛ مسعودی، مروج الذہب (بیروت: دار الاندلس،ط١)، ج٢، ص ٢٩؛ ہشام کلبی، الاصنام، ترجمہ: سید محمد رضا جلالی نایینی، ١٣٤٨)، ص٧؛ محمد بن حبیب، المنمق فی اخبار قریش، تحقیق: خورشید احمد فارق (بیروت: عالم الکتب، ط١، ١٤٠٥ھ.ق)، ص ٣٢٨۔ بعض منابع میں آیا ہے کہ وہ ''ہبل'' کو عراق سے لایا تھا۔ (ازرقی، اخبار مکہ، ج١، ص١١٧؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٧٩؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج٢، ص ١٨٨۔ لیکن ایک روایت کے مطابق، ھبل بت کا پتھر ''مأزمین'' (عرفات و مشعر کے درمیان ایک گزرگاہ ہے)، سے لیا گیا تھا، اور یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس جگہ سے گزرتے تھے تو اظہار نفرت کرتے تھے (محمد بن حسن حر عاملی، وسائل الشیعہ، بیروت: دار احیاء التراث الاسلامی، ج١٠، کتاب الحج، باب استحباب التکبیر بین المأزمین) ص ٣٦، حدیث١.)

۸۲

اس کے علاوہ دو بت ''اساف''(١) اور ''نائلہ'' کو بھی اس نے کعبہ کے پہلو میں رکھ دیا اور لوگوں کو ان کی پرستش کے لئے ابھارا اور ورغلایا(٢) اور اس طرح سے عرب میں بت پرستی کی بنیاد پڑی۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: عمرو بن لحی پہلا وہ شخص تھا جس نے دین اسماعیل میں تحریف کی اور بت پرستی کی بنیاد ڈالی۔ اور میں نے ا سکو آتش جہنم میں دیکھا ہے۔(٣)

ب: جب جناب اسماعیل کی نسل مکہ میں کافی بڑھ گئی تو وہ لوگ مجبور ہوکر ذریعہ معاش کی تلاش میں دوسرے شہروں اور علاقوں کی طرف کوچ کرگئے۔ او رچونکہ انھیں مکہ او رحرم سے بہت لگاؤ اور محبت تھی لہٰذا کوچ کرتے وقت ان میں سے ہر ایک نشانی اور یادگار کے طور پر حرم کا ایک پتھر اپنے ساتھ لے گیا اور جہاں پر جاکر وہ بسے اس کو ایک گوشہ میں رکھ کر (کعبہ کے گرد طواف کے مانند) اس کے گرد طواف کرتے تھے۔ اور آہستہ آہستہ وہ اپنے اصلی جذبہ اور لگاؤ اور ہدف کو بھولتے گئے اور سارے پتھر ایک بت کی شکل میں تبدیل ہوگئے او رپھر نوبت یہ آگئی کہ جس پتھر کو وہ پسند کرتے تھے اسی کی پرستش کرنے لگتے تھے اوراس طرح وہ اپنے سابقہ آئین کو بھول گئے۔(٤)

البتہ اس علاقہ میں بت پرستی کے نفوذ کے لئے یہ دونوں اسباب نقطۂ آغاز قرار پائے ہیں ورنہ دوسرے عوامل جیسے جہل، حس گرائی (جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا خدا ملموس اور محسوس

______________________

(١) اساف کو ہمزہ کے زبر اور زیر دنوں طرح سے لکھا گیا ہے۔ (ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٨٤۔

(٢) ازرقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٨٨؛ شہرستانی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٤٣ اور ٣٤٧.

(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٧٩؛ علی بن برہان الدین، گزشتہ حوالہ، ص ١٧؛ ابن عبد البر، الاستیعاب، (درحاشیہ الاصابہ)، ج١، ص ١٢٠، شرح حال اکثم بن جون خزاعی؛ابن اثیر، اسد الغابة (تہران: المکتبة الاسلامیہ)، ج٤، ص٣٩٠؛ شیخ محمد تقی التستری، الاوائل، ط١، ص ٢١٧؛ ابی الفدا اسماعیل بن کثیر، السیرة النبویہ(قاہرہ: مطبعة عیسی البابی الحلبی، ١٣٨٤ھ.ق)، ج١، ص٦٥؛ ازرقی، گزشتہ حوالہ، ص ١١٦۔

(٤) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٢٠؛ المستطرف، ج٢، ص ٨٨؛ ابی الفداء اسماعیل بن کثیر، السیرة النبویہ، ج١، ص ٦٢؛ البدایہ و النہایہ (بیروت: مکتبة المعارف)، ج٢، ص ١٨٨؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص٧٩؛ طباطبائی، المیزان، ج١٠، ص ٢٨٦۔

۸۳

(مادی)،ہو۔(١) قبیلہ جاتی اختلافات اور کشمکش، (ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ اپنی لئے ایک الگ بت قرار دے) قبائل کے رئیسوں اور بزرگوں کی جاہ طلبی (وہ چاہتے تھے کہ عوام اسی طرح جہالت اور گمراہی میں پڑی رہے تاکہ وہ اچھی طرح سے حکمرانی کرسکیں) اور آخرکار گزشتہ لوگوں کی اندھی تقلید اس کی ترویج میں معاون ثابت ہوئی اور آہستہ آہستہ بت پرستی کی مختلف صورتیں اور عبادت کے مختلف طریقے، نذر و نیاز اور ان سے استمداد کے بے شمار طریقے انجام پانے لگے(٢) اور بتوں کی تعداد میں اس طرح سے اضافہ ہونے لگا کہ ہر گھر میں ایک بت پایا جانے لگا۔(٣) جس سے وہ سفر کے موقع پر برکت حاصل کرتے تھے اوراسے مس کرتے تھے فتح مکہ کے موقع پر ٣٦٠ بت اس شہر میں موجود تھے۔(٤)

کیا بت پرست، خدا کے قائل تھے؟

بت پرست ''اللہ'' کے منکر نہیں تھے اور جیسا کہ قرآن نے نقل کیا ہے کہ یہ لوگ بھی خدا کو، زمین و آسمان اور اس جہان کاخالق سمجھتے ہیں۔(٥) لیکن یہ دو بڑی خطاؤں کے مرتکب ہوگئے تھے جوان کی

______________________

(١) طباطبائی، المیزان، ج١٠، ص ٢٨٦۔

(٢) سورۂ انعام، آیت ١٣٨، ١٣٩؛ سورۂ مائدہ، آیت ٣، ٩٠، ١٠٣، ہشام کلبی، الاصنام، ص ٢٨۔

(٣) کلبی، گزشتہ حوالہ، ص ٣٢۔

(٤) شیخ طوسی، الامالی، (قم: دار الثقافہ، ط١، ١٤١٤ھ.ق)، ص ٣٣٦؛ آلوسی، بلوغ الارب، ج٢، ص ٢١١؛ ازرقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٢١؛ السیرة الحلبیہ، ج٣، ص ٣٠؛ رجوع کریں: المیزان، ج٢٦۔ امام رضا کی ایک روایت کی مطابق۔

(٥) اگر ان سے پوچھئے: کہ کس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے؟ تو یقینا وہ کہیں گے خدا نے (سورۂ لقمان، آیت ٢٥، سورۂ زمر، آیت ٣٨، زخرف، آیت٩، اور اگر آپ ان سے سوال کریں گے کہ خود ان کا خالق کون ہے تو کہیں گے کہ اللہ (زخرف، آیت٨٧، پیغمبر ذرا ان سے پوچھئے کہ تمہیں زمین و آسمان سے کون رزق دیتا ہے اور کون تمہاری سماعت و بصارت کا مالک ہے اور کون مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ نکالتا ہے اور کون سارے امور کی تدبیر کرتا ہے تو یہ سب یہی کہیں گے کہ اللہ! (یونس آیت٣١.)

۸۴

گمراہی کی اصلی جڑ تھی۔

١۔ اللہ اور اس کی صفات کے بارے میں غلط شناخت؛ وہ لوگ خدا کے بارے میں مبہم او رگنگ ذہنیت رکھتے تھے ۔ اور اس بات کی شہادت اس سے ملتی ہے کہ وہ خدا کے لئے بیوی اور بچوں کے قائل تھے۔ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں تصور کرتے تھے یعنی خدا کے لئے انسان اور دوسرے جانداروں کی طرح جسم او رمادہ اور زاد و ولد کے قائل تھے۔ خداوند عالم نے ان کے غلط خیال کی متعدد آیات میں مذمت فرمائی ہے: ''اوران لوگوں نے ان ملائکہ کو جو رحمان کے بندے ہیں لڑکی قرار دیدیا ہے کیا یہ ان کی خلقت کے گواہ ہیں تو عنقریب ان کی گواہی لکھ لی جائے گی اور پھر اس کے بارے میں سوال کیاجائے گا''۔(١)

''بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں وہ ملائکہ کے نام لڑکیوں جیسے رکھتے ہیں''۔(٢)

''اور مشرکوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اللہ نے کسی کو اپنا فرزندبنالیا ہے حالانکہ وہ اس امر سے پاک و پاکیزہ ہے بلکہ وہ سب اس کے محترم بندے ہیں''۔(٣)

اس کے لئے بغیر جانے بوجھے بیٹے اور بیٹیاں بھی تیار کردی ہیں۔ جب کہ وہ بے نیاز اوران کے بیان کردہ اوصاف سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے۔

وہ زمین و آسمان کا ایجاد کرنے والا ہے۔ اس کے اولاد کس طرح ہوسکتی ہے اس کی تو کوئی بیوی بھی نہیں ہے اور وہ ہر شے کا خالق ہے اور ہر چیز کا جاننے والا ہے''۔(٤)

''اور ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے اس نے کسی کو اپنی بیوی بنایا ہے نہ بیٹا''۔(٥)

______________________

(١) سورۂ زخرف، آیت ١٩.

(٢) سورۂ نجم، آیت ٢٧.

(٣) سورۂ انبیاء ، آیت ٢٦.

(٤) سورۂ انعام، آیت ١٠١۔ ١٠٠.

(٥) سورۂ جن، آیت ٣.

۸۵

اس کے علاوہ خداوند عالم نے متعدد آیات میں مشرکوں کی مذمت فرمائی ہے کہ چونکہ وہ لڑکیوں کو برا سمجھتے تھے لہٰذا اسے خدا کی جانب منسوب کرتے تھے اور لڑکوں کواچھا سمجھتے تھے لہٰذا اسے اپنی طرف منسوب کرتے تھے''

کیاخدا کے لئے لڑکیاں اور تمہارے لئے لڑکے ہیں!۔(١)

''پھر اے پیغمبر! ان کفار سے پوچھئے کہ کیاتمہارے پروردگار کے لئے لڑکیاں ہیں اور تمہارے لئے لڑکے ہیں؟ یا ہم نے ملائکہ کو لڑکیوں کی شکل میں پیدا کیاہے اور یہ اس کے گواہ ہیں؟''۔(٢)

''کیا تم لوگوں نے لات او رعزی کودیکھا ہے او رمنات جو ان کا تیسرا ہے اسے بھی دیکھا ہے تو کیا تمہارے لئے لڑکے ہیں اور اس کے لئے لڑکیاں ہیں یہ انتہائی ناانصافی کی تقسم ہے یہ سب وہ نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے طے کر لئے ہیں۔(٣)

''سچ بتاؤ کیاخدانے اپنی تمام مخلوقات میں سے اپنے لئے لڑکیوں کو منتخب کیاہے اور تمہارے لئے لڑکوں کو پسند کیا ہے؟''۔(٤)

''اور انھوں نے خدا اور جنات کے درمیان بھی رشتہ قرار دیدیا حالانکہ جنّات کو معلوم ہے کہ انھیں بھی خدا کی بارگاہ میں حاضر کیا جائے گا،خدا ان سب کے بیانات سے بلند و برتر او رپاک و پاکیزہ ہے''۔(٥)

ایک تفسیر کی بنا پر خداوند عالم کی جِنّ سے نسبت او ررشتہ داری اس بنا پر تھی کہ وہ خیال کرتے تھے کہ خدا نے جنات کے ساتھ شادی کر رکھی ہے اور فرشتے (اس شادی کا نتیجہ اور ثمرہ ہیں) اس کی اولاد ہیں۔(٦)

______________________

(١) سورۂ طور، آیت ٣٩.

(٢) سورۂ صافات، آیت ١٥٠۔ ١٤٩.

(٣)سورۂ نجم، آیت ٢٣۔ ١٩؛ لات ، عزیٰ اور منات تین بتوں کے نام تھے جن کو گویا وہ فرشتوں کا روپ سمجھتے تھے چونکہ تینوں نام مونث ہیں (رجوع کریں: تفسیر نمونہ، ج٢٢، ص ٥١٨).

(٤) سورۂ زخرف، آیت ١٦.

(٥) سورۂ صافات، آیت ١٥٩۔ ١٥٨.

(٦) سیوطی، الدر المنثور، ج٧، ص ١٣٣؛ ابن کثیر ، تفسیر، ج٤، ص ٢٣؛ طبرسی، مجمع البیان، ج٨، ص ٤٦٠۔

۸۶

٢۔ یہ بتوں کو چھوٹا خدا او راپنے اور اللہ کے درمیان واسطہ بتاتے ہیں اور ان کی عبادت کو خدا کی بارگاہ میں قرب اور رضایت کا باعث سمجھتے تھے۔ جبکہ عبادت صرف اللہ سے مخصوص ہے۔

دوسری طرف سے اگرچہ بتوں کو دنیا کا ''خالق'' نہیں سمجھتے تھے لیکن ان کے لئے ایک قسم کی ربوبیت اور عالم ہونے کے مرتبہ کے قائل تھے اور ان کودنیا کے امور کی تدبیر میں اور انسان کے تقدیر میں موثر جانتے تھے اور اپنی مشکلات اور پریشانیوں کے دور ہونے کے لئے ان سے مدد مانگتے تھے۔ جبکہ اسلام کی نظر میں جس طرح دنیاکاخالق ''اللہ'' ہے اورامور دنیا کی تدبیر (توحید افعالی)بھی صرف اسی کے ہاتھ میں ہے(١) اور بت، بے جان اور ناقابل فہم وارادہ موجودات ہیں۔

قرآن مجید ان کے بے بنیاد خیالات کو نقل کر کے، اس طرح ان کی مذمت کرتا ہے:

''اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں او رنہ فائدہ اور یہ لوگ کہتے ہیں: یہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم لوگ خدا کواس بات کی اطلاع دے رہے ہو جس کا علم اسے آسمان و زمین میں کہیں نہیں ہے وہ پاک و پاکیزہ ہے اور ان کے شرک سے بلند و برتر ہے''۔(٢)

''آگاہ ہو جاؤ کہ خالص بندگی صرف اللہ کے لئے ہے او رجن لوگوں نے اس کے علاوہ سرپرست بنائے ہیں یہ کہہ کر کہ ہم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب

______________________

(١) ۔ ''و قل الحمد لله الذی لم یتخذ ولدأًولم یکن له شریک فی الملک و لم یکن له ولی من الذل و کبره تکبیراً ۔'' (سورۂ اسرائ، آیت ١١١(،''قل اللهم مالک الملک تؤتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعز من تشاء و تذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شیء قدیر ۔'' (آل عمران، آیت ٢٦.)

(٢) سورۂ یونس،(١٠) آیت ١٨(وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اﷲِ مَا لاَیَضُرُّهُمْ وَلاَیَنْفَعُهُمْ وَیَقُولُونَ هَؤُلَائِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اﷲِ قُلْ َتُنَبِّئُونَ اﷲَ بِمَا لاَیَعْلَمُ فِی السَّمَاوَاتِ وَلاَفِی الَْرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ )

۸۷

کردیںگے۔ اللہ ان کے درمیان تمام اختلافی مسائل میں فیصلہ کردے گا کہ اللہ کسی بھی جھوٹے اورناشکری کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا ہے''۔(١)

''خدائے یکتا کے بجائے انھوں نے دوسرے خداؤں کواختیار کر لیا تاکہ ان کی عزت کا سبب بنے''(٢)

''اوران لوگوں نے خداکو چھوڑ کر دوسرے خدا بنالئے ہیں کہ شایدان کی مدد کی جائے''۔(٣)

اسی بنا پر بت پرست، عبادت اورامور عالم کی تدبیر میں بتوں کو خدا کا شریک قرار دیتے ہیں اور قرآن مجید ان کو ''مشرک'' قرار دیتا ہے۔

پریشان کن مذہبی صورتحال

بہرحال ظہور اسلام کے وقت، بت پرستی وسیع پیمانے پر اپنی تمام صورتوں اور پہلوؤں کے ساتھ حنیفیت کے چہرے کو مسخ کرچکی تھی۔اور دینی لحاظ سے مشرکین کی بہت بری حالت ہوچکی تھی ایک طرف سے بت پرست بت پرستی اور اس کے رسومات کے سختی سے پابند تھے اور دین ابراہیم کی بچی ہوئی تعلیمات جیسے حج، عمرہ اور قربانی کو ناقص ،تحریف شدہ ،خرافات او رشرک آمیز باتوں سے آمیختہ شکل میں انجام دیتے تھے مثلاً کعبہ کی تعظیم کے ساتھ دوسری بھی عبادت گاہیں بنا رکھی تھیں کہ جہاں کعبہ کی طرح طواف کرتے تھے اور ان کے لئے ہدیہ بھیجتے تھے او روہاں پر قربانی کرتے تھے۔(٤) کعبہ کے پاس ان کی نمازیں صرف شور و غل او رتالی بجاکر ہوتی تھیں۔(٥) قبیلۂ قریش والے احرام حج اور ''لبیک''

______________________

(١) سورۂ زمر،(٣٩)(َلاَلِلَّهِ الدِّینُ الْخَالِصُ وَالَّذِینَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ َوْلِیَائَ مَا نَعْبُدُهُمْ ِلاَّ لِیُقَرِّبُونَا ِلَی اﷲِ زُلْفَی ِنَّ اﷲَ یَحْکُمُ بَیْنَهُمْ فِی مَا هُمْ فِیهِ یَخْتَلِفُونَ ِنَّ اﷲَ لاَیَهْدِی مَنْ هُوَ کَاذِب کَفَّار ) آیت ٣۔

(٢) سورۂ مریم، (١٩)( وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اﷲِ آلِهَةً لِیَکُونُوا لَهُمْ عِزًّا) آیت ٨١.

(٣) سورۂ یٰس،(٣٦)( وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اﷲِ آلِهَةً لَعَلَّهُمْ یُنصَرُونَ ) آیت ٧٤.

(٤) ابی الفداء اسماعیل بن کثیر، السیرة النبویہ (قاہرہ: مطبعة عیسی البابی الحلبی، ١٣٨٤ھ۔ق)، ج١، ص٧؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، (قاہرہ: مطبعة مصطفی البابی الحلبی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج١، ص ٨٥.

(٥) سورۂ انفال، آیت ٣٥۔

۸۸

کہتے وقت خدا کے نام کے ساتھ بتوں کا نام لیتے تھے۔(١)

اور اس طرح سے حج ابراہیمی کو جو کہ توحید کا عالی ترین نمونہ ہے شرک سے آلودہ کرتے تھے۔ دو قبیلے اوس او رخزرج، حج کے اعمال انجام دینے کے بعد، منیٰ میں جاکر سرمنڈوانے کے بجائے اپنے شہر (یثرب) کی جانب ''بت منات'' (جو کہ مکہ کے راستے میں دریا کے کنارے پر واقع ہے)،(٢) کے پاس سرمنڈاتے تھے۔(٣) مشرکین (خواہ مرد ہوں یا عورت) کعبہ کا برہنہ طواف کرتے تھے۔(٤) ظاہر ہے کہ کعبہ کے پا س لوگوں کے سامنے اس طرح کے اعمال کا کتنا برا منظر رہتا رہاہوگا۔

قریش اپنے بتوں کو کعبہ کے پاس رکھتے تھے اوراسے مشک وعنبرسے معطر کرتے تھے اور ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے پھر اس کے چاروں طرف جمع ہوکر لبیک کہتے تھے۔(٥) اگرچہ وہ ظاہری طور پر چار مہینوں کی حرمت کا خیال کرتے تھے لیکن اپنے کواس حکم سے آزاد رکھنے کے لئے ان مہینوں کے نام او رظاہری لحاظ سے ان کو تبدیل کرکے حرام مہینوں کو بعد میں کردیتے تھے۔(٦)

______________________

(١)لبیک اللهم لبیک، لاشریک لک لبیک الا شریک هو لک تملکه و ما ملک ۔ (ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ٨٠؛ ابن کثیر، گزشتہ حوالہ، ص ٦٣؛ شہرستانی، الملل و النحلل، ج٢، ص ٢٤٧؛ ابن کثیر البدایہ والنہایہ، ج٢، ص ٨٨.)

(٢) ہشام کلبی، الاصنام، ترجمہ: سید محمد رضا جلالی نایینی، ١٣٤٨، ص ١٣؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج١، ص ٨٨؛ آلوسی٧ بلوغ الارب، ج٢، ص ٢٠٢۔

(٣) ہشام کلبی، گزشتہ حوالہ، ص ١٤۔

(٤) ازرقی، اخبار مکہ، ج١، ص ١٧٨ اور ١٨٢؛ آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٤٤؛ صحیح مسلم بشرح النووی، ج١٨، کتاب التفسیر، ص ١٦٢۔

(٥) طباطبائی، تفسیر المیزان، ج ١٤، ص ٤١٤۔

(٦)سورۂ توبہ،٩، آیت ٣٧؛ ازرقی، اخبار مکہ، ج١، ص ١٨٣؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٤٥.

۸۹

ظہور اسلام کی روشنی میں بنیادی تبدیلی

ظہور اسلام اور روز بروز اس کے فروغ کے ساتھ اہل حجاز کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں گہری او روسیع پیمانہ پر تبدیلی رونما ہوئی۔اور ایک مکمل انقلاب اور تبدیلی پیدا ہوئی۔ اور آہستہ آہستہ اس کے اثرات جزیرة العرب کے چاروں طرف پھیل گئے۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی مسلسل او رپیہم جنگ کے ذریعہ اس بت پرستی کو جوان کی تمام بدبختیوں کی جڑ تھی، اکھاڑ پھینکااور نظام توحیدکوا س کی جگہ پر پیش کیااور قبائلی اور قومی نظام نیز غلط رسم و رواج کوختم کردیااور قومی عصبیت کو مٹا کر اس کی جگہ پر حق و عدل کی تعلیم دی۔ جذبۂ انتقام اور قبائلی قتل و غارت کو صلح و آشتی میں بدل دیااور مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنادیا۔عورت کو قید و بدبختی سے نجات دلائی اور اسے سماج میں بلند مقام عطا کیا۔اور جاہل عوام سے آگاہ امتی بنا دیا۔

قبائلی نظام کے بدلے، امت اور امامت کا نظام قائم کیا اورعرب کے بکھرے اور پراگندہ قبائل کو ''ایک امتی'' بنادیا۔ان کو قبائلی زندگی کے تنگ دائرہ سے نکال کر عالمی نظام کی طرف راہنمائی فرمائی۔ اور اسلام کی روشنی میں قوم عرب کوایسی عظمت و طاقت بخشی کہ دو عظیم حکومتوں کی بنیادوں کوہلاکر رکھ دیا اور یہ بات اتنی واضح اور روشن تھی کہ غیر مسلم مصنفوں اور دانشوروں نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ بطور نمونہ ان میں سے تین لوگوں کے خیالات یہاں پر پیش کر رہے ہیں:

ڈاکٹر گوستاد لوبون فرانسوی کہتا ہے: ''پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایک عظیم معجزہ یہ تھا کہ انھوں نے اپنی وفات سے قبل عرب کے پراگندہ قافلے کوایک جگہ جمع کردیااور اس سرگرداں اور پریشان کاروان سے، ایک ملت کی تشکیل دی اور اس طرح سب کو ایک دین کے سامنے تسلیم کے ساتھ ایک پیشوا اور رہبر کا مطیع اور فرمانبردار بنادیا...

۹۰

اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی زحمتوں سے ایسے نتائج حاصل کئے کہ اسلام سے قبل کوئی بھی دین خواہ وہ یہودیت ہو یا عیسائیت کسی نے ایسے نتائج نہیں حاصل کئے ۔ اور اسی وجہ سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عربوں کی گردن پر بہت بڑا حق ہے۔اگر ہم چاہیں کہ کسی ذات کی قدر واہمیت کا اندازہ اس کے کردار او ر نیک آثار کے ذریعہ لگائیں توقطعی اور مسلم طور سے حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سب سے عظیم مرد تاریخ قرار پائیں گے ۔ ہم اس عظیم دین کو جسے آپ لیکر آئے اور لوگوں کواس کی طرف دعوت دی، اس کے ماننے والوں کے لئے خدا کی جانب سے عظیم نعمت سمجھتے ہیں۔(١)

توماس کار لایل انگریز کہتا ہے: خداوندعالم نے عرب کواسلام کے ذریعہ، تاریکی سے اجالے اور روشنی کی طرف ہدایت فرمائی اور اس کی روشنی میں عرب کی خاموش قوم کواس مردہ سرزمین پر زندہ کردیا، جبکہ عرب آغاز خلقت سے بے نام و نشان صحراوؤں میں، تہی دست تھے جودیہاتوں میں زندگی بسر کرتے تھے نہ ان کی آواز سنائی پڑتی ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے کوئی حرکت اور جنبش نظر آتی ہے۔ خداوند عالم نے جس وقت ایک پیغمبر کونور وحی اور رسالت کے ساتھ ان کی ہدایت کے لئے بھیجا توان کی گمنامی کو شہرت میں اور ان کی حیرت او ر سرگردانی کو بیداری میں اوران کی پستی و حقارت کو سربلندی میں اور عاجزی و ناتوانی کو قدرت مندی میں تبدیل کردیا۔ اس کا نور جہاں چمکا اس کی روشنی سے وہاں کی جگہ منور ہوگئی اوراس کی ہدایت کی روشنی دنیا کے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب تمام ستموں میں اس طرح پھیل گئی کہ ظہور اسلام کو ایک صدی بھی نہیں گزری تھی کہ اسلامی حکومت نے اپنا ایک قدم ہندوستان اور دوسرا قدم اسپین میں رکھ دیا۔(٢)

ویل ڈورانٹ لکھتا ہے: اس وقت کسی نے خواب بھی نہیں دیکھا تھاکہ ایک صدی بعد، یہ خانہ بدوش حکومت روم کے ماتحت رہنے والے علاقے نصف ایشا، پورے ایران، مصر اور شمال افریقا کا زیادہ تر علاقہ فتح کر کے، اسپین کی طرف بڑھ جائیں گے۔ سچ ہے کہ یہ تاریخی سورج جو عربستان

______________________

(١) تمدن اسلام او رغرب، ترجمہ: سیدہاشم رسولی (تہران: کتابفروشی اسلامی)، ص ١٣٠۔ ١٢٨.

(٢) الابطال، عربی ترجمہ: محمد السباعی کے قلم سے (قاہرہ: ط٣، ١٣٤٩ھ.ق)، ٩.

۹۱

سے طلوع ہوا تھا اس کے ذریعہ عرب مڈیٹرانہ کے نصف علاقے پر مسلط ہوگئے اوردین اسلام کو وہاں پر پھیلانا، قرون وسطیٰ کے حیرت انگیز اجتماعی واقعات میں سے ہے۔(١)

شہر مکہ کی توسیع او رمرکزیت

پہلے یہ بیان کرچکے ہیں کہ جزیرة العرب کے زیادہ تر لوگ زمانۂ جاہلیت میں بادیہ نشین اور صحرا نورد ہوتے تھے۔ کیونکہ شہر نشینی حجاز کے علاقہ میں زیادہ رائج نہیں تھی اس علاقہ میں آبادیوں کے لحاظ سے جسے شہر کہا جاتا تھا درحقیقت وہ چھوٹے شہر ہوا کرتے تھے ۔ جس میں زیادہ آبادی نہیں ہوا کرتی تھی۔ بعض معاصر مورخین اس علاقہ کے شہر نشینوں کی آبادی کو ١٦(٢) اور بعض دوسرے مورخین پوری آبادی کا ١٧ فیصد(٣) حصہ سمجھتے تھے ۔ اس محاسبہ کا اصول واضح نہیں ہے لیکن یہ بات مسلّم ہے کہ شہر نشینوں کی آبادی کا تناسب فیصد کے لحاظ سے بہت کم ہوا کرتا تھا۔ان میں سے صرف شہر مکہ میں جو حجاز کے جنوبی علاقہ (بحر احمر سے تقریباً ٨٣... کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے) میں ایک اہم شہر تھا، ظہور اسلام سے چند صدی قبل اس میں توسیع ہوئی اور آہستہ آہستہ وہاں بہت سارے لوگ آکر بس گئے ۔

مکہ کی توسیع کے دو اسباب تھے:

الف: تجارتی مرکز:

چونکہ شہر مکہ ایک خشک و بے آب و گیاہ اور سنگلاخ علاقہ میں واقع ہے لہٰذا زراعت یا کارخانے اور فیکٹریوں کے لگانے کے امکانات اور وسائل وہاں مہیا نہیں تھے

______________________

(١)ویل ڈورانٹ، تاریخ تمدن، ج٤، عصر ایمان، (بخش اول)، ترجمہ: ابوطالب صارمی (تہران: سازمان انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، ط٢، ١٣٦٨، ص ١٩٧.

(٢) ویل ڈورانٹ، گزشتہ حوالہ، ص ٢٠٠.

(٣) فیلیپ حتی، تاریخ عرب، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ، ١٣٤٤، ج١، ص ١٢٥.

۹۲

وہاں کے لوگ قدیم زمانے سے مجبور تھے کہ اپنی زندگی، تجارت کے ذریعہ چلائیں۔ لیکن ان کی تجارت صرف مکہ تک محدود تھی۔(١)

عرب کے علاوہ دوسرے تاجر اپنے مال کو مکہ میں لاکر بیچتے تھے۔ تجارتی مال شہر کے تاجروں کے ذریعہ خریدا جاتاتھا اور پھر شہر میں بیچا جاتا تھا۔(٢) یا جزیرة العرب کے اندر فصلی بازار میں لیجا کر وہ بیچتے تھے۔ یہاں تک کہ جناب ہاشم (پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دوسرے جد) نے امیر شام (جوکہ حکومت روم کا پٹھو تھا) کے ساتھ ایک پیمان باندھا، تاکہ مکہ کے تجار آزادی کے ساتھ اس ملک سے آمد و رفت کرسکیں۔(٣)

اس کے علاوہ انھوں نے ایسے قبائل سے پیمان باندھا جو شام کے راستے میں واقع تھے تاکہ مکہ کے تجارتی قافلوں سے تعرض نہ کریں اور ان سے عہدکیا کہ ان کی اشیاء تجارتی بغیر کرایہ لئے ہوئے تجار مکہ کے توسط سے محل تجارت تک پہنچائی جائیں گی ۔(٥) اور آپ کے بھائیوں (عبد الشمس، نوفل اور مطلب) نے بھی اسی طرح کے عہد و پیمان ، حاکم حبشہ، شہنشاہ ایران(٦) اور شہنشاہ یمن(٧) کے ساتھ کئے۔

راستوں کی امنیت کے بعد، جناب ہاشم نے یمن اور شام میں تجارتی خطوط کی بنیاد ڈالی(٨) کہ

______________________

(١) ابن واضح، تاریخ یعقوبی، (نجف: مکتبة الحیدریہ، ١٣٨٤ھ.ق)، ج١، ص ٢١٥.

(٢) محمد بن حبیب بغدادی، المنمق فی اخبار قریش، تحقیق: خورشید فارق (بیروت: عالم الکتب ، ط ١، ١٤٠٥ھ.ق)، ص ٤٢

(٣) ابن واضح، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٤.

(٤) گزشتہ حوالہ، ص ٢١٣.

(٥) ابن سعد، طبقات الکبریٰ، (بیروت: دار صادر)، ج١، ص ٧٨.

(٦) ابن واضح ، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢١٥.

(٧) محمد بن جریر طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار قاموس الحدیث)، ج٢، ص ١٨٠؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص١٦.

(٨) طبری، گزشتہ حوالہ، ص ١٨٠؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، (قاہرہ: مطبعہ مصطفی البابی الحلبی، ١٣٥٥ھ.ق)، ج١، ص ١٤٣.

۹۳

جس کا حلقۂ اتصال مکہ تھا،جو ان دو تجارتی مرکز کے نصف راستے میں واقع تھے۔(٢) اس طرح سے قریش نے دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت کا آغاز کیا۔(٣) اس وقت سے مکہ کے تجار، فصلی بازاروں جیسے ''عکاظ، ذوالمجاز اور مجنہ'' میں شرکت کرنے کے علاوہ جاڑے کی فصل میں یمن، حبشہ اور گرمی کی فصل میں شام اور غزہ کا سفر کرتے تھے۔

وہ لوگ ان مسافرتوں میں عطریات، بخور، ریشمی لباس، چمڑا اور دوسروں چیزوں کوجو ہندوستان، چین اور دوسرے علاقوں سے یمن میں آیا کرتی تھیں خرید کر خشکی کے راستے سے تمام جزیرة العرب میںحضر موت کے راستہ بحراحمر(٤) کے سامنے سے ہوتے ہوئے مکہ میںلایا کرتے تھے پھر غزہ، بیت المقدس، دمشق اور بحر مڈیٹرانہ کی بندرگاہ تک پہنچایا کرتے تھے۔اور شام کے بازاروں سے گیہوں، تیل، زیتون، لکڑی، اور ریشم کی بنی ہوئی چیزوں کو خریدتے تھے۔ اسی طرح سے جدہ کی بندرگاہ کے ذریعہ (جوکہ مکہ سے ٨٠ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے) بحر احمر کو عبور کر کے حبشہ میں داخل ہوتے تھے اور اس طرح علاقائی چیزوں کودوسری جگہ لیجاتے تھے۔(٥)

اس تجارتی راہ کے کھلنے سے، شہر مکہ ، ایک پر منفعت تجارتی مرکز میں تبدیل ہوگیا اور وہاں کے رہنے والوں کی زندگی میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی اور خدوند عالم نے اس تجارتی سفر کی برقراری کو قریش کے لئے راحت وآرام کا سبب قرار دیا ہے ''قریش کے انس والفت کی خاطر، جوانھیں سردی اور

______________________

(١) احمد امین، فجر الاسلام، (قاہرہ: مکتبة النہضہ المصریہ، ط٩، ١٣٦٤.)، ص ١٤۔ ١٢؛ ڈاکٹر شوقی ضیف.

(٢) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ؛ابن اثیر، گزشتہ حوالہ، ص ١٦.

(٣) احمد امین، گزشتہ حوالہ، ص ١٢؛ عبد المنعم ماجد، التاریخ السیاسی للدولة العریہ)، (قاہرہ: مکتبة الابحلوا المصریہ) ص ٧٩.

(٤) حسن ابراہیم حسن، تاریخ سیاسی اسلام، ترجمہ: ابوالقاسم پایندہ (تہران: انشارات جاویدان، ط٤ ١٣٦٠ھ.ق)، ص ٥٦.

۹۴

گرمی کے سفر سے ہے ابرہہ کو ہلاک کردیاہے۔ لہٰذا انھیں چاہئے کہ اس گھر کے مالک کی عبادت کریں۔ جس نے انھیں بھوک میں سیر کیا ہے اور خوف سے محفوظ رکھا''۔(١)

ب: کعبہ کا وجود:

شہر مکہ کی توسیع اور اس کی اقتصادی رونق کاایک دوسرا سبب کعبہ کا وجود تھا کیونکہ عرب کے لوگ سال میں دوبار اعمال حج انجام دینے کے لئے اس شہر میں آتے تھے اور قریش جو کہ کعبہ سے متعلق مختلف امور کے ذمہ دار تھے حجاج کے قیام و طعام کا انتظام کرتے تھے۔ دوسری طرف سے اعمال حج کے ساتھ زائروں اور مکہ کے تاجروں کے درمیان تجارتی معاملات بھی انجام پاتے تھے۔(٢) اور یہ دو چیزیں شہر کی توسیع اور اقتصادی رونق میں مددگار ثابت ہوئیں۔

البتہ سرزمین حرم کا تقدس واحترام بھی جو کہ اطراف حرم میں ا من و سکون کا سبب بنا ہوا تھا مکہ کی تجارتی رونق میں بہت زیادہ موثر ثابت ہوا ۔ جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے: ''اور یہ کفار کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ حق کی پیروی کریں گے تو اپنی زمین سے اچک لئے جائیں گے۔ تو کیا ہم نے انھیں ایک محفوظ حرم پر قبضہ نہیں دیاہے جس کی طرف ہر شیء کے پھل ہماری دی ہوئی روزی کی بنا پر چلے آرہے ہیں لیکن ان کی اکثریت سمجھتی ہی نہیں ہے''۔(٣)

جناب ابراہیم نے بھی اپنی شریک حیات اور بچوںکو کعبہ کے پاس ٹھہرانے کے بعد خداکی بارگاہ میں اس طرح سے دعا فرمائی: ''پروردگار! میں نے اپنی ذریت میں سے بعض کو تیرے محترم مکان کے قریب بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ دیا تاکہ نمازیں قائم کریں اب تو لوگوں کے دلوں کوان کی طرف موڑ دے اور انھیں پھلوں کا رزق عطا فرما تاکہ وہ تیرے شکر گزار بندے بن جائیں''۔(٤)

______________________

(١) سورۂ قریش،آیت ٤۔ ١.

(٢) عباس زریاب، سیرۂ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (تہران: سروش، ط ١، ١٣٧٠)، ص ٦٧۔ ٦٦.

(٣) سورۂ قصص، آیت ٥٧.

(٤) سورۂ ابراہیم، آیت ٣٧.

۹۵

''اور اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم نے دعا کی کہ پروردگار اس شہر کوامن کا شہر قرار دیدے اور اس شہرکے ان لوگوں کو جواللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوں پھلوں کا رزق عطا فرما''۔(١)

ارشاد ہوا کہ پھر جو کافر ہو جائیں گے انھیں دنیا میں تھوڑی نعمتیںدے کر آخرت میں عذاب جہنم میں زبردستی دھکیل دیا جائے گا جو بدترین انجام ہے۔

قریش کی تجارت اور کلیدبرداری

دو چیزیں،تجارت اور کعبہ کا وجود، شہر مکہ کی توسیع او رمرکزیت کا سبب قرار پائیں اور مکہ میں قریش کے اقتدار کے اضافہ کا باعث بھی بنیں کیونکہ اقتصادی طاقت اور کعبہ کے سارے مذہبی پروگرام ان کے اختیار میں تھے۔

١۔ قریش نے آہستہ آہستہ تجارت کے ذریعہ بے شمار دولت جمع کرلی اور مکہ میں بڑے بڑے ثروت مند پیدا ہوگئے جن میں بعض کی دولت و ثرو ت کی مقدار مبالغہ آمیزبتائی گئی ہے۔ جیسا کہ ان میں سے ایک کی دولت کی مقدار ایک قافلہ میں تیس ہزار دینار سے زیادہ تھی۔(٢)

قریش کی اہم شخصیتوں کے پاس سیاحتی علاقے اور طائف جیسی پاکیزہ جگہ جو آب و ہوا کے لحاظ سے سرزمین شام کا ایک حصہ سمجھی جاتی ہے۔(٣) باغات اور سیاحتی مراکز موجود تھے۔(٤) عباس ابن

______________________

(١) سورۂ بقرہ، آیت ١٢٦.

(٢) جواد علی، المفصل فی التاریخ العرب (بیروت: دار العلم للملایین، ط١، ١٩٦٨ئ)، ج١، ص ١١٤۔ گویا مقصود، سعیدابن العاص (ابی احیحہ) ہے کہ واقدی کے بقول (المغازی، ج١، ص ٢٧) شام سے پلٹتے وقت جنگ بدرکے موقع پر قریش کے قافلہ کی سب سے زیادہ دولت اس کے پاس تھی۔ لیکن واقدی کی عبارت اس صراحت کے ساتھ نہیں ہے ۔

(٣) فیلیپ حِتی، گزشتہ حوالہ، ص ١٣٠

(٤) طبری، گزشتہ حوالہ، ج٢، ص ٢٢١؛ بلاذری، فتوح البلدان، (بیروت: دار الکتب العلمیہ، ١٣٩٨ھ.ق)، ص ٦٨۔

۹۶

عبد المطلب کے پاس طائف میں انگور کا باغ تھا کہ جس کا انگور شراب بنانے کے لئے مکہ جایا کرتا تھا(١) او روہ مکہ کے بڑے سودخوروں میں سے تھا(٢) عبد المطلب کے مرنے کے بعد انھیں دو یمنی کپڑوں میں لپیٹا گیا جس کی قیمت ہزار مثقال سونا تھی۔(٣) (جس سے ان کے ورثہ کی دولت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے) ، کہا جاتا ہے کہ ان کی لڑکی ''ہند'' نے ایک دن میں چالیس غلاموںکو آزاد کیا۔(٤) ولید بن مغیرہ (قبیلۂ بنی مخزوم کا سردار) جس کے پاس بے شمار دولت اور متعدد اولادیں تھیں وہ ہر جگہ مشہور تھا۔(٥) بعد میںغرور اور گھمنڈ کی بنا پر، قرآن نے اس کی سرزنش کی(٦) عبداللہ بن جدعان تیمی کی دولت اور اس کی عمومی مہمان نوازی افسانے کے طور پر نقل ہوئی ہے۔(٧) شعرائ، انعام و اکرام کی خاطر اس کی مدح سرائی کرتے تھے۔(٨)

ایک شاعر نے اس کو ''قیصر'' سے تشبیہ دی تھی۔(٩) کہتے ہیں کہ اس نے قبیلہ جاتی جنگ میں اپنے

______________________

(١) بلاذری، گزشتہ حوالہ، ص ٦٨۔

(٢) ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص ٢٥١

(٣) ابن واضح، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٠۔

(٤) شوقی ضیف، گزشتہ حوالہ، ص ٥١؛ جاحظ، المحاسن و الاضداد (بیروت: دار مکتبہ عرفان)، ص ٦٢۔ فصل محاسن السخائ)۔

(٥) ایک تفسیر کے مطابق۔ آیت ''لولا نزل هذا القرآن علی رجل من القریتین عظیم ۔'' (سورۂ زخرف، آیت ٣١.) میں دو بڑی شخصیتوں سے مراد مکہ میں ولید ابن مغیرہ ، اور طائف میں عروہ ابن مسعود ثقفی تھے کہ مشرکین ان کی بے شمار دولت کی بنیاد پر انھیں نبوت کے لئے نامزد کئے ہوئے تھے۔

(٦) طباطبائی، تفسیر المیزان، ج٢، ص ٩٣؛ ابن کثیر، تفسیر ، ج٤، ص ٤٤٢؛ تفسیر سورۂ المدثر۔

(٧) ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، (بیروت: مکتبہ المعارف، ط٢، ١٩٧٧ئ)، ج٢، ص ٢٢٩؛ آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٨٩؛ محمد احمد جاد المولی بک ( و معاونین)، ایام العرب فی الجاہلیہ (بیروت: داراحیاء التراث العربی)، ص ٢٤٨۔

(٨) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ٨٧؛ ابن کثیر، گزشتہ حوالہ، ص ٢٢٩۔

(٩) یوم بن جدعان، بجنب الحزورة

کانہ قیصرا و ذو الد سکرہ

(بکری، معجم ماستعجم، عالم الکتب، ط٣، ١٤٠٣ھ.ق)، ج٢، ص ٤٤٤؛ لفظ حزورہ؛ شوقی ضیف، گزشتہ حوالہ، ص ٥١.)

۹۷

ساتھیوں اور لڑنے والوں کو ١٠٠٠ اونٹ دے رکھے تھے۔(١) اور سو (١٠٠) لوگوں کواپنے خرچ پر مسلح کیا تھا۔(٢) وہ غلاموں کو رکھتاتھااو رکنیزوں کو فروخت کرتاتھا۔(٣) اور سونے کے برتن میں پانی پیتاتھا۔(٤) پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مکہ کے بعد جس وقت جنگ حنین کے لئے روانہ ہوئے۔ تو صفوان امیہ (مکہ کا ایک مشرک) سے سو (١٠٠) زرہ اور ضروری اسلحے امانت کے طور پر لئے۔(٥)

٢۔ دوسری طرف سے، قریش نے قصی (رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چوتھے جد) کے زمانہ سے کعبہ کی کنجی قبیلۂ خزاعہ کے ہاتھوں سے لے رکھی تھی۔(٦) اور حج و زیارت اور طواف سے مربوط مختلف ذمہ داریاں ، جیسے حاجیوںکے لئے پانی کی فراہمی (سقایہ) او رقیام و طعام کا انتظام (رفادہ) کعبہ کی دربانی اور پردہ داری (سدانہ) اور کعبہ کی نگہبانی اورخدمت گزاری (عمارہ) قریش کے مختلف

______________________

(١) محمد احمد جاد المولی بک، گزشتہ حوالہ، ص ٣٣٤۔

(٢) گزشتہ حوالہ، ص ٣٢٩۔

(٣) ابن قتیبہ، المعارف، تحقیق: ثروت عکاشہ (قم: منشورات الشریف الرضی، ط١، ١٤١٥ھ.ق)، ص ٥٧٦؛ مسعودی، مروج الذہب، (بیروت: دار الاندلس، ط١)، ج٢، ص ٢٨٧؛ جواد علی، گزشتہ حوالہ، ص ٩٦۔

(٤) آلوسی، گزشتہ حوالہ، ص ٨٧۔

(٥) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٨٣؛ واقدی، المغازی، تحقیق: مارسڈن جانس، ج٣، ص ٨٩٠؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ، (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص ١٥٠؛ حلبی، السیرة الحلبیہ (بیروت: دار المعرفہ)، ج٣، ص٦٣۔ اسی طرح رسول خدا اپنے چچازاد بھائی نوفل بن حارث بن عبدالمطلب سے تین ہزار نیزہ، امانت کے طور پر لیا (حلبی، گزشتہ حوالہ،) یہ سب ان کے عظیم مالی اقتدار کی علامت تھا ۔

(٦) ازرقی، اخبار مکہ، تحقیق: رشدی الصالح ملحس (قم: منشورات الرضی، ط١، ١٤١١ھ.ق)، ج١، ص ١٠٧؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٣٠۔

۹۸

سرداروں کے درمیان بٹی ہوئی تھی اور اس طرح سے انھیں مذہبی حمایت بھی حاصل تھی۔

اس کے علاوہ شہر کے اجتماعی امور کو بھی جیسے پرچم داری، دیت اور نقصان کا بدلہ دینے میں نظارت اور اختلافات کو ختم کرنے کی نمایندگی کواپنے قبیلوں کے درمیان بانٹ کر شہر کے کاموں کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔(١)

قریش کا اقتداور اثر و رسوخ

قریش جن کا شمار ایک زمانہ میں ایک چھوٹے خاندان میں ہوا کرتا تھا اور فقیر و تنگدست سمجھے جاتے تھے اور جنوب حجاز میں انکا کوئی مقام ودرجہ نہیں تھا وہ اپنے اقتصادی اور دینی انتظامات کی بنا پر آہستہ آہستہ عرب کے ایک طاقتور قبیلہ کی شکل میں ظاہر اور معروف ہوئے۔

اور شرف و بزرگی اور اہمیت کے اعتبار سے اپنے کودوسرے قبیلوں سے بلند کردیا۔ایک معاصر مورخ کے کہنے کے مطابق اس وقت قبیلۂ قریش حجاز کے تمام قبیلوں کی بہ نسبت بہت زیادہ امتیازات و خوبیاں رکھتا تھا۔ جس طرح سے لاوی لوگ حجاز کے یہودیوں کے درمیان اور راہب عیسائیوں کے درمیان امتیاز رکھتے تھے۔(٢)

خاص طور سے ہاتھیوں کے لشکر اور ابرہہ کی شکست کے بعد قریش جو کہ کلیددار کعبہ تھے ان کا احترام لوگوں کی نظروں میں بڑھ گیا۔(٣) اور انھوں نے اس واقعہ سے اپنے حق میں اورفائدے

______________________

(١) ابن عبد ربہ (العقد الفرید، (بیروت: دار الکتاب العربی، ١٤٠٣ھ.ق) ج٣، ص ٣١٤؛احمد امین، گزشتہ حوالہ، ٢٢٧؛ آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٤٥؛ البتہ یہ اقدامات بعض عیسائی مورخین جیسے جرجی زیدان اور لامنس کے تصور کے برخلاف، اس دور کے حکومتی محکموں اور دفتروں جیسا نہیں تھا بلکہ ایک ابتدائی اور قبیلہ کی شکل رکھتا تھا۔

(٢) فیلیپ حِتی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧۔

(٣) ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٥٩؛ ازرقی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ١٧٦۔

۹۹

اٹھائے۔ اپنے کو ''آل اللہ ، جیران اللہ اور سکان اللہ'' کہتے تھے۔(١) اور اس طرح انہوں نے اپنے مذہبی مراکز کوہموار کیااوران کی قدرت و طاقت کے احساس نے انھیں فساد اور انحصار طلبی کی طرف مائل کردیا۔(٢) اور اس طرح سے انھوں نے دوسرے قبائل پر اپنی طرف سے نئے قوانین کا سلسلہ تھوپ دیا۔ مثلاً قریش دوسرے قبیلوں سے بغیر کسی شرط کے لڑکی لاتے تھے۔ لیکن اپنی لڑکیوں کو اس شرط پر انھیں دیتے تھے کہ قریش کی خاص دینی بدعتیں مخصوصاً اعمال حج اور طواف کو وہ قبول کرلیں۔(٣) اور جو مسافر مکہ میں داخل ہوتے تھے ان سے ٹیکس وصول کرتے تھے۔(٤) اوراسے قریش کا حق سمجھتے تھے۔(٥) اس کے علاوہ حج کا پروگرام وہ اپنے ہاتھ میں رکھ کر حاجیوں کواپنے قوانین کا اس طرح تابع بناتے تھے کہ حاجیوں کی روانگی منی اور رمی جمرات سے ان کی اجازت پر موقوف ہوتی تھی۔(٦)

اسی طرح قریش اہل مکہ کے علاوہ دوسرے حاجیوں کو مجبور کرتے تھے کہ طواف کا لباس ان سے خریدیں ورنہ برہنہ طواف کریں اور اگر انھوں نے اپنے لباس میں طواف کیا تو طواف کے بعد

______________________

(١) ابن عبد ربہ، گزشتہ حوالہ، ج٣، ص ٣١٣؛ ازرقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٦۔

(٢) ازرقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٧٦۔

(٣) گزشتہ حوالہ، ص ١٧٩؛ آلوسی، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٢٤٣۔

(٤) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ج١، ص ٧٠.

(٥) جواد علی، گزشتہ حوالہ، ج٤، ص ٢١۔

(٦) ابن سعد، گزشتہ حوالہ، ص ٦٩؛ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ، ص ١٢٥، ١٣٠؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص ٢٠؛ ازرقی، گزشتہ حوالہ، ص ١٨٩۔

۱۰۰