تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 24483
ڈاؤنلوڈ: 3544


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24483 / ڈاؤنلوڈ: 3544
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 11

مؤلف:
اردو

آیات ۳،۴،۵،۶،۷،۸،

۳ ۔( خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ بِالْحَقِّ تَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ ) ۔

۴ ۔( خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَاهُوَ خَصِیمٌ مُبِینٌ ) ۔

۵ ۔( وَالْاٴَنْعَامَ خَلَقَهَا لَکُمْ فِیهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَاٴْکُلُونَ ) ۔

۶ ۔( وَلَکُمْ فِیهَا جَمَالٌ حِینَ تُرِیحُونَ وَحِینَ تَسْرَحُونَ ) ۔

۷ ۔( وَتَحْمِلُ اٴَثْقَالَکُمْ إِلَی بَلَدٍ لَمْ تَکُونُوا بَالِغِیهِ إِلاَّ بِشِقِّ الْاٴَنفُسِ إِنَّ رَبَّکُمْ لَرَئُوفٌ رَحِیمٌ ) ۔

۸ ۔( وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیرَ لِتَرْکَبُوها وَزِینَةً وَیَخْلُقُ مَا لاَتَعْلَمُونَ ) ۔

ترجمہ

۳ ۔اس نے آسمان اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے اور وہ اس سے بالاتر ہے کہ اس کے لئے شریک بناتے ہیں ۔

۴ ۔ اس نے انسان کو ایک بے حیثیت نطفے سے پیدا کیا اور آخر کار وہ ایک موجود فصیح اور اپنا واضح مدافع قرار پایا ۔

۵ ۔اور اس نے چوپایوں کو پیدا کیا جبکہ ان سے تمہیں لباس اور دیگر منافع حاصل ہوتے ہیں اور تم ان کے گوشت میں سے کھاتے ہو ۔

۶ ۔اور تمہارے لئے ان میں زینت اور شکوہ ہے جس وقت انھیں ان کی آرام گاہ کی طرف لوٹا تے ہو اور جب ( صبح کے وقت)انھیں صحرا کی جانب بھیجتے ہو ۔

۷ ۔وہ تمہارے بھاری بوجھ ایسے مقام تک اٹھا لے جاتے ہیں جہاں تک تم بغیر مشقت کے ساتھ نہیں پہنچ سکتے کیونکہ تمہارا پر ورگار رؤف و رحیم ہے ۔

۸ ۔اور ( اسی طرح ) اس نے گھوڑوں ، خچروں اور گدھوں کو پیدا کیا ہے کہ تم ان پر سوار ہو سکو اور وہ تمہاری زینت کا سبب بھی ہوں اور وہ ( نقل و حمل کے ) دیگر ذرائع پیدا کرے گا کہ جنہیں تم نہیں جانتے ۔

تفسیر

جانوروں کے گونگوں فائدے

گذشتہ آیات میں شرک کی نفی کے باے میں بات کی گئی ہے ۔ زیر بحث آیات میں شرک کی بیخ کنی کے لئے اور خدائے یکتا کی توجہ کے لئے دو حوالے سے بات کی گئی ہے ۔ پہلے عقلی دلائل کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے اور عجیب و غریب نظام خلقت کی جانب اشارہ کیا گیا ہے اور انسان کے لئے خدا کی طرح طرح کی نعمتوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے تاکہ اس میں شکر گزاری کا جذبہ پیداہو اور آخر کار اسے خدا کے قریب کردے ۔

ارشاد ہوتا ہے : اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کےسا تھ پیدا کیا ہے( خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ بِالْحَقِّ ) ۔آسمان و زمین کی حقانیت اس کے عجیب نظام سے بھی واضح ہے اور منظم و حساب شدہ آفرینش سے بھی ، اس کے ہدف سے بھی اور اس میں موجود فائدہ سے بھی ۔

اس کے بعد مزید فرمایا : خدا اس سے بر تر و بلند ہے کہ وہ اس کے لئے شریک بناتے ہیں( تَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ ) ۔

بت کہ جنہیں وہ اس کا شریک قرار دیتے ہیں ایسے تخلیق کی صلاحیت ہر گز نہیں رکھتے یہاں تک کہ وہ تو معمولی سا مچھر یا غبار کا ذرہ بھی پیدا نہیں کرسکتے اس کے باوجود تم انھیں کس طرح خدا کا شریک قرار دیتے ہو ۔

یہ بات لائق توجہ ہے کہ مشرکین خود اس عجب نظام اور بدیع خلقت کہ جو خالق کے علم و قدرت کی مظہر ہے کو صرف اللہ کی طرف سے جانتے ہٰں لیکن اس کے باوجود وہ عبادت کے وقت بتوں کے سامنے خاک پر گر پڑتے ہیں ۔

آسمان و زمین اوور ان میں بے پایاں اسرار کی جانب اشارہ کرنے کے بعد خود انسان کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے وہ انسان کہ جو ہ کسی سے بڑھ کر اپنے آپ سے قریب ہے ۔ فرمایا گیا ہے :انسان بے وقعت اوربے قیمت نطفے سے پیدا کیا گیا لیکن اس طرح پیدا ہو کر وہ فصیح و بلیغ متفکر ، اپنا دفاع کرنے والا اور واضح کلام کرنے والابن گیا ۔( خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَاهُوَ خَصِیمٌ مُبِینٌ ) ۔

”نطفہ“ کا اصلی معنی ہے تھوڑا یا صاف پانی ۔ بعد میں ان قطرات کو نطفہ کہا جانے لگا جو تلقیح کے لئے ذریعے انسانی پیدا ئش کا سبب بنتے ہیں ۔

اس تعبیر سے در حقیقت قرآن حق تعالیٰ کی عظیم قدت کو مجسم صورت میں بیان کرناچاہتا ہے کہ اس نے پانی کے حیثیت قطرے سے کیسی عجیب مخلوق پیدا کی ہے کہ جس کی قوس ِ نزول اور قوس ِ نزول صعود کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہے ۔

یہ مفہوم اس صورت میں ہے جب ” خصیم “ کو مدافع اور اپنی باطنی حالت بیان کرنے والے کے معنی میں لیا جائے جیسا کہ سورہ نساء کی آیہ ۱۰۵ میں ہے :( ولاتکن للخائنین خصیما )

اے رسول !خیانت کرنے والوں کے حامی اور مدافع نہ بنو ۔

یہ تفسیر کے ایک گروہ کے نزدیکقابل قبول ہے لیکن بعض مفسرین نے ایک اور تفسیر بیان کی ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ :

خدانے انسان کواپنی قدرت کاملہ کے ذریعے بے وقعت نطفے سے پیدا کیا لیکن یہ ناشکرا انسان خدا کے مقابلے میں کھلم کھلا مجادلہ اور مخاصمہ پر اٹھ کھڑا ہوا ۔

یہ مفسرین سورہ یٰس کی آیہ ۷۷ کو اس تفسیر پر شاید کے طورپیش کرتے ہیں ۔

لیکن پہلا معنی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ زیر نظر آیات عظمت ِخلقت ِ الہٰی کے بارے میں اور عظمت اس وقت آشکار ہو گی جب ظاہراًمعمولی موجود سے وہ ایک قیمتی چیز پیدا کردے ۔

تفسیر علی بن ابراہیم میں بھی ہے کہ :خلقه من ماء قطرة ماء منتن فیکون خصیماً متکلماً بلیغاً

خدا انے انسان کو پانی کے بدبو دار قطرے سے پیدا کیا ہے اور پھر وہ فصیح و بلیغ کلام کرنے والا ہو گیا ۔(۱)

دوسرا نکتہ یہ کہ انھیں ”منافع“ سے پہلے ذکر کیا گیا ہے یہ اس طرف اشارہ ہے کہ لباس ضرر کو روکنے کے لئے ہے اور ضرر کو روکنا حصول ِ منافع پر مقدم ہے ۔

ہوسکتا ہے وہ لوگ جو گوشت کھانے کے مخالف ہیں اس آیت سے بھی مطلب نکالیں کہ خدا نے جانوروں کا گوشت کھانے کا مسئلہ ان کے ” منافع“ میں شمار نہیں کیا ۔لہٰذا ”منافع“ کا ذکر کرنے کے بعد کہا ہے :و منها تاٴکلون “ ( اور تم ان حیوانات کا گوشت کھاتے ہو)اس تعبیر سے کم از کم یہ استفادہ کیاجاسکتا ہے کہ لبنیات کی اہمیت کہیں زیادہ ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن نے ان مفید جانوروں کے عام معمول فوائد بیان کرنے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ ان سے حاصل ہونے والے نفسیاتی فوائد کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے:یہ جانور تمہارے لئے زینت کا باعث ہوتے ہیں جبکہ انھیں آرام کی جگہ واپس لے جاتے ہو اور جب صبح کے وقت انھیں صحرا کی طرف بھیجتے ہو (ولکم فیها جما حین تریحون و حین تسرحون ) ۔

”تریحون“ اراحہ“ کے مادہ سے غروب کے وقت جانوروں کو ان کے باڑوں اور آرام کی جگہوں کی طرف واپس لانے کے معنی میں ہے اسی لئے ان کے آرام کی جگہ کو ” مراح“ کہتے ہیں ۔

”تسرحون“ ”سرح“ کے مادہ سے چوپایوں کو صبح کے وقت چرا گاہ کی طرف باہر لو جانے کے معنی میں ہے ۔

بھیڑ بکریوں اور دوسرے چوپایوں کے بیاباناور چرا گاہ کی طرف اکھٹے جانے اور پھر شام ڈھلے باڑوں اور آرام کی جگہ لوٹ آنے کے جاذب نظر نظر کو قرآن ”جمال“ سے تعبیر کرتا ہے یہ صرف ایک ظاہری ، تکلفاتی اور رسمی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس میں ایک حقیقت بیان کی گئی ہے کہ جس کا تعلق معاشرے کی گہرائیوں سے ہے یہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اس قسم کا معاشرہ خود کفیل ہوتا ہے فقیر و پس ماندہ نہیں ہے اور اس سے یا اس سے وابستہ نہیں ہوتا وہ خود وسائل مہیا کرتا ہے اور جو کچھ خود اس کے پاس ہوتا ہے اسے صرف کرتا ہے یہ در اصل معاشرے کا جما ل استغناء اور خود کفالت ہے یہ درحقیقت جمالِ تولید اورایک ملت کی ضروریات کی تکمیل ہے ۔ واضح تر الفاظ میں استقلال آزادی کے جمال اور ہر قسم کی وابستگی سے نجات ہے ۔

اس حقیقت کو دیہات میں رہنے والے اور دیہات میں پیدا ہو نے والے شہروں میں رہنے والوں سے بہتر سمجھ سکتے ہیں ، کہ جب یہ مفید چوپائے آتے جاتے ہیں تو انھیں دیکھ کر انھیں کیسا روحانی اور دلی سکون ہوتا ہے ایسا سکون جو بے نیازی کے احساس سے اٹھتا ہے ایسا سکون جو ایک مؤثر اجتماعی ذمہ داری کی انجام دہی پر ہوتا ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ زیر نظر آیت میں پہلے ان کے صحرا سے لوٹنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ جب یہ ڈھورڈنگر صحرا سے لوٹتے ہیں تو ان کے پستان دودھ سے بھرے ہوتے ہیں ، شکم سیر ہوتے ہیں اور ان کے چہرے سے خوشی اور طمانیت جھلک رہی ہوتی ہے ۔ لہٰذا اس وقت ان میں وہ حرص او رجلد بازی نظر نہیں آتی جو صبح دم صحرا کی طرف جاتے ہوئے ہوتی ہے ۔اطمینان سے کشاں کشاں قدم اٹھاتے ہیں اور اپنے آرام کی جگہ پر جاپہنچتے ہیں ۔ ان کے دود ھ بھرے پستانوں کو دیکھنے والا ہر کوئی ایک بے نیازی کا احساس کرتا ہے ۔

اگلی آیت میں ان جانوروں کے ایک اور اہم فائدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے وہ تمہارے بھاری بوجھ اپنے پشت پر اٹھا کر لے جاتے ہیں اور ایسے دیا ر کی طرف لے جاتے ہیں جہاں تک تم شدید مشقت کے بغیر نہیں پہنچ پاتے( وَتَحْمِلُ اٴَثْقَالَکُمْ إِلَی بَلَدٍ لَمْ تَکُونُوا بَالِغِیهِ إِلاَّ بِشِقِّ الْاٴَنفُسِ ) ۔یہ خدا کی رحمت و کرم کی نشانی ہے کہ اس نے ان چوپایوں کو اتنی طاقت بخشی اور انھیں تمہارے قابو میں کردیا کیونکہ ” تمہارا پر وردگار رؤف و رحیم ہے( إِنَّ رَبَّکُمْ لَرَئُوفٌ رَحِیمٌ ) ۔

”شق“ ” مشقت“کے مادہ سے ہے لیکن بعض مفسرین نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ شگاف کرنے اور آدھا آدھا کرنے کے معنی میں ہے یعنی تم خود اس وزن کو اپنے کندھے پر لاد کر جاؤ تو تمہاری آدھی قوت ختم ہو جائے ۔اصطلاح کے مطابق نیم جاں ہوجاؤ لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ۔

اس طرح جوچوپائے پہلے تو انسان کے لئے لباس اور گرمی سردی سے بچنے کا ذریعہ مہیا کرتے ہیں دوسرے درجہ پر ان کے لبنیات سے تیار شدہ چیزوں سے استفادہ کیا جاتا ہے اور پھر ان کا گوشت استعمال کیا جاتاہے اس کے بعد ان کے وہ نفسانی آثار ہیں جو احساسات پر مرتب ہوتے ہیں اور آخرمیں ان کی بار بر داری کا ذکر ہے ۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس دور میں جو کہ مشین کا زمانہ ہے اس میں بھی بہت سے مواقع پر صرف چوپایوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور جہاں کوئی اور طریقہ کار آمد بھی نہیں ہے ۔

اس کے بعد ایسے جانور کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو انسان کی سوای کے کام آتے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے : خدا نے گھوڑے ، خچر اورگدھے پیدا کئے ہیں تاکہ تم ان پر سواری کرسکو او ر وہ تمہاری زینت کا سبب بھی بنیں( وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیرَ لِتَرْکَبُوها وَزِینَةً ) ۔

واضح ہے کہ یہاں لفظ ” زینت“ کوئی تکلفاتی اور رسمی طور پر نہیں آیات جو شخص تعلیمات قرآن سے آشنا ہے اس کے لئے اسکا مفہوم واضح ہے ۔وہ وہ ززینت ہے جس کا اثر اجتماعی زندگی میں ظاہر ہوتا ہے اس حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کے لئے آپ اس شخص کی حالت کا تصور کریں کہ جس نے ایک طویل بیابانی راستے کو پاپیادہ طے کیا ہو اور تھکا ماندہ اپنی منزل تک پہنچتا ہے ۔ایک عرصہ تک کام کرنے کے قابل نہ رہا ہو اس کا موازمہ ایسے شخص سے کریں کہ سواری جس کے پاس ہو او روہ بہت جلد اپنی منزل پر پہنچ گیا ہو ۔ اس کی قوت و توانائی اسی طرح باقی ہو ،خوش و خرم ہو اور اپنے آئندہ امو ر انجام دہی کے لئے تیار ہو تو کیا یہ زینت نہیں ہے ؟

آیت کے آخر میں ایک نہایت اہم مسئلہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، اور انسانی افکار کو آئندہ زماے نے میں نقل و حمل کے نئے پیدا ہونے والے ذرائع کی طرف متوجہ کیا گیا ہے یعنی آئندہ زمانے میں انسان کے پاس ان جانوروں کی نسبت نقل وحمل کے بہتر اور خوب تر ذرائع ہوں گے ۔ ارشاد ہوتا ہے خدا تعالیٰ ( نقل و حمل کے لئے ) کئی ایک چیز پید اکرے گا کہ جنھیں تم نہیں جانتے( وَیَخْلُقُ مَا لاَتَعْلَمُونَ ) ۔

بعض گزشتہ مفسرین نے اگر چہ اس جملے کو ایسے جانوروں کی طرف اشارہ سمجھا ہے جو آئندہ پیدا ہوں گے اور نوع بشر کے مطیع ہوں گے لیکن جیسا کہ تفسیر مراغی اور تفسیر ظلال میں ہے ہمارے لئے جملے کا مفہوم سمجھنا آسان ہے کیونکہ ہم مشینی اور تیز رفتا رسوایوں کے زمانے میں زندگی بسر کررہے ہیں ۔

یہ جو لفظ” یخلق“ ( پید اکرے گا ) استعمال کیا گیا ہے اس کی دلیل واضح ہے کیونکہ انسان در حقیقت چیزوں کو جوڑ کر اورملا کر ایجادات کرتا ہے او رکچھ نہیں جبکہ ان چیزوں کا اصلی مواد صرف خداکی تخلیق ہے علاوہ ازیں انسانی ایجادات میں موجود استعداد خدا ہی کی عطا کردہ ہے ۔

نکتہ

جانور پالنے اور کھیتی باڑی کی اہمیت

آج کے زمانے میں پیدا واری اور کارخانے اور مشینیں اتنی زیادہ ہیں کہ تمام دوسری چیزیں ماند پڑ گئی ہیں لیکن آج بھی انسانی زندگی کی پیدا وار کا ایک اہم حصہ جانور پالنے اور کھیتی باڑی سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ غذائی مواد کی حقیقی بنیاد یہی دو امور ہیں اسی بناء پر جانور وں اور کھیتی باڑی کی ضروریات میں خود کفالت نہ صرف اقتصادی استقلال کی ضامن ہے بلکہ سیاسی استقلال بھی بہت حد تک اس سے مربوط ہے لہٰذا کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ساری دنیا کی قومیں جانوروں کی نشوونما کو وسعت دینے اور اس کی وسعت کے لئے مارڈن ذرائع استعمال کرنے میں کوشاں ہیں ۔

یہ دونوں چیزیں اتنی اہم اور بنیادی ہیں کہ بعض اوقات ان ممالک میں سے جنھیں سوپر پاور کہا جاتا ہے مجبور ہو جاتے ہیں کہ اپنے سیاسی مقام کو نظر انداز کرکے ان ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلائیں جو عین ان کے مخالف ہیں اس کے لئے روس کی مثال پیش کی جاسکتی ہے ۔

اسی بناء پراسلام اور اس کی حیات آفریں تعلیمات میں جانوروں کی پرورش اور زراعت کے مسئلے کو انتہائی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور ان امور کے لئے مسلمانو کو ترغیب دینے کے لئے ہر موقع سے استفادہ کیا گیا ہے ۔

مندرجہ بالا آیات میں ہم نے دیکھا ہے کہ قرآن جانوروں کے مسئلہ پر کس تشویق آمیز لہجے میں بات کرتا ہے ان سے حاصل ہونے والے منافع کا ذکر کرتا ہے چاہے وہ غذئی اعتبار سے ہوں یا لباس کے لحاظ سے ۔ یہاں تک کہ صحرا میں ان کے آنے جانے کا ذکر بڑے حسین پیرائے میں کرتا ہے ۔

زراعت ، کھیتی باڑی اور مختلف قسم پھلوں کی اہمیت کے بارے میں اسی طرح آئندہ آیات میں عمومی اعتبار سے گفتگو ہو گی ۔

اسلامی روایات میں جانور پالنے کے بارے میں نہایتجاذبِ توجہ تعبیرات نظر آتی ہیں اسی طرح کھیتی باڑی کے بارے میں بہت سی روایات میں ہم نمونے کے طور پر اسلامی مصا در سے چند ایک روایات پیش کرتے ہیں ۔

۱ ۔پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) نے ایک ایک عزیز سے فرمایا:

تم اپنے گھر”برکت“ کیوں نہیں لاتے ہو؟

اس نے عرض کیا:” برکت “سے آپ کی کیا مراد ہے ؟ فرمایا:”شاة تحلب “(دودھ دینے والی بکری )

مزید فرمایا:انه کانت فی داره شاة تحلب اونعجة او بقره وفبرکاة کلهن

جس گھر میں دودھ دینے والی بکری ،بھیڑ یا گائے ہو تو یہ سب برکتیں ہیں ۔(۲)

۲ ۔پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) سے منقول ہے کہ آپ نے بکری کی اہمیت کے بارے میں فرمایا:۔

نعم المال الشاة

بکری بہت اچھا سرمایہ ہے ۔(۳)

۳ ۔تفسیر نور الثقلین میں زیر بحث آیا ت کے ذیل میں امام امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے :

افضل مایتخذه الرجل فی منزله لعیاله الشاة فمن کان فی منزله شاة قدست علیه الملائکة مرتین فی کل یوم

اہل خانہ کے لئے انسان گھر میں جو چیز مہیا کرتا ہے وہ بکری ہے جس شخص کے گھرمیں بکری ہو خدا کے فرشتے ہر روز دومرتبہ اس کی تقدیس کرتے ہیں ۔

یہاں غلط فہمی نہیں ہونا چاہئیے ، ممکن ہے بہت لوگوں کے گھر میں بکری پالنے کے لئے حالات ساز گار نہ ہوں لیکن اصلی مقصد یہ ہے کہ جتنے گھر ہوں اتنی بھیڑ بکریاں ہمیشہ پالتے رہنا چاہئیے ( غور کیجئے گا) ۔

۴ ۔زراعت کی اہمیت کے لئے اتناکافی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :(من وجد ماء ً و تراباًثم افتقر فابعد الله )جس کے پاس پانی اور مٹی ہو اس کے باوجود وہ فقیر ہو ، خدا اسے اپنی رحمت سے دور رکھے ۔(۳)

۵ ۔پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) سے منقول ہے ، آپ نے فرمایا:

علیکم بالغنم و الحرث فانهما یروحان بخیر ویغدوان بخیر

تمہاری ذمہ داری ہے کہ بھیڑ بکریاں پالو اور کھیتی باڑی کرو اور ان کا لین دین خیر و بر کت کا باعث ہے ۔(۵)

۶ ۔امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے ، آپ (علیہ السلام) نے فرمایا:

مافی الاعمال شیء احب الیٰ الله من الزراعة

خدا کے ہاں زراعت سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں ۔(۶)

۷ ۔امام صادق علیہ السلام ہی سے ایک او ر حدیث منقول ہے ، فرماتے ہیں :

الزارعون کنوز الانام تزرعون طیباً اخرجه الله عزوجل وهم یوم القیامة احسن الناس مقاماً و اقربهم منزلة ید عون المبارکین ۔

کسان لوگوں کے خزانے ہیں وہ خدا کا عطاکردہ پاکیزہ اناج بوتے ہیں قیامت کے دن وہ بلند ترین مقام کے حامل ہوں گے وہ خدا کے زیادہ قریب ہیں اس روز انھیں ”مبارکین “ کے نام سے پکارا جائے گا ۔(۷)

____________________

۱۔تفسیر نور الثقلین ج۳ ص۳۹۔

۲۔بحار الانوار ج۱۴ ص ۶۸۶طبع قدیم ۔ مذکورہ حدیث میں بکری اور گائے کے علاوہ ”نعجة“ کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔لغت میں اس لفظ کے بہت سے معانی ہیں مثلاً وحشی گائے، پہاڑی بکری یا بھیڑ۔

۳۔بحار الانوار ج ۱۴، ص۶۸۶ طبع قدیم ۔

۴۔بحار الانوار جلد ۲۳ صفحہ ۱۹۔

۵۔بحار الانوار جلد ۱۴ ص۳۰۴۔

۶۔بحار الانوار جلد ۲۳ ، صفحہ ۲۰۔

۷۔وسائل الشیعہ جلد ۱۳ ،صفحہ ۱۹۴۔

آیات ۹،۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،

۹ ۔( وَعَلَی اللهِ قَصْدُ السَّبِیلِ وَمِنْهَا جَائِرٌ وَلَوْ شَاءَ لَهَدَاکُمْ اٴَجْمَعِینَ ) ۔

۱۰ ۔( هُوَ الَّذِی اٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً لَکُمْ مِنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِیهِ تُسِیمُونَ ) ۔

۱۱ ۔( یُنْبِتُ لَکُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّیْتُونَ وَالنَّخِیلَ وَالْاٴَعْنَابَ وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَةً لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ ) ۔

۱۲ ۔( وَسَخَّرَ لَکُمْ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِاٴَمْرِهِ إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ ) ۔

۱۳ ۔( وَمَا ذَرَاٴَ لَکُمْ فِی الْاٴَرْضِ مُخْتَلِفًا اٴَلْوَانُهُ إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَةً لِقَوْمٍ یَذَّکَّرُونَ ) ۔

ترجمہ

۹ ۔خدا کے ذمہ ہے کہ وہ بندوں کو راہ راست کی نشاندہی کرے البتہ بعض راستے گمراہی کے ہیں اور اگر خدا چاہے تو تم سب کو ( جبری طور) ہدایت کرے ( لیکن مجبور کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ) ۔

۱۰ ۔وہ وہی ہے جس نے آسمان سے پانی بھیجا کہ جسے تم پیتے ہو نیز یہ پودے اور درخت بھی اسے سے اگتے ہیں کہ جنھیں چرنے کے لئے تم اپنے جانور لے کر جاتے ہو ۔

۱۱ ۔اس( بارش کے پانی ہی ) سے خدا تمہاری کھیتیاں اگاتا ہے اسی سے وہ تمہارے لئے زیتون ، کھجور انگور اور ہر قسم کے پھل اگا تا ہے ۔ یقینا گور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں واضح نشانی موجود ہے ۔

۱۲ ۔ اس نے رات و دن اور سورج و چاند کو تمہارے لئے مسخر کردیا ہے نیز ستاربھی اس کے حکم سے تمہارے لئے مسخر ہیں اس میں ان لوگوں کے لئے (عظمت ِخدا کی ) نشانیاں ہیں جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں ۔

۱۳ ۔ (ان کے علاوہ ) جو رنگا رنگ مخلوق اس زمین میں پیدا کی گئی ہے اسے بھی ( تمہارے حکم کے سامنے ) مسخر کردیا گیا ہے اس میں ان لوگوں کے لئے واضح نشانی ہے جو متذکر ہوتے ہیں ۔

تفسیر

سب چیزیں انسان کے دستِ تسخیر میں ہیں :

گذشتہ آیات میں خدا کی مختلف نعمتوں کا ذکر تھا زیر نظر آیات میں بھی خدا بعض نہایت اہم نعمتوں کا ذکر ہے ۔

ایک بہت اہم معنوی نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : خدا کے ذمہ ہے کہ لوگوں کو اس صراط مستقیم کی ہدایت کرے جس میں کوئی انحراف اور کجی نہیں ہے ۔( وَعَلَی اللهِ قَصْدُ السَّبِیل ) ۔

”قصد“ راستہ صاف ہونے کے معنی میں ہے لہٰذا ”قصد السبیل“ کا معنی ”سیدھا راستہ “ ہو گا یعنی وہ راستہ جس میں انحراف اور گمراہی نہ ہو ۔(۱)

اس بارے میں کہ یہ ”سیدھا راستہ“ تکوینی پہلو سے ہے یا تشریعی پہلو سے ، اس سلسلے میں مفسرین نے مختلف تفسیریں کی ہیں لیکن کوئی مانع نہیں کہ اس میں دونوں پہلو شامل ہوں ۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ خدا نے انسان کو مختلف توانائیاں عطا کی ہیں اور اسے طرح طرح کی استعدادیں دی ہیں تاکہ تکامل و ارتقاء میں راہ میں اس کی مدد کی جائے کیونکہ تکامل و ارتقاء اس کا مقصدِ خلقت ہے اسی طرح نباتات اور دیگر مختلف جانوروں کو بھی اس ہدف تک پہنچنے کے لئے ضروری تونائیاں عطا کی ہیں ۔فرق یہ ہے کہ انسان اپنے ارادے کے ساتھ آگے بڑھ تا ہے ، جب کہ بناتات او ر جانور بے اختیار اپنے ہدف کی طرف جاتے ہیں ۔ نیز تکامل انسان کی قوسِ صعودی کا بھی دیگر جانداروں سے کوئی موازنہ نہیں ہے ۔

اس طرح خدا تعالیٰ نے خلقت اور تکوین کے اعتبار سے عقل و استعداد اور دیگر لازمی توانائیاں عطا کرکے اس صراط مستقیم پر چلنے کے لئے تیار کیا ہے ۔

دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو وحی ِآسمانی ، درکار تعلیمات اور انسانی ضرورت کے قوانین کے ساتھ بھیجا تاکہ تشریعی لحاظ سے صحیح اور غلط راستہ کو جدا جدا کرکے دکھادیں اور اس راستے چلنے کے لئے انسان کے شوق کو ابھاریں اور اسے انحرافی راستوں سے باز رکھیں یہ بات جاذب نظر کہ مندرجہ بالا آیت میں خدا تعالیٰ نے اس امر کو اپنا ایک فریضہ شمار کیا ہے ۔

اور ”علی الله “ ( خدا پر لازم ہے ) الفاظ استعمال کئے ہیں کہ قرآن کی آیات میں ہیں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں ۔مثلاً( علینا للهدیٰ ) )

ہم پر لازم ہے کہ ہم انسان کی ہدایت کریں ، ( لیل ۔ ۱۲)

اگر ہم ”علی اللہ قصد السبیل “ کے مفہوم کی وسعت پر غورکریں اور تمام مادی اور روحانی توانائیاں جو خلقت انسان اور اس کی تعلیم و پر ورش میں استعمال ہوئی ہیں کے بارے میں سوچیں تو ہمیں ” قصد السبیل “ کی عظمت کا اندازہ ہو گا کہ جو تمام نعمتوں سے بر تر ہے ۔

انحرافی راستے چونکہ بہت زیادہ ہیں اس لئے قرآن اگلے مرحلے پر انسان کو بیدا رکرتے ہوئے کہتا ہے : ان راستوں میں سے بعض انحرافی ہیں (ومنها جائز )(۲)

انسان کے کمال اور ارتقاء کے لئے چونکہ اختیار و اراد ہ کی آزادی اہم ترین عامل ہے لہٰذا قرآن ایک مختصر سے جملے کے ذریعے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے ” اگر خدا چاہتا تو ہم سب کو زبر دستی راہ راست کی ہدایت کرتا“ یہاں تک کہ تم ایک قدم آگےاس سے نہ رکھ سکتے( ولو شاء لهداکم اجمعین ) )لیکن اس نے یہ کام نہیں کیا کیونکہ جبری ہدایت نہ باعث افتخار ہے اور نہ تکامل و ارتقاء کاذریعہ اس نے تمہیں آزادی دی ہے تاکہ تم یہ راستہ اپنے قدموں سے طے کرو اور اوجِ کمال تک جا پہنچو ۔

قرآن کا جملہ ضمنی طور پر اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ اگر انسانوں کا ایک حصہ منحرف راستے کی طرف چل پڑتا ہے تو اس سے یہ وہم پیدا نہ ہو کہ ان کے مقابلے میں خدا مغلوب ہو گیا ہے بلکہ اس کی خواہش اور تقاجائے حکمت ہے کہ انسان آزاد ہیں ۔

اگلی آیت میں بھی مادی نعمت کا ذکر ہے تاکہ انسانوں کے احساس شکر کو ابھارا جائے اور ان کے دلوں میں عشق ِ الہٰی کے نور سے اجالا کیا جائے اور انھیں ان نعمتوں کے عطا کرنے والے کی زیادہ سے زیادہ معرفت کی دعوت دی جائے ۔ قرآن کہتا ہے : وہ وہی ہے جس نے آسمان سے پانی نازل کیا( هُوَ الَّذِی اٴَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً ) ۔حیات بخش ،میٹھا ، صاف شفاف اور ہر قسم کی آلودگی سے پاک پانی جسے تم پیتے ہو( لَکُمْ مِنْهُ شَرَابٌ ) ۔

اور اسی سے پودے اور درخت نکلتے ہیں کہ جنہیں چرنے کے لئے تم اپنے جانوربھیجتے ہو( وَمِنْهُ شَجَرٌ فِیهِ تُسِیمُونَ ) ۔

”تسیمون“ ”اسامہ“ کے مادہ سے جانروں کو چرانے کے معنی میں ہے اور ہم جانتے ہیں کہ جانور زمین کے پودوں سے بی استفادہ کرتے ہیں اور درختوں کے پتوں سے بھی ۔ اتفاق کی بات ہے کہ عربی لغت میں ”شجر“ کا ایک وسیع مفہوم ہے ۔ یہ لفظ درخت کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اورپودے کے لئے بھی

اس میں شک نہیں کہ بارش کا فا ئدہ یہی نہیں کہ اس کا پانی انسانوں کے پینے اور پودوں کے اگنے کے کام آتا ہے بلکہ اس سے ہوا صاف ہوجاتی ہے انسانی جسم کا درکار طوبت او ر نمی حاصل ہوتی ہے انسانی تنفس میں سہولت کا باعث ہے اور اسی طرح اس بارش کے اور بے شمار فائدے ہیں لیکن چونکہ مذکورہ دوباتیں زیادہ اہم تھیں اس لئے فقط انہی کا ذکر کیا گیا ہے ۔

قرآ ن بات جاری رکھتے ہوئے کہتاہے :بارش کے پانی ہی سے تمہاری کھیتیاں اگاتا ہے( یُنْبِتُ لَکُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّیْتُونَ وَالنَّخِیلَ وَالْاٴَعْنَابَ ) )

مختصر یہ کہ تمام پھل اسی سے اگتے ہیں( وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرَات ) ۔

یقینا یہ رنگا رنگ پھل اور طرح طرح کی کھیتیاں خدا کی طرف سے ان لوگوں کے لئے واضح نشانیاں ہیں جو صاحب فکر ہیں( إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَةً لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ ) ۔

”زرع“ کے مفہوم میں ہرطرح کی زراعت شامل ہے ”زیتون “ ایک خاص درخت کا نام ہے اور اس درخت کے پھل کو بھی ”زیتوں “ کہتے ہیں ( لیکن بعض مفسرین کے نزدیک ”زیتون“ صرف درخت نام ہے اور ” ززیتونہ“ اس کے پھل کانام ہے جبکہ سورہ کی آیت ۳۵ میں لفظ” زیتونہ“ خود درخت کے لئے استعمال ہوا ہے ) ۔

”نخیل“ کا معنی ہے ”کھجور کا درخت“یہ لفظ مفرد اور جمع دونوں معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔

”اعناف “ جمع ہے” عنب “کی جس کا معنی انگور ۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے تمام پھلوں میں سے صرف ان تین پھلوں زیتون ، کھجوراور انگور کا ذکر کیوں کیا ہے اس کی دلیل انشاء اللہ آپ اسی آیت میں پڑھیں گے ۔

اس کے بعد اس نعمت کی طرف اشارہ ہے کہ اس جہان کے مختلف موجود ات انسان کے لئے مسخر کردئے گئے ہیں ، ارشاد ِ الہٰی ہے اللہ نے تمہارے لئے رات اور دن کو مسخر کردیا ہے اور اسی طرح سورج اور چاند کو بھی( وَسَخَّرَ لَکُمْ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ) ۔

اسی طرح ستارے بھی حکم انسان کے سامنے مسخر ہیں( وَالنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِاٴَمْرِهِ ) ۔

ان امور میں یقینا خدا اور اس کی خلقت کی عظمت کی نشانیاں ہیں ان کے لئے جو عقل و فکر رکھتے ہیں (ا( ِٕنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ ) ۔

سورہ رعداور سورہ ابراہیم کے ذیل میں ہم کہہ چکے ہیں کہ انسان کے لئے موجودات مسخر ہونے کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ موجودات انسانی فائدے کے لئے مصروف خدمت ہوں اور انسان کو اس بات کا امکان فراہم کریں کہ وہ ان سے استفادہ کرسکے ۔اسی بناء پر رات ، دن ، سورج، چاند اور ستاروں میں سے ہر کوئی انسان کی زندگی پر اثر انداز ہو تے ہیں اور انسان ان سے فائدہ اٹھا تا ہے اس لحاظ سے یہ موجودات انسان کے لئے مسخر ہیں ۔

یہ جاذب نظر تعبیر کہ موجودات حکم ِخدا سے انسان کے لئے مسخر ہیں ۔ اسلام اور قررآن کی نگاہ میں انسان کے مقام اور حقیقی عظمت کو واضح کرتی ہے اور اس کے خلیفة اللہ ہونے کی اہلیت کا اظہار کرتی ہے اس تعبیر کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ خدا کی گونا گوں نعمتوں کاذکر کرکے انسان کے جذبہ تشکر کو ابھار ا جائے او ر وہ اس عمدہ و بدیع نظام کی اپنے لئے تسخیر کو دیکھتے ہوں خدا کے نزدیک ہو جائے ۔

اسی لئے آیت کے آخر میں ارشاد ہوتا ہے : اس تسخیر کے لئے ان میں نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں ۔ اسرار تسخیر سے زیادہآگاہی کے لئے سورہ ابراہیم کی آیات ۳۲ اور ۳۳ کی تفسیر دیکھئے ۔

ان کے علاوہ ” زمین میں پیدا کی گئی مخلوقات کو بھی تمہارے لئے مسخر کردیا گیا ہے “( وَمَا ذَرَاٴَ لَکُمْ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔

رنگا رنگ کی مخلوقات( مُخْتَلِفًا اٴَلْوَانُهُ ) ۔طرح طرح کے لباس ، مختلف قسم کی غذائیں ، پاکیزہ بیویاں ، آرام و آسائش کے وسائل ، قسم قسم کے معدنیات ، زیر زمین و پائے زمین مفید چیزیں اور دوسری نعمتیں ان میں بی واضح نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو سمجھ جاتے ہیں “( إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَةً لِقَوْمٍ یَذَّکَّرُونَ ) ۔

____________________

۱۔بعض بزرگ مفسرین مثلاً علامہ طباطبائی نے ” المیزان “ میں ” قصد “ کو ”قاصد“ کے معنی میں لیا ہے کہ جو ”جائر “( حق سے منحرف )کا الٹ ہے ۔

۲۔”منھا“ کی ضمیر ”سبیل “ کی طرف لوٹتی ہے اور سبیل مؤنث مجازی ہے ۔