نظارۂ حرم

نظارۂ حرم0%

نظارۂ حرم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 93

نظارۂ حرم

مؤلف: صادق اندوری
زمرہ جات:

صفحے: 93
مشاہدے: 34882
ڈاؤنلوڈ: 2254

تبصرے:

نظارۂ حرم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 93 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34882 / ڈاؤنلوڈ: 2254
سائز سائز سائز
نظارۂ حرم

نظارۂ حرم

مؤلف:
اردو

سحر ہی سے شب عاشورہ کے آثار ظاہر ہیں

مری آنکھوں میں کیوں اشکوں کو گردش ہوتی جاتی ہے

*

یہ دنیا اصل میں ایک کار گاہ فن ہے اے صادقؔ

یہاں ہر اہل فن کی آزمائش ہوتی جاتی ہے

*****

۶۱

بے حس ہے کیوں حسین کا ذوق وفا تو دیکھ

بے حس ہے کیوں حسین کا ذوق وفا تو دیکھ

اے ننگِ زیبست معرکۂ کربلا تو دیکھ

*

راہِ خدا میں سجدۂ قبلہ نما تو دیکھ

تیغِ جفا کے سامنے شہ کی وفا تو دیکھ

*

خود کعبہ جھک رہا ہے شہ دیں کے سامنے

اے اہل کعبہ، سجدۂ قبلہ نما تو دیکھ

*

برسا رہی ہے خامشیِ شاہ رحمتیں

مانندِ حر فضیلتِ ابر سخا تو دیکھ

*

اے بد عقیدہ ذاکر بد کیش و بدسرشت

ٹکرا رہی ہے عرش سے جو وہ دعا تو دیکھ

*

ہے ناتواں مگر ہے اسے یادِ شہ عزیز

میرے دل نحیف کا یہ ولولا تو دیکھ

*

میری دعا ہے بابِ اجابت پہ مستجاب

اے ننگِ اعتبار اثر التجا تو دیکھ

*

۶۲

تقصیر وارِ غم پہ تصدق ہیں رحمتیں

میدانِ حشر میں یہ وقار خطا تو دیکھ

*

صادقؔ مآل کار کی کر فکر پیشتر

ہر ابتدا میں صورتِ ہر انتہا تو دیکھ

*****

۶۳

شبیر کے غم میں آنکھوں سے اک اشک کا دریا بہتا ہے

شبیر کے غم میں آنکھوں سے اک اشک کا دریا بہتا ہے

ہیں خون کی موجیں دامن تک یہ بحر الم کیا بہتا ہے

*

جب صورتِ خار کھٹکتی ہے ہر سانس خلش بن جاتی ہے

دل پھوٹ کے روتا ہے پیہم اور زخم تمنا بہتا ہے

*

ہے ذکر غم سلطانِ الم دنیا کے لیے باران کرم

گردوں سے زمیں کی وسعت تک اک نور کا دریا بہتا ہے

*

الطاف شہنشاہ دیں کے کیا دیکھ سکے گا کوئی بشر

اک قلزمِ لا محدود ہے جو تا حدِّ نظارہ بہتا ہے

*

بہر غم شہ رفتہ رفتہ ہوتا ہے مرا سینہ خالی

آنکھوں سے مری خون ہو ہو کر دل قطرہ قطرہ بہتا ہے

*

ہمدردی ہے جن کی فطرت میں ہمدردی وہ کرتے ہیں اکثر

ناسورِ جگر بھی رِستا ہے جب دل کا چھالا بہتا ہے

*

شبیر کے غم میں اے صادقؔ آنکھوں کی نہیں ہے کوئی خطا

آنسو نہیں بہتے ہیں میرے خونِ دل شیدا بہتا ہے

*****

۶۴

زلف میں ہے رخ شہ عکس فگن دریا میں

زلف میں ہے رخ شہ عکس فگن دریا میں

دن کو آتا ہے نظر چاند گہن دریا میں

*

خوں میں تر تیغ شہ دیں کا گماں ہوتا ہے

تھرتھراتی ہے جو سورج کی کرن دربا میں

*

پسرِ حضرت مسلم کے بدن کو حارث

پھینک کر چل دیا بے گور و کفن دریا میں

*

اشک خون جو غم شہ میں لب ساحل نکلے

نظر آنے لگے تصویر چمن دریا میں

*

لہریں سرپیٹ رہی ہیں لب ساحل آ کر

موج زن ہے جو غمِ شاہِ زمن دریا میں

*

یوں پڑے ہیں تن بے سر پسرِ مسلم کے

دو کنول جیسے کہ ہوں جلوہ فگن دریا میں

*

یہ ہے خون شہ مظلوم کی ادنیٰ تاثیر

دشت میں سوز ہے پیدا تو جلن دریا میں

*

۶۵

دیکھتا کیا ہے یہ نو شاہ کی تلوار کے ہاتھ

ڈوب مر جا کے تو اے ماہر فن دریا میں

*

میں ہوں دریا گرِ اشک ، آنکھ صدف ہے صادقؔ

مخفی رہتا ہے ہر اک دُرِّ عدن دریا میں

*****

۶۶

مجرائی کیا کہوں میں محبت حسین کی

مجرائی کیا کہوں میں محبت حسین کی

ہر لحظہ دل پہ نقش ہے صورت حسین کی

*

کیوں کربلا کی خاک کو سمجھیں نہ ہم عزیز

مدفون ہے وہاں تو امانت حسین کی

*

اکبر کی شان دیکھ کے کہتے تھے اشفیا

یہ شکل مصطفیٰ ہے کہ صورت حسین کی

*

حرکس لیے امام کی جانب نہ لوٹتے

جنت کی ذمہ داری تھی بیعت حسین کی

*

نرغہ یزیدیوں نے کیا ہے تو غم نہیں

ہے اپنے بھی لہو میں حرارت حسین کی

*

دل خون خون ہے تو جگر ہے لہو لہو

یاد آ گئی ہے مجھ کو شہادت حسین کی

*

اے اضطراب غم ہمیں لے چل حضور شاہ

برداشت ہم سے ہوگی نہ فرقت حسین کی

*

صادقؔ ہیں کائنات میں دو چیز بے مثال

قوت علی کی اور صداقت حسین کی

*****

۶۷

مجرائی مصیبت سرور کی جس وقت مجھے یاد آتی ہے

مجرائی مصیبت سرور کی جس وقت مجھے یاد آتی ہے

بھر آتے ہیں آنکھوں میں آنسو اور دل کی تپش بڑھ جاتی ہے

*

مجبور ہیں تشنہ لب ہیں مگر، جاری ہے یہ فیض عام ان کا

سجاد کے چھالوں کی چھاگل کانٹوں کی پیاس بجھاتی ہے

*

پروان چڑھا ہو جو بچہ غم اور مصیبت سہہ سہہ کر

تلوار کے سائے میں اس کو آرام سے نیند آ جاتی ہے

*

بے سود الم کا درماں ہے یہ تو ہے نوشتہ قسمت کا

تدبیر کی دیوانی فطرت تقدیر سے کیوں ٹکراتی ہے

*

ہم شکلِ بنی کے تیور بھی خیبر کے دھنی کے تیور میں

ہر وار پہ خیمے سے پیہم تحسین کی آواز آتی ہے

*

کیا جنگ کرے گی قاسم سے کیا آ کے لڑے گی اکبر سے

مرعوب ہے فوجِ شام اتنی پاس آتے ہوئے گھبراتی ہے

*

کیا ذکر ہے چشم دشمن کا، بے نور ہے وہ تاریک ہے وہ

شمشیر علی کی تیزی سے بجلی کی چمک شرماتی ہے

*

۶۸

اس در سے تعلق ہے ہم کو اس در کے بھکاری ہم سب ہیں

تمکینِ جہاں بانی بھی جہاں سراپنا جھکانے آتی ہے

*

جس وقت غم سرور صادقؔ کرتا ہوں بیاں میں رو رو کر

گردوں سے مرے سر پر آ کر رحمت کی گھٹا چھا جاتی ہے

*****

۶۹

مجرائی میرے لب پر جب شہ کا نام آیا

مجرائی میرے لب پر جب شہ کا نام آیا

عرش بریں سے مجھ پر حق کا سلام آیا

*

حر فوجِ اشقیا سے سوئے امام آیا

شہ کے حضور آخر شہ کا غلام آیا

*

اس شاہِ ذی حشم کے تھے جاں نثار جتنے

میدان کربلا میں ایک ایک کام آیا

*

حالانکہ مختصر تھا حق کا گروہ لیکن

اس کے مقابلے میں ہر اہل شام آیا

*

میدان کربلا میں اس نے اماں نہ پائی

تیغِ علی کی زد پر جو بد لگام آیا

*

کچھ بن پڑا نہ اس سے پیش امام تنہا

حالاں کہ شمر ان میں با صد نظام آیا

*

یہ فیضِ مدح، سرور صادقؔ نہیں تو کیا ہے

میرے لیے جناں سے کوثر کا جام آیا

*****

۷۰

یہ دل ہے داغ شاہ شہیداں لیے ہوئے

یہ دل ہے داغ شاہ شہیداں لیے ہوئے

ذرہ ہے ایک مہر درخشاں لیے ہوئے

*

آئے ہیں دشتِ شام میں عباس نامدار

ساتھ اپنے ایک شمع فروزاں لیے ہوئے

*

اصفر کی شان دیکھ کے کہتا تھا ہر بشر

غنچہ ہے تازگیِ گلستاں لیے ہوئے

*

اکبر کے رخ سے کرتی ہے زلف اکتسابِ نور

کالی گھٹا ہے مصحفِ قرآن لیے ہوئے

*

ایماں فروش اہل شقاوت کے سامنے

آئے ہیں شاہ دولتِ ایمان لیے ہوئے

*

بے وجہ آسمان نہیں سرخ وقت شام

رنگ شفق ہے خونِ شہیداں لیے ہوتے

*

قاسم کے وار سے نہ بچا ایک بھی شریر

آیا تھا شمر جتنے پہلواں لیے ہوئے

*

۷۱

سجاد کے جمال سے روشن ہیں بام دور

ہے ایک چاند شام کا زنداں لیے ہوئے

*

پہنچے گا شہ کے سامنے صادقؔ بروز حشر

اپنی بغل میں دفتر عصیاں لیے ہوئے

*****

۷۲

مرے دل سے ابھر کر جب زباں پر شہ کا نام آیا

مرے دل سے ابھر کر جب زباں پر شہ کا نام آیا

مری بے تابیوں کو اذن تسکین دوام آیا

*

وغا میں جھومتا یوں وہ سمند تیز گام آیا

ہوا کے دوش پر جیسے کہ ابر خوش خرام آیا

*

ازل کے دن غمِ دارین پایا اہل عالم نے

مگر میرے مقدر میں غم شاہِ امام آیا

*

تصور غرق تھا پُر آبِ چشم شاہ میں لیکن

سمندر کی تہوں میں ڈوب کر بھی تشنہ کام آیا

*

خدا کا شکر حاصل ہو گیا مجھ کو غم سرور

مری ناکامیوں کو کامیابی کا پیام آیا

*

کرشمہ ہے یہ سلطانِ شہیداں کی محبت کا

جو غم آیا مرے دل میں وہ عشرت انتظام آیا

*

قدم کے بدلے سر کے بل یہاں چلنا ضروری ہے

ادب اے راہ رو عین وسعادت کا مقام آیا

*

۷۳

نبی زادوں پہ اتنی سختیاں اور وہ بھی غربت میں

نہ جانے شمر کے سر میں یہ کیوں سودائے خام آیا

*

مرے بخت سکندر پر تعجب تھا زمانے کو

مرے ترسے ہوئے ہونٹوں پہ جب کوثر کا جام آیا

*

نہ تھی آسان منزل مدحت سبط پیمبر کی

بہ مشکل طائر افکار صادق زیر دام آیا

*****

۷۴

سلامی مطمئن دل ہے غم شبیر و شبّر سے

سلامی مطمئن دل ہے غم شبیر و شبّر سے

ملی ہے کیا متاع زندگی اپنے مقدر سے

*

ملی ہے جنت کونین جن کو حبِّ حیدر سے

بدل دے یا خدا قسمت مری ان کے مقدر سے

*

زمیں خاموش تھی چپ آسماں تھا اور میداں میں

سلوک ناروا ہوتا رہا سبط پیمبر سے

*

الٰہی مرے منہ میں خاک لیکن اتنا تو کہہ دے

کہ زخمِ تیر اٹھ سکتا بھی تھا معصوم اصغر سے

*

تمنا جس کی حوروں کو،ملک جس کے تمنائی

ستم ہے اس کو چھینا جائے یوں آغوش مادر سے

*

غم شبیر میں آنکھوں نے وہ دریا بہائے ہیں

گناہوں کی سیاہی دھل گئی ہے دامن ترسے

*

رضائے حق میں تشنہ لب لٹانی تھی حیات اپنی

اگر وہ چاہتے کوثر ابلتا ایک ٹھوکر سے

*

۷۵

نچوڑا ہے ستاروں کا لہو صبح درخشاں نے

مرے رخ پر تبسم ہے غم آل پیمبر سے

*

جلال مصطفیٰ کا تجربہ ہوتا اسے صادقؔ

کوئی آنکھیں ملا لیتا جو ہم شکل پیمبر سے

*****

۷۶

سلامی دل میں بر پا ہے جو غم شاہ شہیداں کا

سلامی دل میں بر پا ہے جو غم شاہ شہیداں کا

یہی اک آسرا ہے بخششِ جرم فراواں کا

*

چمن کی پتی پتی کو ہے غم شاہ شہیداں کا

سحر سے پہلے منہ اترا ہوا ہے شبنمستاں کا

*

شہ دیں کے سوا کب دیکھ سکتا تھا کوئی انساں

نظر کے سامنے برباد ہو جانا گلستاں کا

*

علی اصغر کا لاشہ دیکھ کر شہ نے یہ فرمایا

خزاں کی نذر ہے پرور دہ آغوش بہاراں کا

*

یزید اتنے ستم اچھے نہیں معصوم اسیروں پر

کہیں پایہ نہ مل جائے تری تعمیر زنداں کا

*

کہاں تقدیر نے چھوڑا ہے لا کر شاہ کو تنہا

جہاں کے پھول میں بھی رنگ ہے خار مغیلاں کا

*

ہمارے خون میں بھی ہے حرارت خون سرور کی

بدل سکتے ہیں رخ بپھری ہوئی ہر موجِ طوفان کا

*

۷۷

حکومت اور طاقت سے کہیں دیتی ہے سچائی

ہمارے سامنے ہے سانحہ کربل کے میدان کا

*

غم شبیر ہے وجہ سکون زندگی صادقؔ

یہ سرمایہ ملا ہے ہم کو مدح شاہِ ذی شاں کا

*****

۷۸

جب کبھی مسلماں پر کوئی وقت آیا ہے

جب کبھی مسلماں پر کوئی وقت آیا ہے

یادِ کربلا تو نے حوصلہ بڑھایا ہے

*

شاہ کا کلیجہ تھا، شاہ کی یہ ہمت تھی

جس نے راہ یزداں میں ہنس کے زخم کھا یا ہے

*

پل سراط ہستی ہے جادۂ رضا لیکن

مسکرا کے سرور نے ہر قدم بڑھایا ہے

*

صبر کا چلن سیکھو، جبر سے نہ گھبراؤ

یہ ہی شاہ صابر نے راستہ دکھایا ہے

*

اے وفا کی تلوارو۔ بے نیام ہو جاؤ

سرکٹوں نے سر اپنا آج پھر اٹھایا ہے

*

جس کی آمد سے ظلمت جفا چونکی

نیّر وفا بن کر رن میں جگمگایا ہے

*

سر کے بل چلو صادقؔ ہو گئی رسا قسمت

کربلا کے والی نے کربلا بلایا ہے

***

۷۹

تسلیم و رضا کی منزل میں ایسا کوئی سجدا ہو جائے

تسلیم و رضا کی منزل میں ایسا کوئی سجدا ہو جائے

جو موجب عفو جرم بنے عقبیٰ کا سہارا ہو جائے

*

اس سرورتشنہ لب کے سوا اے چرخ ستمگر تو ہی بتا

ایسا ہے جہاں میں کون جسے پر ظلم گوا را ہو جائے

*

اے گردش دوراں تو نے بھی دیکھا ہے کبھی یہ نظارہ

جو پیاس بجھائے خلقت کی اس طرح وہ پیاسا ہو جاتے

*

ہر سانس میں پنہاں ہے یہ صدا پر دم یہ تقاضا ہے دل کا

اے کاش غم شبیر حزیں ہستی کی تمنا ہو جاتے

*

یاد آتا ہے جب وہ منظر غم دل کٹتا ہے آنکھیں روتی ہیں

پانی ہو قریں لیکن پانی اک آ گ کا دریا ہو جائے

*

تا حشر نہ ہم بھولیں گے اسے عاشورہ کا دن بھی وہ دن ہے

سورج بھی نہ ڈوبے اور اس دن دنیا میں اندھیرا ہو جانے

*

ہر چیز مٹا دے حق کے لیے جب تک نہ مثالِ ابن علی

آسان نہیں یوں ہر انسان اللہ کا پیارا ہو جائے

*

۸۰