تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 24489
ڈاؤنلوڈ: 3544


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24489 / ڈاؤنلوڈ: 3544
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 11

مؤلف:
اردو

آیات ۱۹،۲۰،۲۱،۲۲،۲۳،

۱۹ ۔( وَاللهُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ )

۲۰ ۔( وَالَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ لاَیَخْلُقُونَ شَیْئًا وَهُمْ یُخْلَقُونَ ) ۔

۲۱ ۔( اٴَمْوَاتٌ غَیْرُ اٴَحْیَاءٍ وَمَا یَشْعُرُونَ اٴَیَّانَ یُبْعَثُونَ ) ۔

۲۲( إِلَهُکُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَالَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنکِرَةٌ وَهُمْ مُسْتَکْبِرُونَ ) ۔

۲۳ ۔( لاَجَرَمَ اٴَنَّ اللهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ إِنَّهُ لاَیُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِینَ ) ۔

ترجمہ

۱۹ ۔ جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم اعلانیہ کرتے ہو اللہ سب کو جانتا ہے ۔

۲۰ ۔خد اکے علاوہ وہ جن معبودوں کو پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو خلق نہیں کرسکتے بلکہ وہ تو خود مخلوق ہیں ۔

۲۱ ۔ وہ بے جان موجودات ہیں جن میں زندگی کی کوئی رمق نہیں اور انھیں معلوم نہیں کہ ان کی عبادت کرنے والے کب محشور ہوں گے ۔

۲۲ ۔تمہارا معبود خدائے یکتا ہے لیکن جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل حق کا انکار کرتے ہیں اور وہ بڑے بن بیٹھے ہیں ۔

۲۳ ۔جسے وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں یقینا خدا اس سب سے باخبر ہے ۔ اور وہ مستکبرین کو پسند نہیں کرتا ۔

مردہ اور بے شعور معبود

تفسیر

جن معبودوں کو وہ پکار تے ہیں وه مرده ہیں اور شعور نهیں رکهتے

گذشتہ آیات میں خدا کی ان دونہایت اہم صفات کی طرف اشارہ تھا جن میں سے کوئی بھی بتوں اور تراشے ہوئے معبودوں میں نہیں تھی یعنی موجودات کا خالق ہونا اور نعمتیں عطا کرنا ۔

زیر نظر پہلی آیت میں معبود حقیقی کی تیسری صفت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ ہے علم اور دانائی ۔ ارشاد ہوتا ہے: جسے تم پنہاں رکھتے ہو اور جسے تم آشکار کرتے ہو خدا سب کو جانتا ہے ( وَاللهُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ) ۔پھر تم پھر بتوں کے پیچھے کیوں جاتے ہو کہ جن کا کائنات کی خالقیت میں ذرہ برابر بھی حصہ نہیں ۔ نہ جنہوں نے تمہیں کوئی چھوٹی سی چھوتی نعمت بخشی ہے اور نہ جو تمہارے پوشیدہ اسرار اور ظاہری اعمال کو جانتے ہیں یہ کیسے معبود ہیں کہ جن میں ضرورت کی ایک بھی صفت نہیں ۔

اس کے بعد قرآن دوبارہ مسئلہ خالقیت کی طرف لوٹتا ہے لیکن اس کے مشابہ آنے والی پہلی آیت سے بات کچھ آگے کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : جن معبودوں کو وہ پکار تے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ کوئی چیز خلق نہیں کرتے بلکہ خود بھی مخلوق ہیں ۔( وَالَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ لاَیَخْلُقُونَ شَیْئًا وَهُمْ یُخْلَقُونَ ) ۔

اب تک تو بحث اس بارے میں تھی کہ وہ خالق نہیں ہیں لہٰذا لائق عبادت نہیں ہوسکتے اب فرمایا گیا ہے کہ وہ تو خود مخلوق ہیں ، نیاز مند ہیں ۔ اور اس صورت میں وہ انسانوں کا سہارا کیسے ہوسکتے ہیں ۔ کس طرح ان کی مشکل کشائی کرسکتے ہیں ؟یہ کیسا احمقانہ فیصلہ ہے ۔

علاوہ ازین وہ تو ” مردہ “ ہیں ۔ انھوں نے زندگی کی بو تک نہیں سونگی اور نہ ا س کی استعدا د رکھتے ہیں “( اٴَمْوَاتٌ غَیْرُ اٴَحْیَاءٍ ) ۔

کیا معبود کو موجود زندہ بھی نہیں ہو نا چاہئیے کہ جو اپنے عبادت کرنے والوں کی نیاز ، حاجت اور عبادت سے با خبر ہو ۔ لہٰذا معبود حقیقی کی چوتھی صفت یعنی ”حیات“ بھی ان میں بالکل نہیں ہے ۔

اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے : یہ بت بالکل نہیں جانتے کہ ان کی عبادت کرنے والے کس وقت اور کس زمانے میں مبعوث ہوں گے( وَمَا یَشْعُرُونَ اٴَیَّانَ یُبْعَثُونَ ) ۔

ثواب اور جزا ان کے ہاتھ میں ہوتی تو انھیں کم از کم اپنے عبادت گزاروں کے پھر سے جی اٹھنے کا تو پتہ ہوتا ہے ۔ اس جہالت کے ہوتے ہوئے ہو کس طرح لائق عبا دت ہو سکتے ہیں یہ پانچویں صفت ہے جو معبود حقیقی میں ہونا چاہئیے جبکہ وہ اس سے محروم ہیں ۔(۱) ۔

مشرکین اور ان کے بت دونوں ہی جہنم میں ہوں گے ۔

لیکن واضح ہے کہ اگر یہ مراد ہو تو پہلے اور بعد کی آیات میں مناسب ربط نہیں ہوگا لہٰذا صحیح تفسیر وہی ہے جو ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں ( غور کیجئے گا ) ۔

اب تک ہم کئی مرتبہ کہہ چکے ہی کہ بت اور بت پرستی کا قرآن کی منطق میں وسیع مفہوم ہے ہر موجود یا ہر شخص جسے ہم خداکے بدلے سہارا قرار دے لیں اور اپنی تقدیر اس کے ہاتھ میں سمجھیں وہ ہمارا بت شمار ہو گا لہٰذا جو کچھ مندرجہ بالا آیات میں آیا ہے وہ ان لوگوں کے بارے میں بھی ہے جو ظاہراً بت پرست نہیں ہے لیکن ایک سچے مومن کا سا استقلال نہیں رکھتے وہ وہ جو کمزور بندوں کو اپنا سہارا بنائے ہیں اور آزادی کی بجائے واسبتگی اور دوسروں پر انحصار کی زندگی گزارتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ عالمی سوپر طاقتیں مشکلات میں ان سہارا بن سکتی ہیں جبکہ یہ طاقتیں جہنمی اور خدا سے بیگانہ ہیں ایسے لوگ بھی عملی طور بت پرست اور مشرک ہیں اور ہمیں ان سے کہنا چاہئیے کہ کیا تمہارے ان معبودوں نے کوئی چیز خلق کی ہے کیا وہ کسی نعمت کا سر چشمہ ہیں ؟ کیا یہ تمہارے اندرونی اسرار سے آگاہ ہیں ۔

کیا وہ جانتے ہیں کہ تم کب اپنی قبروں سے اٹھوگے کہ تمہیں تمہاری جزا یا سزا دے سکیں ۔ پس کیوں ان کی بتوں کی سی پرستش کرتے ہو ۔

بتوں کی صلاحیت کی نفی پر ان واضح دلائل کے بعد نتیجہ اخذ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : تمہارا الہ الہ واحدی ہے( إِلَهُکُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ ) ۔

مبداء ومعاد چونکہ ہر جگہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں لہٰذا بلافاصلہ مزید فرمایا گیا ہے وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور فطرتامبداء کے بارے میں بھی ٹھیک ایمان نہیں رکھتے ۔ ( ان کے دل حقیقت کے منکر ہیں اور وہ حق کے مقابلے میں مستکبر بنے ہوئے ہیں( فَالَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنکِرَةٌ وَهُمْ مُسْتَکْبِرُونَ ) ۔(۲) ۔

ورنہ توحید کے دلائل تو متلاشیان ِ حق کے لئے اور حقیقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والوں کے لئے آشکار ہیں ۔ ایس طرح معاد کے دلائل بھی واضح ہیں ۔ اسکبار اور تکبر اور حق کے سامنے سر نہ جھکانے کے سبب وہ ہمیشہ انکار ہی کرتے ہیں یہاں تک کہ حسی حقائق کے بھی منکر ہو جاتے ہیں ۔

یہاں تک کہ ان کا یہ طرز عمل ان میں رچ بس جاتا ہے اور اس کے عادت کے ہوتے ہوئے حق کی کوئی بات اور دلیل و منطق ان پر اثر انداز نہیں ہوتی۔

بت ، پرستش کے لائق نہیں اس سلسلے میں گذشتہ آیات میں جو زندہ دلائل گزر چکے ہیں کیا وہ کافی نہیں کہ ہر ذی شعورتصدیق کر ے کہ بت لائق عبادت نہیں لیکن انتہائی تعجب کی بات ہے کہ ہم دیکھتے ہیں یہ لوگ پھر بھی حقیقت قبول نہیں کرتے ۔

زیر بحث آخری آیت میں ہم پھر دیکھتے ہیں ۔ غیب و شہوداور پنہا ں و آشکار پر خدا کی آگاہی کا ذکر کیا گیا ہے ۔ فرمایا گیاہے : جسے تم پنہاں رکھتے ہو اور جسے تم آشکار کرتے ہو یقینا خدا اس سے باخبر ہے( لاَجَرَمَ اٴَنَّ اللهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ ) ۔

یہ جملہ در حقیقت کفار اور دشمنان حق کے لئے ایک دھمکی ہے کہ خدا تمہاری حالت سے ہر گز غافل نہیں ہے وہ نہ صرف ان کے ظاہر کو جانتا ہے بلکہ ان کے باطن سے بھی آگاہ ہے اور موقع آنے پر ان سے حساب لے گا ۔

وہ مستکبر ہیں اور ” خدا مستکبرین کوپسند نہیں کرتا“( إِنَّهُ لاَیُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِینَ ) ۔کیونکہ حق کے سامنے استکبار اور تکبر خدا سے بیگانگی کی پہلی دلیل ہے ۔

لفظ ”لا جرم “ ” لا“ اور ” جرم “ کا مرکب ہے یہ لفظ عام طور پر تاکید کے لئے اور قطعاً اور یقینا کے معنی میں آتا ہے اور کبھی ”لابد“ ( ناچار) کے معنی میں آتا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات قسم کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً ہم کہتے ہیں :( لاجرم لافعلن )

میں قسم کھاتا ہوں کہ کام کروں گا ۔

رہا یہ سوال کہ ”لاجرم“ سے یہ معانی کیسے معلوم ہوئے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ”جرم“ در اصل درخت سے پھل چننے اور توڑنے کے معنی میں ہے اور جب اس کے شروع میں ” لا“ لگادیا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہو جاتا ہے کہ کوئی چیز اسے توڑ اور کاٹ نہیں سکتی اس طرح اس سے مسلماً ، ناچار اور کبھی قسم کا مفہوم حاصل ہو جاتا ہے ۔

____________________

۱۔ ”اٴَمْوَاتٌ غَیْرُ اٴَحْیَاؤَمَا یَشْعُرُونَ اٴَیَّانَ یُبْعَثُونَ “اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے دیگر احتمالات بھی ذکر کئے ہیں ان میں سے ایک کے مطابق یہاں مراد یہ ہے کہ بت نہیں جانتے کہ وہ کب مبعوث ہو ں گے اس سلسلے میں مفسرین نے بعض آیات سے شواہد بھی پیش کئے ہیں ۔ سورہ انبیاء کی آیت ۶۸ میں خدا فرماتا ہے :

۲۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ”فَالَّذِینَ لاَیُؤْمِنُونَ “میں فاء تفریع کے لئے ہے ۔ قیامت ومبعوث ہونے کا انکار مبداء کے انکار کی وجہ سے ہے اور ان سر چشمہ استکبار ہے ۔

مستکبر کون ہیں ؟

قرآن مجید کی چند آیات میں ”استکبار “ کفار کی ایک خاص صفت کے عنوان سے استعمال ہوا ہے ان سب آیاتسے معلوم ہوتا ہے کہاس سے مراد ”تکبر “ کرتے ہوئے حق کو قبول نہ کرنا ہے ۔ سورہ نوح کی آیہ ۷ میں ہے :

( وانی کلما دعوتهم لتغفر لهم جعلوا اصابعهم فی اذانهم و استغثوا ثیابهم و اصبّروا و استکبروا استکباراً )

میں اپنے میں سے اس بے ایمان گروہ جو دعوت دیتا ہوں تاکہ تیری عفو و بخشش ان کے شامل حال ہو تو اس دعوت پر وہ کانو ں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں اور اپنے آپ کو اپنے لباس کے نیچے چھپالتے ہیں اور گمراہی پر اصرار کرتے ہیں اور حق کے سامنے استکبار کرتے ہیں ۔

نیز سورہ منافقین کی آیہ ۵ میں ہے :

( واذا قیل لهم تعالوا یستغفر لکم رسول الله لوّوا راء وسهم ورایتهم یصدون وهم مستکبرون ) ۔

اور جب ان سے کہو کہ آؤ تاکہ اللہ کا رسول تمہارے لئے بخشش و مغفرت طلب کرے تو وہ نافرمانی کرتے ہیں اور تم دیکھو گے کہ وہ لوگوں کو راہ حق سے روکتے ہیں اور استکبار کرتے ہیں ۔

اور سورہ جاثیہ کی آیت ۸ میں اسی گروہ کے بارے میں ہے :( یسمع اٰیات الله تتلیٰ علیه ثم یصرمستکبراً کان هم یسمعها )

اللہ کی آیات انھیں سنائی جاتی ہیں وہ سنتے ہیں لیکن اس کے باوجود کفر پر اس طرح سے اصرار کرتے ہیں گویا انھوں نے یہ آیت سی ہی نہیں ۔

در حقیقت بد ترین استکبار یہی ہے کہ حق کو قبول کرنے کی بجائے تکبر کیا جائے کیونکہ ہدایت کے تمام راستے انسان کے سامنے بند کردیتا ہے اور وہ ساری عمر بد بختی ، گناہ اور بے ایمانی میں بھٹکتا رہتا ہے ۔

نہج البلاغہ کے خطبہ قاصعہ میں حضرت علی علیہ السلام نے صراحت سے شیطان کو ” سلف المستکبرین “( تکبر کرنے والوں کا سر براہ )قرار دیا ہے کیونکہ اسنے پہلا قدم ہی اٹھا یا کہ حق کی مخالفت کی اور اس حقیقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کردیا کہ آدم اس سے زیادہ کامل ہیں اسی طرح وہ تمام افراد جو حق کو قبول کرنے سے منہ پھیر لیتے ہیں مالی طور پر تہی دست ہو یا دولتمند وہ مستکبر ہیں لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اکثر اوقات زیادہ مالی طاقت ہی کے سبب انسان حق کو قبول کرنے سے رو گردانی کرتا ہے ۔

روضة الکافی میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے ، آپ نے فرمایا:

و من ذهب یری ان له علی الاٰخرة فضلا فهو من المستکبرین ، فقلت انما یری ان له علیه فضلا بالعافیة اذا راٰه مرتکباً للمعاصی ؟هیهات هیهات ! فعله ان یکون قد غفرله مااتی، و انت موقوف تحاسب، اما تلوت قصة سحرة موسیٰ (ع)

جو شخص دوسرے پر بر تری اور امتیاز کا قائل ہووہ مستکبر ین میں سے ہے ۔

راوی کہتا ہے : میں نے امام سے پوچھا کیا اس میں کوئی حرج ہے کہ انسان کسی کو گناہ میں مشغول دیکھے اور خود اس نے چونکہ گناہ کا ارتکاب نہیں کیا لہٰذا اس پر اپنی بر تری اور امتیاز سمجھے؟

امام نے فرمایا :

تونے اشتباہ اور غلطی کی ہے ہوسکتا ہے کہ خدا بعد ازاں اس کا گناہ بخش دے اور تجھے حساب کے لئے کھڑا رکھے ۔ کیا تونے قرآن میں زمانہِ موسیٰ کے جادو گروں کا قصہ نہیں پڑھا ( کہ وہ فرعون کے انعام و اکرام کی خاطر اور اس کے دربار میں تقرب حاصل کرنے کے لئے ، اللہ کے ایک اولوالعزم پیغمبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کے لئے تیار ہو گئے ۔ لیکن جو نہی انھوں نے حق کا چہر ہ دیکھا فوراً اپنا راستہ بدل لیا یہاں تک کہ فرعون کی طر ف سے قتل کی دھمکیاں سن کر بھی وہ ڈتے رہے اور خدا تعالیٰ نے انھیں اپنی عفو و بخشش اور رحمت و مہر بانی سے نوازا)(۱) ۔

____________________

۱۔ تفسیر نور الثقلین جلد ۳ ص ۴۸۔