تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 24482
ڈاؤنلوڈ: 3544


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24482 / ڈاؤنلوڈ: 3544
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 11

مؤلف:
اردو

آیات ۳۰،۳۱،۳۲

۳۰ ۔( وَقِیلَ لِلَّذِینَ اتَّقَوْا مَاذَا اٴَنْزَلَ رَبُّکُمْ قَالُوا خَیْرًا لِلَّذِینَ اٴَحْسَنُوا فِی هَذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَیْرٌ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِین ) ۔

۳۱ ۔( جَنَّاتُ عَدْنٍ یَدْخُلُونَها تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنْهَارُ لَهُمْ فِیهَا مَا یَشَائُونَ کَذَلِکَ یَجْزِی اللهُ الْمُتَّقِینَ ) ۔

۳۲ ۔( الَّذِینَ تَتَوَفَّاهُمْ الْمَلاَئِکَةُ طَیِّبِینَ یَقُولُونَ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ۔

ترجمہ

۳۰ ۔ جب پر ہیز گاروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پر وردگار نے کیا نازل کیا ہے تو وہ کہتے ہیں خیر ( اور سعادت) جن لوگوں نے اس دنیا میں نیکی کی ہے ان کےلئے بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو اس سے بھی بہتر ہے اورپر ہیز گاروں کا گھر کتنا اچھا ہے ۔

۳۱ ۔ بہشت ِ جاوداں کے باغات ہیں کہ جن میں وہ سب داخل ہوں گے ان کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ جو کچھ چاہیں گے وہاں موجود ہے ۔ اللہ پر ہیز گاروں کو اسی طرح جزا دیتا ہے ۔

۳۲ ۔وہی کہ ( قبض روح کرنے والے )فرشتے جن کی روح اس حالت میں قبض کریں گے کہ وہ پاک و پا کیزہ ہوں گے انھیں کہیں گے کہ تم پر سلام ہو اپنے اعمال کے سبب بہشت میں داخل ہو جاؤ۔

تفسیر

نیک لوگوں کا انجام :

گذشتہ آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ مشرکین قرآن کے بارے میں کیا اظہار خیال کرتے تھے ان آیات میں ہم نے ان مشرکین کا انجام بھی پڑھا ہے ۔ زیر نظر آیات میں مومنین کا اعتقاد بتا دیا گیا ہے اور ان کے انجام کار کی بھی خبر دی گئی ہے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : جب پر ہیز گاروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پر ور دگار نے کیا نازل کیا ہے تو وہ کہتے ہیں خیر و سعادت( وَقِیلَ لِلَّذِینَ اتَّقَوْا مَاذَا اٴَنْزَلَ رَبُّکُمْ قَالُوا خَیْرًا ) ۔

تفسیر قرطبی میں ہے کہ جس وقت پیغمبر اکرم مکہ میں تھے تو موسم حج میں جزیرة العرب کے مختلف گوشوں سے لوگ جو ق در جوق مکہ میں آتے تھے ۔ ان کے کانوں تک پیغمبر اسلام کے بارے میں ادھر اُدھر سے اڑتی ہوئی باتیں پہنچی ہوتی تھیں لہٰذا جب وہ مختلف لوگوں سے ملتے تو اس بارے میں پوچھتے ۔ جب وہ مشرکین سے بات کرتے تو وہ کہتے کہ کوئی خاص بات نہیں وہی فضول افسانے اور گھسی پٹی کہانیاں ہیں اور جب ان کی ملا قات مومنین سے ہوتی اور وہ ان سے سوال کرتے تو وہ کہتے کہ ہمارے پر ور دگار نے سوائے خیر و سعادت کے کوئی چیز نازل نہیں کی۔

”خیر “ کس قدر معنی خیز ، خوبصورت اور جامع تعبیر ہے وہ بھی مطلق صورت میں کہ جس کے مفہوم میں تمام طرح کی نیکیاں ، مادی و روحانی سعادتیں اور کامیابیاں شامل ہیں دنیا میں خیر ، آخرت میں خیر ، فرد کے لئے خیر، معاشرے کے لئے خیر، تعلیم وتربیت میں خیر ، سیاست و اقتصا د میں خیراور امن و آزدی کی خیر ، مختصر یہ کہ ہر لحاظ سے خیر ۔ ( کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب کسی لفظ کے متعلق کو حذف کر دیا جائے تو اس کے مفہو م میں عمومیت پیدا ہو جاتی ہے ) ۔

اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ قرآن کے متعلق خود قرآن میں طرح طرح کی تعبیریں آئی ہیں مثلاً نور، شفاء، ہدایت اور فرقان ( حق کو باطل سے جدا کرنے والا ) حق اور تذکرہ وغیرہ ، لیکن شاید یہ واحد آیت ہے جس میں ” خیر“ کی تعبیر آئی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ دیگر تمام خاص مفاہیم اس عام مفہوم میں جمع ہیں ۔

ضمناً وہ اختلاف تعبیر جو مشرکین اور مومنین قرآن کے بارے میں کرتے تھے قابل ملاحظہ ہے مومنین کہتے تھے ” انزل خیراً“ یعنی خدا نے خیر و سعادت نازل کی ہے اس طرح سے وہ اپنے ایمان کا بھی اظہار کرتے تھے کہ قرآن وحی الہٰی ہے ۔(۱)

جبکہ مشرکین سے پوچھا جاتا کہ تمہارے پر وردگار نے کیا نازل کیا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تو”اساطیر الاولین “یعنی گزرے ہوؤں کے قصّے کہانیاں ہیں اس طرح وہ قرآن کے وحی الہٰی ہونے کا قطعی انکار کردیتے تھے ۔(۲)

اس کے بعد جیسا کہ گزشتہ آیات میں مشرکین کی باتوں کا نتیجہ بیان کیا گیا ہے کہ انھیں دنیا اور آخرت میں کئی گنا مادی و روحانی عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

زیر نظر آیات میں مومنین کے اعتقادات کا نتیجہ بیان کیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے جنہوں نے نیکی کی ہے ان کے لئے اس دنیا میں نیکی ہے( لِلَّذِینَ اٴَحْسَنُوا فِی هَذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةٌ ) ۔

یہ بات جاذب نظر ہے کہ ان کی جزا” حسنة“ ان کے اظہار ایمان ” خیر“ کی طرح مطلق ہے اور اس کے مفہوم میں اس جہان کی انواع و اقسام کی حسنات اور نعمات شامل ہیں ۔

یہ تو ان کی دنیا کی جزا ہے جبکہ ” آخرت کا گھر اس سے بھی بہتر ہے اور پرہیز گاروں کا گھر کس قدر اچھا ہے( وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَیْرٌ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِین ) ۔

یہاں پھر ہم ”خیر “ اور ” نعم الدار المتقین “ کے الفاظ پارہے ہیں یہ دونوں اپنے وسیع مفہوم کے ساتھ مطلق ہیں اور ایسا ہی ہونا چاہیئے کیونکہ ثواب اور جزا کیفیت و کمیت کے اعتبار سے انسانی اعمال کا عکس العمل ہیں ۔

جو کچھ ہم نے لکھا سے ضمناً یہ بھی واضح ہو تا ہے کہ ”( للذین احسنوا ) تا آخر آیہ “ ظاہراً کلام خدا ہے اور ان آیات اور گذشتہ آیات میں مقابلے کا قرینہ اس معنی کو تقویت پہنچاتا ہے ہے البتہ بعض مفسرین نے اس کی تفسیر میں دو احتمال ذکر کئے ہیں پہلا یہ کہ یہ کلام خدا ہے اور دوسرا کہ پر ہیز گاروں کے کلام کا تتمہ ہے ۔

پہلے تو پرہیز گاروں کے گھر کا ذکر سر بستہ کیا گیا ہے اگلی آیت میں اس کی توصیف یو کی گئی ہے : پرہیز گاروں کا گھر بہشت کے جاوداں باغ ہیں ۔ یہ سب ان گھروں میں داخل ہو جائیں گے( جَنَّاتُ عَدْنٍ یَدْخُلُونَها ) ان درختوں کے نیچے نہریں جاری ہو ں گی( تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنْهَارُ ) ۔ یہی نہیں کہ وہاں باغات اور درخت ہوں گے بلکہ وہ جو کچھ چاہیں وہ وہاں موجود ہے( لَهُمْ فِیهَا مَا یَشَائُونَ ) ۔

کیا نعمات بہشت کی جامعیت اور وسعت کے بارے میں اس سے بہتر تعبیر ہو سکتی ہے ؟ سوال یہاں تک کہ یہ تعبیر سورہ زخرف کی آیہ ۷۱ میں آنے والی تعبیر سے یادہ وسیع نظر آیت ہے ، جہاں فرمایا گیا ہے :

( وفیها ما تششتهیه الانفس و تلذ الاعین )

بہشت میں ہر وہ چیز موجود ہے جو دل چاہیں گے اور آنکھیں جس سے لذت محسوس کریں گی۔

سورہ زخرف کی اس آیت میں دلوں کی خواہش کا ذکر ہے جبکہ زیر بحث آیت میں مطلق”خواہش “ کی بات کی گئی ہے ( یشاء ون) بعض مفسرین نے ”لهم فیها “ کے ”مایشاؤن “ پر مقدم ہونے سے انحصار کا استفادہ کیا ہے یعنی صرف وہی ایسی جگہ ہے جہاں انسان کو وہ سب کچھ ملے گا جو وہ چاہے گا ورنہ دنیا میں ایسا ہو نا ممکن نہیں ہے ۔

ہم کہہ چکے ہیں کہ زیر بحث آیات میں پر ہیز گاروں کی زندگی اور موت کی کیفیت بیان کی گئی ہے ، گزشتہ آیات دے ہم آہنگ اور ہم قرینہ ہیں کہ جن میں مستبکر مشرکین کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے ۔ وہاں ہم نے پڑھا ہے کہ فرشتے ان کی روح اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ ظالم ہیں اور ان کی موت ان کی بدبختی کے نئے دور کی ابتداء ہے ۔ اس کے بعد ابھیں حکم دیا جائے گا کہ جہنم کے در وازوں میں داخل ہو جا ؤ۔

لیکن یہاں فرمایا گیا ہے : پر ہیز گار وہ لوگ ہیں کہ روح قبض کرنے والے فرشتے ان کی روح اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ پاک و پاکیزہ ہیں( الَّذِینَ تَتَوَفَّاهُمْ الْمَلاَئِکَةُ طَیِّبِین ) ۔اس موقع پر فرشتے ”انھیں کہتے ہیں سلام ہو تم پر “( وَ یَقُولُونَ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ ) ۔وہ سلام کہ جو امن و سلامتی اور آرام و سکون کی نشانی ہے ۔

اس کے بعد کہتے ہیں : اپنے اعمال کے سبب جنت میں داخل ہو جاؤ( ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ) ۔

تتوفاهم (ان کی روح حاصل کرتے ہیں ) یہ موت کے بارے میں ایک لطیف تعبیر ہے اس میں یہ اشارہ موجود ہے کہ موت فنا و نابودی نہیں اور اس سے ہر چیز ختم ہوجاتی بلکہ ایک بالا تر مرحلہ کی طرف منتقل ہو نے کا مرحلہ ہے ۔

تفسیر المیزان میں ہے کہ :

اس آیت میں تین موضوعات پیش کئے گئے ہیں :

۱ ۔ متقین کی روح اس حالت میں قبض کی جائے گی کہ وہ پاک و طیب ہوں گے ۔

۲ ۔ ان کے لئے ہر لحاظ سے امن و سلامتی کا ہونا ۔

۳ ۔ بہشت کی طرف ان کی راہنمائی ۔

ا ن تین نعمات کی نظیر سورہ انعام کی آیہ ۸۲ میں بھی ہم پڑھ چکے ہیں ۔

( الذین اٰمنوا ولم یلبسوا ایمانهم بظلم اولٰٓئلک لهم الامن و هم مهتدون ) ۔

وہ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا ان کے لئے امن و امان ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں ۔

____________________

۱۔”خیرا ً “ در حقیقت فعل محذوف کا مفعول ہے اور تقدیر میں ”انزل خیراً “ تھا ۔

۲۔ ”اساطیر الاولین “ مبتداء محذوف کی خبر ہے اور تقدیر میں میں ”هٰذه اساطیر الاولین “تھا ۔