آیات ۱۴،۱۵،۱۶،۱۷،۱۸
۱۴(
وَهُوَ الَّذِی سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاٴْکُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَی الْفُلْکَ مَوَاخِرَ فِیهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ
)
۱۵ ۔(
وَاٴَلْقَی فِی الْاٴَرْضِ رَوَاسِیَ اٴَنْ تَمِیدَ بِکُمْ وَاٴَنْهَارًا وَسُبُلاً لَّعَلَّکُمْ تَهْتَدُونَ
)
۔
۱۶ ۔(
وَعَلاَمَاتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ یَهْتَدُونَ
)
۔
۱۷ ۔(
اٴَفَمَنْ یَخْلُقُ کَمَنْ لاَیَخْلُقُ اٴَفَلاَتَذَکَّرُونَ
)
۔
۱۸ ۔(
وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللهِ لاَتُحْصُوهَا إِنَّ اللهَ لَغَفُورٌ رَحِیمٌ
)
۔
ترجمہ
۱۴ ۔وہ ذات وہی ہے جس نے ( تمہارے لئے ) دریا کو مسخر کیا تاکہ اس سے تازہ گوشت کھا سکو اور لباس کے لئے اس سے وسائل ِ زینت نکالو اور تم کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ وہ دریا کا سینہ چیر تی ہیں تاکہ تم ( تجارت کر سکو اور ) فضل ِخدا سے بہرہ مند ہو شاید تم اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو ۔
۱۵ ۔اور اس نے زمین میں محکم اور مضبوط پہاڑوں کو گاڑ دیا تاکہ تمہیں اس کی حرکت اور لرزنے سے محفوظ رکھے اور اس نے دریا پیدا کئے اور راستے بنائے تاکہ تمہیں ہدایت حاصل ہو ۔
۱۶ ۔ اور اس نے نشانیاں پیدا کیں اور ( رات کے وقت ) ان ( لوگوں ) کی ستاروں کے ذریعے راہنمائی کی گئی ہے ۔
۱۷ ۔کہ خلق کرنے والا اس کی مانند ہے جو خلق نہیں کرتا کیا تم خیال نہیں کرتے ۔
۱۸ اور اگر تم نعمات ِ خدا کو گننا چاہو تو ہر گز شمار نہیں کر پاؤ گے ۔ اللہ غفور و رحیم ہے ۔
تفسیر
پہاڑ، دریا اور ستارے نعمت ہیں :
ان آیا ت میں انسا ن کو حاصل کچھ اور اہم نعماتِ الہٰی کاذکر ہے یہاں بات دریاؤں سے شروع کی گئی ہے کہ جو انسانیزندگی کا بہت اہم منبع ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے : جس نے دریاؤں اور سمندروں کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے اور انھیں تمہاری خدمت پر مامور کیا ہے ۔(
وَهُوَ الَّذِی سَخَّرَ الْبَحْرَ
)
۔
ہم جانتے ہیں کہ زمین کا زیادہ تر حصہ دریاؤں اور سمندروں پر مشتمل ہے اور یہ بھی جاتنے ہیں کہ زندگی کی پہلی نپل دریا سے پھوٹی ۔ اس وقت بھی دریا اورسمندر انسانوں اور زمین کی تماموجودات کی زندگی کو جاری رکھنے کے لئے اہم منبع ہیں انھیں خدمت ِ بشر پا مامور کرنا خدا تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے ۔
اس کے بعد دریاؤں کے تین فوائد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے : تاکہ تم ا س سے تازہ گوشت کھاؤ۔(لِتَاٴْکُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِیًّا
) ۔وہ گوشت کہ جس کی پر ورش کی زحمت تم نے نہیں اٹھائی ۔ صرف خدا کے دستِ قدرت نے انھیں سمندروں اور دریاؤں میں پالا ہے اور تمہیں یہ مفت حاصل ہوا ہے ۔
اس گوشت کی یازگی کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے اس نے زمانے میں بھی پرا نااور باسی گوشت ،لتا تھا اور ہمارے اس زماے میں بھی اس صورت حال پر نظر رہے تو اس نعمت کی اہمیت اور تازہ گوشت سے غذا تیار کرکے کھانے کی اہمیت زیادہ واضح ہو جاتی ہے ۔
انسان کی مادی زندگی اور تمدن میں بہت ترقی ہوئی اس کے باوجود آج بھی دریا اور سمندر انسانی غذا کا ایک اہم منبع ہیں ہر سال لاکھوں ٹن گوشت جسے لطف پر وردگار کے دستِ مبارک نے انسانوں کے لئے پالا ہے دریا اور سمندر سے حاصل کیا جاتا ہے ۔
اس وقت جب انسان زمین پر بڑھتی ہوئی آبادی کو دیکھ کر اور ابتدائی مطالعہ کے بعد بعض لو گ آئندہ غذ کی کمی ہو جانے کا احساس کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ غذا میں آئندہ کی یہ متوقع کمی ڈراتی ہے لیکن سائنس دانوں کی توجہ دریاؤں اور سمندروں کی طرف ہے انھوں نے ان کی طرف چشم امید لگائی رکھی ہے ان کا خیال ہے کہ مختلف النوع مچھلیاں پال کر اور ان کی نسل کو بڑھا کر اس کمی کو بہت حد تک پورا کیا جاسکتا ہے دوسری طرف سائنس دانوں نے دریاؤں کے پانی کو آلودگی سے اور مچھلیوں کی نسل کی تباہی سے بچا نے کے لئے قوانین اور طریقے بھی وضع کیے ہیں ان کے مجموعی مطالعے سے قرآن کے مذکورہ جملے کی اہمیت زیادہ واضح ہوجاتی ہے جو کہ چودہ سوسال پہلے نازل ہوا ہے ۔
سمندروں سے ملنے والی چیزوں میں سے زینت اور بناؤ سنگار کے کام آنے والی چیزین بھی ہیں لہٰذا قرآن مزید کہتا ہے تاکہ اس سے پہننے کے لئے زینت کی چیزیں نکال سکو(
وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْیَةً تَلْبَسُونَهَا
)
۔
انسان چوپایوں کی طر ح ذوق سے محروم نہیں بلکہ روحِ انسانی کے چار مشہور پہلو ہیں ان میں سے ایک جمالیاتی حس ہے یہی ذوق حقیقی شعر اور ہنر کی تخلیق کا سر چشمہ ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ انسان کا روحانی پہلو بشری زندگی میں بہت مؤثر ہے لہٰذا صحیح طریقے سے ، افراد و تفریط سے بچتے ہوئے اس پہلو کی ضروریات بھی پوری کرنی چاہییں ۔
جو لوگ جمال پرستی اور زینتوں اور لذتوں میں غرق ہیں وہ اسی طرح گمراہ ہیں جیسے وہ خشک افراد کہ جو ہر قسم کی زینت کے مخالف ہیں ان میں سے ایک گروہ افراد میں مبتلا ہے اوردوسرا تفریط میں ۔ ایک گروہ سرمایے کو ضائع کرنے ، طبقاتی فاصلے پیدا کرنے اور معنویات کو قتل کرنے کا باعث ہے جبکہ دوسرا جمود اور ٹھہراؤکا باعث ہے ۔
اسی بناء پر اسلام میں معقول طریقے سے اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے زیب و زینت سے استفادہ کی اجازت دی گئی ہے مثلاًاچھے لباس پہننے ، مختلف قسم کے عطر استعمال کرنے بعض قیمتی پتھروں سے استفادہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے خصوصاً عورتوں کے لئے چونکہ وہ زیب و زینت کی طرف فطری طور پر زیادہ رغبت رکھتی ہیں لیکن ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ فضول خرچی سے خالی ہونا چاہئیے ۔
آخر میں تیسری دریائی نعمت کا ذکر ہے اور وہ ہے اس میں کشتیوں کا چلنا جوکہ انسان اور اس کی ضروریات کی نقل و حمل کا ایک اہم ذریعہ ہیں ۔ فرمایا گیا ہے : کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ وہ سمندر کا سینہ چیرتی ہیں(
وَتَرَی الْفُلْکَ مَوَاخِرَ فِیهِ
)
۔
کشتی پر بیٹھے ہوئے لوگ جب صفہ سمندر پر چل رہے ہوتے ہیں تو یہ منظر کس قدر قابل ِ دید ہوتا ہے ” خدا نے یہ نعمت تمہیں بخشی ہے تاکہ اس سے فائدہ اٹھاؤ اور راہِ تجارت میں اس کے فضل و کرم سے استفادہ کرو(
وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ
)
۔
ان سب نعمتوں کی طر ف متوجہ ہونے سے تم میں احساس ذمہ داری پیدا ہوتو ”شاید اس کی نعمتوں کا شکر بجالاؤ“(
وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ
)
۔
لفظ ”فلک “کشتی کے معنی میں ہے مفرد اور جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتاہے ۔
”مواخر“ ”ماخرة“ کی جمع ہے اس کامادہ ”مخر“ ہے جو پانی کو دائیں بائیں سے چیر نے کے معنی میں ہے کشتیاں چونکہ چلتے وقت پانی کا سینیہ چیرتی ہیں اس لئے انھیں ”ماخر“یا ماخرة“ کہتے ہیں ۔
اصولاً و ہ کون ہے جس نے اس مادہ میں یہ خاصیت رکھی ہے جس سے کشتی بنائی جاتی ہے کہ وہ پانی کے اوپر ٹھہر سکے اگر ہر چیز پانی سے زیادہ بھاری ہوتی اور پانی کا مخصوص دباؤ بھی نہ ہوتا تو ہم سمندر کے بیکراں صفحے پر کبھی بھی نہیں چل سکتے تھے نیز وہ کون ہے جو سمندروں کی سطح پر منظم ہواؤں کی چلاتا ہے اور وہ کون ہے جس نے بخارا ت میں یہ طاقت پیدا کی ہے کہ ان سے ہم سمندر پر انجن والی کشتیاں چلا سکیں ؟ کیا ان میں سے ہر ایک عظیم نعمت نہیں ہے ۔
سمندری راستے خشکی کی سڑکوں اور شاہراہوں کی نسبت بہت وسیع ، بہت کم خرچ اور زیادہ مہیا ہوتے ہیں ۔ بعض دیو قامت بحری جہاز شہروں کی طرح وسیع ہوتے ہیں اور اس طرح انسانوں کو حمل و نقل کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہاتھ آیاہے ہم اس طرف توجہ کریں تو کشتی رانی کے لئے سمندروں کی نعمت کی عظمت زیادہ واضح ہو جاتی ہے ۔
سمندروں اور دریاؤں کے نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد قرآن سخت اور مضبوط پہاڑوں کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے : زمین میں محکم اور مضبوط پہاڑ پہاڑ دئیے گئے ہیں تاکہ اسے لرز نے اور حرکت کرنے سے بچا یاجائے اور تم اس پر آرام و اطمینان سے رہ سکو(
وَاٴَلْقَی فِی الْاٴَرْضِ رَوَاسِیَ اٴَنْ تَمِیدَ بِکُمْ
)
۔
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ پہاڑوں کی بنیادیں اور جڑیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور باہم وابستہ اور پیوستہ ہیں اور زرہ کی طرح زمین کو اپنے اندر لئے ہوئے ہیں یہ چیز اندرونی گیس کے سبب ہ رلمحہ ممکن ہے سر زنش سے زمین کو بہت حد تک بچائے ہوئے ہے ۔ علاوہ ازیں پہاڑوں کی خاص وضع پانی کے مد جزر کے مقابلے میں زمین کی جلد کی قوت ِ مدافعت کو بڑھاتی ہے ور اس پر پانی کے مدجزر کے اثر کو بہت کم کر دیتی ہے اسی طرح پہاڑ زمین پر آنے والے شدید طوفان کو قوت اور ہواؤں کی حرکت کو کم کردیتے ہیں کیونکہ اگر پہاڑا نہ ہوتے تو زمین کی ہموار سطح تیز آندھیوں اور طوفان کی زد میں رہتی اور اس حالت میں اس کے لئے سکون ممکن نہ تھا ۔
نیز پہاڑ چونکہ اصل خزانوں میں سے ہیں ( برف کی صورت میں یا اندرونی طور پر ان میں پانی ہوتا ہے ) لہٰذا ان کے ساتھ ہیں فوراً دریاؤں اور نہروں کی نعمت کا ذکر کیا گیا ہے ، فرمایا گیا ہے : اور تمہارے لئے دریااور نہریں پیدا کی گئی ہیں(
وَاٴَنْهَارًا
)
۔
ممکن تھا کہ پہاڑوں کی وجود سے یہ تو ہم پیدا ہوتا کہ وہ زمین کے مختلف حصوں کو ایک دوسرے سے جدا کردیتے ہیں اور راستوں کو بند کردیتے ہیں لہٰذا مزید فرمایا گیا ہے اور تمہارے لئے راستے بنائے گئے ہیں تاکہ تم ہدایت پاؤ(
وَسُبُلاً لَّعَلَّکُمْ تَهْتَدُونَ
)
۔
یہ مسئلہ قابل توجہ ہے کہ دینا میں پہاڑوں کے بڑے بڑے سلسلوں میں کٹاؤ موجود ہے جس سے انسان ان کے درمیان سے اپنا راستہ بنالیتا ہے اور بہت کم ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ پہاڑزمین کے حصوں کو بالکل ہی ایک دوسرے سے الگ کردیں ۔
راستہ چونکہ نشانی اور علامت اورراہنما کے بغیر انسان کو مقصد تک نہیں پہنچا تالہٰذا راستے کی نعمت کا ذکر کرنے کے بعد ان نشانیوں اور علامتوں کا ذکر کیا گیا ہے فرمایا گیا ہے : اور علامتیں قرار دی گئی ہیں(
وَعَلاَمَاتٍ
)
۔
یہ علامتیں مختلف قسم کی ہیں پہاڑوں کی شکل و صورت ، درے اور ان کا ایک دوسرے سے کٹا ؤ اور علیحدگی ، زمین کا نشیب و فراز ، مختلف رنگ کی مٹی، پہاڑوں کے مختلف رنگ یہاں تک کہ ہر ایک میں چلنے والی ہواؤں کی کیفیت راستے تلاش کرنے کے لئے علامتیں ہیں ۔
ہمیں معلوم ہے کہ یہ علامتیں مسافروں کے لئے کس قدر مدد گار ہیں یہ انھیں منزل سے دور ہو جانے اور کھو جانے سے بچاتی ہیں بعض بیا بان ایک ہی طرز کے ہوتے ہیں انھیں عبور کرنا بہت زیادہ مشکل اور خطر ناک ہے ایسے ایسے بیابان ہیں کہ کتنے ہی لوگ ان میں گئے ہیں اور پھر پلٹ کر نہیں آئے ۔غور کیجئے کہ اگر اسی طرح ساری زمین ایک ہی طرز اور کیفیت کی ہوتی، پہاڑ ایک جیسے ہوتے ۔ سب دشت و بیابان ایک ہی رنگ کے ہوتے اور درے ایک دوسرے سے مشابہ ہوتے تو کیاپھر انسان آسانی سے اپنے راستے معلوم سکتے ؟
بعض اوقات انسان تاریک راتوں میں بیابانوں میں سفر کر تا ہے یا رات کو وسط ِ سمندر میں سفرکرتا ہے اور اس کے لئے ایسی کوئی علامات نہیں ہوتیں ایسے کوئی علامات نہیں ہوتیں ایسے میں اللہ تعالیٰ آسمانی علامتوں کو مدد کے لئے بھیجتا ہے تاکہ اگر زمین میں کوئی علامت نہیں ہے تو مسافر آسمانی علامت سے استفادہ کریں اور بھٹک نہ جائیں لہٰذا مزید فرمایا گیا ہے اور ستاروں کے ذریعے لوگوں کی راہنمائی کی جاسکتی ہے(
وَبِالنَّجْمِ هُمْ یَهْتَدُونَ
)
۔
البتہ یہ ستاروں کے فوائد میں سے ایک کا ذکر ہے ورنہ ان کے بہت سے فوائد ہیں تاہم اگر ان کا صرف یہی فائد ہ ہوتا تو بھی اہم تھا اگر چہ اب تو کشتیاں قطب نما کی مدد سے تیار کردہ نقشوں کے مطابق اپنا راستہ معین کرلیتی ہیں لیکن قطب نما کی ایجاد سے پہلے تو سمندروں میں ستاروں کی مدد کے بغیر چلنا ممکن ہی نہ تھا یہی وجہ ہے کہ رات کو جب بادل آسمان پر چھا ئے ہوتے تھے کشتیاں رک جاتی تھیں اور اگر وہ ایسے میں چلتی رہتیں تو انھیں موت کا خطرہ در پیش رہتا ۔
البتہ ہم جانتے ہیں کہ جو ستارے آسمان میں ہمیں اپنی جگہ بدلتے نظر آتے ہیں وہ پانچ سے زیادہ نہیں ہیں گویا یا یہ سیاہ کپڑے کو افق کی ایک طرف سے کھینچ کر دوسری طرف لے جاتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ثوابت کی حرکت مجموعی ہے لیکن سیاروں کی حرکت انفرادی ہے اور دیگر ستاروں سے ان کا راستہ تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔ علاوہ ازیں ثابت ستاروں کی مختلف شکلیں ہیں جو ” اشکال ِ فلکی “کے نام سے مشہور ہیں اور چاروں سمتیں ( مشرق، مغرب شمال ، جنوب ) معلوم کرنے کے لئے ان شکلوں کی پہچان بہت مفید ہے ۔
پر وردگار کی ان عظیم نعتوں اور پوشیدہ الطاف کا ذکر کرنے کے بعد قرآن انسانی وجدان کو فیصلے کی دعوت دیتا ہے کیا پیدا کرنے والا اس کی طرح جو پیدا نہیں کرتا ، کیا تم خیال نہیں کرتے(
اٴَفَمَنْ یَخْلُقُ کَمَنْ لاَیَخْلُقُ اٴَفَلاَتَذَکَّرُونَ
)
۔
یہ تربیت کا ایک مؤثر طریقہ ہے ۔ قرآن نے اس سے بہت سے مواقع پر استفادہ کیا ہے ۔قرآن سوالیہ طریقے سے مسائل پیش کر دیتا ہے اور ان کا جواب ان پر چھوڑدیتا ہے جن کا وجدان بیدا ہے ۔ قرآن اس طریقے سے لوگوں کے احساس کو ابھارتا ہے تاکہ جو اب ان کی روح کے اندر سے اٹھے اور پھر وہ اسے قبول کرلیں اور ا س جواب سے اس طرح محبت کریں جیسے وہ اپنے وجود سے پیدا ہونے والی اولاد سے کرتے ہیں ۔
اصول طور پر علم نفسیات کی رو سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ صحیح تعلیم و تربیت کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کی جانا چالئیے اس طرح کی جسے تعلیم دی جارہی ہو وہ مطالب نکلیں اسے یہ احساس نہ ہوکہ یہ کوئی ایسی چیز ہے جو باہر سے اس پر ڈالی گئی ہے ، مقصد یہ ہے کہ وہ ان مطالب کو اپنے پورے وجود کے ساتھ قبول کرے اور ان کا دفاع بھی کرے ۔
اس نکتے کا تکرار بھی ضروری ہے کہ وہ مشرکین جو مختلف بتوں کے سامنے ریزہ ہوتے ہیں ان کا کبھی یہ عقیدہ نہیں ہوتا کہ بت پیدا کرتے ہیں اور وہ خالق ہیں بلکہ وہ بھی خلقت کو اللہ کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں ۔ اسی لئے قرآن کہتا ہے : کیا ان نعمتوں کے خالق کے سامنے سجدہ کرنا چاہئیے یا ان کے سامنے جو ایک ناچیز مخلوق سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے اور جنھوں نے کبھی کسی چیز کو خلق نہیں کیا اور نہ وہ خلق کرسکتے ہیں ۔
آخر میں اس بناء پر کہیں کوئی یہ خیال نہ کرے کہ نعمت ِ الہٰی انہی چیزوں پر منحصر ہے ، قرآن کہتا ہے : اور اگر خدا کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو یہ تمہارے بس میں نہیں(
وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللهِ لاَتُحْصُوهَا
)
۔
سر تا پا تمہارا وجود اس کی نعمتوں میں مستغرق ہے ہر سانس جو اندر اور باہر آتا ہے یہی دو نعمتیں نہیں ۔ لمحہ بھرمیں ہزاروں نعمتیں ہیں اور ہر نعمت پر ایک شکر واجب ہے ہماری عمر کے گذرنے والے ہرلمحے کے لئے ہمارے بدن کے اندر اور باہر لاکھوں زندہ اور بے جان موجود کام کرتے ہیں جن کی فعالیت کے بغیر لحظہ بھر کی زندگی ممکن نہیں ۔
اصولا ً ہم تمام نعمتوں سے آگاہ نہیں ۔انسانی علم و دانش کا دامن جتنا پھیلتا رجارہا ہے ان نعمتوں کے نئے افق ہم پر کھلتے جارہے ہیں ایسے افق کہ جو بے کنارہیں کیا ان حالات میں ہم خدا کی نعمتیں شمار کرسکتے ہیں ؟
اس وقت سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہم کس طرح اس کے شکر کا حق ادا کرسکتے ہیں اس حالت میں کیا ہم ناشکروں کے زمرے میں نہیں آئیں گے ؟اس سوال کا جواب قرآن اس آیت کے آخری جملے میں دیتاہے ، کہتا ہے : خدا غفور و رحیم ہے ۔(
إِنَّ اللهَ لَغَفُورٌ رَحِیمٌ
)
۔
جی ہاں ! اللہ اس سے زیادہ مہر بان اوربزرگوار ہے کہ اپنی نعمتوں پر شکر کی طاقت نہ ہونے پر تمہارا مواخذہ کرے اگر تم یہ جان لو کہ تم سرتا پا اس کی نعمت میں غرق ہواور اس کا شکر ادا کرنے سے عاجز ہو اور اپنا عذر کوتاہی اس کی بار گاہ میں پیش کرو تو تم نے اس کا بہت شکر ادا کیا ہے ور نہ وہ شکر کہ جو اس کی خدا وندی کے لائق ہے کوئی ادا نہیں کر سکتا لیکن یہ سب کچھ اس میں مانع نہیں کہ کہ ہم مقدور بھر اس کی نعمتوں کو شمار کریں کیونکہ جس قدر جہاں بینی اور جہانشاسی میں اضافہ ہوتا جائے گا معرفت الہٰی میں بھی اضافہ ہوگا اور عشقِ الہٰی کانور بھی دل میں زیادہ ضیا پاش ہو گا ۔ اس کی نعمتوں پر غور ہمارے احساس گذاری کو بھی متحرک کرتا ہے اسی لئے دیانِ دین اپنے ارشادات میں بلکہ اپنی دعاؤں اور مناجاتوں میں بھی اس کی کچھ بے پایا ں نعمتوں کو بیان کیا کرتے تھے تاکہ دوسروں کے لئے سبق ہو ۔
شکر نعمت کے بارے میں اور اس بارے میں کہ انسان پر وردگار کی نعمتوں کا شمار نہیں کرسکتا ہم سورہ ابراہیم کی آیہ ۳۴ کے ذیل میں بحث کرچکے ہیں ۔
____________________