آیت ۹
۹(
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُون
)
ترجمہ
۹ ۔ ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم قطعی طور پر اس کی حفاظت کریں گے ۔
تفسیر
قرآن کی حفاظت
کفار نے بہت بہانہ سازیاں کیں ۔ یہاں تک کہ پیغمبر اور قرآن کے بارے میں استہزا کیا ۔ گذشتہ آیات میں اس کا ذکر موجود ہے اس کے بعد زیر بحث آیت میں ایک عظیم اور نہایت اہم حقیقت بیان کی گئی ہے ۔ یہ بیان حقیقت ایک طرف تو پیغمبر اکرم کی دلجوئی کے لئے ہے اور ہم یقینی طور پر اس کی حفاظت کریں گے (إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ) ۔
ایسا نہیں کہ یہ قرآن کسی یاور و مددگار کے بغیر ہے اور وہ اس کے آفتابِ وجود کو کیچڑ سے چھپادیں گے یا اس کے نور کو پھونکوں سے بجھا دیں گے یہ تو وہ چراغ ہے جسے حق تعالیٰ نے روشن کیا ہے اور یہ وہ آفتاب ہے جس کے لئے غروب ہونا نہیں ہے ۔
یہ چند ایک افراد اورناتواں گروہ تو معمولی سی چیز ہے اگر دنیا بھر کے جابر ، اہل اقتدار، سیا ستداں ، ظالم، منحرف، اہل فکراور جنگ آزما جمع ہو جائیں او ر اس کے نو رکو بجھا نا چاہیں تو وہ بھی ایسانہیں کرسکیں گے ۔ کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خدا نے اپنے اوپرلے رکھا ہے ۔
یہ کہ قرآن کی حفاظت سے مراد کن امور کی حفاظت ہے اس سلسلے میں مفسریں کے مختلف اقوال ہیں :
۱ ۔ بعض نے کہا ہے کہ تحریف و تغیر اور کمی بیشی سے حفاظت مراد ہے ۔
۲ ۔ بعض نے کہا ہے کہ آخر دنیا تک فطا و نابودی سے حفاظت مراد ہے ۔
۳ ۔ بعض دیگر نے کہاہے کہ قرآن کے خلاف گمراہ کرنے والی منطق کے مقابلے میں حفاظت مراد ہے ۔
لیکن یہ تفاسیر یہ صرف کہ یہ ایک دوسرے سے تضاد نہیں رکھیتیں بلکہ ” انا لہ لحٰفظون“ کے عام مفہوم میں شامل ہیں تو پھر کیوں ہم اس محافظت کو ایک کونے میں محصور کردیں جبکہ یہ مطلق طور پر اور اصطلاح کے مطابق حذف متعلق کے ساتھ آئی ہے حق یہ ہے کہ اس آیت کے ذریعے خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ قرآن کی ہر لحاظ سے حفاظت و نگہداری کرے گا اسے ہر قسم کی تحریف سے بچائے گا ۔
اسے فنادی نابودی سے محفوظ رکھے گا اور وسوسے پیدا کرنے والے سوفسطائیوں اور بد یہات کے منکردین سے اس کی محافظت کرے گا ۔
باقی رہا بعض قدماء مفسرین کا یہ احتمال کہ یہاں ذاتِ پیغمبر مراد ہے اور” لہ“ کی ضمیر پیغمبر کی طرف لوٹتی ہے ، کیونکہ قرآن کی بعض آیات ( مثلاً طلاق
میں لفظ ”ذکر “ کا اطلاق ذاتِ پیغمبر پر ہوا ہے یہ بہت بعید معلوم ہوتا ہے کیونکہ زیر بحث آیت سے قبل آیت میں لفظ ” ذکر “ صراحت کے ساتھ قرآن کے معنی میں آیا ہے ۔ او ریہ مسلم ہے کہ یہ بعد والی آیت اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
عدم تحریف ِقرآن
تمام شیعہ سنی علماء مشہور و معروف یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف نہیں ہوئی اور جو قرآن آج ہمارے ہاتھ میں ہے ، بالکل وہی قرآن ہے جو پیغمبر اکرم پر نازل ہوا، یہاں تک کہ اس میں کوئی لفظ اور کوئی حرف بھی کم یا زیادہ نہیں ہوا ۔
قدماء اور متاخرین میں سے وہ عظیم شیعہ علماء کہ جنہوں نے اس حقیقت کی تصریح کی ہے ان میں سے کوئی حسب ذیل علماء کے نام لئے جاسکتے ہیں :
مرحوم شیخ طوسی جو شیخ الطائفہ کے نام سے مشہور ہیں انہوں نے اپنی مشہورکتاب ”تفسیر بیان “ کے آغاز میں اس سلسلے میں روشن واضھ اور قطعی بحث کی ہے ۔
۲ ۔ سید مرتضیٰ جو چوتھی صدی ہجری کے اعاظم علما ء امامیہ میں سے ہیں ۔
۳ ۔ رئیس المحدثین مرحوم صدوق محمد بن علی بن بابویہ وہ عقائد امامیہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :۔” ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی کوئی تحریف نہیں ہوئی “۔
۴ ۔ عظیم مفسر مرحوم طبرسی سے بھی اپنی تفسیر کے مقدمہ میں اس سلسلے میں ایک واضح بحث کی ہے ۔
۵ ۔ مرحوم کاشف الغطاء جو بزرگ علماء متاخرین میں سے ہیں ۔
۶ ۔ مرحوم محقق یزدی نے کتاب عررہ الوثقیٰ میں جمہور مجتہدین شیعہ سے عدم تحریف قرآن نقل کیا ہے ۔
۷ ۔ بہت سے دوسرے بزرگواروں مثلاً شیخ مفید ، شیخ بہائی ، قاضی نور اللہ اور دیگر شیعہ محققین نے یہی عقیدہ نقل کیا ہے ۔ اہل سنت کے بزرگ اور محققین بھی زیادہ تر یہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔
اگر چہ بعض شیعہ اور سنی محدثین کہ جن کی اطلا عات قرآن کے کے بارے میں ناقص تھیں انھوں نے قرآن میں وقوعِ تحریف کا ذکر کیا ہے لیکن دونوں مذاہب کے بزرگ علماء کی وضاحت سے یہ عقیدہ باطل قرار پاکر فراموش ہو چکا ہے ۔
یہاں تک کہ مرحوم سید مرتضیٰ ”المسائل الطرابلسیات“ کے جواب میں کہتے ہیں :
”صحت نقل قرآن دنیا کے مشہور شہروں ، تاریخ کے عظیم واقعات اور مشہور معروف کتب کے بارے میں ہماری اطلا عات کی طرح واضح اور روشن ہے ۔
کیا کوئی شخص مکہ اور مدینہ یا لندن اور پیرس جیسے شہروں کے ہونے میں کوئی شک و شبہ کرسکتا ہے اگر چہ اس نے کبھی بھی ان شہروں کی طرف سفر نہ کیا ہو ۔
کیا کوئی شخص ایران پر مغلوں کے حملے ، فرانس کے عظیم انقلاب یا پہلی اور دوسری عالمی جنگ کا منکر ہو سکتا ہے ۔
ایسا کیوں نہیں ہوسکتا اس لئے یہ تمام چیزیں تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں ۔
قرآن کی آیات بھی اسی طرح ہیں اس تشریح کے ساتھ کہ جو ہم بعد میں بیان کریں گے ۔
اگر بعض افراد نے اپنے مفادات کی غرض سے شیعہ سنی میں تفرقہ ڈالنے کے لئے شیعوں کی طرف تحریف کے اعتقاد کی نسبت دی ہے تو ان کے دعوی کے بطلان کی دلیل علماء شیعہ کی بڑی اور عظیم کتب ہیں ۔
یہ بات عجب نہیں کہ فخر رازی جیسا شخص کہ جو شیعوں سے مربوط مسائل میں خاص حساسیت اور تعصب رکھتا ہے محل بحث آیت کے ذیل میں کہتا ہے کہ یہ آیت ”(
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
)
“مذہب شیعہ کے بطلان کی دلیل ہے کیونکہ وہ قرآن میں تغیر اور کمی بیشی کے قائل ہوتے ہیں ۔
ہم صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر اس کی مراد بزرگان اور محققین شیعہ ہیں تو ان میں سے کوئی بھی اس قسم کاعقیدہ نہیں رکھتا تھا اور نہ رکھتا ہے اور اگر ا س کی مراد یہ ہے کہ اس سلسلے میں میں شیعوں کے درمیان ایک ضعیف قوم موجود ہے تو اس کی نظیر اہل ِ سنت میں بھی موجود ہے کہ جس کی نہ وہ اعتناء کرتے ہیں نہ ہم۔
معروف محقق کاشف الغطاء اپنی کتاب ”کشف الغطاء“ میں کہتے ہیں :۔
لاریب انه ”ای القراٰن “ محفوظ من النقصان بحفظ الملک الدیان کما دل علیه صریح القراٰن وجماع العلماء فی کل زمان ولاعبرة بنادر
۔
اس میں شک نہیں کہ قرآن کی حفاظت کے سائے میں ہر قسم کی کمی اور تحریف سے محفوظ رہا ہے جیسا کہ صریح قرآن اس پر دلالت کرتا ہے او رہر زمانے کے علماء کا اس پر اجماع رہا ہے اور شاذ و نادر افراد کی مخالفت کی کوئی حیثیت نہیں ہے ( تفسیر آلاء الرحمن ص ۳۵)
تاریک اسلام نے اس قسم کی ناروا نسبتیں کہ جن کا سر چشمہ تعصب کے سوا کچھ نہیں ، بہت دیکھی ہیں ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے بعض دشمنون کی طرف سے پیدا کردہ غلط فہمیاں تھیں کہ جو اس قسم کے مسائل کھڑے کرتے تھے کہ مسلمانوں کی صفوں اتحاد و حدت ہر گز بر قرار نہ رہے ۔
معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ مشہور حجازی مؤلف عبد اللہ القصیمی اپنی کتاب الصراع میں شیعوں کی مذمت کرتے ہوئے کہتا ہے :۔
شیعہ ہمیشہ سے مساجد کے دشمن تھے یہی وجہ ہے کہ جو شیعوں کے شہروں میں جائے ، شمال سے جنوب تک ، اور مشرق سے مغرب تک اسے بہت کم مساجد دکھائی دیں گی ۔
خوب غور کریں کہ ہم ان تمام مساجد کو شمار کرتے تھک جاتے ہیں کہ جو شاہراہوں ، بازاروں ، کوچوں بلکہ شیعہ محلوں میں موجود ہیں ۔ بعض مقامات پر تو ایک ہی علاقے میں اتنی مسجدیں ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بس کر، آؤ کوئی او رکام بھی کرو ۔
لیکن اس کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک مشہور مؤلف اس صراحت سے ایسی بات کرتا ہے جو ہم جیسے لوگوں کے نزدیک تو محض مضحکہ خیز ہے کہ جو ان مناطق اور شیعہ علاقوں میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ ان حالات میں اگر فخر رازی کوئی ایسی نسبت دیتا ہے تو زیادہ تعجب نہیں کرنا چاہیئے۔
عدم تحریف ِ قرآن کے دلائل
۱ ۔ حافظان قرآن :
عدم تحریف قرآن کے بارے میں ہمارے پاس بہت زیادہ دلائل و براہین موجود ہیں ان میں زیادہ واضح اور روشن زیر بحث آیت اور قرآ ن کی کچھ اور آیات کے علاوہ اس عظیم آسمانی کتاب کی تاریخ بھی ہے ۔
مقدمہ کے طور پر اس نکتہ کی یاد ہانی ضروری ہے کہ وہ ضعف اقلیت کہ جس نے تحریف ِ قرآن کا احتمال ذکر کیا ہے ، وہ صرف قرآن میں کمی کے سلسلے میں ہے ۔ ورنہ کسی نے بھی یہ احتمال پیش نہیں کیا کہ موجودہ قرآن میں کسی چیز کا اضافہ کیا گیا ہے ۔( غو ر کیجئے گا )
یہاں سے گذر کر اگر ہم اس موضوع پر غور و فکر کریں کہ قرآن مسلمانوں کے لئے کچھ تھ قانون ِ اساسی ، زندگی کا دستور العمل ، حکومت کاپروگرام ، مقدس آسمانی کتاب اور رمز عبادت سب کچھ تو قرآن تھا تو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اصولی طور پر اس میں کمی بیشی کا امکان نہیں ۔
قرآن ایک ایسی کتاب تھی کہ پہلے دور کے مسلمان ہمیشہ نمازوں میں ، مسجدوں میں ،گھرون میں ، میدان جگ میں دشمن کا سامنا کرتے ہوئے اپنے مکتب کی حقانیت پر استدلال کرنے کے لئے اسی سے استفادہ کرتے تھے یہان تک کہ تاریخ اسلام سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم قرآن عورتوں ک اھق مہر قرار دیتے تھے اور اصولی ور پر تنہا وہ کتاب کہ جو تمام محافل کا موضوع تھی اور ہر بچے کو ابتدائے عمر سے جس سے آشنا کیا جاتا تھا اور جو شخص بھی اسلام کا کوئی درس پڑھنا چاہتا اسے اس کی تعلیم دی جاتی تھی جی ہاں وہ قرآن یہی قرآن مجید ہے ۔
کیا اس کیفیت کے ہوتے ہوئے کسی شخص کو یہ شخص کویہ احتمال ہو سکتا ہے کہ اس آسمانی کتاب میں تغیر و تبدل ہو گیا ہو خصوصاًجبکہ ہم نے اسی تفسیر کی جلد اول کی ابتداء میں ثابت کیا ہے کہ قرآن ایک مجموعہ کی صورت میں اسی، موجود ہ صورت میں خود زمانہ پیغمبر میں جمع ہو چکا تھا اور مسلمان سختی سے اسے یاد کرنے اور حفظ کرنے کو اہمیت دیتے تھے ۔اصولی طور پر اس زمانے میں افراد کی شخصیت زیادہ تر اس بات سے پہچانی جاتی تھی کہ انھیں قرآن کی آیات کس حد تک یا د ہیں ۔
قرآن کے حافظوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ تواریخ میں ہے کہ حضرت ابو بکر کے زمانے میں ایک جنگ میں قرآن کے چار سو قاری مارے گئے تھے ۔
”بئر معونہ“ مدینہ کی نزدیکی آبادیوں میں سے تھی ۔ یہاں ایک واقعہ رونما ہوا جس کے نتیجے میں رسول اللہ کی زندگی میں اس علاقے میں ایک جنگ رونما ہو گی تھی ۔یہاں ایک واقعہ رونما ہوا جس کے نتیجے میں رسول اللہ کی زندگی میں اس علاقے میں ایک جنگ رونما ہوگئی ۔ اس جنگ میں اصحاب پیغمبر میں سے قاریانِ قرآن کی ایک کثیر جماعت نے شربت ِ شہادت نوش کیا یہ تقریباًستّر افرد تھے ۔
ان سے اور ان جیسے دیگر واقعات سے واضح ہو جاتا ہے کہ حافظ و قاری اور معلمین قرآن اس قدر زیادہ تھے کہ صرف ایک میدان ِ جنگ میں ان میں سے اتنی تعداد نے جام ِ شہادت نوش کیا اور تعداد ایسی ہونا چاہئیے تھی کیونکہ ہم نے کہا ہے کہ قرآن مسلمانو کے لئے صرف قانون اساسی نہیں ہے بلکہ ان کا سب کچھ اسی سے تشکیل پاتا ہے ۔ خصوصاًابتدائے اسلام میں مسلمانوں کے پاس ا س کے علاوہ کوئی کتاب نہ تھی اور تلاوت و قرات اور حفظ و تعلیم تعلّم قرآن کے ساتھ مخصوص تھاقرآن ایک تروک کتاب نہ یہ گھر ی امسجد کے کسی کونے میں فراموشی کے گرد و غبار کے نیچے پڑی ہوئی نہ تھی کہ کوئی اس میں کمی یا زیادتی کردیتا ۔
حفظ قرآن کا مسئلہ ایک سنت اور ایک عظیم عبادت کے عنوان سے ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان تھا اور ہے یہاں تک کہ قرآن ایک کتاب کی صورت میں بہت زیادہ پھیل گیا اور تمام جگہوں پر پہنچ گیا بلکہ آج بھی چھاپہ خانے کی صنعت کے وجود میں آنے کے بعد جبکہ اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ قرآن ہی چھپتا اور نشر ہوتا ہے پھر بھی حفظ قرآن کے مسئلے نے ایک قدیم سنت اور عظیم افتخار کے طور پر اپنی اہمیت و حیثیت کو محفوظ رکھا ہے اور ہر شہر و دیار میں ہمیشہ ایک جماعت حافظِ قرآن تھی اور آج بھی ہے ۔
اس وقت حجاز اور کئی دیگر اسلامی ممالک میں ”تحفظ القراٰن الکریم
“ یا دوسرے ناموں سے ایسے مدارس موجود ہیں ، جہاں طالب علموں کو پہلے مرحلے میں قرآن حفظ کرایاجاتا ہے ۔ سفرمکہ کے دوران اس شہر مقدس میں ان مدارس ک بر براہوں سے جو ملاقات ہوئی اس سے معلوم ہوتا ہے ان مدارس میں بہت سے نو جوان لڑکے اور لڑکیاں مشغول تحصیل ہیں ۔ جاننے والوں میں سے ایک شخص نے بتا یا کہ اس وقت پاکستان میں تقریباًپندرہ لاکھ حافظان قرآن موجود ہیں ۔
جیسا کہ دائرة المعارف فرید وجدی نے نقل کیا ہے کہ جامعة الازھر مصر کی یونیورسٹی میں داخلے کی ایک شرط پورے قرآن کا حفظ ہونا ہے اس کے لئے چالیس میں سے کم کم بیس نمبر رکھے گئے ہیں ۔
مختصر یہ کہ خود آنحضرت کے حکم و تاکید سے کہ جو بہت زیادہ روایات میں آئی ہے حفظ ِ قرآن کی سنت زمانہ پیغمبر سے لے کر آج تک ہر دور میں جاری و ساری ہے ۔ کیا ایسی حالت میں تحریف ِقرآن کے بارے میں کسی احتمال کا امکان ہے ؟
۲ ۔ کاتبان وحی :
ان تمام امور کے علاوہ کاتبانِ وحی کا معاملہ بھی غور طلب ہے یہ وہ افراد تھے جو آنحضرت کے حکم اور تاکید سے آپ پر قرآن کی آیات نازل ہونے کے بعد انھیں لکھ لیتے تھے ان کی تعداد چودہ سے لے کر تنتالیس تک بیا ن کی گئی ہے ۔
ابو عبد اللہ زنجانی اپنی نہایت قیمتی کتاب”تاریخ قرآن “ میں لکھتے ہیں ۔
کان للنبی کتاباًیکتبون الوحی وهم ثلاثة و اربعون اشهر هم الخلفاء الاربعة و کان الزمهم للنبی زید بن ثابت و علی بن ابی طالب علیه السلام
۔
پیغمبر کے مختلف کاتب اور لکھنے والے کہ جو وحی لکھا کرتے تھے اور وہ تنتالیس افراد تھے کہ جن میں زیادہ مشہور خلفاء اربعہ تھے ۔ لیکن اس سلسلے میں پیغمبر کے سب سے بڑھ کر ساتھی زید بن ثابت اور علی ابن ابی طاللب علیہ السلام ۔
وہ کتاب کہ جسے اس قدر لکھنے والے تھے کیسے ممکن ہے کہ تحریف کرنے والے اس کی طرف ہاتھ بڑھاسکتے ۔
____________________