تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 24456
ڈاؤنلوڈ: 3537


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24456 / ڈاؤنلوڈ: 3537
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 11

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

تفسیر نمونہ جلد یازدہم

تفسیرنمونه ، آیه الله العظمی مکارم شیرازی (مدظله العالی) کی ۱۵ ساله زحمات کا نتیجه ہے جس کو معظم له نے اہل قلم کی ایک جماعت کی مدد سے فارسی زبان میں تحریر فرمایا ، اس کا اردو اور عربی زبان میں ترجمه ہو کر شایع ہوچکا ہے.

تعداد جلد: ۱۵جلد

زبان: اردو

مترجم : مولانا سید صفدر حسین نجفی (رح)

تاریخ اشاعت: ربیع الثانی ۱۴۱۷هجری

سوره حجر

آیات ۱،۲،۳،۴،۵،

( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )

۱ ۔( الر تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ وَقُرْآنٍ مُبِین ) ۔

۲ ۔( رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْ کَانُوا مُسْلِمِینَ ) ۔

۳ ۔( ذَرْهُمْ یَاٴْکُلُوا وَیَتَمَتَّعُوا وَیُلْهِهِمْ الْاٴَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ ) ۔

۴ ۔( وَمَا اٴَهْلَکْنَا مِنْ قَرْیَةٍ إِلاَّ وَلَهَا کِتَابٌ مَعْلُومٌ ) ۔

۵ ۔( مَاتَسْبِقُ مِنْ اُمَّةٍ اَجَلَهَا وَمَا یَسْتَاخِرُوْنَ ) ۔

ترجمہ

رحیم و رحمن خدا کے نام سے

۱ ۔ الٓر۔ یہ کتاب اور قرآن مبین کی آیات ہیں ۔

۲ ۔(جس وقت) کافر (اپنے اعمال کے برے آثار دیکھیں گے )کس قدر آرزو کریں گے ، کہ وہ مسلمان ہوتے ۔

۳ ۔ چھوڑو انھیں ۔ وہ کھالیں ، فائدہ اٹھالیں اور آرزوئیں انھیں غافل کردیں ، لیکن وہ بہت جلد سمجھ لیں گے ۔

۴ ۔ ہم نے کسی شہر و دیار ( کے باسیوں ) کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ وہ اجل معین ( اور تغیر ناپذیر زمانہ ) رکھتے تھے ۔

۵ ۔ کوئی گروہ اپنی اجل سے آگے بڑھ سکتا ہے نہ پیچھے ہٹ سکتا ہے ۔

تفسیر

بے بنیاد آرزوئیں

اس سورہ کی ا بتداء میں ہمیں پھر حروف مقطعات ( الف ۔ لام ۔ راء ) کا سامنا ہے ۔ یہ حروف واضح کرتے ہیں کہ آسمانی کتاب کہ جو ساری نوع انسانی کے لئے سعاد کا راستہ کھولنے والی انہی سادہ سے حروف الف ، باء سے ترتیب پائی ہے اس کاخام مال وہی ہے جو تمام افراد بشر یہاں تک کہ دو تین سالہ بچے کے اختیار میں بھی ہے یہ انتہائی اعجاز ہے کہ ایسے مصالحہ سے اس قسم کا بے نظیر محصول بنا یا جائے ۔

لہٰذا بلا فاصلہ فرمایا گیا ہے : یہ آسمانی کتا ب اور واضح کی آیات ہیں( الر تِلْکَ آیَاتُ الْکِتَابِ وَقُرْآنٍ مُبِین ) ۔

ہم جانتے ہیں کہ ”تلک “ دور کا اسم اشارہ ہے حالانکہ قاعدتاً یہاں ھٰذہ ہونا چاہئیے تھا ( کہ جو نزدیک کے لئے اسم اشارہ ہے ) لیکن جیسا ہ ہم کہہ چکے ہیں کہ عربی ادب میں ( بلکہ فارسی ادب میں بھی )بعض اوقات کسی عظمت بیان کرنے کے لئے دو کے اسم اشارہ سے استفادہ کیا جاتا ہے یعنی اس کی وہ عظمت ہے کہ گویا ہم سے بہت دور آسمانوں کے فاصلے پرہے ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے بعض اوقات ایک بزرگ شخص کی موجودگی میں ہم کہتے ہیں کہ اگرآنجناب اجازت دیں تو ہم فلاں اقدام کریں یہاں ”آں “ (وہ ) کا لفظ ا س کے مقام کی عظمت بیان کرنے کے لئے ہے جیسا کہ ”نکرہ“ کی صورت میں قرآن کا ذکر بھی بیان ِ عظمت کے لئے ہے ۔

بہر حال ”کتاب “ کے بعد لفط ”قرآن “ کا آنا در حقیقت تاکید کے عنوان سے ہے اور لفظ ”مبین “ کے ذریعے اس کی توصیف اس لئے کی گئی ہے کیونکہ حقائق کو بیان کرنے والا اور حق کو باطل سے جدا کرکے واضح طور پر پیش کرنے والا ہے ۔

یہ جو بعض مفسرین نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ لفظ ” کتاب “ یہاں تورات اور انجیل کی طرف اشارہ ہے ۔ بہت بعید معلوم ہوتا ہے ۔

اس کے بعد ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جو ان واضح خدائی آیات کے بارے میں ہٹ دھرمی اور مخالفت میں اصرار کرتے ہیں ۔ فرمایا گیا ہے : ایک دن ایسا آئے گا کہ یہ لوگ اپنے منحوس کفر، اندھے تعصب اورہٹ دھرمی پرپشیمان ہوں گے اور ”کبھی یہ کار آرزو کریں گے کہ اے کاش ہم مسلمان ہوتے “( رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْ کَانُوا مُسْلِمِینَ ) ۔

جیسا کہ تفسیر المیزان میں ہے ؛ ”یود“ ( دوست رکھتا ہے ) سے مراد پسند کرنا، تمنا کرنا اور آرزو کرنا ہے اورلفظ”لو“ کا ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اسلام کی آرزو ایسے زمانے میں کریں گے جب وہ اس کی طرف نہیں آسکتے ہوں گے اور یہ خود اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ اس کی تمنا اور آرزو دوسرے جہان میں اپنے اعمال کے نتائج دیکھنے کے بعد کریں گے ۔

حضرت صادق علیہ السلام سے اس سلسلہ میں منقول حدیث بھی اسی معنی کی تائید کرتی ہے ۔ آپ فرماتے ہیں :

ینادی مناد یوم القیامة یسمع الخلائق انه لا ید خل الجنة الا مسلم فثم یود سائر الخلائق انهم کانوا مسلمین

جب قیامت کا دن ہوگا تو کوئی اس طرح پکارے گا کہ تمام مخلوق ا س کی آواز سنے گی ، وہ کہے گا : (آج) جنت میں ان لوگوں کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہوگا کہ جو اسلام لاچکے ہیں اس وقت سب لوگ آرزو اور تمنا کریں گے کہ اے کاش ہم مسلمان ہوتے ۔(۱)

نیز عظیم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے منقول ہے :

جس وقت دوزخی جہنم میں جمع ہوں گے اور مسلمانوں کے ایک گنہ گار گروہ کو ان کے ساتھ رکھا جائے گا تو کفار مسلمانون سے کہیں گے کہ کیا تم مسلمان نہیں تھے ۔ وہ جواب دیں گے کہ تھے تو سہی ۔ تو وہ کہیں گے کہ پھر تمہارا اسلام بھی تمہارے لئے فائدہ مند نہ ہوا ۔ کیونکہ تم بھی ہمارے ساتھ ایک ہی جگہ پر ہو ۔ وہ جواب دیں گے کہ ہم نے( بہت بڑے )گناہ کئے تھے کہ جن کے باعث ہم اس انجام کو پہنچے ہیں ( گناہ اور تقصیر کا یہ اعتراف اور دشمن کی وہ سر زنش سبب بنے گی کہ ) خدا وند عالم حکم دے گا کہ ہر وہ باایمان مسلمان کہ جوجہنم میں ہے اسے باہر نکالو ۔ تو اس وقت کفار کہیں گے کہ اے کاش ہم بھی اسلام لائے ہوتے۔(۲)

تفسیر طبرسی میں بی اسی مضمون کی چند احادیث زیر بحث آیت کے ذیل میں نقل ہوئی ہیں ۔

آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ کافروں میں ایسے افراد بھی ہیں کہ جن کا ضمیر ابھی بیدار ہے اور جب وہ پیغمبر ِ اسلام کی دعوت کو سنتے ہیں اور کتاب مبین کی آیات کے ان پیارے مضامین کو دیکھتے ہیں تو دل کی گہرائیوں سے ان کے گر ویدہ ہو جاتے ہیں اور آرزو کرتے ہیں کہ اے کاش ہم بھی اسلام لائے ہوتے ۔ لیکن تعصب ، ہٹ دھرمی یا مادی مفادات انھیں اجازت نہیں دیتے کہ اس عظیم حقیقت کو قبول کرلیں لہٰذاوہ اسی طرح کفر اور بے ایمانی کے قید خانے میں محصور رہ جاتے ہیں ۔

ہمارا ایک صاحب ایمان اور مجاہد دوست یورپ گیا تھا ۔ وہ بیان کرتا ہے کہ ایک مرتبہ میں نے اسلام کی خوبیان ایک عیسائی کے سامنے شما کیں وہ ایک منصف مزاج آدمی تھا اس نے جواب میں کہا: میں شچ مچ تمہیں مبارکباد دیتا ہوں کہ ہم اس قسم کے مذہب کے پیروکار ہو ۔ لیکن میں کیا کرو ں ، میری زندگی کے حالات اجازت نہیں دیتے کہ میں اپنے مذہب سے دست بردار ہوجاؤں ۔

یہ بات ضاذب نظر ہے کہ بعض اسلامی روایات میں ہے کہ جس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قاصد آنحضرت کا خط لے کر قیصر روم کے پاس پہنچا تو اس نے خصوصیت کے ساتھ آپ کے قاصد کے سامنے اظہار ایمان کیا یہاں تک کہ وہ رومیوں کو اس دین توحید و اسلام کی دعوت دیتا چاہتا تھا ۔ اس نے سوچا کہ پہلے ان کی آزمائش کی جائے جن اس کی فوج نے محسوس کیاکہ وہ عیسائیت کو ترک کردینا چاہتا ہے ۔ تو اس نے اس کے قصر کا محاصرہ کرلیا ۔ قیصر نے ان سے فوراً کہاکہ میں تمہیں آزمانا چاہتا تھا اپنی جگہ واپس جاؤ۔

اس کے بعد اس نے رسول اللہ کے قاصد سے کہا : میں جانتا ہوں کہ تمہارا پیغمبر خدا کی طرف سے ہے اور وہی ہے جس کے ہم نتظر تھے لیکن میں کیا کروں کہ میں ڈرتا ہوں کہ میری حکومت ہاتھ سے نکل جائے گی اور میری جان بھی خبرے میں ہے ۔(۳)

توجہ رہے کہ ان دونوں تفسیروں میں آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ او رممکن ہے آیت کا اشارہ اس جہان میں بھی کفارے بعض گروہوں کی پشیمانی کی طرف ہواور اس جہان میں بھی ۔ جب کہ وہ مختلف حوالوں سے اس جہان میں لوٹ آنے کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ اس جہان میں ( غور کیجئے گا) ۔

اس کے بعد قرآن بہت سر زنش کے لہجہ میں کہتا ہے : اے پیغمبر ! انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دے ( تاکہ چوپایوں کی طرح )کھاتے پھریں ۔ اس ناپائیدار زندگی کی لذتیں حاصل کرلیں اور آرزوئیں انھیں اس عظیم حقیقت سے غافل کردیں لیکن یہ بہت جلدی سمجھ جائیں گے( ذَرْهُمْ یَاٴْکُلُوا وَیَتَمَتَّعُوا وَیُلْهِهِمْ الْاٴَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُونَ ) ۔چونکہ یہ تو جانور ہیں جو اپنے اصطبل ، گھاس پھوس اور مادی لذّات کے سوا کچھ نہیں سمجھتے اور ان کی حرکتیں بس انہی چیزوں کے لئے ہیں ۔

غرور ، غفلت اور لمبی آرزؤں نے ان کے دلوں پر اس طرح سے پر دہ ڈال رکھا ہے اور انھیں اپنے میں ایسا مگن کر رکھا ہے کہ اب وہ ادراکِ حقیقت کی قدرت نہیں رکھتے ۔لیکن جب اجل کا طمانچہ ان کے منہ پر لگا ، غرور غفلت کے پردے ان کی آنکھوں کے سامنے سے ہٹے اور انہوں نے اپنے آپ کو ااستانہ موت پر یا عرصہ قیامت میں پایا تو اس وقت سمجھیں گے کہ کس قدر غفلت میں تھے، کسی قدر زیاں کا اور بدبخت تھے اور کس طر ح انہوں نے اپنا قیمتی ترین سرمایہ خود اپنے ہاتھوں گنوا دیا ہے ۔

بعد والی آیت میں ، اس بناء پر کہیں وہ یہ گمان نہ کریں کہ یہ مہلت اور لذائذ ِدنیا سے بہرہ دری کا سلسلہ ختم ہو نے والا نہیں ، مزید ارشاد ہوتا ہے : ہم نے کسی گروہ کو کسی شہر میں نابود نہیں کیا مگر یہ کہ وہ اجلِ معین اور تغیرنا پذیر دور رکھتے تھے ۔

( وَمَا اٴَهْلَکْنَا مِنْ قَرْیَةٍ إِلاَّ وَلَهَا کِتَابٌ مَعْلُومٌ ) ۔

”کوئی امت اور جمیعت اپنی اجل معین سے تجاوز نہیں کرسکتی اور نہ کوئی پیچھے رہ سکتی ہے “( مَاتَسْبِقُ مِنْ اُمَّةٍ اَجَلَهَا وَمَا یَسْتَاخِرُوْنَ ) ۔

ہر جگہ یہی سنت الٰہی کار فرما رہی ہے کہ اس نے جدید نظر ، بیداری اور آگاہی کے لئے کافی مہلت دی ۔ اس نے دردناک حوادث سے بھی دور چار کیا اور وسائل ِ رحمت سے بھی نواز ۔ اس نے ڈرایا بھی اور شوق بھی دلا یا ۔وہ خطرے سے خبر دار کرتا ہے تاکہ سب پر حجت تمام ہو جائے ۔

مگر جب یہ مہلت تمام ہوتی ہے تو حتمی انجام انھیں آلیتا ہے ۔ دیر اور جلدی کا تربیتی مصالح کی خاطر ممکن ہے لیکن

کیا اسی حقیقت کی طرف توجہ کافی نہیں ہے تاکہ سب کے سب گذشتہ لوگوں کی سر نوشت سے عبرت حاصل کریں ، اور خدائی مہلت سے باز گشت اور اصلاح کے لئے استفادہ کریں کیا اب ہمیں بیٹھا رہنا چاہئیے تاکہ گذشتہ گمر اہ اور ظالم قوموں کا سا برا انجام ہمارے لئے بھی دہرایا جائے ۔ اور بجائے اس کے کہ ہم گذشتہ لوگوں سے عبرت حاصل کریں ، آنے والوں کے لئے عبرت بن جائیں ۔

ضمنی طور پر آخری دو آیات سے آیات ِ قرآن میں اور خود زیر بحث سورت میں گذشتہ لوگوں کی تاریخ بیان کرنے کا مقصد واضح ہو جائے ۔

____________________

۱۔مجمع البیان اور نور الثقلین میں یہ روایت محل بحث آیت کے ذیل میں عیاشی کے حوالے سے درج کی گئی ہے ۔

۲۔ مجمع البیان ، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔ نیز فخر رازی اپنی تفسیر میں اسی سے ملتی جلتی ایک حدیث نقل کی ہے ( البتہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ )

۳۔ مکاتیب الرسول جلد ۱ ص ۱۱۲۔

لمبی آروزئیں غفلت کا سبب ہیں

اس اس میں شک نہیں کہ امید وآرزو یا عربوں کی تعبیر میں ” امل “ انسان کے چرخ حیات کی حرکت کا عامل ہے یہاں تک کہ اگر اسے اہل دنیا کے دلوں سے صرف ایک دن کے لئے اٹھالیں تو نظامِ زندگی درہم برہم ہو جائے اوربہت کم افراد میں فعالیت ، سعی و کوشش اور جوش ِ عمل پیدا ہو ۔

اس سلسلے میں پیغمبر اکرم سے یہ مشہور حدیث منقول ہے :

الامل رحمة لامتی ولو لا الا مل لا رضعت والدة ولدها ولاغرس غارس شجرا ۔

امید میری امت کے لئے سایہ رحمت ہے اگر نورامید نہ ہوئی تو کوئی ماں اپنے بچے کو دودھ نہ پلائے ، اور کوئی باغبان پودانہ لگائے ۔(۱)

یہ حدیث بھی اسی عمل کی طرف اشارہ ہے لیکن حیات و حرکت کا عامل جب حد سے گذر جائے اور دور دراز کی آرزو کی شکل اختیار کرے تو انحراف و بد بختی کا بد ترین عامل ہے یہ بالکل آبِ باراں کی طرح کہ جو سببِ حیات ہے لیکن اگر حد سے بڑھ جائے تو غرقابی اور نابودی کا باعث ہوجائے ۔

یہی وہ ہلاکت خیز آرزو ہے جس کا ذکر زیر بحث آیات میں آیا ہے اور اسے کدا و حق و حقیقت سے بے خبری کا باعث شمار کیا گیا ہے ۔ یہ دور دراز کی آرزوئیں اور لمبی چوڑی امیدیں ہیں جو انسان کو اس طرح اپنے میں مشغول رکھتی ہیں اور عالم تخیل میں مستغرق کردیتی ہیں کہ انسان زندگی اور اس کے اصلی اہداف و مقاصد سے بالکل بیگانہ ہو جاتا ہے ۔

ایک مشہور حدیث کہ جو نہج البلاغہ میں حضرت علی (علیہ السلام) سے منقول ہے وہ بھی اس حقیقت کو وضاحت سے بیان کرتی ہے :

( ایها الناس ان اخوف ما اخاف علیکم اثنان: اتباع الهوی و طول الامل، اما اتباع الهوٰی فیصد عن الحق ، و اما طول الامل فینسی الاٰخرة ) ۔

اے لوگو!خوفناک ترین چیزیں کہ جن کا مجھے تمہارے بارے میں اندیشہ ہے وہ دو ہیں ۔ ہوا و ہوس کی پیروی اور دور دراز کی آر زئیں ، کیونکہ ہوا و ہوس کی پیروی تمہیں حق سے باز رکھے گی اور دور دراز کی آرزو آخرت کو بھلا دے گی ۔(۲)

یہ حقیقت ہے کہ کتنے ہی باصلاحیت اور لائق افراد ہیں کہ جوآرزوئے درازکے دا م میں گرفتاری کے زیر اثر ضعیف اور مسخ شدہ وجود بن چکے ہیں کہ جس کی وجہ سے نہ صرف وہ اپنے معاشرے کے لئے مفید نہیں رہے بلکہ اپنے ذاتی مفادات بھی پامال کر چکے ہیں اور ہر قسم کی ترقی اور کمال سے محروم ہو گئے ہیں ۔ جیسا کہ دعائے کمیل میں ہے ۔

وحبسنی عن نفعی بعد املی

طویل آرزو نے مجھے اپنے حقیقت ِ منافع سے محروم کردیا ہے ۔

اصولی طور پر آرزو جب حد سے گذر جاتی ہے تو ہمیشہ انسانوں کو رنج و تعب میں مبتلا کردیتی ہے پھر وہ رات دن کو شش کرتا ہے اور اپنے گمان میں سعادت و خوشحالی کی طرف جارہا ہوتا ہے حالانکہ اسے بد بختی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ ایسے افراد اکثر اوقات اس حالت میں جان دے دیتے ہیں ان کی درد ناک اور غم انگیز اندگی کے ان کے لئے باعثِ عبرت ہے کہ جو دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان رکھتے ہیں ۔

____________________

۱۔سفینة البحار ۔ج۱ ،ص۳۰(مادہ ”امل“) ۔

۲۔ نہج البلاغہ ،۴۲۔

آیات ۶،۷،۸

۶ ۔( وَقَالُوا یَااٴَیُّهَا الَّذِی نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّکْرُ إِنَّکَ لَمَجْنُونٌ ) ۔

۷ ۔( لَوْ مَا تَاٴْتِینَا بِالْمَلَائِکَةِ إِنْ کُنْتَ مِنْ الصَّادِقِینَ ) ۔

۸ ۔( مَا نُنَزِّلُ الْمَلَائِکَةَ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَمَا کَانُوا إِذًا مُنْظَرِینَ ) ۔

ترجمہ

۶ ۔اور انہوں نے کہا: اے وہ شخص کہ جس پر ذکر (قرآن)نازل ہواہے ، بےشک تو دیوانہ ہے ۔

۷ ۔ اگر سچ کہتا ہے تو ہمارے لئے فرشتے کیوں نہیں لے آتا ۔

۸ ۔( لیکن انھیں جان لینا چاہیئے کہ) ہم فرشتوں کو حق کے بغیر نازل نہیں کرتے اور جس وقت نازل ہوئے تو پھر انھیں مہلت نہیں دی جائے گی ( اور انکار کی صورت میں عذاب ِالٰہی میں نابود ہو جائیں گے ) ۔

تفسیر

فرشتوں کے نزول کا تقاضا ۔

ان آیات میں پہلے تو قرآن اور پیغمبر کے خلاف دشمنی کفار کے اعتراض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : انھوں کہا:اے وہ شخص جس پر قرآن نازل ہوا ہے ہم یقینی قسم کھاتے ہیں کہ تو دیوانہ ہے( وَقَالُوا یَااٴَیُّهَا الَّذِی نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّکْرُ إِنَّکَ لَمَجْنُونٌ ) ۔

پیغمبر اکرم کے بارے میں ان کے یہ الفاظ انتہائی گستاخی اور جسارت کو مجسم کرتے ہیں ۔

ایک طرف تو ” یا ایھا الذی“ ( اے وہ شخص ) کہا گیا ہے دوسری طرف ”نزل علیه الذکر “کے الفاظ ہیں کہ جو انھوں نے قرآن کے استہزاء اور انکار کے طور پرکہیں ہیں اور تیسری مرتبہ پیغمبر اکرم کو مجنون قرار دینے کے لفظ”ان“ اور ”لام قسم“ کے ذریعے ان کی تاکید ہے ۔

جی ہاں !جس وقت ہٹ دھرم اور بے مایہ افراد ایک عظیم اور بے مثل عقل کا سامنا کرتے ہیں تو وہ اس کے ساتھ” مجنون“ک اپیوند لگانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ انکے لئے تو ان کی اپنی ناتواں عقل ہی میزان ہوتی ہے او رجو کچھ ان کی میزان میں نہ سما سکے وہ ان کی نگاہ میں بے عقلی اور دیوانگی ہے ۔

ایسے افراد اپنے ماحول کے مسائل کے بارے میں خاص قسم کے تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں چاہے وہ گمراہی میں ہی کیوں نہ ہوں ای لئے وہ ہ رتازہ دعوت کو غیر عاقلا نہ دعوت قرار دے کر مقابلے کی کوشش کرتے ہیں اور نئی پیش آمد چیزوں سے وحشت زدہ ہوتے ہیں اور غلط روشوں کی سختی سے پابندی کرتے ہیں ۔

علاوہ ازیں وہ دنیا پرست جو تمام چیزوں کو مادی معیاروں پر پرکھتے ہیں اگر ان کا کسی ایسے انسان سے سامنا ہو کہ جو اپنے تمام مادی مفادات حتی کہ اپنی جان بھی ایک روحانی مقصد کے لئے قربان کردے تو انھیں یقین نہیں آتا کہ وہ عاقل ہے کیونکہ ان کے نزدیک عقل کا کام زیادہ مال و دولت ، خوبصورت بیوی ، ،پر تعیش زندگی اور ظاہری مقام و منصب کا حصول ہے ۔

بالکل واضح سی بات ہے کہ اگر کسی فکر بس مال و دولت ، عورتوں اور مقام و منصب تک ہے جو اس کے سامنے کہا جاتاہے کہ : اگر آسمانی سورج میرے ایک ہاتھ پر اور چاند دوسرے ہاتھ پررکھ دو اور تمہارے چھوٹے سے ماحول کی بجائے تمام نظام شمسی پر میری حکومت ہوتو بھی میں اپنی دعوت سے دستبردار نہیں ہوں گا ، تو وہ یہ بات کرنے والے کو دیوانہ ہی قرار دے گا ۔

تعجب تو اس بات پر ہے کہ یہ بے عقل افراد خدائی رہبروں کے ساتھ ایسے ایسے پیوند چسپاں کرتے تھے کہ جو بعض اوقات بالکل ایک دوسرے کی ضد ہوتے تھے کبھی انھیں ”دیوانہ “ کہتے اور کبھی ”جادو گر “ ۔ حالانکہ جا دو گر تو ایک خاص زیر کی اور ہوشیاری کا حامل ہوتا ہے اور عین ”دیوانہ “کا مد مقابل ہے ۔

یہ لوگ نہ صرف پیغمبر کی طرف ایسی غیر عاقلانہ نسبتیں دیتے تھے بلکہ بہانہ جوئی کے طور پر کہتے تھے ۔ ”اگر سچ کہتے ہوتو پھر ہمارے لئے فرشتے کیوں لاتے“۔تاکہ وہ تیری گفتگو کی تصدیق کریں ۔ اور ہم ایمان لے آئیں( لَوْ مَا تَاٴْتِینَا بِالْمَلَائِکَةِ إِنْ کُنْتَ مِنْ الصَّادِقِینَ ) ۔

خد اتعالی ٰانھیں جواب دیتا ہے : ہم ملائکہ کو سوائے حق کے نہیں بھیجتے( مَا نُنَزِّلُ الْمَلَائِکَةَ إِلاَّ بِالْحَق ) ۔اور اگر فرشتے نازل ہوں ( اور حقیقت ان کے لئے حسی ّپہلو اختیار کرلے )اور اس کے بعد وہ ایمان نہ لائیں تو پھر انھیں مہلت نہیں دی جائے گی اور وہ عذاب الہٰی کے ذریعے نابود ہو جائیں گے ۔( وَمَا کَانُوا إِذًا مُنْظَرِینَ ) ۔

ماننزل الملائکة الا بالحق “ کی تفسیر کے سلسلے میں مفسرین کے مختلف بیانات ہیں :۔

۱ ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم فرشتوں کی صرف بطور اعجاز حق واضح کرنے کے نازل کریں گے نہ کہ ان کہ بہانہ جوئی کے لئے کہ وہ دکھ لیں اور پھر بھی ایمان نہ لائیں ۔ دوسرے لفظوں میں معجزہ کوئی بازیچہ اطفال نہیں کہ لوگوں کومن پسند سے رونما ہوتا رہے۔ بلکہ یہ تو اثبات حق کے لئے اور جو لوگ حق کے خواہاں ہیں ان کے لئے یہ امر بقدر کافی ثابت ہو چکا ہے کیونکہ پیغمبر اسلامنے قرآن جیسا معجزہ ہاتھ میں ہونے با وجود دوسرے معجزات بھی دکھا کر اپنی رسالت کو ثابت کیا تھا ۔

۲ ۔ ایک احتمال یہ ذکر کیا گیا ہے کہ ”حق “یہاں ” موت “ کے معنی میں ہے یعنی فرشتے صرف موت اور قبضِ روح کے وقت نازل ہو ں گے ۔ کسی اور وقت نہیں ۔

لیکن یہ تفسیر بہت بعید معلوم ہوتی ہے کیونکہ قرآن حکیم میں حضرت ابرہیم اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے واقعات میں ، یہاں تک کہ مسلمانوں کے بارے میں بعض سے متعلق ہے کہ ان پر فرشتے نازل ہوئے ۔

۳ ۔ بعض نے کہا ہے کہ ” حق“ سے مراد یہاں وہی آخری دنیاوی عذاب اور نابود کرنے والی مصیبت ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ”عذاب استیصال“ ہے یعنی اگر فرشتے نازل ہوں اور پھر یہ ایمان نہ لائیں کیونہ ان میں موجود ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ ایمان نہیں لائیں گے تو ان کی نابودی بھی ساتھ ہوگی ۔

آیت کا دوسرا جملہ” وما کانو ا اذاً منظرین“ بھی اس کے معنی کی تاکید کرتا ہے ۔ لیکن پہلی تفسیر کے مطابق اس کا الگ نیا مفہوم ہے ۔

۴ ۔ یہ احتمال بھی ہے کہ ”حق “ یہاں شہود کے معنی میں ہے یعنی جب تک یہ افراد اس دنیا میں ہیں ان کی آنکھوں کے سامنے پر دے پڑے ہیں اور یہ ایسے حقائق نہیں دیکھ سکتے کہ جو ماورائے مادّہ سے مر بوط ہیں صرف دوسرے جہان میں عالم ِ شہود ہوگا کہ جہاں پردے ہٹ جائیں گے تو پھر یہ فرشتگان ِ الٰہی کو دیکھ سکیں گے ۔

اس میں بھی دوسری تفسیر والا اشکال موجود ہے کیونکہ قومِ لوط کے بے ایمان اور گمراہ افراد تک نے عذاب پر مامور فرشتوں کو اسی دنیا میں دیکھا تھا ۔(۱)

اس بناء پر صرف پہلی اور تیسری تفسیر ظاہر آیت سے مناسبت رکھتی ہے ۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ آیت میں کہ اگر ان تمام واضح دلائل کے بعد بھی ان کے تقاضا کے مطابق حسی معجزہ پیش کیا جائے تو پھر انھیں مہلت نہیں دی جائے گی یہ اس بناء پر ہے کہ ایسی حالت میں ان کے لئے ہر پورے معنی کے لحاظ سے اتمام ِ حجت ہو جائے گا، اور تمام بہانے ختم ہو جائیں گے اور چونکہ زندگی کی مہلت ، اتمام حجت ، احتمالِ تجدید نظر اور حق کی طرف باز گشت کے لئے ہے او رجن پر پوری طرح اتمام حجت ہو جائے ان کے لئے مہلت کوئی معنی نہیں رکھتی لہٰذا ان کی عمر کے اختتام کا اعلان ہوجاتا ہے اور وہ اس سزا اور عذاب تک جا پہنچے ہیں جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں ( غور کیجئے گا ) ۔