تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 24460
ڈاؤنلوڈ: 3537


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24460 / ڈاؤنلوڈ: 3537
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 11

مؤلف:
اردو

آیات ۴۵،۴۶،۴۷

۴۵ ۔( اٴَفَاٴَمِنَ الَّذِینَ مَکَرُوا السَّیِّئَاتِ اٴَنْ یَخْسِفَ اللهُ بِهمْ الْاٴَرْضَ اٴَوْ یَاٴْتِیَهُمْ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لاَیَشْعُرُونَ ) ۔

۴۶ ۔( اٴَوْ یَاٴْخُذَهُمْ فِی تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِینَ ) ۔

۴۷ ۔( اٴَوْ یَاٴْخُذَهُمْ عَلَی تَخَوُّفٍ فَإِنَّ رَبَّکُمْ لَرَئُوفٌ رَحِیمٌ ) ۔

ترجمہ

۴۵ ۔کیا سازش کرنے والے اللہ کے اس درد ناک عذاب سے مامون ہو گئے ہیں کہ جو ممکن ہے ۔ خدا ان کو زمین میں دھنسا دے ی ا( اس کی ) سزا ایسی جگہ سے ان کے پاس آپہنچے کہ جہاں سے انھیں توقع نہیں ہے ۔

۴۶ ۔ یا جس وقت ( زیادہ مال و دولت سمیٹنے کے لئے )وہ دوڑ دھوپ کررہے ہوں ان کا دامن آپکڑے، جبکہ وہ کہیں فرار بھی نہ کرسکیں ۔

۴۷ ۔ ی انھیں تدریجی طور پر خوف انگیز تنبیہات کے ساتھ اپنی گرفت میں لے کیونکہ پر وردگار رؤفاور رحیم ہے ۔

تفسیر

مختلف گناہوں کی مختلف سزائیں :

بہت سے مباحث میں قرآن استدلالی مطالب، جذباتی پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس طرح سے پیش کرتا ہے کہ وہ سامعین کے دلوں کے لئے بہت زیادہ اثر انگیز ہو جاتے ہیں ۔ زیر بحث آیات کی اسی روش کا ایک نمونہ ہیں ۔

گذشتہ آیات میں معاد و نبوت کے مسئلے پرمشرکین سے ایک بحث تھی لیکن زیربحث آیات میں جابر ، مستکبر اور ہٹ دھرم گنہ گاروں کا تہدید کی گئی ہے اور انھیں مختلف طرح کے عذاب الٰہی سے ڈرایا گیا ہے ۔

ار شاد ہوتا ہے :نو رحق کو بجھا دینے کے لئے طرح طرح کی منحوس سازشین کرنے والے یہ لوگ کیا عذاب ِ الہٰی سے مامون ہوں گئے ہیں حالانکہ ہر آن ممکن ہے خد انھیں مختلف طرح کے عذاب میں دھنسا دے( اٴَفَاٴَمِنَ الَّذِینَ مَکَرُوا السَّیِّئَاتِ اٴَنْ یَخْسِفَ اللهُ بِهمْ الْاٴَرْضَ )

کیا یہ بعید ہے کہ زمین پر ایک وحشت ناک زلزلہ آجائے ، سطح زمین پھٹ جائے اور اس میں وہ تمام تر سازو سامان ِ حیات کے ساتھ دھنس جائیں اور اقوام ِ عالم کی تاریخ میں ایسا بار ہا ہوا ہے ۔

مکروا السیئات “ گھٹیا مقاصد اور غلط اہداف تک پہنچنے کے لئے سازشیں کرنے اور منصوبے بنانے کے معنی میں جیسا کہ مشرکین نور قرآن کو خاموش کرنے ، پیغمبر اسلام کو ختم کرنے اور مومنین کو اذیت دینے کے لئے سازشیں کرتے تھے ۔

”یخسف“ خسف“( بر وزن ”وصف“) کے مادہ سے پنہاں ہونے اور مخفی ہونے کے معنی میں ہے اسی لئے چاند کی روشنی جب زمین کے سائے میں چھپ جائے تو اسے ” خسوف“ کہتے ہیں ۔نیز مخسوف“ اس کنویں کو کہتے ہیں جس میں پانی چھپ جائے اسی طرح انسان اور مکان زلزلے وغیرہ سے پیدا ہونے والے زمین کے شگاف میں چھپ جائیں تو اسے ”خسف“کہتے ہیں ۔

اس ے بعد قرآن مزید کہتا ہے : یا جب وہ غفلت میں ہوں اور عذاب الہٰی ایسی جگہ سے آپہنچے جہاں سے انھیں توقع ہی نہ ہو ۔( اَوْ یَاٴْتِیَهُمْ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لاَیَشْعُرُونَ ) ۔

یا جس وقت وہ زیادہ مال جمع کرنے کے لئے دور دھوپ کر رہے ہیں انھیں عذاب دامن گیر ہو جائے( اٴَوْ یَاٴْخُذَهُمْ فِی تَقَلُّبِهِم ) ۔جبکہ وہ کہیں بھاگ بھی نہ سکیں( فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِینَ ) ۔

جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں ”معجزین “”اعجاز“کے مادہ سے ناتواں اور عاجز کرنے کے معنی میں ہے ۔ ایسے مواقع پر یہ عذاب کے چنگل سے فرار کرنے کے معنی میں ہے ۔

یا یہ کہ عذاب الہٰی اچانک ان تک نہ پہونچے بلکہ تدریجی طور پر پے در پے تنبیہوں کے بعد انھیں اپنی گرفت میں لے( اٴَوْ یَاٴْخُذَهُمْ عَلَی تَخَوُّفٍ ) ۔

آج ان کا ہمسایہ کسی سانحے کا شکار ہوا ، کل ان کے کسی باغ کو نقصان پہنچا اگلے روز ان کے کچھ اموال ضائع ہوگئے خلاصہ یہ کہ یکے دیگرے انھیں تنبیہیں کی گئیں وہ بیدار ہو گئے تو کیا خوب ورنہ آخری اور اصلی انھیں اپنی گرفت میں لے لے گا ۔ کسی گروہ کے لئے ایسے مواقع پر عذاب اور سزا تدریجی اس لئے ہے کہ ابھی اس میں احتمال ِ ہدایت موجود ہے اور خدا کی رحمت اجازت نہیں دیتی کہ اس کے ساتھ دوسروں کا سا سلوک کیا جائے کیونکہ تمہارا پر وردگار رؤف اور رحیم ہے( فَإِنَّ رَبَّکُمْ لَرَئُوفٌ رَحِیمٌ ) ۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ زیر بحث آیات میں چار قسم کی سزاؤں کاتذکرہ ہے :

پہلی ” خسف“ اور زمین دھنس جانا۔

دوسری بے خبری میں ایسی جگہ سے عذاب آنا کہ جہاں سے توقع نہ ہو۔

تیسری اس وقت عذاب آپہنچا جب انسان مال و دولت جمع کرنے کی دھن میں مگن تھا ۔ چوتھی تدریجی سزا اور تدریجی عذاب ۔

مسلم ہے کہ چار قسم کی ان سزاؤں میں سے ہر ایک کسی خاص قسم کے گناہ سے مناسبت رکھتی ہے اگر چہ یہ سب گناہ گار ”الذین مکروا السیئات “ ( ایسے لوگ جو گھٹیا سا زشیں کرتے اور غلط منصوبے بناتے ہیں )کامصداق ہیں ۔ مختلف گناہوں پر یہ مختلف سزائیں اس لئے ہیں کہ خدا کے تمام کام حکمت کے مطابق اور استحقاق کی مناسبت سے ہوتے ہیں ۔

جہاں تک ہماری نظر ہے ، ا س سلسلے میں مفسرین نے کوئی بات نہیں کہی لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ :

پہلا عذاب سازشیوں کے اس گروہ کے لئے مخصوص ہے جو خطر ناک ، جابر اور مستکبرہیں جیسے قارون ۔خدا ان لوگوں کو اقتدار اور طاقت کی ایسی بلندی سے نیچے کھینچتا ہے اور انھیں زمین کی گہرائیوں میں سے اس طرح سے دھنسا دیتا ہے کہ وہ سب کے لئے باعث ِ عبرت بن جاتے ہیں ۔دوسرا عذ اب ایسے سازشیوں کے لئے مخصوص ہے کہ جو عیش ونوش میں سر مست ہوں اور جو سر کش ہواو ہوس میں غرق ہوں عذاب ِ الہٰی اچانک ایسی جگہ سے انھیں آپکڑ تا ہے کہ جہاں سے انھیں توقع تک نہیں ہوتی ۔تیسرا عذاب دنیا پرست زراند وز لوگوں کے لئے مخصوص ہے ایسے لوگ کہ جو شب و روز ا س کو شش میں ہیں کہ جیسے بھی ممکن ہو او رجس جرم اور ظلم سے ہو سکے اپنی دولت میں ضافہ کریں یہ لو گ ما ل و دولت جمع کرنے میں لگے ہوتے ہیں کہ عذاب ِ الہٰی انھیں آجکڑتا ہے ۔(۱)

چوتھا عذاب ایسے لوگوں کے لئے جو طغیان و سرکشی اور سازش و گناہ میں اس حد تک جا پہنچے ہیں کہ اب ان کے لوٹ آنے کی اور کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اس مقام پر ” تخوف“ تنبیہ و تہدید کے ذریعے اللہ تعالیٰ انھیں بیدار کرتا ہے ، وہ بیدار ہو جائیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو بہتر ورنہ انھیں دہن عذاب میں ڈال دیتا ہے ۔ خدا کی رافت و رحمت کا ذکر ایک علت کے طور پر چوتھے گروہ سے مر بوط ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ابھی خدا سے اپنے تمام رشتے منقطع نہیں کئے اور اپنی واپسی کے تمام راستے ابھی تباہ نہیں کئے ۔

____________________

۱۔ لغت عرب میں ” تقلب“ اگر چہ ہر قسم کی آمد و رفت کے معنی میں ہے لیکن جیسا کہ بہت سے مفسرین نے کہا ہے اور بعض اسلامی روایات میں بھی تاکید کی گئی ہے ایسے مواقع پر نجات اور کسب ِ مال کے لئے آمد و رفت کے معنی میں ہے ( غور کیجئے گا ) ۔

آیات ۴۸،۴۹،۵۰

۴۸ ۔( اٴَوَلَمْ یَرَوْا إِلَی مَا خَلَقَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ یَتَفَیَّاٴُ ظِلاَلُهُ عَنْ الْیَمِینِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ ) ۔

۴۹ ۔( وَلِلَّهِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ وَالْمَلاَئِکَةُ وَهُمْ لاَیَسْتَکْبِرُونَ ) ۔

۵۰ ۔( یَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ ) ۔

ترجمہ

۴۸ ۔ کیا انھوں نے مخلوق خد اکو نہیں دیکھا کہ ان کے سائے کس طرح دائیں بائیں سے حرکت کرتے ہیں اور وہ خضوع و خشوع سے اللہ کو سجدہ کرتے ہیں ۔

۴۹ ۔( نہ صرف ان مخلوق کے سائے بلکہ ) آسمانوں اور زمین میں چلنے والے تمام اور ملائکہ خدا کے حضور سجدہ کرتے ہیں اور ان میں کسی قسم کا کوئی تکبر نہیں ہے ۔

۵۰ ۔وہ اپنے پر وردگار ( کی نا فرمانی) سے ڈرتے ہیں کہ جو ان کا حاکم ہے اور جس چیز پر وہ مامور ہیں اسے انجام دیتے ہیں ۔

تفسیر

سائے تک اللہ کے حضور سجدہ زیر ہیں

ان آیات میں دوبارہ بحث توحید کی طرف لوٹ آئی ہے ۔ پہلے ارشاد ہوتا ہے : کیا وہ (سازشی مشرک) مخلو ق خدا کو نہیں دیکھتے کہ جس طرح ان کے سائے ان کے دائیں بائیں حرکت کرتے ہیں اور بڑے خشوع وخضوع سے اللہ کو سجدہ کرتے ہیں( اٴَوَلَمْ یَرَوْا إِلَی مَا خَلَقَ اللهُ مِنْ شَیْءٍ یَتَفَیَّاٴُ ظِلاَلُهُ عَنْ الْیَمِینِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ ) ۔(۱)یتفئوا “ ”فئی“ کے مادہ سے لوٹ آنے اور رجوع کے معنی میں ہے ۔

بعض کہتے ہیں کہ عرب چیزوں کے صبح کے سائے کو ”ظل“ کہتے ہیں اور عصر کے سائے کو ”فیئی“ کہتے ہیں اور یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ غنائم و اموال کے ایک حصے کو ”فیئی“ کہا گیا ہے تو یہ اس حقیقت کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ مال ِ دنیا کا بہترین حصہ بھی وقتِ عصر کے سائے کی طرح ہے کہ جو جلدی سے زائل اور ختم ہو جاتا ہے ۔

لیکن اس طرح توجہ کی جائے کہ زیر بحث آیت میں دائیں اور بائیں طرف کے سایوں کا ذکر ہے اور لفظ”فیئی“ ان سب کے لئے استعمال ہوا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں لفظ”فیئی“ وسیع معنی رکھتا ہے اور ا س کے مفہوم میں ہر طرح کا سایہ شامل ہے ۔

جس وقت آفتاب طلوع ہوتا ہے ، انسان جنوب کی طرف منھ کر کے کھڑا ہوا تو وہ دیکھے گا کہ سورج اس کی بائیں طرف افق ِ مشرق سے بلند ہورہا ہے اور تمام چیزوں کا سایہ اس کی دائیں طرف پڑرہا ہے ۔ اسی دائیں طرف مغرب ہے یہ صورت اسی طرح سے رہتی ہے اور دائیں طرف کا سایہ رفتہ رفتہ کم ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ وقت زوال آپہنچتا ہے اس وقت سائے بائیں جانب کو ڈھلنے لگتے ہیں اور غروب آفتاب تک مشرق کی طرف سائے بڑھتے پھیلتے رہتے ہیں یہاں تک کہ سورج غروب ہو جاتا ہے اور یہ سب کچھ چھپ جاتا ہے ۔

اس مقام پر خدا تعالیٰ چیزوں کے سایوں کی دائیں اور بائیں طرح حرکت کا ذکر اپنی عظمت کی نشانی کے طور پر کرتا ہے اور ان کے اس ڈھلنے کو پروردگار کے حضور عالمِ خضوع و خشوع میں سجدہ ریز ہونا قرار دیتا ہے ۔

____________________

۱۔”داخر“ اصل میں ”دخور“ کے مادے سے انکساری اور اپنے آپ کو چھوٹا ظاہر کرنے کے معنی میں ہے ۔

ہمارے سایوں کا ہماری زندگی پر اثر

اس میں شک نہیں کہ ہمارے سائے ہماری زندگی میں ایک اہم کردار کرتے ہیں شاید بہت سے لوگ اس سے غافل ہیں قرآن نے سایوں کا ذکر اس مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے کیا ہے ۔

سائے اگر چہ عدم نور کے علاوہ کچھ نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود بہت سے فوائد کے حامل ہیں مثلاً:

۱ ۔ سورج کی روشنی اور اس کی حیات بخش شعائیں موجودات کی زندگی اور نشوونما کا باعث ہیں جبکہ سائے کی روشنی کی شعاعوں کی تابش کو اعتدال میں رکھنے کے لئے ایک حیات آفرین کردار کرتے ہیں سورج کی روشنی اگر ایک ہی طویل عرسے کے لئے چمکتی رہے تو ہر چیز پژمردہ ہو جائے اور جل جائے ایسے میں سایے شدت و حدت کو اعتدال عطا کرتے ہیں وہ کم و بیش ہوتے رہتے ہیں کبھی اس جانب کو جھکتے ہیں اور کبھی اس جانب کو ۔ گویا کبھی ادھر نوازش کرتے ہیں اور کبھی اُدھر عنایت کرتے ہیں سایوں کا یہ طرز عمل چیزوں کی حفاظت اور بچاؤ میں نہایت تاثیر بخش ہے ۔

۲ ۔ جو لوگ بیابانوں میں پھرتے رہتے ہیں یا جنہیں بیابانوں میں رہنا اور گزرنا پڑجائے ان کے لئے انسانی نجات کے لئے سایوں کی غیر معمولی اثر انگیزی بالکل واضح ہے ایسے میں سایہ بھی وہ جو متحرک ہو اور ایک ہی جگہ ٹھہرنہ جاتا ہو اور ہر طرف حرکت کرتا ہو انسانی خواہش اور ضرورت کے عین مطابق ہوتا ہے ۔

۳ ۔ سائے ایک مفید پہلو یہ بھی ہے جوعام لوگوں کے خیال کے بر خلاف ہے ۔عام لوگ سمجھتے ہیں چیزوں کو دیکھنے کا ذریعہ صرف روشنی ہی ہے حالانکہ نور ہمیشہ سایے یا نیم سایے کے ساتھ ہوا تو چیزیں دکھائی دیتی ہیں دوسرے لفظوں میں اگر کسی موجود کے ہر طرف ایک جیسی روشنی چمکے اور اس پر کسی قسم کا کوئی سایہ یا نیم سایہ نہ ہو تو روشنی میں مستغرق یہ چیز ہر گز نہیں دیکھی جاسکے گی ۔

یعنی جس طرح مطلق تاریکی میں کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی اسی طرح مطلق نور میں بھی کوئی چیز نہیں دیکھی جاسکتی بلکہ نور و ظلمت باہم ہوں تو چیزوں کا دیکھا جانا ممکن ہوتا ہے ۔ لہٰذا سایے بھی چیزیں نظر آنے اور ان کی شناخت میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ ( غور کیجئے گا ) ۔

زیر نظر آیت میں ایک نکتہ اور قابل توجہ ہے آیت میں لفظ” یمین “ (دائیں طرف) مفرد صورت میں آیا ہے جبکہ ”شمائل“ جمع کی صورت میں ہے ” شائل“شمال“(بروزن” مشعل“)کی جمع ہے اور شمال کا معنی ہے بائیں طرف۔

تعبیر کا فرق ہوسکتا ہے اس بناء پر ہو کہ جو لوگ جنوب کی طرف رخ کئے ہوں دم صبح سایہ ان کے دائیں طرف پڑتا ہے اور پھر وہ مسلسل بائیں طرف حرکت کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وقت ِ مغرب افق مشرق میں محو ہوجا تا ہے ۔(۲)

بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ ”یمین“ اگر چہ مفرد ہے لیکن بعض اوقات اس سے جمع مراد ہو تی ہے اور یہاں جمع مراد ہے(۳)

گذشتہ آیت میں صرف سایوں کے سجدہ کرنے کی بات ایک وسیع مفہوم کے طور پر آئی تھی لیکن اگلی آیت میں تمام مادی و غیر مادی آسمانی و زمینی موجودات کے بارے میں فرمایاگیا ہے :آسمانوں اور زمین میں حرکت کرنے والی تمام موجودات اور اسی طرح فرشتے خدا کے حضور سجدہ کرتے ہیں( وَلِلَّهِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْاٴَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ وَالْمَلاَئِکَةُ ) ۔اور وہ اس میں کسی قسم کا کوئی تکبر نہیں کرتے( وَهُمْ لاَیَسْتَکْبِرُونَ ) ۔

اور وہ خدا اور اس کے فرمان کے سامنے تسلیم محض ہیں ۔

سجدہ در حقیقت انتہائی خشوع وخضوع اور پرستش کا نام وہ سجدہ جو سات اعضاء کے ساتھ ہم انجام دیتے ہیں سجدہ کے عمومی مفہوم کا ایک مصداق ہے ورنہ سجدہ کا مفہوم بس اسی میں منحصر نہیں ہے ۔

عالم تکوین اور جہان آفرینش میں خدا کی تمام مخلوقات اور موجودات عام قوانین کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں ۔ اور ان قوانین سے انحراف نہیں کرتیں اور تمام قوانین خدا کی طرف سے ہیں پس در حقیقت تمام چیزیں بار گاہ الہٰی میں سجدہ ریز ہیں ۔ سب اس کی عظمت کی ترجمان ہیں سب اس کی بزرگی و بے نیازی کا مظہر ہیں مختصر یہ کہ سب اس کی مقدس ذات کی دلیل ہیں ۔

”دابة“ حرکت کرنے والے موجود کے معنی میں ہے نیز اس سے زندگی کا معنی بھی لیا جاتا ہے یہ جوز یر نظر آیت میں کہا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں چلنے والی سب موجودات خدا کے حضور میں سجدہ ریز ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندہ موجودات کرّارض ہی سے مخصوص ہیں بلکہ آسمانی کرّات میں بھی زندہ چلنے والے موجودات وجود رکھتے ہیں ۔

اگر چہ بعض نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ لفظ”من دابة“ صرف” مافی الارض“ کے لئے ہے یعنی یہاں صرف زمین میں حرکت کرنے اور پھر نے والوں کے بارے میں بات کی گئی ہے لیکن یہ اھتمال بہت بعید معلوم ہوتا ہے خصوصاً جبکہ شوریٰ کی آیہ ۲۹ میں ہے ۔( و من اٰیاته خلق السمٰوٰت و الارض وما بث فیها من دابة )

خدا کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین دونوں میں اس کی چلنے پھر نے والی مخلوق موجود ہے ۔

یہ بجا ہے کہ تکوینی اعتبار سے سجدہ اور خشوع و خضوع متحرک موجودات میں منحصر نہیں ہے لیکن چونکہ متحرک موجودات خلقت و آفرینش کے بہت سے اسرار و عجائب کا مظہر ہیں لہٰذا یہاں انہی کی نشادہی کی گئی ہے ۔

آیت کے مفہوم میں چونکہ عقل رکھنے والے انسان اور صاحب ایمان فرشتے بھی شامل ہیں نیز حیوانات اور دوسرے جانور بھی اس کے مفہوم میں داخل ہیں لہٰذا سجدہ یہاں عام اختیاری اور تشریعی معنی کا بھی حامل ہے اور تکوینی و اضطراری معنی کا بھی ۔

رہا یہ سوال کہ زیر بحث آیت میں فرشتوں کا الگ سے ذکر کیوں ہوا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ”دابة“ صرف ان چلنے پھرنے والے موجودات کو کہا جاتا ہے کہ جو جسم رکھتی ہین جبکہ فرشتے چلتے پھرتے تو ہیں لیکن مادی جسم نہیں رکھتے لہٰذا وہ ”دابة“ کے مفہوم میں شامل نہیں ہیں ۔

ایک حدیث میں ہے کہ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں :

اللہ کے کچھ فرشتے ایسے بھی ہیں جوجو ابتدائے آفرینش سے خدا کے حضور سجدہ میں ہیں اور روز قیامت تک اسی طرحسر بسجود رہیں گے اور جب وہ قیامت کے دن سجدے سے سر اٹھائیں گے تو کہیں گے:( ما عبدناک حق عبادک )

ہم سے حق عبادت ادا نہ ہو سکا ۔

( وهم لا یستکبرون ) “ فرشتوں کی اسی کیفیت کی طرف اشارہ ہے کہ وہ بار گاہ حق میں خضوع اور سجدہ کرتے ہیں اور اس میں ان کے اندر غرور وتکبر کا شائبہ تک نہیں ہوتا ۔

لہٰذا اس کے بعد فوراً ان کی دو صفات کا تذکرہ ہے اور یہ دونوں ان میں تکبر کے نہ ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہیں ۔

ارشاد ہوتا ہے وہ اپنے پر وردگار کی مخالفت سے ڈرتے ہیں کہ جو ان کا حاکم ہے( یخالفون ربهم من فوقهم ) )اور جس چیز پر وہ مامور ہیں اسے خوب انجام دیتے ہیں( ویفعلون مایؤمرون ) ۔

جیسا کہ سورہ تحریم کی آیہ ۶ میں فرشتوں کے ایک گروہ کے بارے میں ہے:

( لایعصون الله ما امر هم و یفعلون ما یؤمرون )

وہ فرمان الہٰی کی مخالفت نہیں کرتے اور انھیں جو کچھ حکم دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں ۔

اسی آیہ سے اچھی طرح واضح ہوتا ہے کہ غرور تکبر کے نہ ہونے کی دو نشانیاں ہیں ۔ ذمہ داریوں کا خوف اور احکام الٰہی کو بے چوں و چرا انجام دینا ۔ ان میں سے ایک تکبر نہ کرنے کی نفسیاتی کیفیت کی طرف اشارہ ہے اور دوسری قوانین اور احکام کے بارے میں ان کے طرز عمل کی طرف ۔ طرز عمل در حقیقت نفسیاتی کیفیت کا ردّ عمل ہے اور اس کا عملی مظاہرہ ہے ۔

آیت میں ”( من فوقهم ) “ یقینا حسی اور مکانی طور پر ہونے کی طرف اشارہ نہیں ہے بلکہ مقام کی بر تری کی طرف اشارہ ہے کیونکہ خدا سب سے بر تر اور بالا تر ہے ۔

سورہ انعام کی آیہ ۶۱ میں ہے ۔( وهوالقاهر فوق عباده )

وہ اپنے بندوں پر قاھر و غالب ہے ۔

قرآن میں ہے کہ فرعون نے قدرت و طاقت کے اظہار کے لئے کہا :( وانّا فوقهم قاهرون )

میں ان پر قاہر و غالب ہوں (اعراف ۱۲۷)

ان تمام مواقع پر لفظ”فوق“ مقام کی بر تری کو بیان کرتا ہے ۔

____________________

۲۔تفسیر قرطبی، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

۳۔تفسیر ابو الفتوح رازی جلد ۷ ص ۱۱۰۔

آیات ۵۱،۵۲،۵۳،۵۴،۵۵،

۵۱ ۔( وَقَالَ اللهُ لاَتَتَّخِذُوا إِلَهَیْنِ اثْنَیْنِ إِنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَإِیَّایَ فَارْهَبُونِی ) ۔

۵۲ ۔( وَلَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَلَهُ الدِّینُ وَاصِبًا اٴَفَغَیْرَ اللهِ تَتَّقُونَ ) ۔

۵۳ ۔( وَمَا بِکُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنْ اللهِ ثُمَّ إِذَا مَسَّکُمْ الضُّرُّ فَإِلَیْهِ تَجْاٴَرُونَ ) ۔

۵۴ ۔( ثُمَّ إِذَا کَشَفَ الضُّرَّ عَنْکُمْ إِذَا فَرِیقٌ مِنْکُمْ بِرَبِّهِمْ یُشْرِکُونَ ) ۔

۵۵ ۔( لِیَکْفُرُوا بِمَا آتَیْنَاهُمْ فَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ) ۔

ترجمہ

۵۱ ۔اور اللہ نے حکم دیا ہے کہ دو خداؤں کا انتخاب نہ کرو ( تمہارا ) معبود صرف ایک ہے ۔ صرف مجھ سے ( اور میرے عذاب سے ) ڈرو۔

۵۲ ۔جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ، اسی کا ہے اور دین ( اور دینی قانون ) ہمیشہ اسی کا ہے تو کیا اس کے غیر سے ڈرتے ہو؟

۵۳ ۔تمہارے پاس جو کچھ بھی نعمتیں ہیں سب خدا کی طرف سے ہیں اور پھر جب تمہیں پریشانیون ( اور تکالیف ) پہنچتی ہیں تو اسی کو پکارتے ہو۔

۵۴ ۔اور جب وہ رنج و تکلیف تم سے دور کردیتا ہے تو تم میں سے بعض پنے پر ور دگار کے لئے شریک ماننے لگتے ہیں ۔

۵۵ ۔(چھوڑوانھیں ) ہم نے انھیں جو نعمتیں دی ہیں ان کا کفران کرلیں اور چند دن ( اس دنیا وی مال و متاع سے )فائدہ اٹھالیں ۔ پس عنقریب جان لوگے ( کہ تمہارا انجام کار تمہیں کہا کھینچ لے آیا ہے ) ۔

تفسیر

ایک دین اور ایک معبود

توحید اور خدا شناسی کی بحث کے بعد زیر نظر آیات میں نظام ِ خلقت کے حوالے سے نفی شرک پرزور دیا گیا ہے تاکہ ان دونوں سے مجموعی طور پر حقیقت زیادہ آشکار ہو جائے۔

پہلے فرمایا گیا ہے : خدا نے حکم دیا ہے کہ دو خدا نہ مانو( وَقَالَ اللهُ لاَتَتَّخِذُوا إِلَهَیْنِ اثْنَیْنِ ) ۔معبود ایک ہی ہے

( إِنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ ) ۔

نظام خلقت کی وحدت اور اس پر حاکم قوانین کی وحدت ، خود خالق و معبود کی وحدت کی دلیل ہے اب جبکہ ایسا ہی ہے تو ”صرف میرے عذاب سے ڈرواور میرے فرمان کی مخالفت سے خود کھاؤ نہ کہ کسی غیر سے ڈرتے رہو( فَإِیَّایَ فَارْهَبُونِی ) ۔

لفظ ”ایای“ کا مقدم ہو نا حصر کی دلیل ہے جیسے ”ایاک نعبد“ ۔ مطلب یہ ہے کہ صرف اور صرف میری مخالفت اور میرے عذاب سے ڈرتے رہو۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں صرف دو معبودوں کی نفی کی گئی ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ عرب کے مشرکین نے بہت سے بت اور معبود بنا رکھتے تھے اور ان کے بت خانے مختلف قسم کے بتوں سے بھرے ہوئے تھے ہو سکتا ہے کہ یہ تعبیر ذیل کے نکات میں سے کسی ایک یا سب کی طرف اشارہ ہو ۔

۱ ۔ آیت کہتی ہے کہ دو معبودوں کی عبادت بھی غلط ہے چہ جائیکہ زیادہ معبودوں کی ۔ دوسرے لفظوں میں کم از کم بات بیان کر دی گئی ہے تاکہ باقی ماندہ کی نفی زیادہ تاکید کے ساتھ ہو کیونکہ ایک سے زیادہ جس عدد کو بھی اختیار کریں دو سے بہتر حال گذرنا پڑے گا۔

۲ ۔ یہاں تمام طابل معبود ایک شمار کئے گئے ہیں ۔ فرمایا گیا ہے کہ انھیں حق کے مقابلے میں قرار نہ دو اور دومعبود حق و باطل) کی پرستش نہ کرو۔

۳ ۔ زمانہ جاہلیت کے عربوں نے در حقیقت د ومعبود اپنا رکھے تھے ایک وہ معبود جو خالق ہے او رجہان کو پیدا کرنے والا ہے یعنی اللہ او ر دوسرا وہ معبود جسے وہ اپنے اور اللہ کے درمیان وسیلہ سمجھتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ بت خیر ، بر کت او رنعمت کا وسیلہ ہیں ۔

۴ ۔ ہو سکتاہے مندرجہ بالا آیت ”ثنویین“ ( دو خدا ؤں کی پو جا کرنے والوں )کے عقیدے کے لئے نفی ہو ۔ثنویین دو خدا ؤں یعنی نیکی کا خدا اور بدی کا خدا کے قائل تھے ۔ دو خدا ؤں کی پوجا کرنے والوں کی منطق اھر چہ ضعیف اور غلط تھی ، لیکن عرب بت پرستوں کے پاس تو ایسی کمزور منطق بھی نہ تھی۔

عظیم مفسرمرحوم طبرسی نے اس آیت کے ذیل میں بعض حکماء سے یہ لطیف جملہ نقل کیا ہے :۔

خد انے تجھے حکم دیا ہے کہ دو خدا ؤں کی عبادت نہ کر لیکن تو نے تو اپنے اتنے سارے معبود بنا رکھے ہیں ۔

ایک بت تیرا سرکش نفس ہے ، دوسرا بت تیری ہوا و ہوس ہے ۔ تیرے مادی مقاصد اسپر مستزاد ہیں یہاں تک کہ تو انسانوں کو سجدہ کرتا ہے تو کس قسم کا توحید پرستار ہے ۔

اس کے بعد تو آیات میں میں توحید عبادت کی دلیل چارحوالوں سے پیش کی گئی ہے ۔ پہلے ارشاد ہوتا ہے : جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اسی کی ملکیت ہے( وَلَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔تو کیا عالم ہستی کے مالک کو سجدہ کرنا چاہیئے ، ی ابتوں کو کہ جو کسی بھی قابلیت سے محروم ہیں ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے کہ نہ صرف آسمان و زمین اس کی ملکیت ہیں بلکہ ہمیشہ سے دین اور تمام قوانین بھی اسی کی طرف سے ہیں( وَلَهُ الدِّینُ وَاصِبًا ) ۔

جب یہ ثابت ہے کہ عالم ہستی اسی کی طرف سے ہے اور وہی تکوینی قوانین ایجاد کرتا ہے تو مسلم ہے کہ تشریعی قوا نین بھی اسی کے ذریعے معین ہو نا چاہئیں لہٰذا طبعاًو فطرتاً اطاعت بھی اسی کے ساتھ مخصوص ہے ۔

”واصب“در اصل” وصوب“ کے مادہ سے ” دوام“ کے معنی میں لیا گیا ہے بعض نے اس کا معنی ”خالص“ کیا ہے ( فطری بات ہے کہ جب تک کوئی چیز اخالص نہ ہو دوام حاصل نہیں کرسکتی) ہو سکتا ہے آیت میں یہ لفظ دونوں پہلوؤں کی طرف اشارہ کررہا ہویعنی ہمیشہ اور ہر زمانے میں دین خالص خدا کی طرف سے ہے جنھوں نے دین کو اطاعت کے مفہوم میں لیا گیا ہے ، انھوں نے ”واصب“ کا معنی ”واجب “ لیا ہے یعنی صرف خدا کے حکم کی اطاعت ہو نی چاہئیے۔

ایک روایت میں بھی ہے کہ ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام سے اس جملے کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا واصب یعنی واجب ۔ ۱

لیکن واضح ہے کہ یہ معانی ایک دوسرے سے لازم ملزوم ہیں ۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کیا اس کے باوجود کے تمام قوانین دین اور طاعت ِ خدا سے مخصوص ہیں ا سکے غیر سے ڈرتے ہو( اٴَفَغَیْرَ اللهِ تَتَّقُونَ ) ۔

کیا بت تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں ؟

کیا بت تمہیں کوئی نعمت بخش سکتے ہیں ؟

نہیں توپھر ان کی مخالفت کا تمہیں خوف کیوں ہے او ران کی عبادت کو تم کیوں ضروری سمجھتے ہوحالانکہ جتنی نعمتیں تمہارے پاس ہیں سب خدا کی طرف سے ہیں ۔( وَمَا بِکُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنْ اللهِ ) ۔

یہ در حقیقت معبود یگانہ یعنی اللہ کی عبادت ضروری ہونے کے بارے میں ہیں یہاں تیسری بات کی گئی ہے مراد یہ ہے کہ بتوں کی عبادت اگر شکر ِ نعمت کی وجہ سے ہے تو انھوں نے تمہیں کوئی نعمت نہیں دی کہ جس کا شکر ضروری ہو بلکہ تمہارے وجود پر سرتا پا نعمتِ الہٰی محیط ہے اس کے باوجود تم نے اس کی بندگی کو چھوڑ رکھا ہے اور بتوں کے پیچھے لگے پھرتے ہو۔

علاوہ ازیں جب تمہیں پریشانیوں ، مصیبتوں اور رنج وبلا کا سامنا ہوتا ہے تو انھیں دور کرنے کے لئے بار گاہ الہٰی میں آہ و زاری کرتے ہو اور اسے پکارتے ہو( ثُمَّ إِذَا مَسَّکُمْ الضُّرُّ فَإِلَیْهِ تَجْاٴَرُونَ ) ۔

لہٰذا بتوں کی پرستش اگر دفع ضرر اور حل مشکلات کے لئے کرتے ہو تو غلط ہے کیونکہ خود تم نے بھی عملی طور پر ثابت کیا ہے کہ زندگی کے سنگین لمحات میں سب چیزوں کو چھوڑ کر خدا کی بار گاہ کی طرف جاتے ہو یہ در اصل مسئلہ توحید عبادت کے بارے میں چوتھی بات ہے ۔

تجرون “ در اصل” جؤر“ (بر وزن”غبار“) کے مادہ سے ہے یہ چوپایوں اور وحشی جانوروں کی اس آواز کو کہتے ہیں جو تکلیف کے عالم میں ان سے بے اختیار نکلتی ہے بعد از آن یہ لفظ کنایے کے طور پر ہر اس آہ و زاری کے لئے استعمال ہونے لگا جو درد و غم کے موقع پر بے اختیار بلند ہو۔

اس لفظ کا یہاں پر خصوصیت کے انتخاب اس بات کو تقویت پہنچا تا ہے کہ جب مشکلات بہت زیادہ ہو جائیں جان عذاب میں اور درد و غم کے مارے بے اختیار فریاد بلند کرو تو کیا اس وقت اللہ کے علاوہ کسی کو پکار تے ہو ؟ نہیں تو پھر آرام و سکون کے وقت چھوٹی چھوٹی مشکلات کے موقع پر بتوں کے دامن سے کیوں جا لگتے ہو ۔

جی ہاں ! ان مواقع پر خدا تمہاری فریاد سنتا ہے اس کا جواب دیتا ہے اور تمہاری مشکلات کو بر طرف کرتا ہے ” پھر جب اللہ تمہارے ضرر اور رنج و غم کو بر طرف کردیتا ہے تو تم میں سے کچھ لوگ اپنے پر ور دگار کے لئے شریک ماننے لگتے ہیں اور بتوں کی راہ لیتے ہیں( ثُمَّ إِذَا کَشَفَ الضُّرَّ عَنْکُمْ إِذَا فَرِیقٌ مِنْکُمْ بِرَبِّهِمْ یُشْرِکُونَ ) ۔

قرآن درحقیقت اس باریک نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہے کہ فطرت توحید تم سب میں موجود ہے عام حالات میں غفلت غرور، جہالت، تعصب اور خرافات کے پ ردے اسے دھانپ دیتے ہیں لیکن جب طوفان حوادث آجائیں اور مصائب کی تند و تیز آندھیاں چل پڑیں تو یہ پر دے ہٹ جاتے ہیں اور نور فطرت آشکار ہو جاتا ہے اور چہرہ فطرت چمکنے لگتا ہے ایسی حالت میں تم خد ا کو اپنے پورے وجود اور اخلاص کے ساتھ پکارتے ہو ۔ اور خدا بھی رنج و بلا تم سے دور کر دیتا ہے ، رنج و بلا کے پر دے اس لئے ہٹ جاتے ہیں کہ غفلت کے پر دے اٹھ چکے ہوتے ہیں (توجہ رہے کہ آیت میں لفظ”کشف الضر“ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے مشکلات کے پر دے ہٹ جانا) ۔

ادھر طوفان مصائب تھمتا ہے زندگی سا حل سکون سے ہم کنارہوتی ہے اور ادھر وہی غفلت ، غرور اور شرک و بت پرستی ظاہر ہونے لگتی ہے۔

منطقی دلائل اور توضیح حقیقت کے بعد، زیر بحث آخری آیت میں تہدید آمیز لہجے میں کہا گیا ہے : تمہیں جو نعمتیں دی گئی ہیں ان کا کفران کرلو اور چند روز اس دنیاوی مال و متاع سے بہرہ مند ہو لو لیکن عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ تمہارے کام کا انجام کیا ہے( لِیَکْفُرُوا بِمَا آتَیْنَاهُمْ فَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ) ۔

یہ بالکل اس طرح ہے جیسے کوئی انسان کسی منحرف شخص کو مختلف دلائل و براہین کے ساتھ وعظ و نصیحت کرے تو ممکن ہے اس پر کوئی اچر نہ ہو تو آخر میں ایسے تہدید آمیز جملے پر اپنی گفتگو تمام کرے دے کہ : ج وباتیں میں تم سے کہہ چکا ہوں یہ سننے کے باوجود اگر تم اپنی اصلاح نہ کر وتو پر جو کچھ کر سکو کرتے رہو لیکن یاد رکھو تم جلد اس کے انجام سے دوچار ہو گے۔

اس بناء پر ”( لیکفروا ) “ میں لام ”لام ِ امر“ ہے وہ امر جو تہدید کے لئے آ یاہے جیسے ”تمتعوا“ بھی امر ہے تہیدید کے لئے ۔ فرق یہ ہے کہ ”لیکفروا“ غائب کا صیغہ ہے اور ”تمتعوا“ مخاطب کا ۔ گویا پہلے انھیں گائب فرض کر کے قرآن کہتا ہے :

یہ جائیں اور تمام نعمتوں کا کفران کریں ۔

اس تہدید سے وہ کچھ متوجہ ہوئے ہیں گویا وہ مخاطب کے طور پ رسامنے آگئے ہیں ۔ اب قرآن ان سے کہتا ہے ۔

ان دنیاوی نعمتوں سے چند دن فائدہ اٹھا لو لیکن ایک روز دیکھو گے کہ تم کس عظیم اشتباہ اور کتنی بڑٰ غلطی کے مرتکب ہوئے ہو اور آخر کار تم کس انجام تک آپہنچے ہو ۔

درحقیقت یہ آیت سورہ ابراہیم کی آیہ ۳۰ کے مشابہ ہے :

( قل تمتعوافان مصیر کم الیٰ النار )

کہہ دو چند روز اس دنیا کی لذتیں اٹھالو آخر کا تمہارا انجام ِ کار آتشِ جہنم ہے ۔(۱)

حوادث کے چنگل سے نجات مل گئی تو بعد ازاں انھوں نے راہ ِ توحید کو چھوردیا اور شرک کی راہ اپنالی تاکہ نعمتوں کا کفران و انکار کریں ۔

____________________

۱۔تفسیر برہان جلد ۲ ص۳۷۳۔

۲۔ بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے ”لیکفروا“ اس شرک و کفران کی گایت و نتیجہ ہے جو پہلی آیت میں ذکر ہوا ہے