تفسیر نمونہ جلد ۱۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 24493
ڈاؤنلوڈ: 3544


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 79 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 24493 / ڈاؤنلوڈ: 3544
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 11

مؤلف:
اردو

آیات ۶۸،۶۹

۶۸ ۔( وَاٴَوْحَی رَبُّکَ إِلَی النَّحْلِ اٴَنْ اتَّخِذِی مِنْ الْجِبَالِ بُیُوتًا وَمِنْ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُونَ ) ۔

۶۹ ۔( ثُمَّ کُلِی مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُکِی سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلاً یَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ اٴَلْوَانُهُ فِیهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَةً لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ ) ۔

ترجمہ :

۶۸ ۔ تیرےپر وردگار نے ( نظام فطرت کے تحت) شہد کی مکھی کو وحی کی کہ پہاڑوں میں ، درختوں میں اور جو عر شے لوگ بناتے ہیں ان میں گھر بنانا۔

۶۹ ۔ اور پھر تمام پھلوں سے کھا اور جو راستے تیرے پر وردگار نے تیرے لئے معین کئے ہیں ان میں راحت سے چل پھر ۔ ان کے بطن سے پینے کی ایک خاص چیز نکلتی ہے اس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں کے لئے شفا ء ہے ۔ اس امر میں اہل فکر و نظر کے لئے بڑی نشانی ہے ۔

تفسیر

شہد کی مکھی اور وحی الہٰی

یہاں قرآن کا لب ولہجہ شگفت انگیز ہ وگیا ہے نعمات الٰہی اور اسرار آفرینش کی بات جاری رکھتے ہو ئے شہد کی مکھی اور پھر شہد کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے لیکن اس طرح سے کہ شہد کی مکھی خدا کی طرف سے مامور ہے بتایا گیا ہے کہ رمز آمیز الہام و ہدایت کے جسے ”وحی“ کا نام دیا گیا ہے کے تحت شہد کی مکھی مشغول کا ر ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے تیرے پر وردگار نے شہد کی مکھی کو وحی کی کہ درختوں ، پہاڑوں اور لوگوں کے بنائے ہوئے عرشوں اور مچانوں میں گھر بنا( وَاٴَوْحَی رَبُّکَ إِلَی النَّحْلِ اٴَنْ اتَّخِذِی مِنْ الْجِبَالِ بُیُوتًا وَمِنْ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُونَ ) ۔

اس آیت میں چند قابل غور تعبیرات آئی ہیں :

۱ ۔ ”وحی“ کامفہوم :

جیسا کہ راغب مفردات میں کہتا ہے دراصل تیز اشارہ کے معنی میں ہے بعد ازاں یہ لفظ مخفی طور پر کوئی بات القاء کرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ لیکن قرآن ِ مجید میں یہ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ۔ ان سب معانی کی با زگشت اسی اصل معنی کی طرف ہے قرآن کے مفاہیم میں ایک وحی نبوت ہے زیادہ تر یہ لفظ قرآن میں اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے ۔ سورہ شوریٰ کی آیت ۵۱ میں ہے :( وماکان لبشر ان یکلمه الله الا وحیا )

انسان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ طریق وحی کے سوا کسی طرح اللہ سے کلام کرسکے ۔

نیز ”وحی“ الھام کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے یہ الہام خود آگاہ ( انسانوں کے لئے ) بھی ہو سکتا ہے ۔ مثلا ً

( اوحینا الیٰ ام موسیٰ ان ارضعیه فاذا خفت علیه فالقیه فی الیم )

اور ہم نے موسیٰ ﷼ کی ماں کو وحی کی کہ اپنے نو مولود کو دودھ پلا اور جب تجھے اس کے بارے میں دشمنوں کا خطرہ محسوس ہوتو اسے دریا کی لہروں کے سپرد کر دے ۔( قصص ۷)

اور یہ الہام نا آگاہ اور طبیعی صورت میں بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ شہد کی مکھی کے بارے میں زیر بحث آیات میں مذکور ہے کیو نکہ یہ بات مسلم ہے کہ یہاں ”وحی “ اشارے کے معنی میں بھی ہے جیسا کہ حضرت زکریا ﷼ کے واقعے میں ہے :( فاوحیٰ الیهم ان سبحوا بکرة و عشیاً )

زکریا نے لوگوں کو اشارے سے کہا : صبح و شام اللہ کی تسبیح کرو۔ (مریم ۱۱)

نیز مخفی طور پر مخبر پہنچانے کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ جیسا کہ سورہ انعام کی آیہ ۱۱۲ میں ہے :

( یوحی ٰ بعضهم الیٰ بعض زحرف القول غروراً )

انسانی اور غیر انسانی شیاطین مخفی طریقے سے پر فریب اور گمراہ کن مطالب ایک دوسرے تک پہنچاتے ہیں ۔

۲ ۔ کیا طبعی الہام شہد کی مکھیوں سے مخصوص ہے ؟

طبائع و غرائز یا طبعی الہام شہد کی مکھیوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام جانوروں میں موجود ہے اس مقام پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہاں یہ تعبیر استعمال کیوں کی گئی ہے ۔

ایک نکتے کی طرف توجہ کرنے سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے وہ یہ کہ موجودہ زمانے میں جبکہ شہد کی مکھیوں کی زندگی کا سائنسدانوں نے نہایت دقت ِ نظر کے ساتھ مطالعہ کیا ہے تو یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اس عجیب و غریب جانور کا تمدن اور شگفت آمیز اجتماعی طرز حیات کئی حوالے سے انسان اور اس کی اجتماعی زندگی سے بڑھ کر ہے ۔

گذشتہ زمانے میں اس کی عجیب و غریب زندگی کچھ تو واضح تھی لیکن عصر حاضر کی مانند اس کی زندگی کے ایک سے ایک بڑھ کر عجیب تر پہلو انسان کے سامنے نہ تھے ۔ قرآن نے نہایت اعجاز آمیز انداز میں لفظ ”وحی“ کے ذریعے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے تاکہ یہ حقیقت واضح کرے کہ شہد کی مکھی کی زندگی ک اہر ھز چوپایوں اور دیگر جانوروں کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا اس طرح سے قرآن چاہتا ہے کہ ہم اس عجیب جانور کی اسرار آمیز دنیا میں قدم رکھیں اس کے خالق کی عظمت و قدرت سے آشنا ہوں اس آیت میں کلام کا لب و لہجہ بدلنے کایہی راز ہے ۔

۳ ۔ شہد کی مکھی کا گھر :

آیت میں سب سے پہلے شہد کی مکھی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اسے گھر بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے شاید اس بات کا ذکر اس لئے کیا گیا ہو کہ مناسب گھر زندگی کی پہلی ضرورت ہے باقی کاموں کی باری بعد میں آتی ہے یا ہوسکتا ہے یہ اس بناء پر ہو کہ مسدس کمروں کی شکل میں بنی ہوئی شہد کی مکھیوں کی عمارت جو شاید کئی ملین سالوں سے دنا بھر میں یو نہی بنتی چلی آرہی ہے ، ان کی زندگی کی ایک عجیب ترین با ت ہو ۔(۱)

یہاں تک کہ یہ تعبیر خود شہد بنانے سے عجیب تر۔ شہد کی مکھی کس طرح سے ایک خاص قسم کی موم تیار کرتی ہے اور کیسی عمدہ گی ، نفاست اور صفائی سے پیماش شمدہ مسدسی کمرے بناتی ہے ۔ بنیادی طور پر کسی ایک سطح سے اس طرح سے پورا استفادہ کرنا اس کا کوئی حصہ بے کار نہ رہ جاء یا اس کے زاویے اور کونے تنگ و تاریک نہ ہو ں اس کے لئے مسدس شکل میں بہتر مساوی رادیوں کا کوئی اور انتخاب نہیں ہوسکتا علاوہ ازیں ایسے گھروں میں پائیداری بھی ہوتی ہے ۔

۴ ۔ گھر کا انتخاب۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے ایسے گھر بعض اوقات پہاڑوں میں بنائے جاتے ہیں ناقابل ِ عبور پتھروں کے درمیان ان کے ایسے خاص سوراخوں میں جو اس مقصد کے لئے بالکل مناسب ہوتے ہیں ۔

کبھی شہد کی مکھیاں یہ گھر درختوں کی ٹہنیوں میں بناتی ہیں ، اور گا ہ ان گنبد نما جگہوں میں کہ جو لوگ ان کے لئے عرشوں کے اوپر بناتے ہیں ۔

اس تعبیر سے ضمناً معلوم ہوتا ہے کہ شہد کا چھتہ پہاڑ، درخت اور عرشہ کی بلند جگہ پر ہونا چاہئیے تاکہ وہ اس سے اچھی طرح فائدہ اٹھا سکیں ۔

اس کے بعد شہد کی مکھی کی دوسری ذمہ داری بیان کی گئی ہے قرآن کہتا ہے : اس کے بعد ہم نے اسے یہ وحی کی کہ تو تمام قسم کے پھلوں سے کھا ۔( ثُمَّ کُلِی مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ ) ۔اور جو راستے تیرے رب نے تیرے لئے معین کئے ہیں ان میں بڑی راحت سے چل پھر ۔( فَاسْلُکِی سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلاً ) ۔

” ذلل“ ”ذلول“ کی جمع ہے اس کا معنی ہے ” ہموار اور ”تسلیم“ یہ راستوں کی توصیف کے لئے آیا ہے اس لئے کہ یہ راستے اس باریک بینی کے ساتھ معین کئے گئے ہیں کہ شہد کی مکھیوں کے سامنے تسلیم اور ہموار ہیں اس سلسلے میں ہم بعد از یں وضاحت کریں گے ۔

آخر میں ایک نتیجہ کی صورت میں ان کی ماموریت کا آخری مر حلہ بیان کیا گیا ہے : شہد کی مکھیوں کے اندر سے ایک خاص طرح کی پینے کی چیز نکلتی ہے جو مختلف رنگ کی ہوتی ہے( یَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ اٴَلْوَانُهُ ) ۔

یہ شراب حلال انسانوں کے لئے بڑی اہم شفا بخش چیز ہے( فِیهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ ) ۔

شہد کی مکھیوں کی یہ زندگی انسان کے لئے غذا مہیا کرتی ہے اور شفا بھی اور سبق آموز بھی ہے اس میں اہل فکر و نظر کے لئے عظمت و قدرت پر وردگار کی واضح نشانی ہے ۔( إِنَّ فِی ذَلِکَ لآَیَةً لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ ) ۔

اس آیت میں بھی چند پر معنی اور قابل توجہ نکات ہیں ۔

____________________

۱۔ابھی تک شہد کی مکھیوں کی ۴۵۰۰ اقسام دریافت ہو چکی ہیں لیکن یہ بات بڑی عجیب ہے کہ مہاجرت اختیار کرنے میں ان کا طرز عمل ، شہد بنا نا ، پھولوں کا رس چوسنا اور کھانا سب کچھ ایک جیسا ہے ،۔( اولین دانشگاہ و آخرین پیامبر جلد ۵ ص ۵۵)

۲۔سفینة البحار ، جلد ۲ ص۱۹۰۔

چند قابل توجہ نکات :

اس آیت میں بھی چند پر معنی اور قابل توجہ نکات ہیں ۔

۱ ۔ شہد کس چیز سے بنتا ہے ؟

شہد کی مکھیاں عموماً شکر کا خاص مادہ جو پھولوں کی جڑوں اور ابتدائی حصوں میں ہوتا ہے اسے چوستی ہیں اور اسے جمع کرتی ہیں لیکن ان مکھیوں کی شناخت رکھنے والے کہتے ہیں کہ مکھیاں پھولوں کے ابتدائی حصوں میں موجود شکر سے ہی استفادہ نہیں کرتیں بلکہ بعض اوقات پھولوں کے تخمدانوں نیز پتوں اور پھلوں کے ابتدائی حصوں سے بھی استفادہ کرتی ہیں ۔ قرآن ان سب کو ”من کل الثمرات “(سب پھلوں سے ) تعبیر کرتا ہے ۔

ایک ماہر حیاتیات مسٹر مٹرلینگ اس سلسلے میں عجیب بات کہتا ہے کہ اس کی اس بات سے قرآنی تعبیر کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے وہ کہتا ہے :۔

آج اگر شہد کی مکھی ( پالتویا جنگلی جس قسم کی بھی ہو ) ختم ہو جائے تو ہمارے ایک لاکھ قسم کے نباتات ، پھول اور پھل نابود ہوجائیں اور کیا معلوم کہ اصلاً ہمارا تمدن ہی ختم ہو جائے ۔(اولین دانشگاہ و آخرین پیامبر جلد ۵ ص ۵۵) ۔

اس نے یہ اس لئے کہا ہے کیونکہ نر پھلوں کے دانے بکھیرنے میں ، مادہ پودوں کو حاملہ کرنے میں اور اس کے بعد پھلوں کی پر ورش میں شہد کی مکھیوں کا کر دار اس قدر عظیم ہے کہ بعض ماہرین کے نزدیک ان کا یہ کام شہد بنانے سے کہیں اہم ہے در حقیقت شہد کی مکھیاں جو کچھ ان سے کھاتی ہیں وہ بالقوہ طرح طرح کے پھل ہیں کہ جو ان کی مدد سے صورت پذیر ہوتے ہیں اس صورت میں دیکھا جائے تو ” کل الثمرات “ کی تعبیر کس قدر معنی خیزمعلوم ہوتی ہے ۔

۲ ۔ ہموار اور مطیع راستے

مکھیوں کا علم رکھنے والے اپنی تحقیقات کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ صبح کے وقت شہد کی مکھیوں کا ایک غول جو پھولوں کی پہچان پر مامور ہوتا ہے چھتے سے نکلتا ہے اور پھولوں سے بھری جگہوں کے بارے میں معلومات حاصل کرکے لوٹ آتا ہے اور دوسروں کو اطلاع فراہم کرتا ہے اس طرح سے ان کی سمت اور پروگرام کا تعین ہوتا ہے اور چھتے سے ان کا فاصلہ بھی دوسروں پر واضح ہو جاتا ہے ۔ شہد کی مکھیاں پھولوں کی جگہ تک پہنچنے کے لئے بعض اوقات اپنے راستے میں نشانیاں اور علامتیں مقرر کرتی ہیں وہ اپنے راستے میں مختلف قسم کی مہک پھیلا کر یا کسی اور طرح سے راستے کو معین کرتی ہیں اس کے باعث بہت کم امکان ہوتا ہے کہ کوئی مکھی راستے سے بھٹک جائے ۔

( فاسلکی سبل ربک ذللا ) “ ( اپنے رب کے راستوں پر چل پھر کہ جوتیرے لئے مطیع اور ہموار کئے گئے ہیں ) ۔

یہ جملہ گویا اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔

۳ ۔شہد کہاں بنتا ہے ؟

شاید ابھی تک بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ شہد کی مکھیوں کا طریق ِ کار یہ ہے کہ وہ پھولوں کا شیرہ چوس کر منہ میں جمع کرلیتی ہیں اور پھر چھتے میں سٹور کر دیتی ہیں حالانکہ معاملہ اس طرح نہیں ہے وہ پھولوں کا شیرہ اپنے خاص بدن کے بعض خانوں میں بھیج دیتی ہیں ان خانوں کو مکھیوں کا علم رکھنے والے ”پوٹ“ کہتے ہیں ۔ یہ جگہ در اصل ایک چھوٹے سے کیمیکل کار خانے کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں پھولوں کے رس میں مختلف تغییرات اور تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور آخر کا ریہ شہد کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور پھر مکھی اس تیار شدہ شہد کو اپنے بدن سے باہر نکالتی ہے ۔

یہ بات عجیب ہے کہ سورہ نحل مکی سورتوں میں سے ہے اور ہم جانتے ہیں کہ مکہ کے علاقے میں نہ پھل ہوتے ہیں نہ پھول اور ناہی شہد کی مکھیاں لیکن قرآن اس بارے میں اس عمد گی اور باریکی سے گفتگو کر رہا ہے اور انتہائی دلکش انداز میں شہد بنانے کی تفصیلات بیان کر رہا ہے ۔مثلاً:( یخرج من بطونها شراب مختلف الوانه )

شہد کی مکھیوں کے اندر سے مختلف رنگوں کا ایک مائع نکلتا ہے ۔

۴ ۔شہد کے مختلف رنگ

شہد کی مکھیاں جس رنگ کے پھل یاپھول پر بیٹھتی ہے اور اس کا رس چوستی ہے اس رنگ کے اعتبار سے شہد مختلف رنگوں کا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ شہد کبھی سیاہ قہووں کی طر ح کا، کبھی چاندی کی سی سفیدی کے ساتھ ، کبھی بے رنگ ، کبھی زرد ، کبھی شفاف، کبھی سیاہ ، کبھی گولڈن ، کبھی کھجور کی مانند یہاں تک کہ کبھی سیاہی مائل ہوتا ہے ۔

رنگوں کا یہ تنوع شہد کے سر چشموں کے تنوع کو ظاہر کرنے کے علاوہ ذوق کے تنوع کا بھی غماز ہوتا ہے کیونکہ آج کے زمانے میں ثابت ہو چکا ہے کہ غذا کا رنگ انسان کی بھوک اور خواہش کو تحریک کرنے میں بہت ہی موثر ہوتا ہے ۔ متقدمین بھی گویا اس نفسیاتی مسئلے کو پہچانتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی غذاؤں کو زعفران ، ہلدی اور دوسرے رنگوں سے رنگین کرتے تھے تاکہ دیکھنے میں مہمانوں کو غذا اچھی لگے اور انھیں کھانے کے لئے تشویق پید اہو ۔ غذا شناسی کی کتب میں اس ضمن میں بہت بحث کی گئی ہے کہ جسے تفسیر کی موجودہ حدود کے پیش نظر تمام تر نقل کرنا مناسب نہیں ہے ۔

۵ ۔ شہد ، غیر معمولی شفا بخش مادہ ہے

ہم جانتے ہیں کہ نباتات اور پھلوں میں حیات بخش دوائیں مخفی ہیں ۔ آج بھی ہماری وسیع معلومات ضری بوٹیوں اور نباتات میں دواؤں کی موجود صلاحیت کے اعتبار سے کچھ بھی نہیں ۔

یہ بات لائق توجہ ہے کہ سائنس داں تجربے کے ذریعے اس حقیقت تک پہنچے ہیں کہ شہد کی مکھیاں شہد بناتے وقت اس مہارے سے کام کرتی ہیں کہ بناتات میں موجوددواؤں کے خواص پوری طرح شہد میں منقتل کردیتی ہیں جو اس میں محفوظ ہو جاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شہداس زمین کے بہت سے نباتات اور پھولوں کے معالجاتی خواص کا زندہ ثبوت ہے ۔

سائنس دانوں اور ڈاکٹروں نے شہد کے بہت زیادہ خواص بیان کئے ہیں ۔ ان خواص کا تعلق علاج معالجے سے بھی ہے ، احتیاطی تدابیر سے بھی حصولِ قوت سے بھی ۔

شہد بہت جلد خون میں جذب ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ قوت بخش ہے اور خون باننے میں نہایت مؤثر ہے ۔

شہد معدے اور انتڑیوں میں بد بوپیدا ہونے سے بچا تا ہے ۔

شہد خشکی اور قبض کو دور کرتا ہے ۔

شہد بے خوابی کے علاج کے لئے بہت مؤثر ہے ۔ ( بشرطیکہ تھوڑی مقدار میں پی جائے ورنہ اس کا زیادہ استعمال نیند کوکم کردیتا ہے ) ۔

شہد تھکان کو دور کرنے اور پٹھوں کے کھینچاؤدور کرنے کے لئے اثر آفرین ہے ۔

شہدحاملہ عورتوں کا دیا جائے تو ان کے بچوں کے اعصاب قوی کردیتا ہے ۔

شہد خون کے کیلیشیم میں اضافہ کردیتا ہے ۔

شہد کمزور ہاضمے کے لئے مفید ہے خصوصاًجن کے پیٹ میں ہوا بھر جاتی ہو اطباء ان کے لئے اسے تجویز کرتے ہیں ۔

شہد بدن کی تعمیر میں جلدی سے اپنا کر دار ادا کرنا شروع کردیتا ہے لہٰذا فوری طور پر انر جی پیدا کرتا ہے اور قوٰی پر اثر انداز ہو تا ہے ۔

شہددل کو تقویت بخشتا ہے ۔

شہد جگر اور پھیپھڑوں کے علاج کے لئے ایک اچھی دوا ہے ۔

شہد جراثیم کش خاصیت کی بناء پر اسہال میں مبتلا افراد کے لئے مفید ہے ۔

شہدمعدے اور انٹر یوں کے زخم کے علاج کے لئے مؤثر عالم شمار ہوتا ہے ۔

شہد گھٹیا ( Rlieumatism )پٹھوں کی بیماریوں اور عضلات کے نمو میں نقص کے علاج کے لئے مفید دوا ہے ۔

شہد کھانسی کے علاج کے لئے مؤثر ہے اور آواز کو صاف کرتا ہے ۔

خلاصہ یہ کہ شہد دوا کے طور پر اس قدر خواص رکھتا ہے کہ اس مختصر سی کتاب میں بیان نہیں کئے جاسکتے ۔

علاوہ ازیں شہد سے جلد کی لطافت ، چہرے کی خوبصورتی ، طول، عمر کے لئے پر تاثیر دوائیں بنتی ہیں ۔

شہد منہ زبان اور آنکھ کے ورم دور کرنے کے لئے فائدہ مند دوائیں تیار کرنے کے کام آتا ہے ۔

شہد جَلد تھک جانے کے علاج کے لئے بننے والی دواؤں میں استعمال ہوتا ہے ۔

شہد میں کئی ایک معدنیات اور وٹامن پائے جاتے ہیں مثلا ً۔

آئرن ( Iron )،فاسفورس( Phosphorous ) پوٹاشیم( Potasium ) ،

میگنیشم( Magnesium )سیسہ( Lead )،تانبا( Copper )سلفر( Sulpher )،نکّل( Nickel ) ، کانسی ( Bronze )، سوڈیم( Sodium ) وغیرہ اس میں موجود ہیں ۔

ان کے علاوہ اس میں گوند ، پولن ، لکٹک ایسڈ( Lactic )،فارمک ایسڈ( Formic ) سڑک ایسڈ( Citric )ٹارٹارک ایسڈ( Tartaric Acid ) اور معطر روغن بھی اس میں موجود ہوتا ہے ۔

اس میں چھ طرح کے وٹامن پائے جاتے ہیں ۔ اے ، بی ، سی ، ڈی ، کے اور ای ۔ بعض خیال ہے کہ ( پی۔ بی۔ وٹامن)بھی شہد میں ہوتے ہیں ۔

شہد انسانوں کے علاج کے لئے بھی مفید ہے صحت کے استحکام کے لئے بھی اور خوبصورتی میں بھی خدمت گذار ہے ۔

اسلامی روایات میں بھی دوا کی حیثیت سے شہد کی کاصیت کا بہت ذکر آیا ہے اس سلسلے میں حضرت امام علی علیہ السلام امام صادق علیہ السلام اور دیگر معصومین ﷼ سے منقول ہے کہ انھوں نے فرمایا :

ما استشفی الناس بمثل العسل

لوگوں کے لئے شہد کی سی شفا کسی بھی چیز میں نہیں ہے ۔( وسائل الشیعہ جلد ۱۷ ص ۷۳ تا ص ۷۵) ۔

یہ بھی حدیث ہے ۔لم یستشف مریض بمثل شربة عسل

کسی مریض کے لئے شربت ِ شہد سے بڑھ کر کوئی چیز شفا بخش نہیں ہے ۔ ( وسائل الشیعہ جلد ۱۷ ص ۷۳ تا ص ۷۵)

کئی ایک روایات میں در د دل کے علاج کے لئے شہد کو تجویز کیا گیا ہے رسول اکرم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :۔من شرب العسل فی کل شهر مرة یرید ماجاء به القراٰن عوفی من سبع و سبعین داء

جو شخص مہینہ میں کم از کم ایک مرتبہ شربت شہد پئے اور خدا سے اس شفاء کا تقاضا کرے کہ جس کا قرآن میں ذکر ہے و ہ اسے ستر قسم کی بیماریوں سے شفا بخشے گا ۔(۱)

یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہر حکم کے استثنائی مواقع بھی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ چند ایک ایسے مواقع بھی ہیں کہ جن میں شہد کے استعمال سے منع کیا گیا ہے ۔

____________________

۱۔ ۔سفینة البحار ، جلد ۲ ص۱۹۰۔

۶ ۔ ”للناس“ یعنی انسانوں کے لئے

یہ بات جاذب ِ توجہ ہے کہ مکھیوں کا علم رکھنے والے کہتے ہیں کہ شہد کی مکھی کی بھوک ختم کرنے کے لئے کافی ہے کہ وہ دو یا تین پھلوں کو چوس لے جبکہ وہ ایک گھنٹے میں اوسطاً اٹھائی سوپھولوں پر بیٹھتی ہے اور کئی کلو میٹر سفر کرتی ہے اور اپنی مختصر سی عمر میں ڈھیر سا را شہد جمع کرلیتی ہے ۔

بہر حال اس کی یہ تگ و تازی اور کار کر دگی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ صرف اپنے لئے کام نہیں کرتی بلکہ جیسا کہ قرآن کہتا ہے ”للناس“ ( سب انسانوں کے ) کرتی ہے ۔

۷ ۔ شہد کے بارے میں دیگر اہم امور

موجودہ زمانے میں یہ نکتہ ثابت ہو چکا ہے کہ شہد کبھی بھی خراب نہیں ہوتا یعنی یہ ایسی غذا ہے جو ہمیشہ تازہ اور زندہ دستیاب رہتی ہے یہاں تک کہ اس میں موجود وتامن کبھی ختم نہیں ہوتے ۔ ماہرین کے نزدیک اس کیوجہ اس پوٹا شیم کی فراواں موجودگی ہے ۔ کہ جو جراثوموں کو پید انہیں ہونے دیتی ۔علاوہ ازیں ایسا مواد بھی موجود ہے جو بد بو پید اہونے سے روکتا ہے مثلا ً اس میں فارمک اسیڈ( Formic Acid ) موجود ہے لہٰذا شہد میں جراثیم کی پیدائش روکنے کی خاصیت بھی موجود ہے اور جراثیم کشی کی بھی ۔ قدیم مصری اسی بات کو جانتے ہوئے اپنے مردوں کو مومیانے کے لئے اسے استعمال کرتے تھے ۔

شہد کو معدنیات سے بنے ہوئے برتنوں میں ذخیرہ نہیں کرنا چاہئیے یہ وہ بات ہے جو ماہرین بتاتے ہیں اور جاذب ِ نظر یہ ہے کہ قرآن شہد کی مکھیوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے :۔

( من الجبال بیوتاً و من الشجر ومما یعرشون )

یعنی شہد کی مکھیوں کے گھر صرف پتھروں اور لکڑیوں میں ہوتے ہیں ۔

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ شہد کو بطور دوا استعمال کرنے کے لئے اور صحت کے لئے اس کے خواص سے فائدہ اٹھانے کےلئے ضروری ہے کہ اسے ہر گز حرارت نہ پہنچائی جائے اور دوسری غذاؤں میں پکا کر اس سے استفادہ نہ کیا جائے ۔

بعض کا نظر یہ ہے کہ قرآن نے شہد کے لئے جو” شراب“ ( پینے کی چیز ) کی تعبیر استعمال کی ہے یہ اسی نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ اسے پیا جائے ۔

نیز یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ شہد کی مکھی کا ڈنگ بھی معالجانہ خاصیت رکھتا ہے البتہ شہد کی مکھی اپنے لطیف مزاج کے باعث کسی کوڈنگ نہیں مارتی ۔ یہ تو ہم ہیں جو اسے ڈنگ مارنے پر ابھارتے ہیں ۔

ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ شہد کی مکھی بد بو سے پریشان ہو جاتی ہے اگر کوئی شہد حاصل کرنے والا بد دار ہاتھ ، بد بو دار لباس کے ساتھ چھتے کے قریب جائے تو اسے ضرور ڈستی ہے اگر اس نے پہلے کسی چھتے میں ہاتھ ڈالا ہو اور غیر چھتے کی بد اس کے ہاتھ میں لگی ہو تو دوسرے چھتے میں ہاتھ ڈالنے پر مکھیاں اس پر حملہ کر دیں گی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پہلے وہ اپنے ہاتھ کو اچھی طرح دھو لے ۔

البتہ شہد کی مکھی جب ڈنگ مارتی ہے تو خود مر جاتی ہے اس بناء پر ڈنگ مارنا اس کی ایک طرح کی کود کشی ہے ۔

مختلف بیماریوں کے علاج کے لئے شہد کی مکھی کے ڈنگ سے استفادہ کیا جاتا ہے مثلا ًگھٹیا( Rheumatism )، ملیر یا ، درد اعصاب وغیرہ ۔ البتہ اس کے لئے اطباء کی راہنمائی کے مطابق استفادہ کرنا چاہئیے ورنہ شہد کی مکھی کا ڈنگ خطر ناک بھی ہو سکتا ہے چند ایک مکھیاں ڈس لیں تو عموماً قابل بر داشت ہوتا ہے لیکن دوسوسے لیکر تین مکھیاں ڈس لیں تو بہت زہر پیدا ہو جاتا ہے اور دل کی تکلیف کا باعث بنتا ہے اور گار پانچ سے کی تعداد تک مکھیاں ڈس لیں تو عمل تنفس مفلوج ہو جانے اور موت کا احتمال بھی ہو تا ہے ۔

۸ ۔ شہد کی مکھیوں کی عجیب و غریب زندگی

گزشتہ زمانے میں کم موجودہ زمانے میں بہت سے علماء و محققین کے پیہم مطالعات سے یہ بات ثابت ہو ئی ہے کہ شہد کی مکھیوں کی زندگی بہت ہی منظم ہوتی ہے ان کے ہاں برے سلیقے سے کام تقسیم ہوتا ہے بہت دقیق نظام کے تحت ذمہ داریاں بانٹی ہو ئی ہوتی ہیں ۔

شہد کی مکھیوں کا شہر بہت زیادہ پاک و صاف او رمتحرک زندگی سے بھرپور ہوتا ہے ان کا شہر عام شہروں سے بہت مختلف ہوتا ہے یہ روشن اور درخشاں تمدن کا حامل ہوتا ہے ۔ اس شہر میں خلاف ورزی کرنے والے او رکاہل افراد بہت کم نظر آتے ہیں اگر کبھی چھتے کے باہر مکھیاں سستی اور کاہلی ک امظاہرہ کرتے ہوئے بد بو دار اور نقصان دہ پھولوں کا رس چوس آئیں تو چھتے کے در وازے پر ہی اس سے باز پرس ہوتی ہے ۔ پھر ایک کھلی عدالت لگتی ہے اور اس مقدمے کے ضمن میں اس کے قتل کا حکم صادر ہوتا ہے ۔

بلجیم کے ماہر حیاتیات مڑلینگ نے شہد کی مکھیوں کے بارے میں بہت زیادہ مطالعہ اورتحقیق کی ہے اس نے ان کے شہر پر حکم فرماعجیب وغریب نظام کا گہرا مطالعہ کیا ہے ، وہ لکھتا ہے :

ملکہ( یازیادہ صحیح الفاظ میں چھتہ کی ماں ) مکھیوں کے شہر کی ایسے حکمران نہیں جیسا ہم تصور کرتے ہیں بلکہ وہ بھی اس شہر کے دیگر باسیوں کی طرح یہاں کے نظام اور قوانین کی فرمانبردار ہوتی ہے ۔

ہمیں یہ علم نہیں کہ یہ نظام اور قوانین کہاں پر وضع ہوتے ہیں ہمیں انتظار ہے کہ شاید کسی دن اس بات کا ہمیں سراغ مل جائے اور ان قوانین کے بنانے والے کو ہم پہچان لیں لیکن فی الحال ہم اس قانون ساز کو ” چھتے کی روح “ کے نام سے پکار تے ہیں ۔

ہمیں معلوم نہیں کہ ”چھتے کی روح “ کہاں ہے اور شہر میں رہنے والے کس فرد میں حلول کئے ہوئے ہیں لیکن یہ ہم جانتے ہیں کہ چھتے کی روح پرندوں کے مزاج اور طبیعت سے مشابہ نہیں ہے نیز ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ چھتے کی روح شہد کی مکھی کا اندھا ارادہ اور عادت نہیں ہے ”چھتے کی روح “ شہر میں رہنے والے ہر فرد کو اس کی استعداد کے مطابق ذمہ داری سونپتی ہے اور ہر کسی کا کسی نہ کسی کام پر لگا تی ہے ۔ ” چھتے کی روح “ ماہر تعمیرات اور کاریگر مکھیوں کو حکم دیتی ہے کہ وہ گھر بنائیں ”چھتے کی روح “ معین دن اور معین لحظے میں شہر کے تمام باسیوں کو حکم دیتی ہے کہ شہر سے ہجرت کر جائیں اور نیا مسکن تلاش کرنے کے لئے اپنے آپ کو ان دیکھے حوادث اور مشقتوں کے حوالے کردیں ۔ہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ شہد کے قوانین جو ”چھتے کی روح“ کے ذریعے وضع ہوئے ہیں کس پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے ہیں کہ جس نے انھیں جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور کون ہے جو ایک معین دن چل پڑنے کا حکم صادر کرتا ہے ۔

جی ہاں !چھتے میں مہاجرت کے یہ مقدمات اطاعت ِ خدا میں فراہم ہوتے ہیں ۔

وہی خدا کہ جس کے ہاتھ میں شہد کی مکھی کی تقدیر ہے ۔ ( کتاب زنبور عسل ( شہد کی مکھی ) تالیف مٹرلینگ ص ۳۵ ۔ ۳۶) ۔

مذکورہ دانش مند اپنی فکر و نظر میں موجود مکتب مادیت کے پرانے خیالات کی وجہ سے اس مسئلے پر اگر ابہام کے ساتھ گفتگو کرتا ہے تو ہماری نظر تو قرآن کی راہنمائی پر ہے ہم تو یہ بات اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ یہ آوازیں کہا سے آتی ہیں یہ نظام کہا ں تربیت پاتا ہے ، یہ پروگرام کہاں بنتا ہے انھیں منظم کرنے والا کون ہے اور کون ان کے لئے حکم جاری کرتا ہے ۔ قرآن کتنی خوبصورت تعبیر کہتا ہے ۔اوحی ربک الیٰ النحل

تیرے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی و الہام کیا

کیا اس سے زیادہ رسا ، جامع ، منہ بولتی او رناطق تعبیر کا تصور ہوسکتا ہے ۔

شہد کی مکھیوں کے بارے میں جو کچھ بیان نہیں کیا جا سکا اگر چہ وہ بیان کئے جانے والے کی نسبت بہت زیادہ ہے لیکن ہماری طرز تفسیر اجازت نہیں دیتی کہ اس موضوع پر اس سے زیادہ گفتگو کریں ۔(۱)

۱ ۔ اولین دانش گاہ و آخرین پیامبر

۲ ۔زنبور عسل۔ تالیف مٹرلینگ

۳ ۔ شگفت ہائے ۔ عالم حیوانات۔

( غیر ایرانی مصنفین کی کتابوں کے فارسی ترجمے سے استفادہ کیا گیا ہے وغیرہ اور ترجمے ہی کا نام یہا ں دیا گیا ہے ۔(مترجم)

____________________

۱۔ مندر جہ بالا مباحث میں شہد کی مکھیوں اور شہد کے خواص کے بارے میں ان کتابوں سے استفادہ کیاگیا ہے ۔