آیات ۶۱،۶۲،۶۳،۶۴،
۶۱ ۔(
وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَا تَرَکَ عَلَیْهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَکِنْ یُؤَخِّرُهُمْ إِلَی اٴَجَلٍ مُسَمًّی فَإِذَا جَاءَ اٴَجَلُهُمْ لاَیَسْتَاٴْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَیَسْتَقْدِمُونَ
)
۔
۶۲ ۔(
وَیَجْعَلُونَ لِلَّهِ مَا یَکْرَهُونَ وَتَصِفُ اٴَلْسِنَتُهُمْ الْکَذِبَ اٴَنَّ لَهُمْ الْحُسْنَی لاَجَرَمَ اٴَنَّ لَهُمْ النَّارَ وَاٴَنَّهُمْ مُفْرَطُونَ
)
۔
۶۳ ۔(
تَاللهِ لَقَدْ اٴَرْسَلْنَا إِلَی اٴُمَمٍ مِنْ قَبْلِکَ فَزَیَّنَ لَهُمْ الشَّیْطَانُ اٴَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِیُّهُمْ الْیَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ
)
۔
۶۴ ۔(
وَمَا اٴَنزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ إِلاَّ لِتُبَیِّنَ لَهُمْ الَّذِی اخْتَلَفُوا فِیهِ وَهُدًی وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ
)
۔
ترجمہ
۶۱ ۔ اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے سزا دے تو مشیت ِ زمین پر چلنے والا کوئی باقی نہ رہے لیکن وہ ایک عرصے تک انھیں مؤخر کر دیتا ہے البتہ جب ان کی اجل آپہنچی ہے تو پھر وہ نہ ساعت بھر تا خیر کرتے ہیں او رنہ گھڑی بر تقدیم کرتے ہیں ۔
۶۲ ۔وہ خدا کے لئے وہ کچھ قرار دیتے ہیں کہ جسے خود ناپسند کرتے ہیں ( یعنی بیٹیاں ) اس کے باوجود جھوٹ بولتے ہیں کہ ان کا انجام نیک ہے ، ناچار ان کے لئے آگ ہے اور وہ ( آتش جہنم کی طرف)پیش قدمی کرنے والے ہیں ۔
۶۳ ۔ بخدا تجھ سے پہلے ہم نے امتوں کی طرف نبی بھیجے لیکن شیطان نے (ان امتوں کو) ان کے اعمال انھیں سجا بنا کر دکھائے اور آجوہی ان کا ولی ہے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے ۔
۶۴ ۔ہم نے قرآن تجھ پر ناز ل نہیں کیا مگر اس لئے کہ جس امر میں وہ اختلاف کرتے ہیں تو ان سے بیان کردے اور یہ ان کے لئے ہدایت و رحمت ہے جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ۔
تفسیر
خد افوراً سزا کیوں نہیں دیتا؟
گذشتہ آیات میں مشرکین ِ عرب کے وحشت ناک جرائم اور قبیح بدعتوں کا ذکر ہے ان میں بتا یا گیا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے ۔ہو سکتا ہے اس مو قع پر بعض ذہنوں میں یہ سوال ابھرے کہ ایسے ظالمانہ اقدامات پر خدا تعالیٰ فوراًعذاب کیوں نہیں کرتا؟
زیر نظر آیت اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتی ہے : اگر خدا لوگوں کو ان کے ظلم و گناہ پر سزا دے تو سطح زمین پر کوئی حرکت کرنے والا باقی نہ رہے(
وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَا تَرَکَ عَلَیْهَا مِنْ دَابَّةٍ
)
۔
”دابة“ ہر قسم کے زندہ اور متحرک موجود کو کہتے ہیں یہاں ممکن ہے ”علیٰ ظلمھم “ کے قرینوں سے انسانوں کے لئے کنایہ ہو یعنی اگر خد ا انسانوں کا ان ظلم کی وجہ سے مواخذہ کرے تو کوئی انسان سطح زمین پر باقی نہ رہے ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد زمین پر تمام حرکت کرنے والے اور چلنے پھر نے والے ہوں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ زمین پر چلنے والے جانور معمولاً انسان کے لئے پید اکئے گئے ہیں جیسا کہ قرآن کہتا ہے :
(
هو الذی خلق لکم ما فی الاض جمیعاً
)
اللہ وہ ہے کہ جس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لئے پیدا کیا ہے ۔ (بقرہ ۲۹)
لہٰذا جب انسان ختم ہو جائیں تو دوسرے چلنے پھرنے والے جانداروں کے وجود کا فلسفہ بھی ختم ہو جائے گا ، اس لئے ان کی نسل بھی منقطع ہو جائے گی۔
اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آیت کے مفہوم کی عمویت اور وسعت کو دیکھا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ زمین پر بسنے والے تمام انسان ظالم ہیں اور ہر شخص کسی نہ کسی ظلم کا مرتکب ہوا ہے اور اگر فوری سزا نافذ ہو تو کسی کا دامن نہیں بچے گا حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ نہ صرف انبیاء و مر سلین اس زمین پر موجود رہے ہیں کہ جو معصوم ہیں اور اس ظلم کے مصداق نہیں ہیں بلکہ ہر زمانے میں ایسے نیک پاک اور سچے مجاہد رہے ہیں کہ جن کی نیکیاں یقینا ان کی چھو ٹی برائیوں سے زیادہ ہوتی ہیں اور جو ہر گز ایسی سزا کے مستحق نہیں ہوتے کہ جو نابود کردے ۔
اس سوال کو جواب یوں دیا جا سکتا ہے
آیت کا حکم نوعی ہے نہ عمومی کہ جو سب کے لئے ہو ۔
اسے بیانات کی مثالیں عربی ادب میں اور دیگر زبانوں میں موجود ہیں یہ مشہور شعر ہم نے اکثر سنا ہے :
گر حکم شود مست گیرند در شھر ہر آنچہ ہست گیرند
اگر حکم ہو کہ جو بھی نشے میں ہو اسے پکڑ لیا جائے تو شہر میں کوئی بھی گرفتاری سے نہ بچ سکے ۔
اسی طرح ایک اور شاعر کہتا ہے :
گفت باید حد زندہشیار، مرد مست را گفت ہشیاری بیار ، اینجا کسی ہشیار نیست
اس نے کہا ہے جو ہوش میں ہے وہ اس مست شخص پر حد جاری کرے تو جواب ملا کہ پہلے کسی باہوش کو لے آؤ کیونکہ یہاں تو کوئی ہوش میں نہیں ہے ۔
اس استثناء کی شاہد سورہ فاطر کی آیہ ۳۲ ہے ، اس میں ارشاد الہٰی ہے :
(
ثم اورثناالکتاب الذین اصطفینا من عبادنا فمنهم ظالم لنفسه و منهم مقتصد و منهم سابق بالخیرات باذن الله ذٰلک هو الفضل الکبیره
)
۔
پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے جھیں چن لیا انھیں کتاب کا وارث بنایا اور انسانوں میں تین طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جنہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، دوسرے وہ جو درمیانے سے ہیں اور تیسرے وہ کہ جو اذن الہٰی سے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں اور یہ بڑے فضل کی بات ہے ۔
یہ بات یقینی ہے کہ زیر بحث آیت میں جس عذاب کا ذکر ہے وہ سورہ فاطر کی مذکورہ آیت کے بیان کر دہ پہلے گروہ کے لئے ہے اور ایسے لوگوں ککی چونکہ معاشروں میں کثرت ہوتی ہے لہٰذا آیت کے انداز میں عمومیت کوئی قابل تعجب با ت نہیں ہے ۔
ہم نے جو کچھ کہا ہے اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ آیت انبیاء کی عصمت کی نفی پر ہر گز دلالت نہیں کرتی اور جنھوں نے یہ خیال کیا ہے انھوں نے قرآن کی دیگر آیات اور کلام میں موجودقرائن کی طرف توجہ نہیں کی۔
اس کے بعد قرآن کہتا ہے : خدا سب ظالموں کو مہلت دیتا ہے اور اجل مسمیٰ ( ایک معین زمانے ) تک ان کی موت کو مؤخر کردیتا ہے(
وَلَکِنْ یُؤَخِّرُهُمْ إِلَی اٴَجَلٍ مُسَمًّی
)
۔
لیکن جب ان کی اجل آپہنچتی ہے تو ھر گھڑی بھر کی تاخیر ہوہے نہ تقدیم(
فَإِذَا جَاءَ اٴَجَلُهُمْ لاَیَسْتَاٴْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَیَسْتَقْدِمُونَ
)
۔
بلکہ ٹھیک اسی لمحے موٹ انھیں دامن گیر ہوجاتی ہے اور لحظہ کے لئے بھی آگے پیچھے نہیں ہوتی ۔
اجل مسمیٰ کیا ہے ؟
”اجل مسمیٰ “ کے مفہوم کے بارے میں میں مفسرین کی مختلف آراء ہیں البتہ قرآن حکیم کی دیگر آیات کہ جن میں سورہ انعام کی آیت ۲/ اور سورہ اعراف کی آیہ ۳۴ / شامل ہیں ، پر نظر رکھی جائے تو اس سے مراد موت کا آنا ہی ہے یعنی خد ابدنوں کو ان کی عمر کے آخر تک اتمام حجت کے لئے مہلت دیتا ہے کہ شاید ظالم اپنی اصلاح کی فکر کریں اور اپنے طرز عمل پر تجدید نظر کریں اور خدا ، حق اور عدالت کی طرف پلٹ آئیں ، جب مہلت یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو موت کا حکم جاری ہو جاتا ہے اور موت کے اسی لمحے سے سزا اورعذاب کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔
”اجل مسمیٰ
“ کے بارے میں مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ کی جلد ۵ ص ۱۳۳( اردو ترجمہ) اور جلد ۶ ص ۱۴۲( اردو ترجمہ )کی طرف رجوع کریں ۔
اگلی آیت میں قرآن ایک مرتبہ بھی زمانہ جاہلیت کے عرب کی بری رسموں کی مذمت کرتا ہے قبل ازیں بتا یا جاچکا ہے کہ وہ خود بیٹیوں سے نفرت کرتے تھے جبکہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے : ایک طرف تو وہ خود اپنے لئے بیٹیوں کو ناپسند کرتے ہیں لیکن دوسری طرف خدا کے لئے قائل ہیں(
وَیَجْعَلُونَ لِلَّهِ مَا یَکْرَهُونَ
)
۔
یہ عجیب و غریب تناقض اور تضاد ہے سورہ نجم کی آیہ ۲۲ میں ہے ؛
یہ ایک انتہائی ناپسند دیدہ تقسیم ہے ۔
فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ بیٹیان اچھی چیز ہیں تو پھر تم کیوں بیٹیاں پیدا ہونے پر پریشان ہوجاتے ہو اور اگر یہ بری چیز ہے تو پھر خدا کے لئے اس کے قائل کیوں ہوتے ہو؟
اس کے باوجود ان کا غلط دعویٰ ہے کہ ان کا انجام نیک ہے اور جزائے خیر انہی کے لئے ہے(
وَتَصِفُ اٴَلْسِنَتُهُمْ الْکَذِبَ اٴَنَّ لَهُمْ الْحُسْنَی
)
۔
کس عمل کی وجہ سے وہ ایسی جزا کی توقع رکھتے ہیں کیا معصوم ، بے گناہ بے چاری بیٹیوں کو زندہ در گور کرنے پر یا پر وردگار کی ساحتِ مقدس پر افتراء باندھنے پر؟
لفظ ” حسنیٰ “ ”احسن“کا مونث ہے اس کا معنی نہایت عمدہ ، بہت اچھا ۔یہاں بہترین جزا یا بہترین انجام کے معنی میں آیا ہے جس کی یہ مغرور اور گمراہ قوم اپنے تمام تر جرائم کے باوجود قائل تھی ۔ اس صورت میں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ زمانہ جاہلیت کے عرب تو معاد اور قیامت پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے اس کے باوجود اس قسم کی باتیں کیوں کرتے تھے ۔
اس سلسلے میں توجہ رہے کہ وہ سب سے سب مطلقاً معاد کے منکر نہیں تھے بلکہ معاد ِ جسمانی کا انکار کرتے تھے انھیں اس بات سے انکار تھا کہ انسان کو پھر سے مادی زندگی دی جائے گی وہ اس بات پر تعجب کرتے تھے علاوہ ازیں ممکن ہے یہ تعبیر ” قضیہ شرطیہ“ کے طور پر ہو یعنی وہ کہتے تھے :یابالفرض دوسرا جہاں ہو تو ہمیں وہاں بہترین جزا ملے گی۔
بہت سے ظالم و جابر ، منحرف اور ہٹ دھرم افراد کی یہی طرز فکر ہے کہ خد اسے دور ہو نے کے باوجود وہ اپنے آپ کو خدا سے بہت نزدیک سمجھتے ہیں اور انتہائی مضحکہ خیز دعوے کرتے ہیں ۔
بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ظاہر کیا ہے کہ”حسنیٰ“ سے ” نعمت حسنیٰ“ یعنی بیٹے مراد ہیں کیونکہ وہ بیٹیوں کو برا اور منحوس سمجھتے تھے لیکن بیٹوں کو اچھا اور اعلیٰ نعمت جانتے تھے ۔
لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اسی لئے بلا فاصلہ فرمایا گیا ہے : نا چار ان کے لئے جہنم کی آگ ہے(
لاَجَرَمَ اٴَنَّ لَهُمْ النَّارَ
)
۔یعنی نہ صرف یہ کہ ان کی عاقبت بخیر نہیں بلکہ ان کا انجام کار جہنم کی آگ کے علاوہ کچھ نہیں اور وہ اسی آگ کی طرف پیش قدمی کرنے والے ہیں ۔(
وَاٴَنَّهُمْ مُفْرَطُونَ
)
۔
”مفرط“ ”فرط“ ( بر وززن”فقط“)کے مادہ سے آگے بڑھنے کے معنی میں ہے ۔
ہو سکتا ہے زمانہ جاہلیت کے عربوں کی داستان سن کر بعض یہ سوال کریں کہ کسیے ممکن ہے کہ انسان اپنے جگر گوشہ کو اس بر بریّت کے ساتھ مٹی میں زندہ گاڑ دے ۔ اس سلسلے میں اگلی آیت میں فرمای اگیا ہے : بخدا ہم نے تجھ سے پہلے امتوں کی طرف نبی بھیجے لیکن شیطان نے ان امتوں کے اعمال انھیں بہت بنا سنوار کر پیش کئے تھے(
تَاللهِ لَقَدْ اٴَرْسَلْنَا إِلَی اٴُمَمٍ مِنْ قَبْلِکَ فَزَیَّنَ لَهُمْ الشَّیْطَانُ اٴَعْمَالَهُمْ
)
۔
جی ہاں شیطان اپنے وسوسوں میں تنا ماہر ہے کہ قبیح ترین اور بد ترین جرائم کو بھی بعض اوقات انسان کے سامنے بہت خوبصورت بنا کر پیش کردیتا ہے اور اسے باعث ِ فخر سمجھنے لگتا ہے جیسا کہ دورِ جاہلیت کے عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ د رگور کرنے کو پانے لئے سندافتخار جانتے تھے وہ اسے غیرت مندی کا مظاہرہ قرار دیتے اور قبیلے کی عز ت و آبرو کی حفاظت کے نام پر اس فعل کی تعریف کرتے ۔
بیٹی کو زندہ گاڑ دینے والا باپ کہتا :
میں نے اپنی بیٹی کو اپنے ہاتھوں سے زیر خاک دفن کردیا ہے تاکہ کل کو وہ کسی جنگ میں دشمن کے ہاتھ نہ لگے۔
ظاہر ہے جہاں ایسے شرمناک ترین اعمال شیطانی تزئین کے بعد ایسے پر فریب ہو جائیں تو باقی کاموں کی حالت کیا ہو گی۔
آج بھی شیطانی تزئین کے ایسے نمونے بہت سے افراد کے اعمال میں نظر آتے ہیں ۔ آج بھی چوری ، غارت گری، تجاوز اور جرم کو مختلف پر فریب نام دئے جاتے ہیں ۔
اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ دورِ حاضر کے مشرکین بھبی ان گزشتہ امتوں کے انحرافی طرز عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
شیطان نے جن کے اعمال کو خوبصورت بنا کر پیش کیا تھا آج بھی شیطان ان کا ولی ، راہنما اور سر پرست ہے(
فَهُوَ وَلِیُّهُمْ
)
۔اور یہ اسی کی راہنمائی میں قدم اٹھاتے ہیں ۔ اسی بناء پر دردناک عذابِ الٰہی ان کے انتظار میں ہے(
الْیَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ
)
۔
”(
فَهُوَ وَلِیُّهُمْ الْیَوْمَ
)
“( آج شیطان ان کا ولی و سر پرست ہے ) اس جملے کی مفسرین مختلف پیرائے میں تفسیر کی ہے ۔ شاید ان میں سے زیادہ واضح وہی ہے جو ہم کہہ چکے ہیں ۔ یعنی یہ جملہ دور جاہلیت کے مشرکین عرب کی کیفیت واضح کر رہا ہے اور بتا رہا ہے کہ انھوں نے بھی گزشتہ منحرف امتوں کے طرز عمل کی پیروی کی اور شیطان ان کا سر پرست ہے جیسے وہ گزشتہ گمراہوں کا سر پرست تھا۔
ا۔لیکن اس تفسیر کا لازمی مطلب یہ ہے کہ ”اعمالھم “ اور ” ولیھم“ کی ضمیر میں معنیٰ کے لحاظ سے فرق ہو پہلی ضمیر گذشتہ امتوں کے لئے ہو اور دوسری رسول اللہ کے زمانے کے مشر کین کی طرف اشارہ کرتی ہو ۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے یہ جملہ مقدر مانا جا سکتا ہے ۔هؤ لاء یتبعون الامم الماضیة
( غور کیجئے گا )
یہ اھتمال بھی ہے کہ اس سے مراد کیہ ہو کہ ابھی تک گزشتہ منحرف امتوں کے کچھ لوگ موجود ہیں اور وہ اپنے انحرافی طریقے کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور ششیطان آج بھی پہلے کی طرح ان کا سر پرست ہے ۔
زیر بحث آخری آیت میں بعثت ِ انبیاء کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ تاکہ واضح ہو جائے کہ اگر قومیں اور ملتیں اپنی خود غرضیوں اور غلط طور طریقوں کو چھوڑ کر رہبری ِ انبیاء سے وابستہ ہو جائیں تو ایسے خرافات ، اختلافات اور عملی تضادات ختم ہو جائیں ۔ ارشاد ہو تا ہے : ہم نے قرآن تجھ پر صرف اس لئے نازل کیا ہے کہ وہ جس امر میں اختلاف رکھتے ہیں تو اسے واضح کردے(
وَمَا اٴَنزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ إِلاَّ لِتُبَیِّنَ لَهُمْ الَّذِی اخْتَلَفُوا فِیهِ
)
۔
اور یہ قرآن ان لوگوں کے لئے باعثِ ہدایت و رحمت ہے جو ایمان رکھتے ہیں(
وَهُدًی وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ
)
۔
شیطانی وسوسے ان کے دلوں سے نکال دیتا ہے نفس امارہ اور شیطان صفت لوگوں کے پہنائے ہوئے پر فریب پر دے حقائق کے چہرے سے ہٹا دیتا ہے ۔ پس پردہ خرافات و جرائم کو واضح کردیتا ہے خود غر ضیوں نے جو اختلافات پیداکر دئے ہوتے ہیں انھیں ختم کر دیتا ہے ۔ بربر یتوں کا خاتمہ کردیتا ہے اور ہر طرف ہدایت و رحمت کا نور پھیلا دیتا ہے ۔
____________________